دلیر مجرم ( ابن صفی )

" کھٹ ۔ ۔ ۔ ! " تھوڑی دور چلنے کے بعد پروفیسر نے وہ سلاخ سلیم کے سر پر دے ماری ۔ سلیم بغیر آواز نکالے چکرا کر دھم سے زمین پر آرہا ۔ پروفیسر حیرت انگیز پھرتی کے ساتھ جھکا اور بےہوش سلیم کو اٹھا کر اپنے کاندھے پر ڈال لیا ۔ بالکل اسی طرح جیسے کوئی پلکے پھلکے بچے کو اٹھا لیتا ہے ۔ وہ تیزی سے پرانی کوٹھی کی طرف جارہا تھا ۔ یہ سب اتنی جلدی اور خاموشی سے ہوا کہ وہ نوکر جو ہال میں سلیم کا انتظار کررہا تھا وہ یہی سوچتا رہ گیا کہ اب سلیم پروفیسر کو اس کی کوٹھی میں دھکیل کر واپس آرہا ہوگا ۔
پرانی کوٹھی میں پہنچ کر پروفیسر نے بےہوش سلیم کو ایک کرسی پر ڈال دیا اور جھک کر سر کے اس حصے کو دیکھنے لگا جو چوٹ لگنے کی وجہ سے پھول گیا تھا ۔ اس نے پراطمینان انداز میں اس طرح سر ہلایا جیسے اسے یقین ہو کہ وہ ابھی کافی دیر تک بےہوش رہے گا ۔ پھر اس حیرت انگیز بوڑھے نے سلیم کو پیٹھ پر لاد کر مینار پر چڑھنا شروع کیا ۔ بالائی کمرے میں اندھیرا تھا ، اس نے ٹٹول کر سلیم کو ایک بڑے صوفے پر ڈالا اور موم بتی جلا کر طاق پر رکھ دی ۔
ہلکی روشنی میں چسٹر کے کالر کے سائے کی وجہ سے اس کا چہرہ اور زیادہ خوفناک معلوم ہونے لگا تھا ۔ اس نے سلیم کو صوفے سے باندھ دیا پھر وہ دوربین کے قریب والی کرسی پر بیٹھ گیا اور دوربین کے ذریعے نواب صاحب کے کمرے کا جائزہ لینے لگا ۔ نواب صاحب کے کمرے کی کھڑکیاں کھلی ہوئی تھیں ۔ ڈاکٹر اور نرسوں نے اپنے چہروں پر سفید نقاب لگائے تھے ۔
ڈاکٹر شوکت کھولتے ہوئے پانی سے ربڑ کے دستانے نکال کر پہن رہا تھا ۔ وہ سب آپریشن کی میز کے گرد کھڑے ہوئے تھے ۔ آپریشن شروع ہونے والا تھا ۔
" بہت خوب ۔ ۔ ۔ ! " پروفیسر بڑبڑایا ۔ " میں ٹھیک وقت پر پہنچ گیا لیکن آخر اس سردی کے باوجود بھی انہوں نے کھڑکیاں کیوں نہیں بند کیں ۔ "
نواب صاحب کی کوٹھی کے گرد و پیش عجیب طرح کی پراسرار خاموشی چھائی ہوئی تھی ۔ چھوٹے سے لے کر بڑے تک کو اچھی طرح معلوم تھا کہ بیمار کے کمرے میں کیا ہورہا ہے ۔ بیگم صاحبہ کا سخت حکم تھا کہ کسی قسم کا شور نہ ہونے پائے ۔ لوگ اتنی خاموشی سے چل پھر رہے تھے جیسے وہ خواب میں چل رہے ہوں ۔
 
کوٹھی میں نوکرانیاں پنجوں کے بل چل رہی تھیں ۔ گھر کے سارے کتے باغ کے آخری کنارے پر ایک خالی جھونپڑے میں بند کردیئے گئے تھے تاکہ وہ کوٹھی کے قریب شور نہ مچاسکیں ۔
پروفیسر دوربین پر جھکا ہوا اپنے گرد و پیش سے بےخبر بیمار کے کمرے کا منظر دیکھ رہا تھا ۔ وہ اتنا محو تھا کہ اس نے سلیم کے جسم کی حرکت کو بھی نہ محسوس کیا ۔ سلیم آہستہ آہستہ ہوش میں آرہا تھا ، ایک عجیب قسم کی سنسناہٹ اس کے جسم میں پھیلی ہوئی تھی ۔ اس نے اپنے بازوؤں پر رسی کے تناؤ کو بھی نہ محسوس کیا ۔ دو تین بار سر جھٹکنے کے بعد اس نے آنکھیں کھول دیں ۔ اسے چاروں طرف تاریکی ہی تاریکی پھیلی نظر آرہی تھی ۔ پھر دور ایک ٹمٹماتا ہوا تارہ دکھائی دیا ۔ تارے کے چاروں طرف ہلکی ہلکی روشنی تھی ۔ آہستہ آہستہ روشنی پھیلتی گئی ۔ موم بتی کی لو تھرا رہی تھی ۔ پروفیسر دوربین پر جھکا ہوا تھا ۔ اس نے اٹھنے کی کوشش کی ۔ مگر یہ کیا ۔ ۔ ۔ وہ بندھا کیوں ہے ۔ رفتہ رفتہ کچھ دیر قبل کے واقعات اسے یاد آگئے ۔
" پروفیسر آخر یہ کیا حرکت ہے ۔ " اس نے بھرائی ہوئی نحیف آواز میں قہقہہ لگا کر کہا ۔ " آخر اس مذاق کی کیا ضرورت تھی ۔ "
" اچھا تم جاگ گئے ۔ " پروفیسر نے سر اٹھا کر کہا ۔ " کوئی گھبرانے کی بات نہیں ۔ تم اس وقت اتنے ہی بےبس ہو جتنے کہ میرے دوسرے شکار ۔ ۔ ۔ تمہیں یہ سن کر خوشی ہوگی کہ میں اب گلہریوں ، خرگوشوں اور مینڈکوں کے ساتھ ہی ساتھ آدمیوں کا بھی شکار کرنے لگا ہوں ۔ کیوں ہے نہ دلچسپ خبر ۔ ۔ ۔ ! "
پہلے تو سلیم نہ سمجھ سکا ۔ لیکن دوسرے لمحے میں اسے ایسا محسوس ہوا جیسے اس کے جسم کا سب خون منجمد ہوگیا ہو ۔ وہ لرز گیا ۔ ۔ ۔ وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ بوڑھے نے اپنے دوسرے شکاروں کا حوالہ کیوں دیا ہے ۔ ۔ ۔ تو ۔ ۔ ۔ کیا ۔ ۔ ۔ تو ۔ ۔ ۔ کیا ۔ ۔ ۔ اب وہ اپنی خونی پیاس بجھانے کے لئے جانوروں کے بجائے آدمیوں کا شکار کرنے لگا ۔
 
