برداشت کی حد ؟

ظفری

لائبریرین
محب ایک پرانی پوسٹ تمہاری نظر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ;)

پہلے دوسروں کو سمجھیئے پھر سمجھایئے ۔

ٹرین کے اُس ڈبے میں ہر کوئی خاموشی سے سفر کر رہا تھا۔ اسی اثنا میں ٹرین ایک اسٹیشن پر رکی تو ایک صاحب اپنے چار بچوں کے ساتھ داخل ہوئے۔ بچوں نے آتے ہی اودھم مچانا شروع کر دیا جبکہ ان کا باپ آنکھیں بند کر کے اپنی سیٹ پر نیم دراز ہوگیا۔ بچوں کے شوروغل سے مسافر بہت پریشان ہوئے ہر کوئی یہ توقع کر رہا تھا کہ ان کا باپ مداخلت کر کے ان بچوں کو باز کرے گا مگر وہ بدستور اپنی دنیا میں مگن تھا۔ اس صورت حال میں ایک مسافر کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا اور اس نے کہا، جناب، توجہ فرمائیے، براہ کرم اپنے بچوں کو اپنے پاس بٹھائیے اور انہیں چیخ و پکار سے منع کیجیے۔ اسکی آواز سے بچوں کا باپ چونکا اور کہنے لگا، ہاں، ہاں شاید آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ مجھے ان کو واقعی منع کرنا چاہیے۔ اصل میں ہم سب ہسپتال سے آرہے ہیں۔ جہاں ابھی دو گھنٹے قبل ان کی ماں کا انتقال ہوگیا ہے۔ اور اصل میں ان بچوں کو بھی یہ سمجھ نہیں آرہا کہ انہیں کیا کرنا چاہیے ۔ مسافر کی اس بات کے ساتھ ہی اُس ڈبے کا ماحول یکسر بدل گیا۔ وہ لوگ جو پہلے اسے بیزاری سے دیکھ رہے تھے، اب اسے ہمدردی سے دیکھنے لگے اور کئی ایک نے تو یہ پیشکش بھی کی کہ وہ اس موقع پر اس کی کیا مدد کرسکتے ہیں۔ یہ ایک چھوٹی سی مثال ہے اس بات کی کہ دوسرے کے حالات، واقعات اور خیالات نہ جاننے اور سمجھنے کی وجہ سے کس قدر غلط فہمی اور بدگمانی جنم لے سکتی ہے اور اگر یہ سب سمجھ لیا جائے تو پیش منظر اور ماحول کس طرح بدل جایا کرتا ہے۔

ہمارے گھروں، اداروں اور معاشرے میں بہت سی غلط فہمیاں، جھگڑے، مسائل محض اس بات کا شاخسانہ ہوتے ہیں کہ ہم نے اپنے مدمقابل یا مخاطب کو سمجھانے سے قبل کما حقہ سمجھا نہیں ہوتا۔ اس لیے معاشرتی امن اور محبت کے فروغ کے لیے ضروری ہے کہ ہم دوسروں کو سمجھانے سے قبل خود ان کو سمجھیں۔ ورنہ سمجھانا مسائل کو حل کرنے کے بجائے بڑھانے کا باعث بن جائے گا۔ جب تک ہم اس بات سے آگاہ نہ ہوں کہ ہمارا مخاطب ذہنی طور پر کس مقام پر کھڑا ہے اور وہ کن مسائل میں گھرا ہوا ہے، ہمارا سمجھانا نہ صرف ایک کارِ عبث ہوتا ہے بلکہ بعض حالات میں صورت حال کو بگاڑنے کا باعث بھی بنتا ہے۔ جب آپ خود یہ چاہتے ہیں کہ دوسرے آپ کو اور آپ کے نقطہ نظر کو سمجھیں تو بعینہ یہی توقع دوسرے بھی آپ سے کرتے ہیں اور یہی وہ بات ہے جس کو حضور نے نہایت خوبصورت جملے میں بیان کر دیا ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ "جو تم اپنے لیے پسند نہیں کرتے وہ دوسرے کے لیے کیوں پسند کرتے ہو؟ "
 
