عالمی دھشت گرد: امریکہ

اس وقت بھی ایگری منٹ اور معاہدوں کے تحت امریکی فوج عراق میں موجود ہے۔ معاہدوں کے تحت لائی گئی اس امریکی افواج کا رتبہ و دبدبہ قابض امریکی فوجوں سے بھی بڑھ کر ہے ان موت کے سوداگروں پر کثیر سرمایہ خرچ کیا جا رہا ہے۔ بلاشبہ ان پر خرچ کی جانے والی رقم عراق ہی کی دولت ہے جو یہاں کے باشندوں کی نظروں کے سامنے لوٹی گئی اور لوٹی جا رہی ہے اور کسی کے بس میں نہیں کہ ان مجرمانہ کارروائیوں کو روک سکے۔ یہی وجہ ہے کہ ملکی محافظ خود بھی اس لوٹ مار میں شامل ہوگئے ہیں۔ معاہدوں کے تحت لائے گئے فوجی سیکورٹی اور موت کے ٹھیکے دار ہیں جن کے سکینڈلوں اور بدعنوانیوں کی بدبو پورے عراق میں پھیلی ہوئی ہے اور ہر کوئی ان کے جرائم سے بخوبی واقف ہے۔ اگر کوئی واقف نہیں تو امریکی وزارت دفاع ہے۔ بعض امریکی تجزیہ نگاروں نے امریکی حکومت کو انتباہ کیا ہے کہ اگر عراق میں امریکی کوششیں ناکام ہوگئیں تو بڑھتی ہوئی بے روزگاری عراق کی آئندہ نسل کے نوجوانوں کو جہاد میں شمولیت پر غور کرسکتی ہے اور اگر ایسا ہوا تو امریکہ اور مغرب کو لگ بھگ 50 لاکھ (جی ہاں 50 لاکھ) ”نوجوان دہشت گردوں“ کی فوج سے سامنا کرنا پڑے گا، اس وقت 52 فیصد عراقیوں کو بے روزگاری کا سامنا ہے۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ جہاں دنیا میں دہشت گردی، انتہا پسندی، عسکریت پسندی، خودکش حملے اور غیر یقینی صورت حال کا چلن ہے اس کو تقویبت اور جاری و ساری رکھنے کے لئے پختگی کہاں سے حاصل ہوتی ہے؟ مزید
 
Top