عالمی دھشت گرد: امریکہ

عثمان

محفلین
ريمنڈ ڈيوس کی رہائ کے بعد جو تجزيہ نگار اور رائے دہندگان امريکہ کو اپنی شديد تنقید کا نشانہ بنا رہے ہيں وہ اس کيس کے حوالے سے حقائق کو نظرانداز کر رہے ہيں۔ اس کيس کا فيصلہ پاکستانی نظام قانون کے مطابق سفارتی استثنی سے متعلق سوالات کے حوالے سے سرکاری حقائق پر پہنچے بغير کيا گيا ہے۔ اگر بعض مبصرين کی رائے کے مطابق امريکی حکومت کا اس تمام تر کاروائ میں فیصلہ کن اثر ہوتا تو ان کی رہائ سفارتی استثنی سے متعلق عالمی قوانین ميں مختص کيے گيے ضوابط کے مطابق ہو جاتی۔

ہم سب جانتے ہیں کہ ايسا نہیں ہوا۔

اس کيس کا فيصلہ پاکستانی قانون کے عين مطابق اور پاکستانی خودمختاری سے متعلق احترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے کيا گيا۔

ہم سمجھتے ہيں کہ اس کيس کی حوالے سے بہت رنج اور غصے کے جذبات پائے جاتے ہيں اور ہم پاکستان کی عوام کے ساتھ مل کر امن اور شراکت داری کے حصول کے ليے مل کر کام کرنے کے لیے پرعزم ہيں۔

امريکی حکومت نے واضح کر ديا ہے کہ متعين طريقہ کار کے مطابق ڈيپارٹمنٹ آف جسٹس نے لاہور ميں پيش آنے والے واقعے کے حوالے سے تفتيش کا آغاز کر ديا ہے۔
امريکہ اور پاکستان دوست تھے اور رہيں گے۔ ہم پاکستان اور امريکہ کے مابين تعلق کو اسٹريجيک بنيادوں پر اہميت ديتے ہيں۔ ہم اس تعلق کو باہم احترام اور مشترکہ مفادات کی بنياد پر مستحکم کرنے کے ليے کوشاں ہيں۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall

جو جی میں آئے کہو بادشاہو۔ ہم نے کیا کر لینا ہے۔ :(

مایوس ٹیم - بے غیرت ڈیپارٹمنٹ
 

سویدا

محفلین
واضح رہے کہ مجرم ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کا فیصلہ پاکستانی عدالت کے فیصلے اور حکومت پاکستان کے ایما پر ہوا ہے اس لیے اس میں امریکہ کا کوئی قصور نہیں۔
 

غیاث

محفلین
ريمنڈ ڈيوس کی رہائ کے بعد جو تجزيہ نگار اور رائے دہندگان امريکہ کو اپنی شديد تنقید کا نشانہ بنا رہے ہيں وہ اس کيس کے حوالے سے حقائق کو نظرانداز کر رہے ہيں۔ اس کيس کا فيصلہ پاکستانی نظام قانون کے مطابق سفارتی استثنی سے متعلق سوالات کے حوالے سے سرکاری حقائق پر پہنچے بغير کيا گيا ہے۔ اگر بعض مبصرين کی رائے کے مطابق امريکی حکومت کا اس تمام تر کاروائ میں فیصلہ کن اثر ہوتا تو ان کی رہائ سفارتی استثنی سے متعلق عالمی قوانین ميں مختص کيے گيے ضوابط کے مطابق ہو جاتی۔

ہم سب جانتے ہیں کہ ايسا نہیں ہوا۔

اس کيس کا فيصلہ پاکستانی قانون کے عين مطابق اور پاکستانی خودمختاری سے متعلق احترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے کيا گيا۔

ہم سمجھتے ہيں کہ اس کيس کی حوالے سے بہت رنج اور غصے کے جذبات پائے جاتے ہيں اور ہم پاکستان کی عوام کے ساتھ مل کر امن اور شراکت داری کے حصول کے ليے مل کر کام کرنے کے لیے پرعزم ہيں۔

امريکی حکومت نے واضح کر ديا ہے کہ متعين طريقہ کار کے مطابق ڈيپارٹمنٹ آف جسٹس نے لاہور ميں پيش آنے والے واقعے کے حوالے سے تفتيش کا آغاز کر ديا ہے۔
امريکہ اور پاکستان دوست تھے اور رہيں گے۔ ہم پاکستان اور امريکہ کے مابين تعلق کو اسٹريجيک بنيادوں پر اہميت ديتے ہيں۔ ہم اس تعلق کو باہم احترام اور مشترکہ مفادات کی بنياد پر مستحکم کرنے کے ليے کوشاں ہيں۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall

