برداشت کی حد ؟

میرا خیال ہے تجرباتی سائنس کی تاریخ کا قطعی مطالعہ نہیں کیا آپ نے @Patriot

تراجم کے بعد اس میں اضافے اور تحقیق کے نئے ادوار کا آغاز شاید آپ نے کچھ بھی پڑھنے کا تکلف نہیں کیا۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
اکثر یہ فشار خون بلند کرنے والی حسن نثار مستعار منطق یوں شروع ہوتی ہے۔

اس کمرے میں غور سے دیکھو چیزوں کو ، یہ پنکھا دیکھ رہے ہو، یہ کولر ، یہ فرج ، یہ ٹی وی ، یہ کمپیوٹر ۔ یہ سب چیزیں انگریزوں (مغرب کو اکثر انگریزوں سے ہی منسوب کر دیتے ہیں ) کی ایجاد کردہ ہیں۔ پہلے ان کا استعمال ترک کرو پھر ان پر تنقید یا مخالفانہ بات کرو۔

اس قدر احمقانہ اور غیر منطقی دلیل سن کر سر پیٹ لینے کو جی چاہتا ہے کہ انسانیت کی مجموعی ترقی کو ایک خاص نسل اور علاقہ سے منسوب کر دیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ باقی تمام گروہوں کو بانجھ سمجھ لیا جاتا ہے۔ ویسے تازہ ترین ایجاد یوٹیوب میں ایک موجد بنگالی ہے تو ایسے تمام حضرات جو یہ دلیل دیتے ہیں جس کا ذکر اوپر کیا ہے وہ کم از کم یوٹیوب استعمال کرنا کم کر دیں اگر چھوڑ نہیں سکتے۔
متفق۔ :)
ہماری قوم کا ایک المیہ یہ بھی ہے یہاں ہر ایک بشمول میرے بزعم خود ایک بہت بڑا دانشور بن بیٹھا ہے۔ گفتار کے غازی ہیں ہم سب۔ اپنے خیالات و بیانات کو منطقی ثابت کرنے کے لئے ایک سے ایک دلیل اٹھا لاتے ہیں۔ چاہے اس کا کوئی سر پیر ہو نہ ہو۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
اصل میں فرحت بات یہ ہے کہ نفس امارہ کو علماء کرام شیطان کا بڑا بھائی قرار دیتے ہیں سو یہ بھونڈی فلاسفی بھی اسی نفس امارہ کی ہی گھڑی ہوئی ہے کہ بس کسی بھی مذہب کی کوئی بھی رسم و رواج کو اپنانے میں کیا حرج ہے ؟ جب مسلمان نے اس کو ماننے سے انکار کیا تو اس نے ایسی توجیہ گھڑ لی کہ لو تم انکی ٹیکنالوجی سے بھی فائدہ اٹھا رہے ہو نا تو اس کو اپنانے سے کچھ نہیں ہوگا بے دھڑک اس کو مناؤ
حالانکہ یہ ساری جدید ٹیکنالوجی تو مسلمان سائنسدانوں کی تحقیق کی مرہون منت ہے جو انہوں نے کئی سو سال پہلے کی تھیں اور مغربی سائنسدانوں نے اس کو اپنے کارنامے کے طور پر پیش کردیا اور ہم تو ایسے تھالی کے بینگن ہیں نا کہ جدھر لڑھکاؤ وہیں لڑھک جاتے ہیں اگر اپنے سائنسدانوں کو پڑھا ہوتا تو آج یہ صورتحال نہ ہوتی۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ !!! :sad2:
شکریہ آنٹی۔ میں اسی بات کی طرف توجہ دلوانا چاہتی تھی۔ ہمارے پاس اپنے ہر ایسے عمل کے لئے یہی ایک توجیہہ موجود ہوتی ہے کہ جب ان کی تحقیق سے فائدہ اٹھا رہے ہو تو جواباً ہم پر یہ فرض ہے کہ ہم ان کی ہر بات کی نقالی کریں۔ بات کسی مخصوص تہوار یا رسم کی ہی نہیں ہے بات ہمارے فلسفہ زندگی کی ہے۔ میں نے جو کام کرنا ہے اگر تو وہ میرے عقیدے اور ثقافت سے میل کھاتا ہے تو میں نے خود کو بہترین امتی اور درد مند شہری ڈیکلیئر کرنا ہے ہر جگہ پر۔ اور اگر میری دلچسپی کسی ایسی بات میں ہے جس میرے عقیدے کے خلاف جائے گا تو میرے پاس 'روشن خیالی' اور 'نظریہ ضرورت' کا بیج تو موجود ہے ہی۔ اس کو جھاڑ پونچھ کر سجانا کون سا مشکل ہے۔
جہاں تک اپنی تاریخ پڑھنے کا تعلق ہے اگر ہم لوگوں کو تاریخ سے دلچسپی ہوتی، ہمیں اس بارے میں بتایا جاتا یا ہم نے خود جاننے کی کوشش کرتے تو ہماری جنریشن شاید اتنی کنفیوز نہ ہوتی۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
درست ! جرمن لٹريچر پڑھنے كے ليے جرمن لباس زيب تن كرنا ضرورى نہيں ۔
فرحت سس بہت خوب صورت سوال ہے اور شايد يہ وسيع بحث ايك نئے موضوع كى متقاضى ہے ۔
جی۔ لیکن اکثر یہی سمجھا اور سمجھایا جاتا ہے کہ جرمن لباس زیب تن فرما لو ورنہ جرمن اپنا لٹریچر پڑھنے پر پابندی لگا دیں گے۔ :)
جی نور۔ مجھے آج تک اس سوال کا جواب نہیں مل سکا۔ شاید کبھی کوئی اس بات پر بھی گفتگو شروع کردے۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
محب علوی میں آپ کی تحقیق والی بات سے اتفاق کرتی ہوں۔ میری نظر میں یہ ایک ویکیپیڈیائی المیہ ہے۔ جب ہمارا دائرہ تحقیق ویکیپیڈیا سے شروع ہو کر وہیں ختم ہو جائے تو ہماری تھیوریز بس ایسی ہی ہوں گی۔
 

