عالمی دھشت گرد: امریکہ

باسم

محفلین
پانچ قیدی
تین جوتے
پانچ کیاریاں جن میں سے صرف ایک میں پودے نظر آرہے ہیں لگتا ہے وہ بھی اسی دن لگائے گئے جس دن آپ وہاں گئے تھے
ایک کمرا جس میں رہائش کے آثار دکھائی نہیں دے رہے
8 بیڈ جن میں ایک "قیدی" کا سامان بکھرا پڑا ہے کیونکہ ایک صندوق، ایک جائے نماز، ایک بستر رکھا ہے
ایک کلاس روم جہاں قیدیوں کو الف بے اور گنتی سکھائی جاتی ہے وہاں بھی کرسیاں الٹی پڑی ہیں۔
اور حیرت ہے کہ اتنی سہولتوں کے بعد بھی قیدی وہاں سے پاگل ہوکر لوٹتا ہے؟
 

شمشاد

لائبریرین
گوانتاناموبے – کچھ مزيد حقائق
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ايک بات اور، ہماری جتنے بھی اہلکاروں سے بات چيت ہوئ ان سب نے اسی خواہش کا اظہار کيا کہ جتنی جلدی ممکن ہو ان قيديوں کے مستقبل کا فيصلہ ہو جانا چاہيے تاکہ اس قيد خانے کو بند کيا جا سکے۔ اس حوالے سے بے شمار آئينی اور قانونی عوامل پر امريکی حکومتی ادارے سرگرم عمل ہيں۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

ہاہاہا بے شمار آئینی اور قانونی عوامل پر امریکی حکومتی ادارے سرگرم عمل ہیں ،،،، کیا بات ہے بے شمار آئینی اور قانونی عوامل، ہاہاہاہا

جب جیل بنائی تھی تو تب تو ایک ہی حکم ہوا ہو گا اور بند کرنے کے لیے " بے شمار "

بس کرو بھائی، دوسروں کو بےوقوف بنانے کے اور بھی بہت سے طریقے ہیں۔ امریکہ کی اتنی بھی وفاداری اچھی نہیں۔
 

زینب

محفلین
گوانتاناموبے – کچھ مزيد حقائق

کچھ ہفتے پہلے ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم نے گوانتاناموبے کا دورہ کيا تھا اور ہم نے اپنے مشاہدات مختلف فورمز پر پيش کيے تھے۔ ليکن اس حوالے سے سوالات کا ايک لامتناہی سلسلہ ہے جو صرف اردو فورمز تک محدود نہيں ہے بلکہ عربی اور فارسی فورمز پر بھی اس حوالے سے بے شمار سوالات کيے جاتے ہيں۔

ميں جانتا ہوں کہ گوانتاناموبے کے بارے ميں منفی تاثر بہت مضبوط ہے۔ اس ميں کوئ شک نہيں کہ ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم کے دورے سے پہلے خود ميرے ذہن ميں بھی بے شمار سوالات تھے۔ ليکن جو حقائق آپ اپنی آنکھوں سے ديکھ چکے ہوں انھيں نظرانداز نہيں کيا جا سکتا۔ يہ بھی حقيقت ہے کہ کسی بھی موضوع پر رائے قائم کرنے کے ليے ضروری ہے کہ آپ دونوں طرف کے نقطہ نظر کو سمجھنے کی کوشش کريں۔

کچھ دن پہلےآج ٹی وی پر ايک پروگرام ديکھنے کا اتفاق ہوا جس ميں "گم شدہ افراد" کے عنوان سے گفتگو کی گئ۔ اس پروگرام ميں پچھلے چند سالوں ميں دہشت گردی کے الزام ميں مبينہ طور پر امريکہ کے ايما پر ايجنسيوں کے کردار پر گفتگو کی گئ۔ اس حوالے سے کئ بار گوانتاناموبے کا ذکر آيا اور يہ تاثر ديا گيا کا وہاں پر سينکڑوں بلکہ ہزاروں کی تعداد ميں پاکستانی جانوروں سے بدتر زندگی گزار رہے ہيں۔ اس تاثر کو مضبوط کرنے کے ليے "بليک ہول" کا لفظ بھی استعمال کيا گيا جس سے يہ باور کرانے کی کوشش کی گئ کہ گوانتاناموبے ميں قيد پاکستانيوں کے بارے ميں کسی کو کچھ معلوم نہيں کہ وہ کون ہيں، ان کے ساتھ کيا سلوک کيا جا رہا ہے اور ان کا مستقبل کيا ہو گا۔

آپ کی اطلاع کے ليے عرض ہے کہ گوانتاناموبے ميں موجود قيديوں کی مکمل فہرست متعلقہ ممالک کی حکومتوں کو تمام تر کوائف کے ساتھ مہيا کی گئ ہے۔ يہی نہيں بلکہ بہت سی متعلقہ حکومتوں کے ترجمان گوانتاناموبے کا دورہ بھی کر چکے ہيں۔ يہ فہرست آپ بھی اس لنک پر پڑھ سکتے ہيں۔

http://www.dod.mil/pubs/foi/detainees/detaineesFOIArelease15May2006.pdf

اس ميں قيديوں کے نام، ان کی عمريں اور شہريت بھی موجود ہيں۔ يہ وضاحت بھی کرتا چلوں کہ اس وقت گوانتاناموبے ميں قريب 280 قيدی باقی رہ گئے ہيں جن ميں پاکستانی قيدی دس سے بھی کم ہيں۔ مجموعی طور پر پاکستانی قيديوں کی تعداد 70 کے قريب تھی۔

