عالمی دھشت گرد: امریکہ

شمشاد

لائبریرین
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرئے۔

جس کو مرضی جائز قرار دے دیں اور جس کو مرضی ناجائز۔
اور وہی کچھ اگر دوسرے کریں تو الٹ حساب۔

وہ ایک مثال سنی ہوئی ہے کہ ایک بندے کا بہت ہی پسندیدہ پودا اس کے بیٹے نے کاٹ ڈالا۔ باپ کو بتانے کے باوجود باپ نے بیٹے کو سزا کیوں نہ دی۔ اس لیے کہ باپ کو پتہ تھا کہ کلہاڑا ابھی تک بیٹے کے پاس ہے۔

تو حضرات جب تک ہم آپس میں لڑتے رہیں گے، جب تک ہم فرقوں اور قوموں میں بٹے رہیں گے، امریکہ سے نیو ورلڈ آرڈر نکلتے رہیں گے۔
 
لڑنے کی بات نہیں‌مذمت کررہے ہیں۔
اب جبکہ یہ بات واضح‌ہوچکی کہ امریکہ خارجہ پالیسیاں دھشت گردی کی تمام تحاریک بشمول طالبان، القاعدہ وغیرہ کی وجہ و محرک ہے۔ تمام حق پرست خصوصاامریکہ میں‌رہنے والے جو جہوریت کے حق میں‌ہیں اس دھشت گردانہ خارجہ پالیسی کے خلاف کام کرنا چاہیے۔ امریکی میں‌رہنے والے ہوشمند درج ذیل کام کرسکتے ہیں۔
* ایک مہم کا اغاز جس میں تمام اہم امریکی پالیسی ساز اداروں کو ای میل، خط اور فیکس کیے جائیں
* امریکی یونی ورسٹیز میں‌اس ناکام خارجہ پالیسز پر بحث
* ٹی وی ریڈیو پر اس ناکام خارجہ پالیسی پر بحث
* عوام شعور بیدار کرنے کی مہم
اگرچہ یہ سب کرنا اتنا اسان نہیں‌مگر امریکہ میں جو لوگ حق پرست ہیں‌ان کو اس بارے میں‌سنجیدگی سے سوچنا ہوگا ورنہ امریکی امیج دنیا بھر میں تباہ ہوجائے گا اور امریکی خواب کا روایتی تصور ٹوٹ جائے گا۔
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

اب جبکہ یہ بات واضح‌ہوچکی کہ امریکہ خارجہ پالیسیاں دھشت گردی کی تمام تحاریک بشمول طالبان، القاعدہ وغیرہ کی وجہ و محرک ہے۔ تمام حق پرست خصوصاامریکہ میں‌رہنے والے جو جہوریت کے حق میں‌ہیں اس دھشت گردانہ خارجہ پالیسی کے خلاف کام کرنا چاہیے۔ امریکی میں‌رہنے والے ہوشمند درج ذیل کام کرسکتے ہیں۔
* ایک مہم کا اغاز جس میں تمام اہم امریکی پالیسی ساز اداروں کو ای میل، خط اور فیکس کیے جائیں
* امریکی یونی ورسٹیز میں‌اس ناکام خارجہ پالیسز پر بحث
* ٹی وی ریڈیو پر اس ناکام خارجہ پالیسی پر بحث
* عوام شعور بیدار کرنے کی مہم
اگرچہ یہ سب کرنا اتنا اسان نہیں‌مگر امریکہ میں جو لوگ حق پرست ہیں‌ان کو اس بارے میں‌سنجیدگی سے سوچنا ہوگا ورنہ امریکی امیج دنیا بھر میں تباہ ہوجائے گا اور امریکی خواب کا روایتی تصور ٹوٹ جائے گا۔


يہ بات ميں آپ کو اپنے ذاتی تجربے کی روشنی ميں بتا رہا ہوں کہ امريکی حکومتی حلقے خود کو "عالمی تھانيدار" نہيں سمجھتے اور ديگر امور کی طرح خارجہ پاليسی پر بھی ہر سطح پر بحث اور نقطہ چينی کا عمل جاری رہتا ہے۔ چاہے وہ ڈبليو – ايم – ڈی ايشو ہو، ايران کے ايٹمی پروگرام کے حوالے سے رپورٹ ہو يا افغانستان اور عراق میں درپيش چيلينجز ہوں، امريکی حکومت کے اہلکار ہر موضوع پر بغير کسی خوف وخطر کے اپنے خيالات کا اظہار کرتے رہتے ہيں۔