مہ جبین

محفلین
شکریہ آنٹی۔ میں اسی بات کی طرف توجہ دلوانا چاہتی تھی۔ ہمارے پاس اپنے ہر ایسے عمل کے لئے یہی ایک توجیہہ موجود ہوتی ہے کہ جب ان کی تحقیق سے فائدہ اٹھا رہے ہو تو جواباً ہم پر یہ فرض ہے کہ ہم ان کی ہر بات کی نقالی کریں۔ بات کسی مخصوص تہوار یا رسم کی ہی نہیں ہے بات ہمارے فلسفہ زندگی کی ہے۔ میں نے جو کام کرنا ہے اگر تو وہ میرے عقیدے اور ثقافت سے میل کھاتا ہے تو میں نے خود کو بہترین امتی اور درد مند شہری ڈیکلیئر کرنا ہے ہر جگہ پر۔ اور اگر میری دلچسپی کسی ایسی بات میں ہے جس میرے عقیدے کے خلاف جائے گا تو میرے پاس 'روشن خیالی' اور 'نظریہ ضرورت' کا بیج تو موجود ہے ہی۔ اس کو جھاڑ پونچھ کر سجانا کون سا مشکل ہے۔
جہاں تک اپنی تاریخ پڑھنے کا تعلق ہے اگر ہم لوگوں کو تاریخ سے دلچسپی ہوتی، ہمیں اس بارے میں بتایا جاتا یا ہم نے خود جاننے کی کوشش کرتے تو ہماری جنریشن شاید اتنی کنفیوز نہ ہوتی۔

فرحت تم نے اتنا بہترین علمی نوعیت کا جو سوال پوچھا ، اس میں غور و فکر کے لئے واقعی خاصا مواد ہے اب جو چاہے غور و فکر اور تفکر و تدبر سے کام لے کر اپنے ذہن کی گتھیاں سلجھا لے ، سب مسلمانوں کو دعوت عام ہے
یقین کرو اس سوال نے میرا دل خوش کر دیا ہے
سدا خوش رہو فرحت
اللہ ہم سب کو راہ راست پر چلنا نصیب فرمائے آمین
 

فرحت کیانی

لائبریرین
فرحت تم نے اتنا بہترین علمی نوعیت کا جو سوال پوچھا ، اس میں غور و فکر کے لئے واقعی خاصا مواد ہے اب جو چاہے غور و فکر اور تفکر و تدبر سے کام لے کر اپنے ذہن کی گتھیاں سلجھا لے ، سب مسلمانوں کو دعوت عام ہے
یقین کرو اس سوال نے میرا دل خوش کر دیا ہے
سدا خوش رہو فرحت
اللہ ہم سب کو راہ راست پر چلنا نصیب فرمائے آمین
بہت شکریہ۔ آنرڈ :) ۔
دونوں دعاؤں پر ثم آمین۔
 
شکریہ آنٹی۔ میں اسی بات کی طرف توجہ دلوانا چاہتی تھی۔ ہمارے پاس اپنے ہر ایسے عمل کے لئے یہی ایک توجیہہ موجود ہوتی ہے کہ جب ان کی تحقیق سے فائدہ اٹھا رہے ہو تو جواباً ہم پر یہ فرض ہے کہ ہم ان کی ہر بات کی نقالی کریں۔ بات کسی مخصوص تہوار یا رسم کی ہی نہیں ہے بات ہمارے فلسفہ زندگی کی ہے۔ میں نے جو کام کرنا ہے اگر تو وہ میرے عقیدے اور ثقافت سے میل کھاتا ہے تو میں نے خود کو بہترین امتی اور درد مند شہری ڈیکلیئر کرنا ہے ہر جگہ پر۔ اور اگر میری دلچسپی کسی ایسی بات میں ہے جس میرے عقیدے کے خلاف جائے گا تو میرے پاس 'روشن خیالی' اور 'نظریہ ضرورت' کا بیج تو موجود ہے ہی۔ اس کو جھاڑ پونچھ کر سجانا کون سا مشکل ہے۔
جہاں تک اپنی تاریخ پڑھنے کا تعلق ہے اگر ہم لوگوں کو تاریخ سے دلچسپی ہوتی، ہمیں اس بارے میں بتایا جاتا یا ہم نے خود جاننے کی کوشش کرتے تو ہماری جنریشن شاید اتنی کنفیوز نہ ہوتی۔
فرحت سس ہنسی آ گئی یہ پڑھ کر ، يہ اتنا حقيقى تبصرہ كيا ہے نا آپ نے۔:giggle: دراصل پادرى كے دن كے متعلق جو كشش ، ضرورت، مجبور ہونے كى بات كر رہے تھے واقعى وہ ايك اور جگہ حلال جانوروں کے فضلے كے بارے ميں "امتى " بن گئے ۔
 

مہ جبین

محفلین
فرحت سس ہنسی آ گئی یہ پڑھ کر ، يہ اتنا حقيقى تبصرہ كيا ہے نا آپ نے۔:giggle: دراصل پادرى كے دن كے متعلق جو كشش ، ضرورت، مجبور ہونے كى بات كر رہے تھے واقعى وہ ايك اور جگہ حلال جانوروں کے فضلے كے بارے ميں "امتى " بن گئے ۔
سو فیصد متفق نور العین
دوغلے پن میں تو ہمارا ثانی کوئی نہیں۔۔۔۔!!!
 
جی نور۔ مجھے آج تک اس سوال کا جواب نہیں مل سکا۔ شاید کبھی کوئی اس بات پر بھی گفتگو شروع کردے۔

شروع تو ہو گئی اب جارى ركھیے !
جی۔ لیکن اکثر یہی سمجھا اور سمجھایا جاتا ہے کہ جرمن لباس زیب تن فرما لو ورنہ جرمن اپنا لٹریچر پڑھنے پر پابندی لگا دیں گے۔ :)
تھوڑا ہم خود ڈر جاتے ہيں تھوڑا وہ ڈرا ليتے ہيں۔ ويسے يورپ کے بعض ممالك نے تو درست ثابت كر دى يہ بات ، نقاب پر پابندى لگ گئی ، داڑھی پر شايد لگ جائے۔ ہيٹرڈ تو آلريڈى موجود ہے۔
يعنى cultural assimilation يا acculturation يكطرفہ ہو تو قبول اور خوب ! ورنہ قانونى پابندى !
 