گوانتاناموبے ميں قيديوں کے ساتھ غيرانسانی سلوک؟

انٹرنيٹ پر موجود چند سال پرانی تصاوير کا حوالہ بار بار ديا جاتا ہے۔ ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم نے گوانتانومےبے پہنچ کر سب سے پہلا سوال اسی حوالے سے کيا تھا۔ ہميں وہ جگہ بھی دکھائ گئ جہاں پر يہ تصاوير لی گئ تھيں۔ آج سے چھ سال پہلے جب دہشت گردی کے الزام ميں ان قيديوں کو يہاں منتقل کيا گيا تھا اس وقت يہاں پر جيل کی عمارت،سيکيورٹی اور رہائش کے انتظامات ابتدائ مرحلے پر تھے۔ اس وقت يہ بھی واضح نہيں تھا کہ ان کی کتنی تعداد يہاں پر قيد رہے گی اور انکی گروہ بندی کيسے کی جائ گی۔ قيديوں کی ترسيل اور انھيں محتلف عمارات کے درميان منتقل کرنے کے مرحلے ميں ايک کھلے ميدان ميں جمع کيا جاتا تھا جس کے دوران وہ صورت حال سامنے آئ جو آپ نے ان تصاوير ميں ديکھی۔ ليکن يہ اقدامات صرف قيديوں کو منتقل کرنے کے دوران کيے جاتے تھے۔ يہاں پر يہ بھی واضح کر دوں کہ جو تصاوير انٹرنيٹ پر موجود ہيں وہ کسی صحافی نے نہيں لی تھيں بلکہ وہاں پر موجود فوجيوں نےخود لي تھيں تاکہ متعلقہ اہلکاروں کو وہاں پر عمارت کی توسيع اور سيکیورٹی کے دائرہ کار ميں اضافے کی ضرورت سے آگاہ کيا جا سکے۔ يہ صورت حال جنوری 2002 سے اپريل 2002 تک رہی جس کے دوران قيديوں کے منہ پر کپڑا چڑھا کر انھيں ايک ٹرالی ميں ڈال کر ايک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کيا جاتا رہا۔

گوانتاناموبے ميں سب سے پہلا قيدی کيمپ ايکس رے ميں 11 جنوری 2002 کو لايا گيا۔ اس وقت ايک ملٹری کيمرہ مين کو يہ ذمہ داری سونپی گئ کہ وہ قيديوں کی ترسيل کے مراحل کی دستاويز تيار کرے۔ اس کيمرہ مين نے جو تصاوير لی تھيں، انھيں پينٹا گون نے خود ريليز کيا تھا۔ ان تصاوير کو سب سے پہلے ميامی ہيرلڈ نے اپنی 11 جنوری 2002 کی اشاعت ميں شائع کيا تھا۔ يہ وہی تصاوير ہيں جو بعد ميں انٹرنيٹ پر ہم سب نے ديکھی تھيں۔ ميامی ہيرالڈ کی 11 جنوری 2002 کی اشاعت اور قيديوں کے پہلے گروپ کی گوانتاناموبے ميں آمد کے بارے ميں رپورٹ پيش ہے


http://www.miamiherald.com/924/gallery/374784.html?number=0

http://video.ap.org/v/Legacy.aspx?g=d947ebb5-097f-453a-8c8b-577b57f53ab6&fg=copy&f=flmih

http://www.miamiherald.com/guantanamoreports/story/279932.html


اپريل 2002 ميں اس سارے علاقے کے گرد ايک خاردار جنگلہ لگا کر سيکورٹی کا دائرہ کار بڑھا ديا گيا۔ يہی وجہ ہے کہ جن تصاوير کا ذکر کيا جاتا ہے وہ اپريل 2002 سے پہلے کی ہيں۔

اس ويب لنک پر آپ کيمپ ايکس – رے کی موجودہ صورت حال ديکھ سکتے ہيں۔ يہ وہی جگہ ہے جہاں پر يہ تصاوير لی گئ تھيں۔

http://www.jtfgtmo.southcom.mil/vvvintro.html


ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم نے گوانتاناموبے ميں 44 گھنٹے قيام کيا تھا۔ اس دوران ہماری ٹيم نے وہاں پر تصاوير بھی بنائيں اور ويڈيو فلم بھی بنائ اور وہاں پر تعنيات فوجی اہلکاروں سے بات چيت بھی کی اور ان تمام سہوليات کا ازخود مشاہدہ کيا جن کا ذکر ميں نے اپنی پوسٹ ميں کيا تھا۔ اس کے علاوہ عالمی ريڈکراس اور کئ نشرياتی اداروں کی ٹيميں وہاں کے سينکڑوں دورے کر چکی ہيں۔

آپ کی اطلاع کے ليے يہ بتا دوں کہ اس وقت امريکی سپريم کورٹ ( جو کہ امریکہ ميں قانون کا سب سے اعلی ادارہ ہے) سميت بہت سی عدالتوں ميں ايسے کئ کيس زير سماعت ہيں جن کی رو سے ان قيديوں کے قانونی حقوق کا تعين کيا جائے گا۔ اس کے علاوہ اگلے چند ہفتوں ميں امريکی ملٹری ججز گوانتاناموبے کے قيديوں کے خلاف پيش کيے جانے والے مقدموں پر کاروائ کريں گے۔ ان قيديوں کی جانب سےوکيل بھی مقرر کيے جائيں گے۔ اور عدالت کی کاروائ ديکھنے کے ليے غير جانب دار افراد کی ايک ٹيم بھی موجود ہو گی۔

ايک بات اور، ہماری جتنے بھی اہلکاروں سے بات چيت ہوئ ان سب نے اسی خواہش کا اظہار کيا کہ جتنی جلدی ممکن ہو ان قيديوں کے مستقبل کا فيصلہ ہو جانا چاہيے تاکہ اس قيد خانے کو بند کيا جا سکے۔ اس حوالے سے بے شمار آئينی اور قانونی عوامل پر امريکی حکومتی ادارے سرگرم عمل ہيں۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

رسوائے زمانہ امریکی عقوبت خانے میں 774 قیدی موجود ہیں۔جو بقول بش انتظامیہ انتہائی خطرناک دہشت گرد ہیں۔۔اب بش انتظامیہ کی طرف سے 6 قیدیوں کے خلاف عدالتی کاروائی کا فیصلہ کیا گیا ہے۔۔۔جب کہ 744 انتہائی خطرناک دہشت گردوں‌کو بڑی‌رازداری سے رہا کر دیا گیا ہے۔۔۔امریکہ نے اب تک سینکڑوں عام شہریوں‌کی زندگی کے راز چرائے۔۔افغانستان کے جنگجو سرداروں نے بہت سے لوگوں کو امریکہ کے ہاتھ فروخت کیا۔۔۔یہ سب عام شہری تھے جو بدقسمتی سے امریکیی فوج کے ہاتھ لگ گئے۔۔( یہی سب مشرف نے پاکستانیوں کے ساتھ کیا جو اب تک لاپتہ ہیں)

امریکی فوج کی طرف سے افغانستان مین جہازوں کے زریعے پرچیاں گرائی گیئں کہ ایک دہشت گرد کے بدلے 25 ہزار ڈالر انعام دیا جائے گا۔۔اس لیے یہ کہہ سکتے ہیں کہ بش انتظامیہ نے دہشت گرد پکڑے نہں خریدے ہیں۔۔جن 6 دہشت گردوں کے خلاف مقدے کی بات اپ کر رہپے ہیں۔ان میں 2 کم عمر نوجوان ہیں۔۔۔اور ایک ٹیکسی ڈرایئور۔۔یہ دونون نوجوان امریکہ کے خلاف نہیں لڑ رہے تھے بلکے باہمی خانہ جنگی میں ایک دوسرے کے خلاف تھے۔۔۔۔۔یہ بات تو ثابت ہے کہ طالبان نے امریکہ پے حملہ نہیں‌کیا۔۔۔