ارے !
سلیم نے شدید گھبراہٹ کے باوجود بھی لاپروائی کا انداز پیدا کرکے قہقہہ لگانے کی کوشش کی ۔ " بہت اچھے پروفیسر ۔ ۔ ۔ لیکن مذاق کا وقت اور موقع ہوتا ہے ۔ چلو ۔ ۔ ۔ شاباش یہ رسیاں کھول دو ۔ میں وعدہ کرتا ہوں ۔ ۔ ۔ ! "
" صبر ۔ ۔ ۔ صبر ۔ ۔ ۔ میرے اچھے لڑکے ۔ " اس نے اس کی طرف جھک کر مسکراتے ہوئے کہا ۔ " اب میری باری آئی ہاہاہا ۔ "
" تمہاری باری ۔ ۔ ۔ کیا مطلب ۔ ۔ ۔ ! " سلیم نے چونک کر کہا ۔
" کیا تم نہیں جانتے ۔ " پروفیسر نے برا سا منہ بنا کر کہا ۔
" کہو کہو میں کچھ نہیں سمجھ سکا ۔ " سلیم نے بےپروائی سے کہا ۔
" میرا مقصد یہ تھا کہ نوجوان ڈاکٹر اپنے مقصد میں کامیاب ہوجائے ۔ " پروفیسر نے پرسکون لہجے میں کہا ۔ " اور اسے میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ تم دوبارہ آزاد کردئیے گئے تو ایسا نہ ہوسکے گا ۔ کیونکہ مجھے خوف ہے ۔ ۔ ۔ بہرحال میں یہ چاہتا ہوں کہ وہ سکون و اطمینان کے ساتھ نواب صاحب کی جان بچاسکے ۔ اسی لئے میں تمہیں یہاں لایا ہوں ۔ میرے بھولے سلیم کیا سمجھے ؟ میں ۔ ۔ ۔ میں کیا چالاک نہیں ۔ ۔ ۔ ! "
" بہت چالاک ہو کیا کہنے ۔ ۔ ۔ ! " سلیم نے ہنس کر کہا ۔
" تم یہاں بالکل بےبس ہو ۔ یہاں میں تمہاری خبرگیری بھی کروں گا اور بیمار کے کمرے کا منظر بھی دیکھ سکوں گا ۔ " پروفیسر نے دوربین کے شیشے میں آنکھ لگاتے ہوئے کہا ۔ " نہ تو میں احمق ہوں اور نہ میری دوربین ۔ ۔ ۔ محض مذاق ہے ۔ ۔ ۔ کیا سمجھے ۔ "
اچانک سلیم میں ایک حیرت انگیز تبدیلی پیدا ہوگئی ۔ اس کی بھنویں تن گئیں ۔ کچھ دیر قبل جو ہونٹ مسکرا رہے تھے بھینچ کر رہ گئے ۔ آنکھوں کی شرارت آمیز شوخی ایک بہت ہی خوفناک قسم کی چمک میں تبدیل ہوگئی ۔ وہ اب تک ہنس مکھ اور کھلنڈرا نوجوان رہا تھا ۔ ایسا معلوم ہوا جیسے اس کے چہرے پر سے ایک گہری نقاب ہٹ گئی ہو ۔ وہ ایک خونخوار بھیڑئیے کی طرح ہانپ رہا تھا ۔
 
" ان رسیوں کو کھول دو سور کے بچے ۔ " وہ چیخ کر بولا ۔ " ورنہ میں تمہارا سر پھوڑ دوں گا ۔ "
" دھیرج ۔ ۔ ۔ دھیرج ۔ ۔ ۔ میرے پیارے بچے ۔ " پروفیسر نے مڑ کر پرسکون لہجے میں کہا ۔ " کل تک میں یقینا تم سے خائف تھا ۔ مجھے اس کا اعتراف ہے لیکن تم اس وقت میری گرفت میں ہو ۔ ۔ ۔ قاتل ۔ ۔ ۔ سازشی ۔ ۔ ۔ تم بہت خطرناک ہوتے جارہے ہو ۔ ایسی صورت میں تمہاری نگرانی کی ضرورت ہے ۔ "
" تم دیوانے ہو ۔ ۔ ۔ قطعی دیوانے ۔ " سلیم نے تیزی سے کہا ۔
" شاید ایسا ہی ہو ۔ ۔ ۔ ! " پروفیسر نے لاپروائی سے کہا ۔ " لیکن میں اتنا دیوانہ بھی نہیں کہ تمہاری سازشوں کو نہ سمجھ سکوں تم اب تک مجھے ایک بےجان مگر کارآمد اوزار کی طرح استعمال کرتے آئے ہو لیکن آج کی رات میری ۔ ۔ ۔ کیا سمجھے ۔ "
سلیم کے جسم سے پسینہ پھوٹ پڑا ۔ غصے کی جگہ خوف نے لے لی ۔ وہ اب تک پروفیسر کو پاگل سمجھتا تھا کہ وہ جدھر اسے لے جانا چاہتا ہے وہ بغیر سمجھے بوجھے چلا جاتا ہے لیکن پھر بھی وہ ہمیشہ محتاط رہا ۔ اس نے آج تک اپنی اصلی سرگرمیوں کی بھنک بھی پروفیسر کے کان میں نہ پڑنے دی تھی ۔ پھر اسے اس کی سرگرمیوں کا علم کیوں کر ہوا ۔ وہ خوفزدہ ضرور تھا لیکن ناامید نہیں ۔ کیونکہ اس کی زندگی کے دوسرے پہلو کا علم پروفیسر کے علاوہ کسی اور کو نہ تھا ۔ پروفیسر جو پاگل تھا ۔
" تم قتل کی بات کرتے ہو ۔ " سلیم نے سکون کے ساتھ کہا ۔ " خدا کی قسم اگر تم نے یہ رسی فورا ہی نہ کھول دی تو میں اپنی اس دھمکی کو پورا کر دکھاؤں گا ۔ جو اکثر تمہیں دیتا رہا ہوں ۔ میں پولیس کو اطلاع دے دوں گا کہ تم قاتل ہو ۔ اپنے اسسٹنٹ کے قاتل ۔ ۔ ۔ ! "
" میں ۔ ۔ ۔ ! " پروفیسر نے شرارت آمیز لہجے میں کہا ۔ " یہ میں آج ایک نئی اور دلچسپ خبر سن رہا ہوں ۔ میں نے یہ قتل کب کیا تھا ۔ "
 
" کب کیا تھا ۔ ۔ ۔ ! " سلیم نے کہا ۔ " اتنی جلدی بھول گئے ۔ کیا تم نے اپنے اسسٹنٹ نعیم کو اپنے بنائے ہوئے غبارے میں بٹھا کر نہیں اڑایا تھا ۔ جس کا آج تک پتہ نہیں چل سکا ۔ "
پروفیسر خاموش ہوگیا ۔ اس کے چہرے پر عجیب قسم کی مسکراہٹ رقص کررہی تھی ۔ " اور ہاں اسی حادثے کے بعد سے میرا دماغ خراب ہوگیا اور تمہیں اس واقعہ کا علم ہوگیا تھا ۔ لہذا تم نے مجھے بلیک میل کرنا شروع کردیا مجھ سے ناجائز کاموں میں مدد لیتے رہے ۔ مجھ سے روپیہ اینٹھتے رہے ۔ لیکن برخوردار شاید تمہیں اس کا علم نہیں کہ میں حال ہی میں ایک سرکاری جاسوس سے مل چکا ہوں ۔ تم خوفزدہ کیوں ہو رہے ہو ۔ میں نے تمہارے متعلق اس سے کچھ نہ کہا ۔ میں تمہیں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ نعیم میرے غبارے کے ٹوٹنے سے مرا نہیں ۔ بلکہ وہ اس وقت بھی مدراس کے کسی گھٹیا سے شراب خانے میں نشے سے چور اوندھا پڑا ہوگا اور مجھے اس کا بھی علم ہے کہ اس نے جو خطوط مجھے لکھے تھے تم نے راستے ہی سے غائب کردئیے ۔ بہت عرصہ ہوا تمہیں اس کے زندہ ہونے کا ثبوت مل گیا تھا ۔ لیکن تم مجھے پاگل سمجھ کر روپے اینٹھنے کے لئے اندھیرے ہی میں رکھنا چاہتے تھے ۔ کہو میاں سلیم کیسی رہی ۔ کیا اب میں تمہیں وہ باتیں بھی بتاؤں جو میں تمہارے متعلق بھی جانتا ہوں ۔ "
کنور سلیم سہم کر رہ گیا ۔ اسے ایسا معلوم ہورہا تھا جیسے پروفیسر کا پاگل پن کسی نئے موڑ پر پہنچ گیا ہے جسے وہ اب تک ایک بےضرر کیچوا سمجھتا رہا وہ آج پھن اٹھائے اس پر جھپٹنے کی کوشش کر رہا ہے ۔
" خیر پروفیسر چھوڑو ان حماقت کی باتوں کو ۔ " سلیم نے کوشش کرکے ہنستے ہوئے کہا ۔ " میری رسیاں کھول دو ۔ ۔ ۔ آدمی بنو ۔ تم میرے عزیز ترین دوست ہو ۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ تمہیں اس سے بھی بڑی دوربین خرید دوں گا ۔ اتنی بڑی کہ سچ مچ ایک شیشے کا گنبد معلوم ہوگی ۔ "
" ٹھہرو سلیم ٹھہرو ۔ ۔ ۔ ! " پروفیسر نے دوربین کے شیشے پر جھک کر کہا ۔ " میں ذرا بیمار کے کمرے میں دیکھ لوں ۔ ہوں تو ابھی آپریشن شروع نہیں ہوا ۔ ایسے خطرناک آپریشنوں میں کافی تیاری کی ضرورت ہوتی ہے ۔ مجھے یقین ہے کہ نوجوان ڈاکٹر نواب صاحب کی جان بچانے میں کامیاب ہوجائے گا ۔ لیکن سلیم یہ تو بڑی بری بات ہے ۔ اگر نواب صاحب دس بیس برس اور زندہ رہے تو کیا ہوگا ۔ تو تمہاری وراثت تم تک جلد نہ پہنچ سکے گی ۔ "
 
