عالمی دھشت گرد: امریکہ

ظفری

لائبریرین
ہمارے پاس کیا ذرائع ہیں کہ وہ ڈاکو نہیں تھے ۔ ( اللہ کرے نہ ہوں ) ۔ مگر اس سانحے پر جسقدر متضاد بیانات پیش کیئے جارہے ہیں ۔ ان کا ماخذ کیا ہے ۔ ؟ ( اگر میڈیا ہے تو میڈیا کے حوالے سے پہلے ہی بہت سے معاملات پر ہم غیر یقینی کا شکار ہیں ۔ تو ہم کس طرح اس کی روز بدلتی ہوئی بات کا اعتبار کرلیں ) سواب ہم کس طرح ایک حتمی فیصلہ کرچکے ہیں کہ اصل واقعہ ہی دراصل یہی تھا ۔ ) ۔ اگر اس سلسلےمیں کوئی اور مستند ذریعہ یا حوالہ ہے تو کم از کم اس ذکر ہونا چاہیئے ۔ تاکہ ان حتمی آراء ( فیصلے ) کا کوئی جواز مل سکے ۔ :rolleyes:
 
وہ تو ہمارے پولیس کے بڑے افسر نے اس واقعہ کے فوراً بعد اپنی فرمانبرداری ثابت کرتے ہوئے دو مقتولین کو ڈاکو قرار دے دیا تھا۔

اب سُنا ہے کہ ان دو مقتولین کے خلاف دو عدد ڈکیتی کی ایف آئی آر بھی درج کروائی گئی ہیں۔

یہ ظالم لوگ اللہ کو بھولے ہوئے ہیں، آخرت کو بھولے ہوئے ہیں، اپنی موت کو بھولے ہوئے ہیں۔ اللہ کی چکی ان کو پیسے گی اور بہت باریک پیسے گی۔

ان کا خدا طاقت ہے اور اس طاقت ہی زعم میں یہ ظالم انجام کو پہنچیں گے۔
ذرا دیکھودھشت گرد پاکستان میں داخل ہوکر سفارتی مراعات کی اڑ میں ممنوعہ بور کے غیر قانونی اسلحہ لے کر پاکستانی نمبر پلیٹ کی پرائیوٹ گاڑی میں جاسوسی کے نیٹ ورک بناتے ہیں اور صرف شک پر گولی ماردیتے ہیں۔ اپنے لوگوں کو قانون کی گرفت سے بچانے کے لیے معصوم بے گناہ لوگوں کو روند ڈالتے ہیں۔
مگر ہمارے لوگ۔
نمک حلالی میں لگے ہوئے ہیں۔
 
امریکہ اپنے دھشگرد ایجنٹ کو مکھن کے بال کی طرح لے جائے گا۔ یہ خدشہ ایک پاکستانی کا ہے۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) یوتھ ونگ برطانیہ کے رہنما فیصل محمود نے اس خدشہ کا اظہار کیا ہے کہ لاہور کے واقعہ میں ملوث اپنے شہری کو امریکہ مکھن میں سے بال کی طرح نکال کر لے جائے گا اور ہمارے حکمران جی حضوری کی ایک نئی تاریخ رقم کریں گے۔ سابق جنرل پرویز مشرف نے پاکستان کو دلدل میں دھکیلا تھا جس کی وجہ سے امریکی تنظیم بلیک واٹر کے اراکین پاکستان کے اندر آزادانہ نقل و حرکت کر رہے ہیں اور ایسا تباہ کن اسلحہ لے کر گھوم رہے ہیں کہ جس کا کوئی تدارک نہیں۔ )لنک(
 

شمشاد

لائبریرین
فیصل محمود کا خدشہ بالکل صحیح ہے۔ پاکستانی حکمرانوں میں ہمت نہیں کہ وہ کسی امریکی کو پاکستان میں سزا دے سکیں۔
 
یہ ہماری بدقسمتی ہے۔
یہی ٹیسٹ کیس ہے ۔ اگر ان دھشت گردوں کو لگام نہ دی گئی تو پاکستانی عوام حق بہ جانب ہیں کہ حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔ اگر پاکستانی عوام نے بھی یہ مکھی نگل لی تو پھر کیا رہ جاتا ہے؟
 