ٹیکسی ڈرایئور کا بھی سینیئے۔۔۔۔۔۔اس کا قصور صرف اتنا تھا کہ اس کی ٹیکسی میں‌امریکہ کے خیال میں اسامہ نے سفر کیا تھا۔۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کوئی بھی کسی بھی ٹیکسی میں سفر کرتا ہے تو اس میں‌ٹیکسی ڈرایئور کا کیا قصور۔۔؟اگر امریکہ کی نظر میں وہ ٹیکسی ڈرایئور قصور وار ہے تو ان پایئلٹوں کے بارے میں‌کیا خیال ہے جو 9/11 کے واقعے میں ملوث دہشت گردوں کو امریکہ لائے تھے۔اس حساب سے تو وہ سب سے بڑے دہشت گرد امریکی پایئلٹ ہیں۔۔۔

اپ کی سپریم کورٹ کا بھی سنیئں۔۔۔۔۔۔

بش انتظامیہ نے سپریم کورٹ سے کہا ہے کہ گونتا ناموبے میں‌قید دہشت گردوں‌کے خلاف ثبوتوں کا جائزہ لینے والے ججوں کے اختیارات میں‌کمی کی جائے۔۔۔بش انتطامیہ نہیں چاہتی کہ جج ان دہشت گردوں کے‌خلاف جمع کیے گئے بے بنیاد ثبوتوں کی خقیقت جانیئں۔۔۔امریکہ قانون کے تحت تشدد کر کے منوایا جانے والا جرم بے معنی ہوتا ہے۔


فواد‌صاحب یقینا۔۔یہ سب تو غلط معلومات ہوں گی اپ کی نظر میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

شمشاد

لائبریرین
زینب میری بات سنو۔

ایک جگہ پرندوں کو پکڑنے کے لیے دو جال لگے ہوئے تھے۔ تو ایک جال میں ایک کبوتری پھنس گئی اور دوسرے جال میں ایک چیل۔ کبوتری رونے لگی اور چیل بھی رونے لگی۔ کہ شکاری آئے گا، پکڑے گا اور حلال کر کے کھا جائے گا۔ کبوتری کی نظر روتی ہوئی چیل پر پڑی تو وہ اپنا رونا بھول کر چیل سے مخاطب ہوئی کہ میرا رونا تو جائز ہے کہ میرا شکاری آئے گا، مجھے حلال کر کے کھا جائے گا، تم کیوں رو رہی ہو، تم تو حرام ہو، تمہارے جال والا شکاری آئے گا، دیکھے گا کہ حرام پرندہ ہے حلال نہیں کر سکتا اور تمہیں چھوڑ دے گا۔

چیل بولی میں جس کے جال میں پھنسی ہوں وہ ایک مولوی ہے اور اس نے کوئی نہ کوئی فتویٰ دے کر مجھے حلال کر ہی دینا ہے تو میں اس لیے رو رہی ہوں۔

لبِ لباب اس کہانی کا یہ ہے کہ آپ سب امریکہ کو کچھ بھی کہتے رہیں وہ کوئی نہ کوئی فتوی دے کر اس کو امریکہ کی بھلائی ہی ثابت کریں گے۔ امریکہ واحد ایسا ملک ہے جس نے ایٹم بم استعمال کیے وہ جاپان کی بھلائی کے لیے استعمال کئے تھے، جرمنی سے سائنسدان اغوا کروائے، وہ جرمنی کی بھلائی کے لیے تھے۔ ساٹھ کی دہائی میں ویت نام میں سالوں سال لڑائی لڑی، وہ ویت نام کی بھلائی کے لیے تھی، افغانستان اور عراق پر حملے انہی ممالک کی بھلائی کے لیے کئے۔ پوری دنیا میں امریکہ ہی تو ایک واحد ہمدرد اور ساری دنیا کا مخلص ملک ہے۔
 

زینب

محفلین
آپ صیح کیتے ہیں شمشاد بھائی۔۔۔۔۔۔۔۔کوئی پوچھے ان فواد صاحب سے کہ یہ امریکہ کو چھوڑ اپنی بات اگر بتایئں تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عراق جیسے ہنستے بستے ملک کو اجاڑنا ضروری تھا۔۔۔عراقیوں کی جس طرح نسل کشی کی جا رہی وہ ضروری تھی۔۔۔۔یا فلسطین ،کشمیر جیسے پرانے مسلئے حل کرنا ضروری تھا۔۔۔۔۔عراق میں صدام کے دور میں بھی یوں‌ہی خون کے دریا بہتے تھے۔۔۔۔۔کیا یونہی عراقی در بدر تھے جو بھی تھا وہ اس ملک کا حکم تھا عوام کوئی کوئی خاص شکایت نہیں تھی اس سے،۔۔۔اب مشرف کی عوام کے خلاف پالیسیز ہیں تو کیا ہم پاکستانی کسی دوسرے ملک کو حق دیں گے کہ ہمارے ملک پے‌حملہ کر کے مشرف کو مار کے ہمیں بچا لے۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ بات تو 100 طے ہے کہ 9/11 میں کسی مسلمان ملک نا ہاتھ نہیں تھا پھر بھی افغانستان پے یوں بم برسائے گے جیسے کاکروچ مارنے کے لیے پف پاف سپرے کیا جاتا ہے۔۔۔۔کمال ہے اتنا ظلم کب تک ہضم گا امریکہ کو۔۔۔۔۔۔۔۔

اسرایئل خطرناک ملک ہے یا ایران۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟اسرایئل سے مسلمانوں کو سب سے زیادہ خطرہ ہے اور بش بہادر۔۔۔۔۔۔اسرایئل کے خلاف انے والا ہر بل؛ ہر قرارداد ویٹو کر دیتا ہے۔۔۔۔۔کشمیرے میں نصف صدی سے زیادہ ہو گیا انڈیا کے ظلم ستم کو وہاں تو امریکہ کوئی بات نہیں کرتا کھل کے۔کیوں‌کہ وہ مسلمانوں کی آزادی کی جنگ ہے اس لیے۔لبنان کے مقابلے میں اسرایئل مظلوم فلسطین کے مقابلے ًمین اسرایئل معصوم۔۔۔بھلا اپنے دیل پے ہاتھ رکھ کے بتایئں جب اسرایئل ٹینک شہروں میں گھس آتے ہین اور فلسطینی ٹینکوں کا مقابلہ پتھر مار کے کرتے ہین تو کیسا لگتا ہے۔۔۔۔۔۔۔لوگو رہایش پزیر ہوتے ہیں اور اسرایئل بلڈنگز کو بلڈوز کر دیتا ہے لوگوں سمیت تو بھی اسرایئل مظلوم۔۔۔۔۔۔۔۔صدقے جائے بندہ ایسے انصاف کے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

