وحدت الوجود کیا ہے؟

نظامی صاحب یہ بھی مطالعہ کیجئے گا کہ تصوّف کی اصل اور بنیاد یونانی اور ہنود کا فلسفہ ہے۔
جناب سخنور صاحب اس سلسلے میں آپ فتوحات مکیہ از شیخ اکبر محی الدین ابن عربی کا مطالعہ فرمائے، جس میں آپ نے یہ واضح فرمایا ہے کہ فلسفی یا کوئی بھی کبھی مکمل طور پر غلط نہیں ہوتا اس کی بات میں کچھ درستگی ہوتی ہے اور کچھ غلطی ہوتی ہے اسی طرح جب اس صوفی کو کشف سے کچھ ایسی بات معلوم ہوتی ہے جو عقل کے موافق ہوتی ہے یا اس جیسا کلام کسی بھی فلسفی نے کہا ہوتا ہے اور یہ بات شریعت کے خلاف بھی نہیں تو اس بارے میں یہ گمان نہیں کرنا چاہیے کہ یہ بات چونکہ فلاں فلسفی نے کہی ہے تو اس صوفی نے بھی لازما اسی سے اخذ کی ہو گی اور وہ چونکہ کافر تھا تو یہ صوفی بھی کافر ہے۔ بلکہ اس بات پر غور کرنا چاہیے ؛ اگر تو وہ دین کے کسی اصول سے متصادم نہیں تو اسے جائز کے درجے میں رکھنا چاہیے۔ صوفیا کے اوپر یہ الزام لگانا کہ انہوں نے یہ سب کچھ کسی غیر مذہب سے حاصل کیا ہے یہ حقائق سے چشم پوشی کے مترادف ہے۔
تفصیلات : فتوحات مکیہ میں دیکھ لیں۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
جناب سخنور صاحب اس سلسلے میں آپ فتوحات مکیہ از شیخ اکبر محی الدین ابن عربی کا مطالعہ فرمائے، جس میں آپ نے یہ واضح فرمایا ہے کہ فلسفی یا کوئی بھی کبھی مکمل طور پر غلط نہیں ہوتا اس کی بات میں کچھ درستگی ہوتی ہے اور کچھ غلطی ہوتی ہے اسی طرح جب اس صوفی کو کشف سے کچھ ایسی بات معلوم ہوتی ہے جو عقل کے موافق ہوتی ہے یا اس جیسا کلام کسی بھی فلسفی نے کہا ہوتا ہے اور یہ بات شریعت کے خلاف بھی نہیں تو اس بارے میں یہ گمان نہیں کرنا چاہیے کہ یہ بات چونکہ فلاں فلسفی نے کہی ہے تو اس صوفی نے بھی لازما اسی سے اخذ کی ہو گی اور وہ چونکہ کافر تھا تو یہ صوفی بھی کافر ہے۔ بلکہ اس بات پر غور کرنا چاہیے ؛ اگر تو وہ دین کے کسی اصول سے متصادم نہیں تو اسے جائز کے درجے میں رکھنا چاہیے۔ صوفیا کے اوپر یہ الزام لگانا کہ انہوں نے یہ سب کچھ کسی غیر مذہب سے حاصل کیا ہے یہ حقائق سے چشم پوشی کے مترادف ہے۔
تفصیلات : فتوحات مکیہ میں دیکھ لیں۔

قبلہ ہم تو کسی کو بھی غلط نہیں کہتے ۔ ہم نے تو یہ عرض کی تھی کہ تصوف کی اصل اور بنیاد بہت مضبوظ فلسفوں پر رکھی گئی ہے۔ یعنی ہنود اور یونانی فلسفہ اور یہاں کے فلسفیوں نے پوری دنیا کے فلاسفر کو متاثر کیا ہے۔
 