امریکہ میں رھائش پذیر باشعور امریکی و پاکستانی کا بھی یہ فرض ہے کہ امریکہ کے بالادست طبقہ نے جو جنگ دنیا پر مسلط کردی ہے اس کے خاتمے کے لیے کام کریں۔ یہ خود امریکی سلامتی ہے حق میں ہے۔

لڑنے کی بات نہیں‌مذمت کررہے ہیں۔
اب جبکہ یہ بات واضح‌ہوچکی کہ امریکہ خارجہ پالیسیاں دھشت گردی کی تمام تحاریک بشمول طالبان، القاعدہ وغیرہ کی وجہ و محرک ہے۔ تمام حق پرست خصوصاامریکہ میں‌رہنے والے جو جہوریت کے حق میں‌ہیں اس دھشت گردانہ خارجہ پالیسی کے خلاف کام کرنا چاہیے۔ امریکی میں‌رہنے والے ہوشمند درج ذیل کام کرسکتے ہیں۔
* ایک مہم کا اغاز جس میں تمام اہم امریکی پالیسی ساز اداروں کو ای میل، خط اور فیکس کیے جائیں
* امریکی یونی ورسٹیز میں‌اس ناکام خارجہ پالیسز پر بحث
* ٹی وی ریڈیو پر اس ناکام خارجہ پالیسی پر بحث
* عوام شعور بیدار کرنے کی مہم
اگرچہ یہ سب کرنا اتنا اسان نہیں‌مگر امریکہ میں جو لوگ حق پرست ہیں‌ان کو اس بارے میں‌سنجیدگی سے سوچنا ہوگا ورنہ امریکی امیج دنیا بھر میں تباہ ہوجائے گا اور امریکی خواب کا روایتی تصور ٹوٹ جائے گا۔
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

لاہور ميں امريکی قونصل خانے کا ملازم يقينی طور پر ايک ايسے حادثے ميں ملوث ہوا ہے جس ميں افسوس ناک طريقے سے انسانی جانوں کا ضياع ہوا۔ امريکی سفارت خانہ پاکستانی اہلکاروں کے ساتھ مل کر حقائق کو جانچنے کی کوشش کر رہا ہے تا کہ اس مسلئے کو حل کيا جا سکے۔

اسلام آباد ميں امريکی سفارت خانے کو متعين سفارت کار کے پاس سفارتی پاسپورٹ ہے اور اس کو جون 2012 تک پاکستانی ويزہ بھی حاصل ہے۔

جنوری 27 کو سفارت کار نے اپنے دفاع ميں اس وقت کاروائ کی جب موٹر سائيکل پر سوار دو مسلح افراد نے ان کا راستہ روکا۔ سفارت کار کے پاس اس بات کا مکمل جواز موجود تھا کہ وہ افراد ان کو جسمانی نقصان پہنچانے کے درپے تھے۔ اس واقعے سے محض چند منٹ قبل انھی افراد نے جو کہ ايک مجرمانہ پس منظر رکھتے تھے، اسی علاقے ميں ايک پاکستانی شہری کو بھی لوٹا تھا۔

گرفتاری کے بعد امريکی سفارت کار نے پوليس کے سامنے يہ واضح کيا کہ وہ سفارت کار ہيں اور متعدد بار سفارتی تعلقات کے حوالے سے ويانا کنويشن کے تحت استثنی کا مطالبہ کيا۔ مقامی پوليس اور سينير حکام نے اپنی قانونی ذمہ داری پوری نہيں کی اور نہ ہی اسلام آباد ميں امريکی سفارت خانے اور نہ ہی لاہور ميں امريکی قونصل خانے سے ان کی حيثيت کے حوالے سے معلومات حاصل کيں۔

اس کے علاوہ سفارت کار کو باقاعدہ گرفتار کيا گيا اور ان کا ريمانڈ بھی ليا گيا جو کہ عالمی ضوابط اور ويانا کنوينشن کی خلاف ورزی ہے، جس پر پاکستان نے دستخط کر رکھے ہيں۔

ہميں اس بات پر افسوس ہے کہ اس واقعے کے نتيجے ميں انسانی جانوں کا نقصان ہوا ہے۔

ہم امريکہ اور پاکستان کے مابين شراکت اور تعاون کو بہت اہميت ديتے ہیں جو دونوں ممالک کے مفادات کے ليے ضروری ہے۔ امريکی سفارت خانہ حکومت پاکستان کے ساتھ مل کر سفارت کار کی فوری رہائ کو يقينی بنانے کے ليے کوششيں کر رہا ہے جو پاکستانی اور عالمی قوانين کے تحت ضروری ہے۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall
 

