دلیر مجرم ( ابن صفی )

عجیب و غریب قتل
" مجھے جانا ہی پڑے گا مامی " ۔ ڈاکٹر شوکت نے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے اوورکوٹ کی دوسری آستین میں ہاتھ ڈالتے ہوئے کہا ۔
" ایشور تمہاری رکشا کرے اور اس کے سوا میں کہہ ہی کیا سکتی ہوں " بوڑھی سبیتا دیوی بولیں ۔ " لیکن سر میں اچھی طرح مفلر لپیٹ لو ۔ ۔ ۔ سردی بہت ہے ۔ "
" مامی ۔ ۔ ۔ ! " ڈاکٹر شوکت بچکانے انداز میں بولے ۔ " آپ تو مجھے بچہ ہی بنائے دے رہی ہیں ۔ ۔ ۔ مفلر سر میں لپیٹ لوں ۔ ۔ ۔ ہاہاہا ۔ ۔ ۔ ! "
" اچھا بوڑھے میاں ! جو تمہارا جی چاہے کرو ۔ " سبیتا دیوی منہ پھیلا کر بولیں ۔ " مگر میں کہتی ہوں یہ کیسا کام ہوگیا ۔ ۔ ۔ نہ دن میں چین نہ رات میں چین ۔ آج آپریشن کل آپریشن ۔ "
" میں اپنی اچھی مامی کو کس طرح سمجھاؤں کہ ڈاکٹر خود آرام کرنے کے لئے نہیں ہوتا بلکہ دوسروں کو آرام پہنچانے کے لئے ہوتا ہے ۔ "
" میں نے تو آج خاص طور سے تمہارے لئے میکرونی تیار کرائی تھی کیا رات کا کھانا بھی شہر میں کھاؤگے ۔ " سبیتا دیوی بولیں ۔
" کیا کروں مجبوری ہے ۔ ۔ ۔ اس وقت سات بچ رہے ہیں ۔ نو بجے رات کو آپریشن ہوگا ۔ کیس ذرا نازک ہے ۔ ۔ ۔ ابھی جاکر تیاری کرنی ہوگی ۔ ۔ ۔ اچھا خداحافظ ۔ "
ڈاکٹر شوکت اپنی چھوٹی سی خوبصورت کار میں بیٹھ کر شہر کی طرف روانہ ہوگیا ۔ وہ سول ہسپتال میں اسسٹنٹ سرجن کی حیثیت سے کام کررہا تھا ۔ دماغ کے آپریشن کا ماہر ہونے کی حیثیت سے اس کی شہرت دور دور تک تھی ۔
 
حالانکہ ابھی اس کی عمر کچھ ایسی نہ تھی وہ چوبیس پچیس برس کا ایک خوبصورت اور وجیہہ نوجوان تھا ۔ اپنی عادات و اطوار اور سلیقہ مندی کی بناء پر وہ سوسائٹی میں عزت کی نظر سے دیکھا جاتا تھا ۔ قربانی کا جذبہ تو اس کی فطرت ثانیہ بن گیا تھا ۔ آج کا آپریشن وہ کل پر بھی ٹال سکتا تھا لیکن اس کے ضمیر نے گوارہ نہ کیا ۔
سبیتا دیوی اکثر اس کی بھاگ دوڑ پر جھلا بھی جایا کرتی تھی ۔ انہوں نے اسے اپنے بیٹے کی طرح پالا تھا ۔ وہ ہندو دھرم کو ماننے والی ایک بلند کردار خاتون تھیں انہوں نے اپنی دم توڑتی ہوئی سہیلی جعفری خانم سے جو وعدہ کیا تھا اسے وہ آج تک نبھائے جارہی تھی ۔ انہوں نے ان کے بیٹے کو ان کی وصیت کے مطابق ڈاکٹری کی اعلی تعلیم دلا کر اس قابل کردیا تھا ۔ وہ آج سارے ملک میں اچھی خاصی شہرت رکھتا تھا ۔ اگرچہ شوکت کی والدہ اس کی تعلیم کے لئے معقول رقم چھوڑ کر مری تھیں ۔ لیکن کسی دوسرے کے بچے کو پالنا آسان کام نہیں اور پھر بچہ بھی ایسا جس کا تعلق غیرمذہب سے ہو ۔ اگر وہ چاہتی تو اسے اپنے مذہب پر چلاسکتی تھیں لیکن ان کی نیک نیتی نے اسے گوارہ نہ کیا ۔ دنیاوی تعلیم کے ساتھ ہی ساتھ انہوں نے اس کی دینی تعلیم کا بھی معقول انتظام کیا تھا ۔ یہی وجہ تھی کہ وہ نوجوان ہونے پر بھی شوکت علی ہی رہا ۔ سبیتا دیوی کے برادری کے لوگوں نے ایک مسلمان کے ساتھ رہنے کی بناء پر ان کا بائیکاٹ کررکھا تھا مگر وہ اپنے مذہب کی پوری طرح پابند تھیں اور شوکت کو اس کے مذہبی احکام کی تعمیل کے لئے مجبور کرتی رہتی تھیں ۔ وہ ڈاکٹر شوکت اور ایک ملازمہ کے ساتھ نشاط نگر نامی قصبہ میں رہ رہی تھیں ۔ جو شہر سے پانچ میل کی سوری پر واقع تھا ۔ یہ ان کی اپنی ذاتی کوٹھی تھی ۔ وہ جوانی ہی میں بیوہ ہوگئی تھیں ۔ ان کے شوہر اچھی خاصی جائیداد کے تھے جو کسی قریبی عزیز کے نہ ہونے کی بناء پر پوری کی پوری انہیں کے حصے میں آئی تھی ۔
ڈاکٹر شوکت کے چلے جانے کے بعد انہوں نے ملازمہ سے کہا ۔ " میرے کمرے میں قندیل مت جلانا ۔ میں آج شوکت ہی کے کمرے میں سوؤں گی ۔ وہ آج رات بھر تھکتا رہے گا ۔ میں نہیں چاہتی کہ جب وہ صبح کو آئے تو اپنے بستر کو برف کی طرح ٹھنڈا اور یخ پائے ۔ جاؤ جاکر اس کا بستر بچھادو ۔ "
 
نوجوان خادمہ انہیں حیرت سے دیکھ رہی تھی ۔ آج پہلی بار اس نے انہیں اس قسم کی گفتگو کرتے سنا تھا ۔ جو پرمعنی بھی تھی اور مضحکہ خیز بھی ۔ وہ کچھ کہنا ہی چاہتی تھی کہ پھر اسے ایک مامتا بھرے دل کی جھلک سمجھ کر خاموش ہورہی ۔
" کیا سوچ رہی ہو ۔ " سبیتا دیوی بولیں ۔
" تو کیا آج رات ہم تنہا رہیں گے ؟ " خادمہ اپنی آواز دھیمی کرکے بولی ۔ " وہ شخص آج پھر آیا تھا ۔ "
" کون شخص ۔ ۔ ۔ ؟ "
" میں نہیں جانتی کہ وہ کون ہے لیکن میں نے کل رات کو بھی اس کو باغ میں چھپ چھپ کر چلتے دیکھا تھا ۔ کل تو میں سمجھی تھی کہ شاید وہ کوئی راستہ بھولا ہوا راہگیر ہوگا ۔ مگر آج چھ بجے کے قریب وہ پھر دکھائی دیا تھا ۔ "
" اچھا ۔ ۔ ۔ ! " سبیتا دیوی سوچ کر بولیں ۔ " وہ شاید ہماری مرغیوں کی تاک میں ہے ۔ میں صبح ہی تھانے کے دیوان سے کہوں گی ۔ "
سبیتا دیوی نے یہ کہہ کر اس کو اطمینان دلا دیا ۔ لیکن خود الجھن میں پڑگئیں ۔ آخر یہ پراسرار آدمی ان کی کوٹھی کے گرد کیوں منڈلاتا رہتا ہے ۔ انہیں اپنے مذہبی ٹھیکیداروں کی دھمکی اچھی طرح یاد تھی ۔ لیکن اتنے عرصے کے بعد ان کی طرف سے بھی کوئی خطرناک اقدام کوئی خاص معنی نہ رکھتا تھا ۔ اس قسم کی نہ جانے کتنی گتھیاں ان کے ذہن میں رینگتی تھیں ۔ آخر کار تھک ہار کر تسکین قلب کے لئے انہیں اپنے پہلے ہی خیال کی طرف لوٹ آنا پڑا ۔ یعنی وہ شخص وہ کوئی معمولی چور تھا جسے ان کی مرغیاں پسند آگئی تھیں ۔ جیسے ہی تھانے کے گھنٹے نے دس بجائے وہ سونے کے لئے ڈاکٹر شوکت کے کمرے میں چلی گئیں ۔ انہوں نے رات کھانا بھی نہیں کھایا ۔
خادمہ ان کی افتاد طبع سے واقف تھی ۔ اس لئے اس نے زیادہ اصرار بھی نہیں کیا ۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ بھی سونے کے کمرے میں چلی گئی ۔ وہ لیٹنے ہی والی تھی کہ اس نے صدر دروازے کو دھماکے کے ساتھ بند ہوتے سنا ۔
 