" اس سے کیا ہوتا ہے ۔ " سلیم نے کہا " میں بہرحال ان کا وارث ہوں اور پھر مجھے اس کی ضرورت ہی کیا ہے ۔ کیا میں کم دولت مند ہوں ۔ "
" خیر ۔ ۔ ۔ خیر ۔ ۔ ۔ تمہاری دولت کا حال تو میں اچھی طرح جانتا ہوں اسی لئے تو ایک بےبس بوڑھے سے روپے اینٹھتے رہے سنو بیٹا میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ تمہاری تنگدستی اب نواب صاحب کی موت کی خواہاں ہے اسی لئے میں نے تمہیں اس وقت تکلیف دی ہے مجھے امید ہے کہ تم ایک سعادت مند بچے کی طرح اس کا کچھ خیال نہ کروگے کیا تم نے آج ڈاکٹر توصیف کو اسی لئے شہر نہیں بھیج دیا کہ نوجوان ڈاکٹر سچ مچ پیدل آنے پر مجبور ہوجائے ۔ "
" کیا فضول بکواس ہے ۔ " سلیم نے دوسری طرف منہ پھیرتے ہوئے کہا ۔
" اور تم ایک رسی لے کر درخت پر چڑھ گئے ۔ " پروفیسر بولتا رہا ۔
" کیا تم سمجھتے ہو کہ میں کچھ نہیں جانتا میں یہ بھی جانتا ہوں کہ ڈاکٹر شوکت بچ کیسے گئے لیکن میں تمہیں نہیں بتاؤں گا ۔ تم مجھے اندھیرے کی چمگادڑ سمجھتے ہو اور تمہارا خیال بھی درست ہے ۔ اندھیرا مجھ پر سورج کی طرح روشن رہتا ہے ۔ میں اس سے بھی زیادہ جانتا ہوں ۔ کیا میں نہیں جانتا ۔ "
" تم کچھ نہیں جانتے ۔ " سلیم نے مردہ آواز میں کہا ۔ " یہ محض تمہاری قیاس ہے ۔ "
" تم اسے قیاس کہہ رہے ہو لیکن یہ سو فیصد سچ ہے ۔ دیکھو سلیم ہم دونوں ایک دوسرے کو اچھی طرح جانتے ہیں ۔ کیا میں یہ نہیں جانتا کہ ڈاکٹر شوکت کو قتل کردینے کی ایک وجہ اور بھی ہے جس کا تعلق آپریشن سے نہیں ۔ "
" کیا ۔ ۔ ۔ ! " سلیم بےاختیار چونک کر چیخا ۔
" ٹھیک ٹھیک ۔ " پروفیسر نے سر ہلایا ۔ " تمہاری چیخ ہی اقبال جرم ہے ۔ "
 
" کیا تم نے اس خنجر باز نیپالی کو روپیہ دے کر اس قتل پر آمادہ نہیں کیا تھا ۔ اس احمق نے دھوکے میں ایک بےگناہ عورت کو قتل کردیا ۔ "
" یہ جھوٹ ہے ۔ ۔ ۔ یہ جھوٹ ہے ۔ " سلیم بےصبری سے بولا ۔ لیکن تمہیں یہ سب کیسے معلوم ہوا ۔ یہ محض قیاس ہے ۔ ۔ ۔ بالکل قیاس ۔ ۔ ۔ ! "
" مجھے یہ سب کیسے معلوم ہوا ۔ کیونکہ دنیا میں تم ہی ایک بڑے چالاک ہو ۔ مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ اس دن تم نے ایک رپورٹر پر گولی چلائی تھی اور وہ رائفل میرے ہاتھ میں دے کر خود بھاگ گئے تھے ۔ محض اس لئے کہ مجھے پاگل تصور کرتے ہوئے اس واقعہ کو محض اتفاقیہ سمجھا جائے ۔ اور کہو تو یہ بھی بتادوں گا کہ تم اس رپورٹر کو کیوں مارنا چاہتے ہو ۔ تم اسے پہچان گئے تھے ۔ تمہیں یقین ہوگیا تھا کہ اسے تمہاری حرکتوں کا علم ہوگیا ہے ۔ اس وقت تو وہ بچ گیا تھا لیکن آخر کار اسے تمہاری ہی گولیوں سے ہلاک ہونا پڑا ۔ ۔ ۔ کیوں ہے نا سچ ۔ "
" نہ جانے تم کس کی باتیں کررہے ہو ۔ " سلیم نے سنبھالا لے کر کہا ۔
" انس ۔ ۔ ۔ پک ۔ ۔ ۔ ٹر ۔ ۔ ۔ فری ۔ ۔ ۔ دی کی ۔ " پروفیسر نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے رک رک کر کہا ۔
سلیم کے ہاتھ پیر ڈھیلے پڑ گئے ۔ وہ یک لخت سست پڑ گیا ۔
" تمہاری دھمکیاں میرا اب کچھ نہیں بگاڑ سکتیں ۔ میں اب تمہارے گال پر اس طرح چانٹا مارسکتا ہوں ۔ " پروفیسر نے اٹھ کر اس کے گال پر ہلکی سی چپت لگاتے ہوئے کہا ۔ " کیوں نہ میں ان سب باتوں کی اطلاع نجمہ اور اس کی ماں کو دے دوں ۔ پولیس کو تو میں اسی وقت مطلع کردوں گا لیکن تم یہ سوچتے ہوگے کہ پولیس میری باتوں کا اعتبار نہ کرے گی کیونکہ میں پاگل ہوں ۔ "
" نہیں ، نہیں پروفیسر تم جیت گئے ۔ تم مجھ سے زیادہ چالاک ہو ۔ " سلیم نے آخری پانسہ پھینکا ۔ " اس رسی کو کاٹ دو ۔ میں تمہارے لئے ایک بڑی شاندار آبزرویٹری بنوا دوں گا ۔ "
" تمہارا ذہن کسی وقت بھی چالبازیوں سے باز نہیں آتا ۔ اچھا میں تم سے صلح کرلوں گا اس شرط پر کہ تم اس مینار میں کسی راز کو راز نہ رکھوگے ۔ اس کے بعد یہ یقین رکھو کہ تمہارے سب راز مرتے دم تک میرے سینے میں دفن رہیں گے میں اسی لئے تم سے یہ سب اگلوا رہا ہوں کہ تم نے مجھے بہت دنوں تک بلیک میل کیا ہے ۔ اچھا پہلے یہ بتاؤ کہ واقعی تم نے اس نیپالی کو ڈاکٹر شوکت کو قتل کرانے کی سازش کی تھی ۔ "
 