شمشاد

لائبریرین
آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ وہ ایک پرائیویٹ گاڑی میں اس پرہجوم علاقے میں کیا کر رہا تھا اور بغیر لائسنس کے ممنوعہ بور کا اسلحہ لیکر چلنا بھی کیا جنیوا کنوینشن میں لکھا ہوا ہے؟

کیا کوئی پاکستانی سفارتکار واشنگٹن میں ممنوعہ بور کا غیرقانونی اسلحہ لیکر دو چار امریکیوں کو قتل کر دے، تو کیا امریکی پولیس اُسے گرفتار نہیں کرے گی؟
 
فواد۔ اپ نے فرمایا "اسلام آباد ميں امريکی سفارت خانے کو متعين سفارت کار کے پاس سفارتی پاسپورٹ ہے اور اس کو جون 2012 تک پاکستانی ويزہ بھی حاصل ہے۔"
مگر شاید یہ ویزہ سفارتی نہیں بلکہ وزٹ ہے۔ قاتل کو کسی قسم کی رعایت نہیں دینی چاہیے۔ یہ شخص ایک جاسوس تھا اور لاہور میں دھشت گردی کررہا تھا۔ اس پر پاکستان میں انسداد دھشت گردی کی عدالت میں مقدمہ چلانا چاہیے۔
اپ کی حکومت کو عباد الرحمان شھید کو کچلنے والے دھشت گرد کو بھی پولیس کو پیش کرنا چاہیے۔
فواد اپ ایک امریکی ایجنٹ ہونے کے علاوہ ایک انسان بھی تو ہیں۔ ایک انسان ہونے کے ناطے اپ کو یہ زیب دیتا ہے کہ اپ قاتلوں کا دفاع کریں؟ پیسہ تو اللہ نے اپ کی قسمت میں لکھ دیا ہے وہ ملے گا۔
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

يہ انتہائ افسوس ناک بات ہے کہ ميڈيا کے کچھ عناصر اخبارات ميں مصالحے سے بھرپور شہ سرخياں جمانے کی غرض سے نت نئ خبريں جما رہے ہيں۔ يہ طرز عمل تمام صحافتی اصولوں کے ساتھ اخلاقی طور پر بھی قبل مذمت ہے۔

بعض اخباری خبروں کے برعکس اس واقعے ميں کوئ بليک واٹر کا ايجنٹ ملوث نہيں تھا۔ امريکی قونصل خانے کا وہ ملازم جو اس واقعے ميں ملوث تھا، اس نے پاکستانی حکام کے سامنے اپنی سفارتی حيثيت واضح کی تھی۔

امريکی سفارت کار دونوں ملکوں کے مابين مضبوط اور ديرپا اشتراک کار کے فروغ کے ليے کام کر رہے ہيں۔
سيکرٹری کلنٹن نے اپنے حاليہ دورہ پاکستان کے دوران لاہور ميں امريکی ويزہ کونسل کے آغاز کا باقاعدہ اعلان کيا تھا۔ اس اقدام کا مقصد لاہور کے شہريوں کے ليے امريکی ويزہ کے حصول کے عمل ميں آسانی پيدا کرنا ہے۔ اس اضافی سہولت کی دستيابی کے پيش نظر امريکی سفارت خانے کے عملے کی لاہور ميں موجودگی کوئ غير معمولی واقعہ يا اچنبے کی بات نہيں ہے۔

امريکہ پاکستانی قوانين کا احترام کرتا ہے اور پاکستان کے سيکورٹی اداروں کی چوکسی کو سراہتا ہے۔



فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall
 

شمشاد

لائبریرین
يہ انتہائ افسوس ناک بات ہے کہ ميڈيا کے کچھ عناصر اخبارات ميں مصالحے سے بھرپور شہ سرخياں جمانے کی غرض سے نت نئ خبريں جما رہے ہيں۔ يہ طرز عمل تمام صحافتی اصولوں کے ساتھ اخلاقی طور پر بھی قبل مذمت ہے۔