اسے خیال پیدا ہوا کہ ڈاکٹر شوکت خلاف توقع واپس آگیا ہے ۔ وہ برآمدے سے نکل آئی ۔ باغ میں سبیتا دیوی کی غصیلی آواز سنائی دی ۔ وہ کسی مرد سے تیز لہجے میں بات کررہی تھیں ۔ وہ حیرت سے سننے لگی ۔ وہ ابھی باہر جانے کا ارادہ ہی کررہی تھی کہ سبیتا دیوی بڑبڑاتی ہوئی آتیں دکھائی دیں ۔
" تم " وہ بولیں ۔ " ارے لڑکی تو کیوں اپنی جان کے پیچھے پڑی ہوئی ہے اس سردی میں بغیر کمبل اوڑھے باہر نکل آئی ہے ۔ ۔ ۔ نہ جانے کیسی ہیں آج کل کی لڑکیاں ۔ "
" کون تھا ۔ " خادمہ نے ان کی بات سنی ان سنی کرتے ہوئے پوچھا ۔
" وہی آدمی تو نہیں تھا ۔ " خادمہ نے خوفزدہ ہوکر پوچھا ۔
" نہیں وہ نہیں تھا ۔ سردی بہت ہے صبح بتاؤں گی ۔ ۔ ۔ اچھا اب جاؤ ۔ "
خادمہ متحیر ہوتی چلی گئی ۔ ہر چند اس واقعہ کی کوئی اہمیت نہ رہی ہو ۔ لیکن یہ اسے حد درجہ پراسرار معلوم ہورہا تھا ۔ ۔ ۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ خراٹے لینے لگی ۔
دوسرے دن صبح آٹھ بجے جب ڈاکٹر شوکت واپس آیا تو اس نے ملازمہ کو حد درجہ پریشانی اور سراسیمگی کی حالت میں پایا ۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ سبیتا دیوی خلاف معمول ابھی سو رہی ہیں ۔ حالانکہ ان کا روز کا معمول تھا کہ صبح تقریبا پانچ ہی بجے سے اٹھ کر پوجا پاٹھ کے انتظام میں مشغول ہوجایا کرتی تھیں ۔ شوکت کو بھی اس واقعہ سے تشویش ہوگئی ۔ لیکن اس نے سوچا کہ شاید رات میں زیادہ دیر تک جاگی ہوں گی ۔ اس نے ملازمہ کو اطمینان دلا کر ناشتہ لانے کو کہا ۔
 
نو بج گئے لیکن سبیتا دیوی نہ اٹھیں ۔ اب شوکت کی پریشانی حد سے زیادہ بڑھ گئی ۔ اس نے دروازہ پیٹنا شروع کیا ۔ ۔ ۔ لیکن بےسود ۔ ۔ ۔ اند سے کوئی جواب نہ ملا ۔ ہار کر اس نے ایک بڑھئی بلوایا ۔
دروازہ ٹوٹتے ہی اس کی چیخ نکل گئی ۔
سبیتا دیوی سر سے پاؤں تک کمبل اوڑھے چت لیٹی ہوئی تھی اور ان کے سینے میں ایک خنجر اس طرح پیوست تھا کہ صرف ایک دستہ نظر آرہا تھا ۔ بستر خون سے تر تھا ۔
ڈاکٹر شوکت ایک مضبوط دل کا آدمی ہوتے ہوئے بھی تھوڑی دیر کے لئے بیہوش سا ہوگیا ۔ ہوش آتے ہی وہ بچوں کی طرح سسکیاں لیتا ہوا زمین پر گر پڑا ۔
انسپکٹر فریدی
سارے گھر میں ایک عجیب سی ماتمی فضا طاری تھی ۔ قصبہ کے تھانے پر اطلاع ہوگئی تھی اور اس وقت ایک سب انسپکٹر اور دو ہیڈ کانسٹیبل مقتولہ کے کمرے کے سامنے بیٹھے سرگوشیاں کررہے تھے ۔ خادمہ کے بیان پر انہوں نے اپنی تشویش کے گھوڑے دوڑانے شروع کردئیے تھے ۔ ان کے خیال میں وہی پراسرار آدمی قاتل تھا جو رات کو باغ میں ٹہلتا ہوا پایا گیا تھا اور سبیتا دیوی رات میں اسی سے جھگڑا کر رہی تھیں ۔ ڈاکٹر شوکت ان کی بحثوں سے قطعی یرمطمئن تھا ۔ جیسے جیسے وہ اپنی تجربہ کاری کا اظہار کررہے تھے اس کا غصہ بڑھتا جارہا تھا ۔ ویسے بھی وہ اپنے قصبہ کی پولیس کا ناکارہ سمجھتا تھا ۔ اسی لئے اس نے محکمہ سراغ رسانی کے انسپکٹر فریدی کو ایک نجی خط لکھ کر بلوایا تھا اور اس کا انتظار کررہا تھا ۔ فریدی ان چند انسپکٹروں میں تھا جو بہت ہی اہم کاموں کے لئے وقف تھے لیکن ذاتی تعلقات کی بناء پر ڈاکٹر شوکت کو پورا یقین تھا کہ اسے یہ کیس سرکاری طور پر نہ بھی سونپا گیا تو وہ نجی طور پر اے اپنے ہاتھ میں لے لے گا ۔
 
