مریم افتخار
محفلین
گئے دنوں کی بات ہے، میں سوچا کرتی تھی کہ تعارف کے نام پر اکثراوقات وہ معلومات جاننا مقصود ہوا کرتا ہے جو زیادہ تر انسانوں نے اپنے لیے خود نہیں چنی ہوتیں۔ زندگی کے ان میں سے اکثر فیصلے بہت پہلے طے ہو چکے ہوتے ہیں۔ وہ حالات اور ان کے نتیجے میں آنے والی کنڈیشنننگ کسی انسان کو بنانے یا بگاڑنے میں کردار تو خوب ادا کرتے ہیں مگر اس کی سمت کا تعین نہیں کر پاتے۔ سمت ہر روح کے اندر کسی تہہ میں پنہاں ہے کہ وہ اپنے حالات سے تعمیر یا تخریب کی کن جہتوں کو دریافت کر پائے گی اسی لیے دیکھنے میں آتا ہے کہ ایک ہی والدین کی اولاد یا ایک ہی استاد کے شاگرد متعدد بار مخالف سمتوں میں نکل پڑتے ہیں۔ ان میں سے بعض کو لوٹنا نصیب ہو جاتا ہے مگر بہتوں کو اپنی منزل کا ایقان لے ڈوبتا ہے۔ حالانکہ وہ شخص جس نےایک بار منزل کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر دیکھ لیا ہو، یہ راز دریافت کر لیتا ہے کہ منزلیں کبھی بھی ویسی نہیں ہوا کرتیں جیسی سفر کے ارادے سے قبل چشم تصور میں سمائی ہوتی ہیں۔ منزل میں بھی وہی دونوں پہلو ہوا کرتے ہیں جن سے کسی انسان کا مفر ممکن نہیں۔ پڑھتے ہیں تو مزید پڑھیے کہ یہ سبھی سیاق و سباق کسی ایسی تحریر کا نہیں جس میں ہم زندگی کا اپنے حصے کا راز آپ سب کے لیے فاش کرنے جا رہے ہوں۔ بلکہ یہ تحریر عرفان سعید صاحب کی شروع کردہ ایک حالیہ لڑی کی بائی پروڈکٹ ہے۔ انہوں نے کہا اور ہم نے مانا کہ محفل میں تعارف ایک ہی بار پیش کیا جائے یہ ضروری تو نہیں۔ مزید برآں ہم اس بات کا بھی اضافہ کیے دیتے ہیں کہ محفل کی کوئی رول بک یا گنیز بک آف محفل ریکارڈ وغیرہ بھی تاحال منظر عام پر نہ آئیں۔ تو کیوں نہ اپنا تعارف مکرر پیش کیا جائے؟ تاہم یہ تعارف وہ معلومات نہیں ہوگی جس کا اوپر ذکر ہے کیونکہ ایسی معلومات ہمارے گزشتہ تعارف و انٹرویو میں یا انٹرنیٹ پر مزید پروفیشنل پروفائلز میں بآسانی مل ہی جائے گی۔ اگرچہ یہ میری ہیں، مگر میں ان کی نہیں!
