یہ مسئلہ اس جرنیل کا نہیں بلکہ اس کے بابا جی ضیاء الحق کے زمانہ سے چین کی بانسری بجنا بند ہو چکی ہے۔ مسئلے کے بنیاد میں جانے سے خطرہ ہے کہ ”فرقہ واریت“ کا لیبل لگ جائیگا، اسلئے افسوس تک محدود رہینگے۔
آج دی نیوز میں خبر ہے کہ جیونیوز جلد ہی کسی دوسرے ملک سے جاری کر دیا جائیگا۔ یہ ملک ممکنہ طور پر افغانستان، تھائی لینڈ، سنگاپور، ملائشیا یا آسٹریلیا ہو سکتے ہیں۔
جو بھی ہے، ہم ان ہاتھیوں کی لڑائی کے درمیان روندی جانے والی گھاس ہیں۔ کون ٹھیک ہے کون غلط اب تک ہونے والی مختلف دھاگوں میں بحث سے آپکو اندازہ ہو چکا ہو گا۔ نہ طالبان ولی اللہ ہیں اور نہ ہی افواج پاکستان فرشتے۔ جب یہ دونوں اپنے مفادات کا سوچ کر جنگ لڑ رہے ہیں تو ہم عام لوگ کیوں نہ اپنا مفاد...
آرمی ایکٹ میں ترمیم کی گئی ہے جس کی رو سے اب کسی بھی عام شخص پر فوجی عدالت میں مقدمہ چلایا جا سکے گا۔ فوج پر حملوں میں ملوث لوگوں پر فوجی عدالتوں میں مقدمات چلیں گے۔ یہ قانون خاص کر ایجنسیوں کے غائب کردہ لوگوں کے کیسوں سے نمٹنے کیلیے ہے۔ آرڈیننس کل جاری ہونے کا امکان ہے۔
ظفری آپکی بات اکثریت کے دلوں کی آواز ہے لیکن سرکاری اور کچھ ہمارے ”حقیقت پسند“ دوست اس سارے بکھیڑے کو چیف جسٹس کی سیاست کی لالچ سے تعبیر کرینگے۔ آپ کی بات بالکل ٹھیک ہے، یہی سیاست کا خلاء ہی اب تک مشرفی حکومت کے برقرار رہنے کا جواز ہے۔ اگر کوئی حقیقی سیاسی لیڈر ہوتا تو آج دس بیس ہزار لوگ احتجاج...