وجے کمار مسلمان ہو گیا

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

شمشاد

لائبریرین
السلام علیکم ! فقط اتنا عرض کروں گا کہ صاحب مقالہ ہذا نے اپنے نظریات کو جس طرح سے ادبی پیرائے میں رکھتے ہوئے مقام استدلال میں پیش کیا ہے وہ انکی اصول دین یعنی عقل و نقل دونوں سے عدم واقفیت کا واضح ثبوت ہے ۔ کیونکہ ہندو اور مسلم دو الگ الگ نظریاتی تشخصات کا نام ہیں اور ان دونوں کی "تشخصاتی " تفریق کی بنیاد عقائد ہیں نہ کہ محض چند مذہبی و معاشرتی رسومات میں موافقت و عدم موافقت ، لہذا جب ہم کہتے ہیں کہ فلاں شخص مسلمان ہوگیا تو اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ وہ محض چند مذہبی رسومات میں مسلمانوں سے ظاہری مشارکت کی وجہ سے مسلمان ہوگیا بلکہ ہمارے ایسی بات کہنے کی اصل اس فلاں شخص کہ سابقہ بنیادی نظریات و عقائد میں ایسی تبدیلی ہوتی ہے جو کہ مسلمانوں سے نظریاتی موافقت میں ہو یعنی اس شخص سے مذہب ہنود کو چھوڑ کر اسلام کو اپنا لیا اب وہ سینکڑون دیوتاوں کا نہیں بلکہ رب واحد و یکتا کا پجاری ہے اب وہ کرشنا اور اس جیسی دیگر ہنود ہستیوں کی برگزیدگی کی بجایے تمام انبیاء اور بالخصوص خاتم النبین کی نبوت و رسالت کا قائل ہوگیا ہے وغیرہ وغیرہ۔
لہذا وہ بعض اعمال جو کہ دو الگ الگ نظریاتی بنائے وجود رکھنی والی قوموں میں مشارکت کا درجہ رکھتے ہوں بایں وجہ کہ دونوں قوموں کا ایک طویل عرصہ تک مشترکہ تہذیب و ثقافت میں ساتھ رہا ہو محض اس وجہ سے چند مذہبی و معاشرتی رسومات کو بنیاد بنا کر دونوں قوموں کو ایک جیسا قرار نہیں دیا جاسکتا ۔۔

اس کی ایک بہت ہی آسان مثال نقل کروں گا یہاں پر مغرب میں ایک بڑی مشھور مثال بنی ہوئی ہے کہ ان میں سے جو شخص کثرت سے جھوٹ بولے، وعدہ خلافی کرئے، بے ایمانی کرئے اور لوگوں کا حق مارے یہ لوگ از رائے استہزا اسے کہتے ہیں کہیں تو مسلم تو نہیں ہوگیا کہ جو تجھ میں یہ سب رزائل در آئے ؟؟؟
اب کیا بھلا ہم ایسا کہہ سکتے ہیں کہ جس بھی شخص یا قوم مین ایسے اعمال ہوں وہ مسلم ہی کہلاتی ہے معاذاللہ والسلام

صاحب مضمون نے صرف مثال دی ہے اور جو مثال دی ہے وہ ہمارے کرتوتوں کی وجہ سے دی ہے۔ ہمیں آئینہ دکھایا ہے کہ ہم کیا ہیں اور کیا کر رہے ہیں۔
 

عثمان

محفلین
ہندوؤں یا دوسری اقوام سے رسومات اور رواج اپنانے میں ایسی کیا برائی ہے ؟
انسانی تہذیب کوئی آفاقی چیز نہیں ، ارتقاء کرتی ایک باہمی سماجی پراڈکٹ ہے۔ افراد اور معاشرے اسی طرح ایک دوسرے سے شئیر کرتے ہیں۔ بالکل فطری بات ہے۔ نہ چاہتے ہوئے بھی آپ اس عمل کو روک نہیں سکتے۔ اور پھر روکنا بھی کیوں ہے ؟

رہا کسی معاملے میں عقیدے کا مسئلہ تو وہ فرد پہ کیوں نہیں چھوڑ دیا جاتا ؟
 

شاکر

محفلین
بھلا ہو اس محترم نے جس نے مجھے اک کتاب دی ۔
"دواسلام "
اس کتاب کے مکمل مندرجات سے تو میں متفق نہیں مگر
اس کی جس بات سے میرا بھلا ہوا ۔ وہ یہ تھی کہ
بدعت کی تلاش میں کامیابی " احادیث " کو متنازغہ کر دیتی ہے
قران انسان کے لیئے اللہ کا پیغام ہے ۔