Fawad -

محفلین
Fawad - Digital Outreach Team - US State Department

پانچ قیدی
تین جوتے
پانچ کیاریاں جن میں سے صرف ایک میں پودے نظر آرہے ہیں لگتا ہے وہ بھی اسی دن لگائے گئے جس دن آپ وہاں گئے تھے
ایک کمرا جس میں رہائش کے آثار دکھائی نہیں دے رہے
8 بیڈ جن میں ایک "قیدی" کا سامان بکھرا پڑا ہے کیونکہ ایک صندوق، ایک جائے نماز، ایک بستر رکھا ہے
ایک کلاس روم جہاں قیدیوں کو الف بے اور گنتی سکھائی جاتی ہے وہاں بھی کرسیاں الٹی پڑی ہیں۔
اور حیرت ہے کہ اتنی سہولتوں کے بعد بھی قیدی وہاں سے پاگل ہوکر لوٹتا ہے؟

محترم باسم،

آپ کا مشاہدہ بالکل درست ہے۔ جينيوا کنوينشن کے تحت ہميں اس بات کی اجازت نہيں تھی کہ ہم قيديوں کی تصاوير ليں۔ اگر آپ ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم کی ويڈيو دوبارہ ديکھيں تو اس ميں ہر ممکن کوشش کی گئ ہے کہ کسی قيدی کا چہرہ دکھائ نہ دے۔ اگر آپ ميامی ہيرالڈ ميں شائع ہونے والی تصاوير ديکھيں تو اس ميں بھی کسی قيدی کا چہرہ نہيں دکھايا گيا۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
 

شمشاد

لائبریرین
جينيوا کنوينشن کے اور کن احکامات کی اور کہاں کہاں پابندی کی جاتی ہے۔ کیا عراق میں ہوئی تھی جہاں عراقی قیدیوں کو ننگا کر کے کتوں سے دہشت زدہ کرتے رہے ہیں، کیا اسرائیل میں‌ہوتی ہے جہاں فلسطینیوں کو جانوروں سے بھی بدتر حالت میں رکھتے ہیں، کیا انڈیا میں ہوتی ہے جہاں سے ابھی گزشتہ دنوں کی بات ہے کہ ایک پاکستانی قیدی کی لاش آئی ہے؟
 

Fawad -

محفلین
Fawad - Digital Outreach Team - US State Department

کچھ دوستوں کی جانب سے گوانتاناموبے ميں موجود قيديوں پرلگائے جانے والے الزامات کے حوالے سے سوالات اٹھائے گئے ہيں۔ 11 فروری 2008 کو گوانتاناموبے ميں قيد 6 ملزمان کے خلاف امريکی حکومت کی جانب سے باقاعدہ چارج شيٹ جاری کی گئ جس کی بنياد پر گوانتاناموبے کے قيديوں کے خلاف مقدمے کا آغاز کيا جائے گا۔

يہ چارج شيٹ اس مرحلہ وار قانونی عمل کی پہلی کڑی ہے جس کے تحت گوانتاناموبے ميں موجود تمام قيديوں کے مستقبل کا فيصلہ کيا جائے گا۔

ميں نے اس چارج شيٹ کی کاپی امريکی حکومت کے متعلقہ دفتر سے حاصل کی ہے جو يہاں پيش کر رہا ہوں۔ ميری آپ سے درخواست ہے کہ گوانتاناموبے کے قيديوں کے بارے ميں رائے قائم کرنے سے پہلے اس چارج شيٹ کو ايک دفعہ ضرور پڑھ ليں۔

http://www.mediafire.com/?zvjd2gyxj00

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
 

زینب

محفلین
ہم تو رائے دینے سے پہلے دیکھ لیں چارج شیٹ فواد صاحب پر اپ اگر یہاں صفایئاں دینے ہی آئے ہیں تو سارے سوالات کے جواب دیں اکثر تو اپ گول کر جاتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔اگر اپ ہماری تحقیقات کا جواب ضروری نہیں سمجھتے تو اپ کی چارج شیٹس ہمارے لیے قابل اعتبار کیسے ہو سکتی ہیں ابھی اسی صفحہ پے ہی لیجے کیتنے سوالات اپ ارام سے "ٹال" کے نکل گئے
 

خرم

محفلین
بات صرف اتنی سی ہے کہ کمزور چاہتا ہے کہ طاقتور اس کے ساتھ برابری کا سلوک کرے جو کہ ناممکن ہے۔ طاقت کی اپنی حرکیاتDynamics ہوتی ہیں۔ امریکہ صرف انہی ممالک پر چڑھائی کرتا ہے جن کا معاشرہ انتشار اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتا ہے۔ آپ نا کمزور رہیں، نا بدعنوان ہوں، نا فرقہ فرقہ ہوں، نا ایک دوسرے پر ظلم کریں۔ ایمان، اتحاد اور تنظیم کو حرزِ جان بنائیں تو ایک کیا سو امریکہ بھی آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ ہاں جب آپ خود ہی اپنے دشمن ہیں تو امریکہ ہو، انگریز ہو، ولندیزی ہو غرضیکہ کوئی بھی قوم جو آپ سے زیادہ متحد و منظم ہوگی وہ آپ کی ایسی تیسی کرے گی کہ یہی طاقت کی حرکیات ہیں۔ علامہ نے اسی بات کو کہا تھا کہ

ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات

اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے ساتھ بدسلوکی نہ کی جائے تو اس کا صرف ایک طریقہ ہے۔ اپنی رفتارِ زندگی کو بحیثیتِ قوم درست کیجئے پھر کوئی دہشت گرد کوئی تھانیدار آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ وگرنہ آپ کی فہرست میں نام بڑھتے ہی جائیں گے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
کچھ دوستوں کی جانب سے گوانتاناموبے ميں موجود قيديوں پرلگائے جانے والے الزامات کے حوالے سے سوالات اٹھائے گئے ہيں۔ 11 فروری 2008 کو گوانتاناموبے ميں قيد 6 ملزمان کے خلاف امريکی حکومت کی جانب سے باقاعدہ چارج شيٹ جاری کی گئ جس کی بنياد پر گوانتاناموبے کے قيديوں کے خلاف مقدمے کا آغاز کيا جائے گا۔

