دلیر مجرم ( ابن صفی )

کوتوالی اطلاع پہنچا دی گئی ۔ ۔ ۔ تھوڑی دیر بعد کئی کانسٹیبل اور دو سب انسپکٹر موقع واردات پر پہنچ گئے ۔ انسپکٹر فریدی کو وہاں دیکھ کر انہیں سخت حیرت ہوئی ۔ فریدی نے انہیں مختصرا سارا حال بتایا ۔ مقتول کے اقرار جرم کا گواہ منیجر تھا لہذا منیجر کا بیان ہورہا تھا کہ انسپکٹر فریدی اور سرجنٹ حمید وہاں سے روانہ ہوگئے ۔
ان کی کار تیزی سے نشاط نگر کی طرف جارہی تھی ۔
" کیوں بھئی رہا نہ وہی ۔ ۔ ۔ چھ پیسے والے جاسوسی ناول والا معاملہ ۔ " فریدی نے ہنس کر کہا ۔
" اب تو مجھے بھی دلچسپی ہو چلی ہے ۔ " حمید نے کہا " لیکن یہ تو بتائیے کہ آپ کو یقین کیوں کر ہوا تھا کہ یہی قاتل ہے ۔ "
" یقین کہاں محض شبہ تھا لیکن منیجر سے گفتگو کرنے کے بعد کچھ کچھ یقین ہو چلا تھا کہ سازش میں کسی دوسرے کا ہاتھ ضرور تھا ۔ میں یہ بھی سوچ رہا تھا کہ قتل کے سلسلے میں اپنی غلطی کا احساس ہوجانے کے بعد ہی سے اس کی حالت غیر ہوگئی تھی ۔ یہی وجہ تھی کہ کھیل کے وقت اس کا ہاتھ بہک رہا تھا اب اسے شاید اس شخص کا انتظار تھا جس نے اسے قتل کے لئے آمادہ کیا تھا ۔ اس حماقت کی جوابدہی کے خیال نے اسے اور بھی پریشان کر رکھا تھا ۔ انہیں سب چیزوں کو مد نظر رکھ کر میں نے خود پہلے اس کے خیمے میں جانا مناسب نہ سمجھا ۔ منیجر کو اندر بھیج کر میں جالی سے اس کا ردعمل دیکھنے لگا ۔ جالی سے تو تم بھی دیکھ رہے تھے ۔ "
" بہرحال آج سے میں آپ کا پورا پورا شاگرد ہوگیا ۔ " حمید نے کہا ۔
" کیا کہا آج سے ۔ ۔ ۔ کیا پہلے نہ تھے ۔ ' فریدی نے ہنس کر کہا ۔
" نہیں پہلے بھی تھا ۔ " حمید نے کہا اور دونوں خاموش ہوگئے ۔ انسپکٹر فریدی آئندہ کے لئے پروگرام بنارہا تھا ۔
پھاٹک پر کار کی آواز سن کر ڈاکٹر شوکت باہر نکل آیا تھا ۔ انسپکٹر فریدی نے سارے واقعات بالتفصیل اسے بتائے ۔
" لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اب تم مطمئن ہوجاؤ ۔ " فریدی نے شوکت کے کاندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا ۔ " تمہارا اصل دشمن اب بھی آزاد ہے اور وہ کسی وقت بھی تمہیں نقصان پہنچا سکتا ہے ۔ لہذا احتیاط کی ضرورت ہے ۔ میں فکر میں ہوں اور کوشش کروں گا کہ اسے جلد از جلد گرفتار کرکے قانون کے حوالے کردوں ۔ "
 
قاتل کی نئی چال
انسپکٹر فریدی کو افسوس تھا کہ سرکاری طور پر وہ اس کیس کا انچارج نہ ہوسکتا تھا ۔ ابھی اس کی چھٹی ختم ہونے میں دو ماہ باقی تھے ۔ اسے اس بات کا بھی خیال تھا کہ دوسرے قتل کے بعد سے اس معاملہ میں اس کی دست اندازی کا حال آفیسروں کو ضرور معلوم ہوجائے گا ۔ جو اصولا کسی طرح درست نہ تھا ۔ لیکن اسے اس کی پرواہ نہ تھی ۔ ملازمت کی پرواہ اسے کبھی تھی اور نہ اب ۔ وہ خود بھی صاحب جائیداد اور شان سے زندگی بسر کرنے کا عادی تھا ۔ اس ملازمت کی طرف اسے دراصل اس کی افتاد طبع لائی تھی ۔ ورنہ وہ اتنا دولت مند تھا کہ اس کے بغیر بھی
امیروں کی سی زندگی بسر کرتا تھا ۔
دوسری واردات کے دوسرے دن صبح جب وہ سوکر اٹھا تو اسے معلوم ہوا کہ چیف انسپکٹر صاحب کا اردلی عرصہ سے اس کا انتظار کررہا ہے ۔ دریافت حال پر پتہ چلا کہ چیف صاحب اپنے بنگلہ پر بےصبری سے اس کا انتظار کررہے ہیں اور پولیس انسپکٹر صاجب بھی وہاں موجود ہیں ۔ فریدی کا ماتھا ٹھنکا ۔ اس نے لاپرواہی سے ناخوشگوار خیالات کو ذہن سے نکال پھینکا اور ناشتے وغیرہ سے فارغ ہوکر چیف صاحب کے بنگلے کی طرف روانہ ہوگیا ۔
" ہلو فریدی ۔ " چیف صاحب نے اس کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ۔ " ہم لوگ دیر سے منتظر ہیں ۔ "
" مجھے ذرا دیر ہوگئی ۔ " فریدی نے بےپروائی سے کہا ۔
 
" اس وقت ایک اہم معاملے پر گفتگو کرنے کے لئے آپ کو تکلیف دی گئی ہے ۔ " پولیس کمشنر نے اپنا سگار کیس اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا ۔
" شکریہ ۔ " فریدی نے سگار لیتے ہوئے کہا ۔ " فرمائیے ۔ "
" مسٹر فریدی ۔ ۔ ۔ چوبیس گھنٹے کے اندر اس علاقے میں دو عدد وارداتیں ہوئی ہیں ۔ ان سے آپ بخوبی واقف ہیں ۔ " پولیس کمشنر نے سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے کہا ۔ " اور آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ تبدیل ہوکر یہاں آئے ہوئے مجھے صرف دس دن ہوئے ہیں ۔ ایسی صورت میں میری بہت بدنامی ہوگی ۔ سول پولیس تو قطعی ناکارہ ہے اور معاملہ انتہائی پیچیدہ ہے ۔ کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ آپ اپنی چھٹی فی الحال کینسل کرالیں اور اس کا میں ذمہ لیتا ہوں کہ قاتل کا پتہ لگ جانے کے بعد میں آپ کو دو کے بجائے چار ماہ کی چھٹی دلا دوں گا ۔ یہ میرا دوستانہ مشورہ ہے ۔ اسے افسری اور ماتحتی سے کوئی تعلق نہیں ۔ "
" جی میں ہر وقت اور ہر خدمت کے لئے حاضر ہوں ۔ " فریدی نے اپنی آرزو پوری ہوتے دیکھ کر پرخلوص لہجے میں کہا ۔
" بہت بہت شکریہ ۔ " پولیس کمشنر صاحب اطمینان کا سانس لے کر بولے ۔ " کل رات آپ اپنا بیان دے کر چلے آئے تھے ۔ اس کے بعد نیپالی کے خیمے کی تلاشی لینے پر سات ہزار روپے کے نوٹ برآمد ہوئے ۔ جو کم از کم اس کی حیثیت سے زیادہ تھے ۔ اس کے پس انداز ہونے کا خیال اسی لئے پیدا نہیں ہوتا کہ وہ اپنی آمدنی سے بڑھ کر خرچ کرنے والا آدمی تھا ۔ ان روپوں کے علاوہ کوئی اور چیز ایسی نہ مل سکی جس سے اس کے قاتل کی شخصیت کا پتہ لگ سکتا ۔ بہرحال سبیتا دیوی کے قاتل کے سراغ کا سہرا آپ ہی کے سر ہے ۔ لیکن اب اس کے قاتل کے قاتل کا پتہ لگانا بہت ضروری ہے اور یہ کام سوائے آپ کے اور کوئی نہیں کرسکتا ۔ میں نے کل ہی رات یہ دونوں کیس محکمہ سراغ رسانی کے سپرد کردئیے ہیں اب بقیہ ہدایات آپ کو چیف انسپکٹر سے ملیں گے ۔ '
" اور میں تم کو اس کیس کا انچارج بناتا ہوں ۔ " چیف انسپکٹر صاحب نے کہا ۔ " اس کے کاغذات دس بجے تک تمہیں مل جائیں گے ۔ "
 