امريکی حکومت کی جانب سے جذبات اور متضاد خيالات کے اظہار کے حوالے سے برداشت کی ايک مثال يہ خبر ہے کہ حال ہی ميں دو امريکی سفارت کاروں کو اس بات پر ايوارڈ ديا گيا کہ انھوں نے اپنی ملازمت کے دوران امريکی حکومت کی بعض پاليسيوں سے نا صرف اختلاف کيا بلکہ مسلسل اپنی رائے کا اظہار کر کے امريکی حکومت کو اپنے فيصلے تبديل کرنے پر مجبور کيا۔


http://seattletimes.nwsource.com/html/politics/2008004869_apdiplomaticdissent.html?syndication=rss


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

http://usinfo.state.gov
 

قیصرانی

لائبریرین
يہ بات ميں آپ کو اپنے ذاتی تجربے کی روشنی ميں بتا رہا ہوں کہ امريکی حکومتی حلقے خود کو "عالمی تھانيدار" نہيں سمجھتے اور ديگر امور کی طرح خارجہ پاليسی پر بھی ہر سطح پر بحث اور نقطہ چينی کا عمل جاری رہتا ہے۔ چاہے وہ ڈبليو – ايم – ڈی ايشو ہو، ايران کے ايٹمی پروگرام کے حوالے سے رپورٹ ہو يا افغانستان اور عراق میں درپيش چيلينجز ہوں، امريکی حکومت کے اہلکار ہر موضوع پر بغير کسی خوف وخطر کے اپنے خيالات کا اظہار کرتے رہتے ہيں۔

امريکی حکومت کی جانب سے جذبات اور متضاد خيالات کے اظہار کے حوالے سے برداشت کی ايک مثال يہ خبر ہے کہ حال ہی ميں دو امريکی سفارت کاروں کو اس بات پر ايوارڈ ديا گيا کہ انھوں نے اپنی ملازمت کے دوران امريکی حکومت کی بعض پاليسيوں سے نا صرف اختلاف کيا بلکہ مسلسل اپنی رائے کا اظہار کر کے امريکی حکومت کو اپنے فيصلے تبديل کرنے پر مجبور کيا۔


http://seattletimes.nwsource.com/html/politics/2008004869_apdiplomaticdissent.html?syndication=rss


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

http://usinfo.state.gov

ڈبلیو ایم ڈی سے یاد آیا، امریکی موقف اب کیا کہتا ہے ان کے بارے؟
 
يہ بات ميں آپ کو اپنے ذاتی تجربے کی روشنی ميں بتا رہا ہوں کہ امريکی حکومتی حلقے خود کو "عالمی تھانيدار" نہيں سمجھتے اور ديگر امور کی طرح خارجہ پاليسی پر بھی ہر سطح پر بحث اور نقطہ چينی کا عمل جاری رہتا ہے۔ چاہے وہ ڈبليو – ايم – ڈی ايشو ہو، ايران کے ايٹمی پروگرام کے حوالے سے رپورٹ ہو يا افغانستان اور عراق میں درپيش چيلينجز ہوں، امريکی حکومت کے اہلکار ہر موضوع پر بغير کسی خوف وخطر کے اپنے خيالات کا اظہار کرتے رہتے ہيں۔

امريکی حکومت کی جانب سے جذبات اور متضاد خيالات کے اظہار کے حوالے سے برداشت کی ايک مثال يہ خبر ہے کہ حال ہی ميں دو امريکی سفارت کاروں کو اس بات پر ايوارڈ ديا گيا کہ انھوں نے اپنی ملازمت کے دوران امريکی حکومت کی بعض پاليسيوں سے نا صرف اختلاف کيا بلکہ مسلسل اپنی رائے کا اظہار کر کے امريکی حکومت کو اپنے فيصلے تبديل کرنے پر مجبور کيا۔


http://seattletimes.nwsource.com/html/politics/2008004869_apdiplomaticdissent.html?syndication=rss


