عمر خیام پہاڑی کے لطیفے

تہذیب

محفلین
ایک پنجابی دیہاتی بھاگم بھاگ ریل گاری پر سوار ہوا۔ اس کے سر پر چار سیر دیسی گھی سے بھری ہوئی ولٹوہی بھی تھی۔ ڈبے کے اندر آکر وہ خود تو ایک طرف ٹھنس گیا لیکن ولٹوہی رکھنے کے لیے اسے کوئی جگہ نظر نہ آئی۔ مسافروں کے پاؤں میں پہلے ہی بہت زیادہ سامان پڑا ہوا تھا۔ بہت دیر سوچنے کے بعد اس نے ولٹوہی کو اس زنجیر سے لٹکا دیاجو اشد ضرورت کے وقت گاڑی روکنے کے لیے کھینچی جاتی ہے۔
زنجیر پر چار سیر بوجھ پڑا تو وہ کچھ دیر بعد ہلتے ہلتے سیدھی ہوگئی اور گاڑی کھڑی ہوگئی اورپھر کچھ دیر بعد ریلوے گارڈ اس ڈبے پر آگیا۔ اس نے زنجیر کے ساتھ بھری ہوئی ولٹوہی لٹکتے ہوئے دیکھی تو غصہ سے بپھر کر بولا۔
" یہ ولٹوہی کس کی ہے؟ "
دیہاتی نے کھڑے ہوکر کہا۔ " میری ہے جناب"
" اس کو یہاں کیوں لٹکا رکھا ہے؟ دیکھتے نہیں کہ اس کے بوجھ سے گاڑی کھڑی ہوگئی ہے۔"
یہ سنتے ہی بجائے اس کے کہ وہ دیہاتی شرمندہ ہو کت معذرت کرتا۔ اس نے بڑے فخریہ انداز میں ڈبے کے سارے مسافروں پر نظر ڈالتے ہوئے کہا۔" کیوں جی! ویکھیاں فیر خالص دیسی کہیہو دیاں طاقتاں "
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

تہذیب

محفلین
چوہدری ایک سرکاری دفتر میں کلرک تھا۔ ایک دن اس کا باس اس کے پاس آیا اور کہنے لگا۔
"چوہدری، تیرے پاس سو روپے کا کھلا ہے؟ "
چوہدری خوش مزاجی سے بولا۔
" کیوں نہیں، موتیاں والیو۔۔۔۔۔ ہنے ہی دینا واں "
افسر اس انداز تخاطب سے گرمی کھا گیا، کہنے لگا۔
" چوہدری۔۔۔ یہ ایک دفتر ہے کسی دکان کا تھڑا نہیں جو اس طرح سے اپنے افسر کو مخاطب کررہے ہو۔ تم مجھے سر جی کہہ کر بلایا کرو۔ میں دوبارہ سو روپے کا بھان مانگتا ہوں اور تم سر جی کہہ کر بات کرنا۔۔۔ سمجھے!!"
چوہدری دانٹ کھا کر سہم گیا، کہنے لگا۔
" ٹھیک ہے سر جی۔۔۔ منگو!!"
افسر نے چوہدری سے بھان مانگا۔ چوہدری نے ایک لمحے کو سوچا اور بولا۔
" سر جی ! اہیہ سرکاری دفتر ہے گا۔۔۔ کوئی کریانے دی دکان نہی جے تسی بھان منگن آ گئے او۔"
 

تہذیب

محفلین
ایک شہری بابو اپنی چم چم کرتی کار اور چھم چھم کرتی بیگم کے ساتھ ایک دیہاتی سڑک پر خراماں خراماں اور آس پاس کے نظاروں سے لطف اندوز ہوتا جارہا تھاکہ اچانک پکی سڑک ختم ہوگئ اور کچی سڑک کا ایک ٹوٹا آگیا، اس کچی سڑک پر بے پناہ کیچڑ تھا، اور کار کیچڑ میں پھنس، شہری بابو نے بہت زور لگایا لیکن کار اندر دھنستی چلی گئ۔۔ اتنے میں ایک دیہاتی کسان اپنے ایک گدھے کے ساتھ ادھر سے گذرا، شہری بابو نے اس سے مدد مانگی۔ کسان نے کہا کہ وہ مدد تو کر دے گا، لیکن اس کیلیئے وہ پانچ سو روپے لے گا۔ بابو نے کہا کہ ٹھیک ہے، یہ لو پیسہ۔
کسان نے رسہ ڈال کے گدھے کو جوتا، خود بھی زور لگایا اور پل میں کار کو کیچڑ سے نکال دیا۔ کسان نے کہا کہ آج یہ دسویں کار ہے جس کو ہم نے دھکا لگایا ہے۔ بابو بولا کہ سارا دن تو تم نے دھکا لگانے میں گذار دیا، کھیتی باڑی کب کرتے ہو؟ رات کو ہل چلاتے ہوگے؟
کسان بولا کہ نہیں جناب، رات کو میں ہل نہیں چلاتا، رات کو تو میں سڑک کے اس کچے ٹکڑے کو پانی لگاتا ہوں۔
 