جب ہم کسی بھی تنقید کر رہے ہوتے ہیں تو اس کا سیاق و سباق دیکھنا بھی ضروری ہے کہ اس تنقید کو ماخذ کیا ہے ۔ اگر کوئی کہتا ہے کہ انگریزوں کو جہاں دیکھو مار دو ۔ انہیں اپنے گھروں ،سرحدوں میں گھسنے نہیں دو۔ ان کی صورت ، ان کی تہذیب کا بائیکاٹ کرو تو اس تنقید کے حوالے سے آپ کے ذہن میں کیا نقشہ ابھرتا ہے ۔ حسن نثار جیسا شخص تو یہی بات کہے گا جو تم نے اوپر بیان کردی ۔ اگر آپ کسی اخلاقی اور مذہبی بنیادوں پر کسی تہذیب کی مخالفت کرتے ہیں تو ہمیں وہاں کیا طرزِ عمل روا ررکھنا چاہیئے ۔ ہاتھ دھو کر مغرب کے پیچھے پڑجائیں یا پھر اپنی نسل کو اپنے دین اور روایت کے مطابق کسی نئی برآمد چیز کی افادیت اور نقصانات کا علمی انداز موازانہ کر بتائیں ۔
مغرب نے جہاں بہت سی مفید چیزیں تخلیق کیں ہیں ۔ وہاں انہوں نے اخلاقی اور انسانی قدروں کو بھی پامال کیا ہے ۔ انہوں نے بہت سے ایسی بھی سائنسی چیزیں ایجاد کیں ہیں جو اخلاق اور ایمان دونوں کے منافی ہیں ۔ مگر ہم نے اس کو چھوڑ دیا ۔ بلکہ وہ چیزیں استعار لےلیں جن کے بارے میں ہم مطمئن تھے ۔ لاڈو اسپیکر ایک زمانے مسجدوں میں حرام تھا ۔ اب ذرا مسجد سے اس کو باہر نکال کر دکھا دیجیئے ۔ ٹی وی کے بارے میں کیا رائے تھی ۔ شناختی کارڈوں پر تصویر کے حوالے سے ایک عرصے تک کیا کیا فتوعات جاری ہوتے تھے ۔ مگر وقت کیساتھ ہم نے ان کو ساتھ کیا معاملہ روا رکھا ۔ جب ایک تہذیب سے ہماری نفرت اس درجہ ہے کہ ہم اس کی کوئی ثقافت ، تہوار لینے کو تیار نہیں تو باقی ضرورت کی چیزوں کو اپنے ملک میں درآمد کر کے ان کو کا زرمبادلہ کیوں بڑھاتے ہیں ۔ میرا نکتہِ اعتراض یہی تھا- جسے فلسفے سے جوڑ دیا گیا ۔

ظفری ، میں نے تو @ کے جواب میں اپنا جواب تحریر کیا تھا۔

ہاتھ دھو کر مغرب کے پیچھے پڑنے اور ہاتھ دھو کر مشرق کے پیچھے دونوں کے سخت مخالف ہوں میں۔
تمہاری بات سے اتفاق ہے مجھے کہ کسی بھی چیز کی افادیت اور نقصانات کا علمی انداز میں جائزہ لیں اور پھر اپنی رائے دیں نہ کہ جذباتی انداز میں ایک ہی طرف سارا وزن ڈال دیں۔

تہذیب سے نفرت اور ایجادات کی درآمد بالکل مختلف چیزیں ہیں۔ ایجادات بنی نوع انسان کی مشترکہ اور اجتماعی کاوشوں کا ثمر ہوتی ہیں۔
مثلا کمپیوٹر کی ایجاد کی تاریخ دیکھیں تو سلسلہ ابیکس تک جا پہنچتا ہے اور ایک ایجاد کی اساس پر دوسری ایجاد ، دوسری سے تیسری اور پھر معمولی معمولی بہتریوں اور تبدیلیوں سے ایک ایجاد عشروں اور صدیوں کا سفر کرکے اپنی موجودہ شکل میں ہم تک پہنچتی ہے۔ یہ ایک لمبی اور علمی بحث ہے جو کہ کسی مناسب موقع کے لیے بچا رکھتا ہوں۔

اب پھر سے اصل مسئلہ کی طرف آ جاتا ہوں کہ تنقید یا تعریف میں اگر اعتدال کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا جائے تو گفتگو اور بحث علمی اور مفید رہتی ہے ورنہ جب آپ کا جھکاؤ ایک انتہا کی طرف ہو جائے گا تو دوسری انتہا کا سامنا مخالفین کی طرف سے لازمی بہم پہنچا دیا جائے گا۔
 

ظفری

لائبریرین
ظفری ، میں نے تو @ کے جواب میں اپنا جواب تحریر کیا تھا۔


تہذیب سے نفرت اور ایجادات کی درآمد بالکل مختلف چیزیں ہیں۔ ایجادات بنی نوع انسان کی مشترکہ اور اجتماعی کاوشوں کا ثمر ہوتی ہیں۔
یہ تری سادہ دلی مار نہ ڈالے مجھ کو ۔۔۔۔
 
