دلیر مجرم ( ابن صفی )

سبیتا دیوی کے قتل کے متعلق اس کی اب تک یہی رائے تھی کہ یہ کام ان کے کسی ہم مذہب کا ہے ۔ جس نے مذہبی جذبات سے اندھا ہوکر آخر کار انہیں قتل ہی کردیا ۔ انسپکٹر فریدی کا یہ خیال کے وہ حملہ دراصل اسی پر تھا رفتہ رفتہ اس کے ذہن سے ہٹتا جارہا تھا ۔ یہی وجہ تھی کہ جب سے راج روپ نگر سے ڈاکٹر توصیف کا خط ملا تو اس نے اس قصبے کے نام پر دھیان تک نہ دیا ۔
دوسرے دن ڈاکٹر توصیف خود اس سے ملنے کے لئے آیا ۔ اس نے نواب صاحب کے مرض کی ساری تفصیلات بتا کر اسے آپریشن کرنے پر آمادہ کرلیا ۔
ڈاکٹر شوکت کی کار راج روپ نگر کی طرف جارہی تھی ۔ وہ اپنے اسسٹنٹ اور دو نرسوں کو ہدایت کرآیا تھا کہ وہ چار بجے تک آپریشن کا ضروری سامان لے کر راج روپ نگر پہنچ جائیں ۔
نواب صاحب کے خاندان والے ابھی تک کرنل تیواری کے تبادلے اور توصیف کے نئے فیصلے سے ناواقف تھے ۔ ڈاکٹر شوکت کی آمد سے وہ سب حیرت میں پڑگئے ۔ خصوصا نواب صاحب کی بہن تو آپے سے باہر ہوگئیں ۔
" ڈاکٹر صاحب ۔ ۔ ۔ ! " وہ توصیف سے بولیں ۔ " میں آپ کی اس حرکت کا مطلب نہیں سمجھ سکی ۔ "
" محترمہ مجھے افسوس ہے کہ مجھے آپ سے مشورے کی ضرورت نہیں ۔ " توصیف نے بےپروائی سے کہا ۔
" کیا مطلب ؟ " نواب صاحب کی بہن نے حیرت اور غصہ کے ملے جلے انداز میں کہا ۔
" مطلب یہ کہ اچانک کرنل تیواری کا تبادلہ ہوگیا ہے اور اب اس کے علاوہ کوئی اور صورت باقی نہیں رہ گئی ۔ "
" کرنل تیواری کا تبادلہ ہوگیا ہے ۔ "
" ان کا خط ملاحظہ فرمائیے ۔ " ڈاکٹر توصیف نے جیب سے ایک لفافہ نکال کر ان کے سامنے ڈال دیا ۔ وہ خط پڑھنے لگیں ۔ کنور سلیم اور نواب صاحب کی بھانجی جنمہ بھی جھک کر دیکھنے لگیں ۔
" لیکن میں آپریشن تو ہرگز نہ ہونے دوں گی ۔ " بیگم صاحبہ نے خط واپس کرتے ہوئے کہا ۔
 
" دیکھئے محترمہ ۔ ۔ ۔ یہاں آپ کی رائے کا کوئی سوال ہی نہیں رہ جاتا ۔ نواب صاحب کے طبی مشیر ہونے کی حیثیت سے اس کی سو فیصدی ذمہ داری مجھ پر عاید ہوتی ہے ۔ کرنل تیواری کی عدم موجودگی میں میں قانونا اپنے حق کو استعمال کرسکتا ہوں ۔ "
" قطعی ۔ ۔ ۔ قطعی ۔ ۔ ۔ ڈاکٹر صاحب ۔ " کنور سلیم نے سنجیدگی سے کہا ۔ " اگر ڈاکٹر شوکت میرے چچا کو اس مہلک مرض سے نجات دلا دیں تو اس سے بڑھ کر اچھی بات کیا ہوسکتی ہے ۔ میرا بھی یہی خیال ہے کہ اب آپریشن کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں رہ گیا ۔ "
" سلیم ۔ ۔ ۔ ! " نواب صاحب کی بہن نے گرج کر کہا ۔
" پھوپھی صاجبہ ۔ ۔ ۔ میں سمجھتا ہوں کہ آپ ایک محبت کرنے والی بہن کا دل رکھتی ہیں لیکن ان کی صحت کی خاطر دل پر پتھر رکھنا ہی پڑے گا ۔ "
" کنور بھیا ۔ ۔ ۔ آپ اتنی جلد بدل گئے ۔ " نجمہ نے کہا ۔
" کیا کروں نجمہ ۔ ۔ ۔ اگر کرنل تیواری موجود ہوتے تو میں کبھی آپریشن کے لئے تیار نہ ہوتا ۔ لیکن ایسی صورت میں ۔ تم ہی بتاؤ چچا جان کب تک یونہی پڑے رہیں گے ۔ "
" کیوں صاحب کیا آپریشن کے علاوہ کوئی اور صورت نہیں ہوسکتی ؟ " نواب صاحب کی بہن نے ڈاکٹر شوکت سے پوچھا ۔
" یہ تو میں مریض کو دیکھںے کے بعد ہی بتاسکتا ہوں ۔ " ڈاکٹر شوکت نے مسکرا کر کہا ۔
" ہاں ہاں ممکن ہے کہ اس کی نوبت ہی نہ آئے ۔ " ڈاکٹر توصیف نے کہا ۔
نواب صاحب جس کمرے میں تھے وہ اوپری منزل میں واقع تھا ۔ سب لوگ نواب صاحب کے کمرے میں آئے ۔ وہ کمبل اوڑھے چت لیٹے ہوئے تھے ایسا معلوم ہورہا تھا جیسے وہ گہری نیند میں ہوں ۔
ڈاکٹر شوکت نے اپنے آلات کی مدد سے ان کا معائنہ کرتا رہا ۔
" مجھے افسوس ہے بیگم صاحبہ کہ آپریشن کے بغیر کام نہ چلے گا ۔ " ڈاکٹر شوکت نے اپنے آلات کو ہینڈ بیگ میں رکھتے ہوئے کہا ۔
پھر سب لوگ نیچے واپس آگئے ۔
 
ڈاکٹر شوکت نے نواب صاحب کے خاندان والوں کو کافی اطمینان دلایا ۔ ان کی تشفی کے لئے اس نے ان لوگوں کو اپنے بےشمار خطرناک کیسوں کے حالات سنا ڈالے ۔ نواب صاحب کا آپریشن تو ان کے مقابلہ میں کوئی چیز نہ تھا ۔
" پھوپھی صاحبہ آپ نہیں جانتیں ۔ " بیگم صاحبہ سے سلیم نے کہا ۔ " ڈاکٹر شوکت صاحب کا ثانی پورے ہندوستان میں نہیں مل سکتا ۔ "
" میں کس قابل ہوں ۔ " ڈاکٹر شوکت نے خاکسارانہ انداز میں کہا ، " سب خدا کی مہربانی اور اس کا احسان ہے ۔ "
" ہاں یہ تو بتائیے کہ آپریشن سے قبل کوئی دوا وغیرہ دی جائے گی ۔ " کنور سلیم نے پوچھا ۔
" فی الحال ایک انجکشن دوں گا ۔ "
" اور آپریشن کب ہوگا ۔ " نواب صاحب کی بہن نے پوچھا ۔
" آج ہی ۔ ۔ ۔ آٹھ بجے رات سے آپریشن شروع ہوجائے گا ۔ چار بجے تک میرا اسسٹنٹ اور دو نرسیں یہاں آجائیں گی ۔ "
" میرا تو دل گھبرا رہا ہے ۔ " نواب صاحب کی بھانجی نے کہا ۔
" گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے ۔ " ڈاکٹر شوکت نے کہا ۔ " میں اپنی ساری کوششیں صرف کردوں گا ۔ کیس کچھ ایسا خطرناک نہیں ۔ خدا تعالی کی ذات سے قوی امید ہے کہ آپریشن کامیاب ہوگا ۔ آپ لوگ قطعی پریشان نہ ہوں ۔ "
" ڈاکٹر صاحب آپ اطمینان سے اپنی تیاری مکمل کیجئے ۔ " کنور سلیم ہنس کر بولا ۔ " بےچاری عورتوں کے بس میں گھبرانے کے علاوہ اور کچھ نہیں ۔ "
نواب صاحب کی بہن نے اسے تیز نظروں سے دیکھا اور نجمہ کی پیشانی پر شکنیں پڑگئیں ۔
" میرا مطلب ہے پھوپھی صاحبہ کہ کہیں ڈاکٹر صاحب آپ لوگوں کی حالت دیکھ کر بد دل نہ ہوجائیں ۔ اب چچا جان کو اچھا ہی ہوجانا چاہئے ۔ کوئی حد ہے اٹھارہ دن ہوگئے ابھی تک بےہوشی زائل نہیں ہوئی ۔ "
 