میں ایک خام اور عام انسان ہوں جس کو آپ کبھی اگر ملیں گے تو خامیاں نوٹ نہ کرنی پڑیں گی کیونکہ یہ ڈسپلے پر موجود رہیں گی، اور نہ ہی میرے عام ہونے پر آپ کو کوئی شبہ ہو گا کیونکہ عام انسان دوسرے انسانوں کے لیے دستیاب رہا کرتا ہے۔ نہ میں کم یاب ہوں نہ نایاب اور نہ ہی ایسی کوئی خواہش پال رکھی ہے۔ میں بس ایک ایسا انسان ہوں جو سنجیدگی سے سوچنے بیٹھتا ہے تو لگتا ہے کہ زندگی نے اپنے گھر دعوت تو دی تھی، مگر مہمان نوازی کرنا بھول گئی۔ ہم ہی اس کے گھر آ کر جھاڑ پونجھ کر رہے ہیں اور ہم ہی اس کا گھر چلائے رکھنے کے لیے چولہا چوکا سنبھال رہے ہیں۔ چلو اچھا ہے، اگلے گھر جانے کی پریکٹس ہو جائے گی! (یہی کہتے ہیں نا سبھی لڑکیوں کو؟)۔ چلو زندگی میں بھی اگلے گھر کی تیاری کرتے ہیں۔ مگر لڑکیوں کا کیا مذکور؟ میں تو ایک انسان ہوں! ہاں، بھئی انسان تو ہوں مگر معاشرے کے انسان مجھے ایک انسان کے طور پر بہت کم دیکھتے ہیں۔ لڑکی ہونے کا امتیازی سلوک ہمیشہ ساتھ ساتھ ہی رہا ہے۔ مگر میں نے اپنے اندر کا انسانی ذہن مرنے نہیں دیا کہ ذہن کی کوئی جینڈر آج تک دیکھی نہ سنی۔ انسان اکثر اپنے خواب کی اونچائی یا خوف کی گہرائی سے پہچانا جاتا ہے، کیونکہ یہی چیزیں اس کی قوت فیصلہ کو سمت دیتی ہیں۔ آئیے، آج دیکھیے مجھ سا انسان جس نے وہ خواب دیکھ رکھے ہیں جن کو دیکھنے کی "اجازت" فقط لڑکوں کوملتی ہے مگر میرے خوف؟ ہائے! میرے خوف! کیا آپ میرے تعارف میں میرے خوف جانیں گے؟ میرے سبھی خوف لڑکیوں والے ہیں۔ زندگی تو ہر انسان کی ہی موت کی امانت ہے، میں جس دن بھی مر جاؤں میں اسی راستے پر ہوں جس پہ مرنا پسند کروں گی اور منزلیں آ آ کر ملتی اور پیچھے چھوٹتی رہیں یا سرے سے پردہ اوڑھے رکھیں مجھے کچھ ایسی پرواہ نہیں، کیونکہ میرے ہاتھ میں فقط کوشش اور قصد تھے، سو کر لیے۔ موت کا خوف نہیں کہ صحیح دھج سے مقتل میں جانا عین جوانمردی ہے۔ مگر میرے اندر کی عورت؟ ہر روز صرف یہی نہیں کہ کوئی کام یا بات کرتے ہوئے بلکہ فقط ایگزسٹ کرتے ہوئے بھی یہ سوچتی ہے کہ خدا جانے کب کس نام پر مار دی جائے اور مارنے والے اسے عین حق سمجھیں کہ میں اسی سلوک کی مستحق تھی کیونکہ میں عورت تھی۔ میں وہ لڑکی ہوں جس کے باپ، بھائیوں اور شوہر نے اسے تمام عمر اپنی ہتھیلیوں پر اٹھا کر رکھا اور اپنے پر بھی مجھے اڑنے کے لیے دیے کہ میں ایمپاورڈ وومن کہلاؤں۔ اگر مجھ جیسی لڑکی یہ محسوس کرتی ہے تو خدا جانے باقی لڑکیوں کا حال کیا ہوگا۔