تہذیب

محفلین
پنجابی نے ایک سردار رکشے والے کو روکا اور پوچھا “ریلوے سٹیشن کا کتنا لوگے؟“
“50 روپے جناب “ سردار نے جواب دیا
“ نہیں ۔ میں تمہیں صرف 20 روپے دوں گا“ پنجابی نے اصرار کیا
“ اوہ جی 20 روپے میں ریلوے سٹیشن کون لے کے جائے گا“ سردار نے جرح کی
“ذرا پیچھلی سیٹ پر بیٹھ ، میں لے کے جاتا ہوں “ پنجابی نے ڈرائیونگ سیٹ سنبھال لی۔
 

تہذیب

محفلین
ایک بار ایک دیہاتی بڈھا بابا ریل میں سفر کررہا تھا، اس ڈبے میں دو جوان لڑکے بھی تھے۔ ایک بڑا لڑکا کہتا ہے کہ یار آج زنجیر کھینچنی چاہیے۔ چھوٹا لڑکا کہتا ہے کہ بلا وجہ زنجیر کھینچنے پر پچاس روپے جرمانہ ہوگا۔
بڑا لڑکا کہنے لگا کہ کوئی بات نہیں، میرے پاس تیس روپے ہیں۔ تمہارے پاس کتنے ہیں؟
چھوٹا کہنے لگا کہ اس کے پاس بیس روپے ہیں۔
بڑا کہنے لگا ، پھر زنجیر کھینچ دیتے ہیں، جرمانہ ہوا تو دے دیں گے۔
ایک نے زنجیر کھینچ دی۔ کچھ دور جاکے ریل گاڑی رک گئ، اور ریلوے گارد آگئے اور پوچھنے لگے کہ زنجیر کس نے کھینچی؟
بڑے لڑکے نے ہوشیاری دکھائی اور بابے کی طرف اشارہ کیا کہ اس بابے نے زنجیر کھنچی ہے۔
گارد نے بابا جی سے پوچھا کہ بزرگو آپ نے زنجیر کیوں کھنچی؟
بابا پہلے تو حیران ہوا، پھر سنبھل کر کہنے لگا کہ اس کے پاس پچاس روپے تھے، جو ان دونوں لڑکوں نے اس سے چھین لیے ہیں اور آپس میں بانٹ لیے ہیں، اس لیے اس نے زنجیر کھنچی۔
گارد نے لڑکوں کی تلاشی لی۔ پچاس روپے نکلے، جو گارد نے بابے کو دیئے اور لڑکوں کو گرفتار کرکے ساتھ لے گئے۔
 

تہذیب

محفلین
میاں جی کماد کے کھیت میں جاتے تو گنے کو ھاتھ لگا کر کہتے۔
" کماد دی کھیتی۔۔۔۔ دس دے مینوں چھیتی چھیتی۔۔ گنے پٹاں دو یا چار "
پھر خود ہی بولے۔
" میاں جی آپ کا اپنا کماد ہے، جتنے مرضی توڑ لو "
کچھ دنوں بعد کھیت کافی خالی ہوگیا، جاٹ کو فکر پڑ گئ، وہ تاڑ میں بیٹھ گیا۔ ایک دن ا س نے میاں جی کو پکڑ لیا۔ کھیت سے کچھ آگے ایک بڑا سا جوہڑ تھا جو دیہاتی روایات کے عین مطابق گندے پانی سے بھرا تھا۔ گردن دبوچ کر جاٹ اس کواندر لے گیا۔
" بول پانی ٹھنڈے ٹھار۔۔۔ تینوں پچھے جٹ گنوار۔ غوطے دیاں دو یا چار۔"
پھر خود ہی کہتا ہے کہ۔" جٹا تیرا اپنا چھپڑ ہے، جتنے مرضی دے لے "
 