" تم اس طرح کہہ رہے ہو گویا ہم لوگ انہیں صحت مند دیکھنے کے خواہش مند نہیں ہیں ! " بیگم صاحبہ نے منہ بنا کر کہا ۔
" خیر ۔ ۔ ۔ خیر ۔ ۔ ۔ ! " فیملی ڈاکٹر توصیف نے کہا ۔ " ہاں تو ڈاکٹر شوکت میرے خیال سے اب آپ انجکشن دے دیجئے ۔ "
ڈاکٹر شوکت ، ڈاکٹر توصیف اور کنور سلیم بالائی منزل پر مریض کے کمرے میں چلے گئے اور دونوں ماں بیٹیاں ہال ہی میں رک کر آپس میں سرگوشیاں کرنے لگیں ۔ نجمہ کچھ کہہ رہی تھی اور نواب صاحب کی بہن کے ماتھے پر شکنیں ابھر رہی تھیں ۔ انہوں نے دو تین بار زینے کی طرف دیکھا اور باہر نکل گئیں ۔
انجکشن سے فارغ ہوکر ڈاکٹر شوکت ، کنور سمیل اور ڈاکٹر توصیف کے ہمراہ باہر آیا ۔
" اچھا کنور صاحب اب ہم چلیں گے ۔ چار بجے تک نرسیں اور میرا اسسٹنٹ آپ کے یہاں آجائیں گے اور میں بھی ٹھیک چھ بجے یہاں پہنچ جاؤں گا ۔ " ڈاکٹر شوکت نے کہا ۔
" تو یہیں قیام کیجئے نا ۔ ۔ ۔ ! " سلیم نے کہا ۔
" نہیں ۔ ۔ ۔ ڈاکٹر توصیف کے یہاں ٹھیک رہے گا اور پھر قصبے میں مجھے کچھ کام بھی ہے ۔ ہم لوگ چھ بجے تک یقینا آجائیں گے ۔ "
ڈاکٹر کار میں بیٹھ گئے لیکن ڈاکٹر شوکت کی پےدرپے کوششوں کے باوجود بھی کار اسٹارٹ نہ ہوئی ۔
" یہ تو بڑا مصیبت ہوئی ۔ " ڈاکٹر شوکت نے کار سے اتر کر مشین کا جائزہ لیتے ہوئے کہا ۔
" فکر مت کیجئے ۔ ۔ ۔ میں اہنی کار نکال کر لاتا ہوں ۔ " کنور سلیم نے کہا اور لمبے ڈگ بھرتا ہوا گیراج کی طرف چلا گیا ۔ جو پرانی کوٹھی کے قریب واقع تھا ۔
تھوڑی دیر بعد نواب صاحب کی بہن آگئیں ۔
" ڈاکٹر شوکت کی کار خراب ہوگئی ۔ کنور صاحب کار کے لئے گئے ہیں ۔ " ڈاکٹر توصیف نے ان سے کہا ۔
 
" اوہ ۔ ۔ ۔ کار تو میں نے شہر بھیج دی ہے اور بھائی جان والی کار عرصہ سے خراب ہے ۔ "
" اچھا تو پھر آئیے ڈاکٹر صاحب ہم لوگ پیدل ہی چلیں ۔ ۔ ۔ صرف ڈیڑھ میل تو چلنا ہے ۔ " ڈاکٹر شوکت نے کہا
" ڈاکٹر توصیف ! مجھے آپ سے کچھ مشورہ کرنا ہے ۔ " نواب صاحب کی بہن نے کہا ۔ " اگر آپ لوگ شام تک یہیں ٹھہریں تو کیا مضائقہ ہے ۔ "
" بات دراصل یہ ہے کہ مجھے چند ضروری تیاریاں کرنی ہیں ۔ " ڈاکٹر شوکت نے کہا ۔ " ڈاکٹر صاحب کو آپ روک لیں ۔ مجھے کوئی اعتراض نہ ہوگا ۔ "
" آپ کچھ خیال نہ کیجئے ۔ ۔ ۔ ! " بیگم صاحبہ بولیں ۔ " اگر کار شام تک واپس آگئی تو میں چھ بجے تک بھجوادوں گی ۔ ورنہ پھر کسی دوسری سواری کا انتظام کیا جائے گا ۔ "
" شام کو تو میں ہر صورت میں پیدل ہی آؤں گا ۔ کیونکہ آپریشن کے وقت میں کافی چاق و چوبند رہنا چاہتا ہوں ۔ " شوکت نے کہا اور قصبے کی طرف روانہ ہوگیا ۔ راہ میں کنور سلیم ملا ۔
" مجھے افسوس ہے ڈاکٹر کہ اس وقت کار موجود نہیں ۔ آپ یہیں رہئے آخر اس میں حرج ہی کیا ہے ۔ "
" حرج تو کوئی نہیں لیکن مجھے تیاری کرنی ہے ۔ " ڈاکٹر شوکت نے جواب دیا ۔
" اچھا تو چلئے میں آپ کو چھوڑ آؤں ۔ "
" نہیں ۔ ۔ ۔ شکریہ ۔ ۔ ۔ راستہ میرا دیکھا ہوا ہے ۔ "
ڈاکٹر شوکت جیسے ہی پرانی کوٹھی کے قریب پہنچا اسے ایک عجیب قسم کا وحشیانہ قہقہہ سنائی دیا ۔ عجیب الخلقت بوڑھا پروفیسر عمران قہقہے لگاتا ہوا اس کی طرف بڑھ رہا تھا ۔
" ہیلو ہیلو ۔ ۔ ۔ ! " بوڑھا چیخا ۔ " اپنے مکان کے قریب اجنبیوں کو دیکھ کر مجھے خوشی ہوتی ہے ۔ "
ڈاکٹر شوکت رک گیا ۔ اسے محسوس ہوا جیسے اس کے جسم کے سارے روئیں کھڑے ہوگئے ہوں ۔ اتنی خوفناک شکل کا آدمی آج تک اس کی نظروں سے نہ گزرا تھا ۔
 