" میرے خیال سے تم بھی اتنا ہی جانتے ہو جتنا میں ۔ ۔ ۔ ہاں میں نے اس کے لئے روپیہ دیا تھا ۔ "
" پھر تم ہی نے اسے قتل بھی کردیا ۔ اس لئے کہ کہیں وہ نام نہ بتادے ۔ "
" ہاں ۔ ۔ ۔ لیکن ٹھہرو ۔ ۔ ۔ ! "
" انسپکٹر فریدی پر قتل کی نیت سے تم ہی نے گولی یا گولیاں چلائی تھیں ۔ "
" ہاں ۔ ۔ ۔ لیکن تم تو اس طرح سوال کر رہے ہو جیسے جیسے ۔ ۔ ۔ ! "
" تم نے ڈاکٹر شوکت کے گلے میں رسی کا پھندا بھی ڈالا تھا ۔ " پروفیسر نے ہاتھ اٹھا کر اسے بولنے سے روک دیا ۔
" پھر تمہارا دماغ خراب ہوچلا ۔ " سلیم نے کہا ۔ " ہاں میں نے پھندا تو ڈالا تھا ۔ " لیکن پھر اس نے کہا ۔ " تم نے ابھی کہا ہے کہ ہم دونوں ایک دوسرے کو اچھی طرح جانتے ہیں ۔ رسی کو کاٹ دو ۔ میں تم سے قطعی خوفزدہ نہیں ۔ اس لئے کہ اب ہم دونوں دوست ہیں ۔ "
" تمہارے ہوائی قلعے بہت زیادہ مضبوط معلوم نہیں ہوتے ۔ " پروفیسر نے کہا لیکن اس بار اس کی آواز بدلی ہوئی تھی ۔ سلیم چونک پڑا ۔ ۔ ۔ سکڑا سکڑایا ۔ ۔ ۔ پروفیسر تن کر کھڑا ہوگیا ۔ اس نے سر پر بندھا ہوا مفلر کھول دیا ۔ چسٹر کے کالر نیچے گرادئیے اور موم بتی طاق پر سے اٹھا کر اپنے چہرے کے قریب لاکر بولا ۔
" لو بیٹا دیکھ لو میں ہوں تمہارا باپ انسپکٹر فریدی ۔ "
" ارے ۔ ۔ ۔ ! " سلیم کے منہ سے بےاختیار نکلا اور اسے اپنا سر گھومتا ہوا محسوس ہونے لگا لیکن وہ فورا ہی سنبھل گیا ۔ اس کے چہرے کے اتار چڑھاؤ سے صاف ظاہر ہورہا تھا کہ وہ خود پر قابو پانے کی کوشش کررہا ہے ۔
 
" تم کون ہو ۔ ۔ ۔ میں تمہیں نہیں جانتا اور اس حرکت کا کیا مطلب ۔ " سلیم نے گرج کر کہا ۔
" شور نہیں ، شور نہیں ۔ " فریدی نے ہاتھ اٹھا کر کہا ۔ " تم سے زیادہ مجھے پہچان سکتا ہے ۔ جب کہ تم میرے جنازے میں بھی شریک تھے ۔ اس کی تو میں تعریف کروں گا سلیم ! تم بہت محتاط ہو ۔ اگر میں اپنے مکان سے ایک عدد جنازہ نکلوانے کا انتظام نہ کرتا تو تمہیں میری موت کا ہرگز یقین نہ ہوتا ۔ اخباروں میں میری موت کی خبر سن کر شاید تم رات ہی کو شہر آگئے تھے ۔ میرے لئے ہسپتال سے ایک مردہ حاصل کرلینا کوئی مشکل کام نہ تھا اور شاید تم نے دوسرے دن قبرستان تک میری لاش کا پیچھا کیا ۔ میں تسلیم کرتا ہوں کہ تم ایک اچھے سازشی ضرور ہو لیکن اچھے جاسوس نہیں ۔ تم نے یہ بھی نہ سوچا کہ پانچ گولیاں کھانے کے بعد باہوش و حواس پندرہ میل کی مسافت طے کرنا اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے اس رات تم نے سرجنٹ حمید کے گھر کے بھی چکر کاٹے تھے لیکن شاید اس وقت تم وہاں موجود نہ تھے جب وہ نیپالی کے بھیس میں راج روپ نگر اس لئے آیا تھا کہ ڈاکٹر توصیف کو اس بات کی اطلاع پولیس کو کرنے سے روک دے کہ میں اس سے مل چکا ہوں اور راج روپ نگر سے واپسی پر یہ حادثہ پیش آیا ۔ میں نے ایک بار رپورٹر کے بھیس میں مل کر سخت غلطی کی تھی ۔ اس لئے کہ تم مجھے پہچانتے تھے اور کیوں نہ پہچانتے جب کہ میرا کئی بار پیچھا کرچکے تھے ۔ اس رات بھی تم نے میرا پیچھا کیا تھا ۔ جب میں نیپالی کے قتل کے بعد گھر واپس آرہا تھا ۔ ۔ ۔ تم نے کبڑے کے بھیس میں سرجنٹ حمید کو غلط راہ پر لگانے کی کوشش کی ۔ ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ تمہیں شبہ ہوگیا کہ میں تمہیں مشتبہ سمجھتا ہوں لہذا واپسی میں تم نے مجھ پر گولی چلائی اور رائفل پروفیسر کے ہاتھ میں دے کر فرار ہوگئے ۔ پروفیسر سے گفتگو کرتے وقت مں نے اچھی طرح اندازہ لگا لیا تھا کہ گولی چلانا تو درکنار وہ اس رائفل کے استعمال تک سے ناواقف ہے ۔ تم نے مجھے قصبے کی طرف مڑتے دیکھا ، اس موقع کو غنیمت جان کر تم وہاں سے دو میل کے فاصلے پر جھاڑیوں میں جا چھپے اور تم اسی تانگے پر گئے تھے جو سڑک پر کھڑا تھا ۔ تم نے خود ہی مدد کے لئے چیخ کر مجھے اپنی طرف متوجہ کیا ۔ پھر تم نے گولیاں چلانی شروع کر دیں ۔ اس وقت میرے ذہن میں یہ نئی تدبیر آئی جس کے نتیجے میں آج تم ایک چوہے دان میں پھنسے ہوئے چوہے کی طرح بےبس نظر آرہے ہو ۔ " انسپکٹر فریدی اتنا کہہ کر سگریٹ سلگانے کے لئے رک گیا ۔
 
" نہ جانے تم کون ہو اور کیا بک رہے ہو ۔ ۔ ۔ ! " سلیم نے جھنجھلا کر کہا ۔ " خیریت اسی میں ہے کہ مجھے کھول دو ۔ ۔ ۔ ورنہ اچھا نہ ہوگا ۔ ۔ ۔ ! "
" ابھی تک تو اچھا ہی ہو رہا ہے ۔ ۔ ۔ ! " فریدی نے شانے ہلا کر کہا اور جھک کر دوربین میں دیکھنے لگا ۔
قاتل فرار
" تو تم نہیں کھولو گے مجھے ۔ ۔ ۔ دیکھو میں کہے دیتا ہوں ۔ ۔ ۔ ! "
" بس بس زیادہ شور مچانے کی ضرورت نہیں ۔ مجھے ڈاکٹر شوکت کا کارنامہ دیکھنے دو ۔ ۔ ۔ ! "
" دیکھو مسٹر ۔ ۔ ۔ ! " سلیم تیزی سے بولا ۔ " اول تو مجھے یقین نہیں کہ تم سرکاری جاسوس ہو اور اگر ہو بھی تو مجھے اس سے کیا سروکار ۔ آخر تم نے مجھے کس قانون کے تحت یہاں باندھ رکھا ہے ۔ "
" اس لئے کہ تم ایک اقبالی مجرم ہو ۔ ابھی ابھی تم نے اپنے جرموں کا اعتراف کیا ہے ۔ کیا یہ تمہارے باندھ رکھنے کے لئے کافی نہیں ۔ "
" کیا احمقوں کی سی باتیں کرتے ہو ۔ " سلیم نے قہقہہہ لگا کر کہا ۔ " کیا تم اسے سچ سمجھے ہو ۔ "
" جھوٹ سمجھنے کی کوئی وجہ نہیں ۔ " فریدی نے دوربین پر جھکتے ہوئے کہا ۔
" ہوش کے ناخن لو مسٹر سراغ رساں ۔ ۔ ۔ ! " سلیم بولا ۔ " کچھ دیر قبل میں ایک پاگل آدمی سے گفتگو کررہا تھا ۔ اگر میں اس کی ہاں میں ہاں نہ ملاتا تو وہ میرے ساتھ نہ جانے کیا برتاؤ کرتا ۔ میں اس کے ظالمانہ رحجانات سے اچھی طرح واقف ہوں ۔ لہذا جان بچانے کے لئے اس کے علاوہ اور چارہ کیا تھا ۔ واہ میرے بھولے سراغ رساں واہ ۔ ۔ ۔ ! "
 