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

http://usinfo.state.gov
مزید بات کرنے سے پہلے اپ کو اور فورم کے منتظمین کو یاددہانی کروانی ہے کہ ای میل اسطرح دستخطوں میں دینا فورم کے ضوابط کی خلاف ورزی ہےشاید۔ اپ چونکہ ایک ملک کے افیشل کی حیثیت رکھتے ہیں‌لہذا اپ سے قانون کے احترام کی کچھ زیادہ ہی توقع رکھی جاسکتی ہے۔

یہ توبہت ہی اچھی بات ہے کہ امریکی اپنی غلط وناکام پالیسیوں‌کو تنقید کا نشانہ بناتے رہتے ہیں۔ اور بالاخر اس تنقید سے اپنی پالیسی بدل بھی دیتے ہیں۔ یہ بتایے کہ اگر دنیا میں‌کہیں خون بہانے جارہے ہوں اور پوری دنیا کہہ رہی ہو کہ "نہ جاو خون بہانے" پھر کیا کر تے ہیں؟ کیا دنیا کی رائے کو بھی کچھ وزن دیتے ہیں؟ کیا دنیا کی رائے کو مقدم رکھ کر بھی کچھ فیصلے بدلے جاتے ہیں؟ مجھے نہیں‌لگتا کہ یہ کام ہوتا ہے۔بلکہ دنیا کی رائے کو بدلنے کا کام زور و شور سے ہوتا ہے اور ثبوت اپ کی یہاں‌موجودگی و خبروں سے اگے قسم کے پروگرام ہیں۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ فیصلے دس لاکھ افراد کے قتل اور اس سے دس گنا کے بے گھر ہونے سے پہلے بدلے جائیں۔ اس پر بھی ایک تھنک ٹینک بنانے کی ضرورت ہے۔

اگر امریکی حکومت اپنے عوام کی ارا کو کچھ اھمیت دیتی ہے تو وہاں رہنے والے پاکستان اوریجن لوگوں‌پر زیادہ ذمہ داری پڑجاتی ہے کہ وہ متحرک ہوکر امریکی حکومت کو اپنی ناکام و بدنام و غلط پالیسوں‌کا احساس دلائیے۔ وہ تمام لوگ جو یہاں‌فورم پر حاضری دیتے ہیں اور پاکستانی قوم کو معطوں‌کرتے رہتے ہیں ان کی ذمہ داری بہت بڑھ جاتی ہے کہ وہ اپنی رائے سے امریکی حکومت کو اگاہ کریں‌کہ امریکی ناکامی سے دنیا میں‌دوچار ہیں‌اس بے کار پالیسیز کے سبب۔
 
امریکی نظام ایک مکمل منصفانہ نطام ہے ، نہ امریکہ دنیا کا تھانیدار ہے اور نہ ہی دنیا میں کسی دہشت گردی کا خواہاں۔ جو لوگ امریکہ سے جنگ کرتے ہیں۔ امریکہ مناسب دفاع کرتا ہے۔ اس اصول میں کیا خرابی ہے؟
 
امریکی نظام ایک مکمل منصفانہ نطام ہے ، نہ امریکہ دنیا کا تھانیدار ہے اور نہ ہی دنیا میں کسی دہشت گردی کا خواہاں۔ جو لوگ امریکہ سے جنگ کرتے ہیں۔ امریکہ مناسب دفاع کرتا ہے۔ اس اصول میں کیا خرابی ہے؟

خرابی یہ ہے کہ بات اپ کی سمجھ میں‌نہیں‌ارہی ہے۔
ورنہ اپ کمپوز ہو کر امریکی حکومت کی ناکام پالیسوں‌کے بارےمیں‌امریکی حکومت کو بتاتے نہ؟
دنیا بھر میں امریکی حکومت دھشت گرد و خونی صورت میں‌متشکل ہوکر سامنے ارہی ہے اور اپ کوکچھ خرابی ہی نظر نہیں‌ ارہی۔:eek:
 
ہمت، آپ بتائیے کہ پاکستان کو امریکہ نے کیا نقصان پہنچایا ہے؟ 61 سال کی تاریخ‌گواہ ہے کہ امریکہ نے پاکستان سے کبھ سرد کبھی گرم لیکن دوستی رکھی ہے۔ یہ دوستی اب پرائمری اسکول والی تو ہونہیں سکتی، اس کا دار مدار صرف اور صرف مفادات پر ہے۔ امریکی مفادات اور پاکستانی مفادات۔ یہ ہی سب سے اہم نکتہ ہے ۔

