دلیر مجرم ( ابن صفی )

" فریدی میاں ۔ ۔ ۔ ! " نواب صاحب بولے ۔ " اس سلسلے میں تمہیں جو پریشانیاں اٹھانی پڑی ہیں ان کا حال مجھے معلوم ہے ۔ بخدا میں تمہیں شوکت سے کم نہیں سمجھتا ۔ تم بھِ مجھے اتنے ہی عزیز ہو جتنے کہ شوکت اور نجمہ ۔ ۔ ۔ ! "
" بزرگانہ شفقت ہے آپ کی ۔ ۔ ۔ ! " فریدی نے سر جھکا کر آہستہ سے کہا ۔
" ہاں بھئی ۔ ۔ ۔ وہ بیچارے پروفیسر کا کیا ہوا ۔ کیا وہ کسی طرح رہا نہیں ہوسکتا ۔ " نواب صاحب بولے
" تاوقتیکہ کوکین فروشوں کا گروہ گرفتار نہ ہوجائے ۔ ضمانت بھی نہیں ہوسکتی ۔ " فریدی نے کہا ۔ " لیکن میں اسے بچانے کی حتی الامکان کوشش کروں گا ۔ "
" اچھا بھئی اب تم لوگ جاکر چائے پیو ۔ ارے ہاں ایک بات تو بھول ہی گیا ۔ اگلے مہینے شوکت اور نجمہ کی شادی ہورہی ہے ۔ " نواب صاحب نے نجمہ اور شوکت کو دیکھتے ہوئے کہا ۔ " ابھی سے کہے دیتا ہوں فریدی میاں کہ تمہیں اور حمید صاحب کو شادی سے ایک ہفتہ قبل ہی چھٹی لے کر یہاں آجانا پڑے گا ۔ "
" ضرور ضرور ۔ ۔ ۔ ! " فریدی نے دونوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔ " مبارک ہو ۔ ۔ ۔ ! "
نجمہ اور شوکت نے شرما کر سر جھکا لیا ۔
تھوڑی دیر کے بعد چاروں ڈرائنگ روم میں بیٹھے چائے پی رہے تھے ۔
" بھئی فریدی تم کب شادی کر رہے ہو ؟ " ڈاکٹر شوکت نے چائے کا گھونٹ لے کر پیالی میز پر رکھتے ہوئے کہا ۔
" کس کی شادی ۔ ۔ ۔ ۱ " فریدی مسکرا کر بولا ۔
" اپنی بھئی ۔ ۔ ۔ ! "
" اوہ ۔ ۔ ۔ میری شادی ۔ ۔ ۔ ! " فریدی نے ہنس کر کہا ۔ " سنو میاں شوکت اگر میری شادی ہوتی تو تمہاری شادی کی نوبت نہ آتی ۔ "
" وہ کیسے ۔ ۔ ۔ ؟ "
 
" سیدھی سی بات ہے ۔ اگر میری شادی ہوگئی ہوتی تو میں بچوں کو دودھ پلاتا یا سراغ رسانی کرتا ۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ کوئی شادی شدہ شخص کامیاب جاسوس ہو ہی نہیں سکتا ۔ "
" تب تو مجھے ابھی سے استعفی دینا چاہئے ۔ میں شادی کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا ۔ " حمید نے اتنی معصومیت سے کہا کہ سب ہنسنے لگے ۔
" تو پھر کیا تم ساری زندگی کنوارے ہی رہو گے ۔ " شوکت نے کہا ۔
" ارادہ تو یہی ہے ۔ " فریدی نے سگار سلگاتے ہوئے کہا ۔
" بھئی تم بری طرح سگار پیتے ہو ۔ تمہارا پھیپھڑا بالکل سیاہ ہوگیا ہوگا ۔ " ڈاکٹر شوکت نے کہا ۔
" اگر سگار بھی نہ پئیوں تو پھر زندگی میں رہ ہی کیا جائے گا ۔ "
" تو یہ کہئےکہ سگار ہی شریک زندگی ہے ۔ " نجمہ ہنس کر بولی ۔