میر انیس

لائبریرین
میں تو سمجھا تھا کہ مہ جبیں صاحبہ اور ام نورالعین کے مضبوط دلائل کے بعد اب یہ دھاگہ انجام کو پہنچ گیا ہے پر لگتا ہے بات ابھی ختم نہیں ہوئی۔ میرے جیسے کم علم کو بولنے کی کوئی ضرورت تو نہیں ہے پر کبھی کبھی دوسروں سے سن سن کر ایک عام آدمی کے ذہن میں بھی ایسی باتیں جمع ہوجاتی ہیں جو کسی جگہ کام آجاتی ہیں اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ جب بات سطح عمومی سے بلند ہورہی ہوتو میرے جیسے کم علم و کم عقل بات سمجھ اپنی ہی سطح کے لوگوں کو بات صحیح طرح سمجھا سکتے ہیں۔
 

میر انیس

لائبریرین
میں ابھی تہمید ہی باندھ رہا تھا کہ لائٹ چلی گئی میرے کہنے کا آسان مطلب یہ تھا کہ مہ جبین صاحبہ ، ام نور العين صاحبہ اور فرحت کیانی صاحبہ کے ہوتے ہوئے میری تو کوئی ضرورت نہیں پھر بھی میں اپنی ناقص رائے پیش کرنا چاہتا ہوں صرف اس آسرے پر کہ تیرے دل مں اتر جائے میری بات۔
اقوامِ مغرب کی کچھ باتوں اور رسموں کو قبول کرنے اور کچھ کو نہ قبول کرنے کی ایک بڑی وجہ ہمارا دین ہی ہے۔ اس کا بہت سادہ جواب تو یہ ہی ہے کہ جو بھی چیز ہمارے دین سے متصادم نہیں ہوگی اور دین میں رہتے ہوئے اس کو استعمال کرنے میں ابھی یا اگے چل کر ہمارے دین کو کوئی نقصان نہیں اٹھانا پڑے گا تو ہم اسکا استعمال جائز سمجھتے ہیں پر اگر کوئی بھی شہ یوم یا رسم ہمارے دین کو نقصان پہنچائے اسکو ہم نہ صرف ذاتی طور پر رد کردیں گے بلکہ دین کے ہی تقاضے کے مطابق اسکو پہلے زبان سے اور پھر ضرورت پڑی تو ہاتھ سے روکیں گے کیونکہ ہم کو یہی درس دیا گیا ہے۔ حضرت امام حسین (ع) نے فرمایا اسلام کو دنیا کی کسی چیز پر قربان نہیں کیا جاسکتا جبکہ اسلام پر دنیا کی ہر چیز قربان کی جاسکتی ہے اور انہوں نے عملی طور پر بھی یہ کر کے دکھایا۔ اب آپ اسی اصول پر چل کر دیکھ سکتے ہیں کہ ہم نے جس جس چیز کو قبول کیا ہے اسنے دین کو نقصان نہیں پہنچایا ۔ جیسے ٹیکنالوجی کا استعمال ہم نا صرف امریکہ اور برطانیہ کی ٹیکنالوجی استعمال کرتے ہیں یورپ کی کرتے ہیں اسی طرح جاپان،چائنا اور رشیا کی بھی کرتے ہیں اسکا کیا مطلب ہے انکی بھی سب رسومات قبول کر کے ہم بدھسٹ یا کمیونسٹ بن جائیں اسی طرح ہم نے رسمیں بھی قبول کیں یا جب ہم میں یہ شامل ہورہی تھیں اسوقت جو ردِ عمل ظاہر ہونا چاہئے تھا وہ نہیں ہوا اسکی سب سے بڑی وجہ یہی تھی کے اس سے ہمارے اسلامی معاشرے کو کوئی نقصان نہیں تھا مثلاَ سالگرہ پر کیک کاٹنے سے ہمارے دین کو کیا نقصان ہے اگر وہ پردہ کا خیال رکھتے ہوئے کاٹا جائے اسی طرح بہت سی رسومات ہیں جن کو ہم اپنے دین میں رہتے ہوئے کرسکتے ہیں پر یہ یومِ محبت اور اسطرح کی دیگر رسومات کی دین میں کوئی گنجائش نہیں ہے اگر کوئی اس سے یہ کہ کر اختلاف کرے کہ اسکو بھی دین میں رہ کر کیا جاسکتا ہے کہ اپنی ماں یا باپ سے محبت کا اظہار کرے تو بھائی اسکے لئے تو پہلے ہی آپ نے یومِ مادر اور یومِ پدر رکھے ہوئے ہیں پھر اس دن کی کیا ضرورت ہے دوسرے جو لوگ اسکی طرفداری کرتے ہیں وہ سچ سچ اور پوری تحقیق سے بتائیں کہ کتنے فیصد نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں نے یہ دن اپنے ماں باپ یا بہن بھائی کے ساتھ مل کر منایا ہوگا اور کتنوں نے اپنے محبوب کے ساتھ اسلام کبھی بے حیائی کی اجازت نہیں دے سکتا اور اگر ابھی نہیں تو آگے چل کر اسکے تباہ کن اثرات نکل سکتے ہیں۔
اسکے دلائل میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اسلام میں شادی کیلئے لڑکی اور لڑکے کی پسند ضروری ہے اور اسکی بھی اجازت ہے کہ وہ آپس میں بات کریں اور مزاج کو سمجھیں ۔ بالکل ایسا ہی ہے پر یہ سمجھ کا فرق ہے اسلام نے پسند کی شادی کو کہا ہے محبت کی شادی کو نہیں۔ اگر آپس میں بات کرنے کو کہا گیا ہے تو وہ بھی حجاب میں رہ کر اور سب کے سامنے اور اسکی بھی حدود ہیں کہ جب آپ کے والدین اجازت دیں کہ آپ کا رشتہ ہم طے کرنے جارہے ہیں تو آپ بات کرسکتے ہیں۔ اس سلسلے میں حضرت علی(ع) فرماتے ہیں کہ جب بھی ایک جوان لڑکا اور لڑکی ایک جگہ اکھٹے ہوتے ہیں تو ان کے درمیان شیطان ضرور ہوتا ہے ۔
اچھا اس سلسلے میں ایک دلیل اور دی جاتی ہے جو یہاں نہیں دی گئی کہ ہمارے پیارے نبی(ص) نے بھی جو پہلی شادی کی وہ محبت کی تھی کیونکہ بی بی خدیجۃالکبرٰی (ص) نے آپ(ص) کو دیکھا تھا اور پسند کیا پھر رشتہ بھیجا۔ اس سے بھی میں متفق ہوں پر کسی روایت میں نہیں ہے کہ آپ(ص) کبھی ان سے اکیلے میں ملے ہوں بلکہ انکی طرف سے رشتہ کی بات حضرت ابو طالب سے کی گئی تھی جو آپ کے چچا تھے اورسر پرست تھے
 

