نوجوان نسل میں کتب بینی کو کیسے فروغ دیا جائے ؟

زونی

محفلین
کتاب بہترین دوست ہوتی ھے یہ مقولہ ہم نے بارہا سنا ھے لیکن موجودہ دور میں جیسے جیسے عام آدمی کیلئے جدید ٹیکنالوجی تک رسائی ممکن ہوتی جا رہی ھےپاکستان میں کتب دوستی دم توڑتی جا رہی ھے ،،،کتابوں کی جگہ انٹرنیٹ اور ٹیلی ویژن معلومات کا فوری ذریعہ بن چکے ھے ،،،تفریح کے جدید ذرائع کی موجودگی میں کتب بینی صرف لائبریریوں یا چند اہل ذوق تک محدود ہو گئی ھے خاص طور پہ نوجوان نسل اور بچوں میں کتب بینی سے لا تعلقی اور غیر سنجیدہ رویہ پایا جاتا ھے ،،، میں اکثر سوچتی ہوں کہ کیا نوجوان نسل وقت کی کمی کے باعث اس لا تعلقی کا شکار ھے یا کتابوں سے دوری بھی اقدار سے دوری کی طرح ہمارا قومی رویہ بنتا جا رہا ھے ؟؟؟؟ اس ضمن میں آپ کی رائے درکار ھے کہ نوجوان نسل اور خصوصی طور پہ بچوں کو اس طرف لانے کے لیے کتب کو عملی زندگی کا جزو بنانے کیلئے کیا اقدامات کیے جائیں کہ انفرادی رویوں میں مثبت تبدیلی لائی جا سکے ؟؟؟؟
 

زبیر مرزا

محفلین
کتب بینی سے دوری علم سے دوری ہے فی زمانہ لوگ معلومات اور علم کے حصول کے لیے شارٹ کٹ چاہتے ہیں
ٹی وی اور انٹر نیٹ کو کتاب کا متبادل سمجھا جانے لگا ہے - سب سے پہلا قدم کتاب کی اہمیت کو تسلیم کرنے کا ہے
کتب میلے اور کتابوں کو بطور تحائف دوستوں اور بچوں کو دینا بھی کارآمد ثابت ہوسکتا ہے
 
زونی اس کا ایک بہترین حل تو ڈیجیٹل کتب ہیں اور اسی سلسلے میں اردو ویب پر لائبریری کا کام بھی ہوتا ہے اور اس میں دلچسپی لینے والوں کی تعداد دیکھ کر لگتا ہے کہ لوگوں کو کتابوں تک رسائی دی جائے تو ان میں شوق اب بھی موجود ہے۔

اس کے علاوہ آپ سوشل میڈیا اور آن لائن سائٹس اور ایپ استعمال کرکے بھی یہ شوق پیدا کر سکتے ہیں یا پہلے سے موجود شوق کو مہمیز کر سکتے ہیں۔

ایک بہت ہی عمدہ کتب بینی اور اس کے فروغ کی سائٹ کا پتہ درج کر رہا ہوں، اسے دیکھنا ذرا بلکہ رجسٹر کر لینا۔
http://www.goodreads.com
Good Reads
 

ساجد

محفلین
کتب کی بہت زیادہ قیمتیں ایک بڑا سبب ہے۔
ہم نے اس کا حل یہ نکالا ہے کہ تین دوستوں نے ایک گروپ بنایا ہوا ہے۔ جب کوئی کتاب بہت مہنگی ملتی ہے تو اپنی باری کے حساب سے ایک دوست اس کی قیمت ادا کرتا ہے اور باقی دونوں بھی اس سے مستفید ہوتے ہیں۔
 

زبیر مرزا

محفلین
یہاں میرا اور محب علوی کا نظریاتی اختلاف شروع ہوجائے گا :)
کتابیں چھپنی چاہیں :)
فروخت ہونی چاہیں اور پبلیشنگ کو فروغ ملنا چاہیے
 

زبیر مرزا

محفلین
کتب کی بہت زیادہ قیمتیں ایک بڑا سبب ہے۔
ہم نے اس کا حل یہ نکالا ہے کہ تین دوستوں نے ایک گروپ بنایا ہوا ہے۔ جب کوئی کتاب بہت مہنگی ملتی ہے تو اپنی باری کے حساب سے ایک دوست اس کی قیمت ادا کرتا ہے اور باقی دونوں بھی اس سے مستفید ہوتے ہیں۔
دل خوش کردیا آپ کے جواب اور جذبے نے
 
یہاں میرا اور محب علوی کا نظریاتی اختلاف شروع ہوجائے گا :)
کتابیں چھپنی چاہیں :)
فروخت ہونی چاہیں اور پبلیشنگ کو فروغ ملنا چاہیے

اچھی چیز ہے اختلاف۔

فروخت ہونی چاہیے اور شائع بھی ہونی چاہیے مگر کیا ضروری ہے کہ پیپر پرنٹ پر ہی شائع ہو۔

میں سمجھتا ہوں اور حالیہ کتابی سرگرمیاں بتا رہی ہیں کہ الیکٹرونک کتابیں زیادہ مقبول اور فروخت ہوں گی۔
 