یہ تری سادہ دلی مار نہ ڈالے مجھ کو ۔۔۔ ۔

دوبارہ کوشش کر رہا ہوں جواب لکھنے کی۔

ظفری ، اگر تمہیں یاد ہو تو مغربی سائنسی تاریخ میں ایک دور کو "Dark Ages" بھی کہا جاتا ہے جو درحقیقت مغربی حوالے سے ہے ورنہ اس دور میں عربوں نے سائنس کو مفروضوں سے تجرباتی سائنس میں ڈھال دیا تھا اور بے شمار سائنسی ایجادات کی اور بہت سے سائنسی نظریات کی بنیاد رکھی۔ اسی دور میں ہندوستان ، چین ، جاپان اور دوسرے مشرقی ممالک میں بھی سائنسی ترقی جاری رہی اور ہنوز جاری ہے۔

کیمیا تو لفظ ہی عربوں سے مستعار لیا گیا۔ بابائے کیمیا کا اعزاز جابر بن حیان کو بہت سے مغربی مستشرقین نے ہی دیا ہے۔

طبیعات کے ڈھیروں نظریات جن میں سے روشنی کے انعکاس اور لینز کے خصوصیات دو ایسی چیزیں ہیں جو اس وقت میرے ذہن میں ہیں۔

کمپیوٹر پر آ جاؤ ، الخوارزمی کے نام پر الگورتھم جو کہ ہر کمپیوٹر پروگرام کی روح ہوتا ہے ایک مسلمان اور مشرقی باشندے ہی کی دین ہے۔

الجبرا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا کہنے کی ضرورت ہے کہ کس کی ایجاد تھی اور کس نے استعمال کی اور اب کیسے استعمال ہوتی ہے۔

Decimal System ، صفر کی ایجاد۔

یہ صرف مسلمان کی چند ایجادات کا ذکر ہے۔ مشرقی دوسرے ممالک کی بیش بہا ایجادات اور خدمات علیحدہ ہیں۔

اب میں اگر کہوں کہ الگورتھم (باقاعدہ حساب کی شاخ بھی ہے)چونکہ الخوارزمی سے منسوب ہے تو ساری کمپیوٹر کی ترقی کے لیے مغربی کو اس شخص کا احسان مند ہونا چاہیے تو یقینا اس سے شاید ہی کوئی اتفاق کرے گا کیونکہ باقی لوگ جنہوں نے اس کے بعد محنت کی وہ کسی طور کم نہیں اور کسی طور حیثیت میں پست نہیں۔

صدیوں کی غلامی اور زوال نے ہمیں اتنا مرعوب اور ذہنی مفلس کر دیا ہے کہ اپنے کسی بھی کارہائے نمایاں کا بھی یقین نہیں آتا۔ مغربی بد دیانتی اس میں حد سے سوا ہے جس نے دنیا کو یہی بتایا کہ سب کچھ خالصتا ان کی ہی محنت کا نتیجہ ہے اور مسلمان تو جاہل ہی تھے اور جاہل ہی رہیں گے۔ اب جا کر کچھ عرصہ سے مسلمان کی خدمات کو ماننا شروع کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں برطانیہ میں قابل ذکر کام ہوا ہے اور وہاں سیمینار اور کانفرسیں بھی ہوئی ہیں۔

ایک برطانوی لنک پیش کر رہا ہوں ، تحقیق کرنے والے اس موضوع پر بہت کچھ ڈھونڈ سکتے ہیں

کس طرح اسلامی موجدین نے دنیا بدلی

چلو یار سی این این کی گواہی تو مان لو گے نہ :)

مسلم ایجادات جنہوں نے جدید دنیا تشکیل دی

یہ میرا پسندیدہ موضوع ہے اور شکریہ اس بجھی چنگاری کو بھڑکانے کا :)۔
 

مہ جبین

محفلین
دوبارہ کوشش کر رہا ہوں جواب لکھنے کی۔

ظفری ، اگر تمہیں یاد ہو تو مغربی سائنسی تاریخ میں ایک دور کو "Dark Ages" بھی کہا جاتا ہے جو درحقیقت مغربی حوالے سے ہے ورنہ اس دور میں عربوں نے سائنس کو مفروضوں سے تجرباتی سائنس میں ڈھال دیا تھا اور بے شمار سائنسی ایجادات کی اور بہت سے سائنسی نظریات کی بنیاد رکھی۔ اسی دور میں ہندوستان ، چین ، جاپان اور دوسرے مشرقی ممالک میں بھی سائنسی ترقی جاری رہی اور ہنوز جاری ہے۔