اور یہ بھی انتہائی افسوس ناک بات ہے کہ جس امریکی شہری نے پاکستانی قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے یکطرفہ ٹریفک والی سڑک پر مخالف سمت سے آتے ہوئے اندھا دھند جعلی نمبر والی گاڑی دوڑا کر ایک رکشہ کو ٹکر ماری جس سے دو خواتین اور تین یا چار بچے زخمی ہوئے اور ایک موٹر سائیکل سوار اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا، یہ طرز عمل پاکستانی قوانین کی خلاف ورزی کے ساتھ ساتھ اخلاقی طور پر بھی قابل مذمت ہے۔ مزید یہ کہ حکومت پنجاب کے بار بار کہنے اور تحریری طور پر لکھنے کے باوجود عالمی امن کے علمبردار امریکہ کے نمائندوں نے نہ تو اس مجرم کو پولیس کے حوالے کیا اور نہ ہی وہ گاڑی پولیس کے حوالے کی۔

وہ دونوں نوجوان جو جعلی نام کے ساتھ پھرنے والے امریکی قاتل کے ہاتھوں اپنی جان سے گئے، ان کو پیچھے سے گولیاں لگی ہیں نہ کہ سامنے سے۔

ایک دفعہ ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر اور اللہ کو یاد کر کے یہ بتا دیں کیا اب بھی آپ امریکیوں کو حق پر سمجھتے ہیں؟
 
يہ انتہائ افسوس ناک بات ہے کہ ميڈيا کے کچھ عناصر اخبارات ميں مصالحے سے بھرپور شہ سرخياں جمانے کی غرض سے نت نئ خبريں جما رہے ہيں۔ يہ طرز عمل تمام صحافتی اصولوں کے ساتھ اخلاقی طور پر بھی قبل مذمت ہے۔

بعض اخباری خبروں کے برعکس اس واقعے ميں کوئ بليک واٹر کا ايجنٹ ملوث نہيں تھا۔ امريکی قونصل خانے کا وہ ملازم جو اس واقعے ميں ملوث تھا، اس نے پاکستانی حکام کے سامنے اپنی سفارتی حيثيت واضح کی تھی۔

امريکی سفارت کار دونوں ملکوں کے مابين مضبوط اور ديرپا اشتراک کار کے فروغ کے ليے کام کر رہے ہيں۔
سيکرٹری کلنٹن نے اپنے حاليہ دورہ پاکستان کے دوران لاہور ميں امريکی ويزہ کونسل کے آغاز کا باقاعدہ اعلان کيا تھا۔ اس اقدام کا مقصد لاہور کے شہريوں کے ليے امريکی ويزہ کے حصول کے عمل ميں آسانی پيدا کرنا ہے۔ اس اضافی سہولت کی دستيابی کے پيش نظر امريکی سفارت خانے کے عملے کی لاہور ميں موجودگی کوئ غير معمولی واقعہ يا اچنبے کی بات نہيں ہے۔

امريکہ پاکستانی قوانين کا احترام کرتا ہے اور پاکستان کے سيکورٹی اداروں کی چوکسی کو سراہتا ہے۔



فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall

میڈیا کی بھر پور مذمت کی ہی جانی چاہیے۔یہ نان ایشو کو بڑھاچڑھا کر بتاتا ہے۔ بلکہ یہ کچھ لوگوں کو بتاتا ہی کیوں ہے؟ اس امریکی تکلیف پر ہم کو بھی سخت تکلیف ہورہی ہے
بھلا میڈیا نے یہ کیسے جرات کی کہ ایک امریکی جاسوس جو سفارت کار تھا اور جاسوسی الات لے کر پسٹلز کےساتھ شاہراہ پر صرف ھیپی ٹریگر ہی ہوا تھا بھلا یہ بتانے کی بات ہے۔
بھلا یہ میڈیاکیوں یہ حرکت کرتا ہے کہ وہ ثبوت پیش کرتا ہے کہ سفارتکاری کی اڑ میں جاسوسی ہو۔
اب عباد الرحمان شھید تو شاید خودکش حملہ اور تھا یہ میڈیا کیوں نہیں بتاتا۔
ہاں ہاں میڈیا غیر ذمہ دار ہے۔ ذمہ دار تو امریکی سفارت کار ہے جسے قتل کی کھلی چھٹی ملی ہوئی ہے۔ بھلا ڈبل زیرہ سیون کی فلیمیں بھی تو ہم خوش ہو کر دیکھتے ہیں۔
ذرا غور کریں فواد۔ اگر عباد الرحمان شھید اپ کا بھائی ہوتا (خدا نہ خواستہ) تو بھی اپ قاتلوں کی حمایت کرتے ؟ ویسے غور کریں تو وہ اپ کا بھائی ہی ہے۔ اور جہاں اپ کھڑے ہیں وہ درست جگہ نہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
امريکہ پاکستانی قوانين کا احترام کرتا ہے اور پاکستان کے سيکورٹی اداروں کی چوکسی کو سراہتا ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall

اور ہاں پاکستانی قوانین کا احترام کرتے ہوئے آئے دن پاکستان کی سر زمین سے اُڑ کر پاکستانی علاقوں میں بم برسا کر ڈرون حملے بھی اسی زمرے میں آتے ہیں۔
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

اس واقعے کے حوالے سے ايسی اخباری رپورٹوں کا حوالہ دينا ناانصافی ہے جو منتخب اور يک طرفہ بيانات اور غير تصديق شدہ حقائق پر مبنی ہيں۔

ميں نے کئ خبروں اور کالمز کے حوالے فورمزپر ديکھے ہیں جنھيں متعدد بار پوسٹ کيا گيا ہے۔ ليکن ميں آپ کی معلومات کے ليے يہ واضح کر دوں کہ اسلام آباد ميں امريکی سفارت خانے نے اس واقعے کے حوالے سے اپنا نقطہ نظر بھی ديا ہے اور پاکستانی ميڈيا کے تمام اداروں کو باقاعدہ پريس ريليز کے ذريعے ان خبروں کے حوالے سے درست حقائق سے آگاہ بھی کيا ہے۔

بدقسمتی سے کچھ اخبارات اور ميڈيا کے مخصوص عناصر جو کسی بھی غير تحقيق شدہ بيان يا فوج کے کسی ريٹائرڈ افسر کے ذاتی حيثيت ميں کيے جانے والے تجزيے کی بنياد پر شہ سرخياں لگانے ميں کوئ قباحت محسوس نہيں کرتے، وہ نہ صرف امريکی بلکہ حکومت پاکستان کے بھی اہم سرکاری محکموں يا عہدیداروں کی جانب سے ديے جانے والے بيانات، وضاحت يا ريکارڈ شدہ حقائق کو يکسر نظرانداز کر ديتے ہیں۔

ميں يہ بھی واضح کر دوں کہ عالمی قوانين کے تحت وزارت خارجہ امور پاکستان ميں امريکی سميت ديگر غير ملکی سفارت کاروں کی سلامتی کے حوالے سے مخصوص قواعد و ضوابط اور قوانين کی عمل داری کو يقينی بنانے کے لیے مناسب اقدامات کرنے کی پابند ہے۔

امريکی سفير نے يقين دہانی کرائ ہے کہ امريکی سفارت کار اور ان کا عملہ حکومت پاکستان کے ضوابط کی پاسداری کريں گے، ليکن وزارت خارجہ امور اور حکومت پاکستان نے ابھی تک طے شدہ عالمی سفارتی طريقہ کار پر عمل نہيں کيا ہے۔

پاکستان ميں امريکی سفارتخانہ سفارتی استثنی اور لاہور میں زير حراست امريکی سفارتکار کے بارے میں مندرجہ ذيل حقائق فراہم کرنے کا خواہاں ہے

سفارتی تعلقات کے بارے ميں ويانا کنوينشن (1961) دنيا بھر ميں تمام سفارت کاروں کو سفارتی استثنی فراہم کرتا ہے۔

ويانا کنوينشن کا آرٹيکل 37 بالخصوص جرم ميں ملوث ہونے کی صورت ميں کسی سفارت خانہ کے "تکنيکی اور انتظامی عملہ" کو وہی سفارتی استثنی فراہم کرتا ہے جو سفارت کاروں کو حاصل ہوتا ہے۔

لاہور ميں زير حراست امريکی سفارت کار، امريکی سفارت خانہ کے تکنيکی اور انتظامی عملہ سے تعلق رکھتا ہے۔ اور اس وجہ سے جرم ميں ملوث ہونے کی صورت ميں مکمل سفارتی استثنی کا حقدار ہے اور اسے اس کنوينشن کی رو سے قانونی طور پر گرفتار يا زير حراست نہيں رکھا جا سکتا۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall
 