ابھی ہم نے تبدیلی کا تہیہ نہیں کیا جب امت مسلمہ امریکہ کے زر خرید غلاموں سے نجات کے لیے تیار ہو جائیگی تو دیر نہیں لگے گی۔ یہ بھی یاد رکھیں مکافات عمل اتا ہے مگر بتا کر نہیں آتا ۔ ہمرے ملک کے حالات اس عوام کے اپنے ہاتھوں کے تخلیق کردہ ہیں۔ لہذا حالات ایسے بن رہے ہیں کہ ان حکمرانوں کو انجات کا راستہ نہیں ملےگا۔
امریکہ کی خدائی بھی ختم ہونیوالی ہے۔
 

غیاث

محفلین
واضح رہے کہ مجرم ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کا فیصلہ پاکستانی عدالت کے فیصلے اور حکومت پاکستان کے ایما پر ہوا ہے اس لیے اس میں امریکہ کا کوئی قصور نہیں۔

بے غیرت قوموں کی غلام عدالتوں کے فیصلے اسیے ہی ہوتے ہیں۔ باقی سارے تبصرے بیکار ۔
 

فرخ

محفلین
فواد صاحب
آپ اپنے جھوٹ کو اب کافی خوبصورتی سے چھپا رہے ہیں اور آپ کا حق بھی ہے، کیونکہ ہمارے ہاں آپ کے آگے کتوں کی طرح دم ہلانے والوں کی کمی نہیں ۔

آپ کا امریکہ افغان جنگ سے پہلے کبھی ہمارا دوست نہیں تھا، مگر اپنے ذاتی مفادات پر گرگٹ کی طرح رنگ بدلتا نظر آتا ہے۔

ریمنڈ کو سفارتی استثنیٰ تو خیر کبھی بھی حاصل نہیں تھی اور یہ آج تک آپ اور آپ کا امریکہ ثابت نہیں کرسکا۔ یہاں تک کہ آپ کے صدر بھی آپکے اس جھوٹ کر بڑھا چڑھا کر بیان کرتے ہیں

اور ریمنڈ کے ویزے اور سفارتی دستاویزات کو کس کس طرح سے تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی، یہ ایک الگ کہانی ہے۔۔

مگر یہ فرمائیے گا، کہ وہ ڈرائیور جس نےعباد الرحمٰن کو کچلا تھا، وہ آپ ہمیں کب دے رہے ہیں؟ اور اسے کونسے استثنیٰ کے تحت آپ نے فرار کروایا تھا، اور کیوں پولیس سے تعاون نہیں کیا گیا؟

ہمارے لوگوں کو بےبنیاد طریقے قتل کر کے، امریکہ کونسی دوستی کا ثبوت دے رہا ہے، یہ ہر باشعور انسان جانتا ہے

بغل میں چھری اور منہ میں رام رام والا محاورہ ہے تو پرانا، مگر درست ہے۔۔۔


ريمنڈ ڈيوس کی رہائ کے بعد جو تجزيہ نگار اور رائے دہندگان امريکہ کو اپنی شديد تنقید کا نشانہ بنا رہے ہيں وہ اس کيس کے حوالے سے حقائق کو نظرانداز کر رہے ہيں۔ اس کيس کا فيصلہ پاکستانی نظام قانون کے مطابق سفارتی استثنی سے متعلق سوالات کے حوالے سے سرکاری حقائق پر پہنچے بغير کيا گيا ہے۔ اگر بعض مبصرين کی رائے کے مطابق امريکی حکومت کا اس تمام تر کاروائ میں فیصلہ کن اثر ہوتا تو ان کی رہائ سفارتی استثنی سے متعلق عالمی قوانین ميں مختص کيے گيے ضوابط کے مطابق ہو جاتی۔

ہم سب جانتے ہیں کہ ايسا نہیں ہوا۔

اس کيس کا فيصلہ پاکستانی قانون کے عين مطابق اور پاکستانی خودمختاری سے متعلق احترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے کيا گيا۔

ہم سمجھتے ہيں کہ اس کيس کی حوالے سے بہت رنج اور غصے کے جذبات پائے جاتے ہيں اور ہم پاکستان کی عوام کے ساتھ مل کر امن اور شراکت داری کے حصول کے ليے مل کر کام کرنے کے لیے پرعزم ہيں۔