قبلہ ہم تو کسی کو بھی غلط نہیں کہتے ۔ ہم نے تو یہ عرض کی تھی کہ تصوف کی اصل اور بنیاد بہت مضبوظ فلسفوں پر رکھی گئی ہے۔ یعنی ہنود اور یونانی فلسفہ اور یہاں کے فلسفیوں نے پوری دنیا کے فلاسفر کو متاثر کیا ہے۔
آپ پھر وہی بات کہہ رہے ہیں جو کہ تصوف سے ہی متصادم ہے اس کی بنیاد ہونا تو دور کی بات۔ تصوف کی اصل کشف، مشاہدہ، تجلیات اور مبشرات سے ظاہر اسرار پر ہے (بشرطیکہ یہ سب چیزیں شریعت سے متصادم نہ ہوں) نہ کہ کسی فلسفے پر۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
آپ پھر وہی بات کہہ رہے ہیں جو کہ تصوف سے ہی متصادم ہے اس کی بنیاد ہونا تو دور کی بات۔ تصوف کی اصل کشف، مشاہدہ، تجلیات اور مبشرات سے ظاہر اسرار پر ہے (بشرطیکہ یہ سب چیزیں شریعت سے متصادم نہ ہوں) نہ کہ کسی فلسفے پر۔

ہزار نکتہ باریک تر ز مو اینجاست
نہ ہر کہ سر بتراشد قلندری داند
(حافظ شیرازی)

ترجمہ
اس مقام میں ہزارہا نکتے ہیں جو بال سے بھی باریک ہیں
صرف سر منڈانے سے قلندری نہیں آتی

غلامِ ہمت آں رندِ عافیت سوزم
کہ در گدا صفتی کیمیا گری داند

اس رندِ عافیت سوز کی ہمت (توجہ) کا غلام ہوں
کہ فقیری کی صفت کے ساتھ کیمیا گری جانتا ہے

بشکریہ الف نظامی صاحب
 

رضا

معطل
پہلے تو یہ عرض کرنا چاہوں کہ
خاصاں‌ دی گل عاماں‌ اگے نہیں‌ مناسب کرنی
مٹھی کھیر پکا محمد۔ کتیاں اگے ترنی

اولیاء اللہ کے نزدیک وحدت الوجود کے جو معانی لئے جاتے ہيں۔وہ بالکل حق ہیں۔
ہو سکتا ہے کہ اس مسئلہ کو سمجھ نہ سکیں اور کفر میں‌ پڑ جائیں۔
اس لئے مناسب نہیں کہ ایسا کوئي بھی مسئلہ عوام کے سامنے بیان کیا جائے جس سے ان کو تشویش ہو۔یا ان کی اس تشویش کو دور کرنے والا موجود ہو۔
 

رضا

معطل
وحدت‌ الوجود کیا ہے؟؟

موجود واحد ہے نہ وہ واحد جو چند ( ابعاض واجزاء) سے مل کر مرکب ہوا ( اورشے واحد کا نام اس پر رواٹھہرا) نہ وہ واحد جو چند کی طرف تحلیل پائے ( جیسا کہ انسانِ واحد یا شَے واحد کہ گوشت پوست و خون واستخوان وغیرہا اجزاء وابعاض سے ترکیب پا کر مرکب ہوا اور ایک کہلایا اور اس کی تحلیل و تجزی اور تجزیہ، انہیں اعضاء واجزاء وابعاض کی طرف ہوگا جن سے اس نے ترکیب پائی اور مرکب کہلایا کہ یہی جسم کی شان ہے، اور ذاتِ باری تعالٰی عزشانہ جسم و جسمانیات سے پاک و منزہ ہے۔) نہ وہ واحد جو بہ تہمت حلول عینیّت ( کہ اس کی ذات قدسی صفات پر یہ تہمت لگائی جائے کہ وہ کسی چیز میں حلول کیے ہوئے یا اس میں سمائی ہوئی ہے یا کوئی چیز ا سکی ذاتِ احدیت میں حلول کیے ہوئے اور اس میں پیوست ہے اور یوں معاذ اﷲ وہ) اوجِ وحدت ( وحدانیت و یکتائی کی رفعتوں ) سے حضیض اثنینیت (دوئی اور اشتراک کی پستیوں) میں اتر آئے۔ھوولاموجود الا ھو آیۃ کریمہ سبحانہ وتعالٰی عمّا یشرکون ۔۱؂ ( پاکی اور برتری ہے اسے ان شریکوں سے ) جس طرحشرک فی الالوہیتکو رَد کرتی ہے۔( اور بتاتی ہے کہ خداوند قدوس کی خدائی اور اس معبود برحق کی الوہیت وربوبیت میں کوئی شریک نہیں۔ھوالذی فی السماء الٰہ فی الارض الہ ۔۲؂وہی آسمان والوں کا خدا اور وہی زمین والوں کا خدا، تو نفسِ الوہیت وربوبیت میں کوئی اس کا شریک کیا ہوتا، اس کی صفاتِ کمال میں بھی کوئی اس کا شریک نہیں ۔لیس کمثلہ شیئ ۔۳؂اس جیسا کوئی نہیں) ( ۱ ؎ القرآن الکریم ۳۰/ ۴۰)( ۲ ؎ القرآن الکریم ۴۳/ ۸۴)( ۳ ؎ القرآن الکریم ۴۲/ ۱۱)