میم نون

محفلین
بہت خوب، بہت خوب۔

شکریہ

آخری والا تو شائد تعبیر بہنا نے بھی کہیں لکھا تھا، پر سارے ہی کمال کے ہیں ;)
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
بہت مزے کے لطیفے ہیں بڑا مزہ آیا
لیکن آخری سے پہلے والے میں بابا جی نے اور تیسرے نمبر والے میں دیہاتی لڑکے نے بہت کمال کیا :grin:
 

شمشاد

لائبریرین
تہذیب اپنا تعارف تو دیں اور یہ بھی بتائیں کہ یہ عمر خیام پہاڑی کون ہیں؟

مجھے تو یہ ادبی لطیفے نہیں لگتے، یہ تو بس عام سے لطیفے ہیں۔
 

mfdarvesh

محفلین
بہت شکریہ، بہت اچھا مزاح ہے
شمشاد بھائی، کوئی ایبٹ آباد سے ہوں گے اس لیے پہاڑی لکھا ہے، کسی کا دل رکھنے کو ہی کہہ دیں کہ "ادبی ہیں"
 

تہذیب

محفلین
سوری ! مجھے لطیفوں کے لکھنے کی لڑی کسی جگہ نظر نہیں آئی۔ اس لیے یہاں لکھ دئیے۔ ادب اور علم جامد شے نہیں ہیں کہ آپ کہہ سکیں کہ فلاں لطیفہ ادبی ہے اور فلاں نہیں۔ یہ لطائف اکثریت کے ماحول کے عکاس ہیں۔ اور ان کے کردار آپ کو اپنے آس پاس نظر آئیں گے۔ آج جو کچھ لکھا جائے گا وہی کل کا ادب ہوگا۔
عمرخیام میرے کولیگ ہیں، روزمرہ کی عام بول چال میں وہ جو باتیں کرجاتے ہیں ان کو یہاں پیش کرنے کی جسارت کی تھی۔ ناگوار گذری ہیں تو معذرت قبول کیجئے۔ اردو کے کچھ “ای - فورمز “ پر کافی متحرک اور معروف ہیں۔ عمر خیام کا نام چونکہ ایک تاریخی ہستی سے مماثلت رکھتا ہے اس لیے تفریق رکھنے کی خاطر ان کو اپنی طرف سے پہاڑی کے لاحقے سے نوازا گیا ہے۔ ان کا تعلق میری طرح کشمیر سے ہے فرق صرف یہ ہے کہ ہم دونوں کنٹرول لائن کے آر پار سے ہیں۔
جس لطیفے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ وہ شاید پہلے بھی “تعبیر بہنا “ نے تحریر کیا تھا، وہ میں نے ہی یہیں کہیں لکھا تھا۔ اب مل نہیں رہا۔ شکریہ۔۔۔ اور معذرت مکرر
 

تہذیب

محفلین
مقامی پولیس تھانے میں ایک تفتیشی پولیس افسر کی آسامی نکل آئی۔ ایک پہاڑی دیہاتی نے بھی ملازمت کی درخواست دے دی۔ اس کو انٹرویو کیلیے بلا لیا گیا۔ انٹرویو لینے والے نے پہاڑی دیہاتی سے بے شمار سوال کیئے۔ دیہاتی بے چارہ ان کے خاص تسلی بخش جواب نہ دے سکا۔ آخر میں انٹرویو لینے والے افسر نے پوچھا کہ ، " بتاؤ مہا آتما گاندھی کو کس نے قتل کیا تھا؟" پہاڑیا بے چارہ ا سکا بھی جواب نہ دے سکا۔ انٹرویو لینے والا تنگ آچکا تھا ، اس کے کہنے لگا کہ تم ایسا کرو کہ گھر جاؤ اور معلوم کرو کہ اس کو کس نے مارا تھا؟
پہاڑی دیہاتی گاؤں واپس آیا تو کسی نے پوچھا کہ سناؤ میاں! کیسا رہا انٹرویو؟ جاب شاب ملنے کا چانس ہے یا نہیں۔
پہاڑی کہنے لگا، " لو دسو! جاب کا چانس ؟ مجھے تو تفتیش کی واستی ایک کیس بھی مل گیا ہے۔"
 

