نتائج تلاش

  1. وہاب اعجاز خان

    ارکان اپنے منصوبے یہاں پوسٹ کریں

    جواب پہلے ماوراء سے معذرت کہ میری وجہ سے ان کی محنت غارت گئی دراصل بات یہ ہے کہ کتاب کو ٹائپ کرنےسے پہلے ذہن میں کوئی تجویز شدہ نام نہیں ہوتا بس میرے ذہن میں اچانک آتا ہے اور اسی وقت ٹائپ شروع کر دیتا ہوں۔ لیکن خیر اب تو مستقبل کے منصوبوں کے بارے میں بتانا پڑےگا۔ ابھی جب کتابوں پر نظر پڑی تو ان...
  2. وہاب اعجاز خان

    تلخیاں (ساحر لدھیانوی)

    نور جہاں کے مزار پر پہلوئے شاہ میں دخترِ جمہور کی قبر کتنے گم گشتہ فسانوں کاپتہ دیتی ہے کتنے خوں ریز حقائق سے اٹھاتی ہے نقاب کتنی کچلی ہوئی جانوں کا پتہ دیتی ہے کیسے مغرور شہنشاہوں کی تسکیں کے لیے سالہا سال حسیناوں کے بازار لگے کیسے بہکی ہوئی نظروں کے تعیش کے لیے سرخ محلوں میں جواں...
  3. وہاب اعجاز خان

    تلخیاں (ساحر لدھیانوی)

    اشعار نفس کے لوچ میں رم ہی نہیں کچھ اور بھی ہے حیات، ساغر سم ہی نہیں کچھ اور بھی ہے تری نگاہ مرے غم کی پاسدار سہی مری نگاہ میں غم ہی نہیں کچھ اور بھی ہے مری ندیم! محبت کی رفعتوں سے نہ گر بلند بامِ حرم ہی نہیں کچھ اور بھی ہے یہ اجتناب ہے عکسِ شعورِمحبوبی یہ احتیاطِ ستم ہی نہیں کچھ...
  4. وہاب اعجاز خان

    تلخیاں (ساحر لدھیانوی)

    پھر وہی کنجِ قفس چند لمحوں کے لیے شور اٹھا ڈوب گیا کہنہ زنجیرِ غلامی کی گرہ کٹ نہ سکی پھر وہی سیلِ بلا، وہی دامِ امواج ناخداوں میں سفینے کی جگہ بٹ نہ سکی ٹوٹتے دیکھ کے دیرینہ تعلطل کا فسوں نبضِِ امیدِ وطن ابھری، مگر ڈوب گئی پیشواوں کی نگاہوں میں تذبذب پاکر ٹوٹتی رات کے سائے میں سحر...
  5. وہاب اعجاز خان

    تلخیاں (ساحر لدھیانوی)

    خود کشی سے پہلے اُف یہ بے درد سیاہی یہ ہوا کے جھونکے کس کو معلوم ہے اس شب کی سحر ہو کہ نہ ہو اک نظر تیرے دریچے کی طرف دیکھ تو لوں ڈوبتی آنکھوں میں پھر تابِ نظر ہو کہ نہ ہو ابھی روشن ہیں ترے گرم شبستانوں کے دیے نیلگوں پردوں سے چھنتی ہیں شعائیں اب تک اجنبی بانہوں کے حلقے میں لچکتی ہوں...
  6. وہاب اعجاز خان

    تلخیاں (ساحر لدھیانوی)

    میں نہیں تو کیا؟ مرے لیے یہ تکلف، یہ دکھ ،یہ حسرت کیوں مری نگاہِ طلب، آخری نگاہ نہ تھی حیات زارِ جہاں کی طویل راہوں میں ہزار دیدہء حیراں فسوں بکھیریں گے ہزار چشم تمنا بنے گی دستِ سوال نکل کے خلوتِ غم سے نظر اُٹھاو تو وہی شفق ہے، وہی ضو ہے، میں نہیں تو کیا؟ مرے بغیر بھی تم کامیابِ...
  7. وہاب اعجاز خان

    تلخیاں (ساحر لدھیانوی)