امريکی حکومت نے واضح کر ديا ہے کہ متعين طريقہ کار کے مطابق ڈيپارٹمنٹ آف جسٹس نے لاہور ميں پيش آنے والے واقعے کے حوالے سے تفتيش کا آغاز کر ديا ہے۔
امريکہ اور پاکستان دوست تھے اور رہيں گے۔ ہم پاکستان اور امريکہ کے مابين تعلق کو اسٹريجيک بنيادوں پر اہميت ديتے ہيں۔ ہم اس تعلق کو باہم احترام اور مشترکہ مفادات کی بنياد پر مستحکم کرنے کے ليے کوشاں ہيں۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall
 

فرخ

محفلین
وہ انتظار کر رہے ہیں کہ اس معاملے پر قوم کے حکمران مزید کوئی بے غیرتی دکھائیں، کوئی ڈیل وغیرہ ہو، تو وہ شکریہ ادا کرنے کے ساتھ ساتھ پھر جواب دیں گے کہ یہ مسئلہ بھی حل ہوا۔۔۔

یہ سوال تو میں پوچھ پوچھ کر تھک گیا ہوں اور فواد ہیں کہ اس طرف آتے ہی نہیں۔
 

سویدا

محفلین
عوام کا ضمیر آخر کب جاگے گا !
محض حکمرانوں اور امریکہ کو گالیاں دینے سے قسمت نہیں بدل سکتی
 

زرقا مفتی

محفلین
السلام علیکم
جب تک مسلمان متحد ہو کر اپنے حقوق کے لئے آواز نہیں اُٹھاتے امریکہ اپنی من مانیاں کرتا رہے گا۔ عراق کے بعد لیبیا کی شامت آ گئی ہے۔
یقینا فواد صاحب یہی کہیں گے کہ قذافی کی گولیوں سے انسان مر رہے تھے اس لئے امریکہ ان کی امداد کو گیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا امریکہ ایسے بم برسا رہا ہے جو صرف اسلحے کو تباہ کرتے ہیں کیا لیبیا میں مداخلت کا امریکہ کے پاس کوئی جواز ہے۔
بحرین میں باغیوں کی بیخ کنی کی حمایت او لیبیا میں نو فلائی زون

والسلام
زرقا
 
یہ اقتباس کئی سال پہلے لکھا تھا
پڑھتا جا شرماتا جا


عالمی دھشت گرد اب پاکستان میں‌دھشت گردی کا بازارگرم کرنا چاہتا ہے۔ پاکستانیوں‌کو متحد ہوکرمقابلہ کرنا پڑے گا۔ اپنے تمام معاملوں‌کو اس تناظر میں‌دیکھنے کی ضرورت ہے کہ بالاخر امریکہ پاکستان کی سرعت انگیز تباہ کن حملہ کہ صلاحیت کو چھین لینا چاہتا ہے تاکہ بے دست و پا کرکے فائدہ اٹھاتا رہے۔
عالمی دھشت گرد اب پاکستان میں‌دھشت گردی کا بازارگرم کرنا چاہتا ہے۔ پاکستانیوں‌کو متحد ہوکرمقابلہ کرنا پڑے گا۔ اپنے تمام معاملوں‌کو اس تناظر میں‌دیکھنے کی ضرورت ہے کہ بالاخر امریکہ پاکستان کی سرعت انگیز تباہ کن حملہ کہ صلاحیت کو چھین لینا چاہتا ہے تاکہ بے دست و پا کرکے فائدہ اٹھاتا رہے۔
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

دہشت گردوں کی جانب سے بارہا عوامی سطح پر اپنے واضح پيغام اور غير متزلزل عزم ميں اس بات کا اظہار کيا گيا ہے کہ پاکستان کی رياست، فوج اور حکومت پر تواتر کے ساتھ حملے کيے جائيں گے۔ اس کے باوجود حيران کن طور پر کچھ رائے دہندگان انھی پرانی گھسی پٹی کہانيوں کو دہراتے رہتے ہيں جن کے مطابق امريکہ مبينہ طور پر پاکستان کے ايٹمی اثاثوں پر قبضے کا خواہش مند ہے۔