" یہ تو آپ جانتے ہیں کہ میں کیس کی تفتیش شروع ہی سے کر رہا ہوں اور میں نے اس سلسلے میں اپنا طریقہ کار بھی مکمل کرلیا ہے ۔ لیکن آپ سے استدعا ہے کہ آپ یہی ظاہر ہونے دیں کہ میں چھٹی پر ہوں اور یہ معاملہ ابھی تک محکمہ سراغ رسانی تک نہیں پہنچا ۔ "
" تو اس کیس میں بھی تم اپنی پرانی عادت کے مطابق اکیلے ہی کام کرو گے ۔ " چیف انسپکٹر پولیس نے کہا ۔ " یہ عادت خطرناک ہے ۔ "
" مجھے افسوس ہے کہ بعض وجوہ کی بناء پر جنہیں میں ابھی ظاہر نہیں کرنا چاہتا مجھے یہی طریقہ اختیار کرنا پڑے گا ۔ اچھا اب اجازت چاہتا ہوں ۔ "
انسپکٹر فریدی کے گھر پر سرجنٹ حمید اس کا انتظار کررہا تھا ۔ اس کی آنکھوں سے معلوم ہورہا تھا جیسے رات بھر نہ سویا ہو ۔ فریدی کے گھر پہنچتے ہی وہ بےتابی سے اس کی طرف بڑھا ۔
" کہو ۔ ۔ ۔ خیریت تو ہے ۔ " فریدی نے کہا ۔ " تم کچھ پریشان سے معلوم ہوتے ہو ۔ "
" کچھ کیا ۔ ۔ ۔ میں بہت پریشان ہوں ۔ " حمید نے کہا ۔
" آخر بات کیا ہے ۔ "
" کل رات تقریبا ایک بجے میں آپ کے گھر سے روانہ ہوا ۔ تھوڑی دور چلنے کے بعد میں نے محسوس کیا کہ میرا کوئی پیچھا کررہا ہے ۔ پہلے تو خیال ہوا کہ کوئی راہ گیر ہوگا لیکن جب میں نے اپنا شبہ رفو کرنے کے لئے یوں ہی بےمطلب پیچ در پیچ گلیوں میں گھسنا شروع کیا تو میرا شبہ یقین کی حد تک پہنچ گیا کیونکہ وہ اب بھی میرا پیچھا کررہا تھا ۔ خیر میں نے گھر پہنچ کر تالا کھولا اور کواڑ بند کرکے درز سے جھانکتا رہا ۔ میرا تعاقب کرنے والا اب میرے مکان کے سامنے کھڑا دروازے کی طرف دیکھ رہا تھا ۔ پھر وہ آگے بڑھ گیا ۔ میں دبے پاؤں باہر نکلا اور اب میں اس کا پیچھا کررہا تھا ۔ اس قسم کا تعاقب کم از کم میرے لئے نیا تجربہ تھا کیونکہ تعاقب کرتے کرتے پانچ بج گئے ۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے وہ یوں ہی بلا مقصد آوارہ گردی کرتا پھر رہا ہے ۔ مجھے افسوس ہے کہ میں اس کا چہرہ نہ دیکھ سکا ۔ کیونکہ اس نے اپنے چسٹر کا کالر کھڑا کر رکھا تھا اور اس کی نائٹ کیپ اس کے چہرے پر جھکی ہوئی تھی ۔ تقریبا پانچ بجے وہ باٹم روڈ اور بیلی روڈ کے چوراہے پر رک گیا ۔ وہاں ایک گاڑی کھڑی تھی ۔ وہ اس میں بیٹھ گیا اور کار تیزی سے شمال کی جانب روانہ ہوگئی ۔ وہاں اس وقت مجھے کوئی سواری نہ مل سکی ۔ لہذا تین میل پیدل چل کر آرہا ہوں ۔ شاید رات سے اب تک میں نے پندرہ میل کا چکر لگایا ہوگا ۔ "
 
" تمہاری نئی دریافت تو بہت دلچسپ رہی ۔ " فریدی کچھ سوچتے ہوئے بولا ۔
وہ تھوڑی دیر تک چپ رہا ۔ اس کی آنکھیں اس طرح دھندلا گئیں جیسے اسے نیند آرہی ہو ۔ پھر اچانک ان میں ایک طرح کی وحشیانہ چمک پیدا ہوگئی اور اس نے ایک زوردار قہقہہ لگایا ۔ " کیا کہا تم نے ۔ " فریدی بولا ۔ " وہ باٹم روڈ کے چوراہے سے شمال کی جانب چلا گیا ۔ "
" جی ہاں ۔ "
" اور تمہیں شاید معلوم نہ ہوگا کہ اسی چوراہے پر اگر تم جنوب کی طرف چلو تو پندرہ میل چلنے کے بعد تم راج روپ نگر پہنچ جاؤ گے ۔ اب مجھے یقین ہوگیا کہ مجرم کا سراغ راج روپ نگر ہی میں مل سکے گا ۔ دیکھو اگر وہ سچ مچ تمہارا پیچھا کررہا تھا تو تمہیں اس کا احساس تک نہ ہونے دیتا ۔ اس نے دیدہ دانستہ ایسا کیا تاکہ تم اس کے پیچھے لگ جاؤ اور وہ اسی چوراہے سے جنوب کی طرف جانے کی بجائے شمال کی طرف جاکر میرے دل سے اس خیال کو نکال دے کہ اصل مجرم راج روپ نگر کا باشندہ ہے ۔ اوہ میرے خدا تو اس کا یہ مطلب ہے کہ وہ نیپالی کے قتل کے پہلے سے ہم لوگوں کے قریب ہی قریب رہا اور منیجر کے دفتر میں بھی ہماری گفتگو سنی وہیں راج روپ نگر کی گفتگو آئی تھی ۔ اخبار میں تو اس کا کوئی حوالہ نہیں تھا ۔ ۔ ۔ مجرم معمولی ذہانت کا آدمی نہیں معلوم ہوتا ۔ کیا تم اس کا حلیہ بتاسکتے ہو ۔ "
" یہ تو میں پہلے ہی بتاچکا ہوں کہ میں اس کا چہرہ نہ دیکھ سکا ۔ " حمید نے کچھ سوچ کر کہا ۔ " لیکن ٹھہرئیے ۔ اس میں ایک خاص بات تھی جس کی بناء پر وہ پہچانا جاسکتا ہے اس کی پیٹھ پر بڑا سا کوبڑ تھا ۔ "
" اماں چھوڑو بھی ۔ ۔ ۔ کوبڑ تو کوٹ کے نیچے بہت سا کپڑا ٹھونس کر بھی بنایا جاسکتا ہے ۔ اگر وہ سچ مچ کبڑا ہوتا تو تمہیں اپنے پیچھے آنے کی دعوت ہی نہ دیتا ۔ "
 
