نوجوان نسل میں کتب بینی کو کیسے فروغ دیا جائے ؟

چھوٹے بچوں میں کتب بینی کے فروغ کیلیے والدین کا کردار بہت اہمیت کا حامل ہے۔ بچے لاشعوری طور پر اپنے والدین کی نقل کرتے ہیں، انہیں جو کچھ کرتے یا کہتے دیکھتے ہیں اسی کو نقل کرتے ہیں، اگر والدین گھر میں خود کتب بینی کریں اور بچوں کے ساتھ کتابوں پر بحث کریں تو ضرور بچوں میں بھی یہ عادت آئے گی اور جب کچھ ان کا دھیان اس طرف آئے تو ان کو دلچپسپ کتابیں دے کر اس شوق کو بڑھایا جا سکتا ہے (یہ اس خاکسار کا ذاتی تجربہ ہے)، لیکن افسوس وہی بات جو اوپر ایک دوست نے کہی، کتابیں بہت مہنگی ہو گئی ہیں اور اس پر ستم یہ کہ بچوں کی کتابیں اور زیادہ مہنگی ہیں، افسوس صد افسوس۔

ہم وارث بھائی و دیگر اصحاب سے قطعی طور پر متفق ہیں، لیکن ہمارا مسئلہ ذرا دوسری نوعیت کا ہے۔

ہم نے اپنے گھر کو کتابوں سے بھر دیا ہے ، یہاں تک کہ بیٹھنے کے لیے بھی مناسب جگہ ملنی دشوار ہے۔ ادھر بچوں میں گھر کی کتابیں دیکھ کر کتب بینی کا شوق تو ضرور پیدا ہوگیا ہے لیکن انگلش میڈیم اسکول سے اے لیول کرنے کی وجہ سے انگلش تو فر فر پڑھ جاتے ہیں، بلکہ اسکول اور پیر پریشر ہی کی وجہ سے پاپولر فکشن کی طرف راغب ہوگئے ہیں۔ حالانکہ اسکول ہی کی کوششوں کی وجہ سے ( کہ انھوں نے اردو لینگویج کے بجائے اردو لٹریچر پڑھا ہے )اور بہترین اردو بول اور لکھ پڑھ سکتے ہیں ۔
ادھر چاروں انگلش کتابوں کی طرف تو بہت زیادہ مائل ہیں لیکن اردو پڑھنے سے کتراتے ہیں۔ اسی طرح انگلش پاپولر فکشن کی علت سے انہیں کیسے نکالا جائے۔ بڑی بیٹی کو بڑی مشکل سے ڈیفنی ڈی موریر پڑھوایا تو وہ اسے چاٹ گئی۔ اسی طرح دونوں بیٹے اگاتھا کرسٹی کے عاشق ہوگئے اور ان کی سب کتابیں انھیں ازبر ہیں۔ ہماری چھوٹی والی ( جو ابھی تیسرے درجے میں ہیں) ابھی سے رول ڈاہل کی فین ہیں اور ان کی تمام کتابیں پڑھ چکی ہیں۔

سوال یہ ہے کہ انگلش پر ماسٹری اور پیر پریشرکے ہوتے ہوئے انھیں اردو کی طرف کیسے مائل کریں؟
 

محمد وارث

لائبریرین
اس دھاگے میں بار بار یہ سننے میں آیا ہے کہ پاکستان میں کتابیں بہت مہنگی ہیں۔
کیا کوئی دوست قیمت کا اندازا بتا سکتا ہے ؟ مثلا دس سال پہلے تک مستنصر حسین تارڑ کی تین چار سو صفحات پر مشتمل کتاب تقریبا ڈھائی یا تین سو روپے تک مل جاتی تھی۔
آج کل ایسی کتاب کی قیمت کتنی ہے ؟

قیمت کا دار و مدار ناشر پر بھی ہے، اگر یہی کتاب سنگِ میل والوں نے چھاپی ہے جو کہ عموماً وہی چھاپتے ہیں تو قیمت ہزار بارہ سو سے کم نہیں ہوگی بلکہ اس سے بھی زیادہ، الکھ نگری یا علی پور کا ایلی وغیرہ کی قیمتیں شاید پندرہ سو سے بھی زائد ہیں۔