يہ چارج شيٹ اس مرحلہ وار قانونی عمل کی پہلی کڑی ہے جس کے تحت گوانتاناموبے ميں موجود تمام قيديوں کے مستقبل کا فيصلہ کيا جائے گا۔

ميں نے اس چارج شيٹ کی کاپی امريکی حکومت کے متعلقہ دفتر سے حاصل کی ہے جو يہاں پيش کر رہا ہوں۔ ميری آپ سے درخواست ہے کہ گوانتاناموبے کے قيديوں کے بارے ميں رائے قائم کرنے سے پہلے اس چارج شيٹ کو ايک دفعہ ضرور پڑھ ليں۔

http://www.mediafire.com/?zvjd2gyxj00

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

میرا خیال ہے کہ ان قیدیوں پر چارج شیٹ کچھ جلدی لگا دی گئی ہے۔ ابھی چند برس مزید انتظار کیا ہوتا؟
 

باسم

محفلین
کچھ دوستوں کی جانب سے گوانتاناموبے ميں موجود قيديوں پرلگائے جانے والے الزامات کے حوالے سے سوالات اٹھائے گئے ہيں۔ 11 فروری 2008 کو گوانتاناموبے ميں قيد 6 ملزمان کے خلاف امريکی حکومت کی جانب سے باقاعدہ چارج شيٹ جاری کی گئ جس کی بنياد پر گوانتاناموبے کے قيديوں کے خلاف مقدمے کا آغاز کيا جائے گا۔

يہ چارج شيٹ اس مرحلہ وار قانونی عمل کی پہلی کڑی ہے جس کے تحت گوانتاناموبے ميں موجود تمام قيديوں کے مستقبل کا فيصلہ کيا جائے گا۔

ميں نے اس چارج شيٹ کی کاپی امريکی حکومت کے متعلقہ دفتر سے حاصل کی ہے جو يہاں پيش کر رہا ہوں۔ ميری آپ سے درخواست ہے کہ گوانتاناموبے کے قيديوں کے بارے ميں رائے قائم کرنے سے پہلے اس چارج شيٹ کو ايک دفعہ ضرور پڑھ ليں۔

http://www.mediafire.com/?zvjd2gyxj00

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

جسے ڈاؤن لوڈ کرنی ہو وہ ذرا ہوشیار رہیں کہیں ایسا نہ ہو راتوں رات غائب ہوجائیں
سنا ہے گوانتاناموبے کا نگراں آج کل پاکستان میں امریکی سفارت خانے کا سیکورٹی چیف ہے ؟
 

Fawad -

محفلین
Fawad - Digital Outreach Team - US State Department

کچھ سوالات ایسے بھی ہیں جنکا جواب فواد سے لینا چاہوں گا
اسرائیل کی پشت پناہی ہر امریکی حکومت کی مجبوری ہے ، کوئی مانے یا نہ مانے ، مگر فلسطینیوں کی نسل کشی میں امریکہ برابر کا مجرم ہے ، امریکہ ہرگز نہیں چاہتا کہ اسرائیل کے برابر میں فلسطینی ریاست بنے ۔ ۔ ۔ اگر بن جائے تو اسرائیل کا مسلہ کیا رہ جائے گا ، وہ کس بنیاد پر امریکی مدد کا طالب ہو گا ؟QUOTE/]

حماس اور مسلہ فلسطين – امريکی موقف

فلسطين کے حوالے سے امريکی حکومت کا موقف بالکل واضح ہے۔ امريکہ جمہوری طريقے سے حماس کی
اليکشن ميں کاميابی اور فلسطينی عوام کی جانب سے ديے جانے والے مينڈيٹ کا احترام کرتا ہے۔ ليکن اليکشن ميں کاميابی جمہوری عمل کا صرف ايک حصہ ہے۔ يہ کيسی منطق ہے کہ آپ جمہوری اصولوں کی بنياد پر ہونے والے انتخابات ميں حصہ تو ليں مگر انتخابات ميں کاميابی کے بعد سارے جمہوری اصول پس پشت ڈال ديں۔ حماس نے فلسطين کے حوالے سے آج تک کسی بھی امن معاہدے يا اس حوالے سے شروع کيے جانے والے کسی بھی عمل ميں شرکت کے ليے آمادگی ظاہرنہيں کی اور نہ ہی آج تک کبھی کسی امن کی کوشش کی حمايت کی ہے ۔ حماس کے نزديک فلسطينی رہنماؤں کی اوسلو معاہدے کے تحت واپسی سے انکار کا عمل درست ہے مگر کيا يہ درست نہيں کہ جن اليکشن ميں حماس نے کاميابی حاصل کی تھی ان کا انعقاد اسی اوسلو معاہدے کے تحت ہوا تھا۔ امريکہ ايسی اسلامی تحريکوں اور تنظيموں کے خلاف نہيں ہے جو جمہوری عمل پر يقين رکھتی ہيں۔ شام اور ترکی ميں ہونے والے حاليہ انتخابات اور اس حوالے سے امريکہ کا کردار اس کا واضح ثبوت ہے۔ حماس نے فلسطينی ليڈروں کو اسرائيلی رہنماؤں سے ملنے کی اجازت تو دی ہے ليکن ان پر پابندی لگائ ہے کہ وہ سياسی امور پر بات چيت نہيں کر سکتے۔ کيا يہ دوہرا معيار نہيں ہے؟

حماس حکومت کا يہ موقف کہ وہ اسرائيل سے بات چيت کيے بغير فلسطين کے عوام کے مفادات کے خواں ہيں، غير حقيقی اور غير منطقی ہے۔ ايک سروے کے مطابق 70 فيصد فلسطينی امن معاہدے کی حمايت کرتے ہيں اور اس کے ذريعے1967ميں شروع ہونے والے اسرائيل کے تسلط کے خاتمے اور ايک آزاد فلسطينی رياست کے قيام کے خواہش مند ہيں۔ ليکن حماس اس حوالے سےبات چيت کے عمل کو شروع کرنے کے ليے تيار نہيں ہے۔ اور صرف اسی بات پر بضد ہے کہ طاقت کے ذريعے اسرائيل کا خاتمہ ہی مسلئے کا واحد حل ہے۔ تشدد پر مبنی يہ پاليسی کئ دہاہيوں سے کوئ مثبت نتائج نہيں حاصل کر سکی۔