یونہی ( یہ آیۃ کریمہ )اشتراک فی الوجودکی نفی فرماتی ہے( تو اس کی ذات بھی منزّہ اوراس کی تمام صفات کمال بھی مبرا ان تمام نالائق امور سے جو اہلِ شرک وجاہلیت اس کی جانب منسوب کرتے ہیں۔ حق یہ ہے کہ وجود اسی ذات برحق کے لیے ہے، باقی سب ظلال وپر تو ؎غیرتش غیر درجہاں نہ گزاشت لاجرم عین جملہ معنی شد ( اور وحدت الوجود کے جتنے معنی اور جس قدر مفاہیم عقل میں آسکتے ہیں وہ یہی ہیں کہ وجود واحد، موجود واحد، باقی سب اسی کے مظاہر اور آئینے کہ اپنی حدِ ذات میں اصلاً وجود و ہستی سے بہرہ نہیں رکھتے ، اور حاش ثم حاش یہ معنی ہر گز نہیں کہ من و تو، ماوشما ، این وآں ، ہر شَے خدا ہے، یہ اہلِ اتحاد کا قول ہے جو ایک فرقہ کافروں کا ہے۔ اور پہلی بات مذہب ہے اہلِ توحید کا، کہ اہلِ اسلام وہ صاحبِ ایمان حقیقی ہیں)
(فتاوی رضویہ،جلد 29،صفحہ 339-345،سوفٹوئیر کا صفحہ-55
 

رضا

معطل
عقیدہ اُولٰی________________ذات و صفات باری تعالٰی

حضرت حق سبحانہ و تبارک و تعالٰی شانہ واحد ہے۔(اپنی ربوبیت والوہیت میں، کوئی اس کا شریک نہیں، وہ یکتا ہے اپنے افعال میں، مصنوعات کو تنہا اسی نے بنایا۔ وہ اکیلا ہے اپنی ذات میں کوئی اس کا قسیم نہیں۔ بیگانہ ہے اپنی صفات میں۔ کوئی اس کا شبیہ نہیں۔ ذات و صفات میں یکتا و واحد مگر ) (عہ۱) نہ عدد سے ( کہ شمار و گنتی میں آسکے اور کوئی اس کا ہم ثانی و جنس کہلاسکے تو اﷲ کے ساتھ، اس کی ذات و صفات میں،شریک کا وجود ، محض وہم انسانی کی ایک اختراع وایجاد ہے)

عہ: عرضِ مرتّب : امام اہلسنت امام احمد رضا خاں صاحب قادری برکاتی بریلوی قدس سرہ کے رسالہ مبارکہ اعتقادلاحباب کی زیارت و مطالعہ سے یہ فقیر جب پہلی بار حال ہی میں شرفیاب ہوا تو معاً خیال آیا کہ بتوفیقہ تعالٰی اسے نئی ترتیب اور اجمالی تفصیل کے ساتھ عامۃ الناس تک پہنچایا جائے تو ان شاء اﷲ تعالٰی اس سے عوام بھی فیض پائیں ۔ نصرت الہٰی کے بھروسا پر قدم اٹھایا اور بفیضانِ اساتذہ کرام نہایت قلیل مدت میں اپنی مصروفیات کے باوجود کامیابی سے سرفراز ہوا۔
میں اپنے مقصد میں کہاں تک کامیاب ہوا، اس کا فیصلہ آپ کریں گے، اور میری کوتاہ فہمی و قصور علمی آپ کے خیال مبارک میں آئے تو اس سے اس ہمیچمداں کو مطلع فرمائیں گے۔
اور اس حقیقت کے اظہار میں یہ فقیر فخر محسوس کرتا ہے کہ اس رسالہ مبارکہ میں حاشیے بین السطور اور تشریح مطالب ( جو اصل عبارت سے جدا، قوسین میں محدود ہے، اور اصل عبارت خط کشیدہ) جو کچھ پائیں گے وہ اکثر و بیشتر مقامات پر اعلٰیحضرت قدس سرہ ہی کے کتب ورسائل اور حضرت استاذی و استاذ العلماء صدرالشریعۃ مولنٰا الشاہ امجد علی قادری برکاتی رضوی اعظمی رحمۃ اﷲ علیہ کی مشہورِ زمانہ کتاب بہارِ شریعت سے ماخوذ ملتقط ہے۔
امید ہے کہ ناظرین کرام اس فقیر کو اپنی دعائے خیر میں یاد فرماتے رہیں گے کہ سفرِ آخرت درپیش ہے اور یہ فقیر خالی ہاتھ ، خالی دامن، بس ایک انہیں کا سہارا ہے اور ان شاء اﷲ تعالٰی وہی بگڑی بنائیں گے ورنہ ہم نے تو کمائی سب عیبوں میں گنوائی ہے۔ والسلام،
العبدمحمد خلیل خاں قادری البرکاتی المارہروی عفی عنہ۔