اسی طرح جہانگیر بک ڈپو اسلام آباد جو کہ عموماً سیاسیات پر کتابیں چھاپتے ہیں، اور جنگ پبلیشرز اور نفیس اکیڈمی، کراچی جو عموماً ریفرنس بکس یا تاریخی کتابیں چھاپتے ہیں اور مکمل سیٹ ہوتے ہیں جیسے تاریخ طبری، بھی انتہائی مہنگی ہیں۔ تاریخ طبری میں نے کم و بیش پندرہ سال پہلے دو ہزار چار سو میں خریدی تھی، اب تازہ ایڈیشن کی قیمت پانچ سات ہزار سے کم نہیں ہے۔

عام پاپولر فکشن کی کتابیں بھی کافی مہنگی ہیں، عمیرہ احمد کے ناول آٹھ سو، ہزار سے کم نہیں ہیں لیکن ان پر ڈسکاؤنٹ ٹھیک مل جاتا ہے، پچیس تیس یا پینتیس فیصد تک، اوپر جن ناشروں کے میں نے نام لکھے ان کی کتابوں پر رعایت بھی پندرہ فیصد سے زائد نہیں ملتی۔
 

محمد وارث

لائبریرین
میرے دفتر سے گھر کے راستے میں ایک جگہ کتابوں کے اسٹالز کیلیے مخصوص ہے، سال میں چھ آٹھ ماہ وہاں کوئی نہ کوئی کتابوں کا اسٹال لگا ہی رہتا ہے، ابھی چند دن پہلے نیا اسٹال لگا تھا، وہاں رکا، آٹھ دس کتابیں پسند کیں، ان کا ٹوٹل کیا تو بیوی کی شکل اور اسکے طعنے اور کوسنے یاد آگئے، دل پر پتھر رکا، بچوں کیلیے ٹافیاں خریدیں اور چلا آیا، روز گزرتا ہوں ادھر دیکھتا بھی نہیں :)
 

مغزل

محفلین
میرے دفتر سے گھر کے راستے میں ایک جگہ کتابوں کے اسٹالز کیلیے مخصوص ہے، سال میں چھ آٹھ ماہ وہاں کوئی نہ کوئی کتابوں کا اسٹال لگا ہی رہتا ہے، ابھی چند دن پہلے نیا اسٹال لگا تھا، وہاں رکا، آٹھ دس کتابیں پسند کیں، ان کا ٹوٹل کیا تو بیوی کی شکل اور اسکے طعنے اور کوسنے یاد آگئے، دل پر پتھر رکا، بچوں کیلیے ٹافیاں خریدیں اور چلا آیا، روز گزرتا ہوں ادھر دیکھتا بھی نہیں :)
یہاں بھی یہی حال ہے وارث صاحب۔۔ آپ کا پورا مراسلہ سوائے ’’تو بیوی کی شکل اور اسکے طعنے اور کوسنے یاد آگئے ‘‘ کے مجھ غریب کی حالتِ زار ہے ۔۔ میرا تو پورا کمرہ صرف کتابوں سے بھرا ہوا ہے ۔۔
 

محمد وارث

لائبریرین
دوسری بات یہ کہ پاکستان میں اکثر والدین کورس کی کتابوں کے علاوہ بچوں کا کتابیں خاص طور پر فکشن پڑھنا پسند نہیں کرتے

یہ بات بھی انتہائی اہم ہے۔ والدین بچوں کی حوصلہ افزائی کرنے کی بجائے حوصلہ شکنی کرتے ہیں کہ کوئی بات ہے کہ ہم بچے کو ڈاکٹر یا انجینیئر بنانا چاہتے ہیں اور یہ ناول پڑھ رہا ہے۔ اللہ جنت نصیب کرے، میرے والد صاحب حوصلہ شکنی تو کیا میری پٹائی بھی کیا کرتے تھے میری اس عادت کی وجہ سے :)
 