    میرے گیت تمہارے ہیں اب تک میرے گیتوں میں امید بھی تھی پسپائی بھی موت کے قدموں کی آہٹ بھی جیون کی انگڑائی بھی مستقبل کی کرنیں بھی تھیں حال کی بوجھل ظلمت بھی طوفانوں کا شور بھی تھا اور خوابوں کی شہنائی بھی آج سے میں اپنے گیتوں میں آتش پارے بھر دوں گا مدہم، لچکیلی تانوں میں جیوٹ دھارے...
  8. وہاب اعجاز خان

    تلخیاں (ساحر لدھیانوی)

    احساسِ کامراں افقِ روس سے بھوٹی ہے نئی صبح کی ضو شب کا تاریک جگر چاک ہوا جاتا ہے تیرگی جتنا سنبھلنے کے لیے رکتی ہے سرخ سیل اور بھی بے باک ہوا جاتا ہے سامراج اپنے وسیلوں پہ بھروسہ نہ کرے کہنہ زنجیروں کی جھنکاریں نہیں رہ سکتیں جذبہ نصرتِ جمہور کی بڑھتی رو میں ملک اور قوم کی دیواریں...
  9. وہاب اعجاز خان

    تلخیاں (ساحر لدھیانوی)

    ایک شام قمقموں کی زہر اگلتی روشنی سنگ دل پر ہول دیواروں کے سائے آہنی بت، دیو پیکر اجنبی چیختی چنگھاڑتی خونیں سرائے روح الجھی جارہی ہے کیا کروں چار جانب ارتعاشِ رنگ و نور چار جانب اجنبی بانہوں کے جال چار جانب خوں فشاں پرچم بلند میں، مری غیرت، مرا دستِ سوال زندگی شرما رہی ہے کیا...
  10. وہاب اعجاز خان

    تلخیاں (ساحر لدھیانوی)

    ایک تصویرِ رنگ میں نے جس وقت تجھے پہلے پہل دیکھا تھا تو جوانی کا کوئی خواب نظرآئی تھی حسن کا نغمہء جاوید ہوئی تھی معلوم عشق کا جذبہء بے تاب نظر آئی تھی اے طرب زار جوانی کی پریشان تتلی تو بھی اک بوئے گرفتار ہے معلوم نہ تھا تیرے جلووں میں بہاریں نظر آتی تھیں مجھے تو ستمِ خوردہء ادبار...
  11. وہاب اعجاز خان

    تلخیاں (ساحر لدھیانوی)

    اسی دوراہے پر اب نہ اُن اونچے مکانوں میں قدم رکھوں گا میں نے اک بار یہ پہلے بھی قسم کھائی تھی اپنی نادار محبت کی شکستوں کے طفیل زندگی پہلے بھی شرمائی تھی جھنجلائی تھی اوریہ عہد کیا تھا کہ بہ ایں حال تباہ اب کبھی پیار بھرے گیت نہیں گاوں گا کسی چلمن نے پکارا بھی تو بڑھ جاوں گا کوئی...
  12. وہاب اعجاز خان

    تلخیاں (ساحر لدھیانوی)

    ہراس تیرے ہونٹوں پہ تبسم کی وہ ہلکی سی لکیر میرے تخیل میں رہ رہ کے جھلک اٹھتی ہے یوں اچانک ترے عارض کا خیال آتا ہے جیسے ظلمت میں کوئی شمع بھڑک اٹھتی ہے تیرے پیراہنِ رنگیں کی جنوں خیز مہک خواب بن بن کے مرے ذہن میں لہراتی ہے رات کی سرد خموشی میں ہر اک جھونکے سے ترے انفاس، ترے جسم کی...
  13. وہاب اعجاز خان

    تلخیاں (ساحر لدھیانوی)

    کل اور آج کل بھی بوندیں برسی تھیں کل بھی بادل چھائے تھے ۔۔۔اور کوی نے سوچا تھا بادل یہ آکاش کے سپنے ان زلفوں کے سائے ہیں دوش ہوا پر میخانے ہی میخانے گھر آئے ہیں رت بدلے گی پھول کھلیں گے جھونکے مدھ برسائیں گے اُجلے اُجلے کھیتوں میں رنگین آنچل لہرائیں گے چرواہے بنسی کی دھن سے گیت فضا...
  14. وہاب اعجاز خان

    تلخیاں (ساحر لدھیانوی)