تقریبا دو گھنٹے کے بعد انسپکٹر فریدی بھی اپنے اسسٹنٹ سرجنٹ حمید کے ساتھ وہاں پہنچ گیا ۔ انسپکٹر فریدی تیس بتیس سال کا ایک قوی ہیکل جوان تھا ۔ اس کی کشادہ پیشانی کے نیچے دو بڑی بڑی خواب آلودہ آنکھیں اس کی ذہانت اور تدبر کی آئینہ دار تھیں ۔ اس کے لباس کے رکھ رکھاؤ اور تازہ شیو سے معلوم ہورہا تھا وہ ایک بااصول اور سلیقہ مند آدمی ہے ۔ سرجنٹ حمید کے خدوخال میں قدرے زنانہ پن کی جھلک تھی ۔ اس کے انداز سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ بےجا نازبرداریوں اور اپنے حسن کی نمائش کا عادی ہے ۔ اس نے کوئی بہت ہی تیز خوشبو والا سینٹ لگا رکھا تھا ۔ اس کی عمر چوبیس سال سے زیادہ نہ تھی لیکن اس چھوٹی سی عمر میں بھی بلا کا ذہین تھا ۔ اسی ذہانت کے بناء پر انسپکٹر فریدی کے تعلقات اس سے دوستانہ تھے ۔ دونوں کی آپس کی گفتگو سے افسر یا ماتحتی کا پتہ لگانا ناممکن نہیں تو دشوار ضرور تھا ۔
تھانہ کے سب انسپکٹر اور دیوان ان کی غیر متوقع آمد سے گھبرا سے گئے کیونکہ انہیں ان کے آنے کی اطلاع نہ تھی ۔ انہیں ان کی غیر ضروری آمد کچھ ناگوار سی گزری ۔
" ڈاکٹر شوکت ۔ ۔ ۔ ! " فریدی نے اپنا ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا ۔ " اس نقصان کی تلافی ناممکن ہے البتہ رسمی طور پر میں اپنے غم کا اظہار ضرور کروں گا ۔ "
" انسپکٹر آج میری ماں مرگئی ۔ " شوکت کی آنکھوں میں آنسو جھلک آئے ۔
" صبر کرو ۔ ۔ ۔ تمہیں ایک مضبوط دل کا آدمی ہونا چاہئے ۔ " فریدی نے اس کا شانہ تھپکتے ہوئے جواب دیا ۔
" کہئے داروغہ جی کچھ سراغ ملا ۔ " اس نے سب انسپکٹر کی طرف مڑ کر کہا ۔
" ارے صاحب ! ہم بیچارے بھلا سراغ لگانا کیا جانیں ۔ " سب انسپکٹر طنزیہ انداز میں بولا ۔
فریدی نے جواب کی تلخی محسوس ضرور کی لیکن وہ صرف مسکرا کر خاموش ہوگیا ۔
" شوکت صاحب ! یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ میں آج کل چھٹی پر ہوں ۔ " فریدی بولا ۔ " اور پھر دوسری بات یہ کہ عموما قتل کے کیس اس وقت ہمارے پاس آتے ہیں جب سول پولیس تفتیش میں ناکام رہتی ہے ۔ "
تھانے کے انسپکٹر کی آنکھیں خوشی سے چمک اٹھیں ۔
انسپکٹر فریدی نے اس تغیر کو محسوس کرلیا اور اپنے مخصوص دل آزار اور شرارت آمیز لہجہ میں بولا ۔ " لیکن میں ذاتی تعلقات کی بناء پر نجی طور پر اس کیس کو اپنے ہاتھ میں لوں گا ۔ " تھانے کے سب انسپکٹر کی آنکھوں کی چمک دفعتا اس طرح غائب ہوگئی جیسے سورج کا چہرہ سیاہ بادل ڈھانپ لیتے ہیں ۔ اس کا منہ لٹک گیا ۔
فریدی نے واقعات سننے کے بعد خادمہ کا بیان لینے کی خواہش ظاہر کی ۔ خادمہ نے شروع سے آخر تک رات کے سارے واقعات دہرا دئیے ۔
 
" کیا تم بتا سکتی ہو کہ رات میں تم نے ان واقعات کے بعد بھی کوئی آواز سنی تھی ۔ "
" جی نہیں ۔ ۔ ۔ سوائے اس کے کہ وہ دیوی جی کے بڑبڑانے کی آواز تھی ۔ وہ اکثر سوتے وقت بڑبڑایا کرتی تھیں ۔ "
" ہوں ۔ ۔ ۔ کیا تم بتا سکتی ہو کہ وہ کیا بڑبڑارہی تھیں ۔ "
" کچھ بےربط باتیں تھیں ۔ ٹھہرئیے یاد کرکے بتاتی ہوں ۔ ہاں ٹھیک یاد ایا ۔ ۔ ۔ وہ راج روپ نگر ۔ ۔ ۔ راج روپ نگر چلا رہی تھیں ۔ میں نے اس پر کوئی دھیان نہیں دیا ۔ کیونکہ میں ان کی عادت سے واقف تھی ۔ "
" راج روپ نگر ۔ ۔ ۔ ! " فریدی نے دھیرے سے دہرایا اور کچھ سوچنے لگا ۔
" حمید ۔ ۔ ۔ تم نے اس سے پہلے بھی یہ نام سنا ہے ؟ "
حمید نے نفی میں سر ہلادیا ۔
" ڈاکٹر شوکت تم نے ۔ '
" میں نے تو آج تک نہیں سنا ۔ "
" کیا سبیتا دیوی نے بھی یہ نام کبھی نہیں لیا ۔ "
" میری یاد داشت میں تو نہیں ۔ " ڈاکٹر شوکت نے ذہن پر زور دیتے ہوئے جواب دیا ۔
" ہوں ۔ ۔ ۔ اچھا ۔ ۔ ۔ ! " فریدی نے کہا ۔ " اب میں ذرا لاش کا معائنہ کرنا چاہتا ہوں ۔ "
وہ سب لوگ اس کمرے میں آئے جہاں لاش پڑی ہوئی تھی ۔ چارپائی کے سرہانے والی کھڑکی کھلی ہوئی تھی ۔ اس میں سلاخیں نہیں تھیں ۔ انسپکٹر فریدی دیر تک لاش کا معائنہ کرتا رہا ۔ پھر اس نے وہ چھرا سب انسپکٹر کی اجازت سے مقتولہ کے سینے سے کھینچ لیا اور اس کے دستوں پر انگلیوں کے نشانات ڈھونڈنے لگا ۔
پھر کھڑکی کی طرف گیا اور جھک کر نیچے کی طرف دیکھنے لگا ۔ کھڑکی سے تین فٹ نیچے تقریبا ایک فٹ چوڑی کارنس تھی ۔ جس سے ایک بانس کی سیڑھی ٹکی ہوئی تھی ۔ کھڑکی پر پڑی ہوئی گرد کی تہہ کئی جگہ سے صاف تھی اور ایک جگہ ہاتھ کی پانچ انگلیوں کے نشان ۔ " یہ تو صاف ظاہر ہے کہ قاتل اس کھڑکی سے داخل ہوا ۔ " فریدی نے کہا ۔
 