فریدی سیدھا ہوکر بیٹھ گیا ۔ وہ سلیم کو حیرت سے دیکھ رہا تھا ۔
" خیر جو ہوا سو ہوا ۔ ۔ ۔ مجھے فورا کھول دو ۔ انسان ہی سے غلطی ہوتی ہے ۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ تمہارے افسروں سے تمہاری شکایت نہ کروں گا ۔ "
فریدی اسے بےبسی سے دیکھ رہا تھا اور سلیم کے ہونٹوں پر شرارت آمیز مسکراہٹ کھیل رہی تھی ۔
" خیر خیر کوئی بات نہیں ۔ " فریدی سنبھل کر بولا ۔ " لیکن آج تم نے ڈاکٹر شوکت کو قتل کرنے کی جو کوششیں کی ہیں وہ خود میں نے دیکھی ہیں ۔ ڈاکٹر شوکت کی کار میں نے بگاڑی تھی ۔ میں یہ پہلے سے جانتا تھا کہ اس وقت کوٹھی میں کوئی کار موجود نہیں تھی ۔ میں دراصل اسے پیدل لے جانا چاہتا تھا ۔ محض یہ دیکھنے کے لئے کہ حقیقتا سازشی کون ہے ۔ کیا تم کار کا بہانہ کرکے وہاں سے نہیں ٹل گئے تھے ۔ ۔ ۔ کیا تم نے پروفیسر کو زہریلی سوئی دے کر اسے شوکت سے ہاتھ ملانے کے بہانے چبھو دینے پر آمادہ نہیں کیا تھا ۔ جب تم نے اس کے گلے میں رسی کا پھندا ڈالا تھا تب بھی میں تم سے تھوڑی ہی دور کے فاصلے پر موجود تھا اور میں نے ہی شوکت کو بچایا تھا ۔ "
" نہ جانے تم کون سی داستان امیر حمزہ بیان کررہے ہو ۔ " سلیم نے اکتا کر کہا ۔ " عقل مند آدمی ذرا سوچو تو آخر میں ڈاکٹر شوکت کی جان کیوں لینا چاہوں گا ۔ جب کہ وہ میرے لئے قطعی اجنبی ہو ۔ تم کہو گے کہ میں نے محض اس لئے کیا کہ چچا جان جانبر نہ ہوسکیں لیکن ایسا سوچنا حماقت ہوگی ۔ اگر ایسا ہوتا تو میں پہلے ہی ان کا خاتمہ کردیتا اور کسی کو خبر تک نہ ہوتی ۔ "
" کیا کہا شوکت تمہارے لئے اجنبی ہے ۔ " فریدی نے معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ کہا ۔ " تم اس کے لئے اجنبی ہوسکتے ہو لیکن وہ تمہارے لئے نہیں ۔ کیا بتاؤں کہ تم اس کی جان کیوں لینا چاہتے ہو ۔ "
 
نیا فریدی کے الفاظ کا اثر حیرت انگیز تھا ۔ سلیم پھر سست پڑگیا ۔ اس کی آنکھوں سے خوف کا اظہار ہورہا تھا ۔ اس کے ذہن میں خوف اور دلیری باہمی کش مکش میں مبتلا تھے ۔ آخر کار اس نے خوف پر قابو پالیا ۔
" آخر تم کیا چاہتے ہو ۔ ۔ ۔ ؟ " اس نے فریدی سے کہا ۔
" تم کو قانون کے حوالے کرنا ۔ "
" لیکن کس قانون کی رو سے ۔ "
" تم نے ابھی ابھی اپنے جرموں کا اعتراف کیا ہے ۔ "
" اچھا چلو یہی سہی ۔ " وہ فریدی کی گھبراہٹ سے لطف اندوز ہوتا ہوا بولا ۔ " لیکن تمہارے پاس کیا ثبوت ہے کہ میں نے اقبال جرم کیا ہے ۔ عدالت میں تم کسے گواہ کی حیثیت سے پیش کروگے جب کہ یہاں میرے اور تمہارے سوا کوئی تیسرا نہیں ۔ دیکھو مسٹر فریدی مجھے جھانسا دینا آسان کام نہیں ۔ تم اس طرح عدالت میں میرے خلاف مقدمہ چلا کر کامیاب نہیں ہوسکتے ۔ "
" تب تو مجھ سے بڑی غلطی ہوئی ۔ " فریدی نے ہاتھ ملتے ہوئے بےبسی سے کہا ۔ " کاش میں سرجنٹ حمید کو یہاں لایا ہوتا ۔ "
سلیم نے زور دار قہقہہ لگایا اور بولا ۔ " ابھی کچے ہو مسٹر جاسوس ۔ "
" اف میرے خدایا ۔ " فریدی نے بوکھلا کر کہنا شروع کیا ۔ " لیکن تم نے ابھی میرے سامنے اقبال جرم کیا ہے کہ ۔ ۔ ۔ تم ۔ ۔ ۔ قق ۔ ۔ ۔ قاتل ہو ۔ ۔ ۔ ! "
" ہکلاؤ نہیں پیارے ۔ " سلیم بےساختہ ہنستا ہوا بولا ۔ " لو میں ایک بار پھر اقبال جرم کرتا ہوں کہ میں نے ہی شوکت کو قتل کرنے یا کرانے کی کوشش کی تھی ۔ میں نے ہی نیپالی کو بھی قتل کیا تھا ۔ میں نے تم پر بھی گولیاں برسائی تھیں ۔ لیکن پھر کیا ؟ تم میرا کیا کرسکتے ہو ۔ میں ایک خطاب یافتہ خاندان کا فرد ہوں ۔ راج روپ نگر کا ہونے والا نواب ۔ ۔ ۔ تمہاری بکواس پر کسے یقین آئے گا ۔ "
 