تہذیب

محفلین
عالم ارواح میں ، جب گدھے کو بنایا گیا تو اس کو کہا گیا، " تمہاری اپنی کوئی سوچ نہیں ہوگی، جو کہا جائے گا وہی تم کیا کرو گے، تم صبح سے شام تک مشقت کیا کرو گے، بوجھ اٹھایا کرو گے، تمہاری نارمل طبعی عمر 50 سال ہوگی۔"
گدھے نے کہا، جو حکم ربا! لیکن میری عمر 50 کے بجائے بیس کردی جائے۔ آواز آئی ٹھیک ہے۔
پھر کتے کو کہا گیا، " تم کتے ہو، وفادار ہوگے، وفاداری کے اظہار کے طور پر دم ہلایا کرو گے، رکھوالی کیا کرو گے، مالک کا بچا کھچا کھایا کرو گے۔ اور تمہاری عمر ہوگی 30 سال۔۔"
کتے نے کہا جو حکم آپ کا ، لیکن میری عمر تیس سال سے کم کر کے 15 سال کردی جائے۔ آواز آئی ٹھیک ہے۔
پھر بندر کی باری آئی۔ اس کو کہا گیا،" تم بندر ہو، ایک ٹہنی سے دوسری ٹہنی پر جھولنا، کرتب دکھانا، اور نقل کر کے خوش رکھنا تمہارا کام۔ اور تمہاری عمر ہوگی 25 سال ۔" بندر نے کہا جناب جیسا آپ کی مرضی، لیکن میری عمر 25 سے کم کر کے دس سال کردی جائے۔ آواز آئی ٹھیک ہے
پھر انسان کو کہا گیا کہ تم زمین پر سب سے ذہین ہوگے، تمام جانوروں اور زمین پر حکومت کرو گے۔ اور تمہاری عمر ہوگی صرف بیس سال۔
انسان نے کہا، جناب ! سب باتیں بہت زبردست ہیں، لیکن صرف بیس سال کی عمر؟ یہ تو بہت کم ہے آپ ایسا کریں کہ گدھے کے بچے ہوئے تیس سال، کتے کے 15 سال اور بندر کے پندرہ سال مجھے دے دیں۔ آواز آئی ٹھیک ہے۔
اب
انسان بیس سال ہی رہتا ہے۔ شادی کرتا ہے تو اگلے تیس سال تک صبح سے شام تک کام کرتا ہے، اپنی فیملی کا بوجھ اٹھاتا ہے
بچوں کی شادی سے فارغ ہوکر اگلے پندرہ سال گھر کی رکھوالی کرتا ہے،
پھر وہ ریٹائرہوتا ہے تو ایک بیٹے سے دوسرے بیٹے کے گھروں میں آتا جاتا رہتا ہے۔ پوتے پوتیوں کو محظوظ رکھتا ہے۔
 