" واللہ ۔ ۔ ۔ آپ نے تو شرلاک ہومز کے بھی کان کاٹ کر کھا لئے ۔ " حمید ہنس کر بولا ۔
" تم نے پھر وہی جاسوسی ناولوں کے جاسوسوں کے حوالے دینے شروع کردئیے ۔ " فریدی نے برا سا منہ بنا کر کہا ۔
" بخدا میں مضحکہ نہیں اڑا رہا ہوں ۔ "
" خیر ہٹاؤ ۔ ۔ ۔ میں اس وقت تنہا راج روپ نگر جا رہا ہوں ۔ "
" یہ آپ نے بہت اچھا کیا کہ آپ تنہا راج روپ نگر جارہے ہیں ۔ میں رات بھر نہیں سویا ۔ "
" اگر تم سوتے بھی ہوتے تو بھی میں تمہیں اپنے ساتھ نہ لے جاتا کیونکہ تم چھٹی پر ہو اور میں نے اپنی چھٹیاں کینسل کرادی ہیں اور یہ کیس سرکاری طور پر میرے سپرد کیا گیا ہے ۔ "
" یہ کب ۔ ۔ ۔ ! " حمید نے متحیر ہوکر پوچھا ۔
" ابھی ۔ ۔ ۔ ! " فریدی نے جواب دیا اور سارے واقعات بتا دئیے ۔
" تو پھر واقعی آپ تنہا جائیں گے ۔ " حمید نے کہا ۔ " اچھا یہ تو بتائیے کہ آپ نے اپنا طریقہ کار سوچ لیا ہے ۔ "
" قطعی ۔ ۔ ۔ ! " فریدی نے جواب دیا " کل رات میں نے تمہارے جانے کے بعد ہی راج روپ نگر کے متعلق بہت سی معلومات بہم پہنچائی ہیں ۔ مثلا یہی کہ راج روپ نگر نواب صاحب وجاہت مرزا کی جاگیر ہے اور نواب صاحب کسی شدید قسم کی ذہنی بیماری میں مبتلا ہیں ۔ مجھے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ وہ تقریبا پندرہ روز سے دن رات سو رہے ہیں یا دوسرے لفظوں میں یہ کہنا چاہئے کہ بےہوش ہیں ۔ ان کے فیملی ڈاکٹر کی رائے ہے کہ سر کا آپریشن کرایا جائے لیکن موجودہ معالج کرنل تیواری جو پولیس ہسپتال کے انچارج ہیں آپریشن کے خلاف ہیں ۔ اس سلسلے میں دوسری بات معلوم ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ نواب صاحب لاولد ہیں ان کے ساتھ ان کا سوتیلا بھتیجا اور ان کی بیوہ بہن اپنی جوان لڑکی سمیت رہتی ہے ۔ مجھے جہاں تک پتہ چلا ہے کہ نواب صاحب نے اپنی جاگیر کے متعلق ابھی تک کسی قسم کا کوئی وصیت نامہ نہیں لکھا ہے ۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ ان کی بیوہ بہن یا سوتیلے بھتیجے میں سے کوئی بھی جائیداد کی لالچ میں یہ خواہش نہیں رکھ سکتا کہ نواب صاحب ہوش میں آنے سے پہلے ہی مرجائیں ۔ بہت ممکن ہے کہ اسی مقصد کے تحت ذہنی بیماریوں کے مشہور ترین ڈاکٹر شوکت کو قتل کرادینے کی کوشش کی گئی ہو محض اس ڈر سے کہ کہیں نواب صاحب اس کے زیر علاج نہ آجائیں کیونکہ ان کا فیملی ڈاکٹر آپریشن پر زور دے رہا تھا ۔ " فریدی خاموش ہوگیا ۔
 
" آپ کے دلائل بہت وزنی معلوم ہوتے ہیں ۔ " حمید بولا ۔ " لیکن آپ کا تنہا جانا ٹھیک نہیں ۔ "
" تم مجھے اچھی طرح جانتے ہو کہ طریقہ کار سمجھ میں آجانے کے بعد میں تنہا کام کرنے کا عادی ہوں ۔ " فریدی نے ہنس کر کہا ۔ " اور پھر تم نے حال ہی میں ایک عدد عشق کیا ہے ۔ میں تمہارے عشق میں گڑبڑ نہیں پیدا کرنا چاہتا ۔ واپسی میں تمہاری محبوبہ کے لئے ایک عدد انگوٹھی ضرور لیتا آؤں گا ۔ اچھا اب تم ناشتہ کرکے یہیں سو رہو اور میں چلا ۔ "
خوفناک بوڑھا
راج روپ نگر میں وجاہت مرزا کی عالی شان کوٹھی بستی سے تقریبا ڈیڑھ میل کے فاصلے پر واقع تھی ۔ نواب صاحب بہت شوقین آدمی تھے ۔ اس لئے انہوں نے اس قضبے کو ننھا منا سا خوبصورت شہر بنا دیا تھا ۔ بس صرف الیکٹرک لائٹ کی کسر رہ گئی تھی ۔ لیکن انہوں نے اپنی کوٹھی میں ایک طاقتور ڈائمو لگا کر اس کی کمی کو پورا کردیا تھا ۔ البتہ قضبے والے بجلی کی روشنی سے محروم تھے ۔ کوٹھی کے چاروں طرف چار فرلانگ کے رقبہ میں خوشنما باغات اور صاف و شفاف روشوں کا جال بچھا ہوا تھا ۔ نواب صاحب کی کوٹھی سے ڈیڑھ فرلانگ کے فاصلے پر ایک قدیم وضع کی عمارت تھی جس میں ایک چھوٹا سا مینار تھا ۔ کسی زمانے میں اس مینار کا اوپری حصہ کھلا رہا ہوگا اور نواب صاحب کے آباؤ اجداد اس پر بیٹھ کر تفریح کیا کرتے ہوں گے لیکن اب یہ بھی بند کرادیا گیا تھا ۔ صرف دو کھڑکیاں کھلی رہ گئی تھیں ۔ ایک کھڑکی میں ایک بڑی سی دوربین لگی ہوئی تھی جس کا قطر تقریبا ایک فٹ رہا ہوگا ۔ اس عمارت میں مشہور ماہر فلکیات پروفیسر عمران رہتا تھا ۔ نواب صاحب نے یہ پرانی عمارت اسے کرائے پر دے رکھی تھی ۔ اس نے اس مینار کی بالائی منزل کو چاروں طرف سے بند کراکے اس پر اپنی ستاروں کی رفتار کا جائزہ لینے والی بڑی دوربین فٹ کرالی تھی ۔ قضبے والوں کے لئے وہ ایک پراسرار آدمی تھا ۔
 