زبیر مرزا

محفلین
اچھی چیز ہے اختلاف۔

فروخت ہونی چاہیے اور شائع بھی ہونی چاہیے مگر کیا ضروری ہے کہ پیپر پرنٹ پر ہی شائع ہو۔

میں سمجھتا ہوں اور حالیہ کتابی سرگرمیاں بتا رہی ہیں کہ الیکٹرونک کتابیں زیادہ مقبول اور فروخت ہوں گی۔

لیکن موجودہ رجحان اردو ویب سائیٹس کے بلا اجازت اور مفت میں اشاعت نے قارئین کو مال مفت دل بے رحم کی طرف راغب کیا ہے
اور پبلیشر کو نقصان سے دوچار کرنے کا پورا ہتمام و سامان بھی کیا ہے
 

مغزل

محفلین
اچھا نکتہ اٹھایا ہے زونی بہنا، سلامت رہیں ۔۔ فی الوقت میں تیل اور تیل کی دھار دیکھنے میں منہمک ہوں ۔۔ بشرطِ فرصت مقدور بھر جہل سمیت کچھ کہنے کے قابل ہوسکوں گا۔
 

عثمان

محفلین
بات ایک بنیادی مسئلے کتب بینی پر ہو رہی تھی۔ کچھ دوست اسے ایک ذیلی موضوع پیپر پرنٹ اور ای پرنٹ پر لے گئے۔
خیر ، خاکسار نے کچھ عرصہ قبل اسی قسم کے مسئلے پر خیال آرائی کی تھی۔ وہ تحاریر اس دھاگے کی نذر کر رہا ہوں:
کتاب بیزاری
کلچر آف لٹریسی
 

عثمان

محفلین
عثمان اسی طرح بات سے بات چل پڑتی ہے ویسے آپ کے دونوں دھاگے عنوان سے مفید لگ رہے ہیں۔

زونی کا شکریہ کہ اس نے ایسا مفید دھاگہ شروع کیا۔
ذیلی موضوعات پر آپ کی دلچسپی درست ہے۔ دراصل میرا کہنے کا مطلب ہے کہ قاری کو کتاب کی طرف لانے کے لئے بنیادی محرک محض ٹیکنالوجی نہیں ہوسکتی۔ قارئین بالخصوص ترقی پذیر دنیا کے قارئین میں کتاب بینی سے دوری کی وجوہات کافی گہری ہیں۔ :)
 
عثمان کی پوسٹس پڑھنے کے بعد میرے ذہن میں جو نکتہ آتے آتے رہ گیا تھا اور جو میرے نظر میں سب سے بنیادی اور اہم نکتہ ہے وہ ہے

لائبریریوں کا فقدان

لائبریری کمیونٹی اور نوجوانوں میں کتب بینی اور ان کی تعلیمی ضروریات پورا کرسب سے اہم کردار ادا کرتی ہے اور اس طرف ایک عرصہ دراز سے بالکل بھی توجہ نہیں دی گئی ہے۔
 
میرے ذہن میں یہ منصوبہ ہے کہ پاکستان میں ایک ماڈل لائبریری قائم کی جائے اور پھر اس کی تشہیر کرکے لوگوں کو اس طرف راغب کیا جائے۔

یہ کام اتنا کٹھن نہیں اگر دو چار دوست جن کے پاس پچاس سے زائد کتابیں موجود ہوں ، اس منصوبہ پر متفق ہو جائیں اور اس پر منصوبہ بندی کے لیے تیار ہو جائیں۔
 

عثمان

محفلین
عثمان کی پوسٹس پڑھنے کے بعد میرے ذہن میں جو نکتہ آتے آتے رہ گیا تھا اور جو میرے نظر میں سب سے بنیادی اور اہم نکتہ ہے وہ ہے

لائبریریوں کا فقدان

لائبریری کمیونٹی اور نوجوانوں میں کتب بینی اور ان کی تعلیمی ضروریات پورا کرسب سے اہم کردار ادا کرتی ہے اور اس طرف ایک عرصہ دراز سے بالکل بھی توجہ نہیں دی گئی ہے۔

لائبریری کی کمی بنیادی مسائل میں سے یقیناً ایک بڑا مسئلہ ہے۔ تاہم غور کیجیے گا ، کہ کالج یونیورسٹی میں لائبریری کی سہولت ہونے کے باوجود طلبا نصاب یا فکشن سے ہٹ کر اور کچھ بھی پڑھنے کی ترغیب نہیں پاتے۔
میرے خیال میں پاکستان میں تعلیمی نظام کو ابھی کافی سفر طے کرنا ہے۔ پھر کہیں جا کر ایسی پختہ ذہنی بلوغت کی حامل تہذیب پیدا ہوگی جو اپنے معاشرے میں کتاب کو اس کا صحیح مقام دے سکے۔
 