" مجھ سے ملئے ۔ ۔ ۔ میں پروفیسر عمران ہوں ۔ " اس نے مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا ۔ " اور آپ ۔ ۔ ۔ ! "
" مجھے شوکت کہتے ہیں ۔ ۔ ۔ ! " شوکت نے بادل نخواستہ ہاتھ ملاتے ہوئے کہا ۔ لیکن اس نے محسوس کیا کہ ہاتھ ملاتے وقت بوڑھا کچھ سست پڑگیا تھا ۔ بوڑھے نے فورا ہی اپنا ہاتھ کھینچ لیا اور قہقہہ لگاتا ، اچھلتا کودتا پھر پرانی کوٹھی میں واپس چلا گیا ۔
ڈاکٹر شوکت متحیر کھڑا تھا ۔ دفعتا قریب کی جھاڑیوں سے ایک بڑا کتا اس پر جھپٹا ۔ ڈاکٹر شوکت گھبرا کر کئی قدم پیچھے ہٹ گیا ۔ کتے نے جست لگائی اور ایک بھیانک چیخ کے ساتھ زمین پر آرہا ۔ چند سیکنڈ تک وہ تڑپا اور پھر بےحس و حرکت ہوگیا ۔۔ یہ سب اتنی جلدی ہوا کہ ڈاکٹر شوکت کو کچھ سوچنے سمجھنے کا موقعہ نہ مل سکا ۔ اس کے بعد کچھ سمجھ ہی میں نہ آرہا تھا کہ وہ کیا کرے ۔
" ارے یہ میرے کتے کو کیا ہوا ۔ ۔ ۔ ٹائیگر ٹائیگر ۔ ۔ ۔ ! " ایک نسوانی آواز سنائی دی ۔ ڈاکٹر شوکت چونک پڑا ۔ سامنے نواب صاحب کی بھانجی نجمہ کھڑی تھی ۔
" مجھے خود حیرت ہے ۔ " شوکت نے کہا ۔
" میں نے اس کے غرانے کی آواز سنی تھی ۔ کیا یہ آپ پر جھپٹا تھا لیکن اس کی سزا موت تو نہ ہوسکتی تھی ۔ " وہ تیز لہجے میں بولی ۔
" یقین فرمائیے محترمہ مجھے خود حیرت ہے کہ اسے یک بیک ہو کیا گیا ۔ ۔ ۔ اگر آپ کو مجھ پر شبہ ہے تو بھلا بتائیے میں نے اسے کیوں کر مارا ۔ ۔ ۔ ؟ "
نجمہ کتے کی لاش پر جھکی اسے پکار رہی تھی ۔ " ٹائیگر ٹائیگر ۔ ۔ ۔ ! "
" بے سود ہے محترمہ یہ ٹھنڈا ہوچکا ہے ۔ " شوکت کتے کی لاش کو ہلاتے ہوئے بولا ۔
" آخر اسے ہو کیا گیا ۔ " نجمہ نے خوفزدہ انداز میں پوچھا ۔
" میں خود یہی سوچ رہا ہوں ۔ بظاہر کوئی زخم بھی نہیں نظر آیا ۔ "
 
" سخت حیرت ہے ۔ ۔ ۔ ! "
دفعتا ڈاکٹر شوکت کے ذہن میں ایک خیال پیدا ہوا ۔ وہ اس کے پنجوں کا معائنہ کرنے لگا ۔
" اوہ ۔ ۔ ۔ ! " اس کے منہ سے حیرت کی چیخ نکلی اور اس نے کتے کے پنجے میں چبھی ہوئی گراموفون کی ایک سوئی کھینچ لی اور حیرت سے اسے دیر تک دیکھتا رہا ۔
" دیکھئے محترمہ غالبا یہ زہریلی سوئی ہی آپ کے کتے کی موت کا سبب بنی ہے ۔ "
" سوئی ۔ ۔ ۔ ! " نجمہ نے چونک کر کہا ۔ " گراموفون کی سوئی ۔ ۔ ۔ کیا مطلب ۔ ۔ ۔ ! "
" مطلب تو میں بھی نہیں سمجھا لیکن یہ وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ سوئی خطرناک حد تک زہریلی ہے ۔ مجھے انتہائی افسوس ہے کتا بہت عمدہ تھا ۔ "
" لیکن یہ سوئی کہاں سے آئی ؟ " وہ پلکیں چھپکاتی ہوئی بولی ۔
" کسی سے گرگئی ہوگی ۔ "
" عجیب بات ہے ۔ "
شوکت نے وہ سوئی احتیاط سے تھرمامیٹر رکھنے والی نالی میں رکھ لی اور بولا " یہ ایک دلچسپ چیز ہے ۔ میں اس کا کیمیاوی تجزیہ کروں گا ۔ آپ کے کتے کی موت پر ایک بار پھر اظہار افسوس کرتا ہوں ۔ "
" اوہ ۔ ۔ ۔ ڈاکٹر میں آپ سے سچ کہتی ہوں کہ میں اس کتے کو بہت عزیز رکھتی تھی ۔ " اس نے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا ۔
" واقعی بہت اچھا کتا تھا ۔ اس نسل کے گرے ہاؤنڈ کمیاب ہیں ۔ " شوکت نے جواب دیا ۔
" ہونے والی بات تھی ۔ ۔ ۔ افسوس تو ہوتا ہے مگر اب ہوہی کیا سکتا ہے ۔ مگر ایک بات میری سمجھ میں نہیں آتی کہ سوئی یہاں آئی کیسے ۔ "
" میں خود یہی سوچ رہا ہوں ۔ " ڈاکٹر شوکت نے کہا ۔
" ہوسکتا ہے کہ یہ سوئی اس خبطی بوڑھے کی ہو ۔ اس کے پاس عجیب و غریب چیزیں ہیں ۔ ۔ ۔ منحوس کہیں کا ۔ "
 
" کیا آپ ان ہی صاحب کے بارے میں تو نہیں کہہ رہی ہیں جو ابھی اس کوٹھی سے نکلے تھے ۔ "
" جی ہاں ۔ ۔ ۔ وہی ہوگا ۔ ۔ ۔ ! " نجمہ نے جواب دیا ۔
" یہ کون صاحب ہیں ۔ بہت ہی عجیب و غریب آدمی معلوم ہوتے ہیں ۔ " ڈاکٹر شوکت نے کہا ۔
" یہ ہمارا کرایہ دار ہے ۔ پروفیسر عمران ۔ ۔ ۔ لوگ کہتے ہیں کہ ماہر فلکیات ہے ۔ مجھے یقین نہیں آتا ۔ وہ دیکھئے اس نے مینار پر ایک دوربین بھی لگا رکھی ہے ۔ "
" پروفیسر عمران ۔ ۔ ۔ ماہر فلکیات ۔ ۔ ۔ یہ بہت مشہور آدمی ہیں ۔ میں نے ان کی کئی کتابیں پڑھی ہیں ۔ اگر وقت ملا تو میں ان سے ضرور ملوں گا ۔ "
" کیا کیجئے گا مل کر ۔ ۔ ۔ دیوانہ ہے ۔ وہ ہوش ہی میں کب رہتا ہے ۔ وہ جانور سے بھی بدتر ہے ۔ " نجمہ نے کہا ۔ " خیر ہٹائیے ان باتوں کو ۔ ۔ ۔ ڈاکٹر صاحب آپریشن میں کوئی خطرہ تو نہیں ؟ "
" جی نہیں آپ مطمئن رہئے ۔ انشاءاللہ کوئی گڑبڑ نہ ہونے پائے گی ۔ " ڈاکٹر شوکت نے کہا ۔ " اچھا اب میں چلوں ۔ مجھے آپریشن کی تیاری کرنا ہے ۔ "
ڈاکٹر شوکت قصبے کی طرف چل پڑا ۔ ایک شخص کھائیوں اور جھاڑیوں کی آڑ لیتا ہوا اس کا تعاقب کررہا تھا ۔
بال بال بچے
راستے بھر شوکت کا ذہن سوئی اور کتے کی موت میں الجھا رہا ۔ ساتھ ہی ساتھ وہ خلش بھی اس کے دل میں کچوکے لگارہی تھی جو نجمہ سے گفتگو کرنے کے بعد پیدا ہوگئی تھی اس کا دل تو یہی چاہ رہا تھا کہ وہ زندگی بھر کھڑا اس سے اسی طرح باتیں کئے جائے ۔ عورتوں سے بات کرنا اس کے لئے نئی بات نہ تھی ۔ وہ قریب قریب دن بھر نرسوں میں گھرا رہتا تھا اور پھر اس کے علاوہ اس کا پیشہ ایسا تھا کہ اور دوسری عورتوں سے بھی اس کا سابقہ پڑتا رہتا تھا ۔ لیکن نجمہ میں نہ جانے کونسی ایسی بات تھی جو رہ رہ کر اس کا چہرہ اس کی نظروں کے سامنے پیش کردیتی تھی ۔
 