میر انیس

لائبریرین
یہ جاننے کیلئے کہ کونسی رسم یا کوئی بھی بات ہمارے مذہب سے متصادم ہے یا نہیں میں ایک آسان نسخہ بتادیتا ہوں اسکا جواب میں نے مشہور شیعہ عالم دین علامہ طالب جوہری سے اخذ کیا ہے پر امید ہے یہ تمام مسالک میں مشترکہ طور پر قابلِ قبول ہے۔ دین کے اندر ہم جتنے بھی کام(اعمال) ہم کرتے ہیں وہ پانچ اقسام میں تقسیم ہیں جنکوعقائد شریعہ کہا جاتا ہے
واجب اور فرض : کرو نہیں کرو گے تو گناہ ہوگا

حرام : نہ کرو اگر کرو گے تو گناہ ہوگا

مستحب یا سنت : اچھا ہے کہ کرلو اگر نہیں کرو گے تو گناہ نہیں ہوگا

مکروہ: اچھا ہے کہ نہ کرو اگر کرو گے تو گناہ نہیں ہوگا

مباح : تمہاری مرضی کرو یا نہ کرو نہ کرنے میں گناہ نہ نا کرنے میں گناہ

مثال:

ہم کو پیاس لگی ہم نے پانی یا کسی اور حلال مشروب سے پیاس بجھالی یہ ہم نے ایک مباح کام کیا پر ہم نے اسے کام سے پہلے بسمہ اللہ پڑھی اور تین سانس میں رک رک کر پانی پیا اور پانی پینے کی ساری سنتیں ادا کیں یہ کام مستحب میں تبدیل ہوگیا ۔ ٹوٹے ہوئے گلاس یا برتن میں پانی پی لیا یہ کام مکروہ ہوگیا پیاس کسی حرام مشروب سے بجھالی یا مالک سے اجازت لئے بغیر اسکے برتن یا ملکیت سے پانی پی لیا تو یہ کام اب حرام ہوگیا اگر آپ نے پیاس اتنی دیر تک روک کر رکھی کہ جان جانے کا ڈر ہوگیا تو اب پیاس بجھانا آپ پر واجب ہوگیا ۔ آپ نے دیکھا ایک ہی عمل میں عقائد کے حساب سے کتنی تبدیل ہورہا ہے
اب ہم وہ ساری رسومات اور معاشرے میں آنے والی تبدیلیوں کو چاہے وہ کسی ٹیکنالوجی کی وجہ سے ہوں یا زمانے کی ضروریات کی وجہ سے آسانی سے پرکھ سکتے ہیں اس میں کوئی ابہام ہی نہیں ہے ۔
 