بہت اچھے برخوردار ۔ ۔ ۔ ! " فریدی نے ہنستے ہوئے کہا ۔ " بہت عقل مند ہو لیکن واضح رہے کہ اب تم نے جو اقبال جرم کیا ہے وہ پاگل پروفیسر کے سامنے نہیں بلکہ محکمہ سراغ رسانی کے انسپکٹر فریدی کے سامنے کیا ہے ۔ "
" تو پھر اس سے کیا ۔ ۔ ۔ میں ہزار مرتبہ اقبال جرم کرسکتا ہوں ۔ کیونکہ یہاں ہم دونوں کے سوا اور کون ہے ۔ ۔ کہو تو ایک بار پھر دہرادوں ۔ " سلیم نے قہقہہ لگا کر کہا ۔
" بس بس کافی ہے ۔ " فریدی نے جلی ہوئے سگریٹ کا ٹکڑا پھینکتے ہوئے کہا ۔ " تم فریدی کو نہیں جانتے ۔ ادھر دیکھو اس الماری میں ۔ ۔ ۔ لیکن نہیں تمہیں نہیں دکھائی دیتا ۔ ٹھہرو میں موم بتی اٹھاتا ہوں ۔ دیکھو بیٹا سلیم ۔ ۔ ۔ یہ ایک بہت زیادہ طاقت ور ٹرانسمیٹر ہے اور ابھی حال ہی کی ایجاد ہے ۔ ایک مختصر سی بیٹری اسے چلانے کے لئے کافی ہوتی ہے ۔ کیا سمجھے اس کے ذریعہ میری اور تمہاری آوازیں محکمہ سراغ رسانی کے دفتر تک پہنچ رہی ہوں گی اور ان کا باقاعدہ ریکارڈ لیا جارہا ہے ۔ میں اچھی طرح جانتا تھا کہ تم معمولی ذہانت کے مجرم نہیں ہو ۔ اس لئے میں نے پہلے ہی اس کا انتظام کرلیا تھا ۔ اب کہو کون جیتا ۔ ۔ ۔ ؟ " فریدی نے قہقہہ لگایا اور سلیم نڈھال ہوکر رہ گیا ۔ اس کے چہرے پر پسینے کی بوندیں تھیں ۔ اسے اپنا دل سر کے اس حصے میں دھڑکتا محسوس ہورہا تھا جہاں چوٹ لگی تھی ۔ لیکن اس کے ذہن نے ابھی تک شکست قبول نہ کی تھی ۔ سگریٹ کا جلتا ہوا ٹکڑا اس کے قریب ہی پڑا تھا ۔ اس نے فریدی کی نظر بچا کر جو نہایت اطمینان سے دوربین پر جھکا ہوا تھا اسے پیر سے آہستہ آہستہ اپنی طرف کھسکانا شروع کیا ۔ اب سگریٹ کا جلتا ہوا حصہ رسی کے ایک بل سے لگا ہوا اسے آہستہ آہستہ جلا رہا تھا ۔ سلیم نے اپنے دونوں پیر سمیٹ کر رسی کے سامنے کرلئے ۔ رسی خشک تھی یا سلیم کی تقدیر یاور ۔ آگ اپنا کام کررہی تھی ۔ فریدی بدستور دوربین پر جھکا ہوا تھا ۔ دفعتا سلیم صوفے سمیت دوسری طرف پلٹ گیا ۔ فریدی چونک کر اس کی طرف جھپٹا ۔ لیکن قبل اس کے کہ حیرت زدہ فریدی کچھ کر سکے سلیم رسی کے بلوں سے آزاد ہوچکا تھا ۔
فریدی اس پر ٹوٹ پڑا لیکن سلیم کو زیر کرنا آسان کام نہ تھا ۔ ۔ ۔ تھوڑی دیر بعد دونوں گتھے ہوئے ہانپ رہے تھے ۔ سلیم کو سست پا کر فریدی کو جیب سے پستول نکالنے کا موقع مل گیا ۔ لیکن سلیم نے اس پھرتی کے ساتھ اس سے پستول چھین لیا جیسے وہ اس کا منتظر تھا ۔ اسی کشمکش میں پستول چل گیا ۔ فریدی نے چیخ ماری اور گرتے گرتے اس کا سر دوربین سے ٹکرا گیا ۔ وہ بالکل بےحس و حرکت زمین پر اوندھا پڑا تھا ۔
 
سلیم کھڑا ہانپ رہا تھا ۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اب کیا کرے ۔ دفعتا وہ ٹرانسمیٹر کے سامنے کھڑا ہوکر بری طرح کھانسنے لگا ۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے اس پر کھانسیوں کا دورہ پڑا ہو ۔ پھر بھرائی ہوئی آواز میں بولنے لگا ۔
" میں انسپکٹر فریدی بول رہا ہوں ۔ ابھی سلیم میری گرفت سے نکل گیا تھا ۔ کافی جدوجہد کے بعد میں نے اس کے پیر میں گولی مار دی ۔ اب وہ پھر میری قید میں ہے ۔ میں اسے مقامی پولیس کے سپرد کرنے جارہا ہوں ۔ بقیہ رپورٹ کل آٹھ بجے صبح ۔ "
اب سلیم نے ٹرانسمیٹر کا تار بیٹری سے الگ کرکے اسے فرش پر پٹخ دیا ۔ اس کے پرزے ادھر ادھر بکھر گئے ۔ وہ تیزی سے سیڑھیاں طے کرتا ہوا نیچے اتر رہا تھا ۔
خوفناک لمحے
انسپکٹر فریدی نے اپنی موت کی خبر شائع کرانے میں بڑی احتیاط سے کام لیا تھا ۔ راج روپ نگر کے جنگلوں میں دشمن سے مقابلہ کرتے وقت اچانک اس کے ذہن میں یہ تدبیر آئی تھی ۔ وہ خواہ مخواہ اس طرح چیخ کر بھاگا تھا جیسے وہ زخمی ہوگیا ہو ۔ وہ ہسپتال گیا وہاں چیف انسپکٹر کو بلوا کر اسے سارے حالات بتائے اور اس سے مدد مانگی ۔ یہ چیز مشکل نہ تھی ۔ چیف انسپکٹر نے پولیس کمشنر سے مشورہ کرکے پولیس ہسپتال کے انچارج کرنل تیواری سے سب معاملے طے کرلئے لیکن اسے یہ نہ بتایا گیا کہ ڈرامہ کھیلنے کا مقصد کیا ہے ۔ سول ہسپتال سے خفیہ طریقہ پر ایک لاش حاصل کی گئی ۔ پھر اس پر انسپکٹر فریدی کا میک اپ کیا گیا ۔ یہی وجہ تھی کہ سلیم آسانی سے دھوکا کھا گیا ۔ ان سب باتوں سے فرصت پانے کے بعد انسپکٹر فریدی نے بھیس بدل کر اپنی سرگرمیاں شروع کردیں ۔
 
تیسرے دن اچانک کرنل تیواری کے تبادلے کا حکم آگیا اور اسے صرف اتنی ہی مہلت مل سکی کہ اس نے ڈاکٹر توصیف کو ایک خط لکھ دیا انسپکٹر فریدی کو اب تک سلیم پر محض شبہ ہی شبہ تھا ۔ اس کی تحقیقات کا رخ زیادہ تر پروفیسر ہی کی طرف رہا ۔ اس سلسلے میں اسے اس بات کا علم ہوا کہ سلیم پروفیسر کو دھوکے میں رکھ کر اپنے آلہ کار بنائے ہوئے ہے ۔ پروفیسر کے متعلق اس نے ایک بالکل ہی نئی بات معلوم کی جس کی اطلاع سلیم کو بھی نہ تھی ۔ وہ یہ کہ پروفیسر ناجائز طور پر کوکین حاصل کیا کرتا تھا ۔ ۔ ۔ جس طریقہ سے کوکین اس تک پہنچا کرتی تھی وہ انتہائی دلچسپ تھا ۔ اسے ایک ہفتہ کے استعمال کے لئے کوکین ملا کرتی تھی ۔ کوکین فروشوں کے گروہ کا ایک آدمی ہر ہفتہ ایک پیکٹ کوکین اس کے لئے لاکر پرانی کوٹھی کے باغیچے میں چھپا دیا کرتا تھا ۔ وہیں اس کے دام بھی رکھے ہوئے مل جاتے تھے ۔ دو ایک بار اسے مالیوں نے ٹوکا بھی لیکن اس نے انہیں یہ کہہ کر ٹال دیا کہ وہ دوا کے لئے بیر بہوٹی تلاش کر رہا ہے ۔ فریدی نے فی الحال اس گروہ کو پکڑانے کی کوشش نہ کی کیونکہ اس کے سامنے اس سے بھی زیادہ اہم معاملہ تھا ۔ ڈاکٹر شوکت کے راج روپ نگر جانے سے ایک دن قبل ہی اس نے کوٹھی کے ایک مالی کو بھاری رقم دے کر ملالیا تھا ۔ اس لئے کوٹھی کے افراد کے متعلق سب کچھ جان لینے میں کوئی خاص دقت نہ ہوئی ۔ آپریشن والی رات کو سرجنٹ حمید بھی وہاں آگیا ۔ ۔ ۔ فریدی نے اسے پروفیسر کو بہلا پھسلا کر مالی کے جھونپڑے تک لانے کے لئے تعینات کردیا ۔ اس کے لئے پوری اسکیم پہلے ہی مرتب ہوچکی تھی ۔ حمید نے پروفیسر سے کوکین فروشوں کے گروہ کے ایک نمائندے کی حیثیت سے ملاقات کی اور اسے کوکین دینے کا لالچ دلا کر مالی کے جھونپڑے تک لایا ۔ یہاں اسے کوکین میں کوئی تیز قسم کی نشیلی چیز دی گئی جس کے اثر سے پروفیسر بہت جلد بےہوش ہوگیا ۔
اس کے بعد انسپکٹر فریدی نے اس کے کپڑے خود پہن لئے اور ٹرانسمیٹر کو گٹھڑی میں باندھ کر جھونپڑے سے نکل گیا ۔ جھونپڑے سے باہر جس نے اچھل کود مچائی تھی وہ انسپکٹر فریدی ہی تھا ۔
 