ڈاکٹر توصیف کے گھر پہنچتے ہی وہ سب کچھ بھول گیا کیونکہ اب وہ آپریشن کی سکیم مرتب کررہا تھا ۔ وہ ایک زندگی بچانے جارہا تھا ۔ ۔ ۔ ایک ماہر فن کی طرح اس کا دل مطمئن تھا ۔ ۔ ۔ اسے اپنی کامیابی کا اسی طرح یقین تھا جس طرح اس کا کہ وہ گیارہ بجے کھانا کھائے گا ۔
تقریبا ایک گھنٹے کے بعد ڈاکٹر توصیف بھی نواب صاحب کی کار پر آگیا ۔
" کہئے ڈاکٹر صاحب کوئی خاص بات ۔ " ڈاکٹر شوکت نے کہا ۔
" ایسی تو کوئی بات نہیں ۔ البتہ کتے کی موت سے ہر شخص حیرت زدہ ہے ۔ لائیے دیکھوں تو وہ سوئی ۔ " ڈاکٹر توصیف نے سوئی لینے کے لئے ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا ۔
" یہ دیکھئے ۔ ۔ ۔ بڑی عجیب بات ہے ۔ معلوم نہیں سوئی کس زہر میں بجھائی گئی ہے ۔ " ڈاکٹر شوکت نے تھرمامیٹر کی نلکی سے سوئی نکال کر اس کی طرف بڑھاتے ہوئے بولا ۔ " دیکھتے ہی دیکھتے کتا ختم ہوگیا ۔ "
" گراموفون کی سوئی ہے ۔ " ڈاکٹر توصیف نے سوئی کو غور سے دیکھتے ہوئے کہا ۔
" میرے خیال میں پوٹاشیم سایانائیڈ یا اس قبیل کا کوئی اور زہر ہے ۔ " ڈاکٹر شوکت نے سوئی کو لے کر پھر تھرمامیٹر کی نلکی میں رکھتے ہوئے کہا ۔
" مجھے تو یہ سوئی خبیث پروفیسر کی معلوم ہوتی ہے ۔ " ڈاکٹر توصیف نے کہا ۔ " اس کی عجیب و غریب چیزیں اور حرکتیں دور تک مشہور ہیں ۔ "
" مجھے ابھی تک پروفیسر کے بارے میں کچھ زیادہ معلوم نہیں ۔ لیکن میں اس پرسرار شخصیت کے متعلق اپنی معلومات میں اضافہ کرنا چاہتا ہوں ۔ ویسے تو میں یہ جانتا ہوں کہ وہ ایک مشہور ماہر فلکیات ہے ۔ " ڈاکٹر شوکت نے کہا ۔
 
" اس کی زندگی ابھی تک پردہ راز میں ہے ۔ " ڈاکٹر توصیف نے کہا ۔ " لیکن اتنا میں بھی جانتا ہوں کہ اب سے دو سال پیشتر وہ ایک صحیح الدماغ آدمی تھا ۔ اس کے بعد اچانک اس کے عادات و اطوار میں تبدیلیاں ہونی شروع ہوگئیں اور اب تو سب ہی کا یہ خیال ہے کہ اس کا دماغ خراب ہوگیا ہے ۔ "
" میں نے تو صاحب اتنا بھیانک آدمی آج تک نہیں دیکھا ۔ " ڈاکٹر شوکت نے کہا ۔
تھوڑی دیر خاموشی رہی اس کے بعد ڈاکٹر توصیف بولا ۔ " ہاں تو آپ کا کیا پروگرام ہے ۔ میرے خیال سے تو اب دوپہر کا کھانا کھالینا چاہئے ۔ "
کھانے کے دوران آپریشن اور دوسرے موضوعات پر گفتگو ہوتی رہی ۔ اچانک ڈاکٹر شوکت کو کچھ یاد آگیا ۔
" ڈاکٹر صاحب میں جلدی میں اپنے اسسٹنٹ کو کچھ ضروری ہدایات دینا بھول گیا ہوں ۔ ۔ ۔ اگر آپ ایسا انتظام کرسکیں کہ میرا رقعہ اس تک پہنچا دیا جائے تو بہت اچھا ہو ۔ " ڈاکٹر شوکت نے کہا ۔
" چلئے اب دو کام ہوجائیں گے ۔ " ڈاکٹر توصیف نے کہا ۔ " میں دراصل شہر ہی جانے کے لئے نواب صاحب کی کار لایا تھا ۔ آپ رقعہ دے دیجئے گا اور ہاں کیوں نہ آپ کے ساتھیوں کو اپنے ساتھ لیتا آؤں ۔ "
" اس سے بہتر کیا ہوسکتا ہے ۔ "
" اس رقعے کے علاوہ کوئی اور کام ۔ ۔ ۔ ؟ "
" جی نہیں شکریہ ۔ میرے خیال سے آپ ان لوگوں کو اسی طرف سے کوٹھی لیتے جائیے گا ۔ "
" بہتر ہے ۔ ۔ ۔ چھ بجے آپ کے لئے کار بھجوادی جائے گی ۔ '
" نہیں اس کی ضرورت نہیں ۔ میں پیدل ہی آؤں گا ۔ "
" کیوں ۔ ۔ ۔ ؟ "
" بات دراصل یہ ہے ڈاکٹر صاحب کہ آپریشن ذرا نازک ہے ۔ میں چاہتا ہوں کہ آپریشن سے قبل اتنی ورزش ہوجائے جس سے جسم میں چستی پیدا ہوسکے ۔ "
 
