• آواز دے کہاں ہے، دنیا مری جواں ہے * آباد میرے دل میں، امید کا جہاں ہے، میڈم کی پر سوز آواز اور اس گیت کی خوبصورت شاعری
    الشفاء
    الشفاء
    اللہ عزوجل آپ کو اور آپ کے گھر والوں کو صحت و عافیت سے رکھے۔ آمین۔۔۔
    جاسمن
    جاسمن
    اللہ بھابھی کو صحتِ کاملہ و عاجلہ عطا فرمائے۔ آسانیاں دے۔ رزق حلال میں برکتیں دے۔ نوکری میں آسانیاں دے۔ اللہ افسروں کے دلوں میں رحم ڈالے۔ ہر پریشانی دور کرے۔ خوشیاں عطا فرمائے۔ آمین!
    ثم آمین!
    احمد محمد
    احمد محمد
    بھیا! آپ جیسی ہر دل عزیز شخصیات درخواست نہ بھی کریں تو دعاؤں میں شامل رہتی ہیں۔ اللّٰہ عزوجل تاابد آپ کو شاد و آباد رکھیں، آمین۔
    نئے سفر نامے کے لیے جو راہیں کھولیں ان پر سب سے پہلے بیگم اختر ریاض الدین نے قدم رکھا۔ اردو ادب میں خواتین لکھاریوں کی شروع ہی سے کمی رہی ہے۔ سفر نامے میں یہ تعداد قلیل ہے۔ نازلی رفیہ سلطانہ بیگم کا سفر نامہ”سر یورپ“ اوررفیہ فیضی ” کا زمانہ تحصیل “ ایسے ابتدائی سفر نامے ہیں جو ان خطوط پر مشتمل ہیں جو انھوں نے سفر کے دوران اپنے عزیزوں کو لکھے۔
    سات سمندر پار“
    بیگم اختر ریاض الدین
    لبیک (سفر نامہ)
    ممتاز مفتی
    بلاشبہ لبیک ایک تخلیقی کارنامہ ہے اس کے مطالعے کے لیے عقیدت بھرا دل اور بصیرت درکار ہے۔ لبیک میں فنی لحاظ سے ایک سفر نامے،خوبیاں یکجا ہیں۔
    اور مفتی صاحب کا اسلوب پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہے۔ کئی حصوں میں چھوٹے مختصر اور چونکا دینے والے جملے قاری کو تادیر غور و فکر کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔ ان کا عقیدہ اتنا پختہ، عقیدت اتنی بھر پور اور قلم اتنا رواں ہے کہ لبیک ایک دائمی تخلیق بن گئی ہے۔
    امام ابن جریر طبری اس آیت کے معنی میں لکھتے ہیں کہ سنو اللہ کے دین کے مددگاروں کو آخرت میں اللہ کے عتاب اور عذاب کا خوف نہیں ہوگا۔ کیونکہ اللہ ان سے راضی ہوگیا اور اللہ نے ان کو اپنے عتاب اور عذاب سے محفوظ رکھا اور نہ ان کو دنیا کے فوت ہو جانے کا غم ہوگا۔
    قیامت والے دن جب نفسانفسی کا عالم ہوگا، ہر شخص کو اپنی فکر ہوگی۔
    مشکوٰة شريف، 3 / 12 )
    آپا
    ممتاز مفتی
    اف کتنی سردی ہے۔‘‘ پھر اٹھ کر آپا کے قریب چولہے کے سامنے جا بیٹھے اور ان سلگتے ہوئے اوپلوں سے آگ سینکنے لگے۔ بولے، ’’ممانی سچ کہتی تھیں کہ ان جھلسے ہوئے اوپلوں میں آگ دبی ہوتی ہے۔ اوپر سے نہیں دکھائی دیتی۔ کیوں سجدے؟‘‘ آپا پرے سرکنے لگی تو چھن سی آواز آئی جیسے کسی دبی ہوئی چنگاری پر پانی کی بوند پڑی ہو۔
    راجندر سنگھ بیدی
    دس منٹ بارش میں سے اقتباس
    ووگن ویلیا کی بیل کو جب تند ہوا ہلاتی ہے، تو یوں دکھائی دیتا ہے، گویا کوئی حسینہ سرد ہونے کے بعد لبِ بام اپنے چمکیلے سیاہ بالوں کو زور سے نچوڑ کر دونوں ہاتھوں سے چھانٹتی ہے۔ راٹا کا بے عقل، کاہل، پاگل لڑکا جھونپڑی میں سویا پڑا ہے۔ بجھتے ہوئے چولھے کے پاس، گرم ہو کر۔ اگر وہ جاگتا ہوتا تو مشکی گھوڑی پکڑنے کے لیے اس کی ماں کو میرا مرہونِ منّت نہ ہونا
    جینے کے اعتبار میں گزرے وبا کے دن
    مرنے کے انتظار میں گزرے وبا کے د ن
    لوگوں نے خود کو خوف میں محصور کرلیا
    خودساختہ حصار میں گزرے وبا کے دن
    ایمان و اعتقاد پہ ٹوٹیں قیامتیں
    کس درجہ انتشار میں گزرے وبا کے دن
    راتیں وبا کی گزریں دنوں کی تلاش میں
    راتوں کے انتظار میں گزرے وبا کے دن
    وہ جن کے یادیار میں گزرے وبا کے دن
    آنکھیں کھلیں تو نشّہ عقیدت کا تھا ہرن
    یہ نظم، فاطمہ مہرو کی ہے، جو کہ نوجوان نسل میں خوش گوار اضافا ہے، نظم کے چند ٹکڑے ملاحظہ ہوں
    “موت ہمیں
    گلیوں گلیوں
    ڈھونڈتی رہے گی
    اور ہم اِس سے آنکھ مچولی کھیلتے
    بہار کے بچے کُھچے لمحے
    گزارنے کی سعی میں
    ایک دوسرے کو لمبی فون کالز پر
    بوسوں کے تبادلوں کے منصوبے
    ترتیب دیتے رہیں گے”
    “پھر بھی ہم اپنے محبوب کو
    بسترِ مرگ پر
    جنونی خطوط لکھنے سے باز نہ آئیں گے
    ہم چاہیں گے
    رحمن فارس کا شعر، سوا دو منٹ کی ہنسی کے کچھ نہیں
    “‏سب کچھ جو چمکدار ہو ،سونا نہیں ہوتا
    ‏ہر چھینک کا مطلب تو ، کرونا نہیں ہوتا”
    اس وائرس کے جو اثرات مرتب ہو رہے ہیں
    محمل ابراہیم
    محمل ابراہیم
    کورونا نے اس قدر متاثر کیا ہے
    غزل په غزل اہلِ فن کہ رہے ہیں
  • لوڈ ہو رہا ہے…
  • لوڈ ہو رہا ہے…
  • لوڈ ہو رہا ہے…
Top