کیمیا تو لفظ ہی عربوں سے مستعار لیا گیا۔ بابائے کیمیا کا اعزاز جابر بن حیان کو بہت سے مغربی مستشرقین نے ہی دیا ہے۔

طبیعات کے ڈھیروں نظریات جن میں سے روشنی کے انعکاس اور لینز کے خصوصیات دو ایسی چیزیں ہیں جو اس وقت میرے ذہن میں ہیں۔

کمپیوٹر پر آ جاؤ ، الخوارزمی کے نام پر الگورتھم جو کہ ہر کمپیوٹر پروگرام کی روح ہوتا ہے ایک مسلمان اور مشرقی باشندے ہی کی دین ہے۔

الجبرا ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔ کیا کہنے کی ضرورت ہے کہ کس کی ایجاد تھی اور کس نے استعمال کی اور اب کیسے استعمال ہوتی ہے۔

Decimal System ، صفر کی ایجاد۔

یہ صرف مسلمان کی چند ایجادات کا ذکر ہے۔ مشرقی دوسرے ممالک کی بیش بہا ایجادات اور خدمات علیحدہ ہیں۔

اب میں اگر کہوں کہ الگورتھم (باقاعدہ حساب کی شاخ بھی ہے)چونکہ الخوارزمی سے منسوب ہے تو ساری کمپیوٹر کی ترقی کے لیے مغربی کو اس شخص کا احسان مند ہونا چاہیے تو یقینا اس سے شاید ہی کوئی اتفاق کرے گا کیونکہ باقی لوگ جنہوں نے اس کے بعد محنت کی وہ کسی طور کم نہیں اور کسی طور حیثیت میں پست نہیں۔

صدیوں کی غلامی اور زوال نے ہمیں اتنا مرعوب اور ذہنی مفلس کر دیا ہے کہ اپنے کسی بھی کارہائے نمایاں کا بھی یقین نہیں آتا۔ مغربی بد دیانتی اس میں حد سے سوا ہے جس نے دنیا کو یہی بتایا کہ سب کچھ خالصتا ان کی ہی محنت کا نتیجہ ہے اور مسلمان تو جاہل ہی تھے اور جاہل ہی رہیں گے۔ اب جا کر کچھ عرصہ سے مسلمان کی خدمات کو ماننا شروع کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں برطانیہ میں قابل ذکر کام ہوا ہے اور وہاں سیمینار اور کانفرسیں بھی ہوئی ہیں۔

ایک برطانوی لنک پیش کر رہا ہوں ، تحقیق کرنے والے اس موضوع پر بہت کچھ ڈھونڈ سکتے ہیں

کس طرح اسلامی موجدین نے دنیا بدلی

چلو یار سی این این کی گواہی تو مان لو گے نہ :)

مسلم ایجادات جنہوں نے جدید دنیا تشکیل دی

یہ میرا پسندیدہ موضوع ہے اور شکریہ اس بجھی چنگاری کو بھڑکانے کا :)۔
جزاک اللہ محب بھائی
اس بجھی چنگاری نے بھڑک کر کیسا علمی مواد ہم جیسے ناقص العقلوں کے لئے پیش کیا ہے
بہت خوب ، شکریہ
 