" ڈاکٹر شوکت میں آپ کی تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکتا ۔ درحقیقت ایک اچھے ڈاکٹر کو ایسا ہی ہونا چاہئے ۔ "
ڈاکٹر توصیف کے چلے جانے کے بعد ڈاکٹر شوکت نے یکے بعد دیگرے وہ کتابیں پڑھنا شروع کیں جو وہ اپنے ساتھ لایا تھا ۔ ایک کاغذ پر پینسل سے کچھ ڈائے گرام بنائے اور دیر تک انہیں دیکھتا رہا ۔ پرانے ریکارڈوں کے کچھ فائل دیکھے ۔ انہی مشغولیات میں دن ختم ہوگیا ۔ تقریبا پانچ بجے اس نے کتابیں اور فائل ایک طرف رکھ دیئے ۔ اسے ٹھیک چھ بجے یہاں سے روانہ ہونا تھا ۔ دسمبر کا مہینہ تھا ۔ شام کی کرنوں کی زردی پھیکی پھیکی سرخی میں تبدیل ہوتی جارہی تھی ۔ ڈاکٹر توصیف کا نوکر انڈے کی سینڈوچ اور کافی لے آیا ۔ رات کا کھانا سلیم کی درخواست کے مطابق اسے کوٹھی میں کھانا تھا ۔ اس لئے اس نے صرف ایک سینڈوچ کھائی اور دو کپ کافی کے بعد سگریٹ سلگا کر ٹہلنے لگا ۔ گھڑی نے چھ بجائے ۔ ۔ ۔ اس نے کپڑے پہنے اور چسٹر کاندھے پر ڈال کر روانہ ہوگیا ۔ وہ آہستہ آہستہ ٹہلتا ہوا جارہا تھا ۔ چاروں طرف تاریکی پھیل گئی تھی ۔ سڑک کے دونوں طرف گھنی جھاڑیاں اور درختوں کی قطاریں تھیں جن کی وجہ سے سڑک خصوصا اور زیادہ تاریک ہوگئی تھی ۔ لیکن ڈاکٹر شوکت آپریشن کے خیال میں مگن بےخوف چلا جارہا تھا ۔ اس سے تقریبا پچاس گز پیچھے ایک دوسرا آدمی جھاڑیوں سے لگا ہوا چل رہا تھا ۔ شاید اس نے ربڑ سول کے جوتے پہن رکھے تھے جس کی وجہ سے ڈاکٹر شوکت اس کے قدموں کی آواز نہیں سن رہا تھا ۔ ایک جگہ ڈاکٹر شوکت سگریٹ سلگانے کے لئے رکا ساتھ ہی وہ شخص بھی رک کر جھاڑیوں کی اوٹ میں چلا گیا ۔ جیسے ہی شوکت نے چلنا شروع کیا وہ پھر جھاڑیوں سے نکل کر اسی طرح اس کا تعاقب کرنے لگا ۔
سڑک زیادہ چلتی ہوئی نہ تھی ۔ وجہ یہ تھی یہ سڑک محض کوٹھی کے لئے بنائی گئی تھی ۔ اگر نواب صاحب نے اپنی کوٹھی بستی کے باہر نہ بنوائی ہوتی تو پھر اس سڑک کا وجود بھی نہ ہوتا ۔
شوکت کے وزنی جوتوں کی آواز اس سنسان سڑک پر اس طرح گونج رہی تھی جیسے وہ جھاڑیوں میں دبک کر ٹیں ٹیں ریں ریں کرنے والے جھینگروں کو ڈانٹ رہی ہوں ۔ ۔ ۔ شوکت چلتے چلتے ہلکے سروں میں سیٹی بجانے لگا ۔
 
اسے اپنے جوتوں کی آواز سیٹی کی دھن پر تال دیتی معلوم ہورہی تھی ۔ کسی درخت پر ایک بڑے پرندے نے چونک کر اپنے پر پھڑپھڑائے اور اڑ کر دوسری طرف چلا گیا ۔ جھاڑیوں کے پیچھے قریب ہی گیدڑوں نے چیخنا شروع کردیا ۔ جو شخص ڈاکٹر شوکت کا پیچھا کررہا تھا اس کا اب کہیں پتہ نہ تھا ۔ کچھ آگے بڑھ کر بہت زیادہ گھنے درختوں کا سلسلہ شروع ہوگیا ۔ یہاں پر دونوں طرف کے درختوں کی شاخیں آپس میں مل کر اس طرح گنجان ہوگئی تھیں کہ آسمان نہیں دکھائی دیتا تھا ۔ ڈاکٹر شوکت دنیاء مافیہا سے بےخبر اپنی دھن میں چلا جارہا تھا ۔ اچانک اس کے منہ سے ایک چیخ نکلی اور ہاتھ اوپر اٹھ گئے ۔ اس کے گلے میں ایک موٹی سی رسی کا پھندا پڑا ہوا تھا ۔ آہستہ آہستہ پھندے کی گرفت تنگ ہوتی گئی اور ساتھ ہی ساتھ وہ اوپر اٹھنے لگا ۔ گلے کی رگیں پھول رہی تھیں ۔ آنکھیں حلقوں سے ابلی پڑرہی تھیں ۔ اس نے چیخنا چاہا لیکن آواز نہ نکلی ۔ اسے ایسا معلوم ہورہا تھا جیسے اس کا دل کنپٹیوں اور آنکھوں میں دھڑک رہا ہو ۔ آہستہ آہستہ اسے تاریکی گہری ہوتی ہوئی معلوم ہوئی ۔ جھینگروں اور گیدڑوں کا شور دور خلا میں ڈوبتا جارہا تھا ۔ پھر بالکل خاموشی چھا گئی ۔ وہ زمین سے دو فٹ کی بلندی پر جھول رہا تھا ۔ کوئی اسی درخت پر سے کود کر جھاڑیوں میں غائب ہوگیا ۔ پھر ایک آدمی اس کی طرف دوڑ کر آتا دکھائی دیا ۔ اس کے قریب پہنچ کر اس نے ہاتھ ملتے ہوئے ادھر ادھر دیکھا ۔ ۔ ۔ دوسرے لمحے میں وہ پھرتی سے درخت پر چڑھ رہا تھا ۔ ایک شاخ سے دوسری شاخ کودتا ہوا وہ اس شاخ پر پہنچ گیا جس سے رسی بندھی ہوئی تھی ۔ اس نے رسی ڈھیلی کرکے آہستہ آہستہ ڈاکٹر شوکت کے پیر زمین پر ٹکا دیئے پھر رسی کو اسی طرح باندھ کر نیچے اتر آیا ۔ اب اس نے جیب سے چاقو نکال کر رسی کاٹی اور شوکت کو ہاتھوں پر سنبھالے ہوئے سڑک پر لٹا دیا ۔ پھندا ڈھیلا ہوتے ہی بےہوش ڈاکٹر گہری گہری سانسیں لے رہا تھا ۔ پراسرار اجنبی نے دیا سلائی جلاکر اس کے چہرے پر نظر ڈالی ۔ آنکھوں کے پپوٹوں میں جنبش پیدا ہوچکی تھی ۔ ایسا معلوم ہورہا تھا جیسے وہ دس پانچ منٹ کے بعد ہوش میں آجائے گا ۔ دو تین منٹ گزر جانے پر اس کے جسم میں حرکت پیدا ہوئی اور اجنبی جلدی سے جھاڑیوں کے پیچھے چھپ گیا ۔
 
تھوڑی دیر کے بعد ایک کراہ کے ساتھ وہ اٹھ کر بیٹھ گیا اور آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر چاروں طرف دیکھنے لگا ۔ آہستہ آہستہ کچھ دیر قبل کے واقعات اس کے ذہن میں گونج اٹھے ۔ ۔ ۔ بےاختیار اس کا ہاتھ گردن کی طرف گیا ۔ لیکن اب وہاں رسی کا پھندا نہ تھا ۔ البتہ گردن بڑی بری طرح دکھ رہی تھی ۔ اسے حیرت ہورہی تھی کہ وہ کس طرح بچ گیا ۔ اب اسے فریدی مرحوم کے الفاظ بری طرح یاد آرہے تھے اور ساتھ ہی سبیتا دیوی کی خواب کی بڑبڑاہٹ بھی یاد آگئی تھی ۔ " راج روپ نگر " اس کے سارے جسم سے ٹھنڈا ٹھنڈا پسینہ چھوٹ پڑا ۔ وہ سوچنے لگا وہ بھی کتنا احمق تھا کہ اس نے فریدی کے الفاظ بھلا دیئے اور خوفناک جگہ پر اندھیری رات میں تنہا چلا آیا ۔ اس کی جان لینے کی یہ دوسری کوشش تھی ۔ اس کی آنکھوں کے سامنے اس نیپالی کا نقشہ پھر گیا جس نے اسے دھمکی دی تھی ۔ پھر اچانک وہ زہریلی سوئی یاد آئی اور پروفیسر کا بھیانک چہرہ ۔ ۔ ۔ جو اس نے اس سے ہاتھ ملاتے ہوئے دیکھا تھا ۔ اور ٹھیک اسی جگہ کتا بھی اچھل کر گرا تھا ۔ تو کیا پروفیسر ۔ ۔ ۔ پروفیسر ۔ ۔ ۔ لیکن آخر کیوں ؟ یہ سب سوچتے سوچتے اسے اپنی موجودہ حالت کا خیال آیا اور وہ کپڑے جھاڑتا ہوا کھڑا ہوگیا ۔ چسٹر قریب ہی پڑا تھا ۔ اس نے جلدی سے چسٹر اٹھا کر کندھے پر ڈالا اور تیزی سے کوٹھی کی طرف روانہ ہوگیا ۔ اس نے سوچا کہ گھڑی میں وقت دیکھے لیکن پھر دیا سلائی جلا کر دیکھنے کی ہمت نہ پڑی ۔
کوٹھی میں سب لوگ بےصبری سے اس کا انتظار کر رہے تھے ۔ اس نے سات بجے آنے کا وعدہ کیا تھا لیکن اب آٹھ بج رہے تھے ۔
" شوکت بہت ہی بااصول آدمی معلوم ہوتا ہے ۔ نہ جانے کیا بات ہے ۔ " ڈاکٹر توصیف نے باغ میں ٹہلتے ہوئے کہا ۔
نجمہ بار بار اپنی کلائی پر بندھی ہوئی گھڑی دیکھ رہی تھی ۔
" کیا بات ہوسکتی ہے ۔ " کنور سلیم نے پنجوں کے بل کھڑے ہوتے ہوئے پیشانی پر ہاتھ رکھ کر اندھیرے میں گھورتے ہوئے کہا ۔
 
