ادبی اقتباس۔

خواجہ طلحہ

محفلین
فنکار تین قسم کا ہوتا ہے۔
ایک وہ جو فن میں،کسی خاص صنف کا موجد ہوتا ہے،
دوسرا وہ جو اساتذہ کی دی ہوئی روش پر چلتا ہے لیکن اس میں اتنا کمال پیدا کرتا ہے کہ استِاد فن کا درجہ حاصل کر لیتا ہے۔،
تیسرا وہ جو، لکیر کا ہوتا ہے۔

از صاحبزادہ غلام نظام الدین۔
 

خواجہ طلحہ

محفلین
حسن وہی عزیز ہے جو محجوب ہو،جس کے جمال سے متمتع ہونے کے لیے حجاب کی درمیانی مزاحمت سے نپٹنا پڑے،جدو جہد کے ذریعے غلبہ و تسخیر انسان کی بنیادی جبلت ہے۔لہٰذہ جس حسن کے جلوے عام ہوں ، بلا زحمت مفت میسر ہو، اسکی قدر بھی کم ہوتی ہے۔
 

خواجہ طلحہ

محفلین
مزاح نگاری

کراچی کے متعلق کیا رائے ہے حضور کی؟
"بہت اچھی ! اگر آپ سر کے بل کھڑے ہو کر دیکھیں تو کراچی کی ہر چیز سیدھی نظر آئے گی"۔
یار! تم کراچی کے ساتھ صریحاً زیادتی کر رہو۔
"ہر گز نہیں! میں کراچی کے حقوق کے لیے ہمیشہ لڑتا رہا ہوں۔اسی لیے میں اہلیانِ کراچی کے اس مطالبے کی شدومد سے حمایت کرتا ہوں کہ ملیر کے پل اور سڑک کی مرمت ہونی چاہیے۔ضرور ہونی چاہیے اور جلد ہونی چاہیے۔تاکہ۔۔۔ کراچی سے نکلنے میں آسانی رہے۔"
خاکم بَدہن از مشتاق احمد یوسفی۔
 

خواجہ طلحہ

محفلین
تاریخ

7رجب 932ہجری بمطابق 20اپریل 1526ء میں بابر نے پانی پت کے میدان میں ابراہیم لودھی کو شکست دے کر دہلی اور آگرے کو فتح کرلیا۔اور سلطنت مغلیہ ہند کادامن دریائے اٹک سے بنگال تک پھیل گیا،بابر چاہتا تھا کہ بنگال ،گجرات اور مالوہ بھی اسکی سلطنت کا حصہ بن جائے،مگر موت نے اسے اتنی مہلت اور 937ہجری بمطابق 1530ء میں بابر کا انتقال ہوگیا۔بابر کے انتقال کے وقت ہمایوں صرف انیس برس کا تھا،وہی سلطنت مغلیہ کا جانشین ہوا۔


اورنگ زیب عالمگیر از سعدی سنگروری
 

خواجہ طلحہ

محفلین
اردو ادب میں احتجاجی رویے۔

میں بھی خائف نہیں تختہ دار سے
میں بھی منصور ہوں کہہ دو اغیار سے
کیوں ڈراتے ہو زنداں کی دیوار سے
ظلم کی بابت کو جہل کی رات کو
میں نہیں مانتا،میں نہیں مانتا
ایسے دستور کو،صبح بے نور کو
میں نہیں جانتا ،میں نہیں مانتا۔
از: حبیب جالب

سارا شہر بلکتا ہے۔پھر بھی کیسا سکتہ ہے۔
گلیوں میں بارود کی بو۔یا پھر خون لہکتا ہے۔
بزم مقتل جو سجے کل تو یہ امکان بھی ہے۔
ہم سے بسمل تو رہیں آپ سا قاتل نہ رہے۔