بہتوں کا خیال تھا کہ وہ پاگل ہے اسے آج تک کسی نے اس چار فرلانگ کے رقبے سے باہر نہ دیکھا تھا ۔
انسپکٹر فریدی کوٹھی کے قریب پہنچ کر سوچنے لگا کہ کس طرح اندر جائے ۔ دفعتا ایک نوکر برآمدے میں آیا ۔ فریدی نے آگے بڑھ کر اس سے پوچھا ۔ " اب نواب صاحب کی کیسی طبعیت ہے ۔ "
" ابھی تو وہی حال ہے ۔ " نوکر اسے گھورتے ہوئے بولا ۔ " آپ کہاں سے تشریف لائے ہیں ۔ "
" میں روزنامہ خبر کا نمائندہ ہوں اور کنور سلیم سے ملنا چاہتا ہوں ۔ "
" یہاں اندر ہال میں تشریف لائیے میں انہیں خبر کرتا ہوں ۔ "
فریدی برآمدے سے گزر کر ہال میں داخل ہوا ۔ ہال کی دیواروں پر چاروں طرف نواب صاحب کے آباؤ اجداد کی قد آدم تصویریں لگیں ہوئی تھیں ۔ فریدی ان کا جائزہ لیتے لیتے چونک پڑا ۔ اس کی نظریں ایک پرانی تصویر پر جمی ہوئی تھیں ۔
اسے ایسا معلوم ہوا جیسے گھنی مونچھوں اور ڈاڑھی کے پیچھے کوئی جانا پہچانا چہرہ ہے ۔
" ارے وہ مارا بیٹا فریدی ۔ " وہ آپ ہی آپ بڑبڑایا ۔
وہ قدموں کی آہٹ سے چونک پڑا ۔ سامنے کی دروازے میں ایک لمبا تڑنگا نوجوان قیمتی سوٹ میں ملبوس کھڑا تھا ۔ پہلے تو وہ فریدی کو دیکھ کر جھجکا پھر مسکراتا ہوا آگے بڑھا ۔
" صاحب آپ نامہ نگاروں سے تو میں تنگ آگیا ہوں ۔ " وہ ہنس کر بولا ۔ " کہئے آپ کیا پوچھنا چاہتے ہیں ۔ "
" شاید میں کنور صاحب سے ہم کلام ہونے کا شرف حاصل کررہا ہوں ۔ " فریدی نے ادب سے کہا ۔
 
" جی ہاں ۔ ۔ ۔ مجھے کنور سلیم کہتے ہیں ۔ " اس نے بےدلی سے کہا ۔ " جو کچھ پوچھنا ہو جلد پوچھئے ۔ میں بہت مشغول آدمی ہوں ۔ "
" نواب صاحب کا اب کیا حال ہے ۔ "
" ابھی تک ہوش نہیں آیا ۔ ۔ ۔ اور کچھ ۔ ۔ ۔ ! "
" کب سے بےہوش ہیں ؟ "
" پندرہ دن سے ۔ ۔ ۔ فیملی ڈاکٹروں کی رائے ہے کہ آپریشن کیا جائے ۔ لیکن کرنل تیواری اس کے حق میں نہیں ہیں ۔ اچھا بس اب مجھے اجازت دیجئے ۔ " وہ پھر اسی دروازے کی طرف گھوم گیا جس طرف سے آیا تھا ۔
فریدی کے لئے واپس جانے کے علاوہ اور چارہ ہی کیا تھا ۔
جب وہ پرانی کوٹھی کے پاس سے گزر رہا تھا تو یک بیک اس کی ہیٹ اچھل کر اس کی گود میں آرہی ۔ ہیٹ میں بڑا سا چھید ہوگیا تھا ۔ اس نے دل میں کہا " بال بال بچے فریدی صاحب ۔ ۔ ۔ اب کبھی موٹر کی چھت گرا کر سفر نہ کرنا ۔ ابھی تو اس بےآواز رائفل نے تمہاری جان ہی لے لی تھی ۔ " تھوڑی دور چل کر اس نے کار روک لی اور پرانی کوٹھی کی طرف پیدل واپس لوٹا مہندی کی باڑھ کی آڑ سے اس نے دیکھا کہ پرانی کوٹھی کے باغ میں ایک عجیب الخلقت بوڑھا ایک چھوٹی نال والی نہایت طاقتور رائفل لئے گلہریوں کے پیچھے دوڑ رہا تھا ۔
فریدی مہندی کی باڑھ پھلانگ کر اندر پہنچ گیا ۔ بوڑھا چونک کر اسے حیرت سے دیکھنے لگا ۔ بوڑھے کو دیکھ کر ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے کوئی مردہ قبر سے اٹھ کر آگیا ہو یا پھر جیسے وہ کوئی بھوت ہو ۔ اس کا رنگ ہلدی کی طرح پیلا تھا ۔ بال کیا بھنویں تک سفید ہوگئی تھیں ۔ چہرہ لمبا تھا اور گالوں کی ہڈیاں ابھری ہوئی تھیں ۔ ڈاڑھی مونچھ صاف ۔ ۔ ۔ ہونٹ اتنے پتلے تھے کہ ان کے درمیان صرف ایک باریک سی گہری لکیر نظر آرہی تھی ۔ لیکن آنکھوں میں بلا کی چمک اور جسم میں حیرت انگیز پھرتیلا پن تھا ۔ وہ اچھل کر فریدی کے قریب آگیا ۔
 
" مجھ سے ملئے ۔ ۔ ۔ میں پروفیسر عمران ہوں ۔ ماہر فلکیات ۔ ۔ ۔ اور آپ ۔ ۔ ۔ ؟ "
" مجھے آپ کے نام سے دلچسپی نہیں ۔ " فریدی اسے گھور کر بولا ۔ " میں تو اس خوفناک ہتھیار میں دلچسپی لے رہا ہوں جو آپ کے ہاتھ میں ہے ۔ "
" ہتھیار ۔ ۔ ۔ ! " بوڑھے نے خوفناک قہقہہ لگایا ۔ " یہ تو میری دوربین ہے ۔ "
" وہ دوربین ہی سہی لیکن ابھی اس نے مجھے دوسری دنیا میں پہنچا دیا ہوتا ۔ "
فریدی نے اپنے ہیٹ کا سوراخ اسے دکھایا ۔ بوڑھے کی آنکھوں سے خوف جھانکنے لگا ۔اس نے ایک بار غور سے رائفل کی طرف دیکھا اور پھر ہنس کر کہنے لگا ۔
" شاید آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں ۔ یہ واقعی رائفل ہی ہے ۔ میں گلہریوں کا شکار کررہا تھا ۔ میں معافی چاہتا ہوں اور اپنی دوستی کا ہاتھ آپ کی طرف بڑھاتا ہوں ۔ " بوڑھے نے فریدی کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر اس زور سے دبایا کہ اس کے ہاتھ کی ہڈیاں تک دکھنے لگیں ۔ اس نحیف الحبثہ بوڑھے میں اتنی طاقت دیکھ کر فریدی بوکھلا سا گیا ۔
" آئیے ۔ ۔ ۔ اندر چلئے ۔ ۔ ۔ آپ ایک اچھے دوست ثابت ہوسکتے ہیں ۔ " وہ فریدی کا ہاتھ پکڑے ہوئے پرانی کوٹھی میں داخل ہوا ۔
" آج کل گلہریاں اور دوسرے چھوٹے جانور میرا خاص موضوع ہیں ۔ آئیے میں آپ کو ان کے نمونے دکھاؤں ۔ " وہ فریدی کو ایک تاریک کمرے میں لے جاتا ہوا بولا ۔
کمرے میں عجیب و غریب طرح کی خوشگوار سی بو پھیلی ہوئی تھی ۔ بوڑھے نے کئی موم بتیاں جلائیں کمرے میں چاروں طرف مردہ جانوروں کے ڈھانچے رکھے ہوئے تھے ۔ بہت سے چھوٹے جانور کیلوں کی مدد سے لکڑی کے تختوں میں جکڑ دئیے گئے تھے ۔ ان میں سے کئی خرگوش اور کئی گلہریاں تو ابھی تک زندہ تھیں ۔ جن کی تڑپ بہت ہی خوفناک منظر پیش کر رہی تھی ۔ کبھی کبھی کوئی خرگوش درد کی تکلیف سے چیخ اٹھتا تھا ۔ فریدی کو اختلاج سا ہونے لگا اور وہ گھبرا کر کمرے سے نکل آیا ۔
" اب آئیے میں آپ کو اپنی آبزرویٹری دکھاؤں ۔ " یہ کہہ کر وہ مینار کے زینوں پر چڑھنے لگا ۔ فریدی بھی اس کے پیچھے چل رہا تھا ۔ مینار تقریبا پچیس فٹ چوڑا رہا ہوگا ۔ آخر میں وہ ایک کمرے میں داخل ہوئے جو بالائی منزل پر تھا ۔ وہیں ایک کھڑکی میں دوربین نصب تھی ۔
 