مہ جبین

محفلین
میں ابھی تہمید ہی باندھ رہا تھا کہ لائٹ چلی گئی میرے کہنے کا آسان مطلب یہ تھا کہ مہ جبین صاحبہ ، ام نور العين صاحبہ اور فرحت کیانی صاحبہ کے ہوتے ہوئے میری تو کوئی ضرورت نہیں پھر بھی میں اپنی ناقص رائے پیش کرنا چاہتا ہوں صرف اس آسرے پر کہ تیرے دل مں اتر جائے میری بات۔
اقوامِ مغرب کی کچھ باتوں اور رسموں کو قبول کرنے اور کچھ کو نہ قبول کرنے کی ایک بڑی وجہ ہمارا دین ہی ہے۔ اس کا بہت سادہ جواب تو یہ ہی ہے کہ جو بھی چیز ہمارے دین سے متصادم نہیں ہوگی اور دین میں رہتے ہوئے اس کو استعمال کرنے میں ابھی یا اگے چل کر ہمارے دین کو کوئی نقصان نہیں اٹھانا پڑے گا تو ہم اسکا استعمال جائز سمجھتے ہیں پر اگر کوئی بھی شہ یوم یا رسم ہمارے دین کو نقصان پہنچائے اسکو ہم نہ صرف ذاتی طور پر رد کردیں گے بلکہ دین کے ہی تقاضے کے مطابق اسکو پہلے زبان سے اور پھر ضرورت پڑی تو ہاتھ سے روکیں گے کیونکہ ہم کو یہی درس دیا گیا ہے۔ حضرت امام حسین (ع) نے فرمایا اسلام کو دنیا کی کسی چیز پر قربان نہیں کیا جاسکتا جبکہ اسلام پر دنیا کی ہر چیز قربان کی جاسکتی ہے اور انہوں نے عملی طور پر بھی یہ کر کے دکھایا۔ اب آپ اسی اصول پر چل کر دیکھ سکتے ہیں کہ ہم نے جس جس چیز کو قبول کیا ہے اسنے دین کو نقصان نہیں پہنچایا ۔ جیسے ٹیکنالوجی کا استعمال ہم نا صرف امریکہ اور برطانیہ کی ٹیکنالوجی استعمال کرتے ہیں یورپ کی کرتے ہیں اسی طرح جاپان،چائنا اور رشیا کی بھی کرتے ہیں اسکا کیا مطلب ہے انکی بھی سب رسومات قبول کر کے ہم بدھسٹ یا کمیونسٹ بن جائیں اسی طرح ہم نے رسمیں بھی قبول کیں یا جب ہم میں یہ شامل ہورہی تھیں اسوقت جو ردِ عمل ظاہر ہونا چاہئے تھا وہ نہیں ہوا اسکی سب سے بڑی وجہ یہی تھی کے اس سے ہمارے اسلامی معاشرے کو کوئی نقصان نہیں تھا مثلاَ سالگرہ پر کیک کاٹنے سے ہمارے دین کو کیا نقصان ہے اگر وہ پردہ کا خیال رکھتے ہوئے کاٹا جائے اسی طرح بہت سی رسومات ہیں جن کو ہم اپنے دین میں رہتے ہوئے کرسکتے ہیں پر یہ یومِ محبت اور اسطرح کی دیگر رسومات کی دین میں کوئی گنجائش نہیں ہے اگر کوئی اس سے یہ کہ کر اختلاف کرے کہ اسکو بھی دین میں رہ کر کیا جاسکتا ہے کہ اپنی ماں یا باپ سے محبت کا اظہار کرے تو بھائی اسکے لئے تو پہلے ہی آپ نے یومِ مادر اور یومِ پدر رکھے ہوئے ہیں پھر اس دن کی کیا ضرورت ہے دوسرے جو لوگ اسکی طرفداری کرتے ہیں وہ سچ سچ اور پوری تحقیق سے بتائیں کہ کتنے فیصد نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں نے یہ دن اپنے ماں باپ یا بہن بھائی کے ساتھ مل کر منایا ہوگا اور کتنوں نے اپنے محبوب کے ساتھ اسلام کبھی بے حیائی کی اجازت نہیں دے سکتا اور اگر ابھی نہیں تو آگے چل کر اسکے تباہ کن اثرات نکل سکتے ہیں۔
اسکے دلائل میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اسلام میں شادی کیلئے لڑکی اور لڑکے کی پسند ضروری ہے اور اسکی بھی اجازت ہے کہ وہ آپس میں بات کریں اور مزاج کو سمجھیں ۔ بالکل ایسا ہی ہے پر یہ سمجھ کا فرق ہے اسلام نے پسند کی شادی کو کہا ہے محبت کی شادی کو نہیں۔ اگر آپس میں بات کرنے کو کہا گیا ہے تو وہ بھی حجاب میں رہ کر اور سب کے سامنے اور اسکی بھی حدود ہیں کہ جب آپ کے والدین اجازت دیں کہ آپ کا رشتہ ہم طے کرنے جارہے ہیں تو آپ بات کرسکتے ہیں۔ اس سلسلے میں حضرت علی(ع) فرماتے ہیں کہ جب بھی ایک جوان لڑکا اور لڑکی ایک جگہ اکھٹے ہوتے ہیں تو ان کے درمیان شیطان ضرور ہوتا ہے ۔
اچھا اس سلسلے میں ایک دلیل اور دی جاتی ہے جو یہاں نہیں دی گئی کہ ہمارے پیارے نبی(ص) نے بھی جو پہلی شادی کی وہ محبت کی تھی کیونکہ بی بی خدیجۃالکبرٰی (ص) نے آپ(ص) کو دیکھا تھا اور پسند کیا پھر رشتہ بھیجا۔ اس سے بھی میں متفق ہوں پر کسی روایت میں نہیں ہے کہ آپ(ص) کبھی ان سے اکیلے میں ملے ہوں بلکہ انکی طرف سے رشتہ کی بات حضرت ابو طالب سے کی گئی تھی جو آپ کے چچا تھے اورسر پرست تھے

زبردست دلائل ہیں انیس بھائی
سو فیصد متفق
 

مہ جبین

محفلین
یہ جاننے کیلئے کہ کونسی رسم یا کوئی بھی بات ہمارے مذہب سے متصادم ہے یا نہیں میں ایک آسان نسخہ بتادیتا ہوں اسکا جواب میں نے مشہور شیعہ عالم دین علامہ طالب جوہری سے اخذ کیا ہے پر امید ہے یہ تمام مسالک میں مشترکہ طور پر قابلِ قبول ہے۔ دین کے اندر ہم جتنے بھی کام(اعمال) ہم کرتے ہیں وہ پانچ اقسام میں تقسیم ہیں جنکوعقائد شریعہ کہا جاتا ہے
واجب اور فرض : کرو نہیں کرو گے تو گناہ ہوگا

حرام : نہ کرو اگر کرو گے تو گناہ ہوگا

مستحب یا سنت : اچھا ہے کہ کرلو اگر نہیں کرو گے تو گناہ نہیں ہوگا

مکروہ: اچھا ہے کہ نہ کرو اگر کرو گے تو گناہ نہیں ہوگا

مباح : تمہاری مرضی کرو یا نہ کرو نہ کرنے میں گناہ نہ نا کرنے میں گناہ

مثال:

ہم کو پیاس لگی ہم نے پانی یا کسی اور حلال مشروب سے پیاس بجھالی یہ ہم نے ایک مباح کام کیا پر ہم نے اسے کام سے پہلے بسمہ اللہ پڑھی اور تین سانس میں رک رک کر پانی پیا اور پانی پینے کی ساری سنتیں ادا کیں یہ کام مستحب میں تبدیل ہوگیا ۔ ٹوٹے ہوئے گلاس یا برتن میں پانی پی لیا یہ کام مکروہ ہوگیا پیاس کسی حرام مشروب سے بجھالی یا مالک سے اجازت لئے بغیر اسکے برتن یا ملکیت سے پانی پی لیا تو یہ کام اب حرام ہوگیا اگر آپ نے پیاس اتنی دیر تک روک کر رکھی کہ جان جانے کا ڈر ہوگیا تو اب پیاس بجھانا آپ پر واجب ہوگیا ۔ آپ نے دیکھا ایک ہی عمل میں عقائد کے حساب سے کتنی تبدیل ہورہا ہے
اب ہم وہ ساری رسومات اور معاشرے میں آنے والی تبدیلیوں کو چاہے وہ کسی ٹیکنالوجی کی وجہ سے ہوں یا زمانے کی ضروریات کی وجہ سے آسانی سے پرکھ سکتے ہیں اس میں کوئی ابہام ہی نہیں ہے ۔
انیس بھائی جزاک اللہ خیراً کثیراً
آپ کے حقائق پر مبنی بیان کے بعد تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جانا چاہئے
 

مہ جبین

محفلین
شروع تو ہو گئی اب جارى ركھیے !