افغانستان اور عراق آج تک ہمارے دوست نہیں ہوئے۔ عراق نے کبھی پاکستان دوستی نہیں نبھائی بلکہ عراقی حکمرانوں نے تو اپنی عوام دوستی بھی نہیں نبھائی۔ اگر اندر سے یہ ٹوٹے پھوٹے نہ ہوتے تو آج ان کا یہ حال نہیں ہوتا۔

افغانستان اور اس کے شمالی علاقہ جات، ہزار برس سے ہم سے دشمنی نبھائے جارہے ہیں۔ ہماری اپنی تاریخ ، اسی پاکستان کی جغرافیائی وحدت کی تاریخ ، کبھی ابدالی کے ہاتھوں دولت اور عزت کے لٹنے کی تاریخ سے بھری ہے تو کبھی غزنوی کے ہاتھوں ۔۔

پچھلی بار مولویوں نے جب ہندوستان و پاکستان پر مغلوں کے زمانے میں حملہ کیا تو ہم کو مشیت ایزدی نے انگریزوں کی مدد سے اس عذاب سے نجات دی۔

اگر ان کے پاس ہماری جغرافیائی وحدت پر حملہ کرنے والے ابدالی، غزنوی، سوری ، مغل ہیں تو صاحب اس بار ان بدمعاشوں کو جو مذہب کا لبادہ اوڑھ کر ہم پر حملہ آور ہوتے رہے ہیں ، اس بار ابدال، غزنی ، سوری اور مغلوں کے ویرانوں پر پنجاب، سندھ بلوچستان بہادری سے جہاد کرتا ہوا ان مغلوں، ابدالیوں ، غزنویوں ، کابلیوں کو ان ہی کی دوا کا مزا چکھا رہا ہے۔ اب ہمارے غازی، ان کی دولت، خزائن الارض پر قبضہ کریں‌گے۔

اب بھائی ہمت علی آپ موقع دیجئے کہ میں ایک تاریخ‌ دان کے طور پر لکھ سکوں کے بہادر پاکستانی ہمت علی سندھی نے افغانستان اور ازبکستان پر 17 حملے کئے اور ہر بار ان بدمعاشوں کا جمع کیا ہوا سونا لوٹ کر واپس کراچی لے آیا۔۔

ساری بات کہنےکا مقصد یہ ہے کہ کبھی آپ زندگی کو اپنی آنکھ سے بھی دیکھئے، کیا وجہ ہے کہ سندھ ، پنجاب ، سرحد بلوچستان نے کبھی ایران، افغانستان و ازبکستان پر حملہ نہیں کئے؟
وجہ اس کی صرف یہ ہے کہ ہم کچھ امن پسند واقع ہوئے ہے اور یہ ایرانی ، افغانی ، ازبک کچھ شر پسند۔ اسی شرپسندی نے جب امریکہ کا رخ‌کیا تو امریکہ نے ان سے تھوڑا سے حساب برابر کیا۔ باقی حساب اب اگلے 10 ہزار سال تک ان کے خزائین الارض ، تیل، سونا، تانبا وصول کرنے کے بعد بے باق ہوگا۔ جیسی کرنی ویسی بھرنی۔
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

کچھ عرصہ پہلے ميرا يو – ايس – اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ ميں ايک سينير ملٹری آفيسر کے ساتھ دہشت گردی کے خلاف جنگ ميں درپيش مشکلات اور چيلنجز، بے گناہ شہريوں کی ہلاکت اور شہری آباديوں ميں روپوش دہشت گردوں کے حوالے سے ايک تفصيلی مکالمہ ہوا۔

جن ملٹری آفيسر کا ميں ذکر کر رہا ہوں وہ اس يو – ايس ايڈ ٹيم کا حصہ تھے جس نے اکتوبر 2005 کے زلزلے کے بعد پاکستان کا دورہ کيا تھا۔ وہ اپريل 2006 تک پاکستان ميں رہے تھے اور اس دوران وہ ادويات اور خوراک کی ترسيل کی مہم ميں پاکستان آرمی اور کئ نجی تنظيموں کے ساتھ کئ ماہ پاکستان کے شمالی علاقوں ميں سنگلاخ پہاڑوں اور موسموں کی سختی کے باوجود مقامی لوگوں کی مدد کرتے رہے۔ پاکستان ميں قيام کے دوران انھوں نے بے شمار دوست بنائے اور پاکستان کی ثقافت اور لوگوں کے جذبات کو قريب سے ديکھا اور سمجھا۔

