ویسے کرنا تو مجھے یہ تھا کہ اپنے حصے کے قصے پر قلم کشائی کرنی تھی۔۔۔۔۔ مگر راہ میں دیکھا کہ احمد بھائی بھی آپ کی محبت کے سبب بسمل کی طرح تڑپ رہے ہیں۔۔۔ اور شدید زخمی ہیں۔۔
ویسے مظلوم شاعر ہیں ۔ کئی دفعہ تشریح مافیا کے ہتھے چڑھ چکے ہیں ۔
دنیا کا کوئی شاعر مظلوم نہیں ہوتا۔۔۔۔ دو مصرعوں میں ایسے ایسے قصے سمیٹنا۔۔۔۔۔ خود احمد بھائی فرماتے ہیں
کہ پھر آبیاری نخل سخن نہیں ہوتی
دل حزیں جو پس چشم تر نہیں ملتا
وغیرہ وغیرہ
صنفِ نازک کا احترام کوئی ان سے سیکھے۔ آئے دن اتوار بازار میں جیب کُتریوں سے اول الذکر کٹوا آتے ہیں لیکن مجال ہے کہ کبھی ثانی الذکر کی شکایت کی ہو۔
واللہ۔۔۔۔ کیا سچی بات کی ہے۔۔۔۔ کئی ایک تو خود احمد بھائی نے کہا۔۔۔ واللہ میری جیب حاضر ہے۔۔۔ دیکھنے والے کیا کیا تماشے منسوب کرتے ہیں ان کی اس معصومانہ حرکت پر۔۔۔
حد یہ ہے کہ شادی ہوئے کئی سال ہوگئے لیکن ابھی تک صنفِ نازک کے احترام سے تائب نہیں ہوئے۔ کوئی خاتون ملنے آ جائیں تو انہیں جہاں تک چھوڑ سکتے ہیں وہاں تک چھوڑنے بھی جاتے ہیں۔ اگر کسی وجہ سے خود نہ جا سکیں تو مشایعت کا یہ کام اپنی نظروں سے لیتے ہیں۔ پرانی تہذیب کے آدمی ہیں ۔
ایک کو چھوڑنے جاتے ہیں۔۔۔ کہ دوسری آجاتی ہے۔۔۔ رات کہیں دو بجے گھر پہنچتے ہیں۔۔۔
جیسا کہ عام دستور ہے آج کل ہر ملک میں عوام اور ٹی وی والوں کی سہولت کے لیے کچھ دہشت گرد ضرور ہوتے ہیں تاکہ ٹی وی والوں کو صبح سے شام تک مسلسل نشریات جاری رکھنے میں کوئی دقت نہ ہو اور عوام بھی عربی ترکی ڈرامے دیکھ دیکھ کر بور نہ ہوجائیں۔ انہی دہشت گرد حضرات کی برکت اور حرکت سے اہلِ حکومت و سیاست کو بھی خفیہ ہاتھ اور بیرونی سازش والے بیانات دینے میں آسانی رہتی ہے۔ اگر دہشت گرد حضرات نہ ہوں تو اس قسم کے بیانات کا کبھی موقع نہ آئے اور عوام الناس پر یہ اہم اور خفیہ راز کبھی افشا نہ ہوں اور وہ بے خبر ہی رہیں۔ اس تمہید سے بتانا یہ مقصود ہے کہ ملکِ سخن میں دہشت گردی کا یہ کارِ خیر ذوالقاعدہ ۔۔۔۔
موجودہ دور پراکسی وار کا دور ہے۔۔۔۔ جس کا پروپیگنڈا جتنا تگڑا۔۔۔ا تنا وہ عمدہ اور اعلی۔۔۔۔ اور پھر مظلومین۔۔۔ ان کا کیا۔۔۔ نہ اظہار بیاں پر دسترس۔۔۔ نہ اشرافیہ تک آواز پہنچانے کا ہنر۔۔۔۔ سو کبھی کچھ کہلائے کبھی کچھ۔۔۔۔
یہ واحد محفلین ہیں جو محفل میں ہمیشہ مسلح ہو کر آتے ہیں۔
حالانکہ میں خود کو نہتا سمجھتا ہوں ہمیشہ۔۔۔ ہوہوہوہوہہوہو