تھوڑا ہم خود ڈر جاتے ہيں تھوڑا وہ ڈرا ليتے ہيں۔ ويسے يورپ کے بعض ممالك نے تو درست ثابت كر دى يہ بات ، نقاب پر پابندى لگ گئی ، داڑھی پر شايد لگ جائے۔ ہيٹرڈ تو آلريڈى موجود ہے۔
يعنى cultural assimilation يا acculturation يكطرفہ ہو تو قبول اور خوب ! ورنہ قانونى پابندى !
سو فیصد درست نور العین
 

ظفری

لائبریرین
يہ بات حقائق كے خلاف ہے كہ قوميں دوسروں کے تہوار اپنا ليتى ہيں ، حقيقت يہ ہے كہ Cultural assimilation كے غلغلے كے جواب ميں بہت سى طاقتور اور توانا آوازيں ايك تحريك كى صورت اٹھی ہيں جو اس طرح غالب ثقافت ميں مدغم ہو جانے كے سخت خلاف ہيں اور اس كو رد كيا جا چكا ہے ۔ دنيا كى چھوٹی چھوٹی ثقافتيں بھی اپنی زبان اور تہوار بچانے كى جنگ پورى مستعدى سے لڑ رہی ہيں ، دور كيوں جائيے يہ فورم اردو محفل بھی اردو كو رومن اردو بن جانے سے بچانے كى كوشش كا ايك حصہ ہے تا کہ نئی پود اصطلاحاتيں جيسى اردو نہ بولے۔ : ) سالگرہ مكمل طور پر قبول كر لى گئی ہے یہ بھی ايك غير حقيقى دعوى ہے ، لوگ صرف انہی علماء كو ديكھنا چاہتے ہوں جو ان كى ہاں ميں ہاں ملائيں تو اور بات ہے ورنہ سالگرہ ، نيو ائيرنائٹ اور ويلنٹائنز ڈے نہ منانے والوں كى ايك بڑی تعداد موجود ہے۔ اس صورت حال ميں يہ كہنا كہ اسلامى ثقافت جيسى دنيا كى بڑی ثقافت دوسروں کے تہوار اپنا لے انوكھی تاويل ہے۔ فلاسفہء تاريخ كا كہنا ہے كہ غالب قوميں مغلوب قوموں كو اپنی ثقافت كے سامنے سرنگوں ديكھنا چاہتى ہيں اور مغلوب قوموں ميں ہميشہ ايك ايسى مرعوب كلاس /طبقہ پيدا كرنے ميں كامياب ہو جاتى ہے جو ان كا نقال ہوتا ہے ۔ ماہرين نفسيات كے مطابق Immitation is a sign of love نقالى دراصل محبت كى علامت ہے ۔ مرعوب قسم كا يہ طبقہ غالب قوم كو اہل كمال جان كر ان سے اپنی محبت كا اظہار ان كى ہر كام ميں نقالى كر كے كرتا ہے۔ جب سپين مسلمان فاتحين كے زير اثر تھا تو وہاں بھی سپينش نصرانيوں كى اپر كلاس كے نوجوان مسلمانوں كى طرح باقاعدگی سے غسل اور وضو كرتے ، ان كا شماغ پہنتے داڑھی ركھتے يہاں تك كہ ان ميں سے بعض نے اپنے ناموں كے ساتھ عربى ناموں كے لاحقے لگا ليے ، نصرانى پادرى ان نوجوانوں كو بے دين اور عربوں سے مرعوب گمراہ ذہن قرار ديتے تھے۔ انڈيا ميں ہندو نيوائيرنائٹ اور ويلنٹائنز ڈے منانے كے خلاف نكلتے ہيں تو اسى ليے كہ وہ اپنی ثقافت بچانا چاہتے ہيں ۔يہ سب حقائق جان لينے كے بعد بھی اگر كوئى ثقافتوں كے ادغام كو دنيا كا واحد نظريہ سمجھتا ھے تو يہ بہت بڑی علمى خطا ہے۔ اس وقت دنيا كى ايك بڑی اكثريت Cultural assimilation كا نظريہ رد كر كے Multiculturalism كى باتيں كر رہی ہے آپ اس كو نظرانداز تبھی كرسكتے ہيں جب آ پ نے Cultural assimilation كى ديوار سے ناك سختى سے چپكا رکھی ہوں اور چاہتے ہوں كہ باقى سب بھی آپ کے ساتھ اسى melting pot ميں آ جائيں ۔