" یہ تو اتنا صاف ہے کہ گھر کی خادمہ بھی یہی کہہ رہی تھی " تھانے کے سب انسپکٹر نے مضحکہ اڑانے کے انداز میں کہا ۔
فریدی نے مسکرا کر اس کی طرف دیکھا اور پھر خاموشی سے خنجر کا جائزہ لینے لگا ۔
" قاتل نے دستانے پہن رکھے تھے اور وہ ایک مشتاق خنجرباز معلوم ہوتا ہے " انسپکٹر فریدی بولا ۔ " اور وہ ایک غیرمعمولی طاقتور انسان ہے ۔ ۔ ۔ داروغہ جی اس خنجر کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے ۔ "
خنجر ۔ ۔ ۔ جی ہاں یہ بھی بہت مضبوط معلوم ہوتا ہے ۔ " سب انسپکٹر مسکرا کر بولا ۔
" جی نہیں میں اس کی ساخت کے بارے میں پوچھ رہا ہوں ۔ "
" اس کی ساخت کے بارے میں صرف لوہار ہی بتاسکتے ہیں ۔ "
" جی نہیں ۔ ۔ ۔ میں بھی بتا سکتا ہوں ۔ اس قسم کے خنجر نیپال کے علاوہ اور کہیں نہیں بنتے ۔ "
" نیپال ۔ ۔ ۔ ! " ڈاکٹر شوکت تحیرآمیز لہجہ میں بولا اور بےتابانہ انداز میں ایک قدم پیچھے ہٹ گیا ۔
" کیوں ۔ ۔ ۔ کیا بات ہے ۔ " فریدی اسے گھورتا ہوا بولا ۔
" کوئی بات نہیں ۔ " شوکت نے خود پر قابو حاصل کرتے ہوئے کہا ۔
" خیر ہاں تو میں یہ کہہ رہا تھا کہ اس قسم کے خنجر سوائے نیپال کے اور کہیں نہیں بنائے جاتے اور ڈاکٹر میں تم سے کہوں گا کہ ۔ ۔ ۔ ! " ابھی وہ اتنا ہی کہہ پایا تھا کہ ایک کانسٹیبل نے آکر اطلاع دی کہ اس شخص کا پتہ لگ گیا ہے جس سے کل رات سبیتا دیوی کا جھگڑا ہوا تھا ۔
سب لوگ بےتابانہ انداز میں دروازے کی طرف بڑھے ۔ باہر ایک باوردی کانسٹیبل کھڑا تھا ۔ آنے والے کانسٹیبل نے بتایا رات سبیتا دیوی اسی سے جھگڑرہی تھی ۔ اسے جلدی تھی کیونکہ وہ گشت پر جارہا تھا ۔ لیکن وہ پھر بھی چلا آیا ۔ سبیتا دیوی نے اسے بتایا کہ کوئی آدمی ان کی مرغیوں کی تاک میں ہے اور اس سے ادھر کا خیال رکھنے کی تاکید کی ۔ اس نے جواب دیا کہ پولیس مرغیاں تاکنے کے لئے نہیں ہے اور پھر وہ دوسری چوکی کا کانسٹیبل ہے ۔ اسی پر بات بڑھ گئی اور جھگڑا ہونے لگا ۔
 
تھانے کا داروغہ اسے الگ لے جاکر اس سے پوچھ گچھ کرنے لگا اور فریدی نے بلند آواز میں کہنا شروع کیا ۔ " ہاں تو ڈاکٹر میں تم سے یہ کہہ رہا تھا کہ یہ خنجر دراصل تمہارے سینے میں ہونا چاہئے تھا ۔ سبیتا دیوی دھوکے میں قتل ہوگئیں اور جب قاتل کو اپنی غلطی کا علم ہوگا تو وہ پھر تمہارے پیچھے پڑجائے گا ۔ اب پھر اسی کمرے میں چل کر میں اس کی تشریح کروں گا ۔ "
اس انکشاف پر سب کے سب بوکھلا گئے ۔ شوکت گھبراہٹ میں جلدی جلدی پلکیں جھپکا رہا تھا ۔ داروغہ جی کی آنکھیں حیرت سے پھٹی ہوئی تھیں اور سرجنٹ حمید انہیں مضحکہ خیز انداز میں گھور رہا تھا ۔
سب لوگ پھر لاش والے کمرے میں واپس آئے ۔ انسپکٹر فریدی کھڑکی کی کارنس پر اتر گیا اور اس لائن کے سارے کمروں کی کھڑکیوں کا جائزہ لیتا ہوا لوٹ آیا ۔
اب معاملہ بالکل ہی صاف ہوگیا کہ سبیتا دیوی ڈاکٹر ہی کے دھوکے میں قتل ہوئی ہیں ۔ اگر قاتل سبیتا دیوی کو قتل کرنا چاہتا تھا تو اسے یہ کیا معلوم کہ سبیتا دیوی شوکت کے کمرے میں سوئی ہوئی تھی ۔ اگر وہ تلاش کرتا ہوا اس کمرے تک پہنچا تھا تو دوسری کھڑکیوں پر بھی اس قسم کے نشانات ہوسکتے تھے جیسے کہ اس کھڑکی پر ملے ہیں اور پھر سبیتا دیوی کے قتل کی صرف ایک ہی وجہ ہوسکتی تھی وہ ان کی جائیداد ۔ اگر ان کا ترکہ ان کے کسی عزیز کو پہنچتا ہوتا تو وہ انہیں اب سے دس برس قبل ہی قتل کردیتا یا کرادیتا ۔ جبکہ انہوں نے اپنی جائیداد دھرم شالہ کے نام وقف کرنے کا صرف ارادہ ہی کیا تھا ۔ اب جبکہ دس سال گزچکے ہیں اور جائیداد کے متعلق پوری قانونی وصیت محفوظ ہے ان کے قتل کی کوئی معقول وجہ سمجھ میں نہیں آسکتی اور اگر قاتل چوری کی نیت سے اتفاقا اس کمرے میں داخل ہوا جس میں وہ سورہی تھیں تو کیا وجہ ہے کہ کوئی چیز چوری نہیں کی گئی ۔
" ممکن ہے کہ اس کمرے میں اس کے داخل ہوتے ہی مقتولہ جاگ اٹھی ہو اور وہ پکڑے جانے کے خوف سے اسے قتل کرکے کچھ چرائے بغیر ہی بھاگ کھڑا ہوا ۔ " داروغہ نے اپنی دانست میں بڑا تیر مارا ۔
 
" مائی ڈیئر ۔ ۔ ۔ ! " فریدی جوش میں بولا ۔ لیکن میں ثابت کرسکتا ہوں کہ قاتل حملہ کے بعد کافی دیر تک اس کمرے میں ٹھہرا ہے ۔ "
سب انسپکٹر کے چہرے پر تمسخر آمیز مسکراہٹ پھیل گئی اور سرجنٹ حمید اسے دانت پیس کر گھورنے لگا ۔
انسپکٹر فریدی نے نہایت سکون کے ساتھ کہنا شروع کیا ۔ " جس وقت شوکت نے مقتولہ کو دیکھا وہ سر سے پیر تک کمبل اوڑھے ہوئی تھی ظاہر ہے کہ اس سے پہلے کوئی کمرے میں داخل بھی نہ ہوسکتا تھا کیونکہ دروازہ اندر سے بند تھا ۔ لہذا لاش پر پہلے شوکت ہی کی نظر پڑی ۔ اس لئے کسی اور کے منہ ڈھانکنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ اب ذرا لاش کے قریب آئیے ۔ ۔ ۔ داروغہ جی میں آپ سے کہہ رہا ہوں ۔ یہ دیکھئے مقتولہ کا نچلا ہونٹ اس کے دانتوں میں دب کر رہ گیا ہے ۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ قاتل نے ایک ہاتھ سے مقتولہ کا منہ دبایا تھا اور دوسرے ہاتھ سے وار کیا تھا ۔ پھر فورا ہی منہ دبائے ہوئے اس کے پیروں پر بیٹھ گیا تھا تاکہ وہ جنبش نہ کرسکے اور وہ اس حالت میں اس وقت تک رہا جب تک کہ مقتولہ نے دم نہ توڑ دیا ۔ ہونٹ کا دانتوں میں دبا ہونا ظاہر کررہا ہے کہ وہ تکلیف کی شدت میں صرف اتنا کرسکی کہ اس نے دانتوں میں ہونٹ لیا لیکن قاتل کے ہاتھ کے دباؤ کی وجہ سے ہونٹ پھر اپنی اصلی حالت پر نہ آسکا اور اسی حالت میں لاش ٹھنڈی ہوگئی ۔ قاتل کو اپنے مقصد کی کامیابی پر اتنا یقین تھا کہ اس نے کمبل الڑ کر اپنے شکار کا چہرہ تک دیکھنے کی زحمت گوارہ نہ کی ۔ ممکن ہے کہ اس نے بعد میں منہ کھول کر دیکھا بھی ہو مگر نہیں اگر ایسا کرتا تو پھر دوبارہ ڈھانک دینے کی کوئی ایسی خاص وجہ سمجھ میں نہیں آتی ۔ "
" کیا یہ ممکن نہیں کہ یہ خودکشی کا کیس ہو ۔ " سب انسپکٹر نے پھر اپنی قابلیت کا اظہار کیا ۔
" جناب والا ۔ ۔ ۔ ! " سرجنٹ حمید بولا " اتنی عمر آئی لیکن کمبل اوڑھ کر آرام سے خنجر گھونپ لینے والا ایک بھی نہ ملا کہ میں اس کی قدر کرسکتا ۔ "
سب انسپکٹر نے جھینپ کر سر جھکا لیا ۔
 