" میرا خیال ہے کہ وہ دیر میں گھر سے روانہ ہوا ۔ میں تو کہہ رہا تھا کہ کار بھجوادوں گا ۔ لیکن اس نے کہا کہ میں پیدل ہی آؤں گا ۔ آں یہ کون آرہا ہے ۔ ۔ ۔ ہلو ۔ ۔ ۔ ڈاکٹر ۔ ۔ ۔ بھئی انتظار کرتے کرتے آنکھیں پتھرا گئیں ۔ "
ڈاکٹر شوکت برآمدے میں داخل ہوچکا تھا ۔ وہ راستہ بھر اپنے چہرے سے پریشانی کے آثار مٹانے کی کوشش کرتا آیا تھا ۔
" مجھے افسوس ہے ۔ " ڈاکٹر شوکت نے مسکراتے ہوئے کہا ۔ " اپنی حماقت کی وجہ سے چلتے وقت ٹارچ لانا بھول گیا ۔ ۔ ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ راستہ بھول گیا ۔ "
" لیکن آپ کے سر میں یہ اتنے سارے تنکے کہاں سے آگئے ۔ ۔ ۔ جی وہاں نہیں ۔ پیچھے کی طرف ۔ ۔ ۔ ! " نجمہ نے مسکرا کر کہا ۔
" تنکے ۔ ۔ ۔ اوہ ۔ ۔ ۔ کچھ نہیں ۔ ۔ ۔ ہٹائیے بھی کوئی ایسی خاص بات نہیں ۔ " ڈاکٹر شوکت نے کچھ بوکھلائے ہوئے لہجے میں کہا ۔
" نہیں نہیں ۔ ۔ ۔ بتائیے نا ۔ ۔ ۔ آخر بات کیا ہے ؟ " کنور سلیم نے سنجیدگی سے کہا ۔
" ارے وہ تو ایک پاگل کتا تھا ۔ ۔ ۔ راہ میں اس نے مجھے دوڑایا ۔ اندھیرا کافی تھا ۔ ۔ ۔ میں ٹھوکر کھا کر گرپڑا تھا ۔ وہ تو کہئے ایک راہگیر ادھر آنکلا ورنہ ۔ ۔ ۔ ! "
" آج کل دسمبر میں پاگل کتا ۔ " نجمہ نے حیرت سے کہا ۔ " کتے تو عموما گرمیوں میں پاگل ہوتے ہیں ۔ "
" نہیں ۔ ۔ ۔ یہ ضروری نہیں ۔ " کنور سلیم نے جواب دیا ۔ " اکثر سردیوں میں بھی بعض کتوں کا دماغ خراب ہوجاتا ہے ۔ خیر ۔ ۔ ۔ آپ خوش قسمت تھے ڈاکٹر شوکت ۔ ۔ ۔ پاگل کتوں کا زہر بہت خطرناک ہوتا ہے ۔ آپ تو جانتے ہی ہوں گے ۔ "
" ہاں بھئی ڈاکٹر ۔ ۔ ۔ وہ آپ کے آدمیوں نے بیمار کے کمرے میں ساری تیاریاں مکمل کرلی ہیں ۔ "
" وہ اس وقت وہیں ہیں ۔ ۔ ۔ ! " ڈاکٹر توصیف نے کہا ۔
 
" آپ کے انتظار میں شاید ان لوگوں نے بھی ابھی تک کھانا نہیں کھایا ۔ " نجمہ بولی ۔
" میرا انتظار آپ لوگوں نے ناحق کیا ۔ میں آپریشن سے قبل تھوڑا سا سوپ پیتا ہوں ۔ کھانا کھا لینے کے بعد دماغ کسی کام کا نہیں رہ جاتا ۔ ۔ ۔ ! "
" جی ہاں ! میں نے بھی اکثر کتابوں میں یہی پڑھا ہے اور جہاں تک میرا خیال ہے کہ دنیا کے بڑے آدمی نے یہ ضرور کہا ہوگا ۔ " نجمہ نے شوخی سے کہا ۔ ڈاکٹر شوکت نے مسکرا کر اس کی طرف دیکھا ۔ نجمہ سے نگاہیں ملتے ہی وہ زمین کی طرف دیکھنے لگا ۔
" خیر صاحب ۔ ۔ ۔ وہ کچھ سہی میں تو دن بھر میں پانچ سیر سے کم نہیں کھاتا ۔ " کنور سلیم نے ہنس کر کہا ۔ " کھانا دیر سے منتظر ہے ۔ ہر تندرست آدمی کا فرض ہے کہ اسے انتظار کی زحمت سے بچائے ۔ "
سب لوگ کھانے کے کمرے میں چلے گئے ۔
پرانی کوٹھی کے باہر
پرانی کوٹھی کے پائیں باغ میں پروفیسر عمران کسی سے گفتگو کررہا تھا ۔ کبھی کبھی دونوں کی آوازیں بلند ہوکر خلاء میں ڈوب جاتیں ۔
پروفیسر کہہ رہا تھا ۔ " لیکن میں نہیں جاؤں گا ۔ "
" تو اس میں بگڑنے کی کیا بات ہے میری جان ۔ " دوسری آواز سنائی دی ۔ " نہ جانے میں تمہارا ہی نقصان ہے ؟ "
" میرا نقصان ۔ ۔ ۔ ! " پروفیسر کی آواز آئی ۔ " یونان اور روم کے دیوتاؤں کی قسم ہرگز نہ جاؤں گا ۔ "
" تمہیں چلنا پڑے گا ۔ " کسی نے کہا ۔
 