ميں نے ان سے دريافت کيا کہ کيا دہشت گردی کے خلاف جنگ ميں قوت کا استعمال ايک موزوں سياسی يا عسکری حکمت عملی گردانی جا سکتی ہے کيونکہ قوت کے استعمال اور اس کے نتيجے ميں بے گناہ شہريوں کی ہلاکت سے دہشت گردوں کو يہ موقع ملتا ہے کہ وہ جذبات کو بھڑکا کر اپنے خونی ايجنڈے کی تکميل کے ليے ہمدردی حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہيں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے حوالے سے ان ملٹری آفيسر کا جواب پيش ہے۔

دہشت گردی کے خلاف جنگ ميں سب سے بڑا چيلنج يہ ہے کہ دہشت گرد کسی مخصوص يونيفارم ميں اپنے عام کو منظر عام پر لے کر نہيں آتے اور نہ ہی وہ کسی عسکری معرکے ميں طے شدہ اصول و ضوابط کی پيروی کرتے ہيں۔ اس معرکے کے ليے کوئ ميدان جنگ بھی مخصوص نہيں ہے۔ دہشت گرد ہر ممکن کوشش کرتے ہیں کہ اپنے آپ کو نہ صرف عام شہريوں کی صف ميں شامل رکھيں بلکہ ضرورت پڑنے پر انھيں بطور ڈھال بھی استعمال کريں۔

اس ميں کوئ شک نہيں ہے کہ کسی بھی معرکے اور جنگ ميں بے گناہ شہريوں کی ہلاکت قابل مذمت ہے۔ حکمت عملی کے اعتبار سے امريکہ کو بے گناہ شہريوں کی ہلاکت سے کوئ فائدہ حاصل نہيں ہوتا بلکہ اس کے برعکس سفارتی لحاظ سے بے شمار مشکلات پيدا ہوتی ہيں۔ يہ بات ياد رہنی چاہيے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کا مقصد ابتدا ميں بھی اور اس وقت بھی بے گناہ شہريوں کی جان کی حفاظت ہے۔ اس ميں مسلمان اور غير مسلم دونوں شامل ہيں۔ يہ بھی ايک حقيقت ہے کہ 11 ستمبر 2001 کے واقعے ميں کئ مسلمان بھی ہلاک ہوئے تھے۔ اس کے برعکس دہشت گرد دانستہ بے گناہ شہريوں کو حکمت عملی کے تحت نشانہ بناتے ہيں اور اس کے بعد بے گناہ شہريوں کی ہلاکت کو اپنی کاروائيوں کے جواز کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ اس بات کو سمجھنے کے ليے آپ ان تنظيموں کے پوسٹرز، بينرز، ويب سائٹس اور ديگر اشتہاری مواد کا جائزہ ليں جو وہ جذبات کو بھڑکانے کے ليے استعمال کرتے ہيں۔

دہشت گردی کينسر کی مانند ايک بيماری ہے اور کينسر کی طرح اس بيماری کا علاج بھی نہ تو طے شدہ ہے اور نہ ہی مکمل۔ اگر آپ اس بيماری کا علاج روک ديں تو اس صورت ميں اس بيماری کی روک تھام ممکن نہيں اور يہ پورے جسم کو اثر انداز کرے گی۔ اس تناظر ميں آپ اس بيماری کے علاج کو ترک نہيں کر سکتے تا کہ کاميابی کا امکان برقرار رہے بصورت ديگر دہشت گردی کا کينسر يقينی طور پر پھيلے گا اور سارے سماج پر اثرانداز ہو گا۔