حمید قہقہہ مار کر ہنسنے لگا ۔ بقیہ لوگ صرف مسکرا کر رہ گئے ۔ حالانکہ یہ کوئی ایسا پرمذاق جملہ نہیں تھا ۔ لیکن فریدی حمید کی عادت سے واقف تھا ۔ وہ عورتوں کی پھوہڑ جملوں پر خوب محظوظ ہوا کرتا تھا ۔
" ہاں بھئی فریدی یہ بتاؤ کہ تم مرے کس طرح تھے ۔ مجھے یہ آج تک معلوم نہ ہوسکا ۔ " ڈاکٹر شوکت نے پوچھا ۔
" یہ ایک لمبی داستان ہے لیکن میں مختصرا بتاؤں گا ۔ مجھے شروع ہی سے سلیم پر شبہ تھا لیکن میں نے شروع ہی میں ایک بنیادی غلطی کی تھی ۔ جس کی بناء پر مجھے مرنا پڑا ۔ حالانکہ میں پہلے سے جانتا تھا کہ نیپالی کا قاتل ہم لوگوں کا پیچھا کر رہا ہے اور وہ ہم لوگوں کو اچھی طرح پہچانتا ہے ۔ اس سلسلے میں مجھ سے جو غلطی ہوئی وہ یہ تھی کہ میں سلیم سے رپورٹر کے بھیس میں ملا تھا ۔ وہ مجھے پہچان گیا اور اس نے واپسی پر مجھ پر ہوائی رائفل سے فائر کیا ۔ لیکن ناکام رہا اس نے رائفل پروفیسر کے ہاتھ میں تھما دی اور خود غائب ہوگیا ۔ پروفیسر کے متعلق تو تم جانتے ہو کہ وہ کچھ خبطی سا واقع ہوا ہے ۔ سلیم اسے اپنا آلہ کار بنائے ہوئے تھا ۔ کئی سال کی بات ہے جب پروفیسر یہاں نہیں آیا تھا اچھا خاصا تھا وہ ان دنوں ایک تجربہ کررہا تھا ۔ اس نے چاند کا سفر کرنے کے لئے ایک غبارہ بنایا تھا ۔ تجربہ کے لئے اس نے پہلی بار اپنے اسسٹنٹ نعیم کو اس غبارے میں بٹھا کر اڑایا ، شاید نعیم غبارے کو اتارنے کی تدبیر بھول گیا تھا یا یہ کہ اس کی مشین خراب ہوگئی تھی ۔ غبارہ پھر پروفیسر کی دانست میں زمین کی جانب نہ لوٹا حالانکہ اس خیال غلط تھا ۔ نعیم غبارے سمیت مدراس کی ایک گاؤں میں گرا حالانکہ اسے کافی چوٹیں آئی تھیں لیکن گاؤں والوں کی تیمارداری اور دیکھ بھال کی بناء پر بچ گیا ۔ اسی دوران اسے ایک بازاری لڑکی سے عشق ہوگیا اور وہ وہیں رہ گیا ۔ پروفیسر ان سب باتوں سے ناواقف تھا ۔ وہ خود کو مجرم سمجھ رہا تھا ۔ اس پریشانی میں وہ قریب قریب پاگل ہوگیا ۔ اس کے بعد اس نے شہر کی سکونت ترک کردی اور راج روپ نگر میں آگیا ۔ نعیم نے اسے خط لکھے جو اس کی پرانی قیام گاہ سے پھرتے پھراتے یہاں راج روپ نگر پہنچے ۔ وہ خطوط کسی طرح سلیم کے ہاتھ لگ گئے اور اس طرح اسے ان واقعات کا علم ہوگیا ۔ اب اس نے پروفیسر پر اپنی واقفیت کی دھونس جما کر بلیک میل کرنا شروع کیا ۔ مجھے ان سب باتوں کا علم اس وقت ہوا جب میں ایک رات چوروں کی طرح اس کوٹھی میں داخل ہوا اور سلیم کے کمرے کی تلاشی لی ۔ نعیم کے لکھے ہوئے خطوط اچانک مل گئے ۔ اس طرح میں معاملات کی تہہ تک پہنچ گیا اور اسی وقت میں اس نتیجہ پر بھی پہنچا کہ مجھ پر گولی سلیم ہی نے چلائی تھی ۔ کیونکہ پروفیسر تو اس رائفل کے استعمال سے ناواقف تھا ۔
 