انسپکٹر فریدی ان سب باتوں کو سنی ان سنی کرکے ڈاکٹر شوکت کو مخاطب کرکے بولا ۔ " ڈاکٹر ۔ ۔ ۔ تمہاری جان خطرہ میں ہے ۔ ہر ممکن احتیاطی تدابیر کرو ۔ یہ پلاٹ تمہارے ہی قتل کے لئے بنایا گیا تھا ۔ سوچ کر بتاؤ کیا تمہارا کوئی ایسا دشمن ہے جو تمہاری جان تک لے لینے میں دریغ نہ کرے گا ۔ "
" میری دانست میں تو کوئی ایسا آدمی نہیں ۔ آج تک میرے تعلقات کسی سے خراب نہیں رہے لیکن ٹھہرئیے ۔ ۔ ۔ آپ کو یاد ہوگا کہ میں نیپالی خنجر کے تذکرے پر بےاختیار چونک پڑا تھا ۔ ۔ ۔ تقریبا پندرہ یوم کا تذکرہ ہے کہ ایک رات میں ایک بہت ہی خطرناک قسم کا آپریشن کرنے جارہا تھا کہ ایک اچھی حیثیت کا نیپالی میرے پاس آیا اور مجھ سے درخواست کی کہ میں اسی وقت ایک مریض کو دیکھ لوں ۔ جس کی حالت خطرناک تھی ۔ میں نے معذوری ظاہر کی ۔ وہ رونے اور گڑگڑانے لگا ۔ لیکن میں مجبور تھا ۔ کیونکہ پہلے ہی سے ایک خطرناک کیس میرے پاس تھا ۔ خطرہ تھا کہ اسی رات اس کا آپریشن نہ کیا گیا تو مریض کی موت واقع ہوجائے گی ۔ آخر جب وہ نیپالی مایوس ہوگیا تو مجھے برا بھلا کہتے ہوئے واپس چلاگیا ۔ " دوسرے دن صبح جب میں ہسپتال جارہا تھا تو چرج روڈ کے چوراہے پر پیٹرول لینے کے لئے رکا تو وہاں مجھے وہی نیپالی نظر آیا ۔ مجھے دیکھ کر اس نے نفرت سے برا سا منہ بنایا اور اپنی زبان میں کچھ بڑبڑاتا ہوا پھر میری طرف مکا تان کر کہنے لگا ۔
" شالا ۔ ۔ ۔ ہمارا آدمی مرگیا ۔ اب ہم تمہاری خبر لے لے گا ۔ " میں نے ہنس کر موٹر اسٹارٹ کی ۔
" ہوں اچھا ۔ ۔ ۔ ! " فریدی بولا ۔ " اس کی شکل و صورت کے بارے میں کچھ بتاسکتے ہو ۔ "
" یہ ذرا مشکل ہے کیونکہ مجھے تو سارے نیپالی ایک ہی جیسی شکل و صورت کے لگتے ہیں ۔ " ڈاکٹر شوکت نے جواب دیا ۔
" خیر اپنی حفاظت کا خاص خیال رکھو ۔ ۔ ۔ اچھا داروغہ جی میرا کام ختم ۔ ۔ ۔ ڈاکٹر شوکت میں نے تم سے وعدہ کیا تھا کہ اس کیس کو اپنے ہاتھ میں لوں گا مجھے افسوس ہے کہ بعض وجوہ کی بناء پر ایسا نہ کرسکوں گا ۔ میرا خیال ہے کہ داروغہ جی بحسن و خوبی اس کام کو انجام دیں گے ۔ اچھا اب اجازت چاہوں گا ۔ ہاں ڈاکٹر ذرا کار تک چلو میں تمہارے تحفظ کے لئے تمہیں کچھ ہدایت دینا چاہتا ہوں ۔ ۔ ۔ اچھا داروغہ جی آداب عرض ۔ "
 
کار کے قریب پہنچ کر فریدی نے جیب سے ایک چھوٹا سا پستول نکالا اور ڈاکٹر شوکت کو تھما دیا ۔ " یہ لو حفاظت کے لئے میں تمہیں دیتا ہوں ۔ ۔ ۔ اور کل تک اس کا لائسنس بھی تم تک پہنچ جائے گا ۔ "
" جی نہیں ۔ ۔ ۔ شکریہ اس کی ضرورت نہیں ۔ ۔ ۔ ! " ڈاکٹر شوکت نے منہ پھلا کر جواب دیا ۔
" احمق آدمی بگڑ گئے ۔ ۔ ۔ کیا ؟ کیا سچ مچ تم یہ سمجھتے ہو کہ میں اس واقعہ کی تفتیش نہ کروں گا ۔ ہاں ان گدھوں کے سامنے میں نے یہی مناسب سمجھا کہ نجی تفتیش سے انکار کردوں ۔ یہ کم بخت صرف بڑے افسروں تک شکایت پہنچانے میں قابل ہوتے ہیں ۔ " ڈاکٹر شوکت کے چہرے پر رونق آگئی اور اس نے ریوالور لے کر جیب میں ڈال لیا ۔
" دیکھو جب بھی کوئی ضرورت پیش آئے مجھے بلوالینا ۔ بہت ممکن ہے کہ میں دس بجے رات تک پھر آؤں ۔ ہوشیاری سے رہنا ۔ ۔ ۔ اچھا خداحافظ ۔ "
ڈرائیور نے کار اسٹارٹ کردی ۔
سورج آہستہ آہستہ غروب ہورہا تھا ۔
قاتل کا قتل
" کیوں بھئی کہو کیسا کیس ہے ۔ " فریدی نے سگار سلگا کر سارجنٹ حمید کی طرف جھکتے ہوئے کہا ۔ " میرے خیال میں تو ایسا دلچسپ کیس بہت دنوں کے بعد ہاتھ آیا ہے ۔ "
" آپ تو دن رات کیسوں ہی کے خواب دیکھا کرتے ہیں ۔ کچھ حسین دنیا کی طرف بھی نظر دوڑائیے ۔ " حمید بیزاری سے بولا ۔
 