پاکستان حاليہ برسوں ميں ايٹمی قوت نہيں بنا ہے۔ سال 1998 میں پاکستان کی جانب سے ايٹمی دھماکے کے بعد امريکہ حکومت نے خطے میں استحکام اور پاکستان کی ايجينسيوں کی اپنے ايٹمی ہتھياروں سميت اہم قومی اثاثوں کی حفاظت کے ضمن میں صلاحيتوں ميں اضافے کے ليے کئ بلين ڈالرز فراہم کيے ہیں۔ اس کے برعکس اسی ٹائم فريم کے دوران ملک کے طول وعرض میں دہشت گرد تنظيموں کی خونی کاروائياں سے ايک تنقیدی موازنہ يہ حقيقت واضح کر ديتا ہے کہ پاکستان کے عوام کا اصل دشمن کون ہے۔

امريکی حکومت پاکستان سميت دنيا کے کسی بھی ملک کے ايٹمی ہتھياروں پر قبضہ کرنے کا کوئ ارادہ نہيں رکھتی۔ اس الزام کا کوئ ثبوت موجود نہیں ہے۔ يہ کوئ خفيہ بات نہيں ہے کہ امريکی حکومت نے بشمول عالمی برادری کے عوامی سطح پر اس حوالے سے تحفظات اور خدشات کا اظہار کيا ہے کہ ايٹمی ثيکنالوجی دہشت گردوں کے ہاتھوں ميں نہ چلی جائے۔ ان خدشات کی بنياد القائدہ کی قيادت کی جانب سے يہ واضح ارادہ اور کوشش ہے کہ وسيع بنيادوں پر تباہی کرنے والے ہتھياروں تک رسائ حاصل کی جائے۔ ايسی صورت حال کے وقوع پذير ہونے کی صورت ميں پاکستان سميت تمام دنيا کے ممالک کے ليے خوفناک نتائج سامنے آئيں گے۔

عوامی سطح پر ان خدشات کا اظہار اور اپنے اتحاديوں کے ساتھ سفارتی سطح پر اس ضمن ميں خيالات اور حکمت عملی کے تبادلے کے عمل کو کسی بھی صورت ميں پاکستان کے ايٹمی ہتھياروں پر امريکی قبضے کی دھمکيوں سے تعبير نہيں کيا جا سکتا ہے۔ صدر اوبامہ نے بذات خود اس بات کو واضح کيا ہے کہ حکومت پاکستان ہی پاکستان کے ايٹمی ہتھياروں کی حفاظت کے ليے ذمہ دار ہے۔

ميں يہ بھی اضافہ کرنا چاہوں گا کہ امريکی حکومت پاکستان کی حکومت اور عسکری قيادت کے ساتھ مل کر باہم اہميت کے بہت سے معاملات پر کام کر رہی ہے جن ميں جديد ہتھياروں کی فراہمی، اسلحہ اور پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی صلاحيتوں ميں اضافے کے لیے تکنيکی مہارت کی دستيابی بھی شامل ہے۔ اگر امریکی حکومت کا مقصد اور ارادہ پاکستان کے دفاع کو کمزور کرنا ہوتا تو وسائل کی يہ شراکت ممکن نہ ہوتی۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall
 
پاکستان حاليہ برسوں ميں ايٹمی قوت نہيں بنا ہے۔ سال 1998 میں پاکستان کی جانب سے ايٹمی دھماکے کے بعد امريکہ حکومت نے خطے میں استحکام اور پاکستان کی ايجينسيوں کی اپنے ايٹمی ہتھياروں سميت اہم قومی اثاثوں کی حفاظت کے ضمن میں صلاحيتوں ميں اضافے کے ليے کئ بلين ڈالرز فراہم کيے ہیں۔
اس لیے تو 911 کا بہانہ بنا کر سب کچھ کیا
جنرل حمید گل فرماتے ہیں امریکہ کا ٹھکانہ افعانستان ہے اور نشانہ پاکستان ہے
اور مجاہدین بھی کہتے ہیں اور واہ خدایا کیا زبردست پروگرام بنایا امریکہ کی بربادی کے لیے کیونکہ ظاہر طور پر مجاہدین کے پاس اتنے وسائل نہیں تھے کہ وہ امریکہ جاکر وہاں جہاد کر سکے تو اللہ پاک نے دشمن کو بالکل مجاہدین کے سامنے رکھ دیا
اللہ اکبر کبیرا
 