اگر يہ تھریڈ مقفل نہ ہوا تو فرصت ملنے پر ان شاء اللہ اس طوي ي ي ل وعظ : ) پر بعض باتيں مختصرا عرض کرنا ہیں .
ہمارا مسئلہ بہت پیچیدہ ہے ۔ ہم اختلاف کو مخالفت بنا لیتے ہیں ۔ ہم نے اپنے اندر کبھی یہ ذوق پیدا ہونے ہی نہیں دیا کہ کسی کی بات کو صبر و تحمل سے سنیں ۔ جیسا وہ کہتا ہے ، ویسا اس کو سمجھیں ۔ اس سے سوال کرکے ہی پوچھ لیں کہ تم کہنا کیا چاہتے ہو ۔ یہ ہمارے معاشرے کی بڑی بدقسمتی ہے ۔ ہم اپنے ذہن سے کسی کی بات کا ایک نقشہ تیار کرتے ہیں پھر اس پر تھوپ دیتے ہیں ۔ پھر ہم نے کچھ مخصوص قسم کی باتیں طے کر رکھیں ہوتیں ہیں ۔ جو ہم کہنا شروع کردیتے ہیں ۔ آپ اختلافات کسی بھی طور ختم نہیں کرسکتے ۔ میری ساری پوسٹ کو کوٹ کردیا مگر جو میں کہنا چاہتا تھا ۔ اس کو نظرانداز کردیا ۔ جو قومیں Cultural assimilation كا نظريہ رد كر كے Multiculturalism كى باتيں كر رہی ہیں ۔ پہلے ان کو مقام دیکھیئے کہ وہ ترقی کی کسی سطح پر کھڑی ہیں ۔ زیک نہیں بھی اس سلسلے گذشتہ تہذبیوں کا حوالہ دیا ہے ۔ میں نے کچھاسی طرح کی بات کا پچھلے صفحات پر جواب دیا تھا جس کو میرے فلسفے سے نتھی کردیا گیا ۔ جبکہ میں نے موضوع سے ہٹ کر ایک اقتباس کو لیکر غیروں کی اییجاد کردہ چیزوں کی بابت میں ایک بات کہی تھی کہ جب ہمیں غیر کی ہر چیز بری لگتی ہے تو اپنی ضرورت کی چیزوں میں یہ فرق کیوں نظر نہیں آتا ۔ مگر بات وہی کہ جیسا جو کہتا ہے اس ہم ویسا کیوں سمجھیں ۔ غیر اس پوسٹ پر کچھ کہنا وقت ضائع کی کرنے کے مترادف ہوگا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

شمشاد

لائبریرین
لیکن ملا کے بغیر تم لوگ ایک مرغی بھی ذبح نہیں کر سکتے، نوزائیدہ بچے کے کان میں اذان نہیں کہہ سکتے، اپنے مردے کا جنازہ نہیں پڑھا سکتے، نمازیں پڑھنا اور مسجدوں میں اذانیں دینا تو اور ہی بات ہے۔ سردیوں میں جب تم لوگ گرما گرم لحاف میں نیند کے مزے لوٹ رہے ہوتے ہو یہ ملا ہی ہے جو مسجد میں جا کر وقت پر روزانہ اذان دیتا ہے اور بھلائی کی طرف بلاتا ہے۔
 

عسکری

معطل
لیکن ملا کے بغیر تم لوگ ایک مرغی بھی ذبح نہیں کر سکتے، نوزائیدہ بچے کے کان میں اذان نہیں کہہ سکتے، اپنے مردے کا جنازہ نہیں پڑھا سکتے، نمازیں پڑھنا اور مسجدوں میں اذانیں دینا تو اور ہی بات ہے۔ سردیوں میں جب تم لوگ گرما گرم لحاف میں نیند کے مزے لوٹ رہے ہوتے ہو یہ ملا ہی ہے جو مسجد میں جا کر وقت پر روزانہ اذان دیتا ہے اور بھلائی کی طرف بلاتا ہے۔
میرا ان باتوں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں مرغی میں ایسے بھی کھا لیتا ہوں بچے کے کان میں اذان دے کر اسے میں نے بیت اللہ حکیم اللہ جیسا درندہ نہیں بنانا اور جب میں مروں مجھے کسی جنازے کی ضرورت نہیں یہ جو صبح شام وہ جاتا ہے یہ اس کی جاب ہے جیسے ہر کسی کی ہوتی ہے۔

لفظ ملا جب جب میرے دماغ میں جاتا ہے مجھے صرف اور صرف خون خود کش حملے میرے ہم وطنوں کی لاشیں اور وہ 34000 پاکستانی یاد آتے ہیں جنہیں ملا کھا گئے جن کا خون ان ملاؤں کے سر ہے ۔وہ نوجون فوجی وہ سکول کے بچے وہ استاد وہ بازاروں میں کام کاج سے جانے والے پاکستانی جو کبھی گھر نا لوٹے پھر یاد آتے ہیں ۔ کاش اس دھرتی پر ایک ملا نا رہے کاش کہ اس زمیں کے ملا کہیں سمندروں میں غرق ہو جائیں کاش کہ میرا بس چلتا تو ایک بھی ملا زندہ نا رہتا زمیں پر :roll:
 

ظفری

لائبریرین
دوبارہ کوشش کر رہا ہوں جواب لکھنے کی۔

ظفری ، اگر تمہیں یاد ہو تو مغربی سائنسی تاریخ میں ایک دور کو "Dark Ages" بھی کہا جاتا ہے جو درحقیقت مغربی حوالے سے ہے ورنہ اس دور میں عربوں نے سائنس کو مفروضوں سے تجرباتی سائنس میں ڈھال دیا تھا اور بے شمار سائنسی ایجادات کی اور بہت سے سائنسی نظریات کی بنیاد رکھی۔ اسی دور میں ہندوستان ، چین ، جاپان اور دوسرے مشرقی ممالک میں بھی سائنسی ترقی جاری رہی اور ہنوز جاری ہے۔

