یہ نظم، فاطمہ مہرو کی ہے، جو کہ نوجوان نسل میں خوش گوار اضافا ہے، نظم کے چند ٹکڑے ملاحظہ ہوں
“موت ہمیں
گلیوں گلیوں
ڈھونڈتی رہے گی
اور ہم اِس سے آنکھ مچولی کھیلتے
بہار کے بچے کُھچے لمحے
گزارنے کی سعی میں
ایک دوسرے کو لمبی فون کالز پر
بوسوں کے تبادلوں کے منصوبے
ترتیب دیتے رہیں گے”
“پھر بھی ہم اپنے محبوب کو
بسترِ مرگ پر
جنونی خطوط لکھنے سے باز نہ آئیں گے
ہم چاہیں گے
“موت ہمیں
گلیوں گلیوں
ڈھونڈتی رہے گی
اور ہم اِس سے آنکھ مچولی کھیلتے
بہار کے بچے کُھچے لمحے
گزارنے کی سعی میں
ایک دوسرے کو لمبی فون کالز پر
بوسوں کے تبادلوں کے منصوبے
ترتیب دیتے رہیں گے”
“پھر بھی ہم اپنے محبوب کو
بسترِ مرگ پر
جنونی خطوط لکھنے سے باز نہ آئیں گے
ہم چاہیں گے