گيارہ ستمبر 2001 کا واقعہ ايک دہائ تک دہشت گردی کی حقيقت کو تسليم نہ کرنے کا نتيجہ تھا۔ القائدہ کی جانب سے 90 کی دہائ ميں امريکہ کے خلاف جنگ کا باقاعدہ اعلان کيا جا چکا تھا اور اس ضمن ميں دنيا بھر ميں امريکی املاک پر باقاعدہ حملے کيے جا رہے تھے۔ اس فورم پر کچھ دوستوں کی رائے کے عين مطابق مذاکرات، سفارتی اثرورسوخ اور دہشت گردوں تک مالی امداد کی فراہمی کی روک تھام سميت بہت سے متبادل طريقے اختيار کيے گئے ليکن يہ تمام حکمت عملی اور حربے القائدہ کے خلاف زيادہ کامياب نہيں ہو سکے کيونکہ يہ تنظيم ايک رياست کی طرز پر کام نہيں کرتی۔ يہ بات دستاويزات سے ثابت ہے کہ امريکی حکام کے پاکستان اور افغانستان کے ساتھ ہر سطح پر بے شمار روابط رہے ہيں جن ميں مستقبل ميں دہشت گردی کے حوالے سے خطرات اور خدشات کا کئ بار اظہار کيا گيا ليکن 11 ستمبر 2001 کے بعد امريکی حکومت کے پاس دہشت گردی کے خلاف عسکری قوت کے استعمال کے سوا کوئ چارہ نہيں تھا۔ افغانستان ميں القائدہ کے خلاف قوت کے استعمال کا فيصلہ کئ ممالک کا مشترکہ فيصلہ ہے جس کی توثيق اقوام متحدہ نے بھی کی ہے۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
http://usinfo.state.gov
 
اب بھائی ہمت علی آپ موقع دیجئے کہ میں ایک تاریخ‌ دان کے طور پر لکھ سکوں کے بہادر پاکستانی ہمت علی سندھی نے افغانستان اور ازبکستان پر 17 حملے کئے اور ہر بار ان بدمعاشوں کا جمع کیا ہوا سونا لوٹ کر واپس کراچی لے آیا۔۔

۔۔۔ امریکہ نے ان سے تھوڑا سے حساب برابر کیا۔ باقی حساب اب اگلے 10 ہزار سال تک ان کے خزائین الارض ، تیل، سونا، تانبا وصول کرنے کے بعد بے باق ہوگا۔ جیسی کرنی ویسی بھرنی۔
ماشاللہ
شکریہ اپ کی ذھنیت عیاں‌ہوئیں۔ کبھی وقت ملا تو جواب دوں‌گا۔
فی الحال اتنا ہی کہ میرا پورا نام ہمت علی‌خان ہے۔ یوسف زئی قبیلے سے تعلق ہے جس کے بہت سے اراکان ہندوستان میں صدیوں سے مقیم ہیں۔
 

ساجداقبال

محفلین
گيارہ ستمبر 2001 کا واقعہ ايک دہائ تک دہشت گردی کی حقيقت کو تسليم نہ کرنے کا نتيجہ تھا۔ القائدہ کی جانب سے 90 کی دہائ ميں امريکہ کے خلاف جنگ کا باقاعدہ اعلان کيا جا چکا تھا اور اس ضمن ميں دنيا بھر ميں امريکی املاک پر باقاعدہ حملے کيے جا رہے تھے
لیکن آپ تاریخ کا ذکر جب بھی کرتے ہیں تو سوئی 11 ستمبر پر اٹکی ہوتی ہے۔ اب ذرا مزید ہمت سے کام لیں، مزید پیچھے جائیں اور یہ بتائیں کہ القائدہ نے کیوں‌ ایسا اعلان کیا؟ کوئی وجہ بھی تو ہوگی؟آپ کیوں گھبراتے ہیں ان وجوہات کو بیان کرنے سے جو امریکہ کیخلاف نفرت کا باعث‌ہیں؟
 
امریکی دھشت گردی ننگی ہوکر لاہور کی سڑکوں پر بھی رقصاں ہوگئی ہے۔ گذشتہ روز امریکی دھشت گرد نے تین پاکستانی ہی ٹھکانے نہیں لگائے بلکہ پاکستانی عزت، وقار اور خودمختاری بھی ٹھکانے لگادی ہے۔
اب بھی امریکی دھشت گردی کی حمایت کرنے والوں کے انکھیں بند ہی رہیں گی؟ یا وہ پہلے یہ سب کچھ فروخت کرچکے ہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
آپ کی بات بالکل بجا ہے۔ لیکن ہمارے اندھے بہرے گونگے سیاسی لیڈروں نے اپنے آقا کو اس غنڈہ گردی کی مذمت کر کے ناراض تو نہیں کرنا ناں۔ حکومتی پارٹی، ن لیگ، ق لیگ، سب کے سب امریکہ کا تھرما میٹر منہ میں لیے خاموش بیٹھے ہیں۔ حتی کہ ایم کیو ایم نے بھی مذمت نہیں کی۔ کہا ہے تو صرف اتنا کہ پنجاب میں جرائم بہت بڑھ گئے ہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
حیرت ہے اس غنڈہ گردی کو justify کرنے کے لیے ابھی تک فؤاد صاحب نے کوئی بیان نہیں دیا۔
 