" یہاں آئیے ۔ ۔ ۔ ! " وہ دوربین کے شیشے پر جھک کر بولا ۔ " میں اس وقت نواب صاحب کی خوابگاہ کا منظر اتنا صاف دیکھ رہا ہوں جیسے وہ یہاں سے صرف پانچ فٹ کے فاصلے پر ہوں ۔ نواب صاحب چت لیٹے ہیں ۔ ان کے سرہانے ان کی بھانجی بیٹھی ہے ۔ یہ لیجئے دیکھئے ۔ "
فریدی نے اپنی آنکھ شیشے سے لگا دی ۔ سامنے والی کوٹھی کی کشادہ کھڑکی کھلی ہوئی تھی اور کمرے کا منظر صاف نظر آرہا تھا ۔ کوئی شخص سر سے پیر تک مخمل کا لحاف اوڑھے لیٹا تھا اور ایک خوبصورت لڑکی سرہانے بیٹھی تھی ۔
" میں سامنے والے کمرے کے بہت سے راز جانتا ہوں ۔ لیکن تمہیں کیوں بتاؤں ۔ " بوڑھا فریدی کے کاندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولا ۔ " بس کرو اب آؤ چلیں ۔ "
" مجھے کسی کے راز جاننے کی ضرورت ہی کیا ہے ۔ " فریدی اپنے شانے اچھالتا ہوا بولا ۔
بوڑھا قہقہہ لگا کر بولا ۔ " کیا مجھے احمق سمجھتے ہو ۔ میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ یہ جملہ تم نے محض اسی لئے کہا ہے کہ میں سارے راز اگل دوں ۔ تم خطرناک آدمی معلوم ہوتے ہو ۔ اچھا اب چلو بس تمہیں باہر جانے کا راستہ دکھا دوں ۔ "
وہ دونوں نیچے اتر آئے ۔ ابھی وہ ہال ہی میں تھے کہ دروازے پر کنور سلیم کی صورت دکھائی دی ۔
" آپ یہاں کیسے ؟ " اس نے فریدی سے پوچھا ۔ " کیا آپ پروفیسر کو جانتے ہیں ۔ "
" جی نہیں ۔ ۔ ۔ لیکن آج انہیں اس طرح جان گیا ہوں کہ زندگی بھر نہ بھلا سکوں گا ۔
" کیا مطلب ۔ ۔ ۔ ؟ "
" آپ گلہریوں کا شکار کرتے کرتے آدمی کا شکار کرنے لگے تھے ۔ " فریدی پروفیسر کے ہاتھ میں دبی ہوئی رائفل کی طرف اشارہ کرکے بولا ۔ " میری ہیٹ ملاحظہ فرمائیے ۔ "
" اوہ سمجھا ۔ ۔ ۔ ! " کنور سلیم تیز لہجے میں بولا ۔ " پروفیسر تم براہ کرم ہماری کوٹھی خالی کردو ورنہ میں تمہیں پاگل خانے بھجوادوں گا ۔ ۔ ۔ سمجھے ۔ "
 
بوڑھے نے خوفزدہ نگاہوں سے کنور سلیم کی طرف دیکھا اور بےساختہ بھاگ کر مینار کے زینوں پر چڑھتا چلا گیا ۔
" معاف کیجئے گا ۔ ۔ ۔ یہ بوڑھا پاگل ہے ۔ خواہ مخواہ ہماری پریشانیاں بڑھ جائیں گی ۔ اچھا خدا حافظ ۔ "
گولیوں کی بوچھاڑ
فریدی نے اپنی کار کا رخ قصبے کی طرف پھیر دیا ۔ اب وہ نواب کے فیملی ڈاکٹر سے ملنا چاہتا تھا ۔ ڈاکٹر توصیف ایک معمر آدمی تھا ۔ اس سے قبل وہ سول سرجن تھا ۔ پنشن لینے کے بعد اس نے اپنے آبائی مکان میں رہنا شروع کردیا تھا جو راج روپ نگر میں واقع تھا ۔ اس کا شمار قصبہ کے ذی عزت اور دولت مند لوگوں میں ہوتا تھا ۔ فریدی کو اس کی جائے رہائش معلوم کرنے میں کوئی دقت نہ ہوئی ۔
ڈاکٹر توصیف انسپکٹر فریدی کو شاید پہچانتا تحا اس لئے وہ اس کی غیر متوقع آمد سے کچھ گھبرا سا گیا ۔
" مجھے فریدی کہتے ہیں ۔ " اس نے اپنا ملاقاتی کارڈ پیش کرتے ہوئے کہا ۔
" میں آپ کو جانتا ہوں ۔ ۔ ۔ ! " ڈاکٹر توصیف نے مضطربانہ انداز میں ہاتھ ملاتے ہوئے کہا " فرمائیے کیسے تکلیف فرمائی ۔ "
" ڈاکٹر صاحب میں ایک نہایت اہم معاملے میں آپ سے مشورہ کرنا چاہتا ہوں ۔ "
" فرمائیے ۔ ۔ ۔ اچھا اندر تشریف لے چلئے ۔ "
" آپ ہی نواب صاحب کے فیملی ڈاکٹر ہیں ۔ " فریدی نے سگار لائٹر سے سگار سلگاتے ہوئے کہا ۔
 