" سنو اسے ابابیل کے بچے ۔ ۔ ۔ تم میں اتنی ہمت نہیں کہ مجھے میری مرضی کے خلاف کہیں لے جا سکو ۔ " پروفیسر چیخا ۔
" خیر نہ جاؤ لیکن تمہیں اس کے لئے پچھتانا پڑے گا ۔ دیکھنا ہے کہ تمہیں کل سے سفیدہ کیسے ملتا ہے ۔ " دوسرے آدمی نے کہا اور باغ سے نکنے لگا ۔
" ٹھہرو ۔ ۔ ۔ ٹھہرو ۔ ۔ ۔ تو ایسے بات کرو نا ۔ تم نے پہلے ہی کیوں نہیں بتایا کہ تم بیربہوٹی کے بچے ہو ۔ " پروفیسر ہنس کر بولا ۔
" بیر بہوٹی ۔ ۔ ۔ ہاں بیربہوٹی ۔ ۔ ۔ مگر اس کے لئے تمہیں میرے ساتھ مالی کے جھونپڑے تک چلنا ہوگا ۔ "
" اچھا تو آؤ پھر چلیں ۔ " پروفیسر نے کہا اور دونوں مالی کے جھونپڑے کی طرف چل پڑے ۔
تقریبا آدھے گھنٹے کے بعد پروفیسر لنگڑاتا ہوا مالی کے جھونپڑے سے باہر نکلا ۔ وہ اکیلا تھا اور اس کے کاندھے پر ایک وزنی گٹھڑی تھی ۔ ایک جگہ رک کر اس نے ادھر ادھر دیکھا ، پھر مالی کے جھونپڑے کی طرف گھونسہ تان کر کہنے لگا ۔
" ابے تو نے مجھے سمجھا کیا ہے ۔ میں تجھے کتے کا گوشت کھلا دوں گا ۔ چھچھوندر کی اولاد نہیں تو ۔ ۔ ۔ مریخ ، زحل ، مشتری ، عطارد سب کے سب تیری جان کے دشمن ہوجائیں گے ۔ ابے میں وہ ہوں جس نے سکندر اعظم کا مرغا چرایا تھا ۔ چمگاڈر مجھے سلام کرنے آتے ہیں ۔ میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ تو اپنے دادا کا نطفہ ہے ۔ چلا ہے وہاں سے مکھیاں مارنے ۔ ۔ ۔ بڑا آیا کہیں کا تیس مار خان ۔ تیس مار خان کی ایسی کی تیسی ۔ ۔ ۔ نہیں جانتا کہ میں بھوتوں کا سردار ہوں ۔ آؤ اے غرفوس اسے کھا جاؤ ۔ آؤ اسے ارسلانوس اسے چبا جاؤ ۔ چڑیلوں کی حرافہ نانی اشقلونیا تو کہاں ہے ۔ دیکھ میں ناچ رہا ہوں ۔ میں تیرا بھتیجا ہوں ۔ ۔ ۔ آجا پیاری ۔ ۔ ۔ ! " یہ کہہ کر پروفیسر نے وہیں ناچنا شروع کردیا ۔ پھر وہ سینہ پر ہاتھ مار کر کہنے لگا " میں اس آگ کا پچاری ہوں جو مریخ میں جل رہی ہے ۔ ہزار ہا سال سے میں اس کی پوجا کرتا آرہا ہوں ۔ میں پانچ ہزار سال سے انتظار کررہا ہوں لیکن ستارہ کبھی نہ ٹوٹے گا ۔ اے کہ میں نے تیرے لئے خرگوش پالے ۔ اے کہ میں تجھے گلہریوں کے کباب کھلاتا ہوں ۔ ۔ ۔ میں تتلیوں کے پروں سے سگریٹ بنا کر تجھے پلاتا ہوں ۔ اے پیارے ابلیس تو کہاں ہے ۔ میں تجھے اپنا کان کاٹ کر کھلادوں گا ۔ ۔ ۔ ! "
وہ اور نہ جانے کیا بڑبڑاتا اچھلتا کودتا ہوا پرانی کوٹھی کے باغ میں غائب ہوگیا ۔
 
پروفیسر کی شرارت
مریض کے کمرے کا منظر حد درجہ متاثر کن تھا ۔ نرس اور ڈاکٹر سب سفید کپڑوں میں ملبوس آہستہ آہستہ ادھر ادھر آ جارہے تھے ۔ آپریشن ٹیبل جو سول ہسپتال سے خاص اہتمام کے ساتھ یہاں لائی گئی تھی کمرے کے وسط میں پڑی تھی ۔ مریض کو اس پر لٹایا جاچکا تھا ۔ کمرے میں بہت زیادہ طاقت والے بلب روشن کردئیے گئے تھے ۔ سلائچیوں میں گرم و سرد پانی رکھا ہوا تھا ۔ اسی کے قریب ایک دوسری میز پر عجیب و غریب قسم کے آپریشن کے اوزار اور ربڑ کے دستانے پڑے ہوئے تھے ۔
ڈاکٹر شوکت کچھ دیر قبل پیش آئے ہوئے حادثے کو قطعی بھلا چکا تھا ۔ اب اس کا دھیان صرف آپریشن کی طرف تھا ۔ ایک آدمی کی زندگی خطرے میں تھی ۔ تمام تر کوششیں صرف کردینے کا تہیہ کرلیا تھا ۔ نوجوان ماہر اسے بھی اچھی طرح سمجھتا تھا کہ اگر اسے اس کیس میں کامیابی ہوگئی تو اس کی شخصیت کہیں کی کہیں جا پہنچے گی ۔ کامیابی اسے ترقی کے زینوں پر لے جائے گی ۔ ۔ ۔ اور ناکامی ! لیکن ۔ ۔ ۔ نہیں ۔ ۔ ۔ اس کے ذہن میں ناکامی کے خیال کا نام و نشان بھی نہ تھا ۔ وہ ایک مشاق ماہر فن کی طرح مطمئن نظر آرہا تھا ۔ ڈاکٹر توصیف بھی کمرے میں موجود تھا ۔ لیکن اس کی حیثیت ایک تماشائی جیسی تھی ۔ وہ دیکھ رہا تھا اور متحیر تھا کہ یہ نوجوان لڑکا کس طرح سکون و اطمینان کے ساتھ اپنی تیاریوں میں مصروف ہے ۔ ایسے موقعوں پر اتنا اطمینان تو اس نے اچھے اچھی معمر اور تجربہ کار ڈاکٹروں کے چہروں پر بھی نہیں دیکھا تھا ۔ وہ دل ہی دل میں اس کی تعریفیں کررہا تھا ۔
 
باہر برآمدے میں نواب صاحب کی بہن اور نجمہ بیٹھی تھیں ۔ دونوں پریشان نظر آرہی تھیں ۔ کنور سلیم ٹہل ٹہل کر سگریٹ پی رہا تھا ۔
" ممی کیا وہ کامیاب ہوجائے گا ۔ " نجمہ نے بےتابی سے کہا ۔ " مجھے یقین ہے کہ وہ ضرور کامیاب ہوجائے گا ۔ لیکن کتنی دیر لگے گی ۔ ۔ ۔ ؟ "
" پریشان مت ہو بیٹی ۔ " بیگم صاحبہ بولیں ۔ " میرا خیال ہے کہ کافی عرصہ لگے گا ۔ ممکن ہے صبح ہوجائے ۔ لہذا ہم لوگوں کا یہاں اس طرح بیٹھنا ٹھیک نہیں ۔ کیوں نہ ہم ڈرائنگ روم میں چل کر بیٹھں ۔ غالبا کافی اب تیار ہوگئی ہوگی ۔ سلیم کیا آج تم کافی نہ پیو گے ۔ "
" کافی کا کسے ہوش ہے پھوپھی صاحبہ ۔ " سلیم نے سگریٹ کو برآمدے میں بچھے ہوئے قالین پر گرا کر پیر سے رگڑتے ہوئے کہا ۔ " میں نجمہ سے زیادہ پریشان ہوں ۔ مجھے تعجب ہے کہ آپ ایسے وقت میں بھی کافی نہیں بھولیں ۔ "
" تم ساری قالینوں کا ستیاناس کردو گے ۔ " بیگم صاحبہ نے ناک بھوں سکوڑ کر کہا ۔ " کیا سگریٹ کو دوسری طرف نہیں پھینک سکتے ۔ "
" جہنم میں گئی قالین ۔ ۔ ۔ ! " ۔ وہ ناخوشگوار لہجے میں بولا ۔ " میرا دماغ اس وقت ٹھیک نہیں ہے ۔ "
" عورت نہ بنو ۔ " بیگم صاحبہ نے طنزیہ لہجے میں کہا ۔ " ابھی کتنی دیر کی بات ہے کہ تم میری مخالفت کے باوجود بھی آپریشن کی حمایت کررہے تھے ۔ اپنی حالت کو سنبھالو ۔ تمہیں تو ہم لوگوں کو دلاسا دینا چاہئے ۔ "
" میں کوشش کرتا ہوں کہ خود کو سنبھالوں لیکن یہ ممکن نہیں ہے ۔ مجھے کرنل تیواری کے الفاظ یاد آرہے ہیں جس نے کہا تھا بچنے کی امید نہیں ۔ آخر احمق لڑکا کس امید پر آپریشن کررہا ہے ۔ میرا مطلب ہے کہ وہ خطرے کو جلد سے جلد قریب لانے کی کوشش کررہا ہے ۔ "
" نہیں کنور صاحب ۔ ۔ ۔ ! " ڈاکٹر توصیف نے بیمار کے کمرے سے نکلتے ہوئے کہا ۔
 