بہت ہی محترم دوست نایاب!
”دو اسلام،، کے مصنف ڈاکٹر غلام جیلانی برق اتفاق سے میرے ہی شہر کے رہنے والے تھے اور میری ان سے رہ و رسم بھی رہی ہے
ایک عرصہ تک وہ بھی الحاد و زندقہ کی گھاٹیوں میں سرگرداں رہے ۔ ۔ ۔ ۔ انکار حدیث یا حدیث کا مضحکہ اڑانے میں بھی شہرت پائی
کفرو الحاد کے فتوے بھی جھیلے۔ ۔ ۔ اپنے موقف سے رجوع بھی کیا اور ”توبہ نامہ،، شائع کرکے اپنے سابق موقف سے رجوع بھی کیا
یاد رہے کہ برق صاحب نے ﹶ”دواسلام،، میں جو موقف اختیار کیا تھا اسی سے رجوع کرنے کے بعد”تاریخ حدیث،، نامی کتاب لکھی اور اسی کتاب کو اپنی بخشش کا وسیلہ قرار دیا تھا

برق صاحب کی توبہ میں اسی کتاب دو اسلام کے تجزیے پر لکھی گئی کتاب تفہیم اسلام کا بہت کردار رہا تھا۔ جس کا اعتراف برق صاحب نے اپنے خطوط میں بھی کیا تھا۔ یہ کتاب تفہیم اسلام درج ذیل لنک پر موجود ہے:


http://kitabosunnat.com/kutub-libra...itna-inkar-e-hadees/1249-tafheem-e-islam.html

توبہ کے بعد برق صاحب کی شائع ہونے والی کتاب تاریخ حدیث بھی درج ذیل لنک پر دستیاب ہے:

http://kitabosunnat.com/kutub-library/article/1-urdu-islami-kutub/1244-tareekhe-hadees.html

نایاب بھائی، دو اسلام پڑھ لی ہے تو تفہیم اسلام بھی ضرور پڑھ ڈالیں۔ پڑھنے میں کچھ حرج نہیں۔
 

آبی ٹوکول

محفلین
صاحب مضمون نے صرف مثال دی ہے اور جو مثال دی ہے وہ ہمارے کرتوتوں کی وجہ سے دی ہے۔ ہمیں آئینہ دکھایا ہے کہ ہم کیا ہیں اور کیا کر رہے ہیں۔
جی ہاں اور ہم نے اس مثال کا مضحکہ خیز ہونا واضح کیا وہ شاید آپکی سمجھ میں نہیں آیا جو قیاس مع الفارق پر مبنی مثال کی بڑے دڑلے سے حمایت فرما رہے ہیں ۔ اور یہ بائی دا وے ہمارے کرتوتوں سے آپکی کیا مراد ہے ہین جی ؟؟؟؟ صاحب مقالہ نے جن فقہی مسائل کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا ہے وہ کسی کا جاہلانہ کار نہیں بلکہ اس کے پیچھے نہایت ہی مستند اور معتبر فقہی نصوص کارفرما ہیں ۔ باقی عقل مند را اشارہ کافی است۔۔ والسلام
 

نایاب

لائبریرین
ویسے بھی تو ہم نام کے ہی مسلمان رہ گئے ہوئے ہیں اور وہ بھی شاید اس لیے کہ مسلمان گھرانے میں جنم لیا۔
بلا شک محترم شمشاد بھائی
یہ تو اس خالق حقیقی کا امر تھا کہ اک مسلم گھرانے میں پیدا ہوئے ۔
اگر کسی نصرانی یا یہودی گھرانے میں پیدا ہوتے تو نام بھی یہود و نصاری جیسا ہوتا ۔
وہ سچا خالق حقیقی " رب المسلمین " نہیں بلکہ " رب العالمین ہے "
اور تمام عالمین میں موجود جملہ کائنات کو یکساں نظر سے دیکھتے یکساں اعمال کی سزا و جزا سے نوازتا ہے ۔
ویسے نام کے مسلمان اور غیر اسلامی ناموں کے حامل میں کچھ فرق نہیں ۔ ؟
 