محترم فواد صاحب کیا آپ اردو محفل میں پوسٹ کرتے ہوئے اپنے پیغامات میں ای میل رابطہ شامل نہ کرنے کا تکلف کریں گے؟ بارہا اس بات کو محفل پر ہائلائٹ کیا گیا ہے کہ یہاں عام فورم میں برقی پتہ شامل کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ اگر ایسی غلطیاں بھول چوک سے کبھی کبھار ہوں تو منتظمین ایسے پیغامات مدون کر دیتے ہیں ورنہ بہت ممکن ہے کہ ایسے پیغامات سرے سے حذف کر دیئے جائیں۔
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

اور ہاں پاکستانی قوانین کا احترام کرتے ہوئے آئے دن پاکستان کی سر زمین سے اُڑ کر پاکستانی علاقوں میں بم برسا کر ڈرون حملے بھی اسی زمرے میں آتے ہیں۔

آپ کی دليل کی بنياد يہ غلط تاثر ہے کہ امريکہ دانستہ بے گناہ پاکستانيوں کو قتل کرنے ميں ملوث ہے۔ ليکن آپ نے يہ واضح نہيں کيا کہ عام عوام کو بے دريخ نشانہ بنا کو امريکی حکومت کو کيا فائدہ حاصل ہو سکتا ہے۔ يہ کوئ حيرانگی کی بات نہيں ہے کيونکہ يقينی طور پر اس عمل کا کوئ فائدہ نہيں ہے۔ ظاہر ہے کہ خطے ميں اپنے بہترين دوست اور اتحادی کے خلاف جنگ کرنے سے کوئ سفارتی يا عسکری فائدہ تو حاصل کيا نہيں جا سکتا۔

حقیقت يہ ہے کہ امريکی اور پاکستانی فوجيں ان مجرموں کے خلاف برسرپيکار ہيں جنھوں نے اپنے مخصوص طرز حکومت اور سوچ کو مسلط کرنے کے ليے عالمی برادری کے خلاف جنگ کا اعلان کر رکھا ہے۔ جو کوئ بھی ان کی مخصوص مذہبی سوچ اور تشريح سے انکار کرے وہ دشمن قرار پاتا ہے جن ميں پاکستان فوج، منتخب جمہوری حکومت اور پاکستان کے اہم ترين ادارے بھی شامل ہيں۔ ملک بھر ميں جاری دہشت گردی کی لہر جس کی لپيٹ ميں ہزاروں معصوم شہری اور سينکڑوں فوجی جوان آ چکے ہيں، ان دہشت گردوں کی جانب سے واضح پيغام ہے کہ يہ لوگ اس پاکستان کے آئين اور نظريے پر يقين نہيں رکھتے جس کا تصور قيام پاکستان کے وقت قائداعظم اور اقبال نے پيش کيا تھا۔ ان کی جانب سے يہ مجرمانہ کاروائياں اور خونی مہم اس وقت تک جاری رہے گی جب تک پاکستانی حکومت اور فوج ان عناصر کے خلاف اپنے عالمی اتحاديوں کے تعاون سے فيصلہ کن کاروائ نہيں کرتی۔ يہی امريکی حکومت کر رہی ہے۔ نہ صرف مالی امداد بلکہ لاجسٹک سپورٹ اور وسائل کے اشتراک سے دہشت گردی کے اس کينسر کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے تمام فريقين کی جانب سے مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے تا کہ اس عالمی مسلئے کا سدباپ کيا جا سکے۔

اس ايشو کے حوالے سے بغير کسی ثبوت اور حقائق کے امريکہ پر اندھا دھند تنقيد کرنے کی بجائے غیر جانب دار تجزيے کی ضرورت ہے۔ ميں يہ بھی نشاندہی کرنا چاہوں گا کہ القائدہ کی قريب ايک تہائ ليڈرشپ امريکی اور پاکستانی قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مشترکہ کوششوں کے نتيجے ميں گرفتار يا ہلاک ہو چکی ہے۔ يہ وہ حقيقت ہے جس کا ادارک اور اعتراف اب پاکستان کے ميڈيا پر بھی کيا جا رہا ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall
 
فواد سب باتیں چھوڑیں
اگر اپ کی حکومت پاکستان کے قانون اور ائین کی پاسداری کرتی ہے تو پہلے صرف یہ کریں کہ عبادلرحمان شھید کےقاتلوں کوپاکستانی حکومت کے حوالے کردیں۔
اگر یہ نہ کرتے ہیں تو باقی سب ڈھکوسلے ہیں۔
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