زبیر مرزا

محفلین
محب میں کچھہ کراچی کے احباب کو جانتا ہوں جو بک کلب کو متعارف کرارہے ہیں اپنے طور پر یا یوں کہہ لیں اپنی مدد آپ کے طورپر
کچھہ معاشرتی مسائل ایسے بھی جو ہم ذاتی اور انفرادی سطح پر حل کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں- کُتب بینی کے فروغ میں حکومت یا ارباب اقتدار
کی طرف دیکھنا یا اُن سے کچھہ کرنے کی توقع رکھنا اس کا حل نہیں ہے
 

ابوشامل

محفلین
اگر معاملہ صرف ’کتب بینی‘ کو فروغ دینے کا ہے تو ہمیں تھوڑی دیر کے لیے ناشرین کو ایک طرف رکھ دینا چاہیے :) اور اس وقت اس ذوق کو پروان چڑھانے کا صرف ایک راستہ ہے کہ نوجوان نسل جس طرف راغب ہے کتاب کو وہاں پہنچا دیا جائے یعنی موبائل اور انٹرنیٹ پر۔
 

عثمان

محفلین
اگر معاملہ صرف ’کتب بینی‘ کو فروغ دینے کا ہے تو ہمیں تھوڑی دیر کے لیے ناشرین کو ایک طرف رکھ دینا چاہیے :) اور اس وقت اس ذوق کو پروان چڑھانے کا صرف ایک راستہ ہے کہ نوجوان نسل جس طرف راغب ہے کتاب کو وہاں پہنچا دیا جائے یعنی موبائل اور انٹرنیٹ پر۔
گویا پیپر پرنٹ کی بجائے ای پرنٹ ، اور آپ کے خیال میں یہ بنیادی محرک ہوسکتا ہے ؟
یا پھر آپ کے نزدیک بنیادی مسائل میں سے ایک مسئلہ کتاب کی عدم دستیابی ہے ، جو ای پرنٹ کی صورت میں آسان ہوسکتی ہے ؟ (متفق!)
کتاب کو کاغذ کی بجائے سکرین پر پڑھنے کے لئے ای ریڈر ہیں۔ ای ریڈر کے خریدار سنجیدہ کتب بین ہیں۔ یعنی بات گھوم پھر کر کتاب سے وابستگی پر اتر آتی ہے نا کہ تیکنیک سے دلچسپی پر۔ :)
 

محمد وارث

لائبریرین
کتاب بہترین دوست ہوتی ھے یہ مقولہ ہم نے بارہا سنا ھے لیکن موجودہ دور میں جیسے جیسے عام آدمی کیلئے جدید ٹیکنالوجی تک رسائی ممکن ہوتی جا رہی ھےپاکستان میں کتب دوستی دم توڑتی جا رہی ھے ،،،کتابوں کی جگہ انٹرنیٹ اور ٹیلی ویژن معلومات کا فوری ذریعہ بن چکے ھے ،،،تفریح کے جدید ذرائع کی موجودگی میں کتب بینی صرف لائبریریوں یا چند اہل ذوق تک محدود ہو گئی ھے خاص طور پہ نوجوان نسل اور بچوں میں کتب بینی سے لا تعلقی اور غیر سنجیدہ رویہ پایا جاتا ھے ،،، میں اکثر سوچتی ہوں کہ کیا نوجوان نسل وقت کی کمی کے باعث اس لا تعلقی کا شکار ھے یا کتابوں سے دوری بھی اقدار سے دوری کی طرح ہمارا قومی رویہ بنتا جا رہا ھے ؟؟؟؟ اس ضمن میں آپ کی رائے درکار ھے کہ نوجوان نسل اور خصوصی طور پہ بچوں کو اس طرف لانے کے لیے کتب کو عملی زندگی کا جزو بنانے کیلئے کیا اقدامات کیے جائیں کہ انفرادی رویوں میں مثبت تبدیلی لائی جا سکے ؟؟؟؟

چھوٹے بچوں میں کتب بینی کے فروغ کیلیے والدین کا کردار بہت اہمیت کا حامل ہے۔ بچے لاشعوری طور پر اپنے والدین کی نقل کرتے ہیں، انہیں جو کچھ کرتے یا کہتے دیکھتے ہیں اسی کو نقل کرتے ہیں، اگر والدین گھر میں خود کتب بینی کریں اور بچوں کے ساتھ کتابوں پر بحث کریں تو ضرور بچوں میں بھی یہ عادت آئے گی اور جب کچھ ان کا دھیان اس طرف آئے تو ان کو دلچپسپ کتابیں دے کر اس شوق کو بڑھایا جا سکتا ہے (یہ اس خاکسار کا ذاتی تجربہ ہے)، لیکن افسوس وہی بات جو اوپر ایک دوست نے کہی، کتابیں بہت مہنگی ہو گئی ہیں اور اس پر ستم یہ کہ بچوں کی کتابیں اور زیادہ مہنگی ہیں، افسوس صد افسوس۔
 

مہ جبین

محفلین
اب تو والدین میں بھی کتب بینی کا شوق ختم ہوگیا ہے تو ظاہر ہے کہ بچوں میں بھی نہیں ہوگا، یہ واقعی ایک بہت گمبھیر مسئلہ ہے اس پر سنجیدگی سے توجہ دینے کی ضرورت ہے
 
Top