پڑھتا جا شرماتا جا

امریکی ایوانِ نمائندگان نے ایک بل منظور کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ عراق سے امریکی فوجیوں کی اکثریت کو اگلے برس اپریل تک واپس بلا لیا جائے۔ (خبر
امریکہ کے عالمی دھشت گردانہ کردار میں کسی کو شک نہیں۔ افغانستان و عراق میں‌ کھلم کھلا حملہ اور دوسرے ممالک جیسے پاکستان ، لبنان، سوڈان میں اپنے ایجنٹوں کے ذریعے دھشت گردی کو فروغ امریکہ نے دیا ہے وہ کبھی ماضی میں‌دیکھنے میں‌ نہیں‌ایا۔ اس وقت امریکہ کے دھشت گردانہ کردار کی مزاحمت کمزور ہے مگر وقت کے ساتھ ساتھ قوت پکڑ رہی ہے۔ امریکہ کے نشانوں پر ممالک اپنے اندر بے حد انتشار رکھتے ہیں جیسا کہ لال مسجد کے واقعے سے ظاہر ہوا کہ سو کالڈ مذہبی لوگ بھی فرقہ واریت کی عینک لگا کر واقعات کو دیکھتے ہیں۔ ان کا رویہ بھی وہ ہی امرانہ ہے جس کا مظاہرہ امریکہ کے حامی سیکولر طبقہ مثلا متحدہ کرتا رہا ہے۔ اس تناظرمیں‌ یہ بات واضح ہورہی ہے کہ نشانے پر موجود ممالک خصوصی طور پر مسلمان ممالک واضح قطبیت کی طرف گامزن ہیں۔ اب تفریق اتنی واضح ہوتی جارہی ہے کہ تصادم کے امکانات بہت بڑھتے نظر ارہے ہیں۔ کم و بیش اسی طرح‌کی قطبیت انقلاب ایران سے پہلے ایران میں‌نظر اتی تھی۔ جب کمیونسٹ شاہ کے خلاف صف ارا تھے اور امریکہ شاہ کے ساتھ کھڑا تھا۔ کمیونسٹوں‌کی اس جدوجہد کو اسلامی طبقہ نے اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ اور امریکہ اپنے حمایتوں‌ کو بیچ طوفان میں‌ چھوڑ کر بھاگ گیا۔
میرے خیال میں‌جنگ کے ھدف واضح ہوتے جارہے ہیں۔ پاکستان کے اندر تصادم کے امکانات بڑھتے جارہے ہیں لوگوں‌ کو اپنی وابستگیاں‌ واضح رکھنی پڑیں‌گی۔ اب کوئی گرے ایریا نہیں‌ ہوگا۔ ہر چیز بلیک اینڈ وائٹ ہوگی۔
 
