نتائج تلاش

  1. ابن رضا

    درِ توبہ وہ در ہے جو ہمیشہ ہی کھُلا ہے

    برائے اصلاح اساتذہ کی نذر درِ توبہ وہ دَر ہے جو ہمیشہ ہی کھُلا ہے تعلق یہ نہ بندے کا خدا سے ٹوٹتا ہے کوئی جو گم شدہ اپنا اچانک مل گیا ہو خدا تائب کو یوں چشمِ کرم سے دیکھتا ہے ترازو کے جو اِک پلڑے میں عصیاں ہوں ہزاروں تو دوجے میں ندامت کا اِک آنسو ہی بڑا ہے دِلا دیتی ہے رِندوں کو رہائی نُطقِ...
  2. ابن رضا

    آو مل کر یہ بات سوچیں!!!

    نظم برائے اصلاح اساتذہ کی نذر آو مل کر یہ بات سوچیں جس ڈگر پر ہیں گامزن ہم راستہ کیا یہی ہے اپنا؟ ہم نے اب تک جو طے کیا ہے اِس سفر نے ہماری منزل دُور کی یا قریب کی ہے؟ اِس سفر کی صعوبتوں نے اور دُشوار، راستوں نے آبلے ہی دیے ہیں یا پھر حق شناسی کے لطف سے بھی دلوں کو آشنا کیا ہے؟ سوچنے کی...
  3. ابن رضا

    ایک قطعہ

    ابر آلود سی نگاہیں ہیں رہتا ہے اِک غبار سینے میں زیست میں جو کبھی میسر تھا وہ مزا اب نہیں ہے جینے میں تقطیع یہاں ملاحظہ کریں۔ ابنِ رضا کی تُک بندیاں ٹیگ: اساتذہ کرام جناب الف عین صاحب و جناب محمد یعقوب آسی صاحب و برادران
  4. ابن رضا

    سر زمینِ مقدس

    میری سر زمیں ہے یہ میں اِسی کی بیٹی ہوں اِس زمیں کے سینے پر میں نے آنکھ کھولی تھی بے پناہ چاہت سے دس برس تلک مجھ کو اس نے پالا پوسا تھا اپنے پاؤں پر میں نے اس پہ چلنا سیکھا تھا خوشبو اس کی مٹی کی ہے رچی بسی مجھ میں اب بھی اس زمیں نے ہی مجھ کو اپنے سینے میں سب سے ہے چھپا رکھا درد سے بچا رکھا...
  5. ابن رضا

    زندگی غم کا تانا بانا ہے

    برائے اصلاح درد کا ہم سے دوستانہ ہے زندگی غم کا تانا بانا ہے اپنا ہنسنا تو اِک بہانہ ہے مُسکراہٹ سے غم چھپانا ہے چار و ناچار کھا رہے ہیں ہم جو یہاں اپنا آب و دانہ ہے عمر گزری ہے سوچتے جس کو اب اُسی شخص کو بُھلانا ہے غم مِٹانے کی ایک سعی سہی اب مقدر تو آزمانا ہے اُس کے پہلو میں بیٹھ کر...
  6. ابن رضا

    دردِ دل لا دوا ، نہ گر ہوتا

    برائے اصلاح ہر مداوا، نہ بے اثر ہوتا دردِ دل لا دوا ، نہ گر ہوتا وہ اگر میرا چارہ گر ہوتا یوں نہیں مجھ سے بے خبر ہوتا سرِ صحرا مری رہی حسرت کبھی گلشن سے بھی گزر ہوتا یاد رکھتا جو راستہ اپنا آج میں یوں نہ در بدر ہوتا! عمر بھر ساتھ جو میرے چلتا کاش ایسا بھی ہم سفر ہوتا! سب یہاں...
  7. ابن رضا

    ارضِ وطن پہ خوں کے، دریا بہا رہے ہیں

    برائے اصلاح و اظہارِ افسوس بر حالیہ خون ریزی ارضِ وطن پہ خُوں کے، دریا بہا رہے ہیں یہ کون ہیں درندے اور کیوں ستا رہے ہیں معصوم اور نہتّے لوگوں پہ وار کر کے کیا سسکیوں سے دیکھو ، وہ حَظ اُٹھا رہے ہیں پل پل بکھر رہے ہیں ، اعضا بشر کے ہر جا نعشوں کے دے کے تحفے ، وہ کیا جتا رہے ہیں ایسے کبھی...
  8. ابن رضا

    کیا کروں دل کا اے ستم پرور!!!