محمداحمد

لائبریرین
یہ بات بھی انتہائی اہم ہے۔ والدین بچوں کی حوصلہ افزائی کرنے کی بجائے حوصلہ شکنی کرتے ہیں کہ کوئی بات ہے کہ ہم بچے کو ڈاکٹر یا انجینیئر بنانا چاہتے ہیں اور یہ ناول پڑھ رہا ہے۔ اللہ جنت نصیب کرے، میرے والد صاحب حوصلہ شکنی تو کیا میری پٹائی بھی کیا کرتے تھے میری اس عادت کی وجہ سے :)

یہ چیز پہلے زمانے کی حد تک تو ٹھیک تھی اور والدین یہ نہیں چاہتے تھے کہ بچے چھوٹی عمروں میں عشقیہ یا محض تخیلاتی مضامین پر مشتمل ناولز وغیرہ پڑھ کر اپنا دماغ خراب کریں لیکن اب تو ٹی وی اور فلموں کے ذریعے بچے نہ جانے کیا کچھ دیکھ رہے ہیں اور کم سنی میں ہی ذہنی آلودگی کا شکار ہو جاتے ہیں۔

مجھے یاد ہے ایک دفعہ میں اپنی ڈائری میں عبیداللہ علیم کی غزل لکھ رہا تھا تو میری بڑی بہن نے مجھے ڈانٹا اور وہ غزل مجھے ادھوری ہی چھوڑنی پڑی۔ آج بھی وہ ڈائری میرے پاس موجود ہے اور اس میں موجود ادھوری غزل بھی ۔ لیکن ہم بھی کہاں ماننے والے تھے سو آج تک شاعری سے سر پھوڑ رہے ہیں۔ :D
 

شمشاد

لائبریرین
میرے دفتر سے گھر کے راستے میں ایک جگہ کتابوں کے اسٹالز کیلیے مخصوص ہے، سال میں چھ آٹھ ماہ وہاں کوئی نہ کوئی کتابوں کا اسٹال لگا ہی رہتا ہے، ابھی چند دن پہلے نیا اسٹال لگا تھا، وہاں رکا، آٹھ دس کتابیں پسند کیں، ان کا ٹوٹل کیا تو بیوی کی شکل اور اسکے طعنے اور کوسنے یاد آگئے، دل پر پتھر رکا، بچوں کیلیے ٹافیاں خریدیں اور چلا آیا، روز گزرتا ہوں ادھر دیکھتا بھی نہیں :)

کسی دن نظر بچا کر خرید ہی لیں۔
 
اگر امریکہ میں کتابوں کے ریٹ کو مدِنظر رکھا جائے تو پاکستان میں کتابیں نسبتاً سستی ہوتی ہیں۔میں اکثر اوقات ایمازان میں مختلف کتابوں کے ریٹ دیکھتا رہتا ہوں تو ایک چھوٹی سی کتاب جس کے صفحات 250 سے 350 تک ہوتے ہیں کی کم از کم قیمت 10 ڈالر یعنی 900 کے قریب پاکستانی روپے ہوتی ہے حالانکہ ایمازان پر رعائتی قیمت درج ہوتی ہوتی ہے۔اور کچھ کتابوں کی قیمت اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ بندہ ایک لمحے کیلیےششدر ہوجاتا ہے۔مثلاً میں نے کچھ ماہ پہلے ایک کتاب ڈاؤنلوڈ کی The Principles of Marketing (14th edition تو میں ایمازان پر اسکی قیمت دیکھنے چلا گیا وہاں جا کر میں حیران رہ گیا کیونکہ اسکی لسٹ پرائس 226$ اور پاکستانی 20500روپے تھی جبکہ اسکے صفحات 744 ہیں۔اس لحاظ سے تو پاکستان سستا ہو نا؟
 