دہشت گردوں کی جانب سے بارہا عوامی سطح پر اپنے واضح پيغام اور غير متزلزل عزم ميں اس بات کا اظہار کيا گيا ہے کہ پاکستان کی رياست، فوج اور حکومت پر تواتر کے ساتھ حملے کيے جائيں گے۔ اس کے باوجود حيران کن طور پر کچھ رائے دہندگان انھی پرانی گھسی پٹی کہانيوں کو دہراتے رہتے ہيں جن کے مطابق امريکہ مبينہ طور پر پاکستان کے ايٹمی اثاثوں پر قبضے کا خواہش مند ہے۔
گھسی پٹی ہے مگر ہے تو سچ۔ خود اوبامہ یہ کہتا ہےاور امریکی میرینز کا ایک پورا پلان موجود ہے۔ یہ لاجکل بھی ہے کہ ایک طاقت اگر اپنے مفاد کے خلاف ایٹمی ہتھیار کسی اور کے پاس دیکھے تو ایسی سازشیں کرے۔ امریکہ سے کوئی گلہ نہ ہوگا۔ گلہ تو امریکی نوکروں سے ہے۔
پاکستان حاليہ برسوں ميں ايٹمی قوت نہيں بنا ہے۔ سال 1998 میں پاکستان کی جانب سے ايٹمی دھماکے کے بعد امريکہ حکومت نے خطے میں استحکام اور پاکستان کی ايجينسيوں کی اپنے ايٹمی ہتھياروں سميت اہم قومی اثاثوں کی حفاظت کے ضمن میں صلاحيتوں ميں اضافے کے ليے کئ بلين ڈالرز فراہم کيے ہیں۔ اس کے برعکس اسی ٹائم فريم کے دوران ملک کے طول وعرض میں دہشت گرد تنظيموں کی خونی کاروائياں سے ايک تنقیدی موازنہ يہ حقيقت واضح کر ديتا ہے کہ پاکستان کے عوام کا اصل دشمن کون ہے۔
امریکہ کے کئی بلین ڈالرز پاکستانی عوام کے کچھ کام نہیں ائے اور نہ ائیں گے۔ اگر امریکی نہ خود ثابت کیا ہے کہ یہ امریکی امداد زہر قاتل ہے۔ اگر امریکی ہیلی پاکستان کی حدود میں کئی سو کلومیڑ گھس ائیں اور ایک گھنٹَے کاروائی کریں اور پاکستان کو پتہ نہ چلے۔ اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان کو دی گئی امریکی ٹیکنالوجی بے کار اور افرادی قوت کی دی گئی تربیت صرف نائٹ کلبز میں کام اتی ہے۔
امريکی حکومت پاکستان سميت دنيا کے کسی بھی ملک کے ايٹمی ہتھياروں پر قبضہ کرنے کا کوئ ارادہ نہيں رکھتی۔ اس الزام کا کوئ ثبوت موجود نہیں ہے۔ يہ کوئ خفيہ بات نہيں ہے کہ امريکی حکومت نے بشمول عالمی برادری کے عوامی سطح پر اس حوالے سے تحفظات اور خدشات کا اظہار کيا ہے کہ ايٹمی ثيکنالوجی دہشت گردوں کے ہاتھوں ميں نہ چلی جائے۔ ان خدشات کی بنياد القائدہ کی قيادت کی جانب سے يہ واضح ارادہ اور کوشش ہے کہ وسيع بنيادوں پر تباہی کرنے والے ہتھياروں تک رسائ حاصل کی جائے۔ ايسی صورت حال کے وقوع پذير ہونے کی صورت ميں پاکستان سميت تمام دنيا کے ممالک کے ليے خوفناک نتائج سامنے آئيں گے۔
ظائر ہے۔ ایٹمی ٹیکنالوجی کیسی بھی دھشتگرد کے ہاتھ میں نہیں انی چاہیے۔ میں تو دنیا کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک دیکھنا چاہتا ہوں۔ مگر بدقسمتی سے یہ ان لوگوں کے ہاتھ میں پہلے ہی ہے جو غیر ذمہ دار ہیں اور جھنوں نے اٹامک بمز چلاکر انسانیت کا قتل بھی کیا ہے اور اگے بھی یہ دریغ نہِیں کریں گے۔ آپ کے علاوہ کسں نے انسانیت کا قتل کیا ہے؟
عوامی سطح پر ان خدشات کا اظہار اور اپنے اتحاديوں کے ساتھ سفارتی سطح پر اس ضمن ميں خيالات اور حکمت عملی کے تبادلے کے عمل کو کسی بھی صورت ميں پاکستان کے ايٹمی ہتھياروں پر امريکی قبضے کی دھمکيوں سے تعبير نہيں کيا جا سکتا ہے۔ صدر اوبامہ نے بذات خود اس بات کو واضح کيا ہے کہ حکومت پاکستان ہی پاکستان کے ايٹمی ہتھياروں کی حفاظت کے ليے ذمہ دار ہے۔
اگر یہ دھمکیاں نہیں ہیں تو شاید یہی صورت رہ جاتی ہے کہ اوبامہ کیانی کو واشنگٹن بلا کر گریبان سے پکڑ کر "دھمکیاں" دے ۔ سلطان راہی والی۔
ميں يہ بھی اضافہ کرنا چاہوں گا کہ امريکی حکومت پاکستان کی حکومت اور عسکری قيادت کے ساتھ مل کر باہم اہميت کے بہت سے معاملات پر کام کر رہی ہے جن ميں جديد ہتھياروں کی فراہمی، اسلحہ اور پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی صلاحيتوں ميں اضافے کے لیے تکنيکی مہارت کی دستيابی بھی شامل ہے۔ اگر امریکی حکومت کا مقصد اور ارادہ پاکستان کے دفاع کو کمزور کرنا ہوتا تو وسائل کی يہ شراکت ممکن نہ ہوتی۔
باہم ملکر؟ پھر تو خدا ہی حافظ ہے۔
آخر میں میں اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ سے کہوں گا کہ ہائرنگ سے پہلے کچھ کوالٹی کنڑول بھی ضروری ہے۔
امریکی بڑے اچھے لوگ ہیں۔ اللہ کرے کہ امریکی صورت حال کو سمجھ لیں اور وہ نہ کریں جن سے صورت حال ان پر الٹ پڑے۔ مجھے امریکی چینیوں سے زیادہ اچھے لگتے ہیں۔
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