    برائے اصلاح کیا کروں دل کا اے ستم پرور یہ بہر طور ہے فدا تجھ پر دیکھنا سوچنا ، پرکھ لینا شیوۂ دلبری نہیں دلبر مجھ سے جو ، بن پڑا ، کروں گا میں اور تجھ سے جو ہو سکے تو کر خوب سے خوب تر کی تاب نہیں رُک گیا تجھ پہ جستجو کا سفر ڈر نشیب و فراز سے کیسا کہ بُرا وقت ہے مرا رہبر وصل ناپید...
  9. ابن رضا

    وقت پھر سے مجھے آزمانے لگا

    برائے اصلاح پہلے تو دردِ دل، دل جلانے لگا جوں جوں بڑھتا گیا لطف آنے لگا وقت پھر سے مجھے آزمانے لگا حادثے نت نئے ڈھونڈ لانے لگا وہ جسے ناز تھا دوستی پر مری وقت بدلا ذرا ، خار کھانے لگا وہ فقط راحتوں کا خریدار تھا بھید تب یہ کھلا جب وہ جانے لگا غم سے لڑتے ہوئےاس نے پایا مجھے تو ستم اور...
  10. ابن رضا

    جو نگاہِ ناز میں تھا جچا ، ترا بانک پن وہ کِدھر گیا

    برائے اصلاح دلِ مضطرب تجھے کیا ہُوا ، ہے اداس اور بجھا بجھا جو نگاہِ ناز میں تھا جچا ، ترا بانک پن وہ کِدھر گیا تری خامشی میں سوال ہے، ترا ضبط بھی تو کمال ہے ہُوا کچھ توَ ہے کہ نِڈھال ہے، ترا ساز، سوز میں کیوں ڈھلا یوں گھڑی گھڑی نہ ستا مجھے، جو بُرا لگا ہے بتا مجھے کوئی زخم ہے تو دِکھا مجھے،...
  11. ابن رضا

    اجنبی تھی ڈگر ، اجنبی ہم سفر

    نظم برائے اصلاح اجنبی تھی ڈگر ، اجنبی ہم سفر شوقِ آوارگی نے کیا دربدر راستوں میں کہیں کھو گئی زندگی نت نئے حادثوں میں کٹی زندگی بے حِسی دیکھ کر رو پڑی زندگی دم بخود ہی رہی ہر گھڑی زندگی کچھ سہارا ہی دیتا سرِ غم سرا کوئی اپنا ہمارا بھی ہوتا اگر اجنبی تھی ڈگر ، اجنبی ہم سفر شوقِ آوارگی نے...
  12. ابن رضا

    محبت کے شراروں سے تو دامن ہی جلا بیٹھے

    برائے اصلاح جنوں کے دام میں آ کر ، خرد کی سب بھلا بیٹھے محبت کے شراروں سے تو دامن ہی جلا بیٹھے طبیعت سے تری ہم آشنا تھے اِک زمانے سے مگر پھر بھی نجانے کیوں تجھی سے دل لگا بیٹھے نہیں کچھ اور پایا ہے سوائے یاس و حسرت کے محبت ہم جو کر بیٹھے ، قرارِ دل گنوا بیٹھے اندھیروں میں جو رہتے ہیں...
  13. ابن رضا

    تو جو ساتھ ہے میرے!!