اس دھشت گرد کو سفارتی نمائندہ مان کر پھر اس قتل در قتل کی ایمیونٹی دے کر امریکی حکومت امریکہ اسمگل کرالے گی۔ یہ مرنے والے پاکستانی ڈاکو ثابت ہوں گے۔
قتل کروہو کہ کرامات کرو ہو
 

ظفری

لائبریرین
امریکی دھشت گردی ننگی ہوکر لاہور کی سڑکوں پر بھی رقصاں ہوگئی ہے۔ گذشتہ روز امریکی دھشت گرد نے تین پاکستانی ہی ٹھکانے نہیں لگائے بلکہ پاکستانی عزت، وقار اور خودمختاری بھی ٹھکانے لگادی ہے۔
اب بھی امریکی دھشت گردی کی حمایت کرنے والوں کے انکھیں بند ہی رہیں گی؟ یا وہ پہلے یہ سب کچھ فروخت کرچکے ہیں۔
پاکستان میں روزآنہ بے شمار لوگ قتل کیئے جا رہے ہیں ۔ کوئی زمینداروں اور جاگیرداروں کی عقوبت خانوں میں مصلوب ہو رہا ہے ۔ سڑکوں پر دن دھاڑے ڈاکے پڑ رہے ہیں اور زیادہ تر لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں ۔ خود کش حملوں سے مسجدیں ، امام بارگاہیں ، زیارتیں محفوظ نہیں ہیں ۔ ٹارگٹ کلنگ میں روز لوگ لقمہِ اجل بن رہے ہیں ۔ کمسن بچیوں کو زیادتی اور پھر قتل کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ لوگ بچوں سمیت یا تو خود کشی کررہے ہیں یا پھر اپنے ہاتھوں سے ان کا سودا کر رہے ہیں ۔ غیرت ، کاروکری پر روز قتل ہو رہے ہیں ۔ سیاسی جنازے روز اٹھائے جا رہے ہیں ۔ کہیں کسی کی بہن ، بیٹی کے سر کی چادر سرعام بازار میں اتاری جا رہی ہے ۔ اور ہمت علی کو صرف تین پاکستانی کا قتل میں ملک کی عزت ، وقار اور خود مختاری نظر آرہی ہے ۔ جواب نہیں ہمت علی تمہارا ۔۔۔ ذرا اپنا ویژن بڑھاؤ ہمت علی ۔۔۔۔ کیا سعودی عرب سے یہ مناظر نظر نہیں آرہے ہیں ۔ ؟ :eek:

نوٹ : تین پاکستانیوں کا قتل انتہائی افسوناک اور تکلیف دہ ہے ۔ اللہ لواحقین کو صبر دے ۔ آمین ۔ اور معاملے کی تحقیق جلد از جلد ہو تاکہ صحیح واقعات سامنے آسکیں ۔
مجھے اس صفائی کی ضرورت اس لیئے پڑی کہ ہماری محفل میں آج کل فتوؤں کا ایک بار پھر رواج چل پڑا ہے ۔
 

شمشاد

لائبریرین
وہ تو ہمارے پولیس کے بڑے افسر نے اس واقعہ کے فوراً بعد اپنی فرمانبرداری ثابت کرتے ہوئے دو مقتولین کو ڈاکو قرار دے دیا تھا۔

اب سُنا ہے کہ ان دو مقتولین کے خلاف دو عدد ڈکیتی کی ایف آئی آر بھی درج کروائی گئی ہیں۔

یہ ظالم لوگ اللہ کو بھولے ہوئے ہیں، آخرت کو بھولے ہوئے ہیں، اپنی موت کو بھولے ہوئے ہیں۔ اللہ کی چکی ان کو پیسے گی اور بہت باریک پیسے گی۔
 
Top