حقيقت يہ ہے کہ فلشطين کے مسلئے کےحل کے ليے يہ ضروری ہے کہ دونوں فريقين اپنے موقف سے ہٹ کر سمجھوتے کی راہ تلاش کريں۔ اس کے ليے مذاکرات کی کڑوی گولی جنگ کی تباہ کاريوں سے بحرحال بہتر ہے۔

اس ميں کوئ شک نہيں کہ امريکہ اسرائيل کو اپنا دوست سمجھتا ہے۔ اس حوالے سے ميں ايک وضاحت کر دوں کہ امريکہ ميں يہودی تنظيميں اور مختلف گروپ نظام کے اندر رہتے ہوئے امريکی حکومت کے پاليسی ميکرز اور قانون کے ماہرين کو اپنے موقف سے آگاہ کرتے ہيں اور انہيں قائل کرنے کی کوشش کرتے ہيں۔ ليکن يہ کسی خفيہ سازشی عمل کا حصہ نہيں ہے۔ يہ آزادی تمام سماجی اور مذہبی تنظيميوں کو يکساں حاصل ہے۔ يہ ہی امريکی جمہوری نظام کی سب سے بڑی خوبی ہے۔ اور يہ کوئ ڈھکی چھپی بات نہيں ہے۔ پاکستانی میڈيا ميں اسی بات کو "یہودی لابی کی سازشيں" جيسے ليبل لگا کر ايک دوسرے انداز ميں پيش کيا جاتا ہے۔ اہم بات يہ ہے کہ جن فورمز کو يہودی تنظيميں استعمال کرتی ہيں وہ عرب کے مسلمانوں سميت سب کو ميسر ہيں۔ يہ وہ نقطہ ہے جس پر بعض عرب ليڈر اور حماس جيسی تنظيميں اپنا رول ادا کرنے ميں ناکام رہی ہيں۔ ليکن ميں آپ کو بتاتا چلوں کہ پچھلے کچھ عرصے سے اس صورت حال ميں تبديلی آ رہی ہے۔ امريکہ ميں بہت سی ایسی مسلم اور عرب تنظيميں منظر عام پر آئ ہيں جو فلسطين کے مسلئے کے حل کے ليے يہودی تنظيموں کی طرح اپنا رول ادا کر رہی ہيں۔ اور اس کے نتائج سامنے آنا شروع ہو گئے ہيں۔

موجودہ امريکی صدر بش وہ پہلے امريکی صدر ہيں جنھوں نے ايک آزاد فلسطينی رياست کے قيام اور اسرائيلی تسلط کے خاتمے کے موقف کو سرکاری سطح پر تسليم کر کے اسے امريکی خارجہ پاليسی کا حصہ بنايا ہے اور اس حوالے سے عملی کوششيں بھی شروع کر دی ہيں۔ حال ہی ميں امريکی شہر ايناپوليس ميں ہونے والی کانفرنس جس ميں بے شمار عرب رہنماؤں نے شرکت کی، اس سلسلے کی ايک اہم کاميابی ہے۔ اس کانفرنس کا انعقاد ايک سال کی انتھک سفارتی کوششوں کے نتيجے ميں عمل ميں آيا۔ اسی طرح دسمبر 2007 ميں ہونے والی پيرس کانفرنس بھی ايک اہم سنگ ميل تھا جس ميں فلسطينی رياست کے قيام کےعمل کے ليے 7 بلين ڈالرز کی امداد جمع کی گئ جو کہ فلسطينی ليڈرشپ کی جانب سے کی جانے والی امداد کی درخواست سے کہيں زيادہ تھی۔صدر بش يہ واضح کر چکے ہيں کہ وہ 2008 کے آخر تک ايک آزاد فلسطينی رياست کے قيام کا خواب سچ ہوتا ديکھنا چاہتے ہيں۔

جہاں تک امريکہ کی جانب سے اسرائيل کی حمايت کا سوال ہے تو اس حوالے سے تو پاکستانی ميڈيا ميں بہت کچھ لکھا اور کہا جاتا ہے۔ ليکن تصوير کا دوسرا رخ بھی ہے۔ مثال کے طور پر حال ہی ميں جب اسرائيلی حکومت نے ابو غنام کے علاقے ميں اسرائيلی شہريوں کی آباد کاری کے منصوبے کا اعلان کيا تو امريکی سيکريٹری آف اسٹيٹ کونڈوليزا رائس نے امريکی موقف کے حوالے سے يہ بيان ديا

"ہم جس دور سے گزر رہے ہيں اس کا تقاضا ہے کہ دونوں فريقين کے درميان اعتماد کی بہترين فضا قائم کی جائے۔ اسرائيل کا يہ قدم فريقين کے درميان تعلقات کو نقصان پہنچائے گا۔ ايسا کوئ عمل نہيں ہونا چاہيے جو فريقين کے درميان بات چيت کے عمل کو سبوتاز کرے۔ خاص طور پر ان حالات ميں جب کہ ہم بات چيت کے ايک نئے دور کا آغاز کرنے جا رہے ہيں۔ ہم نے اس حوالے سے اسرائيل کی حکومت پر اپنی پوزيشن واضح کر دی ہے۔"

کونڈوليزا رائس ہی سے منسوب ايک حاليہ بيان پيش ہے

"امريکہ ايک آزاد فلسطينی رياست کے ذريعے فلسطين کے عوام کو انٹرنيشنل کميونٹی کا حصہ ديکھنا چاہتا ہے اور اس حوالے سے امريکہ فلسطين کو عالمی معيشت کا حصہ بنانے کے ليے ہر ممکن مدد کرے گا"۔

صدر بش يہ واضح الفاظ ميں کہ چکے ہيں کا اس مسلے کے حل کے ليے اسرائيلی تسلط کا خاتمہ انتہائ ضروری ہے۔ اس حوالے سے اقوام متحدہ کی قراردادوں 242 اور 338 کی بنياد پر فلسطين کے مسلئے کے حل کے ليے امريکہ اپنی کوششيں جاری رکھے گا۔ 1988 ميں پی – ايل – او نے سلامتی کونسل کی ان قراردوں کی بنياد پر ايک آزاد فلسطينی رياست کے قيام کی مکمل حمايت کی تھی۔