کیمیا تو لفظ ہی عربوں سے مستعار لیا گیا۔ بابائے کیمیا کا اعزاز جابر بن حیان کو بہت سے مغربی مستشرقین نے ہی دیا ہے۔

طبیعات کے ڈھیروں نظریات جن میں سے روشنی کے انعکاس اور لینز کے خصوصیات دو ایسی چیزیں ہیں جو اس وقت میرے ذہن میں ہیں۔

کمپیوٹر پر آ جاؤ ، الخوارزمی کے نام پر الگورتھم جو کہ ہر کمپیوٹر پروگرام کی روح ہوتا ہے ایک مسلمان اور مشرقی باشندے ہی کی دین ہے۔

الجبرا ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔ کیا کہنے کی ضرورت ہے کہ کس کی ایجاد تھی اور کس نے استعمال کی اور اب کیسے استعمال ہوتی ہے۔

Decimal System ، صفر کی ایجاد۔

یہ صرف مسلمان کی چند ایجادات کا ذکر ہے۔ مشرقی دوسرے ممالک کی بیش بہا ایجادات اور خدمات علیحدہ ہیں۔

اب میں اگر کہوں کہ الگورتھم (باقاعدہ حساب کی شاخ بھی ہے)چونکہ الخوارزمی سے منسوب ہے تو ساری کمپیوٹر کی ترقی کے لیے مغربی کو اس شخص کا احسان مند ہونا چاہیے تو یقینا اس سے شاید ہی کوئی اتفاق کرے گا کیونکہ باقی لوگ جنہوں نے اس کے بعد محنت کی وہ کسی طور کم نہیں اور کسی طور حیثیت میں پست نہیں۔

صدیوں کی غلامی اور زوال نے ہمیں اتنا مرعوب اور ذہنی مفلس کر دیا ہے کہ اپنے کسی بھی کارہائے نمایاں کا بھی یقین نہیں آتا۔ مغربی بد دیانتی اس میں حد سے سوا ہے جس نے دنیا کو یہی بتایا کہ سب کچھ خالصتا ان کی ہی محنت کا نتیجہ ہے اور مسلمان تو جاہل ہی تھے اور جاہل ہی رہیں گے۔ اب جا کر کچھ عرصہ سے مسلمان کی خدمات کو ماننا شروع کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں برطانیہ میں قابل ذکر کام ہوا ہے اور وہاں سیمینار اور کانفرسیں بھی ہوئی ہیں۔

ایک برطانوی لنک پیش کر رہا ہوں ، تحقیق کرنے والے اس موضوع پر بہت کچھ ڈھونڈ سکتے ہیں

کس طرح اسلامی موجدین نے دنیا بدلی

چلو یار سی این این کی گواہی تو مان لو گے نہ :)