میں تو دنیا کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک دیکھنا چاہتا ہوں۔ مگر بدقسمتی سے یہ ان لوگوں کے ہاتھ میں پہلے ہی ہے جو غیر ذمہ دار ہیں اور جھنوں نے اٹامک بمز چلاکر انسانیت کا قتل بھی کیا ہے اور اگے بھی یہ دریغ نہِیں کریں گے۔ آپ کے علاوہ کسں نے انسانیت کا قتل کیا ہے؟

آج کل کے معروضی حالات اور ماضی کے تجربات کی روشنی ميں امريکی حکومت دنيا بھر میں ايٹمی ہتھياروں کے استعمال کے حوالے سے واضح موقف رکھتی ہے۔

آپ نے بالکل درست کہا ہے کہ الفاظ سے زيادہ عملی اقدامات کی اہميت ہوتی ہے اور امريکی حکومت اپنے عمل سے اپنے موقف کو واضح کر رہی ہے۔ امريکی حکومت نہ صرف يہ کہ دنيا ميں ايٹمی ہتھياروں ميں کمی کی مہم ميں اہم اور قائدانہ کردار ادا کر رہی ہے بلکہ اس ضمن ميں اپنی ذمہ داری کا اداراک کرتے ہوئے عملی اقدامات بھی اٹھا رہی ہے۔ مثال کے طور پر روس کے ساتھ امريکہ کے حاليہ معاہدے کے تحت دونوں فريقين نے يہ طے کيا ہے کہ ايٹمی ہتھياروں کی تعداد کم کر کے 1550 تک لائ جائے اور اس کے ساتھ ساتھ ايٹمی ہتھياروں کی ترسيل سے متعلق سازوسامان ميں بھی کمی کی جائے گی۔

امريکی حکومت اس حقيقت سے پوری طرح آشنا ہے کہ ايٹمی ہتھياروں ميں کمی کی کوششوں کو کاميابی سے ہمکنار کرنے کے ليے موجود ہتھياروں کی تعداد کے حوالے سے مزيد شفافيت کی ضرورت ہے۔ يہ عمل اس ليے بھی ضروری ہے تا کہ "نيو سٹارٹ ٹريٹی" ميں شموليت کے بعد تمام تر ايٹمی ہتھياروں ميں کمی کے مراحل کو طے کيا جا سکے۔ اس ميں ہر طرح کے ايٹمی ہتھيار شامل ہيں، خواہ وہ ذخيرہ شدہ ہوں يا دفاعی تياری اور حکمت عملی کا حصہ۔

يہاں ميں کچھ اہم اعداد وشمار پوسٹ کر رہا ہوں جو امريکہ کے مبينہ دوہرے معيار کے حوالے سے اٹھائے جانے والے عمومی سوالات اور خدشات کے جواب ميں موجودہ امريکی حکومت کے موقف کو واضح کرنے ميں معاون ثابت ہوں گے۔

ستمبر 30 2009 تک امريکی ايٹمی ذخائر ميں کل 5113 وار ہيڈز موجود تھے۔ ان اعداد وشمار کا تقابل اگر آپ ماضی سے کريں تو يہ حقيقت سامنے آتی ہے کہ سال 1967 کے آخر تک يہ تعداد 31255 تھی یعنی کہ مجموعی طور پر امريکہ 84 فيصد اپنے ايٹمی ہتھياروں ميں کمی لا چکا ہے۔ اسی طرح ديوار برلن کے منہدم ہونے کے وقت سال 1989 ميں يہ تعداد 22217 تھی یعنی گزشتہ 20 برسوں کے دوران امريکی ايٹمی ہتھياروں ميں 75 فيصد کمی کی جا چکی ہے۔ درج ذيل ميں کچھ اہم گرافس اور اعداد وشمار ہيں جو سال 1945 سے لے کر ستمبر 30 2009 تک امريکی ايٹمی ہتھياروں کے ذخيرے کے حوالے سے حقائق واضح کرتے ہیں۔

http://www.freeimagehosting.net/uploads/8cf6b1416f.gif

http://www.freeimagehosting.net/uploads/b944adefde.gif

http://www.freeimagehosting.net/uploads/07fd60bc79.gif

سال 1994 سے لے کر 2009 تک امريکہ 8748 نيوکلير وار ہيڈز ترک کر چکا ہے۔ اسی طرح کئ ہزار ايٹمی ہتھيار "ريٹائرڈ" کيے جا چکے ہيں اور ترک کيے جانے کے مختلف مراحل ميں ہيں۔

http://www.freeimagehosting.net/uploads/026cc4820f.gif

ستمبر 30 1991 سے لے کر ستمبر 30 2009 تک امريکہ کے "نان اسٹريجک" ايٹمی ہتھياروں میں 90 فيصد تک کمی آ چکی ہے۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall
 