محمداحمد

لائبریرین
اگر امریکہ میں کتابوں کے ریٹ کو مدِنظر رکھا جائے تو پاکستان میں کتابیں نسبتاً سستی ہوتی ہیں۔میں اکثر اوقات ایمازان میں مختلف کتابوں کے ریٹ دیکھتا رہتا ہوں تو ایک چھوٹی سی کتاب جس کے صفحات 250 سے 350 تک ہوتے ہیں کی کم از کم قیمت 10 ڈالر یعنی 900 کے قریب پاکستانی روپے ہوتی ہے حالانکہ ایمازان پر رعائتی قیمت درج ہوتی ہوتی ہے۔اور کچھ کتابوں کی قیمت اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ بندہ ایک لمحے کیلیےششدر ہوجاتا ہے۔مثلاً میں نے کچھ ماہ پہلے ایک کتاب ڈاؤنلوڈ کی The Principles of Marketing (14th edition تو میں ایمازان پر اسکی قیمت دیکھنے چلا گیا وہاں جا کر میں حیران رہ گیا کیونکہ اسکی لسٹ پرائس 226$ اور پاکستانی 20500روپے تھی جبکہ اسکے صفحات 744 ہیں۔اس لحاظ سے تو پاکستان سستا ہو نا؟

بات تو آپ کی ٹھیک ہی ہے لیکن یہ فرق کرنسی ایکسچینج کی وجہ سے ہمیں زیادہ لگتا ہے۔

ایسے ہی جیسے ہماری 500 روپے کی کتاب پانچ چھ ڈالرز کی ملے گی جو اُنہیں بہت سستی لگے گی۔
 
ایک اور با ت ہے کہ اردو زبان میں ناولوں کی کوئی کمی نہیں لیکن اگر آپ سیلف ہیلپ ور موٹییویشنل کتابیں ڈھونڈیں گے تو آپ کو اردو زبان میں بہت کم ملیں گی۔جبکہ انگلش میں ان کتابوں کی بھرمار ہوتی ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
بات تو آپ کی ٹھیک ہی ہے لیکن یہ فرق کرنسی ایکسچینج کی وجہ سے ہمیں زیادہ لگتا ہے۔

ایسے ہی جیسے ہماری 500 روپے کی کتاب پانچ چھ ڈالرز کی ملے گی جو اُنہیں بہت سستی لگے گی۔

2000 ڈالر کمانے والا 10 ڈالر کی کتاب آسانی سے خرید سکتا ہے جبکہ 5000 روپے کمانے والا 500 روپے قیمت والی کتاب خریدنے سے پہلے 10 دفعہ سوچے گا۔
 

محمداحمد

لائبریرین
2000 ڈالر کمانے والا 10 ڈالر کی کتاب آسانی سے خرید سکتا ہے جبکہ 5000 روپے کمانے والا 500 روپے قیمت والی کتاب خریدنے سے پہلے 10 دفعہ سوچے گا۔

اور وہ اتنا سوچنے کے بعد ہی شاید ہی وہ کتاب خریدنے کا حوصلہ کر سکے۔ :stop:

کیونکہ اول الذکر کتاب پر اپنی کمائی کا اعشاریہ پانچ فیصد خرچ کرے گا جب کہ موخر الذکر کو اپنی کل کمائی کی 10 فیصد ادائیگی کرنا پڑے گی۔
 

زبیر مرزا

محفلین
کُتب بینی پر قیمتوں کا اثرانداز ہونا میری سمجھہ میں تو نہیں آتا کہ اگر دیگر تام جھام مثال کے طورپر بازار کا کھانا، سی ڈی ، ڈی وی ڈیز، مؤبائل فون کے نئے ماڈل، نئے فیشن کی ہر ماہ ایک دو شرٹس اگر اس کے لئے ہر ماہ ہزاروں روپے خرچ کئیے جاسکتے ہیں تو ہزار پانچ سو کی کتاب کو مہنگا کہنا مناسب نہیں - بات ترجیحات کی ہے قیمت کی نہیں- کراچی میں ہر اتوار کو فرئیرہال میں کُتب بازار لگتا ہے ستمبر 2011 میں مجھے وہاں سے نئی اور پُرانی درجن بھر کُتب آٹھہ سو میں مل گئیں تھیں- بات شوق اور ترجیح کی ہے
 