خالق ہے۔ ( ہر شے کا، ذوات ہوں خواہ افعال، سب اسی کے پیدا کئے ہوئے ہیں) نہ علت سے ( اس کے افعال نہ علت و سبب کے محتاج ، نہ اس کے فعل کے لیے کوئی غرض ، کہ غرض اس فائدہ کو کہتے ہیں جو فاعل کی طرف رجوع کرے اور نہ اس کے افعال کے لیے غایت ، کہ غایت کا حاصل بھی وہی غرض ہے۔ فعال ہے( ہمیشہ جو چاہے کرلینے والا) نہ جوارح ( وآلات) سے ( جب کہ انسان اپنے ہر کام میں اپنے جوارح یعنی اعضائے بدن کا محتاج ہے۔ مثلاً علم کے لیے دل و دماغ کا۔ دیکھنے اور سننے کے لیے آنکھ ، کان کا، لیکن خداوند قدوس کہ ہر پست سے پست آواز کو سنتا اور ہر باریک سے باریک کو کہ خوردبین سے محسوس نہ ہو دیکھتا ہے، مگر کان آنکھ سے اس کا سننا دیکھنا اور زبان سے کلام کرنا نہیں کہ یہ سب اجسام ہیں۔ اور جسم و جسمانیت سے وہ پاک) قریب ہے۔( اپنے کمالِ قدرت و علم ورحمت سے) نہ (کہ) مسافت سے( کہ اس کا قرب ماپ و پیمائش میں سما سکے) ملک ( وسلطان و شہنشاہ زمین و آسمان ) ہے مگر بے وزیر ( جیسا کہ سلاطین دنیا کے وزیر باتدبیر ہوتے ہیں کہ اس کے امورِ سلطنت میں اس کا بوجھ اٹھاتے اور ہاتھ بٹاتے ہیں۔) والی ( ہے۔ مالک و حاکم علی الاطلاق ہے۔ جو چاہے اور جیسا چاہے کرے مگر) بے مشیر ( نہ کوئی اس کو مشورہ دینے والا۔ نہ وہ کسی کے مشورہ کا محتاج، نہ کوئی اس کے ارادے سے اسے باز رکھنے والا۔ ولایت، ملکیت ، مالکیت ، حاکمیت، کے سارے اختیارات اسی کو حاصل، کسی کو کسی حیثیت سے بھی اس ذات پاک پر دسترس نہیں، ملک و حکومت کا حقیقی مالک کہ تمام موجودات اس کے تحتِ ملک و حکومت ہیں، اور اس کی مالکیت و سلطنت دائمی ہے جسے زوال نہیں) حیات و کلام و سمع و بصر و ارادہ و قدرت و علم ( کہ اس کے صفات ذاتیہ ہیں اور ان کے علاوہ تکوین و تخلیق و رزاقیت یعنی مارنا، جِلانا، صحت دنیا، بیمار کرنا، غنی کرنا، فقیر کرنا، ساری کائنات کی ترتیب فرمانا اور ہر چیز کو بتدریج اس کی فطرت کے مطابق کمالِ مقدار تک پہنچانا، انہیں ان کے مناسبِ احوال روزی رزق مہیا کرنا) وغیرہا( صفات جن کا تعلق مخلوق سے ہے اور جنہیں صفاتِ اضافیہ اور صفاتِ فعلیہ بھی کہتے ہیں اور جنہیں صفات تخلیق و تکوین کی تفصیل سمجھنا چاہیے ، اور صفاتِ سلبیہ یعنی وہ صفات جن سے اللہ تعالٰی کی ذات منزہ اور مبرّا ہے، مثلاً وہ جاہل نہیں عاجز نہیں، بے اختیار و بے بس نہیں، کسی کے ساتھ متحد نہیں جیسا کہ برف پانی میں گھل کر ایک ہوجاتا ہے، غرض وہ اپنی صفاتِ ذاتیہ ، صفاتِ اضافیہ اور صفات سلبیہ) تمام صفات کمال سے ازلاً ابداً موصوف ( ہے، اور جس طرح اس کی ذات قدیم ازلی ابدی ہے اس کی تمام صفات بھی قدیم ازلی ابدی ہیں، اور ذات و صفات باری تعالٰی کے سوا سب چیزیں حادث و نوپید، یعنی پہلے نہ تھیں پھر موجود ہوئیں، صفات الہٰی کو جو مخلوق کہے یا حادث بتائے گمراہ بے دین ہے۔ اس کی ذات و صفات) تمام شیون ( تمام نقائص تمام کوتاہیوں سے) وشین و عیب ( ہر قسم کے نقص ونقصان) سے اوّلاً و آخراً بری( کہ جب وہ مجتمع ہے تمام صفات کمال کا جامع ہے ہر کمال و خوبی کا، تو کسی عیب کسی نقص، کسی کوتاہی کا اس میں ہونا محال، بلکہ جس بات میں نہ کمال ہو نہ نقصان وہ بھی اس کے لیے محال)