میں کہاں سے کہاں پہنچ گیا ۔ ہاں تو بات میرے مرنے کی تھی ۔ جب میں سلیم اور ڈاکٹر توصیف سے مل کر واپس جارہا تھا ۔ سلیم نے راستے میں دھوکا دے کر مجھے روکا اور جھاڑیوں کی آڑ سے مجھ پر گولیاں چلانے لگا ۔ میں نے بھی فائر کرنے شروع کردئیے ۔ اسی دوران میں اچانک مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوا اور میں نے تہیہ کرلیا کہ مجھے کسی نہ کسی طرح یہ ثابت کرنا چاہئے کہ اب میرا وجود اس دنیا میں نہیں ، ورنہ ہوشیار مجرم ہاتھ آنے سے رہا ۔ لہذا میں نے ایک چیخ ماری اور بھاگ کر اپنی کار میں آیا اور شہر کی طرف چل پڑا ۔ میں سیدھا ہسپتال پہنچا اور وہاں کمپاؤنڈ میں موٹر سے اترتے وقت غش کھا کر گر پڑا ۔ لوگوں نے مجھے اندر پہنچایا ۔ میں نے ڈاکٹر کو اپنی ساری اسکیم سے اگاہ کردیا اور اپنے چیف کو بلوا بھیجا ۔ اسے بھی میں نے سب کچھ بتایا ۔ پھر وہاں سے میرے جنازے کا انتظام شروع ہوا ۔ قسمت میرے ساتھ تھی اس دن اتفاق سے ہسپتال میں ایک لاوارث مریض مر گیا تھا ۔ میرے محکمے کے لوگ اسے اسٹریچر میں ڈال کر اچھی طرح ڈھانک کر میرے گھر لے آئے ۔ پڑوسی اور دوسرے جاننے والے اسے میری لاش ہی سمجھے ۔ میری موت کی خبر اسی دن شام کے اخبارات میں شائع ہوگئی تھی ۔ پھر میں نے اسی رات حمید کو ایک نیپالی کے بھیس میں ڈاکٹر توصیف کے گھر بھیجا اور اسے تاکید کردی کہ میری راج روپ نگر میں آمد کے بارے میں کسی سے کچھ نہ کہے ۔ لہذا یہ بات چھپی ہی رہی کہ اس دن میں راج روپ نگر گیا تھا ۔ اس طرح سلیم دھوکا کھا گیا ۔ اسے اطمینان ہوگیا کہ اس پر شبہ کرنے والا اب اس دنیا سے چل بسا اور اب وہ نہایت آسانی کے ساتھ اپنا کام انجام دے سکے گا ۔
 
میں چاہتا تھا کہ تمہیں کسی طرح راج روپ نگر لے جاؤں ۔ لہذا میں نے ڈاکٹر توصیف سے دوبارہ کہلوا بھیجا کہ ذرا جلد از جلد تمہیں راج روپ نگر لے جائے ۔ جب تم وہاں پہنچے میں سائے کی طرح تمہارے پیچھے لگا رہا ۔ تمہاری کار میں نے ہی خراب کی تھی ۔ مجھے یہ پہلے ہی معلوم تھا کہ اس وقت کوٹھی میں کوئی کار موجود نہیں ہے لہذا میں نے یقین کرلیا کہ تم اس صورت میں پیدل ہی جاؤ گے ۔ مجھے یہ بھی یقین تھا کہ سلیم تمہیں نواب صاحب کے آپریشن سے پہلے ہی ختم کرنے کی کوشش کرے گا لہذا میں نے اسے موقع واردات ہی پر گرفتار کرنے کے لئے تمہیں پیدل لے جانا چاہتا تھا لیکن اس کم بخت نے وہ حربہ استعمال کیا جس کا مجھے گمان تک نہ تھا ۔ واقعی قسمت کے اچھے تھے کہ وہ سوئی پروفیسر کے ہاتھ سے گرگئی ورنہ تم ختم ہوجاتے اور مجھے پتہ بھی نہ چلتا ۔ اس کے بعد تم قصبے میں چلے گئے اور میں ایک مالی کے خالی جھونپڑے میں بیٹھ کر پلان بناتا رہا ۔ یہ تو مجھے تمہاری زبانی معلوم ہوگیا تھا کہ تم شام کو بھی پیدل ہی آؤ گے ۔ اسی دوران مجھے پروفیسر کے بارے میں کچھ اور باتیں بھی معلوم ہوئیں۔ مثلا ایک تو یہی کہ وہ کوکین کھانے کا عادی ہے اور غیر قانونی طریقہ پر اسے حاسل کرتا ہے لو بھلا دیکھو باتوں ہی باتوں میں بہکتا چلا جارہا ہوں ۔ باقی حالات بتانے سے کیا فائدہ ۔ ۔ ۔ وہ تو تم جانتے ہی ہوگے ۔ بہرحال یہ تھی میرے مرنے کی داستان ۔ "
 
" خدا تمہاری مغفرت کرے ۔ " ڈاکٹر شوکت نے ہنستے ہوئے کہا ۔
" تو فریدی بھائی ۔ ۔ ۔ اب تو آپ کی ترقی ہوجائے گی ۔ دعوت میں ہمیں نہ بھولئے گا ۔ " نجمہ نے مسکرا کر کہا ۔
" میں ترقی کب چاہتا ہوں ۔ اگر ترقی ہوگئی تب تو مجھے شادی کرنی پڑے گی ۔ کیونکہ اس صورت میں مجھے آفس ہی میں بیٹھ کر مکھیاں مارنی پڑیں گی ۔ پھر دن بھر مکھیاں مارنے کے بعد گھر پر تو مجھ سے مکھیاں نہ ماری جائیں گی اور اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ گھر پر مکھیاں مارنے کے لئے مجھے ایک عدد بیوی کا انتظام کرنا ہی پڑے گا جو میرے بس کا روگ نہیں ۔ "
" نجمہ شاید تم یہ نہیں جانتیں کہ ہمارے فریدی صاحب سراغ رسانی کا شوق پورا کرنے کے لئے اس محکمے میں آئے ہیں ۔ " ڈاکٹر شوکت نے کہا ۔ " ورنہ یہ خود کافی مالدار آدمی ہیں اور اتنے کنجوس ہیں کہ خدا کی پناہ ۔ "
" اچھا ۔ ۔ ۔ یہ میں آج ایک نئی خبر سن رہا ہوں کہ میں کنجوس ہوں ۔ کیوں بھائی میں کنجوس کیسے ہوں ۔ "
" شادی نہ کرنا کنجوسی نہیں تو اور کیا ہے ۔ " نجمہ نے کہا ۔
" اچھا بھائی حمید اب چلنا چاہئے ورنہ کہیں یہ لوگ سچ مچ میری شادی نہ کرادیں ۔ " فریدی نے اٹھتے ہوئے کہا ۔
" ابھی بیٹھئے نا ۔ ۔ ۔ ایسی جلدی کیا ہے ۔ " نجمہ بولی ۔
" نہیں بہن اب چلوں گا ۔ کئی ضروری کام ابھی تک ادھورے پڑے ہیں ۔ "
نجمہ اور شوکت دونوں کو کار تک پہنچانے آئے ۔ دونوں کے چلے جانے کے بعد شوکت بولا ۔ " ایسا حیرت انگیز آدمی میری نظروں سے نہیں گزرا ۔ پتہ نہیں پتھر کا بنا ہے یہ لوہے کا ۔ ۔ ۔ میں نے آج تک اسے یہ کہتے نہیں سنا کہ آج میں بہت تھکا ہوا ہوں ۔ "
" اس کے برخلاف سرجنٹ حمید بالکل مرغی کا بچہ معلوم ہوتا ہے ۔ " نجمہ ہنس کر بولی ۔
" کیوں ۔ ۔ ۔ ؟ "
" نہ جانے کیوں مجھے اس کی ناک دیکھ کر مرغی کے بچے یاد آجاتے ہیں ۔ "
" بہرحال آدمی خوش مزاج ہے ۔ اچھا آؤ اب اندر چلیں ۔ ۔ ۔ سردی تیز ہوتی جارہی ہے ۔ "
۔
۔
۔ ۔ ۔
تمام شد
 
Top