ذوق زخمی ہوں میں اُس ناوکِ دزدیدہ نظر سے ۔ ذوق

فرخ منظور

لائبریرین
غزل

زخمی ہوں میں اُس ناوکِ دزدیدہ نظر سے
جانے کا نہیں چور مرے زخمِ جگر سے

ہم خوب ہیں واقف تری اندازِ کمر سے
یہ تار نکلتا ہے کوئی دل کے گہر سے

گر اب کے پھرے جیتے وہ کعبہ کے سفر سے
تو جانو پھرے شیخ جی اللہ کے گھر سے

سرمایۂ امید ہے کیا پاس ہمارے
اک آہ بھی سینے میں سو ناامّیدِ اثر سے

وہ خُلق سے پیش آتے ہیں جو فیض رساں ہیں
ہے شاخِ ثمردار میں گُل پہلے ثمر سے

حاضر ہیں مرے توسنِ وحشت کے جلو میں
باندھے ہوئے کہسار بھی دامن کو کمر سے

فریاد ستم کش ہے وہ شمشیرِ کشیدہ
جس کا نہ رُکے وار فلک کی بھی سپر سے

اشکوں میں بہے جاتے ہیں ہم جانبِ دریا
مقصودِ زہِ کعبہ ہے دریا کے سفر سے

اُف گرمیِ وحشت کہ مری ٹھوکروں ہی میں
پتھر ہیں پہاڑوں کے اُڑے جاتے شرر سے

کچھ رحمتِ باری سے نہیں دور کہ ساقی
رو دیں جو ذرا مست تو مے ابر سے برسے

کُشتہ ہوں میں کس چشمِ سیہ مست کا یارب
ٹپکے ہے جو مستی مری تُربت کے شجر سے

کھُلتا نہیں دل بند ہی رہتا ہے ہمیشہ
کیا جانیں کہ آ جائے ہے تو اس میں کدھر سے

نالوں کے اثر سے مرے پھوڑا سا ہے پکتا
کیوں ریم سدا نکلے نہ آہن کے جگر سے

اے ذوق کسی ہمدمِ دیرینہ کا ملنا
بہتر ہے ملاقاتِ مسیحا و خضر سے

(شیخ ابراہیم ذوق)
 

جیہ

لائبریرین
اچھی غزل۔ مقطع بشہور مگر مبالغہ آمیز ہے۔ ان دو اشعار کو سمجھ نہ سکی۔۔۔ ہائے میری ہیچمدانی


ہم خوب ہیں واقف تری اندازِ کمر سے
یہ تار نکلتا ہے کوئی دل کے گہر سے

نالوں کے اثر سے مرے پھوڑا سا ہے پکتا
کیوں ریم سدا نکلے نہ آہن کے جگر سے
 

فرخ منظور

لائبریرین
اچھی غزل۔ مقطع بشہور مگر مبالغہ آمیز ہے۔ ان دو اشعار کو سمجھ نہ سکی۔۔۔ ہائے میری ہیچمدانی


ہم خوب ہیں واقف تری اندازِ کمر سے
یہ تار نکلتا ہے کوئی دل کے گہر سے

نالوں کے اثر سے مرے پھوڑا سا ہے پکتا
کیوں ریم سدا نکلے نہ آہن کے جگر سے

بہت شکریہ جویریہ! کیا یہ اشعار میں سمجھاؤں یا گزارہ ہو جائے گا؟ :)
 

فرخ منظور

لائبریرین
بس یہ بتا دیں کہ ریم کسے کہتے ہیں؟ اور تار نکلنا کونسا محاورہ ہے

ریم: پیپ یا پھوڑے کے پکے ہوئے مواد کو کہتے ہیں۔
گہر سے تار نکلنا میرے خیال میں جس طرح ایک تار میں گہر پروئے جاتے ہیں تو گہر سے تار نکلتا ہے۔ میرے خیال میں اسی کو کہا گیا ہے۔
 

فاتح

لائبریرین
اس غزل کا محض مقطع ہی سن رکھا تھا۔ مکمل غزل سے شناسائی کروانے پر آپ کا شکریہ!
 
Top