تہذیب

محفلین
ملک بوٹا ادیب اپنے دوستوں کے ساتھ کرکٹ کا میچ دیکھنے راولپنڈی گیا، پیر ودھائی کے بس اڈے سے انہوں نے ٹیکسی کرائے پر حاصل کرلی۔ ٹیکسی ڈرائیور نے جب دیکھا کہ سات پہاڑی پینڈو مسافر ہیں تو کہنے لگا۔
" دیکھو سجنو!۔۔۔۔ مجھے قانونی طور پر چار سے زیادہ سواریاں بٹھانے کی اجازت نہیں ہے ، مگر آپ لوگ بیٹھ جائیں لیکن میں میٹر کے کرائے سے دس روپے زیادہ وصول کروں گا"۔ ملک بوٹا ادیب اور اس کے ساتھی مان گئے۔ سٹیڈیم کے باہر ٹیکسی ڈرائیور نے کہا، " میٹر پر کرایہ بنا ہے 18 روپے، دس روپے اوپر کے۔۔۔ یہ ہوگئے جی 28 روپے، آپ ایسا کریں کہ تیرہ تیرہ روپے فی سواری بنتے ہیں۔ وہ دے دیں "
سب دوستوں نے تیرہ تیرہ روپے ادا کردئیے، ٹیکسی ڈرائیور چلا گیا۔ لیکن ملک بوٹا ادیب چونکہ گھاٹ گھاٹ کا پانی پیئے ہوئے تھا، اس کو کچھ کھد بد ہورہی تھی کہ کہیں کچھ گڑ بڑ ہے، کافی دیر سوچا لیکن کچھ سمجھ نہ آئی۔ میچ دیکھ کر واپس گاؤں آئے تو انہوں نے سارا قصہ کہانی سیموئل بدرالدین برکت بھٹی کے سامنے بیان کیا۔ برکت بھٹی نے کہا کہ اس کی ساری عمر سکول میں پانچویں کو حساب پڑھانے میں گذری ہے یہ تو مسئلہ ہی کوئی نہیں۔ اس نے کاغذ پنسل سنبھال لی اور سات دفعہ 13 لکھا۔ پہلے اس نے 13 کے 3 کو جمع کیا تو جواب آیا۔۔ 21۔۔۔۔ پھر اس نے 13 کے ایک کو جمع کیا تو وہ سات بنا۔۔۔۔ اب اس نے 21 اور 7 کو جمع کیا تو جواب بالکل ٹھیک آیا یعنی 28۔۔۔۔۔ سیموئل بدرالدین برکت بھٹی نے عینک کے اوپر سے دیکھتے ہوئے کہا، حساب تو ٹھیک آرہا ہے۔ تساں نو ایویں کوئی وہم ہورہا ہے۔
ملک بوٹا کے دل کو تسلی نہیں ہورہی تھی، وہ پروفیسر جمعہ کیقباد کے پاس چلا گیا۔۔۔ جمعہ کیقبادکو سب بات بتائی گئ۔ اور سیموئل بدرالدین برکت بھٹی کے جواب سے بھی آگاہ کیا گیا۔ جمعہ کیقباد نے بھی کاغذ پنسل نکال لی۔ اور حساب کرنے لگے۔ کہنے لگے کہ " برکت بھٹی نے جمع کا فارمولا استعمال کیا تھا میں تقسیم کے فارمولے سے دیکھتا ہوں۔ "
جمعہ کیقباد نے 28 کو سات سے تقسیم کرنے کیلیئے پہلے تو سات کو ایک بار تقسیم کیا۔ ایک کو ایک طرف لکھا اور 28 میں سے سات تفریق کیا تو جواب نکلا 21۔۔۔ اب اس نے 21 کو سات سے تقسیم کیا تو جواب تین آیا۔۔ اس تین کو اوپر لکھے ایک کے ساتھ لکھا تو جواب بنا ۔ ۔۔ 13۔۔۔۔
لیکن ملک بوٹا ادیب اب بھی مطمئن نہ تھا۔ وہ اس سارے حساب کتاب کو علاقے کے مشہور شاعر چوہدری اسداللہ خان غالب جو ماہر نجوم ہونے کے ساتھ ساتھ کریانے اور تھوک کا بیوپاری بھی تھا، کے پاس لے گیا۔ اس نے سارا معاملہ بے حد غور سے سنا۔
" تسی تقسیم کا فارمولہ بھی آزما لیا، تے جمع کا فارمولہ بھی ۔۔۔۔۔ میں ضرب کا فارمولہ چیک کرتا ہوں۔"
13 ضرب 7 ۔۔۔۔
پہلے سات کو ضرب دو 3 سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بنا 21
اب سات کو ضرب دو ایک سے ۔۔۔۔۔ بنا 7
21 اور سات جمع کیے تو بنا 28
" پترو، سجنو، مترو تے بیلیو !!! گل یہ ہے کہ حساب کی رُو سے کرایہ 28 روپے ہی بنتا ہے۔ اور ہر بندے کا حصہ بھی تیرہ تیرہ روپے ہی بنتا ہے۔ واللہ علم بالصواب !! تہاڈے نال کوئی دھوکا نہیں ہویا "
 

تعبیر

محفلین
خوب۔

آخری والا تو شائد تعبیر بہنا نے بھی کہیں لکھا تھا، ;)

نہیں نوید ان میں سے کوئی بھی لطیفہ میں ے پوسٹ نہیں کیا :)

ارے بھائی تہذیب نے لکھے ہیں تو ادبی ہی ہوں گے۔

نوید لکھتا تو غیر ادبی ہوتے ناں :laugh:

ہاہاہا
نہیں نا ادبی کا تو پتہ نہیں پر تہذیب یافتہ کہ سکتے ہیں ۔ ہی ہی ہی

جس لطیفے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ وہ شاید پہلے بھی “تعبیر بہنا “ نے تحریر کیا تھا، وہ میں نے ہی یہیں کہیں لکھا تھا۔ اب مل نہیں رہا۔ شکریہ۔۔۔ اور معذرت مکرر

جی بالکل آپ درست فرما رہی/رہے ہیں
وہ لطیفہ آپ نے اور صرف آپ نے ہی تحریر و پوسٹ کیا ہے یہاں لنک یہ رہا :)

http://www.urduweb.org/mehfil/showthread.php?33348-جٹ-دا-ویر
 

شمشاد

لائبریرین
سوری ! مجھے لطیفوں کے لکھنے کی لڑی کسی جگہ نظر نہیں آئی۔ اس لیے یہاں لکھ دئیے۔ ادب اور علم جامد شے نہیں ہیں کہ آپ کہہ سکیں کہ فلاں لطیفہ ادبی ہے اور فلاں نہیں۔ یہ لطائف اکثریت کے ماحول کے عکاس ہیں۔ اور ان کے کردار آپ کو اپنے آس پاس نظر آئیں گے۔ آج جو کچھ لکھا جائے گا وہی کل کا ادب ہوگا۔
عمرخیام میرے کولیگ ہیں، روزمرہ کی عام بول چال میں وہ جو باتیں کرجاتے ہیں ان کو یہاں پیش کرنے کی جسارت کی تھی۔ ناگوار گذری ہیں تو معذرت قبول کیجئے۔ اردو کے کچھ “ای - فورمز “ پر کافی متحرک اور معروف ہیں۔ عمر خیام کا نام چونکہ ایک تاریخی ہستی سے مماثلت رکھتا ہے اس لیے تفریق رکھنے کی خاطر ان کو اپنی طرف سے پہاڑی کے لاحقے سے نوازا گیا ہے۔ ان کا تعلق میری طرح کشمیر سے ہے فرق صرف یہ ہے کہ ہم دونوں کنٹرول لائن کے آر پار سے ہیں۔
جس لطیفے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ وہ شاید پہلے بھی “تعبیر بہنا “ نے تحریر کیا تھا، وہ میں نے ہی یہیں کہیں لکھا تھا۔ اب مل نہیں رہا۔ شکریہ۔۔۔ اور معذرت مکرر

عمر خیام صاحب کو اس محفل کا بھی راستہ دکھا دیں تا کہ ہم بھی ان سے مستفیذ ہو سکیں۔
 

تہذیب

محفلین
پنڈ کے ایک زمیندار نے اپنا بیٹا تعلیم کیلیئے شہر بھیج دیا۔بیٹا جی کے دل میں جانے کیا سمائی کہ اس نے یونیورسٹی جاکے فلسفہ اور منطق جیسی چیزوں میں ڈگری لی۔ گاؤں واپس آیا تو ایک دن ناشتے کے وقت زمیندار نے بیٹے سے پوچھا کہ اس نے کیا سیکھا ہے؟
بیٹے نے کہا ابا جی ، آپ نہیں سمجھو گے، لیکن میں کوشش کرتا ہوں کہ ایک کو کوئی مثال دیکے سمجھاؤں۔ پھر اس نے ایک ابلا ہوا انڈا اٹھایا اور کہا، دیکھیے یہ ایک انڈا ہے، جو آپ کو نظر آرہا ہے یہ انڈے کی حقیقت ہے، اس کو آپ ابال سکتے ہیں، فرائی کرلیں یا جو کچھ بھی کرلیں۔ لیکن ایک دوسری چیز اس کی ماہیئت ہے، اس کو جاننے کیلیئے آپ کو تعلیم اور بہت سی سوچ و بچار کی ضرورت ہے۔ اس سوچ و بچار والی تعلیم کی ڈگری میں نے کی ہے، اب سمجھے نا!
زمیندار نے کچھ سوچا اور انڈا اٹھا کر منہ ڈال کر غڑپ سے کھالیا اور کہا کہ بیٹا، انڈا تو میں نے کھالیا ہے، اس کی ماہیئت تم کھالینا۔
 
Top