آئے دن اپنے بظاہر سادہ سے بے ضرر جملوں میں دستی بم اور ٹائم بم پرو کر کسی لڑی میں رکھ دیتے ہیں
دیکھیے قارئین دیکھیے۔۔۔ آخر سادگی اور ہمارا بےضرر پن چھپائے نہ چھپا۔۔۔ حقیقت وہ جو سب بیان کریں۔۔۔۔
بالخصوص غزلوں پر نظرِ گرم فرماتے ہیں۔
ہوہوہوہوہوہو۔۔۔۔ میں اس کو حقیقت پسندانہ نظر کہتا ہوں۔۔۔ ظاہر ہے وہ سب کو راس نہیں آتی۔۔۔ ہوہوہوہوہوہو
آپ واہ واہ اور سبحان اللہ سبحان اللہ کا ورد کرتے ہوئے لڑی میں داخل ہوتے ہیں اور اس سے پہلے کہ بھولا بھالا شاعر ہوشیار ہوسکے آپ ابتدائی کارروائی کے طور پر دو تین اشعار پر داد کے پھول نچھاور کرتے ہیں۔ابھی شاعر خوشی خوشی یہ پھول سمیٹنے میں مصروف ہی ہوتا ہے کہ آپ غزل کے کچھ اشعار کی گہرائی اور گیرائی کا اس خوبی سے تذکرہ فرماتے ہیں کہ شاعر پھولے نہیں سماتا۔ ان ضروری انتظامات سے فارغ ہونے کے بعد جب دیکھتے ہیں کہ شاعر خود اپنے ہی اشعار کے مشکل اور پیچیدہ ہونے کا قائل ہوچکا ہے تو پھر آپ ایک سادہ سے فقرے میں قارئین کی آسانی کے لیے تشریح کی مخلصانہ پیشکش فرماتے ہیں۔ داد کے نشے میں مدہوش بلکہ نیم بیہوش معصوم اور سادہ لوح شاعر کو کیا پتہ کہ اس بے ضرر فقرے میں باردوی سرنگ دبی ہوئی ہے۔ چنانچہ جہاں اس بیچارے نے اس پر اپناقلم رکھا وہیں ۔۔۔۔۔۔💥🔥⚡🔥💥 ۔ ۔ ۔شوں شاں ، شرر ، شرار ، چنگاریاں ، پرخچے ، دھجیاں ۔ ۔ ۔ ۔ وغیرہ وغیرہ ۔پچھلے تیرہ سالوں میں آپ نے نشانہ بازی میں اس قدر مہارت پیدا کر لی ہے کہ اب ایک آنکھ میچے بغیر ہی شعر کے کاندھے پر بندوق رکھ کر شاعر کو ڈھیر کر دیتے ہیں ۔ آپ کی دیکھا دیکھی کئی اور شر پسند شعر شکن محفلین نے بھی ذوالقاعدہ کو۔۔۔ معاف کیجیے۔ ۔ ۔ ذوالقرنین کو جوائن کر لیا ہے ۔ لیکن اس قبیلے کے قابیل چونکہ آپ ہی ہیں اس لیے تمام مظلوم غزلوں کا دھواں اور معصوم شاعروں کی فغاں آپ ہی کے کھاتے میں لکھی جاتی رہے گی۔ 🌷🌻

🌷
مجھے ہے حکم اذاں۔۔۔۔۔ اور ایسے تمام اشعار۔۔۔۔۔ ہوہوہوہوہوہوہو
آپ کی وارداتوں کا ایک ثبوت ملاحظہ کرنا ہو تو بے خبر قارئین یہ خبرنامہ دیکھ سکتے ہیں:
بازیچۂ اشعار ہیں غزلیں مرے آگے
ہی ہی ہی ۔۔۔۔ دیکھیے دیکھیے۔۔۔ اور سر دھنیے۔۔۔
ظہیراحمدظہیر بھائی! کمال کر دیا۔۔۔ کیا کیا بیان کیا ہے۔۔۔ مزا آگیا۔۔۔۔ میری سادگی اور بےضرر پن آپ سے بھی چھپایا نہ گیا کہ تسلیم کیے بغیر چارہ نہ رہا۔۔۔ واہ نین واہ۔۔۔ سادگی وہ جو آفتاب کی طرح روشن ہو۔۔۔۔