ہمارا مسئلہ بہت پیچیدہ ہے ۔ ہم اختلاف کو مخالفت بنا لیتے ہیں ۔ ہم نے اپنے اندر کبھی یہ ذوق پیدا ہونے ہی نہیں دیا کہ کسی کی بات کو صبر و تحمل سے سنیں ۔ جیسا وہ کہتا ہے ، ویسا اس کو سمجھیں ۔ اس سے سوال کرکے ہی پوچھ لیں کہ تم کہنا کیا چاہتے ہو ۔ یہ ہمارے معاشرے کی بڑی بدقسمتی ہے ۔ ہم اپنے ذہن سے کسی کی بات کا ایک نقشہ تیار کرتے ہیں پھر اس پر تھوپ دیتے ہیں ۔ پھر ہم نے کچھ مخصوص قسم کی باتیں طے کر رکھیں ہوتیں ہیں ۔ جو ہم کہنا شروع کردیتے ہیں ۔ آپ اختلافات کسی بھی طور ختم نہیں کرسکتے ۔ میری ساری پوسٹ کو کوٹ کردیا مگر جو میں کہنا چاہتا تھا ۔ اس کو نظرانداز کردیا ۔ جو قومیں Cultural assimilation كا نظريہ رد كر كے Multiculturalism كى باتيں كر رہی ہیں ۔ پہلے ان کو مقام دیکھیئے کہ وہ ترقی کی کسی سطح پر کھڑی ہیں ۔ زیک نہیں بھی اس سلسلے گذشتہ تہذبیوں کا حوالہ دیا ہے ۔ میں نے کچھاسی طرح کی بات کا پچھلے صفحات پر جواب دیا تھا جس کو میرے فلسفے سے نتھی کردیا گیا ۔ جبکہ میں نے موضوع سے ہٹ کر ایک اقتباس کو لیکر غیروں کی اییجاد کردہ چیزوں کی بابت میں ایک بات کہی تھی کہ جب ہمیں غیر کی ہر چیز بری لگتی ہے تو اپنی ضرورت کی چیزوں میں یہ فرق کیوں نظر نہیں آتا ۔ مگر بات وہی کہ جیسا جو کہتا ہے اس ہم ویسا کیوں سمجھیں ۔ غیر اس پوسٹ پر کچھ کہنا وقت ضائع کی کرنے کے مترادف ہوگا ۔

دنیا میں کسی بھی تہوار کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں ۔ یہ موسموں کے تغیرات سے پیدا ہوتے ہیں ۔ تاریخی روایت سے پیدا ہوتے ہیں ۔ مشہور واقعات سے جنم لیتے ہیں ۔ ان کے پیدا ہونے کے بےشمار اسباب ہیں ۔ جب ہم مسلمان کی حیثیت سے ہندوستان آئے تو یہاں بھی بہت سے تہوار تھے ۔ جن میں سے ہم نے کچھ کو اختیار کیا اور بعض کو اختیار نہیں کیا ۔ جیسا کہ میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ دنیا ایک گلوبل وولیج بن چکی ہے ۔ میڈیا ( خواہ اس کی صورت کوئی بھی ہو ) ۔ اس کے ذریعے مختلف تہوار بآسانی ہم تک پہنچ رہے ہیں ۔ مسلمانوں کے لیئے اس میں اصول یہ ہے کہ وہ جس تہوار کو منائیں اس میں جائزہ لیں کہ اس میں کوئی اخلاقی قباحت تو نہیں ہے ۔ یعنی مسلمان کہتے کس کو ہیں ۔ وہ جو اپنے قلب و دماغ اور روح کو پاکیزہ رکھے ۔ یہ پاکیزگی ہے جس کو ہدف بنانا چاہیئے ۔ اور اس پاکیزگی کے اصول ہر حال میں ملحوظ رہیں گے ۔ ہمارے دین کا مقصد ہی یہی ہے کہ وہ ہمارے نفس کا تزکیہ کرے ۔ اگر اس دن میں کوئی غیراخلاقی چیز ہے جو ہمارے دین اور روایت کے خلاف ہے ۔ اس کو اس میں سے نکال دیجیئے ۔ اس پر دین کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا ۔ ہمیں کسی بھی تہوار کو اپنانے سے پہلے اس کو اپنی روایت اور دین کی روشنی میں دیکھنا ہوگا ۔ یہاں یہ صورتحال نہیں ہوگی کہ کوئی چیز غیروں کی طرف سے آئی ہے تو وہ ممنوع ہوجائے گی ۔ مگر یہ ضرور دیکھا جائے گا کہ جو چیز آئی ہے ۔ اس میں کوئی اخلاقی قباحت تو نہیں ہے ۔ اس میں دین کے کسی اصول سے انحراف تو نہیں کیا گیا ہے ۔

ہم اپنی ماں کو پھولوں کی ایک شاخ پیش کردیتے ہیں ۔ بیوی یا بہن کو پیش کردیتے ہیں ۔ یا کسی عزیز دوست کو پیش کردیتے ہیں ۔ اس سے بھی بڑھ کر اگر اپنی منگیتر کو پیش کردیتے ہیں ۔ تو یہ چیزیں تو پہلے ہی سے ہمارے ہاں موجود ہیں ۔ کیا یہ سلسلہ اس دن کے منانے سے پہلے جاری نہیں ہے ۔ اگر ہمیں دیکھنا ہے تو یہ دیکھنا ہے کہ اس دن میں کسی اخلاقی حدود پر قندز تونہیں لگائی جا رہی ۔ یا ہماری کسی روایت کے خلاف کوئی کام کیا جارہاہے ۔ یا ا سمیں کوئی ایسی چیز ہے جوہمارے دین کے منافی ہے تو یہ چیز قابل ِ قبول نہیں ہوسکتی ۔ میں کم از کم چوتھی بار اپنی بات کو دہرا رہا ہے کو ذاتی طور پر مجھے یہ دن پسند نہیں ہے ۔ جب ہم اس چیز کو کسی بھی طور پسند نہیں کررہے تو پھر ہماری حکمتِ عملی کیا ہونی چاہیئے ۔ ہم نے دیکھا کہ اس دن کو منانے سے باز رکھنے کے لیئے ہم نے کیا کیا کچھ نہیں کہا ۔ اس سلسلے میں ہم نے مذہب اور روایت کو آگے رکھا ۔ مگر نتیجہ کیا نکلا ۔ لوگ آج بھی اس دن کو منانا رہے ہیں اور پہلے سے بھی اس میں شدت ہے ۔