نایاب

لائبریرین
برق صاحب کی توبہ میں اسی کتاب دو اسلام کے تجزیے پر لکھی گئی کتاب تفہیم اسلام کا بہت کردار رہا تھا۔ جس کا اعتراف برق صاحب نے اپنے خطوط میں بھی کیا تھا۔ یہ کتاب تفہیم اسلام درج ذیل لنک پر موجود ہے:


http://kitabosunnat.com/kutub-libra...itna-inkar-e-hadees/1249-tafheem-e-islam.html

توبہ کے بعد برق صاحب کی شائع ہونے والی کتاب تاریخ حدیث بھی درج ذیل لنک پر دستیاب ہے:

http://kitabosunnat.com/kutub-library/article/1-urdu-islami-kutub/1244-tareekhe-hadees.html

نایاب بھائی، دو اسلام پڑھ لی ہے تو تفہیم اسلام بھی ضرور پڑھ ڈالیں۔ پڑھنے میں کچھ حرج نہیں۔
محترم شاکر بھائی
جزاک اللہ خیراء
کرم ہے اللہ کا کہ اس نے مجھے ان کتابوں سے بھی اکتساب کی توفیق سے نوازا ۔
یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ محترم برق صاحب کی توبہ اور پھر " تاریخ حدیث " کی تصنیف کے پیچھے کون سے عوامل کار فرما تھے ۔
لیکن " دو اسلام " کے مندرجات میں جس طرح تقابل احادیث کیا گیا ہے ۔ وہ کسی صورت کسی بھی جانب سے رد نہ ہو سکا ۔
قران پاک بہت سادہ کلام ہے ۔ کسی بھی صاحب علم کا کیا گیا ترجمہ پڑھتے سمجھتے
تلاوت کلام پاک سے نہ صرف لذت دل و جاں حاصل ہوتی ہے بلکہ یہ سچا کلام اپنے معنی و اسرار خود اپنے مخاطب پر کھولتا جاتا ہے ۔
اور اپنی حقانیت کی بنا کسی تحریف کے خود گواہی دیتا ہے ۔ احادیث کا موجودہ مجموعہ " متفق " ضعیف " متروک " کی بنیاد پر کھڑا صرف
بحث و مباحثہ اور تکفیر کے لیئے زیادہ استعمال کیا جاتا ہے ۔ کسی کی شان بڑھائی کسی کی شان گھٹائی جاتی ہے
اور ہر دو جانب سے سہارا احادیث کا ۔
 

شمشاد

لائبریرین
جی ہاں اور ہم نے اس مثال کا مضحکہ خیز ہونا واضح کیا وہ شاید آپکی سمجھ میں نہیں آیا جو قیاس مع الفارق پر مبنی مثال کی بڑے دڑلے سے حمایت فرما رہے ہیں ۔ اور یہ بائی دا وے ہمارے کرتوتوں سے آپکی کیا مراد ہے ہین جی ؟؟؟؟ صاحب مقالہ نے جن فقہی مسائل کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا ہے وہ کسی کا جاہلانہ کار نہیں بلکہ اس کے پیچھے نہایت ہی مستند اور معتبر فقہی نصوص کارفرما ہیں ۔ باقی عقل مند را اشارہ کافی است۔۔ والسلام

ہمارے کرتوتوں سے مراد یہی ہے کہ ہم کہتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ ہیں۔ جانتے ہیں کہ جھوٹ بولنا غلط بات ہے، گناہ ہے پھر بھی بڑے دھڑلے سے جھوٹ بولتے ہیں۔ جانتے ہیں کہ کسی کو دھوکہ دینا گناہ ہے پھر بھی صبح شام دوسروں کو دھوکہ دینے میں مصروف رہتے ہیں۔ جانتے ہیں کہ فلاں طریقے سے کمائی گئی دولت حرام ہے پھر بھی حرام حلال میں فرق نہیں کرتے۔ کیا کیا گنواؤں جناب۔
 