" تو اس کا یہ مطلب ہے کہ تم اس میں دلچسپی نہ لوگے ۔ میں تو آج ہی تفتیش شروع کررہا ہوں ۔ "
" بس مجھے تو معاف ہی رکھئے ۔ میں نے تضیع اوقات کے لئے ایک ماہ کی چھٹی نہیں لی ۔ "
" بےکاری میں تمہارا دل نہ گھبرائے گا ۔ ۔ ۔ ؟ "
" بےکاری کیسی ۔ " حمید جلدی سے بولا ۔ " کیا آپ کو معلوم نہیں کہ میں نے ابھی حال ہی میں ایک عدد عشق کیا ہے ۔ "
" ایک عدد ۔ ۔ ۔ ! " فریدی نے ہنس کر کہا ۔ " اگر اس تفتیش کے سلسلے میں کئی عدد اور ہوجائیں تو کیا مضائقہ ہے ۔ "
" شاید آپ کا اشارہ ڈاکٹر شوکت کی نوجوان خادمہ کی طرف ہے " حمید منہ بنا کر بولا ۔ " معاف کیجئے گا ۔ ۔ ۔ میرا معیار اتنا گرا ہوا نہیں ہے ۔ "
" بڑے گدھے ہو تم ۔ ۔ ۔ مجھے اس کا خیال بھی نہ تھا ۔ " فریدی نے سگار منہ سے نکال کر کہا ۔ " خیر ہٹاؤ ۔ ۔ ۔ کوئی اور بات کریں ۔ ہاں بھئی سنا ہے کہ دو تین دن ہوئے ریلوے گراؤنڈ پر سرکس آیا ہوا ہے ، بہت تعریف سنی ہے ، چلو آج سرکس دیکھیں ۔ صرف ساڑھے چار بجے ہیں ۔ کھیل سات بجے شروع ہوگا ۔ اتنی دیر میں ہم لوگ کھانا بھی کھالیں گے ۔ "
" ارے ۔ ۔ ۔ یہ کیا بد پرہیزی کرنے جارہے ہیں ۔ ارے لاحول ولا ۔ ۔ ۔ آپ اور لغویات ۔ ۔ ۔ یقین نہیں آتا کیا آپ نے سراغ رسانی سے توبہ کرلی ۔ " حمید نے عجیب سا منہ بنا کر کہا ۔
" تم نے یہ کیسے سمجھ لیا کہ وہاں میں بےمطلب جارہا ہوں ۔ تم دیکھو گے کہ سراغ رسانی کیسے کی جاتی ہے ۔ " فریدی نے جواب دیا ۔
" معاف کیجئے گا ۔ ۔ ۔ اس وقت تو آپ کسی چھ پیسے والے جاسوسی ناول کے مشہور جاسوس کی طرح بول رہے ہیں ۔ " حمید بولا ۔
 
" تم نے تو سرکس دیکھا ہوگا ۔ بھلا بتاؤ کس کھیل کی خصوصیت کے ساتھ تعریف تھی ۔ "
" ایک نیپالی کا موت کے خنجر کا کھیل ۔ " حمید نے جواب دیا ۔ پھر اچھل کر کہنے لگا ۔ " کیا مطلب ۔ ۔ ۔ ! "
فریدی نے اس کے سوال کو ٹالتے ہوئے کہا ۔ " اچھا اس کھیل میں ہے کیا ۔ ۔ ۔ تم تو ایک بار شائد دیکھ کر بھی آئے ہو ۔ "
" ہاں ایک لڑکی لکڑی کے تختے سے لگ کر کھڑی ہوجاتی ہے اور ایک نیپالی اس طرح خنجر پھینکتا ہے کہ وہ اس کے چاروں طرف لکڑی کے تختے میں چبھتے جاتے ہیں ۔ آخر میں جب وہ ان خنجروں کے درمیان سے نکلتی ہے تو لکڑی کے تختے پر چبھے ہوئے خنجروں میں اس کا خاکہ سا بنا رہ جاتا ہے ۔ بھئی واقعی کمال ہے ، اگر خنجر ایک سوت بھی آگے بڑھ کر پڑے تو لڑکی کا قلع قمع ہوجائے ۔ "
اچھا ان خنجروں کی لمبائی کیا ہوگی ۔ " فریدی نے سگار کا کش لے کر کہا ۔
" میرے خیال سے وہ خنجر ویسے ہی ہیں جیسا کہ آپ نے مقتولہ کے سینے سے نکالا تھا ۔ "
" بہت خوب ۔ ۔ ۔ ! " فریدی اطمینان سے بولا ۔ " اچھا یہ بتاؤ کہ خنجر کا کتنا حصہ لکڑی کے تختے میں گھس جاتا ہوگا ۔ "
" میرے خیال سے چوتھائی ۔ "
" معمولی طاقت والے کے بس کا روگ نہیں ۔ " فریدی نے حمید کی پیٹھ ٹھونکتے ہوئے جوش میں کہا ۔ " اچھا میرے دوست آج سرکس ضرور دیکھا جائے گا ۔ "
" آخر آپ کا مطلب کیا ہے ؟ " حمید بےچینی سے بولا ۔
" ابھی فی الحال تو کوئی خاص مطلب نہیں ۔ بقول تمہارے ابھی تو میری اسکیم کسی چھ پیسے والے ناول کے سراغ رساں ہی کی اسکیم کی طرح معلوم ہورہی ہے آگے اللہ مالک ہے ۔ "
" آخر کچھ بتائیے تو ۔ ۔ ۔ ! "
" کیا یہ ممکن نہیں کہ سبیتا دیوی کے قتل میں اسی نیپالی کا ہاتھ ہو ۔ "
 
" یوں تو اس کے قتل میں میرا بھی ہاتھ ہوسکتا ہے ۔ " حمید ہنس کر بولا ۔
" تم نہیں سمجھتے ۔ ۔ ۔ ایک لحیم شحیم عورت کی لاش کو پھڑکنے سے روک دینا کسی معمولی طاقت والے آدمی کا کام نہیں ۔ ایک ذبح کئے ہوئے مرغ کو سنبھالنا دشوار ہوجاتا ہے ۔ پھر جس شخص نے ڈاکٹر کو دھمکی دی تھی وہ بھی نیپالی ہی تھا ۔ ایسی صورت میں کیوں نہ ہم اس شبہ سے فائدہ اٹھائیں ۔ میں یہ وثوق کے ساتھ نہیں کہتا کہ قتل میں سرکس والے نیپالی ہی کا ہاتھ ہے ۔ پھر بھی دیکھ لینے میں کیا مضائقہ ہے ۔ اگر کوئی سراغ نہ مل سکا تو تفریح ہی ہوجائے گی ۔ "
" خیر میں سرکس دیکھنے سے انکار نہیں کرسکتا کیونکہ اس میں تقریبا دو درجن لڑکیاں کام کرتی ہیں ۔ لیکن میں یہ بھی نہیں چاہتا کہ وہاں کھیل کے دوران میں آپ بحث مباحثہ کرکے میرا مزہ کرکرا کریں ۔ "
" تم چلو تو سہی ۔ ۔ ۔ مجھے یہ بھی معلوم ہے ۔ " فریدی نے بجھا ہوا سگار سلگا کر کہا ۔
شہر پہنچ کر ان کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب انہوں نے ایوننگ نیوز میں نشاط نگر کے قتل کا حال پڑھا ۔ اس پر انسپکٹر فریدی کے دلائل کا ایک ایک لفظ تحریر تھا اور یہ بھی لکھا تھا کہ انسپکٹر فریدی نے نجی طور پر موقعہ واردات کا معائنہ کیا تھا لیکن انہوں نے نجی تفتیش کرنے سے انکار کردیا ہے ۔ اس میں یہ بھی لکھا تھا کہ انسپکٹر فریدی چھ ماہ کی رخصت پر ہیں ۔ اس لئے خیال ہوتا ہے کہ شائد سرکاری طور پر بھی یہ کام ان کے سپرد نہ کیا جاسکے ۔
" میرے خیال سے جس شخص کو ہم لوگ ڈاکٹر کا پڑوسی سمجھ رہے تھے وہ ایوننگ نیوز کا نامہ نگار تھا ۔ " فریدی نے کہا ۔ " اب تک تو حالات ہمارے ہی موافق ہیں ۔ اس خبر کا آج ہی شائع ہوجانا بڑا اچھا ہوا ۔ اگر واقعی سرکس والا نیپالی ہی قاتل ہے تو ہم با آسانی اس پر اس خبر کا ردعمل دیکھ سکیں گے ۔ "
" ہوں ۔ ۔ ۔ ! " حمید کچھ سوچتے ہوئے یوں ہی بےخیالی میں بولا ۔
" کیا کوئی نئی بات سوجھی ۔ " فریدی نے کہا
" میں کہتا ہوں آخر درد سری مول لینے سے فائدہ ؟ کیوں نہ ہم لوگ چھٹیاں ہنسی خوشی گزاریں ۔ "
 
