محترم اسا تیذ کرا م! السّلام علیکم۔
آپ کی ہدایات/تجاویز کی روشنی میں اصلاح کرنے کے بعد غزل دوبارہ ارسال ہے۔
اگر کہیں کوئی غلطی رہ گئی ہو تو بتا دیجیے گا۔ محترم وارث صاحب آپ نے بجا فرمایا یہ غزل جوانی میں ہی لکھی گئی تھی۔ اور آپ کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے وہ زعر بھی غزل سے حذف کر دیا ہے جس کی آپ نے نشان دہی فرمائی تھی
کاپی پیسٹ ملاحظہ فرمائیے:
شوق سے ہر جفا کیجیے
درد دل کا، سِوا کیجیے
یہ مرض وہ ہے، جس کی دوا
کچھ نہیں، بس دعا کیجیے
غیر سے کیجیے دوستی
ہم سے بھی تو ملا کیجیے
جو شکایت ہو میرے صنم
آپ ہم سے گِلہ کیجیے
آپ یوں لیجیے انتقام
ہو برا تو، بھلا کیجیے
دوستوں کو شکایت نہیں
دشمنوں سے وفا کیجیے
یہ رفُو کے بھی قابل نہیں
دل ہے راقم کا، کیا کیجیے
آپ کی ہدایات/تجاویز کی روشنی میں اصلاح کرنے کے بعد غزل دوبارہ ارسال ہے۔
اگر کہیں کوئی غلطی رہ گئی ہو تو بتا دیجیے گا۔ محترم وارث صاحب آپ نے بجا فرمایا یہ غزل جوانی میں ہی لکھی گئی تھی۔ اور آپ کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے وہ زعر بھی غزل سے حذف کر دیا ہے جس کی آپ نے نشان دہی فرمائی تھی
کاپی پیسٹ ملاحظہ فرمائیے:
شوق سے ہر جفا کیجیے
درد دل کا، سِوا کیجیے
یہ مرض وہ ہے، جس کی دوا
کچھ نہیں، بس دعا کیجیے
غیر سے کیجیے دوستی
ہم سے بھی تو ملا کیجیے
جو شکایت ہو میرے صنم
آپ ہم سے گِلہ کیجیے
آپ یوں لیجیے انتقام
ہو برا تو، بھلا کیجیے
دوستوں کو شکایت نہیں
دشمنوں سے وفا کیجیے
یہ رفُو کے بھی قابل نہیں
دل ہے راقم کا، کیا کیجیے
)۔ سرگوشیاں کرتی ہوئی غزل ہے ، خالصتاً کلاسیکی رویوں میں گندھی ہوئی ، مقطع کی بابت بابا جانی نے اشارہ کردیا ہے ، بحور کے نام کے بارے میں تو میں بالکل ہی کورا ہوں ، وارث صاحب آئیں تو ہمیں بھی معلوم ہوگا، کوئی ایسی بات نہیں غزل میں کہ معائب و محاسن کے نشتر لے کے جراحت کی جائے ، سو صمیمِ قلب سے مبارکباد ، گر قبول افتد زہے عزو شرف