از: احمد فراز


عوام ہے ستائے جا
ابھار کر مٹائے جا
چراغ ہیں بجھائے جا
تو۔۔۔۔گولیاں چلائے جا
ترا بڑا مقام ہے
تو مرد خوش خرام ہے
اٹھائے جا گرائےجا
تو۔۔۔۔ گولیاں چلائے جا
ستم نواز مسخرسے
روش ورش ،چمن چمن
نگر نگر،دمن دمن
قیامتیں اٹھائے جا
تو ۔۔۔ گولیاں چلائے جا
مزہ ہے تیرے ساتھ میں
سیو ہے تیر ہاتھ میں
شراب ہے پلائے جا-
تو گولیاں چلائے جا،
لہو۔۔۔ تری غذا سہی
تو رند پار ساسہی
حکایتیں سنائے جا
تو ۔۔۔گولیاں چلائے جا
خدا کا خوف چھوڑ کر
وطن کی باگ موڑ کر
نشان ہیں لگائے جا
تو ۔۔۔۔۔۔۔گولیاں چلائے جا
لقندروں کی فوج ہے
اسی میں تیری موج ہے
حرام مال کھائے جا
تو۔۔۔۔گولیاں چلائے جا۔
از:شورش کاشمیری
 

خواجہ طلحہ

محفلین
تنز ومزاح از یوسفی۔

لوگوں کی سمجھ نہیں آتا تھا کہ موصوف نے کیا سمجھ کر تائب تخلص اختیار کیا ہے۔کون سا عیب ہے جو ان میں نہیں، آخر کس چیز سے تائب ہوئے ہیں! پھر یہ سوچ کرخاموش ہوجاتے کہ شائد اشارہ نیکیوں کی طرف ہو۔
 

خواجہ طلحہ

محفلین
شعرناب1968ء۔از:حضرت صاحبزاہ غلام نظام الدینۡ

اگر پورے ملک اور معاشرے کا ایک واحد ذہن تصور کیا جائے تو ہم اس عظیم ذہن کو ماضی کی گہنائی ہوئی روشنی اور دھندلائی ہوئی آواز کی طرف متوجہ کرتے ہیں۔
اس روشنی اور اس آواز کا معدوم ہونا ممکن نہیں،کیونکہ حسن اور عشق لافانی قدریں ہیں اور ہم نے جو ادب ورثے میں پایا ہے، ان قدروں سے مالا مال ہے۔ ہمارا کلاسیکی ادب اپنے تحفظ کی پوری استعداد رکھتا ہے۔یہ الگ بات ہے کہ ہم اس سے کس قدر استفادہ کرتے ہیں۔
 

نوید صادق

محفلین
” غزل کے میدان کو وسعت دی جائے اور اس میں عشق کے علاوہ محبت اور دوستی کی تمام انواع و اقسام داخل کر دی جائیں اور غزل میں ایسے الفاظ نہ استعمال کئے جاویں جن سے کھلم کھلا مطلوب مرد یا عورت ہونا واضح ہو۔ جیسے کلاہ دستار، سبزہ خط، مہندی چوڑیاں ، آرسی جھومر وغیرہ الفاظ مرد کو یا لڑکے کو مرد کا مطلوب قرار دینا بھی جو ایران اور ہندو پاک میں مروج ہے واجب الترک ہے۔ پرانے زمانے میں یہ خرافات اگر جاری رہیں تو ضروری نہیں کہ ہم آنکھیں بند کرکے ان کی تقلید کرتے چلے جائیں۔“

(حالی)
 

خواجہ طلحہ

محفلین
آواز دوست از مختار مسعود

آرنلڈ جے ٹائن بی
آرنلڈ جے ٹائن بی کا کہنا ہے کہ پانچ تہذیبیں پیدا ہوئیں مگر بن کھلے مرجھاگئیں۔اکیس تہزیبیں ترقی کے مختلف مدارج تک پہنچیں اور انہی میں سے دو اتنی دور تک پھیل گئیں کہ انکی دو شاخیں بجائے خود تہذیب کا درجہ حاصل کر چکی ہیں۔ ان تئیس تہذیبوں میں سے بیشتر گذشتہ سے پیوستہ ہیں۔ اور صرف چھ براہ راست ایام جاہلیت سے پیدا ہوئیں۔