    نظم برائے اصلاح حاضرِ خدمت ہے تو جو ساتھ ہے میرے!! تو جو پاس ہے میرے!! زندگی کے رنگوں میں اک عجیب شوخی ہے دل میں اک سکوں سا ہے آنکھ میں نمی سی ہے وصل کے حسیں لمحے زندگی کی رونق ہیں دل کا آسماں جاناں نور سے منور ہے زندگی میں رعنائی اس سبب ہےدر آئی تو جو ساتھ ہے میرے تو جو پاس ہے میرے سوچ کے...
  14. ابن رضا

    کس قدر پست ہے پیمانۂ افکار یہاں

    غزل برائے اصلاح حاضرِ خدمت ہے کس قدر پست ہے پیمانۂ افکار یہاں نفسا نفسی کا نظر آتا ہے پرچار یہاں علم و دانش کی امانت تھی جنہیں سونپی گئی وہ تو بن بیٹھےہیں اب مالک و مختار یہاں تنگیِ دل کے اندھیروں میں گرفتار ہیں سب کہ سوا اپنے سبھی لگتے ہیں بے کار یہاں درسِ مہرو وفا جب سے ہے بھلایا ہم نے...
  15. ابن رضا

    درپن جو نہیں ہوں میں ، تو پتھر بھی نہیں ہوں

    تازہ غزل برائے اصلاح حاضرِ خدمت ہے بھُولے نہیں ہو مجھ کو ، تو اَزبر بھی نہیں ہوں بدلے ہوئے تیور پہ میں ششدر بھی نہیں ہوں دل توڑنے والے تجھےاتنی تو خبر ہو درپن جو نہیں ہوں میں ، تو پتھر بھی نہیں ہوں اظہارِ محبت ہی تو سب کچھ نہیں ہوتا ظاہر جو نہیں تجھ پہ تو مضمَر بھی نہیں ہوں مانا کہ...
  16. ابن رضا

    مصیبت در حقیقت شامتِ اعمال ہوتی ہے

    تازہ کلام برائے اصلاح حاضرِ خدمت ہے مصیبت در حقیقت شامتِ اعمال ہوتی ہے یہ خود اپنے ہی ہاتھوں سے بچھایا جال ہوتی ہے اگر راحت میسر ہو تو انعامِ خدا جانو برائی کو برا سمجھو بھلائی کو بھلا جانو ثمود و عاد کا ہو یا وہ ھود و نوح کا قصہ مٹا دے بے سبب بستی خدا کرتا نہیں ایسا جبیں اپنی جھکا لے جو...
  17. ابن رضا

    محبت در حقیقت حق شناسی سے عبارت ہے

    تازہ کلام برائے اصلاح حاضرِ خدمت ہے خدا کے پارسا بندے خدا سے دل لگاتے ہیں گناہوں کی کثافت سے سدا دامن بچاتے ہیں محبت در حقیقت حق شناسی سے عبارت ہے ہدایت یافتہ دل ہی اسے پہچان پاتے ہیں کہاں تک بھاگ سکتے ہیں اجل سے بھاگنے والے یہ ہر دم ساتھ رہتی ہے جہاں بھی لوگ جاتے ہیں خطا کرتے ہوئے کیوں کر...
  18. ابن رضا

    احوال ِغریباں ہے کہ سوزِ رواں ہے

    تازہ غزل برائے اصلاح حاضرِ خدمت ہے احوال ِغریباں ہے یا سوزِ رواں ہے صد حیف کہ خون ارزاں اور آب گراں ہے جائے تو کہاں جائے نادارِ زمانہ یاں پیشِ نظر سب کے اب سُود و زِیاں ہے نایا ب ہوئے جب سے ایثار و محبت ہر آنکھ میں آنسو ہیں ہر لب پہ فُغاں ہے مفقود تھی پہلے ہی کردار کی عظمت گفتار کا غازی...
  19. ابن رضا

    زندگی درد کی آغوش میں سونا چاہے

    تازہ غزل برائے اصلاح حاضرِ خدمت ہے زندگی درد کی آغوش میں سونا چاہے اشکِ یادِ وفا مژگاں میں پرونا چاہے ایک میں ہوں کہ شب و روز تجھے ہی مانگوں ایک تُو ہے کہ کسی اور کا ہونا چاہے یوں رُکی ماہ پہ جا کر نِگَہِ شوق مری جیسے بچہ کوئی من بھایا کھلونا چاہے لاکھ سمجھا کے اِسے دیکھ لیا میں نے مگر...
Top