ذات پاک اس کی نِدّوضد ( نظیر و مقابل) شبیہ و مثل ( مشابہ و مماثل ) کیف و کم ( کیفیت و مقدار) شکل و جسم و جہت و مکان و امد (غایت وانتہا اور) زمان سے منزّہ ( جب عقیدہ یہ ہے کہ ذات باری تعالٰی قدیم ازلی ابدی ہے اور اس کی تمام صفات بھی قدیم ازلی ابدی ہیں تو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ وہ ان تمام چیزوں سے جو حادث ہیں یا جن میں مکانیت ہے یعنی ایک جگہ سے دوسری طرف نقل و حرکت ، یا ان میں کسی قسم کا تغیر پایا جانا، یا اس کے اوصاف کا متغیر ہونا، یا اس کے اوصاف کا مخلوق کے اوصاف کے مانند ہونا، یہ تمام امور اس کے لیے محال ہیں ، یا یوں کہئے کہ ذاتِ باری تعالٰی ان تمام حوادث وحوائج سے پاک ہے جو خاصہ بشریت ہیں) نہ والد ہے نہ مولود ( نہ وہ کسی کا باپ ہے نہ کسی کا بیٹا، کیونکہ کوئی اس کا مجالس وہم جنس نہیں، اور چونکہ وہ قدیم ہے اور پیدا ہونا حادث و مخلوق کی شان ) نہ کوئی شے اس کے جوڑ کی ( یعنی کوئی اس کا ہمتا کوئی اس کا عدیل نہیں۔ مثل و نظیر و شبیہ سے پاک ہے اور اپنی ربوبیت والوہیت میں صفاتِ عظمت و کمال کے ساتھ موصوف)

اور جس طرح ذات کریم اس کی، مناسبتِ ذوات سے مبّرا اسی طرح صفاتِ کمالیہ اس کی ، مشابہت صفات سے معرّا ( اس کا ہر کمال عظیم اور ہر صفت عالٰی، کوئی مخلوق کیسی ہی اشرف و اعلٰی ہو اس کی شریک کسی حیثیت سے ، کسی درجہ میں نہیں ہوسکتی)