" اچھا بکواس بند ۔ " فریدی جھلا کر بولا ۔ " اگر تم میرا ساتھ نہیں دینا چاہتے تو نہ دو ۔ میں تمہیں مجبور نہیں کروں گا ۔ "
" آپ تو خفا ہوگئے ۔ میرا مطلب تھا کہ اگر آپ بھی اس چھٹی میں ایک آدھ عشق کرلیتے تو اچھا ہوتا ۔ " حمید نے منہ بنا کر کچھ اس انداز میں کہا کہ فریدی مسکرائے بغیر نہ رہ سکا ۔
" اچھا تو کھانا اس وقت میرے ہی ساتھ کھانا ۔ " فریدی نے اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا ۔
" بسرو چشم ۔ ۔ ۔ ! " حمید نے سنجیدگی سے کہا " بھلا میں اپنے آفیسر کا حکم کس طرح ٹال سکتا ہوں ۔ "
وہ سرکس شروع ہونے سے پندرہ منٹ قبل ہی ریلوے گراؤنڈ پہنچ گئے اور بکس کے دو ٹکٹ لے کر رنگ کے سب سے قریب والے صوفے پر جا بیٹھے ۔ دو چار کھیلوں کے بعد اصل کھیل شروع ہوا ۔ ایک ناٹے قد کا مضبوط نیپالی ایک خوبصورت لڑکی کے ساتھ رنگ میں داخل ہوا ۔
" غضب کی لونڈیا ہے " حمید نے دھیرے سے کہا ۔
" ہشت ۔ ۔ ۔ ! " فریدی نیپالی کو بغور دیکھ رہا تھا ۔
" خواتین و حضرات ۔ ۔ ۔ ! " رنگ لیڈر کی آواز گونجی ۔ " اب دنیا کا خوف ناک ترین کھیل شروع ہونے والا ہے ۔ یہ لڑکی اس لکڑی کے تختے سے لگ کر کھڑی ہوجائے گی اور یہ نیپالی اپنے خنجر سے لڑکی کے گرد اس کا خاکہ بنائے گا ۔ نیپالی کی ذرا سی غلطی یا لڑکی کی خفیف کی جنبش اسے موت کی آغوش میں پہنچا سکتی ہے ۔ لیکن دیکھئے کہ یہ لڑکی موت کا مقابلہ کس ہمت سے کرتی ہے اور نیپالی کا ہاتھ کتنا سدھا ہوا ہے ۔ ملاحظہ فرمائیے ۔ "
" کھٹ ۔ ۔ ۔ ! " ایک سنسناتا ہوا خنجر لڑکی کے سر کے بالوں کو چھوتا ہوا لکڑی کے تختے میں تین انچ دھنس گیا ۔ لڑکی سر سے پیر تک لرز گئی ۔ رنگ ماسٹر نے نیپالی کی طرف حیرت سے دیکھا اور اس کے ہونٹ مضطربانہ انداز میں ہلنے لگے ۔ دیکھنے والوں پر سناٹا چھا گیا ۔
 
" کھٹ ۔ ۔ ۔ ! " دوسرا خنجر لڑکی کے کاندھے کے قریب فراک کے پف کو چھدتا ہوا تختے میں دھنس گیا ۔ ۔ ۔ لڑکی کا چہرہ دودھ کی طرح سفید نظر آنے لگا ۔ رنگ لیڈر نے بےتابانہ رنگ کا چکر لگا ڈالا ۔ نیپالی کھڑا دسمبر کی سردی میں اپنے چہرے سے پسینہ پونچھ رہا تھا ۔
" کیا اس دن بھی یہ خنجر جسم کے اتنے قریب لگے تھے ۔ " فریدی نے جھک کر حمید سے پوچھا ۔
" ہرگز نہیں ۔ ۔ ۔ ہرگز نہیں ۔ " حمید نے بےتابی سے کہا ۔ " ان کا فاصلہ تین یا چار انچ تھا ۔ ۔ ۔ ! "
" کھٹ ۔ ۔ ۔ ! " اب کی بار لڑکی کے منہ سے چیخ نکل گئی ۔ اس کے بازو سے خون نکل رہا تھا ۔ فریدی نے نیپالی کو شرابیوں کی طرح لڑکھڑاتے رنگ کے باہر جاتے دیکھا ۔ فورا ہی پانچ چھ جوکروں نے رنگ میں آکر اچھل کود مچادی ۔
" خواتین و حضرات ۔ ۔ ۔ " رنگ ماسٹر کی آواز گونجی ۔ " مجھے اس واقعہ پر حیرت ہے ۔ نیپالی پندرہ بیس برس سے ہمارے سرکس میں کام کررہا ہے لیکن کبھی ایسا نہیں ہوا ۔ ضرور کچھ بیمار ہے ۔ جس کی اطلاع ہمیں نہ تھی ۔ بہرحال ابھی بہت سے دلچسپ کھیل باقی ہیں ۔ "
" آؤ چلیں ۔ ۔ ۔ ! " فریدی نے حمید کا ہاتھ پکڑ کر اٹھتے ہوئے کہا ۔
متعدد خیموں کے درمیان سے گزرتے ہوئے وہ تھوڑی دیر بعد منیجر کے دفتر کے سامنے پہنچ گئے ۔ فریدی نے چپڑاسی سے اپنا ملاقاتی کارڈ اندر بھجوادیا ۔
منیجر اٹھ کر ہاتھ ملاتے ہوئے پرتپاک لہجے میں بولا ۔ " فرمائیے کیسے تکلیف فرمائی ۔ "
" میں خنجر والے نیپالی کے بارے میں پوچھنا چاہتا ہوں ۔ "
" کیا عرض کروں انسپکٹر صاحب ۔ ۔ ۔ مجھے خود حیرت ہے ۔ آج تک ایسا واقعہ نہیں ہوا ۔ مجھے سخت شرمندگی ہے ۔ کیا قانونا مجھے اس کے لئے جواب دہ ہونا پڑے گا ۔ کچھ سمجھ ہی میں نہیں آتا ۔ آج کئی دن سے اس کی حالت بہت ابتر ہے ۔ وہ بےحد شراب پینے لگا ہے ۔ ہر وقت نشے میں ڈینگیں مارتا رہتا ہے ۔ ابھی کل ہی اپنے ایک ساتھی سے کہہ رہا تھا کہ اب اتنا دولت مند ہوگیا ہوں ۔ مجھے نوکری کی بھی پرواہ نہیں ۔ اس نے اسے نوٹوں کی کئی گڈیاں بھی دکھائی تھیں ۔ "
 