اس ايشو کے حوالے سے جو تند وتيز جملے استعمال کيے جا رہے ہيں اور جس شديد جذباتی سوچ کا اظہار کيا جا رہا ہے اس کی بنياد يہ غلط تاثر ہے کہ امريکی سفارت کار نے دانستہ اور غير ضروری طور پر پاکستانی شہريوں کی جان لی ہے۔

يقينی طور پر صورت حال ايسی نہيں ہے۔

اگر دليل کی حد تک سفارتی استثنی کا معاملہ ايک طرف رکھ ديا جائے تو اس صورت ميں بھی حقيقت يہی ہے کہ سفارت کار کی جانب سے اٹھايا جانے والا قدم اپنی جان کی حفاظت کے ليے اس موقع پر ليا گيا جب دو مسلح ڈاکوں کی جانب سے کاروائ کی گئ۔ اس ميں کوئ شک نہيں کہ يہ ايک افسوس ناک واقعہ جس کے نتيجے ميں زندگيوں کا ضياع ہوا۔

ليکن ان حالات کو درگزر نہيں کيا جا سکتا جو اس واقعے کا سبب بنے۔ ہر شخص کو يہ حق حاصل ہے کہ اپنی زندگی کی حفاظت کے ليے کوشش کرے۔ امريکی سفارت کار اس اصول سے مبرا نہيں ہے۔

جہاں تک سفارتی استثنی کا سوال ہے تو يہ باہمی طور پر طے شدہ عالمی قانون ہے جو دنيا بھر ميں رائج ہے۔ امريکی سفارت کاروں کو پاکستان ميں کوئ مخصوص مراعات يا اختيارات حاصل نہيں ہيں۔ واشنگٹن ميں پاکستانی ہم نصب سفارت کاروں کو بھی اسی قسم کی سہوليات حاصل ہیں۔

فورمز پر کچھ رائے دہندگان نے مجھ سے يہ سوال کيا ہے کہ اگر ايک پاکستانی امريکہ ميں ايسے کسی واقعے ميں ملوث ہوتا تو اس صورت ميں کيا کاروا‏ئ کی جاتی۔ حقیقت يہ ہے کہ ايسی درجنوں مثالیں موجود ہيں جب امريکہ کے اندر غير ملکی سفارت کاروں نے سفارتی استثنی کو استعمال کيا۔ سال 2003 ميں ايک پاکستانی سفارت کار گھريلو معاملے ميں تشدد کے ايک کيس ميں ملوث ہوا ان کی گرفتاری کے ليے پوليس کو موقع پر بلوايا گيا ليکن جب انھوں نے اپنے سفارتی کوائف واضح کيے تو پوليس نے ان کے خلاف کوئ کاروا‏ئ نہيں کی تھی۔

امريکی حکومت اور اسلام آباد ميں امريکی سفارت کار صرف پاکستانی حکام کو گرفتار شدہ سفارت کار کے حقوق، ان کی سفارتی حيثيت اور پاکستانی کی عالمی ذمہ داری کے بارے میں باور کروا رہے ہيں۔ يہ پاکستان ميں حکام بالا کو بليک ميل کرنے يا دھمکانے کی کوشش نہيں ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall
 

شمشاد

لائبریرین
فواد آپ ہر دفعہ اس شخص کا ذکر گول کر جاتے ہیں جو ٹریفک کی خلاف ورزی کرتے ہوئے یکطرفہ سڑک پر جعلی نمبر پلیٹ لگا کر گاڑی کو اندھا دھند دوڑاتا ہوا آیا اور اس نے کچھ لوگوں کو زخمی کیا اور ایک موٹر سائیکل سوار کی جان لی۔ کیا یہ بھی آپ کے نزدیک جائز ہے۔ مزید یہ کہ انصاف کے ٹھیکیداروں نے باوجود بار بار کہنے کے نہ تو وہ گاڑی پاکستانی پولیس کے حوالے کی اور نہ ہی اُس ڈرائیور کو پولیس کے سامنے پیش کیا۔

وہ تو شکر کریں کہ لاہوری بے شرم ہو گئے ہیں۔ اگر وہ اسی وقت طیش میں آ کر گاڑیوں کو آگ لگا دیتے اور ان امریکیوں کی ٹھیک ٹھاک عزت افزائی کر دیتے تو پھر آپ نپٹتے رہتے اپنے نمکخواروں سے کہ امریکیوں پر ظلم ہو گیا ہے۔
 
Top