" جی ہاں ۔ ۔ ۔ جی ۔ ۔ ۔ فرمائیے ۔ " ڈاکٹر نے مضطربانہ انداز میں کہا ۔
" کیا کرنل تیواری آپ کے مشورے سے نواب صاحب کا علاج کررہے ہیں ۔ " وہ اچانک پوچھ بیٹھا ۔
ڈاکٹر توصیف چونک کر اسے گھورنے لگا ۔
" لیکن آپ یہ سب کیوں پوچھ رہے ہیں ۔ "
" ڈاکٹر صاحب ! ذہنی بیماریوں کے علاج میں مجھے تھوڑا سا دخل ہے اور میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ اس قسم کے امراض کا صرف ایک ہی علاج ہے اور وہ ہے آپریشن ۔ ۔ ۔ آخر یہ کرنل تیواری تضیع اوقات کیوں کررہے ہیں اور یہ چیز بھی ہمارے لئے باعث تشویش ہے کہ کرنل تیواری کو جسے کئی نوجوان ڈاکٹر امراض کے سلسلے میں کافی پیچھے چھوڑ چکے ہیں معالج کیوں مقرر کیا گیا ہے ۔ '
" میرا خیال ہے کہ آپ ایک قطعی نجی معاملے میں داخل اندازی کررہے ہیں ۔ " ڈاکٹر توصیف نے ناخوشگوار لہجے میں کہا ۔
" آپ سمجھے نہیں ۔ " فریدی نے نرم لہجے میں کہا ۔ " میں نواب صاحب کی جان لینے کی ایک گہری سازش کا پتہ لگا رہا ہوں ۔ اس سلسلے میں آپ سے مدد لینی مناسب ہے ۔ "
" جی ۔ ۔ ۔ ! " ڈاکٹر توصیف نے چونک کر کہا اور پھر مضمحل سا ہوگیا ۔
: جی ہاں ۔ ۔ ۔ کیا آپ میری مدد کریں گے ۔ " فریدی نے سگار کا کش لے کر پر اطمینان لہجے میں کہا ۔
" بات دراصل یہ ہے انسپکٹر صاحب کہ میں خود بھی اس معاملے میں بہت پریشان ہوں ۔ لیکن کیا کروں ۔ ۔ ۔ خود نواب صاحب کی بھی یہی خواہش تھی ۔ انہیں دو ایک بار کرنل تیواری کے علاج سے فائدہ ہوچکا ہے ۔ "
" لیکن مجھے تو معلوم ہوا ہے کہ کرنل تیواری کو علاج کے لئے ان کے خاندان والوں نے منتخب کیا ہے ۔ "
 
" نہیں یہ بات نہیں ۔ البتہ انہوں نے میری آپریشن والی تجویز نہیں مانی تھی ۔ میں آپ کو وہ خط دکھاتا ہوں جو نواب صاب نے دورہ پڑنے سے ایک دن قبل مجھے لکھا تھا ۔ "
ڈاکٹر توصیف اٹھ کر دوسرے کمرے میں چلا گیا اور فریدی سگار کے کش لیتا ہوا ادھ کھلی آنکھوں سے خلاء میں تاکتا رہا ۔
" یہ دیکھئے نواب صاحب کا خط ۔ ۔ ۔ ! " ڈاکٹر توصیف نے فریدی کی طرف خط بڑھاتے ہوئے کہا ۔ فریدی خط کا جائزہ لینے لگا ۔ خط نواب صاحب کے ذاتی پیڈ کے کاغذ پر لکھا گیا تھا جس کی کی پیشانی پر ان کا نام اور پتہ چھپا ہوا تھا ۔
فریدی خط پڑھنے لگا ۔
" ڈیئر ڈاکٹر ۔ ۔ ۔
آج دو دن سے مجھے محسوس ہورہا ہے جیسے مجھ پر دورہ پڑنے والا ہے ۔ اگر آپ شام تک کرنل تیواری کو لے کر آجائیں تو بہتر ہے پچھلی مرتبہ بھی ان کے علاج سے فائدہ ہوا تھا ۔ مجھے اطلاع ملی ہے کہ کرنل تیواری آج کل بہت مشغول ہیں لیکن مجھے امید ہے کہ آپ انہیں لے کر ہی آئیں گے ۔
آپ کا
وجاہت مرزا ۔ "
" ڈاکٹر صاحب کیا آپ کو یقین ہے کہ یہ خط نواب صاحب ہی کے ہاتھ کا لکھا ہوا ہے ۔ " فریدی نے خط پڑھ کر کہا ۔
" اتنا ہی یقین ہے جتنا کہ اس پر اس وقت میں آپ سے گفتگو کررہا ہوں ۔ میں نواب صاحب کا انداز تحریر لاکھوں میں پہچان سکتا ہوں ۔ "
" ہوں ۔ ۔ ۔ ! " فریدی نے کچھ سوچتے ہوئے کہا ۔ " لیکن ڈاکٹر صاحب ذرا اس پر غور کیجئے کیا آپ نے کبھی اتنی چوڑائی رکھنے والے کاغذ کا اتنا چھوٹا پیڈ بھی دیکھا ہے ۔ کسی قدر بےڈھنگا معلوم ہورہا ہے ۔ اوہ ۔ ۔ ۔ یہ دیکھئے ۔ ۔ ۔ صاف معلوم ہوتا ہے کہ دستخط کے نیچے سے کسی نے کاغذ کا بقیا ٹکرا قینچی سے کاٹا ہے ۔ ڈاکٹر کیا آپ کو یہ اسی حالت میں ملا تھا ۔ "
 
" جی ہاں ۔ ۔ ۔ ! " ڈاکٹر نے متحیر ہوکر کہا ۔ " لیکن میں آپ کا مطلب نہیں سمجھا ۔ "
" وہی عرض کرنے جارہا ہوں ۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ نواب صاحب نے خط لکھا کر دستخط کردینے کے بعد بھی نیچے لکھا ہو جسے کسی نے بعد میں قینچی سے کاٹ کر اسے برابر کرنے کی کوشش کی ہے ۔ میرا خیال ہے کہ نواب صاحب فطرتا اتنے کنجوس نہیں کہ باقی بچا ہوا کاغذ کاٹ کر دوسرے مصرف کے لئے رکھ لیں ۔ "
" اف میرے خدا ۔ " ڈاکٹر نے سر پکڑ لیا ۔ یہاں تک میری نظر نہیں پہنچی تھی ۔ "
" بہرحال حالات کچھ ہی کیوں نہ ہوں کیا آپ بحثیت فیملی ڈاکٹر اتنا نہیں کرسکتے کہ کرنل تیواری کے بجائے کسی اور معالج سے علاج کرائیں ۔ "
" میں اس معاملے میں بالکل بےبس ہوں فریدی صاحب ۔ حالانکہ نواب صاحب نے کئی بار مجھ سے آپریشن کے متعلق گفتگو کی تھی ۔ ۔ ۔ اور ہاں کیا نام ہے اس کا اس سلسلے میں سول ہسپتال کے اسپیشلسٹ ڈاکٹر شوکت کا بھی تذکرہ آیا تھا ۔ "
" اب تو معاملہ بالکل صاف ہوگیا ۔ " فریدی نے ہاتھ ملتے ہوئے کہا ۔ " ممکن ہے خط لکھ چکنے کے بعد نواب صاحب نے یہ لکھا ہو کہ اگر کرنل تیواری نہ مل سکیں تو ڈاکٹر شوکت کو لیتے آئیے گا ۔ اس حصے کو کسی نے غائب کردیا ۔ "
" ہوں ۔ ۔ ۔ ! " توصیف نے کچھ سوچتے ہوئے کہا ۔
" میرا خیال ہے کہ آپ ڈاکٹر شوکت سے ضرور رجوع کیجئے ۔ کم از کم اس صوبے میں وہ اپنا جواب نہیں رکھتا ۔ "
" میں اس کی تعریفیں اکبارات میں پڑھتا رہتا ہوں اور اس سے ایک بار مل بھی چکا ہوں ۔ میں یہ اچھی طرح جانتا ہوں کہ وہ نواب صاحب کا سو فیصدی کامیاب آپریشن کرے گا لیکن فریدی صاحب میں کرنل تیواری کی موجودگی میں بالکل بےبس ہوں ۔ ایسا جھکی آدمی آج تک میری نظروں سے نہیں گزرا ۔ "
 