مسلم ایجادات جنہوں نے جدید دنیا تشکیل دی

یہ میرا پسندیدہ موضوع ہے اور شکریہ اس بجھی چنگاری کو بھڑکانے کا :)۔

یا خدا ۔۔۔ میں اپنی بات کیسے سمجھاؤں ۔۔۔ :idontknow:
میرے بھائی جو کچھ تم نے کہا ہے ۔ اس میں میں 20 گنا زیادہ اضافہ کرکے مسلم سائنسدانوں اور ان کے بیش قیمت انسانیت کے لیئے پیش کی گئی خدمتیں میں گنوا سکتا ہوں ۔ ( تم یہ بات جانتے ہو ) ۔۔۔ میں اپنے اسلاف اور مسلم سائنسدانوں کے بارے میں پہلے کتنا لکھ چکا ہوں ۔ یہ بھی تم جانتے ہو ۔ خدانخوستہ میرا ہدف یہ نہیں ہے کہ میں اپنے مسلم سائنسدانوں کو نظرانداز کرکے آج کے سائنسدانوں کے قصیدے پڑھ رہا ہوں ۔ مسلم سائنسدانوں کی خدمات نہ صرف ہمارے لیئے ایک اثاثے کی حیثیت رکھتیں ہے ۔ بلکہ دوسری قوموں کے لیئے بھی ایک مشعل ِ راہ ہیں۔ مسلمان کبھی بھی آج سے پانچ سو سے پہلے تک ڈراک ایج میں نہیں رہے تھے ۔ (جیسا کہ آج ہیں ) میرا تو پوائنٹ یہ ہے کہ اندلس کے زوال کے بعد مسلم امہ اس ڈراک ایج کا حصہ بن گئے ۔ جو اس سے پہلے یورپ کی قسمت تھا ۔ اندلس پر بات چلی ہے تو میں تم کو بتاؤں کہ جب اندلس زوال پذیر ہوا تو کتنے ذہین ،قابل اور مشہور مسلم سائنسدان قسطنطنیہ ( ترکی ) پہنچے ۔ مگر وہاں کی ملوکیت نے انہیں وہاں پنپنے نہیں دیا ۔ ان کی صلاحیتوں کی قدر نہیں کی ۔ انہیں دربدر کردیا ۔ کتنا قمیتی اثاثہ پھر یورپ منتقل ہوگیا ۔ پھر وہ دن ہے اور آج کا دن ہم اپنے اس عظیم ماضی کو ایک تصویر کی طرح دیوار سے لٹکا کر روزآنہ اس پر پھول چڑھاتے ہیں ۔ اسی طرح قصیدے پڑھتے ہیں ، جیسا کہ تم اور میں پڑھتے ہیں ۔ مگر حقیقت تو یہ ہے کہ یہ سب ماضی کا حصہ بن چکی ہیں ۔ ہم آج کہاں کھڑے ہیں ۔ مغرب آج کہاں کھڑا ہے ۔
سو سال پہلے علامہ اقبال نے اپنے لیکچر Reconstruction Religoin Theory Of ISLAM میں کہا تھا کہ ” مسلمانوں نے پانچ سو سال سے سوچنا بند کردیا ہے ۔ ”
میرا نکتہ یہی تھا کہ یہ غیرکےتہوار ، کلچر پر اعتراضات ہمیں ایک ایسی مخصوص سوچ میں مقید کردیتے ہیں ۔ جہاں سے صرف کنویں کی چار دیواری ہی نظر آتی ہے ۔ ہمیں اس سے آگے سوچنا چاہیئے ۔ اس قسم کے فرسودہ تہوار اور دوسری رسومات سب ثانوی ہیں ۔ ہم اپنی قوم کی تربیت کے لیئے اہتمام کریں ۔ ایسا نہیں ہے کہ یورپ نے مسلم سائنسدانوں کی کتابیں رٹ لیں اور آج ترقی کرلی ۔ قومیں ایسے ہی نہیں بن جاتیں ۔ اس کے لیئے کئی نسلیں رگیدیں جاتیں ہیں ۔ کُندن ایسے ہی نہیں بن جاتا ۔ غیروں کی ایجادات اور ہماری روایت کا موازانہ بھی میں نے اسی تناظر میں کیا تھا ۔ ہم فخر کس چیز پر کر رہے ہیں ۔ ہم دین کی بات کرتے ہیں تو نظر آتاہے کہ دین ایک صف میں کھڑے ہونے کا نام نہیں بلکہ اپنی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنانے کا ایک نام ہے ۔ ہم ایک پاکستانی ہونے کی بات کرتے ہیں تو یہاں صوبائیت سے لیکر ہم خاندانی حد بندیوں تک جکڑے نظر آتے ہیں ۔ ایک سڑک پر ٹریفک کے لیئے بنی ہوئی متوازن قطاروں میں تو ہم سیدھا چل نہیں سکتے ۔ مگر ساری دنیا کو سیدھا چلنے کا درس دینا اپنا فرض سمجھتے ہیں ۔ ہمارا تعلیمی نظام آج کے تین سو سال پہلے یورپ سے بھی فرسودہ ہے ۔ میرا اعتراض یہی ہے کہ ہمیں اپنا رویہ بدلنا چاہیئے ۔ ہم اسٹیبلشمنٹ کو جان چکے ہیں کہ کس طرح سیاسی بساط پر ملک و قوم کی سلامتی کے نام پر یہ اپنے مقاصد حاصل کرتی ہے ۔ بلکل اسی طرح ہم کو اس ملائیت کو بھی سمجھنا چاہیئے کہ کس طرح یہ دین کو اپنی مرض سے توڑ مڑور کر لوگوں کو تقسیم کرنے کا باعث بناہے ۔ ( واضع رہے ملائیت سے مراد ایسا ادارہ ہے جو مذہب کے روپ میں معاشرے مذہبی تقسیم کا ذمہ دار ہے ۔ اور یہ رویہ ( ملائیت ) کم از کم پانچ ہزار سال سے اسی طرح تہذیبوں میں اپنے تمام روپ میں موجود ہے ۔ ) ۔
تم نے مسلمانوں کی سائنسی جدتوں کی جتنی بھی مثالیں دیں ہیں ۔ ان کےآج ہمارے معاشرے پر کیا اثرات ہیں ۔ کیا کبھی ہم نے سوچا ؟ ہم کسی مغربی سائنسدان کی کسی سائنسی جدت کا ذکر کریں تو اس جدت کا ان کے معاشرے کیا اثرات رونما ہوئے ہیں ۔ اسے دیکھ کر ہم ریت میں گردن نہیں چھپا سکتے ۔ میں نے اس تضاد کی بات کی تھی ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نیا سکہ شروع نہیں کیا تھا بلکہ وہی سکہ چلاتے رہے جو پہلے سے چل رہا تھا ، حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی وہی کیا ۔ مگر جب حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور میں‌ مسلمان غالب ہوئے تو پھر اس وقت سکہ بدلا گیا کہ اب تفیہمِ نو کی‌ ضرورت تھی ۔ اور آگے کی ضروریات اور ترجیحات کا بھی یہی تقاضا تھا ۔ اب ہماری ضرورت اور ترجیحات کیا ہیں ۔ اس کا فیصلہ آپ کو کرنا ہے ۔
میں نے کہا ناں کہ ہمارا مسئلہ بہت پیچیدہ ہے ۔ ہم کسی کی پوری بات سمجھتے ہی نہیں بلکہ اس کے بارے میں اپنے ذہن میں کوئی نقشہ بنا کر اس کی بات کو نظر انداز کرنا شروع کردیتے ہیں ۔ سونے پر سہاگہ اگر اس سے کوئی بیر ہے تو پھر بات کھیت سے کھلیان بن جاتی ہے ۔ خیر بات تمہاری نہیں محب ۔۔۔ بات زمانے کی ہے ۔ ;)
 