مسلمان پرلا الہٰ الاّ اﷲماننا،اﷲ سبحانہ وتعالٰیکو احد، صمد، لاشریک لہ جاننا فرض اول و مدار ایمان ہے کہ اﷲ ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں، نہ ذات میں کہلا الٰہ الا اﷲ ( اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں) نہ صفات میں کہلیس کمثلہ شیئ ۔۱؂اس جیسا کوئی نہیں، نہ اسماء میں کہھل تعلم لہ سمیّا ۔۲؂کیا اس کے نام کا دوسرا جانتے ہو؟ نہ احکام میں کہولا یشرک فی حکمہ احدا ۔۳؂اور وہ اپنے حکم میں کسی کو شریک نہیں کرتا، نہ افعال میں کہھل من خالق غیر اﷲ ۔۴؂کیا اﷲ کے سوا کوئی اور خالق ہے، نہ سلطنت میں کہولم یکن لہ شریک فی الملک ۔۵؂اور بادشاہی میں کوئی اس کا شریک نہیں، تو جس طرح اس کی ذات اور ذاتوں کے مشابہ نہیں یونہی اس کی صفات بھی صفاتِ مخلوق کے مماثل نہیں۔

( ۱ ؎ القرآن الکریم ۴۲/ ۱۱ )( ۲ ؎القرآن الکریم ۱۹/ ۶۵)( ۳ ؎القرآن الکریم ۱۸/ ۲۶ )( ۴ ؎ القرآن الکریم ۳۵/ ۳)( ۵ ؎القرآن الکریم ۲۵/ ۲)

اور یہ جو ایک ہی نام کا اطلاق اس پر اور اس کی کسی مخلوق پر دیکھا جاتا ہے جیسے علیم ، حکیم، کریم ، سمیع ، بصیر اور ان جیسے اور، تو یہ محض لفظی موافقت ہے نہ کہ معنوی شرکت، اس میں حقیقی معنی میں کوئی مشابہت نہیں ولہذا مثلاً) اوروں کے علم وقدرت کو اس کے علم وقدرت سے ( محض لفظی یعنی) فقط ع ، ل، م، ق، د، ر، ت میں مشابہت ہے۔(نہ کہ شرکت معنوی) اس (صوری و لفظی موافقت) سے آگے ( قدم بڑھے تو) اس کی تعالٰی وتکبّر (برتری و کبریائی ) کا سرا پردہ کسی کو بار نہیں دیتا۔( اور کوئی اس شاہی بارگاہ کے اردگرد بھی نہیں پہنچ سکتا۔

پرندہ وہاں پر نہیں مارسکتا کوئی اس میں دخل انداز نہیں) تمام عزتیں اس کے حضور پست (فرشتے ہوں یا جِن یا انسان یا اور کوئی مخلوق ، کوئی بھی اس سے بے نیاز نہیں، سب اس کے فضل کے محتاج ہیں، اور زبانِ حال وقال سے اپنی پستیوں ، اپنی احتیاجوں کے معترف اور اس کے حضور سائل ، اس کی بارگاہِ میں ہاتھ پھیلائے ہوئے ، اور ساری مخلوقات چاہے ، وہ زمینی ہوں یا آسمانی اپنی اپنی حاجتیں اور مرادیں اسی حق تعالٰی سے طلب کرتی ہیں) اور سب ہستیاں اس کے آگے نیست ( نہ کوئی ہستی ہستی ، نہ کوئی وجود وجود)

کل شیئ ھالک الاّوجھہ ۔۱؂ ( بقا صرف اس کی وجہ کریم کے لیے ہے باقی سب کے لیے فنا، باقی باقی، باقی فانی)

( ۱ ؎ القرآن الکریم ۲۸/ ۸۸)