صدر بش کا ايک حاليہ بيان پيش ہے۔

"ايک آزاد فلسطينی رياست کے قيام کا نظريہ بالکل واضح ہے۔ 1967 سے جن علاقوں پر تسلط قائم کيا گيا ہے اس کا خاتمہ انتہائ ضروری ہے۔ ايک آزاد فلسطينی رياست کا قيام بہت پہلے ہو جانا چاہيے تھا۔ يہ فلسطين کے عوام کا حق ہے"۔

ايک آزاد فلسطينی رياست کے قيام کے ليے موجودہ امريکی حکومت کی کوششيں ايک مسلمہ حقيقت ہے اور 2008 کے اختتام تک اس منزل کا حصول صدر بش کی خارجہ پاليسی کا حصہ ہے۔ حال ہی ميں امريکی کوششوں سے کوسوو ميں ايک مسلم حکومت کا قيام اس بات کا ثبوت ہے کہ يہ خواب حقيقت کا روپ دھار سکتا ہے۔ ليکن اس کے ليے ضروری ہے کہ دونوں فريقين ايناپولس کانفرنس سے شروع ہونے والے بات چيت کے عمل کو جاری رکھيں اور ماضی کی غلطياں نہ دہرائيں جب امن کے بہت سے حقيقی مواقع پر تشدد کاروائيوں کے سبب ضائع ہو گئے۔

انناپولس کانفرنس کے اختتام پرکونڈوليزا رائس کا بيان پيش خدمت ہے۔

"Annapolis was the culmination of a patient and painstaking diplomacy of almost a year. The negotiating teams have now held their first meeting. And in the year to come, the President and I will actively facilitate and support these negotiations. We will look for ways to engage positively and support the parties in turning their discussions into substantive agreement. And building on the recent Paris Donors Conference, we will continue to support President Abbas's efforts to build an effective democratic state.”

آخر ميں صدر بش کے اسٹيٹ آف يونين سے آخری خطاب سے ايک اقتتباس

“This month in Ramallah and Jerusalem, I assured leaders from both sides that America will do, and I will do, everything we can to help them achieve a peace agreement that defines a Palestinian state by the end of this year”.


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

http://usinfo.state.gov
 
عجیب دھشت گرد لوگ ہیں ہر وقت دھشت گردی کرنا چاہتے ہیں۔ مفروضوں‌پر دنیا تباہ کیے دے رہے ہیں۔
1100393283-1.gif

ایکسپرس
 
میں نے یہ بحث خود دیکھی تھی۔ ہیلری کے جملے مختلف تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل امریکہ کے لئے اس خطے میں ایک اہم حیثیت رکھتا ہے۔ اسرائیل پر کسی بھی ایٹمی حملہ کا زبردست جواب دیا جائے گا۔ ایک اور الگ سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ایران کی ایٹمی صلاحیت حاصل کرنے کی خواہش اس علاقہ میں طاقت کے توازن کو درہم برہم کردے گی اور اسرائیل ہی نہیں ، اس علاقہ میں امریکہ کے کسی بھی حلیف پر حملہ کی صورت میں امریکہ خاموش نہیں بیٹھے گا۔ ان نپے تلوں‌الفاظ سے ممکنہ مقصد کیا ایران کو تنبیہہ کرنا تھا؟؟؟ ممکن ہے۔

اس رپورٹر کی انگرجی (‌انگریزی) ذرا کمزور ہے۔
 
میں نے یہ بحث خود دیکھی تھی۔ ہیلری کے جملے مختلف تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل امریکہ کے لئے اس خطے میں ایک اہم حیثیت رکھتا ہے۔ اسرائیل پر کسی بھی ایٹمی حملہ کا زبردست جواب دیا جائے گا۔ ایک اور الگ سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ایران کی ایٹمی صلاحیت حاصل کرنے کی خواہش اس علاقہ میں طاقت کے توازن کو درہم برہم کردے گی اور اسرائیل ہی نہیں ، اس علاقہ میں امریکہ کے کسی بھی حلیف پر حملہ کی صورت میں امریکہ خاموش نہیں بیٹھے گا۔ ان نپے تلوں‌الفاظ سے ممکنہ مقصد کیا ایران کو تنبیہہ کرنا تھا؟؟؟ ممکن ہے۔

اس رپورٹر کی انگرجی (‌انگریزی) ذرا کمزور ہے۔

رپورٹر کی شاید انگریزی کمزور ہو جو بری بات نہیں۔ بری بات تو یہ ہے کہ ان دھشت گردوں‌کی نیت ہی خراب ہے ۔ ایک کے بعد ایک ملک پر حملے کرکے لوگوں کو قتل کررہے ہیں۔ کبھی ویت نام، کبھی افغانستان، کبھی عراق کبھی یہ کبھی وہ۔مجھے تو ان کے لیڈر بھی خونی لگتے ہیں۔
 

باسم

محفلین
افغانستان میں امریکی بمباری سے متاثرہ علاقوں میں معذور بچوں کی پیدائش
کابل (جنگ نیوز) افغانستان پر 2001ء میں امریکی جارحیت کے بعد جنگ سے متاثرہ علاقوں میں معذور بچوں کی پیدائش کا انکشاف ہوا ہے۔ محکمہ صحت کے ٹیکنیکل امور کے افسر فیض اللہ کاکڑ نے بتایا کہ 2001ء میں افغانستان پر امریکی فوج کے حملے کے دوران جن علاقوں کو بمباری کا نشانہ بنایا گیا تھا، وہاں سے جسمانی ساخت میں بگاڑ کے حامل بچوں کی پیدائش کی اطلاعات مل رہی ہیں، جس کے بعد حکومت واقعات کی فوری تحقیقات کا فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ جن علاقوں میں جنگ لڑی گئی وہاں کی مٹی، پتھر اور پانی کے سیمپل حاصل کر کے لیبارٹری تجزیہ کرائیں گے تاکہ اس بات کا پتہ چلایا جا سکے کہ کہیں امریکہ کی جانب سے طالبان پر بمباری کے دوران ان کو ہلاک کرنے کیلئے یورینیم تو استعمال نہیں کیا تھا۔ انہوں نے کہاکہ جنگ سے متاثرہ علاقوں میں جسمانی بگاڑ والے بچوں کا ڈیٹا بھی اکٹھا کیا جائے گا تاکہ حقیقت کا پتہ چلایا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ امریکی حکومت نے افغان جنگ کے دوران کسی قسم کے کیمیائی ہتھیار کے استعمال سے انکار کیا ہے تاہم ایک نامعلوم امریکی ماہر نے اس بات کی تصدیق کی تھی کہ امریکہ نے جنگ کے دوران یورینیم پر مشتمل اسلحہ استعمال کیا تھا
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department