اپنے تعارف میں مزید اپنی آپ بیتی لکھنے کی تاب تو نہیں اور نہ ہی اب ممتاز مفتی بننے کا یارا ہے۔ کسی دور میں بہت دل تھا کہ تحت الشعور کے ان موضوعات پر کلام کروں جہاں زندگی کسی نوزائیدہ بچے کی طرح خون میں لت پت چیختی کرلاتی ہے مگر جلد ہی ایک بار پھر باور ہوا کہ میں عورت ہوں اور ممتاز مفتی ٹھہرا مرد! وہ لکھ سکتا تھا، میں نہ لکھ سکوں گی کہ میرے پاس کوئی مستقل ٹھکانہ بھی نہیں جسے ساری دنیا سے بغاوت کر کے اپنا سکوں اور ایک نئے بہانے سے بحیثیت عورت موت کے گھاٹ نہ اتار دی جاؤں۔ خیر، موت کا ذکر بھی اس لیے کر رہی ہوں کیونکہ اس سے بھی برے ہر روز ہونے والے واقعات کا ذکر کرنے کی تاب نہیں۔ ہاں، مگر میں نے بہت قریب سے ان عورتوں کو دیکھا ہے۔ ان میں سے ایک کو جنازے سے قبل غسل میت بھی فراہم کیا ہے۔ یہ دیکھیں کہ میں نے اپنے خواب ترک نہیں کیے اور اپنی آواز نہیں دبائی۔ آپ مجھے جو بھی سمجھتے رہیے اور زمانہ مجھ پر جیسے بھی حالات کی بوچھاڑ کرتا رہے، میں وہ انسان ہوں جو یہ سمجھتا ہے کہ شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے۔ زمانے میں زیادہ تر جو نظریات و روایات ہیں وہ فقط مرد کا پرسپیکٹو ہیں۔ مجھے انتظار ہے اس دن کا جب عورتیں اپنی کہانیاں خود سنائیں گی۔ تاہم اے عورتو! تم تب بھی ممتاز مفتی نہ بننا، وگرنہ مونچھوں کو تاؤ دینے والے متعدد ہاتھ دوبارہ اٹھ نہ پاویں گے۔ بس اتنا کرنا کہ تمہارے بعد آنے والی وہ بچیاں جن کے آسمان کو چھونے کے خواب ہوں، وہ خوف میں نہ جیتی رہیں اور ہراس میں نہ گھٹتی رہیں۔ تم اٹھو اور اپنے آپ کو آگے بڑھ کر خود ڈیفائن کرو۔۔۔اس سے پہلے کہ لوگ تمہاری خاموشی کو اپنی مرضی کے معنی پہناتے پہناتے مر جاویں اور نئے آنے والوں میں یہ ورثہ منتقل کرنے کی عادت بھی دہراتے جاویں!
میں ایک خام اور عام انسان ہوں جس کو آپ کبھی اگر ملیں گے تو خامیاں نوٹ نہ کرنی پڑیں گی کیونکہ یہ ڈسپلے پر موجود رہیں گی، اور نہ ہی میرے عام ہونے پر آپ کو کوئی شبہ ہو گا کیونکہ عام انسان دوسرے انسانوں کے لیے دستیاب رہا کرتا ہے۔ نہ میں کم یاب ہوں نہ نایاب اور نہ ہی ایسی کوئی خواہش پال رکھی ہے۔ میں بس ایک ایسا انسان ہوں جو سنجیدگی سے سوچنے بیٹھتا ہے تو لگتا ہے کہ زندگی نے اپنے گھر دعوت تو دی تھی، مگر مہمان نوازی کرنا بھول گئی۔ ہم ہی اس کے گھر آ کر جھاڑ پونجھ کر رہے ہیں اور ہم ہی اس کا گھر چلائے رکھنے کے لیے چولہا چوکا سنبھال رہے ہیں۔ چلو اچھا ہے، اگلے گھر جانے کی پریکٹس ہو جائے گی! (یہی کہتے ہیں نا سبھی لڑکیوں کو؟)۔ چلو زندگی میں بھی اگلے گھر کی تیاری کرتے ہیں۔ مگر لڑکیوں کا کیا مذکور؟ میں تو ایک انسان ہوں! ہاں، بھئی انسان تو ہوں مگر معاشرے کے انسان مجھے ایک انسان کے طور پر بہت کم دیکھتے ہیں۔ لڑکی ہونے کا امتیازی سلوک ہمیشہ ساتھ ساتھ ہی رہا ہے۔ مگر میں نے اپنے اندر کا انسانی ذہن مرنے نہیں دیا کہ ذہن کی کوئی جینڈر آج تک دیکھی نہ سنی۔ انسان اکثر اپنے خواب کی اونچائی یا خوف کی گہرائی سے پہچانا جاتا ہے، کیونکہ یہی چیزیں اس کی قوت فیصلہ کو سمت دیتی ہیں۔ آئیے، آج دیکھیے مجھ سا انسان جس نے وہ خواب دیکھ رکھے ہیں جن کو دیکھنے کی "اجازت" فقط لڑکوں کوملتی ہے مگر میرے خوف؟ ہائے! میرے خوف! کیا آپ میرے تعارف میں میرے خوف جانیں گے؟ میرے سبھی خوف لڑکیوں والے ہیں۔ زندگی تو ہر انسان کی ہی موت کی امانت ہے، میں جس دن بھی مر جاؤں میں اسی راستے پر ہوں جس پہ مرنا پسند کروں گی اور منزلیں آ آ کر ملتی اور پیچھے چھوٹتی رہیں یا سرے سے پردہ اوڑھے رکھیں مجھے کچھ ایسی پرواہ نہیں، کیونکہ میرے ہاتھ میں فقط کوشش اور قصد تھے، سو کر لیے۔ موت کا خوف نہیں کہ صحیح دھج سے مقتل میں جانا عین جوانمردی ہے۔ مگر میرے اندر کی عورت؟ ہر روز صرف یہی نہیں کہ کوئی کام یا بات کرتے ہوئے بلکہ فقط ایگزسٹ کرتے ہوئے بھی یہ سوچتی ہے کہ خدا جانے کب کس نام پر مار دی جائے اور مارنے والے اسے عین حق سمجھیں کہ میں اسی سلوک کی مستحق تھی کیونکہ میں عورت تھی۔ میں وہ لڑکی ہوں جس کے باپ، بھائیوں اور شوہر نے اسے تمام عمر اپنی ہتھیلیوں پر اٹھا کر رکھا اور اپنے پر بھی مجھے اڑنے کے لیے دیے کہ میں ایمپاورڈ وومن کہلاؤں۔ اگر مجھ جیسی لڑکی یہ محسوس کرتی ہے تو خدا جانے باقی لڑکیوں کا حال کیا ہوگا۔
اپنے تعارف میں مزید اپنی آپ بیتی لکھنے کی تاب تو نہیں اور نہ ہی اب ممتاز مفتی بننے کا یارا ہے۔ کسی دور میں بہت دل تھا کہ تحت الشعور کے ان موضوعات پر کلام کروں جہاں زندگی کسی نوزائیدہ بچے کی طرح خون میں لت پت چیختی کرلاتی ہے مگر جلد ہی ایک بار پھر باور ہوا کہ میں عورت ہوں اور ممتاز مفتی ٹھہرا مرد! وہ لکھ سکتا تھا، میں نہ لکھ سکوں گی کہ میرے پاس کوئی مستقل ٹھکانہ بھی نہیں جسے ساری دنیا سے بغاوت کر کے اپنا سکوں اور ایک نئے بہانے سے بحیثیت عورت موت کے گھاٹ نہ اتار دی جاؤں۔ خیر، موت کا ذکر بھی اس لیے کر رہی ہوں کیونکہ اس سے بھی برے ہر روز ہونے والے واقعات کا ذکر کرنے کی تاب نہیں۔ ہاں، مگر میں نے بہت قریب سے ان عورتوں کو دیکھا ہے۔ ان میں سے ایک کو جنازے سے قبل غسل میت بھی فراہم کیا ہے۔ یہ دیکھیں کہ میں نے اپنے خواب ترک نہیں کیے اور اپنی آواز نہیں دبائی۔ آپ مجھے جو بھی سمجھتے رہیے اور زمانہ مجھ پر جیسے بھی حالات کی بوچھاڑ کرتا رہے، میں وہ انسان ہوں جو یہ سمجھتا ہے کہ شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے۔ زمانے میں زیادہ تر جو نظریات و روایات ہیں وہ فقط مرد کا پرسپیکٹو ہیں۔ مجھے انتظار ہے اس دن کا جب عورتیں اپنی کہانیاں خود سنائیں گی۔ تاہم اے عورتو! تم تب بھی ممتاز مفتی نہ بننا، وگرنہ مونچھوں کو تاؤ دینے والے متعدد ہاتھ دوبارہ اٹھ نہ پاویں گے۔ بس اتنا کرنا کہ تمہارے بعد آنے والی وہ بچیاں جن کے آسمان کو چھونے کے خواب ہوں، وہ خوف میں نہ جیتی رہیں اور ہراس میں نہ گھٹتی رہیں۔ تم اٹھو اور اپنے آپ کو آگے بڑھ کر خود ڈیفائن کرو۔۔۔اس سے پہلے کہ لوگ تمہاری خاموشی کو اپنی مرضی کے معنی پہناتے پہناتے مر جاویں اور نئے آنے والوں میں یہ ورثہ منتقل کرنے کی عادت بھی دہراتے جاویں!
آخری تدوین: