غالب غنچہء ناشگفتہ کو دُور سے مت دکھا کہ یُوں - غالب

کاشفی

محفلین
غنچہء ناشگفتہ کو دُور سے مت دکھا کہ یُوں
بوسے کو پوچھتا ہوں میں مُنہ سے مجھے بتا کہ یُوں

پُرسشِ طرزِ دلبری کیجئے کیا کہ بِن کہے
اس کے ہر اِک اشارے سے نکلے ہے یہ ادا کہ یُوں

رات کے وقت مَے پئے، ساتھ رقیب کو لئے
آئے وہ یاں خدا کرے پر نہ کرے خدا کہ یُوں

بزم میں اُس کے رُوبرو کیوں نہ خموش بیٹھئے
اُس کی تو خامشی میں بھی ہے یہی مُدعا کہ یُوں

میں نے کہا کہ "بزمِ ناز چاہئے غیر سے تہی"
سُن کے سِتم ظریف نے مجھ کو اُٹھا دیا کہ "یُوں"

(حضرت نجم الدولہ دبیر الملک مرزا اسد اللہ خاں غالب رحمتہ اللہ علیہ)
 

محمد وارث

لائبریرین
قبلہ و کعبہ کی روح ایک بار تو ضرور تڑپی ہوگی کاشفی صاحب یہ غزل دیکھ کر :) ٹائپنگ کی کافی غلطیاں ہیں، پہلے شعر میں 'بوسے لو' نہیں، بلکہ 'بوسے کو' ہے، 'مئے پئے' ہوئے والے شعر میں پہلا مصرع غلط ہے، (آپ کے) آخری شعر میں 'خیر سے تہی' نہیں بلکہ 'غیر سے تہی' ہے اور غزل نامکمل ہے۔

غنچۂ ناشگفتہ کو، دُور سے مت دکھا، کہ یُوں
بوسے کو پوچھتا ہوں میں، منہ سے مجھے بتا کہ یُوں

پُرسشِ طرزِ دلبری کیجئے کیا، کہ بن کہے
اُس کے ہر اک اشارے سے نکلے ہے یہ ادا کہ یُوں

رات کے وقت مَے پیے، ساتھ رقیب کو لیے
آئے وہ یاں خدا کرے، پر نہ کرے خدا کہ یُوں

غیر سے رات کیا بنی یہ جو کہا تو دیکھیے
سامنے آن بیٹھنا، اور یہ دیکھنا کہ یُوں

بزم میں اُس کے روبرو کیوں نہ خموش بیٹھیے
اُس کی تو خامشی میں بھی ہے یہی مدّعا کہ یُوں

میں نے کہا کہ بزمِ ناز چاہیے غیر سے تہی
سُن کے ستم ظریف نے مجھ کو اُٹھا دیا کہ یُوں

مجھ سے کہا جو یار نے، جاتے ہیں ہوش کس طرح
دیکھ کے میری بیخودی، چلنے لگی ہوا کہ یُوں

کب مجھے کوئے یار میں رہنے کی وضع یاد تھی
آئینہ دار بن گئی حیرتِ نقشِ پا کہ یُوں

گر ترے دل میں ہو خیال، وصل میں شوق کا زوال
موجِ محیطِ آب میں مارے ہے دست و پا کہ یُوں

جو یہ کہے کہ ریختہ، کیوں کہ ہو رشکِ فارسی
گفتۂ غالب ایک بار پڑھ کے اُسے سُنا کہ یُوں
 

کاشفی

محفلین
قبلہ و کعبہ کی روح ایک بار تو ضرور تڑپی ہوگی کاشفی صاحب یہ غزل دیکھ کر :) ٹائپنگ کی کافی غلطیاں ہیں، پہلے شعر میں 'بوسے لو' نہیں، بلکہ 'بوسے کو' ہے، 'مئے پئے' ہوئے والے شعر میں پہلا مصرع غلط ہے، (آپ کے) آخری شعر میں 'خیر سے تہی' نہیں بلکہ 'غیر سے تہی' ہے اور غزل نامکمل ہے۔

غنچۂ ناشگفتہ کو، دُور سے مت دکھا، کہ یُوں
بوسے کو پوچھتا ہوں میں، منہ سے مجھے بتا کہ یُوں

پُرسشِ طرزِ دلبری کیجئے کیا، کہ بن کہے
اُس کے ہر اک اشارے سے نکلے ہے یہ ادا کہ یُوں

رات کے وقت مَے پیے، ساتھ رقیب کو لیے
آئے وہ یاں خدا کرے، پر نہ کرے خدا کہ یُوں

غیر سے رات کیا بنی یہ جو کہا تو دیکھیے
سامنے آن بیٹھنا، اور یہ دیکھنا کہ یُوں

بزم میں اُس کے روبرو کیوں نہ خموش بیٹھیے
اُس کی تو خامشی میں بھی ہے یہی مدّعا کہ یُوں

میں نے کہا کہ بزمِ ناز چاہیے غیر سے تہی
سُن کے ستم ظریف نے مجھ کو اُٹھا دیا کہ یُوں

مجھ سے کہا جو یار نے، جاتے ہیں ہوش کس طرح
دیکھ کے میری بیخودی، چلنے لگی ہوا کہ یُوں

کب مجھے کوئے یار میں رہنے کی وضع یاد تھی
آئینہ دار بن گئی حیرتِ نقشِ پا کہ یُوں

گر ترے دل میں ہو خیال، وصل میں شوق کا زوال
موجِ محیطِ آب میں مارے ہے دست و پا کہ یُوں

جو یہ کہے کہ ریختہ، کیوں کہ ہو رشکِ فارسی
گفتۂ غالب ایک بار پڑھ کے اُسے سُنا کہ یُوں

شکریہ محمد وارث صاحب۔۔۔ :) بوسے لو۔۔۔۔۔ہا ہا ۔۔شکریہ بہت بہت تصیح کے لیئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آئندہ غلطی سے اجتناب کرونگا۔۔۔
 
Top