آبی ٹوکول

محفلین
ہمارے کرتوتوں سے مراد یہی ہے کہ ہم کہتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ ہیں۔ جانتے ہیں کہ جھوٹ بولنا غلط بات ہے، گناہ ہے پھر بھی بڑے دھڑلے سے جھوٹ بولتے ہیں۔ جانتے ہیں کہ کسی کو دھوکہ دینا گناہ ہے پھر بھی صبح شام دوسروں کو دھوکہ دینے میں مصروف رہتے ہیں۔ جانتے ہیں کہ فلاں طریقے سے کمائی گئی دولت حرام ہے پھر بھی حرام حلال میں فرق نہیں کرتے۔ کیا کیا گنواؤں جناب۔
آپ کرتے ہوں گے ہم تو نہیں کرتے ؟؟؟؟ :p
باقی جو عیوب آپ نے گنوائے ان سے مسلمان کا بچہ بچہ بھی بخوبی واقف ہے اور جانتا ہے کہ گناہ ہیں مگر ان سب عیوب کا ، رسومات ایصال ثواب سے کیا تعلق ؟؟؟ وہ تو ہرگز گناہ نہیں ؟؟؟؟ اور ہم یہ جانتے ہیں اور ایسا ہی کہتے بھی ہیں اور اسی پر عمل بھی ہے :chatterbox: اگے بولووووو
 

آبی ٹوکول

محفلین
بچہ بچہ بخوبی واقف ہے پھر بھی انجان بن کر وہی کچھ کرتے ہیں۔
کسی کا کسی چیز کی حرمت کو جاننے کہ باوجود اس کا ارتکاب کرنا ایک الگ بات ہے جبکہ کسی کا کسی شئے کے مبنی بر حلت و اباحت ہونے کے بعد اس پر عمل پیرا ہونا ایک بالکل دوسری بات ہے پہلی بات کا محرک انسان کو اللہ پاک کا عطا کردہ وہ ارادہ و اختیار ہے کہ جسکی بنیاد پر اسلام میں تصور سزا و جزا رکھا گیا ہے ۔ اور آپکا مسئلہ یہ ہے کہ آپ دو مختلف چیزوں کو بری طرح سے مکس اپ کر رہے ہیں لہذا یہی وجہ ہے کہ آپ بار بار ایک مخصوص مسئلہ کو اس کہ درست تناظر میں نہ سمجھنے کی وجہ سے بری طرح سے " کج مثالی کی مثال " بنے بیٹھے ہیں ۔۔۔۔ والسلام
 

شمشاد

لائبریرین
میں نے بڑے آسان فہم الفاظ میں کہا تھا کہ ہم ہیں کیا اور کرتے کیا ہیں۔ ہمیں اپنے گریبانوں میں جھانکنا چاہیے اور خود ہی فیصلہ کرنا چاہیے کہ ہم صحیح ہیں یا غلط۔ اب آپ اس کو الجھا کر اور لفظوں کا کھیل بنا کر کہیں کا کہیں لے جائیں تو جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ بحثیت مسلمان ہمارے اقوال و افعال میں بہت زیادہ تضاد ہے۔
 
۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ بحثیت مسلمان ہمارے اقوال و افعال میں بہت زیادہ تضاد ہے۔
جی ہاں واقعی بہت تضاد ہے، کیونکہ اقوال تو ہمارے یہ ہیں کہ "مسلمانوں کو تنگ نظر نہیں ہونا چاہئیے، دوسرے مسلمانوں کا احترام کرنا چاہئیے، اور مثبت سوچ رکھنی چاہئیے، انتہاپسند رویے سے دور رہنا چاہئیے اختلافی مسائل پر احتیاط سے بات کرنا چاہئیے، دوسروں کو خود سے بہتر سمجھنا چاہئیے اور یہ کہ مسلمان دوسرے مسلمان سے خوش گمانی رکھتا ہے بدگمانی نہیں، وغیرہ وغیرہ۔۔۔" لیکن جب افعال کی بات آتی ہے تو ہماری تمام حرکتیں ان اقوال کے منافی ہوتی ہیں۔:)
 

ساجد

محفلین
دائرے۔۔۔خیالی اور خیالاتی۔ اور پھر ان دائروں سے باہر نظر آنے والوں کو کم تر مسلمان سمجھنا یا سرے سے مسلمان ہی نہ سمجھنا۔
ان دائروں کی تشکیل سے ہم جب تک جان نہیں چھڑواتے بہتری کی امید بھی نہ رکھیں۔ ارے بھائی ، جو کچھ آپ کو معلوم ہے دوسروں تک پہنچا دو بس آپ کا فرض ادا ہو گیا۔ اس کے بعد اعمال کا حساب لگانا اور ہمارے ایمان کی گہرائی ماپنا اللہ تعالی کا کام ہے انسانوں کا نہیں۔ جو کام رب کا ہے وہ اسی کے لئے رہنے دیں اپنے ہاتھ میں نہ لیں۔
 