ٹائن بی تاریخ کے بحر ذخائر پر وہ سلیمانی قدرت رکھتے ہیں۔کہ انکا حکم لہروں پر چلتا ہے۔ وہ ایک لہر کو علیحدہ کر لینے اور اسکی کیفیت بیان کرنے پر قادر ہیں اور کبھی کبھی یہ جاننے کی کوشش بھی کرتے ہیں کہ اس لہر کا ہر قطرہ کہاں سے کشیدہ ہوا تھا۔
ان کا جواب علمی ہوتا ہے حتمی نہیں۔وسعت نظر کا یہ عالم ہے۔

دنیاوی کاموں میں انتہائی مصروف رہنے والوں کے بعض بڑے علمی کارناموں کا ذکر آیا تو وہ کلیرنڈن،ابن خلدون،پولی بس،دانتے،اولیویر ،مکاولی،کنفوشس،سنیٹ گریگوری،جوزیفس،سینٹ لویولا،تھیو سیڈانی دس،زینو فان، رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم، سولون گروتے ،ثلیمان، لارڈ برائس،والٹر لیف، انتھونی ترولپ،گبن، جے ایس م اور رشید الدین لہمدانی کی مثالیں انگلیوں پر گنا دیتے ہیں۔ ان میں سے کئی نام میرے لیے آج بھی اجنبی ہیںاسکے علاوہ اور میں ان کے بارے میں کچھ نہیں جانتا کہ وہ بھر پور عملی زندگی بسر کرنے کے باوجود بھاری بھرکم علمی کام بھی کرگئےہیں۔ کم فرصتی کا رونا رونے والوں کے لیے اس فہرست سے بڑ ھ کر اور تازیانہ کیا ہوگا۔
 

شمشاد

لائبریرین
عورتیں اپنے اپنے جھونپڑوں میں چلی گئیں۔بادل گرجنے لگا۔ہوا میں جمی ہوئی برف کے ٹکڑے اڑنے لگے جو میرے سینے سے نکیلے پتھروں کی طرح ٹکرا رہے تھے اور میں اپنے گھروندے کے اس گوشے کو یاد کررہا تھا جس میں دبک کر ہم ماں بیٹا سردیوں کا بیشتر حصہ گزار دیتے تھے۔اُپلوں کا دھواں ہمارا احاطہ کیے رکھتا تھااور ماں باربار میرے سینے پر اپنی چادر پھیلا دیتی کر کہتی تھی “سینے کو سردی سے بچائے رکھ بیٹا۔ہوا میں جو نمونیہ ہوتا ہے وہ سینے ہی کی راہ سے پسلیوں میں اترتا ہے“۔۔۔۔۔آنسووں میں بھیگا ہوا ماں کا چہرہ ایک مدت کے بعد بڑی وضاحت سے میرے سامنے ابھرا۔ جھریوں میں پھنسے ہوئے آنسو بجلی کی چمک سے جگمگا اٹھے تھے،جھلی کانپ رہی تھی اور یہ چہرہ میرے قریب آرہا تھا۔
وہ عورت جس نے لاش کا چہرہ ڈھانپا تھا،آہستہ آہستہ میری طرف آرہی تھی ۔اسکے ہاتھ میں کوئی چیز تھی اور وہ بار بار پلٹ کر جاپانیوں کی طرف دیکھتی تھی جو دور ابھی تک ناچ اور گارہے تھے۔
اسکے چہرے اور میری ماں کے چہرے میں کتنی مماثلت تھی۔ بڑھاپے میں کتنی یکسانیت ہوتی ہے۔ اس وقت سکی جھریوں میں بھی آنسو پھیل رہے تھے۔ قریب آکر رک گئی اور چینی زبان میں آہستہ سے بولی “قیدی ہو؟“۔
(احمد ندیم قاسمی کی کتاب “سناٹا“ سے اقتباس)
 