" کرنل تیواری کی آپ فکر نہ کریں ۔ اس کا انتظام میں کر لوں گا ۔ آپ جتنی جلد ممکن ہوسکے ڈاکٹر شوکت سے مل کر معاملات طے کر لیجئے ۔ "
" آپ کرنل تیواری کا کیا انتظام کریں گے ۔ "
" انتظام کرنا کیسا ! وہ تو قریب قریب ہوچکا ہے ۔ " فریدی نے سگار جلاتے ہوئے کہا ۔
" میں آپ کا مطلب نہیں سمجھا ۔ "
" تین دن کے بعد کرنل تیواری کا یہاں سے تبادلہ ہوجائے گا ۔ اوپر سے حکم آگیا ہے ۔ مجھے باوثوق ذرائع سے اطلاع ملی ہے ۔ لیکن خود کرنل تیواری کو ابھی تک اس کا علم نہیں ۔ انہیں اتنی جلد جانا ہوگا کہ شاید وہ دھوبی کے یہاں سے اپنے کپڑے بھی نہ منگا سکیں ۔ لیکن یہ راز کی بات ہے اسے اپنے تک محدود رکھئے گا ۔ "
" ارے یہ بھی کوئی کہنے کی بات ہے ۔ " ڈاکٹر توصیف نے کہا ۔
" اچھا تو اب میں چلوں ۔ ۔ ۔ آپ کرنل تیواری کے تبادلے کی خبر سنتے ہی ڈاکٹر شوکت کو یہاں لے آئیے گا ۔ میرا خیال ہے کہ اس وقت پھر کسی کو اعتراض کی بھی گنجائش نہ رہ جائے گی ۔ ہاں دیکھئے اس کا خیال رہے کہ میری ملاقات کا حال کسی پر ظاہر نہ ہونے پائے ۔ خصوصا نواب صاحب کے خاندان کے کسی فرد اور اس خبطی بوڑھے پروفیسر کو اس کی اطلاع نہ ہونے پائے ۔ صاحب مجھے تو وہ بوڑھا انتہائی خبیث معلوم ہوتا ہے ۔ "
" میں بھی اس کے بارے میں کوئی اچھی رائے نہیں رکھتا ۔ ۔ ۔ ! "
" وہ آخر ہے کون ۔ " فریدی نے دلچسپی ظاہر کرتے ہوئے کہا ۔
" میرے خیال سے وہ نواب صاحب کا کوئی عزیز ہے لیکن میں اتنا جانتا ہوں کہ نواب صاحب نے میرے سامنے اس سے پرانی کوٹھی کا کرایہ نامہ لکھوایا تھا ۔ بلکہ میں نے اس پر گواہ کی حیثیت سے دستخط کئے تھے ۔ "
" خیر ۔ ۔ ۔ اچھا اب میں اجازت چاہوں گا ۔ " فریدی نے اٹھتے ہوئے کہا ۔ " مجھے امید ہے کہ آپ جلد ہی ڈاکٹر شوکت سے ملاقات کریں گے ۔ "
 
فریدی کی کار تیزی سے شہر کی طرف جارہی تھی ۔ آج اس کا دماغ بےانتہا الجھا ہوا تھا ۔ بہرحال وہ جو مقصد لے کر راج روپ نگر آیا تھا اس میں اگر بالکل نہیں تو تھوڑی بہت کامیابی ضرور ہوئی تھی ۔ اب وہ آئندہ کے لئے پروگرام مرتب کررہا تھا ۔ جیسے جیسے وہ سوچتا تھا اسے اپنی کامیابی کا پورا یقین ہوتا جارہا تھا ۔
سڑک کے دونوں طرف دور دور تک چھیول کی گھنی جھاڑیاں تھیں ۔ سڑک بالکل سنسان تھی ۔ ایک جگہ اسے بیچ سڑک پر ایک خالی تانگہ کھڑا نظر آیا ۔ وہ بھی اس طرح جیسے وہ خاص طور پر راستہ روکنے کے لئے کھڑا کیا گیا ہو ۔ فریدی نے کار کی رفتار دھیمی کرکے ہارن دینا شروع کیا لیکن دور و نزدیک کوئی دکھائی نہ دیتا تھا ۔ سڑک زیادہ چوڑی نہ تھی ۔ لہذا فریدی کو کار روک کر اترنا پڑا ۔ تانگہ کنارے لگا کر وہ گاڑی کی طرف لوٹ ہی رہا تھا کہ اسے دور جھاڑیوں میں ایک بھیانک چیخ سنائی دی ۔ کوئی بھرائی ہوئی آواز میں چیخ رہا تھا ۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے بار بار چیخنے والے کا منہ دبالیا جاتا ہو اور وہ گرفت سے نکلنے کے بعد پھر چیخنے لگتا ہو ۔ فریدی نے جیب سے ریوالور نکال کر آواز کی طرف دوڑنا شروع کیا ۔ وہ قد آدم جھاڑیوں سے الجھتا ہوا گرتا پڑتا جنگل میں گھسا جارہا تھا ۔ دفعتا ایک فائر ہوا اور ایک گولی سنسناتی ہوئی اس کے کانوں کے قریب سے نکل گئی ۔ وہ پھرتی کے ساتھ زمین پر لیٹ گیا ۔ لیٹے لیٹے رینگتا ہوا وہ ایک کھائی کی آڑ میں ہوگیا ۔ اب پے درپے فائر ہونا شروع ہوگئے ۔ اس نے بھی اپنا پستول خالی کرنا شروع کردیا ۔ دوسری طرف سے فائر ہونا بند ہوگئے ۔ شاید گولیاں چلانے والا اپنے خالی پستول میں کارتوس چڑھا رہا تھا ۔ فریدی نے کھائی کی آڑ سے سر ابھارا ہی تھا کہ فائر ہوا ۔ اگر وہ تیزی سے پیچھے کی طرف نہ گرگیا ہوتا تو کھوپڑی اڑ ہی گئی تھی ۔ دوسری طرف سے پھر اندھا دھند فائر ہونے لگے ۔ فریدی نے بھی دو تین فائر کئے اور پھر چیختا کراہتا سڑک کی طرف بھاگا ۔ دوسری طرف سے اب بھی فائر ہورہے تھے ۔ لیکن وہ گرتا پڑتا بھاگا جارہا تھا ۔ کار میں پہنچتے ہی وہ تیز رفتاری سے شہر کی طرف روانہ ہوگیا ۔
 