ہماری غلطی یہ ہے کہ ہم نے مذہب کو قانونی اصطلاحات میں اسیر کرکے ایک طاقت پر قائم رہ جانے والا نظام بنا کر پیش کیا ہے۔ ہمارا معاشرہ ہو یا ریاست ، اس نے دین کے احکامات کی اخلاقی روح کو اقدار بنانے کے بجائے دین کے احکام کو مجموعہِ قوانین بنا کر اس کو بلا لحاظ نافذ کردینے کا ایک تصور پال رکھا ہے ۔ جو ہمارے یہاں معاشرے اور فرد کے تعلق میں ایک تنوع ، جبر اور ناکامی کا سبب بنا ہے ۔ جب ہم اسلام کو لوگوں کے سامنے پیش کر رہے ہوتے ہیں تو ایسا نہیں ہوتا کہ ہم اقدار پر مبنی کسی تصور کی بات کررہے ہیں بلکہ ہم قوانین پر ایک فکر کو فروغ دے رہے ہوتے ہیں جس پر ہمارا تمام اصرار اسی بات پر ہوتا ہے کہ یہ قانین نافذ کر دیئے جائیں یا یہ حدودِ قوانین آجائیں تو اس سے فلاح آسکتی ہے لہذاٰ اس طرزَ عمل سے دین کا معاشرے میں اقدار کا تصور تاراج ہوجاتا ہے ۔ اسلام بنیادی طور پر اقدار پیدا کرنا چاہتا ہے ۔ اگر ہم سمجھتے ہیں کہ اس دن کو منانا نہیں چاہیئے تو اس کے لیئے ہم کو کیا قدام اٹھانے چا ہییں ۔ ؟ یہ سوال میں نے پہلے بھی پوچھا تھا ۔ مگر جواب ہنوز موصول نہیں ہوا ہے ۔ سوائے اس کے بس یہ دن منانا نہیں چاہیئے ۔ یہ تو ہم روزِ اول سے کہہ رہے ہیں ۔ مگر ہم نے دیکھا ہر سال پہلے سے زیادہ اس دن میں زور و شور ہوتا ہے ۔ تو ہماری حکمتِ عملی پھر کیا ہونی چاہیئے ۔ ؟
 

ظفری

لائبریرین
اکثر یہ فشار خون بلند کرنے والی حسن نثار مستعار منطق یوں شروع ہوتی ہے۔

اس کمرے میں غور سے دیکھو چیزوں کو ، یہ پنکھا دیکھ رہے ہو، یہ کولر ، یہ فرج ، یہ ٹی وی ، یہ کمپیوٹر ۔ یہ سب چیزیں انگریزوں (مغرب کو اکثر انگریزوں سے ہی منسوب کر دیتے ہیں ) کی ایجاد کردہ ہیں۔ پہلے ان کا استعمال ترک کرو پھر ان پر تنقید یا مخالفانہ بات کرو۔

اس قدر احمقانہ اور غیر منطقی دلیل سن کر سر پیٹ لینے کو جی چاہتا ہے کہ انسانیت کی مجموعی ترقی کو ایک خاص نسل اور علاقہ سے منسوب کر دیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ باقی تمام گروہوں کو بانجھ سمجھ لیا جاتا ہے۔ ویسے تازہ ترین ایجاد یوٹیوب میں ایک موجد بنگالی ہے تو ایسے تمام حضرات جو یہ دلیل دیتے ہیں جس کا ذکر اوپر کیا ہے وہ کم از کم یوٹیوب استعمال کرنا کم کر دیں اگر چھوڑ نہیں سکتے۔

جب ہم کسی بھی تنقید کر رہے ہوتے ہیں تو اس کا سیاق و سباق دیکھنا بھی ضروری ہے کہ اس تنقید کو ماخذ کیا ہے ۔ اگر کوئی کہتا ہے کہ انگریزوں کو جہاں دیکھو مار دو ۔ انہیں اپنے گھروں ،سرحدوں میں گھسنے نہیں دو۔ ان کی صورت ، ان کی تہذیب کا بائیکاٹ کرو تو اس تنقید کے حوالے سے آپ کے ذہن میں کیا نقشہ ابھرتا ہے ۔ حسن نثار جیسا شخص تو یہی بات کہے گا جو تم نے اوپر بیان کردی ۔ اگر آپ کسی اخلاقی اور مذہبی بنیادوں پر کسی تہذیب کی مخالفت کرتے ہیں تو ہمیں وہاں کیا طرزِ عمل روا ررکھنا چاہیئے ۔ ہاتھ دھو کر مغرب کے پیچھے پڑجائیں یا پھر اپنی نسل کو اپنے دین اور روایت کے مطابق کسی نئی برآمد چیز کی افادیت اور نقصانات کا علمی انداز موازانہ کر بتائیں ۔
مغرب نے جہاں بہت سی مفید چیزیں تخلیق کیں ہیں ۔ وہاں انہوں نے اخلاقی اور انسانی قدروں کو بھی پامال کیا ہے ۔ انہوں نے بہت سے ایسی بھی سائنسی چیزیں ایجاد کیں ہیں جو اخلاق اور ایمان دونوں کے منافی ہیں ۔ مگر ہم نے اس کو چھوڑ دیا ۔ بلکہ وہ چیزیں استعار لےلیں جن کے بارے میں ہم مطمئن تھے ۔ لاڈو اسپیکر ایک زمانے مسجدوں میں حرام تھا ۔ اب ذرا مسجد سے اس کو باہر نکال کر دکھا دیجیئے ۔ ٹی وی کے بارے میں کیا رائے تھی ۔ شناختی کارڈوں پر تصویر کے حوالے سے ایک عرصے تک کیا کیا فتوعات جاری ہوتے تھے ۔ مگر وقت کیساتھ ہم نے ان کو ساتھ کیا معاملہ روا رکھا ۔ جب ایک تہذیب سے ہماری نفرت اس درجہ ہے کہ ہم اس کی کوئی ثقافت ، تہوار لینے کو تیار نہیں تو باقی ضرورت کی چیزوں کو اپنے ملک میں درآمد کر کے ان کو کا زرمبادلہ کیوں بڑھاتے ہیں ۔ میرا نکتہِ اعتراض یہی تھا- جسے فلسفے سے جوڑ دیا گیا ۔
 
Top