آبی ٹوکول

محفلین
میں نے بڑے آسان فہم الفاظ میں کہا تھا کہ ہم ہیں کیا اور کرتے کیا ہیں۔ ہمیں اپنے گریبانوں میں جھانکنا چاہیے اور خود ہی فیصلہ کرنا چاہیے کہ ہم صحیح ہیں یا غلط۔ اب آپ اس کو الجھا کر اور لفظوں کا کھیل بنا کر کہیں کا کہیں لے جائیں تو جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ بحثیت مسلمان ہمارے اقوال و افعال میں بہت زیادہ تضاد ہے۔
حسن کرشمہ ساز میرا کر رہا ہے یا آپ کا کرہا ہے ؟؟؟؟ آپ کو ایک سیدھی سی بات سمجھ میں نہیں آتی کہ ایک شخص نے مسلمان طبقہ کی ایک بڑی اکثریت کی مذہبی رسومات کو برے سائنٹفک پیرائے میں تضحیک کا نشانہ بنایا ہے اور آپ نے اول تو آتے ساتھ ہی اس پر دادو تحسین کہ ڈونگرے برسانے شروع کردیئے مگر جب آپکی توجہ اس امر کی طرف دلوائی گئی کہ اس فعل سے مسلمانوں کے ایک مکتبہ فکر کی دل ازاری ہوئی ہے کیونکہ جن رسومات کو طعن کا نشانہ بنا کر مسلمانوں کو ہنود سے تشبیہ دی گئی ہے وہ مسلمانوں کہ مخلتف مکاتب فکر کہ ہاں اختلافی ہیں اورکرنے والوں کہ پاس ٹھیک ٹھاک فہقی نصوص موجود ہیں مگر پھر رونا لیکر بیٹھ گئے مسلمانوں کہ قول و فعل کہ تضاد کا اور اسکو بنیاد بنا کر اپنے یہاں کیے گئے فعلکے لیے شیلٹر تیار کرلیا ۔۔
ارے بھائی ہم نے مانا کہ مسلمانوں کی اکثریت آج قول و فعل کے تضاد کا شکار ہے مگر اس کا کیا تعلق اس تھریڈ اور موضوع سے " اجی ہونگے مسلمان بے عملے اور قول و فعل کہ تضادے " مگر یہاں جو موضوع چل رہا ہے اور جس امر کو تضحیک نشانہ بنایا گیا ہے وہ کسی بے عملی یا بد عملی کا شاخسانہ نہیں بلکہ اس کے پیچھے تہذیب و ثقافت کہ ساتھ ساتھ مذہبی دلائل بھی موجود ہیں ۔۔مگر آپ کی حالت ہے کہ کچھ نہ سمجھے خدا کرئے کوئی ۔۔ اینڈ دس اس مائی لاسٹ رپلائی فار یو خوش رہیے والسلام
 

فاتح

لائبریرین
واہ کیا ہی خوبصورت تحریر ہے محمد احمد بھائی۔۔۔ بس ایک اعتراض ہے کہ ایسی جگہوں پر اتنے اخلاص کا مظاہرہ نہیں کیا جاتا۔۔۔ اگر میں آپ کی جگہ ہوتا تو فُٹ نوٹ میں "معذرت" کے احمقانہ لفظ کی بجائے یوں لکھتا:
اس تحریر سے کسی کی دل آزاری ہرگز ہرگز مقصود نہیں ہے کہ اردو محفل کے تمام دوست مجھے دل و جان سے عزیز ہیں. اگر پھر بھی یہ تحریر کسی کی دل شکنی کا باعث بنے تو بنے۔ ہماری بلا سے۔
یہ جاہلانہ و ہندوانہ رسوم ہماری گھٹی میں پڑی ہوئی ہیں جو آسانی سے نہیں جانے والی۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں کسی عرب مسلمان کو میں نے سوئم چہلم مناتے نہیں دیکھا لیکن ہمارے پاکستانی و ہندوستانی مسلمانوں نے نیا ہی اسلام گھڑا ہے۔
(مجھے معلوم ہے یہاں جو ہڑبونگ مچنے والی ہے لہٰذا ہم اس دھاگے پر "نظر انداز" کا آپشن استعمال کر چکے ہیں۔۔۔ جسے جو "فرمانا" ہے "فرماتا" رہے۔ لگے رہو منّا بھائی! :laughing: )
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top