حیرت ناک سانحہ
شام کا اخبار شائع ہوتی ہی سارے شہر میں سنسنی پھیل گئی ۔ اخبار والے گلی کوچوں میں چیختے پھر رہے تھے انسپکٹر فریدی کا قتل ۔ ۔ ۔ ایک ہفتہ کے اندر اندر آپ کے شہر میں تین قتل ۔ ۔ ۔ شام کا تازہ پرچہ پڑھئے ۔ اخبار میں پورا واقعہ درج تھا ۔
آج دو بجے دن انسپکٹر فریدی کی کار پولیس ہسپتال کے کمپاؤنڈ میں داخل ہوئی ۔ انسپکٹر فریدی کار سے اترتے وقت لڑکھڑا کر گرپڑے ۔ کسی نے ان کے داہنے بازو اور بائیں شانے کو گولیوں کا نشانہ بنادیا تھا ۔ فورا ہی طبعی امداد پہنچائی گئی لیکن فریدی صاحب جان بر نہ ہوسکے ۔ تین گھنٹے موت و حیات کی کش مکش میں مبتلا رہ کر وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے رخصت ہوگئے ۔ یقینا یہ ملک و قوم کے لئے ناقابل تلافی نقصان ہے ۔
انسپکٹر فریدی غالبا سبیتا دیوی کے قتل کے سلسلے میں تفتیش کررہے تھے لیکن انہوں نے اپنے سرکاری روزنامچے میں کسی کی کوئی خانہ پری نہیں کی ۔ چیف انسپکٹر صاحب کو بھی اس بات کا علم نہیں کہ انہوں نے سراغ رسانی کا کون سا طریقہ اختیار کیا تھا ۔ ابھی تک کوئی نہیں بتاسکتا کہ انسپکٹر فریدی آج صبح کہاں گئے تھے ۔ بظاہر ان کی کار پر جمی ہوئی گرد اور پہیوں کی حالت بتاتی ہے کہ انہوں نے کافی لمبا سفر کیا تھا ۔
" انسپکٹر فریدی کی عمر تیس سال تھی ۔ وہ غیر شادی شدہ تھے ۔ انہوں نے دو بنگلے اور ایک بڑی جائیداد چھوڑی ہے ۔ ان کے کسی وارث کا پتہ نہیں چل سکا ۔ "
یہ خبر آگ کی طرح آنا فانا سارے شہر میں پھیل گئی ۔ محکمہ سراغ رسانی کے دفتر میں ہلچل مچی ہوئی تھی ۔ انسپکٹر فریدی کے دوستوں نے لاش حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن انہیں لاش دیکھنے کی اجازت نہ دی گئی اور کئی خبروں سے معلوم ہوا ہے کہ پوسٹ مارٹم کرنے پر پانچ یا چھ زخم پائے گئے ہیں ۔
 
یہ سب کچھ ہورہا تھا لیکن سرجنٹ حمید نہ جانے کیوں چپ تھا ۔ اسے اچھی طرح معلوم تھا کہ انسپکٹر فریدی راج روپ نگر گیا تھا لیکن اس نے اس کی کوئی اطلاع چیف انسپکٹر کو نہ دی ۔ وہ نہایت اطمینان سے پولیس اور خفیہ پولیس کی بھاگ دوڑ کا جائزہ لے رہا تھا ۔
دوسرے جاسوسوں اور بہیترے لوگوں نے اس سے ہر طرح پوچھا لیکن اس نے ایک کو بھی کوئی تشفی بخش جواب نہ دیا ۔ کسی سے کہتا کہ انہوں نے مجھے اپنا پروگرام نہیں بتایا تھا کسی سے کہتا انہوں نے مجھ سے یہ تک تو بتایا نہیں تھا کہ انہوں نے اپنی چھٹی کینسل کرادی ہے پھر سراغ رسانی کا پروگرام کیا بتاتے ۔ کسی کو یہ جواب دیتا کہ وہ اپنی اسکیموں میں کسی سے نہ مشورہ لیتے تھے اور نہ مل کر کام کرتے تھے ۔
تقریبا دس بجے رات کو ایک اچھی حیثیت کا نیپالی چوروں کی طرح چھپتا چھپاتا سرجنٹ حمید کے گھر سے نکلا ۔ بڑی دیر تک یوں ہی بےمصرف سڑکوں پر مارا مارا پھرتا رہا پھر ایک گھٹیا سے شراب خانے میں گھس گیا ۔ جب وہ وہاں سے نکلا تو اس کے پیر بری طرح ڈگمگا رہے تھے ۔ آنکھوں سے معلوم ہوتا تھا جیسے وہ کثرت سے پی گیا ہو ۔ وہ لڑکھڑاتا ہوا ٹیکسیوں کی طرف چل پڑا ۔
" ول بھائی شاپ ہم دور جانا مانگتا ہے ۔ " اس نے ایک ٹیکسی ڈرائیور سے کہا ۔
" صاحب ہمیں فرصت نہیں ۔ ۔ ۔ ! " ٹیکسی ڈرائیور نے کہا ۔
" او بابا پیسے دے گا ۔ ۔ ۔ " اس نے جیب میں ہاتھ ڈال کر پرس نکالتے ہوئے کہا ۔
" نہیں ۔ ۔ ۔ نہیں صاحب ۔ ۔ ۔ مجھے فرصت نہیں ۔ " ٹیکسی ڈرائیور نے دوسری طرف منہ پھیرتے ہوئے کہا ۔
" ارے لو ہمارا باپ ۔ ۔ ۔ تم بھی شالا کیا یاد کرے گا ۔ " اس نے دس دس کے تین نوٹ اس کے ہاتھ پر رکھتے ہوئے کہا " اب چلے گا ہمارا باپ ۔ "
" بیٹھئے کہاں چلنا ہوگا ۔ " ٹیکسی ڈرائیور نے کار کا دروازہ کھولتے ہوئے کہا ۔
" جاؤ ہم نہیں جانا مانگتا ۔ ۔ ۔ ہم تم کو تیس روپیہ خیرات دیا ۔ " اس نے روٹھ کر زمین پر بیٹھتے ہوئے کہا ۔
 
" ارے نہیں صاحب اٹھئے چلئے ۔ ۔ ۔ جہاں آپ کہیں آپ کو پہنچادوں ۔ چاہے جہنم ہی کیوں نہ ہو ۔ " ٹیکسی ڈرائیور نے اس کے نشے کی حالت سے لطف اٹھاتے ہوئے ہنس کر کہا ۔
" جہنم لے چلے گا ۔ " نیپالی نے اٹھ کر پرمسرت لہجے میں کہا ۔ " تم بڑا اچھا ہے ۔ تم ہمارا باپ ہے ۔ ۔ ۔ تم ہمارا بھائی ہے ۔ ۔ ۔ تم ہمارا ماں ہے ۔ ۔ ۔ تم ہمارا بی بی ہے ۔ ۔ ۔ تم ہمارا بی بی کا شالا ہے ۔ ۔ ۔ تم ہمارا ۔ ۔ ۔ تم ہمارا ۔ ۔ ۔ تم ہمارا کیا ہے ۔ "
" صاحب ہم تمہارے سب کچھ ہے بولو کہاں چلے گا ۔ " ٹیکسی ڈرائیور نے اس کا ہاتھ اپنی گردن سے ہٹا کر ہنستے ہوئے کہا ۔
" جدھر ہم بتلانا مانگتا ۔ شائد تم نہیں جانتا کہ ہم بڑا لوگ ہے ۔ ہم تم کو اور بخشش دے گا ۔ " مدہوش نیپالی نے پچھلی سیٹ پر بیٹھتے ہوئے کہا ۔ " شیدھا چلو ۔ "
دوسرے موڑ پر پہنچ کر ٹیکسی راج روپ نگر کی طرف جارہی تھی ۔
کتے کی موت
ڈاکٹر شوکت انسپکٹر فریدی کی موت کی خبر سن کر ششدر رہ گیا ۔ اسے حیرت تھی کہ آخر یک بیک یہ کیا ہوگیا ۔ لیکن وہ سوچ بھی نہ سکتا تھا کہ اس کی موت سبیتا دیوی قتل کی تفتیش کے سلسلے میں واقع ہوئی ہے ۔ وہ یہی سمجھ رہا تھا کہ فریدی کے کسی پرانے دشمن نے اسے موت کے گھاٹ اتار دیا ہوگا ۔ محکمہ سراغ رسانی والوں کے لئے دشمنوں کی اچھی خاصی تعداد پیدا کرلینا کوئی تعجب کی بات نہیں ۔ اس پیشے کے کامیاب ترین آدمیوں کی موتیں عموما اسی طرح واقع ہوتی ہیں ۔
 
Top