کُتب بینی پر قیمتوں کا اثرانداز ہونا میری سمجھہ میں تو نہیں آتا کہ اگر دیگر تام جھام مثال کے طورپر بازار کا کھانا، سی ڈی ، ڈی وی ڈیز، مؤبائل فون کے نئے ماڈل، نئے فیشن کے کی ہر ماہ ایک دو شرٹس اگر اس کے لئے ہر ماہ ہزاروں روپے خرچ کئیے جاسکتے ہیں تو ہزار پانچ سو کی کتاب کو مہنگا کہنا مناسب نہیں - بات ترجیحات کی ہے قیمت کی نہیں- کراچی میں ہر اتوار کو فرئیرہال میں کُتب بازار لگتا ہے ستمبر 2011 میں مجھے وہاں سے نئی اور پُرانی درجن بھر کُتب آٹھہ سو میں مل گئیں تھیں- بات شوق اور ترجیح کی ہے
درست کہا آپ نے۔اور ویسے بھی اگر ایک آدمی مہنگی کتاب نہیں خرید سکتا تو زیادہ تر شہروں میں پرانی اور انمول کتابیں انتہائی کم قیمت پر دستیاب ہوتی ہیں وہاں سی خریدی جا سکتی ہیں۔
 

عثمان

محفلین
وارث بھائی آپ اوپر والے مراسلے پر مجھ سے غیر متفق ہیں ۔اب وجہ بیان کریں ۔تاکہ مجھے بھی معلوم ہو سکے آپ غیر متفق کیوں ہیں
ارے بھئی ہر بندہ ہی آپ کے اس مراسلے سے غیر متفق ہوگا ماسوائے ان کے جو اس معاملے میں لا علم ہیں۔ :)
آپ قوت خرید اور کرنسی کی قدر کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے ڈالروں کو روپوں میں سادہ ضرب دے رہے ہیں۔ کچھ وضاحت تو شمشاد بھائی نے کردی کچھ مزید کر دیتا ہوں کہ یہاں دس ڈالر کی کتاب جس کی مثال آپ نے اوپر دی ہر وہ شخص خرید سکتا ہے جو کم از کم بیروز گار نہیں۔ غریب سے غریب شخص بھی یہاں دس ڈالر صرف ایک گھنٹہ کام کر کے کما لیتا ہے۔ جبکہ پاکستان میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو سارا دن کام کر کے بھی 900 روپے کی دیہاڑی نہیں بنا سکتے۔ کیا سمجھے :):):)
 
ارے بھئی ہر بندہ ہی آپ کے اس مراسلے سے غیر متفق ہوگا ماسوائے ان کے جو اس معاملے میں لا علم ہیں۔ :)
آپ قوت خرید اور کرنسی کی قدر کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے ڈالروں کو روپوں میں سادہ ضرب دے رہے ہیں۔ کچھ وضاحت تو شمشاد بھائی نے کردی کچھ مزید کر دیتا ہوں کہ یہاں دس ڈالر کی کتاب جس کی مثال آپ نے اوپر دی ہر وہ شخص خرید سکتا ہے جو کم از کم بیروز گار نہیں۔ غریب سے غریب شخص بھی یہاں دس ڈالر صرف ایک گھنٹہ کام کر کے کما لیتا ہے۔ جبکہ پاکستان میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو سارا دن کام کر کے بھی 900 روپے کی دیہاڑی نہیں بنا سکتے۔ کیا سمجھے :):):)
دیکھا آپ نے تفصیل بتا دی تو میری معلومات میں بھی اضافہ ہوا اور دیگر محفلین کی بھی۔ اسی لیے وارث بھائی کو کہہ رہا تھا کہ کچھ بتائیں تاکہ پتا چلے۔
 

شمشاد

لائبریرین
مرزا صاحب کی بات سے کُلی طور پر متفق ہوں کہ بات شوق اور ترجیح کی بھی ہے۔ پھر بھی یہی کہوں گا کہ پاکستان میں کتابیں بہت مہنگی ہیں اور عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہیں۔
 