    فرار اپنے ماضی کے تصور سے ہراساں ہوں میں اپنے گزرے ہوئے ایام سے نفرت ہے مجھے اپنی بے کار تمناوں پہ شرمندہ ہوں اپنی بے سود امیدوں پہ ندامت ہے مجھے میرے ماضی کو اندھیروں میں دبا رہنے دو مرا ماضی مری ذلت کے سوا کچھ بھی نہیں میری امیدوں کا حاصل مری کاوش کاصلہ ایک بے نام اذیت کے سوا کچھ...
  15. وہاب اعجاز خان

    تلخیاں (ساحر لدھیانوی)

    کبھی کبھی کبھی کبھی مرے دل میں خیال آتا ہے کہ زندگی تری زلفوں کی نرم چھاوں میں گزرنے پاتی تو شاداب ہو بھی سکتی تھی یہ تیرگی جو مری زیست کا مقدر ہے تری نظر کی شعاعوں میں کھو بھی سکتی تھی عجب نہ تھا کہ میں بے گانہء الم ہو کر ترے جمال کی رعنائیوں میں کھو رہتا ترا گداز بدن، تیری...
  16. وہاب اعجاز خان

    تلخیاں (ساحر لدھیانوی)

    فن کار میں نے جو گیت ترے پیار کی خاطر لکھے آج ان گیتوں کو بازار میں لے آیا ہوں آج دکان پہ نیلام اٹھے گا اُن کا تو نے جن گیتوں پہ رکھی تھی محبت کی اساس آج چاندی کے ترازو میں تلے گی ہر چیز میرے افکار، مری شاعری ، میرا احساس جو تری ذات سے منسوب تھے ان گیتوں کو مفلسی جنس بنانے پہ اتر...
  17. وہاب اعجاز خان

    تلخیاں (ساحر لدھیانوی)

    بنگال جہانِ کہنہ کے مفلوج فلسفہ دانو! نظامِ نو کے تقاضے سوال کرتے ہیں یہ شاہراہیں اسی واسطے بنی تھیں کیا؟ کہ ان پہ دیس کی جنتا سسک سسک کے مرے زمیں نے کیا اسی کارن اناج اگلا تھا کہ نسل آدم و حوا بلک بلک کے مرے مِلیں اسی لیے ریشم کے ڈھیر بنتی ہیں کہ دختران وطن تار تار کو ترسیں...
  18. وہاب اعجاز خان

    تلخیاں (ساحر لدھیانوی)

    شعاعِ فردا تیرہ و تار فضاوں میں ستم خوردہ بشر اور کچھ دیر اجالے کے لیے ترسے گا اور کچھ دیر اٹھے گا دل گیتی سے دھواں اور کچھ دیر فضاوں سے لہو برسے گا اور پھر احمریں ہونٹوں کے تبسم کی طرح رات کے چاک سے پھوٹے گی شعاعوں کی لکیر اور جمہور کے بیدار تعاون کے طفیل ختم ہو جائے گی انساں کے لہو...
  19. وہاب اعجاز خان

    تلخیاں (ساحر لدھیانوی)

    شہزادے ذہن میں عظمتِ اجداد کے قصے لے کر اپنے تاریک گھروندوں کے خلا میں کھو جاو مرمریں خوابوں کی پریوں سے لپٹ کر سو جاو ابر پاروں پہ چلو، چاند ستاروں میں اڑو یہی اجداد سے ورثہ میں ملا ہے تم کو دور مغرب کی فضاوں میں دہکتی ہوئی آگ اہلِ سرمایہ کی آویزش باہم نہ سہی جنگِ سرمایہ ومحنت ہی سہی...
  20. وہاب اعجاز خان

    تلخیاں (ساحر لدھیانوی)

    بلاوا دیکھو افق کے ضوسے جھانک رہا ہے سرخ سویرا جاگو اے مزدور کسانو! اُٹھو اے مظلوم انسانو! دھرتی کے ان داتا تم ہو جگ کے پران ودھاتا تم ہو دھنیوں کی خوشحالی تم ہو کھیتوں کی ہریالی تم ہو اونچے محل بنائے تم نے شاہی تخت سجائے تم نے ہیرے لعل نکالے تم نے نیزے بھالے ڈھالے تم نے ہر بگیا کے...
Top