" اس کی یہ حالت کب سے ہے ؟ "
" میرا خیال ہے کہ راج روپ نگر کے دوران قیام ہی میں اس کی حالت میں تبدیلی واقع ہونی شروع ہوگئی تھی ۔ "
" راج روپ نگر ۔ ۔ ۔ ؟ " حمید نے چونک کر کہا ۔ لیکن فریدی نے اس کے پیر پر اپنا پیر رکھ دیا ۔ " کیا راج روپ نگر میں بھی آپ کی کمپنی نے کھیل دکھائے تھے ۔ "
" جی نہیں ۔ ۔ ۔ وہاں کہاں ۔ ۔ ۔ وہ تو ایک قصبہ ہے ۔ ہم لوگ وہاں ٹھہر کر اپنے دوسرے قافلے کا انتظار کررہے تھے ۔ "
" راج روپ نگر ۔ ۔ ۔ وہی تو نہیں جو وجاہت مرزا کی جاگیر ہے ۔ "
" جی ہاں ۔ ۔ ۔ جی ہاں وہی ۔ "
" کیا یہ نیپالی پڑھا لکھا ہے ۔ "
" جی ہاں ۔ ۔ ۔ میٹرک پاس ہے ۔ "
" میں اس سے بھی کچھ سوالات کرنا چاہتا ہوں ۔ "
" ضرور ضرور ۔ ۔ ۔ میرے ساتھ چلئے ۔ لیکن ذرا ہمارا بھی خیال رکھئے گا ۔ میں نہیں چاہتا کہ کمپنی کا نام بدنام ہو ۔ "
" آپ مطمئن رہئے ۔ "
وہ تینوں خیموں کی قطاروں سے گزرتے ہوئے ایک خیمے کے سامنے رک گئے ۔
" اندر چلئے ۔ ۔ ۔ ! " منیجر بولا ۔
" نہیں صرف آپ جائیے ۔ آپ اس سے ہمارے بارے میں کہئے گا ۔ اگر وہ ملنا پسند کرے گا تو ہم لوگ ملیں گے ورنہ نہیں ۔ " فریدی نے کہا ۔
منیجر پہلے تو کچھ دیر تک حیرت سے اسے دیکھتا رہا پھر اندر چلا گیا ۔ فریدی نے اپنی آنکھیں خیمے کی جالی سے لگادیں ۔ نیپالی ابھی تک کھیل ہی کے کپڑے پہنے ہوئے تھا ۔ وہ بہت پریشان نظر آرہا تھا ۔ منیجر کے داخل ہوتے ہی وہ اچھل کر کھڑا ہوگیا ۔ لیکن پھر اس کے چہرے پر قدرے اطمینان کے آثار نظر آنے لگے ۔
 
" اوہ ۔ ۔ ۔ آپ ہیں ۔ میں سمجھا ۔ ۔ ۔ جی کچھ نہیں ۔ مجھے سخت شرمندگی ہے ۔ " وہ رک رک کر بولا ۔
" تو کیا تم کسی اور کا انتظار کررہے تھے ۔ " منیجر نے کہا ۔
" جج جی ۔ ۔ ۔ ! " وہ ہکلانے لگا " نن نہیں ۔ ۔ ۔ بب بالکل نہیں ۔ "
باہر فریدی نے گہرا سانس لیا اور اس کی آنکھوں میں عجیب قسم کی وحشیانہ چمک پیدا ہوگئی ۔
" میں معافی چاہتا ہوں ۔ ۔ ۔ مجھے افسوس ہے ۔ " نیپالی خود کو سنبھال کر بولا ۔
" میں اس وقت اس معاملے پر گفتگو کرنے نہیں آیا ہوں ۔ " منیجر بولا ۔ " بات دراصل یہ ہے کہ ایک صاحب تم سے ملنا چاہتے ہیں ۔ "
نیپالی بری طرح کانپنے لگا ۔
" مجھ سے مل ۔ ۔ ۔ ملنا چاہتے ہیں ۔ " وہ بدحواس ہوکر بیٹھتے ہوئے ہکلایا ۔ " مگر میں نہیں ملنا چاہتا ۔ وہ مجھ سے کیوں ملنا چاہتے ہیں ۔ "
" میں یہی بتانے کے لئے ملنا چاہتا ہوں کہ میں کیوں ملنا چاہتا ہوں ۔ " فریدی نے خیمے میں داخل ہوکر کہا ۔ اس کے پیچھے حمید بھی تھا ۔
" میں آپ کو نہیں جانتا ۔ " اس نے خود کو سنبھال کر کہا ۔ " میرا خیال ہے کہ اس سے پہلے میں آپ سے نہیں ملا ۔ "
" میں خفیہ پولیس کا انسپکٹر ہوں ۔ ۔ ۔ ! " فریدی نے جلدی سے کہا ۔
" خفیہ پولیس ۔ ۔ ۔ ! " وہ اس طرح بولا جیسے کوئی خواب میں بڑبڑاتا ہے ۔ " لیکن کیوں ۔ ۔ ۔ آخر آپ مجھ سے کیوں ملنا چاہتے ہیں ۔ "
" میں تمہیں پریشان کرنا نہیں چاہتا لیکن تم اگر میرے سوالات کا صحیح صحیح جواب دوگے تو پھر تمہیں ڈرنے کی ضرورت نہیں ۔ کیا تم کل رات نشاط نگر ڈاکٹر شوکت کی کوٹھی پر گئے تھے ۔ "
فریدی نے یہ جملہ نہایت سادگی اور اطمینان سے ادا کیا ۔ لیکن اس کا اثر کسی بم کے دھماکے سے کم نہ تھا ۔ نیپالی بےاختیار اچھل پڑا ۔ فریدی کو اب پورا یقین ہوگیا ۔
 
" نہیں نہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ! " وہ کپکپاتی ہوئی آواز میں چیخا ۔ " تم سفید جھوٹ بول رہے ہو ۔ ۔ ۔ میں وہاں کیوں جاتا ۔ ۔ ۔ نہیں ۔ ۔ ۔ یہ جھوٹ ہے ۔ ۔ ۔ پکا جھوٹ ۔ "
" اس سے کوئی فائدہ نہیں مسٹر ۔ ۔ ۔ ! " فریدی بولا ۔ " میں جانتا ہوں کہ کل رات تم ڈاکٹر شوکت کو قتل کرنے گئے اور اس کے دھوکے میں سبیتا دیوی کو قتل کر آئے ۔ اگر تم سچ مچ بتا دوگے تو میں تمہیں بچانے کی کوشش کروں گا کیونکہ میں جانتا ہوں کہ تمہیں کسی دوسرے نے قتل پر آمادہ کیا تھا ۔ "
" آپ مجھے بچانے کی کوشش کریں گے ۔ " وہ بےبسی سے بولا ۔ " اوہ میرے خدا ۔ ۔ ۔ میں نے بھیانک غلطی کی ۔ "
" شاباش ، ہاں آگے کہو ۔ " فریدی نرم لہجے میں بولا ۔ سرکس کا منیجر انہیں حیرت اور خوف کی نظروں سے دیکھ رہا تھا ۔
نیپالی انسپکٹر فریدی کے اس اچانک حملے سے پہلے ہی سراسیمہ ہوگیا تھا ۔ اس نے ایک بےبس بچے کی طرح کہنا شروع کیا ۔ ۔ ۔ " جی ہاں ۔ ۔ ۔ میں ضرور بتاؤں گا ۔ مگر میں بےقصور ہوں ۔ آپ نے کہا میں تمہیں بچالوں گا ۔ اس نے مجھے دس ہزار روپے پیشگی دیئے تھے اور قتل کے بعد دس ہزار روپے اور دینے کا وعدہ کیا تھا ۔ اف میں نے کیا کیا ۔ ۔ ۔ اس کا نام ۔ ۔ ۔ ہاں اس کا نام ہے ۔ ۔ ۔ ارررہا ۔ ۔ ۔ اف ۔ ۔ ۔ ! " وہ چیخ کر آگے کی طرف جھک گیا ۔
" وہ دیکھو ۔ ۔ ۔ ! " سرجنٹ حمید چیخا ۔
کسی نے خیمے کے پیچھے سے نیپالی پر حمملہ کیا تھا ۔ خنجر خیمے کے کپڑے کی دیوار پھاڑتا ہوا اس کی پیٹھ میں گھس گیا تھا ۔ وہ بکس پر بیٹھے بیٹھے دو تین بار تڑپا پھر خنجر کی گرفت سے آزاد ہوکر فرش پر آرہا ۔
" حمید ۔ ۔ ۔ باہر ۔ ۔ ۔ باہر ۔ ۔ ۔ دیکھو جانے نہ پائے ۔ " انسپکٹر فریدی غصہ میں چلایا ۔
چیخ کی آواز سن کر کچھ اور لوگ بھی آئے ۔ سب نے مل کر قاتل کو تلاش کرنا شروع کیا لیکن بےسود ۔ ۔ ۔ منیجر کو گھبراہٹ کی وجہ سے غش آگیا ۔
 
Top