وجود واحد ( اسی حّی وقیوم ازلی ابدی کا) موجود واحد ( وہی ایک حی و قیوم ازلی ابدی) باقی سب اعتبارات ہیں (اعتبار کیجئے تو موجود ورنہ محض معدوم) ذراتِ اکوان ( یعنی موجودات کے ذرہ ذرہ) کو اس کی ذات سے ایک نسبت مجہولۃ الکیف ہے۔(نامعلوم الکیفیت) جس کے لحاظ سے من و تو ( ماوشماو ایں وآں) کو موجود و کائن کہا جاتا ( اور ہست و بود سے تعبیر کیا جاتا) ہے۔ ( اگر اس نسبت کا قدم درمیان سے اٹھالیں۔ ہست، نیست اور بود، نابود ہوجائے، کسی ذرہ موجود کا وجود نہ رہے کہ اس پر ہستی کا اطلاق ) روا ہو۔ ) اور اس کے آفتاب وجود کا ایک پر تو ( ایک ظل، ایک عکس، ایک شعاع ہے کہ کائنات کا ہر ذرّہ نگاہِ ظاہر میں جلوہ آرائیاں کررہا ہے۔ ( اور اس تماشا گاہِ عالم کے ذرہ ذرہ سے اس کی قدرتِ کاملہ کے جلوے ہویدا ہیں) اگر اس نسبت و پرتو سے ( کہ ہر ذرہ کون و مکان کو اس آفتاب و جود حقیقی سے حاصل ہے) قطع نظر کی جائے ( اور ایک لحظہ کو اس سے نگاہ ہٹالی جائے ) تو عالم ایک خوابِ پریشان کا نام رہ جائے، ہو کا میدان عدمِ بحت کی طرح سنسان ( محض معدوم و یکسر و یران ، تو مرتبہ وجود میں صرف ایک ذاتِ حق ہے باقی سب اسی کے پر تو وجود سے موجود ہیں، مرتبہ کون میں نور ابدی آفتاب ہے، اور تمام عالم اس کے آئینے اس نسبتِ فیضان کا قدم، درمیان سے نکال لیں تو عالم دفعۃً فنائے محض ہوجائے کہ اسی نور کے متعدد پرتووں نے بے شمار نام پائے ہیں، ذات باری تعالٰی واحد حقیقی ہے، تغیرو اختلاف کو اصلاً اس کے سرا پر دہ عزت کے گرد بار نہیں۔ پر مظاہر کے تعدد سے یہ مختلف صورتیں، بے شمار نام، بے حساب آثار پیداہیں، نورِاحدیت کی تابش غیر محدود ہے۔ اور چشم جسم و چشم عقل دونوں وہاں نابینا ہیں، اور اس سے زیادہ بیان سے باہر، عقل سے وراء ہے۔)

موجود واحد ہے نہ وہ واحد جو چند ( ابعاض واجزاء) سے مل کر مرکب ہوا ( اورشے واحد کا نام اس پر رواٹھہرا) نہ وہ واحد جو چند کی طرف تحلیل پائے ( جیسا کہ انسانِ واحد یا شَے واحد کہ گوشت پوست و خون واستخوان وغیرہا اجزاء وابعاض سے ترکیب پا کر مرکب ہوا اور ایک کہلایا اور اس کی تحلیل و تجزی اور تجزیہ، انہیں اعضاء واجزاء وابعاض کی طرف ہوگا جن سے اس نے ترکیب پائی اور مرکب کہلایا کہ یہی جسم کی شان ہے، اور ذاتِ باری تعالٰی عزشانہ جسم و جسمانیات سے پاک و منزہ ہے۔) نہ وہ واحد جو بہ تہمت حلول عینیّت ( کہ اس کی ذات قدسی صفات پر یہ تہمت لگائی جائے کہ وہ کسی چیز میں حلول کیے ہوئے یا اس میں سمائی ہوئی ہے یا کوئی چیز ا سکی ذاتِ احدیت میں حلول کیے ہوئے اور اس میں پیوست ہے اور یوں معاذ اﷲ وہ) اوجِ وحدت ( وحدانیت و یکتائی کی رفعتوں ) سے حضیض اثنینیت (دوئی اور اشتراک کی پستیوں) میں اتر آئے۔ھوولاموجود الا ھو آیۃ کریمہ سبحانہ وتعالٰی عمّا یشرکون ۔۱؂ ( پاکی اور برتری ہے اسے ان شریکوں سے ) جس طرحشرک فی الالوہیتکو رَد کرتی ہے۔( اور بتاتی ہے کہ خداوند قدوس کی خدائی اور اس معبود برحق کی الوہیت وربوبیت میں کوئی شریک نہیں۔ھوالذی فی السماء الٰہ فی الارض الہ ۔۲؂وہی آسمان والوں کا خدا اور وہی زمین والوں کا خدا، تو نفسِ الوہیت وربوبیت میں کوئی اس کا شریک کیا ہوتا، اس کی صفاتِ کمال میں بھی کوئی اس کا شریک نہیں ۔لیس کمثلہ شیئ ۔۳؂اس جیسا کوئی نہیں) ( ۱ ؎ القرآن الکریم ۳۰/ ۴۰)( ۲ ؎ القرآن الکریم ۴۳/ ۸۴)( ۳ ؎ القرآن الکریم ۴۲/ ۱۱)