افغانستان میں يورينيم کے استعمال کے حوالے سے پہلے بھی الزامات لگائے گئے ليکن ڈيپليٹڈ يورينيم، اس کی "تباہ کاری" اور انسانی صحت پر اس کے اثرات کے حوالے سے کی جانی والی سائنسی تحقيق سے يہ الزامات بے بنياد ثابت ہوئے۔

ڈيپليٹڈ يورينيم جس کے استعمال کا الزام لگايا گيا ہے، اسکی ہالف لائف 4.5 بلين سال ہے۔ يورينيم کی ہاف لائف جتنی زيادہ ہوتی ہے وہ اتنی ہی پائيدار ہوتی ہے اور اس ميں موجود ايٹمی مواد اتنا ہی بے ضرر ہوتا ہے۔ ڈيپليٹڈ يورينيم ميں 8۔99 فيصد يورينيم 238 استعمال ہوتا ہے جسکی ہاف لائف 4.5 بلين سال ہے جو کہ ايٹمی اثرات کے حوالے سے بے ضرر ہے۔ اس کے مقابلے ميں جو عنصر انسانی آبادی کے ليے نقصان دہ ہے وہ ريڈان کہلاتا ہے جس کی ڈيپليٹڈ يورينيم کی 4.5 بلين کی ہاف لائف کے مقابلے ميں صرف 8۔3 دن کی ہاف لائف ہے۔ اسی عنصر سے تيار کردہ کچھ دوسرے عناصر جو ايٹمی تباہکاری کے ہتھياروں ميں استعمال ہوتے ہيں، ان کی ہاف لائف 3 سے 27 منٹ کے درميان ہوتی ہے۔ سٹرونيم 90 جو کہ نيوکلر تباہکاری کے ضمن میں سب سے خطرناک عنصر تسليم کيا جاتا ہے اسکی ہاف لائف 28 سال ہوتی ہے۔

بے شمار غير جانبدار تنظيموں کی جانب سے ڈيپليٹڈ يورينيم کے حوالے سے الزامات کی تحقيقات کرائ جا چکی ہے۔

يہاں پر يہ بھی واضح کر دوں کہ ايٹمی ہتھياروں کے استعمال ميں نيچرل يورينيم کا استعمال کيا جاتا ہے جس کے دو عناصر يو – 235 اور يو 234 اصل تباہکاری کا موجب بنتے ہيں۔ ليکن اگر ان دونوں کو نکال ديا جائے تو وہ نیچرل يورينيم اب ڈيپليٹڈ يورينيم کہلاتا ہے۔ نيجرل يورينيم کی کچھ مقدار ہماری ہورا ميں بھی شامل ہوتی ہے جس ميں ہم سانس ليتے ہيں۔ ڈيپليٹڈ يورينيم، ہوا میں موجود نيچرل يورينيم کے مقابلے ميں بھی 40 فيصد کم نقصان دہ ہوتی ہے۔

مارچ 2001 ميں ورلڈ ہيلتھ آرگانائزيشن کی ايک رپورٹ کے مطابق

" ڈيپليٹڈ يورينيم کے اثرات سے ليکيوميا سميت کسی بھی کينسر کے پھيلنے کے کوئ شواہد نہيں ملے"

مارچ 2001 ميں ہی يورپين کميشن کی رپورٹ کے مطابق

" ڈيپليٹڈ يورينيم کے انسانی صحت پر کوئ مضر اثرات مرتب نہیں ہوتے"

جنوری 2001 ميں نيٹو کی رپورٹ کے مطابق

" ڈيپليٹڈ يورينيم اور کسی بھی قسم کے کينسر کے درميان کوئ تعلق ثابت نہيں ہو سکا"

اسی طرح 1999 ميں رانڈ نامی کارپوريشن نے ڈيپليٹڈ يورينيم پر ايک تفصيلی تحقيقی مقالہ لکھا جس کے مطابق

"انتہائ مقدار ميں ڈيپليٹڈ يورينيم کے انسانی جسم ميں داخل ہونے کے باوجود اس بات کا کوئ ثبوت نہيں ملا کہ ڈيپليٹڈ يورينيم کسی بھی اعتبار سے انسانی جسم کے ليے نقصان دہ ہے"۔

1991 کی گلف وار ميں 20 امريکی فوجی اس وقت شديد زخمی ہو گئے جب ان کی بکتر بند گاڑيوں پر ڈيپليٹڈ يورينيم سے ليس شيلوں کے ذريعے حملہ کيا گيا۔ ان ميں کچھ فوجيوں کے جسموں میں 20 ملی مٹر کے برابر شيل کے ٹکڑے اب تک موجود ہيں۔ ان فوجيوں کی طبی معائنے سے يہ بات ثابت تھی کہ ان کے جسموں ميں ڈيپليٹڈ يورينيم کی بڑی مقدار داخل ہو چکی تھی ليکن اس کے باوجود ان ميں کوئ بھی فوجی نہ تو کسی قسم کے کينسر کا شکار ہوا اور نہ ہی کسی اور جسمانی بيماری کا شکار ہوا۔ ان ميں کسی فوجی کے ہاں جسمانی بگاڑ کے شکار بچوں کی پيدائش کا بھی کوئ واقعہ رونما نہیں ہوا۔

آپ نے جس خبر کا حوالہ ديا ہے اس ميں "نا معلوم امريکی ماہر" کی اصطلاح استعمال کر کے اس سنگين الزام کی کسی بھی قسم کی سائنسی تحقيق کی ضرورت ہی ختم کر دی گئ ہے ليکن ميری رائے جن ماہرين کی تحق‍يق پر مبنی ہے، ان کے کوائف ذيل ميں ہيں۔

• Eric Daxon, certified health physicist with a PhD in Radiation Hygience, Senior Medical Planner at the Battelle Memorial Institute and former consultant on Depleted Uranium to the US Army Surgeon General.

• Michael E. Kilpatrick, M.D., Deputy Director of the U.S. Defense Department’s Deployment Health Support Directorate and a leading expert on the health effects of depleted uranium.

• Naomi Harley, PhD., research professor at New York University's School
of Medicine, and senior author of a RAND study on Depleted Uranium.

• Raymond Guilmette, Ph.D., Team Leader for Radiological Dose Assessments at Los Alamos National Laboratory.
.
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

http://usinfo.state.gov
 

باسم

محفلین
اتنا تو ثابت ہوا کہ "ڈيپليٹڈ يورينيم" افغانستان میں امریکہ نے استعمال کیا ہے
 
Top