" مجھے یقین ہوتا جارہا ہے کہ وہ جلد سے جلد نواب صاحب کو خطرات سے دور کرے گا ۔ "
" میں آپ کا مطلب نہیں سمجھا " سلیم اس کی طرف گھوم کر بولا ۔ " کیا آپریشن شروع ہوگیا ۔ "
" نہیں ۔ ۔ ۔ ابھی وہ لوگ تیاری کررہے ہیں اور میرا وہاں کوئی کام بھی نہیں ۔ میں اس لئے یہاں چلا آیا کہ میں یہاں زیادہ کارآمد ثابت ہوسکتا ہوں ۔ " ڈاکٹر توصیف نے مسکراتے ہوئے کہا ۔
" آپ بہت اچھے ہیں ڈاکٹر ۔ ۔ ۔ ممی تو کافی ضبط و تحمل والی ہیں لیکن مجھے اور سلیم کو جلد از جلد طبی امداد کی ضرورت پیش آئے گی ۔ مجھے یہ سن کر خوشی ہوئی کہ آپ اس نوجوان ڈاکٹر کی کامیابی پر اس قدر یقین رکھتے ہیں ۔ وہ کس قدر سنجیدہ اور مطمئن ہے ۔ "
" اور ساتھ ہی ساتھ کافی خوبصورت بھی ۔ " سلیم نے کسی قدر تلخی سے کہا ۔
" تم کیا بک رہے ہو سلیم ۔ " بیگم صاحبہ تیزی سے بولیں اور نجمہ نے شرما کر سر جھکا لیا ۔
" معاف کیجئے گا پھوپھی صاحبہ میں بہت پریشان ہوں ۔ " سلیم یہ کہہ کر ٹہلتا ہوا برآمدے کے دوسرے کنارے تک چلا گیا ۔
" کنور صاحب میرے خیال سے بجلی کا انتظام بالکل ٹھیک ہوگا ۔ شاید ڈائنامو کی دیکھ بھال آپ ہی کرتے ہیں ۔ " ڈاکٹر توصیف نے کہا ۔
" جی ہاں ۔ ۔ ۔ کیوں ۔ ۔ ۔ ڈائنامو بالکل ٹھیک چل رہا ہے لیکن اس کے پوچھنے کا مطلب ۔ ۔ ۔ ! " سلیم نے ڈاکٹر کو گھورتے ہوئے پوچھا ۔
" مطلب صاف ہے ۔ " ڈاکٹر توصیف نے کہا ۔ " اگر خدانخواستہ ڈائنامو فیل ہوگیا تو اندھیرے میں آپریشن کس طرح ہوگا ۔ ایک بڑے آپریشن کے لئے کافی احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے ۔ "
" بظاہر تو ڈائنامو فیل ہونے کا کوئی امکان نہیں لیکن اگر فیل ہی ہوگیا تو میں کیا کرسکوں گا ۔ اف یہ ایک خطرناک خیال ہے ۔ اگر واقعی ایسا ہوا تو ڈاکٹر شوکت بڑی مصیبت میں پڑ جائے گا ۔ اوہ نہیں نہیں ۔ ۔ ۔ میرے خدا ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا ۔ ۔ ۔ ! " کنور سلیم کے چہرے پر بےچینی کے آثار پیدا ہوگئے ۔
اتنے میں ایک نوکر داخل ہوا ۔
 
کیوں کیا ہے ۔ ۔ ۔ ! " سلیم نے اس سے پوچھا ۔
" پروفیسر صاحب نیچے کھڑے ہیں ۔ آپ کو بلا رہے ہیں ۔ " نوکر نے کہا ۔
" پروفیسر ۔ ۔ ۔ مجھے ۔ ۔ ۔ اس وقت ۔ " سلیم نے حیرت سے کہا ۔
" جاؤ بھئی ۔ ۔ ۔ نیچے جاؤ ۔ ۔ ۔ ! " بیگم صاحبہ بےزاری سے بولیں ۔ " کہیں وہ پاگل یہاں نہ چلا آئے ۔ "
" مجھے حیرت ہے کہ وہ اس وقت یہاں کس لئے آیا ہے ۔ " سلیم نے نوکر سے کہا ۔ " کیا تم نے اسے آپریشن کے متعلق نہیں بتایا ۔ ۔ ۔ ؟ "
" حضور میں نے انہیں ہر طرح سمجھایا ۔ ۔ ۔ لیکن وہ سنتے ہی نہیں ۔ "
" خیر چلو دیکھوں کیا بکتا ہے ۔ " سلیم نے کہا ۔ " اس پاگل سے تو میں تنگ آگیا ہوں ۔ "
سلیم نیچے آیا ۔ ۔ ۔ پروفیسر باہر کھڑا تھا ۔ اس نے سردی سے بچنے کے لئے سر پر مفلر لپیٹ رکھا تھا اور چسٹر کا کالر اس کے کانوں کے اوپر تک چڑھا تھا ۔ ان سب باتوں کے باوجود سردی کی وجہ سے سکڑا جارہا تھا ۔
" کیوں پروفیسر کیا بات ہے ؟ " سلیم نے اس کے قریب پہنچ کر پوچھا ۔
" ایک غیر معمولی چمکدار ستارہ جنوب کی طرف نکلا ہے ۔ " پروفیسر نے اشتیاق آمیز لہجے میں کہا ۔ " اگر تم اپنی معلومات میں اضافہ کرنا چاہتے ہو تو میرے ساتھ چلو ۔ "
" جہنم میں گئی معلومات ۔ ۔ ۔ ! " سلیم نے جھنجھلا کر کہا ۔ " کیا اتنی سی بات کے لئے تم دوڑے آئے ہو ۔ "
" بات تو کچھ دوسری ہے ۔ میں تمہیں بہت ہی تعجب خیز چیز دکھانا چاہتا ہوں ۔ ایسی چیز تم نے کبھی نہ دیکھی ہوگی ۔ " اس نے سلیم کا بازو پکڑ کر اسے پرانی کوٹھی کی طرف لے جاتے ہوئے کہا ۔
سلیم چلنے لگا لیکن اس نے لوہے کی موٹی سلاخ کو نہ دیکھا جو پروفیسر اپنی آستین میں چھپائے ہوئے تھا ۔
 
Top