خواجہ طلحہ

محفلین
سیکنڈ ائیر کی بات ہے۔ہمارے اردو کے استاد ،مضامین لکھوایا کرتے تھے،اور بہتر مضمون پر ایک عددکتاب تحفہ میں دی جاتی تھی۔ان دنوں مجھے بھی کئی انعامات جتنے کا موقع ملا تھا۔:)
مضامین میں پختگی یا ناجانے کیا سوچ کر ہمارے استاد صاحب نے مجھ دو کتابوں کو پڑھنے کا مشورہ دیا تھا،ان میں سے ایک آوازِ دوست اور دوسری سناٹا تھی۔ آج اتفاق سے دونوں کتابوں کے اقتباسات کو یکجا دیکھ کر وہ زمانہ شدت سے یاد آگیا:(
 

شمشاد

لائبریرین
اس میں کوئی شک نہیں کہ اچھی کتاب ایک بہت اچھی دوست ہے۔

آپ کے مراسلوں کے ذریعے بہت سارے اور بہت اچھے اقتباسات پڑھنے کا موقع مل رہا ہے۔ اسے جاری رکھیں۔
 

خواجہ طلحہ

محفلین
خدائے سخن میر تقی میر اپنی غم پرستی اور مخرونی کے لیے خاص ہیں مگر یہاں انکی سراپا نگاری کا ذکر کیا جائے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور میر نے ثابت کر دکھایا کہ محبوب کیونکر واقعی عاشق کی کل کائنات ہوتا ہے۔مثلا
رات کیا ہے؟اسکی زلفیں
دن کیا ہے؟ اسکا چہرہ
بہار کیا ہے؟ اسکی آمد
خزاں کیا ہے؟ اسکی رفتگی
پہاڑ کیا ہے؟ اسکی ضد
سبزہ کیا ہے؟ اسکا خط
صراحی کیا ہے؟ اسکی گردن
ہلال کیا ہے؟ اسکے ابرو
نصف چاند کیاہے؟اسکی پیشانی
مکمل چاند کیاہے؟ اسکا چہرہ
زمین کیا ہے؟ اسکا اطمینان
آسمان کیاہے؟سر شام تابستان کا لباس
غنچہ کیاہے؟ اسکا دہن
دانہء مردم فریب کیاہے؟ اسکا خال سیاہ
خوشی کیاہے؟اسکی توجہ
غم کیا ہے؟ اسکی بے رخی
گل کیا ہے؟ اسکے گال
برگ گل کیا ہے؟ اکے لب
رعنائی کیا ہے؟اسکی جوانی
شہنائی کیاہے؟اسکی خوش بیانی۔
قوس قزح کیا ہے؟ اکی کمر کی لچک
ستارے کیا ہیں؟ اسکی مانگ کی افشاں
تقدیر کیا ہے؟ اسکی ریکھا
حسن مطلق کیا ہے؟ اکی سیرت
حسن فطرت کیا ہے؟ اسکی صورت
۔۔۔۔۔۔۔۔تو پھر کائنات کیا ہے؟ اسکا سراپا ہی تو ہے۔


سہ ماہی ادبی جریدہ شبیہ میں شائع ہونے والی تحریر “میر کا فنِ سراپا نگاری“۔ از نوید احمد گل
 

خواجہ طلحہ

محفلین
مزاح

یونس بٹ:یوں تو ادیبوں ،شاعروں کو اپنے بارے میں کچھ کہنے کی کبھی ضرورت ہی پیش نہیں آتی۔ جب انکا دل چاہے کہ انکے بارے میں کچھ کہا جائے ،وہ محفل سے اٹھ کر چلے جاتے ہیں۔ اور وہاں بیٹھے ادیب ،شاعر انکی چاہت پوری کردیتے ہیں۔


یوسفی:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دعوتوں میں سب سے پہلے پہنچتے اور سب کے بعد اٹھتے ہیں، اس اندازِ نششت و برخاست میں ایک کھلا فائدہ یہ دیکھا کہ وہ باری باری سب کی غیبت کرڈالتے ہیں،اور انکی کوئی نہیں کر پاتا۔

یوسفی:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں نے اپنی بیوی کی پسند کی شادی کی


۔۔ڈاکڑ یونس بٹ:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سب کام خاوند کی مرضی سے کرتی ہے، اس نے شادی بھی خاوند کی مرضی سے کی۔
 
Top