جب فریدی کو گئے ہوئے کافی عرصہ ہوگیا تو حمید کا دل گھبرانے لگا ۔ اس نے سوچا کہ کہیں کوئی حادثہ نہ پیش آگیا ہو ۔ ہر چند کے فریدی نے اسے بےہوش پروفیسر کو سوتا چھوڑ کر کہیں جانے کی اجازت نہ دی تھی لیکن اس کا دل نہ مانا ۔ وہ پروفیسر کو سوتا چھوڑ کر پرانی کوٹھی کی طرف روانہ ہوگیا ۔ مینار میں وہ اس وقت داخل ہوا جب سلیم جاچکا تھا ۔ ٹرانسمیٹر چور چور ہوکر فرش پر بکھرا ہوا پڑا تھا اور فریدی ابھی تک اسی طرح پڑا تھا ۔ حمید بدقت تمام اپنی چیخ روک سکا ۔ اس نے دوڑ کر فریدی کو اٹھانے کی کوشش کی ۔ وہ بےہوش تھا ۔ ۔ ۔ بظاہر کہیں کوئی چوٹ نہ معلوم ہوتی تھی ۔ تھوڑی دیر بعد کراہ کر اس نے کروٹ بدلی ۔ حمید اسے ہلانے لگا ۔ ۔ ۔ وہ چونک کر اٹھ بیٹھا ۔
" تم ۔ ۔ ۔ ! " اس نے آنکھیں ملتے ہوئے کہا ۔ " وہ مردود کہاں گیا ۔ ۔ ۔ ؟ "
" کون ۔ ۔ ۔ ؟ "
" وہی سلیم ۔ ۔ ۔ ! " فریدی نے ہاتھ ملتے ہوئے کہا ۔ " افسوس ہاتھ آکر نکل گیا ۔ " پھر اس نے جلدی جلدی سارے واقعات بتا دئیے ۔
" اس نے تو اپنی دانست میں مار ہی ڈالا تھا ۔ " فریدی نے کہا ۔ " لیکن جیسے ہی اس نے گولی چلائی ۔ ۔ ۔ میں نے پھر ایک بار اسے دھوکہ دینے کی کوشش کی ۔ لیکن برا ہو اس دوربین کا کہ سب کیا دھرا خاک میں مل گیا ۔ اگر میرا سر اس سے نہ ٹکرا جاتا تو میں نے پالا مار لیا تھا ۔ ارے اس ٹرانسمیٹر کو کیا ہوا ۔ ۔ ۔ توڑ دیا کمبخت نے ۔ ایسا دلیر مجرم آج تک میری نظروں سے نہیں گزرا ۔ ۔ ۔ ! "
" آئیے ۔ ۔ ۔ تو چلئے اسے تلاش کریں ۔ " حمید نے کہا ۔
" پاگل ہوئے ہو ۔ ۔ ۔ اب تم اس کی گرد کو بھی نہیں پاسکتے ۔ وہ معمولی ذہانت کا آدمی نہیں ۔ " فریدی نے اٹھتے ہوئے کہا ۔ " دیکھوں تو آپریشن کا کیا رہا ۔ ۔ ۔ ! "
اس نے دوربین کے شیشے سے آنکھ لگا دی ۔ تھوڑی دیر تک خاموش رہا ۔
 
" ارے ۔ ۔ ۔ ! " وہ چونک کر بولا ۔ " یہ پائپ کے سہارے دیوار پر کون چڑھ رہا ہے ۔ "
" سلیم ۔ ۔ ۔ اس کا کیا مطلب ۔ ۔ ۔ ارے وہ تو کھڑکی کے قریب پہنچ گیا ۔ ۔ ۔ یہ اس نے جیب سے کیا چیز نکالی ۔ ۔ ۔ ہیں ۔ ۔ ۔ یہ نلکی کیسی ۔ ۔ ۔ ارے لو غضب وہ نلکی کو ہونٹوں میں دبا رہا ہے ۔ ۔ ۔ قتل قتل ۔ ۔ ۔ حمید اب ڈاکٹر شوکت اتنی خاموشی سے قتل ہوجائے گا کہ اس کے قریب کھڑی نرس کو بھی اس کی خبر نہ ہوگی ۔ اف کیا کیا جائے ۔ ۔ ۔ جتنی دیر میں ہم وہاں پہنچیں گے وہ اپنا کام کرچکا ہوگا ۔ کم بخت پستول بھی تو اپنے ساتھ لیتا گیا ۔ "
" پستول میرے پاس ہے ۔ ۔ ۔ ! " حمید نے کہا ۔
" لیکن بےکار ۔ ۔ ۔ اتنی دور سے پستول کس کام کا ۔ ۔ ۔ اوہ کیا کیا جائے ۔ اس کی نلکی میں وہ زہریلی سوئی ہے ۔ ابھی وہ ایک پھونک مارے گا اور سوئی نلکی سے نکل کر ڈاکٹر شوکت کے جا لگے گی ۔ اف میرے خدا ۔ ۔ ۔ اب کیا ہوگا ۔ وہ شاید نشانہ لے رہا ہے ۔ اوہ ٹھیک یاد آگیا ۔ ۔ ۔ میں نے وہ رائفل نیچے دیکھی تھی ۔ ٹھہرو ۔ ۔ ۔ میں ابھی آیا ۔ " فریدی یہ کہہ کر دوڑتا ہوا نیچے چلا گیا ۔ واپسی پر اس کے ہاتھ میں وہی چھوٹی سی ہوائی رائفل تھی جو اس نے پروفیسر کے ہاتھ میں دیکھی تھی ۔ اس نے اسے کھول دیا ۔ اس کی میگزین میں کئی کارتوس باقی تھی ۔
" ہٹو ۔ ۔ ۔ ہٹو ۔ ۔ ۔ کھڑکی سے جلدی ہٹو ۔ " اس نے کھڑکی سے نشانہ لیا ۔ بیمار کے کمرے سے آتی ہوئی روشنی میں سلیم کا نشانہ صاف نظر آرہا تھا ۔ فریدی نے رائفل چلا دی ۔ سلیم اچھل کر ایک دھماکے کے ساتھ زمین پر آرہا ۔ ۔ ۔ !
" وہ مارا ۔ ۔ ۔ ! " اس نے رائفل پھینک کر زینے کی طرف دوڑتے ہوئے کہا ۔ حمید بھی اس کے پیچھے تھا ۔ یہ لوگ اس وقت پہنچے جب بیگم صاحبہ ، نجمہ ، ڈاکٹر توصیف اور کئی ملازمین وہاں اکھٹے ہوچکے تھے ۔ عورتوں کی چیخ و پکار سن کر ڈاکٹر شوکت بھی نیچے آگیا تھا ۔
فریدی نے اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر پوچھا ۔ " کہو ڈاکٹر آپریشن کا کیا رہا ۔ ۔ ۔ "
شوکت چونک کر دو قدم پیچھے ہٹ گیا ۔
" تم ۔ ۔ ۔ ! " اس نے منہ پھاڑے ہوئے حیرت سے کہا ۔
 
