قدم قدم پہ نئے سے نئے حِصار میں تھا
دلِ امیر، محبت کے کاروبار میں تھا
نگاہ، لمحہ بہ لمحہ لرز لرز جاتی
عجیب رُعب تِرے حُسنِ بیقرار میں تھا
تمام عمر بِتا دی تیرے تعاقب میں
پلٹ کے دیکھا تو اِک شہر انتظار میں تھا
تِرا خیال بھی جُھلسا ہے، آتشِ غم سے
یہ راہرو بھی میرے ساتھ رہگزار میں تھا
مِری بساط...