ایک اور با ت ہے کہ اردو زبان میں ناولوں کی کوئی کمی نہیں لیکن اگر آپ سیلف ہیلپ ور موٹییویشنل کتابیں ڈھونڈیں گے تو آپ کو اردو زبان میں بہت کم ملیں گی۔جبکہ انگلش میں ان کتابوں کی بھرمار ہوتی ہے۔

ناولوں کی بھی کافی کمی ہے ، انگریزی میں یہ صنف اس قدر مقبول ہے کہ تقریبا ہر موضوع پر سیکڑوں نہیں لاکھوں ناول لکھے جا چکے ہیں بلکہ ہر سال ان گنت ناول لکھے جاتے ہیں۔ اس حساب سے اردو میں اس قدر مقبول صنف پر تھوڑی سی کتابیں میسر ہیں۔

دوسری بات سے متفق ہوں کہ اپنی مدد آپ اور ہمت افزا کتابوں کی شدید کمی ہے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
کُتب بینی پر قیمتوں کا اثرانداز ہونا میری سمجھہ میں تو نہیں آتا کہ اگر دیگر تام جھام مثال کے طورپر بازار کا کھانا، سی ڈی ، ڈی وی ڈیز، مؤبائل فون کے نئے ماڈل، نئے فیشن کی ہر ماہ ایک دو شرٹس اگر اس کے لئے ہر ماہ ہزاروں روپے خرچ کئیے جاسکتے ہیں تو ہزار پانچ سو کی کتاب کو مہنگا کہنا مناسب نہیں - بات ترجیحات کی ہے قیمت کی نہیں- کراچی میں ہر اتوار کو فرئیرہال میں کُتب بازار لگتا ہے ستمبر 2011 میں مجھے وہاں سے نئی اور پُرانی درجن بھر کُتب آٹھہ سو میں مل گئیں تھیں- بات شوق اور ترجیح کی ہے

یہ بات بھی ٹھیک ہے، لیکن بات وہی ہے کہ اگر کوئی چیز ترجیحات کی فہرست میں بالکل آخری نمبر پر ہو اور مہنگی بھی ہو تو پھر وہ تھوڑی بہت خواہش بھی اپنی موت آپ مر جاتی ہے۔ شاید اس موضوع میں ہم سب کا مقصد کتب بینی کو فروغ دینا ہی ہے جس میں کامیابی اسے اولین ترجیحات میں شامل کر سکتی ہے۔

اب تک میرا خیال ہے اس مسئلے کی ممکنہ وجوہات تو زیرِ بحث آچکی ہیں۔ اب اس پر بھی بات ہونی چاہیے جو اس موضوع کا عنوان ہے۔ یعنی "
نوجوان نسل میں کتب بینی کو کیسے فروغ دیا جائے ؟"


میرے دفتر میں ایک دو لوگ ایسے ہیں جنہیں تھوڑا بہت کتابوں کا شوق ہے لیکن اتنا نہیں کہ خرید کر پڑھیں۔ تھوڑی بہت تحریک دلانے پر وہ مجھ سے کتابیں لے کر پڑھنے لگے ہیں ۔ میں بھی ایک کتاب واپس ملنے کے بعد دوسری کتاب دیتا ہوں۔ :) لیکن اتنی تحریک اور تن آسانی کے باوجود مطالعے کی رفتار انتہائی سست ہے۔ اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو کتابوں کے ذکر پر اپنے تاثرات چھپانے کی کوشش بھی نہیں کرتے۔ :surprise: :nottalking:

نوجوانوں میں کتب بینی کو فروغ دینے کے لئے اُنہیں انٹرنیٹ کی اردو دُنیا تک گھسیٹ کر لانا بہت ضروری ہے، یہی وہ جگہ ہے جہاں سے اُنہیں تحریک مل سکتی ہے۔ کیونکہ تعلیمی اداروں اور حکومتی سطح پر کچھ ہوجانے کی اُمید کرنا وقت گنوانے کے مترادف ہے۔
 
Top