" ہاں ہاں میں بھوت نہیں ۔ بتاؤ آپریشن کا کیا رہا ۔ "
" کامیاب ۔ ۔ ۔ ! " شوکت نے بوکھلا کر کہا ۔ " لیکن ۔ ۔ ۔ لیکن ۔ ۔ ۔ ! "
" میں محض تمہارے لئے مرا تھا ۔ ۔ ۔ میرے دوست اور یہ دیکھو آج جس نے تمہارے گلے میں پھانسی کا پھندا ڈالا تھا تمہارے سامنے مردہ پڑا ہے ۔ "
اب سارے لوگ فریدی کی طرف متوجہ ہوگئے ۔
" آپ لوگ براہ کرم لاش کے قریب سے ہٹ جائیے ۔ " فریدی نے کہا ۔ " اور حمید تم ڈاکٹر شوکت کی کار پر تھانے چلے جاؤ ۔ "
" تم کون ہو ۔ ۔ ۔ ! " بیگم صاحبہ گرج کر بولیں ۔
" محترمہ میں محکمہ سراغ رسانی کا انسپکٹر ہوں ۔ " فریدی نے کہا ۔ " میں سرکس والے نیپالی کے قتل اور ڈاکٹر شوکت کی جان لینے کی کوشش کرنے والے کی لاش تھانے میں لے جانا چاہتا ہوں ۔ "
" نہ جانے تم کیا بک رہے ہو ۔ " نجمہ نے آنسو پونچھتے ہوئے تیزی سے کہا ۔
" جو کچھ میں بک رہا ہوں اس کی وضاحت قانون کرے گا ۔ "
انکشاف
ایک ہفتہ کے بعد نجمہ اور ڈاکٹر شوکت کوٹھی کے پائیں باغ میں چہل قدمی کررہے تھے ۔
" اف فوہ کس قدر شریر ہو تم نجمہ ۔ ۔ ۔ ! " شوکت نے کہا ۔ " آخر بےچارے مالیوں کو تنگ کرنے سے کیا فائدہ ؟ یہ کیاریاں جو تم نے بگاڑ دیں ہیں ۔ مالی اس کا غصہ کس کے اوپر اتاریں گے ۔ "
" میں نے اس لئے بگاڑی ہیں یہ کیاریاں کہ میں تمہارا امتحان لینا چاہتی ہوں ۔ "
" کیا مطلب ۔ ۔ ۔ ! " ڈاکٹر شوکت نے کہا ۔
" یہی کہ تم ان کا آپریشن کرکے انہیں پھر ٹھیک کردو گے ۔ " نجمہ نے شوخی سے کہا ۔
 
" انہیں تو نہیں ۔ ۔ ۔ لیکن شادی ہوجانے کے بعد تمہارا آپریشن کرکے تمہیں بندریا ضرور بنا دوں گا ۔ "
" شادی ۔ ۔ ۔ بہت خوب ۔ ۔ ۔ غالبا تم یہ سمجھتے ہو کہ میں سچ مچ تم سے شادی کرلوں گی ۔ "
" تم کرو یا نہ کرو لیکن میں تو کرہی لوں گا ۔ "
" تو مجھے بندریا بنانے سے کیا فائدہ ۔ ۔ ۔ کیوں نہ تمہارے لئے ایک بندریا پکڑ لی جائے ۔ آپریشن کی زحمت سے بچ جاؤ گے ۔ "
" اچھا ٹھہرو بتاتا ہوں ۔ ۔ ۔ ہلو فریدی بھائی ۔ آؤ آؤ ہم تمہارا ہی انتظار کررہے تھے ۔ "
فریدی اور حمید کار سے اتر رہے تھے ۔
" نواب صاحب کا کیا حال ہے ۔ " فریدی نے شوکت سے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا ۔
" اچھے ہیں ۔ ۔ ۔ تمہیں یاد کررہے تھے ۔ آؤ چلیں اندر چلیں ۔ "
نواب صاحب گاؤ تکئے سے ٹیک لگائے انگور کھا رہے تھے ۔ فریدی کو دیکھ کر بولے ۔ " آؤ آؤ میاں فریدی ۔ ۔ ۔ میں آج تمہیں یاد ہی کر رہا تھا ۔ میں نے اس وقت تمہیں دیکھا تھا جب مجھے بولنے کی اجازت نہ تھی ۔ آج کل تو میرے بیٹے کا حکم مجھ پر چل رہا ہے ۔ " نواب صاحب نے شوکت کی طرف پیار سے دیکھتے ہوئے کہا ۔
" آپ کو اچھا دیکھ کر مجھے انتہائی مسرت ہوئی ۔ " فریدی نے صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا ۔
تھوڑی دیر تک ادھر ادھر کی باتیں کرنے کے بعد نواب صاحب نے کہا ۔ " فریدی میاں تمہیں اس بات کا علم کیوں کر ہوا تھا کہ شوکت میرا بیٹا ہے ۔ "
" میں داستان کا بقیہ حصہ آپ کی زبانی سننا چاہتا ہوں ۔ " فریدی نے کہا ۔
" نہیں بھئی ۔ ۔ ۔ پہلے تم بتاؤ ۔ " نواب صاحب بولے ۔
" میری کہانی زیادہ لمبی نہیں ۔ ۔ ۔ صرف دو لفظوں میں ختم ہوجائے گی ۔ جب میں پہلی بار سلیم سے رپورٹر کے بھیس میں ملا تھا ۔ ۔ ۔ اس وقت میں نے آپ کے والد ماجد کی تصویر دیکھ کر اندازہ لگا لیا تھا کہ اس کوٹھی کا کوئی فرد ڈاکٹر شوکت کو کیوں قتل کرنا چاہتا ہے ۔ شوکت کی شکل ہو بہو نواب صاحب مرحوم سے ملتی ہے لیکن مجھے حیرت ہے کہ جس بات کا علم ڈاکٹر شوکت کو نہیں تھا اس کا علم سلیم کو کیوں کر ہوا ۔ "
 
" غالبا میں بےہوشی کے دوران میں کچھ بک گیا ہوں ۔ مجھے معلوم ہوا ہے کہ سلیم زیادہ تر میرے قریب ہی رہتا تھا ۔ فریدی میاں یہ ایک بہت ہی پردرد داستان ہے ۔ میں تمہیں شروع سے سناتا ہوں ۔ شوکت کی ماں ہمارے خاندان کی نہ تھی ۔ لیکن وہ کسی نچلے طبقے سے بھی تعلق نہ رکھتی تھی ۔ ان میں صرف اتنی خرابی تھی کہ ان کے والدین ہماری طرح دولت مند نہ تھے ۔ ہم دونوں ایک دوسرے کو بےحد چاہتے تھے لیکن والد مرحوم کے ڈر سے کھلم کھلا شادی نہ کرسکتے تھے ۔ لہذا ہم نے چھپ کر شادی کرلی ۔ ایک سال کے بعد شوکت پیدا ہوا لیکن اس کی پیدائش کے چھ ماہ بعد ہی وہ ایک مہلک مرض میں مبتلا ہوگئیں ۔ اسی حالت میں وہ دو سال تک زندہ رہیں ۔ ان کی خواہش تھی کہ وہ اپنے بیٹے کو جاگیردارانہ ماحول سے الگ رکھ کر اعلی تعلیم دلائیں ۔ وہ ایک رحم دل خاتون تھیں ۔ وہ چاہتی تھیں کہ ان کا بیٹا ڈاکٹر کی تعلیم حاصل کرکے خدمت خلق کرے ۔ یہ ان کا خیال تھا اور بالکل درست تھا ۔ کہ جاگیردارانہ ماحول میں پلے ہوئے بچے کے دل میں غریبوں کا درد قطعی نہیں ہوسکتا ۔ جب وہ دم توڑ رہی تھی تو انہوں نے مجھ سے وعدہ لے لیا تھا کہ اس وقت تک میں شوکت پر یہ بات ظاہر نہ کروں گا جب تک وہ ان کی خواہش کے مطابق ایک اچھے کردار کا مالک نہ ہوجائے گا ۔ پھر انہوں نے شوکت کو سبیتا دیوی کے سپرد کردیا ۔ میں خفیہ طور پر سبیتا دیوی کی مدد کیا کرتا تھا ۔ خدا جنت نصیب کرے اسے بڑی خوبیوں کی مالک تھی ۔ آخر کار اس نے شوکت کے لئے جان دے دی ۔ شوکت کی ماں کے انتقال کے بعد میرا دل ٹوٹ گیا اور پھر میں نے دوسری شادی نہیں کی اور دنیا یہی سمجھتی رہی کہ میں ساری زندگی کنوارا ہی رہا ۔ "
نواب صاحب نے پھر شوکت اور نجمہ کی طرف پیار بھری نظروں سے دیکھ کر کہا ۔ " اب میری زندگی میں پھر سے بہار آگئی ہے ۔ ۔ ۔ اے خدا ۔ ۔ ۔ اے خدا ۔ ۔ ۔ ! " ان کی آواز گلوگیر ہوگئی اور ان کی آنکھوں میں آنسو چھلک پڑے ۔
 
Top