یہ بھی خوب اعدادوشمارکا دھندا ہے
ھزاروں کی تعداد میں ایٹمی ہیتھیار اس ریاست کے پاس موجود ہیں جو اسکو استعمال کرچکا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ ان ایٹمی ہتھیاروں کو ان غیر ذمہ دار لوگوں کے پاس نہیں ہونا چاہیے۔
سب سے پہلے یہ ہونا چاہیے کہ اقوام متحدہ تمام امریکی اور روسی ایٹمی ہتھیاروں پر نگرانی متعین کرے
ان تمام لوگوں پر عالمی عدالت انسداد دھشت گردی میں مقدمہ چلے جنھوں نے ایٹمی ہتھیار استعمال کیے
ان تمام ممالک کے بادشاہوں کو بھی علامتی سزا دی جائے تو ایٹمی ہیتھار چلانے کے مرتکب ہوے۔
پھر معلوم ہوگا کہ امریکہ واقعی سنجیدہ ریاست ہے۔
 

ساجد

محفلین
یہ بھی خوب اعدادوشمارکا دھندا ہے
ھزاروں کی تعداد میں ایٹمی ہیتھیار اس ریاست کے پاس موجود ہیں جو اسکو استعمال کرچکا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ ان ایٹمی ہتھیاروں کو ان غیر ذمہ دار لوگوں کے پاس نہیں ہونا چاہیے۔
سب سے پہلے یہ ہونا چاہیے کہ اقوام متحدہ تمام امریکی اور روسی ایٹمی ہتھیاروں پر نگرانی متعین کرے
ان تمام لوگوں پر عالمی عدالت انسداد دھشت گردی میں مقدمہ چلے جنھوں نے ایٹمی ہتھیار استعمال کیے
ان تمام ممالک کے بادشاہوں کو بھی علامتی سزا دی جائے تو ایٹمی ہیتھار چلانے کے مرتکب ہوے۔
پھر معلوم ہوگا کہ امریکہ واقعی سنجیدہ ریاست ہے۔
بھری بزم میں راز کی بات کہہ دی
"بڑے بے ادب ہو ، سزا چاہتے ہو"؟
شعر کے خالق کی روح سے معذرت کے ساتھ۔
 

سویدا

محفلین
واشنگٹن…فارن ڈیسک…امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے کہا ہے کہ امریکی غلطیوں کی وجہ سے پاکستان میں اسلامی انقلاب آسکتا ہے جبکہ پاکستانی عوام اسلامی انقلاب نہیں چاہتے،اشرافیہ جو پاکستانی سیاست میں چھائے ہوئے ہیں وہ انقلابی قوتوں کے خلاف ہے۔پاکستانی فورسز نے سوات میں آپریشن کرکے شدت پسندی کا خاتمہ کیا۔طالبان بڑے پیمانے پر فوجی بغاوت کے بعد پاکستان میں بامعنی سیاسی جگہ حاصل کرسکتے ہیں امریکی اخبار لکھتا ہے کہ 2010 کے سروے کے مطابق پانچ میں سے ایک پاکستانی طالبان کی حمایت کرتا ہے ۔ اگر امریکا پاکستان میں زمین کارروائیوں کا آغاز کردیتا ہے اور جرنیل اپنے فوجیوں کو اس کی مخالفت نہ کرنے کا حکم دیں تو پاک فوج اس کو اپنی عزت و وقار کے خلاف سمجھے گی اور پھر فوجی طالبان کے پاس جاسکتے ہیں۔ بن لادن پر یک طرفہ امریکی چھاپے سے فوج میں غصہ پایا جاتا ہے۔پاکستانی عوام کی طرف سے بھی تنقید کی گئی۔پاک فوج میں اسلام پسند ہیں امریکا کے غلط اقدامات پاکستانی فوجیوں کو باغی بنا سکتے ہیں جوپاکستان کو انقلاب کی طرف لے جا سکتا ہے۔
http://search.jang.com.pk/update_details.asp?nid=119108

یہ خبر اسلامی انقلاب کے آنے کی نوید نہیں بلکہ امریکی کاروائیوں میں تیز رفتاری کی دہائی ضرور ہے !
 

dxbgraphics

محفلین
یہ بھی ممکن ہے کہ اسلامی انقلاب کے لئے کوششوں کی آڑ میں ایٹمی اثاثوں تک پہنچ کر اس کو اڑانے کی کوشش کی جائے
 
Top