ظفری

لائبریرین
دوبارہ کوشش کر رہا ہوں جواب لکھنے کی۔

ظفری ، اگر تمہیں یاد ہو تو مغربی سائنسی تاریخ میں ایک دور کو "Dark Ages" بھی کہا جاتا ہے جو درحقیقت مغربی حوالے سے ہے ورنہ اس دور میں عربوں نے سائنس کو مفروضوں سے تجرباتی سائنس میں ڈھال دیا تھا اور بے شمار سائنسی ایجادات کی اور بہت سے سائنسی نظریات کی بنیاد رکھی۔ اسی دور میں ہندوستان ، چین ، جاپان اور دوسرے مشرقی ممالک میں بھی سائنسی ترقی جاری رہی اور ہنوز جاری ہے۔

یہ میرا پسندیدہ موضوع ہے اور شکریہ اس بجھی چنگاری کو بھڑکانے کا :)۔

ایج آف آئیڈلوجی کو بھی نہ بھولنا ۔ :)

اور ہاں اس چنگاری کو بھڑکانے کا کریڈٹ مجھے نہیں کسی اور کو جاتا ہے ۔ ;)
 
قرآن کو پکڑیں اور اس کا ترجمہ آسان الفاظ کے ساتھ اس کی تفسیر پڑھیں تو پتہ چلے کہ ہم کس دوراہے پر کھڑے ہیں غلط رسومات اب نہیں پہلے ہی سے چل رہی ہیں لیکن ہم نے آنکھ منہ کان بند کرلیا ہے اور ایک وطیرہ بنالیا ہے بہتی گنگا میں ہاتھ دھوکر پاک ہونے کا دن بھر گناہ کئے شام کو گنگا کے پانی میں ہاتھ دھوکر پاک صاف ہوگئے کہ چلو گناہ دھل گئے
 
یہ بات تو ٹھیک ہے کہ کئی ایجادات ایسی ہیں جس پر مسلمان فخر کرسکتے ہیں لیکن سلطنت عثمانیہ کے پارہ پارہ ہونے کے بعد مسلمان وہ طاقت نہیں پکڑسکے جو مسلمانوں کی شان تھی اپنے ہاتھوں سے ہی اپنی تعمیر کردہ عمارت ڈھا ڈالی اگر ہمارے نا دور اندیش حکمران غلط فیصلے نہ کرتے تو آج مسلمان کہاں سے کہاں پہنچ چکے ہوتے لیکن اب بھی کئی مسلم ممالک کے سائنسدان اپنے کام کو دیانتداری سے کررہے جن میں ہمارا پیارا پاکستان ہیں اور جدید سائنس کی ترقی میں ایک دو نام پاکستان سے بھی ہیں ڈاکٹر عبدالسلام اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان
 
Top