یونہی ( یہ آیۃ کریمہ )اشتراک فی الوجودکی نفی فرماتی ہے( تو اس کی ذات بھی منزّہ اوراس کی تمام صفات کمال بھی مبرا ان تمام نالائق امور سے جو اہلِ شرک وجاہلیت اس کی جانب منسوب کرتے ہیں۔ حق یہ ہے کہ وجود اسی ذات برحق کے لیے ہے، باقی سب ظلال وپر تو ؎غیرتش غیر درجہاں نہ گزاشت لاجرم عین جملہ معنی شد ( اور وحدت الوجود کے جتنے معنی اور جس قدر مفاہیم عقل میں آسکتے ہیں وہ یہی ہیں کہ وجود واحد، موجود واحد، باقی سب اسی کے مظاہر اور آئینے کہ اپنی حدِ ذات میں اصلاً وجود و ہستی سے بہرہ نہیں رکھتے ، اور حاش ثم حاش یہ معنی ہر گز نہیں کہ من و تو، ماوشما ، این وآں ، ہر شَے خدا ہے، یہ اہلِ اتحاد کا قول ہے جو ایک فرقہ کافروں کا ہے۔ اور پہلی بات مذہب ہے اہلِ توحید کا، کہ اہلِ اسلام وہ صاحبِ ایمان حقیقی ہیں)
(فتاوی رضویہ،جلد 29،صفحہ 339-345،سوفٹوئیر کا صفحہ-55 )
 

خلیل بہٹو

محفلین
آپ پھر وہی بات کہہ رہے ہیں جو کہ تصوف سے ہی متصادم ہے اس کی بنیاد ہونا تو دور کی بات۔ تصوف کی اصل کشف، مشاہدہ، تجلیات اور مبشرات سے ظاہر اسرار پر ہے (بشرطیکہ یہ سب چیزیں شریعت سے متصادم نہ ہوں) نہ کہ کسی فلسفے پر۔

آخر ان کشف، باطنی علوم، تجلیات اور مشاہدات کی اصل کیا ہے؟ وہ کونسے باطنی علوم تھے، جن کا علم نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں دیا گیا۔ اگر ایسا ہوتا تو یقینا آپ صہ ہمیں اس سے ضرور آگاہ کرتے۔
 

arifkarim

معطل
آخر ان کشف، باطنی علوم، تجلیات اور مشاہدات کی اصل کیا ہے؟ وہ کونسے باطنی علوم تھے، جن کا علم نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں دیا گیا۔ اگر ایسا ہوتا تو یقینا آپ صہ ہمیں اس سے ضرور آگاہ کرتے۔

ان مشاہدات، کشف، تجلیات احوال اور اسرار کی اصل دین محمدی –جس کو شیخ اکبر اپنی کتاب ذخائر الاعلاق فی شرح ترجمان الاشواق میں ”دین محبت“ بھی کہتے ہیں اور کہتے ہیں (ادین بدین الحب) میں دین محبت کا پیروکار ہوں – پر اُس طریق پر عمل کرنا ہے جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت سے ایک انچ بھی دائیں بائیں نہ ہو۔ بھائی مجھے تو آپ کے اس سوال پر ہی حیرت ہو رہی ہے کہ آپ نے یہ سوچا کیسے ؟ جبکہ شیخ اکبر کے نزدیک تو حقیقت محمدی ہی وہ اصل ہے جس اس تمام جہان کی تخلیق ہوئی، مزید تفصیل کے لئے ”کتاب الباء“ اور ”علو الحقیقۃ المحمدیۃ“ ملاحظہ ہو۔ جہاں تک حضورﷺ کا اس سے آپ کو آگاہ کرنے کی بات ہے تو جناب جو لوگ اس کے اہل تھے ان کو حضور ﷺ نے ضرور ان سے آگاہ کیا۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ – جو شہر علم کا دروازہ ہیں – سے مروی ہے کہ آپ اپنے سینے پر ہاتھ مار کر کہا کرتے تھے کہ یہاں ایک بہت بڑا خزانہ ہے کاش میں اسے کوئی اٹھانے والا (مطلب اہل) پاتا۔ حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا میں نے حضور ﷺ سے دو تھیلیاں حاصل کئیں، ایک میں نے تم میں پھیلا دی اور اگر میں دوسری کے بارے میں بھی ایسا ہی کرتا تو میرا گلا کٹ چکا ہوتا۔ اور آپ کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ یہ آگاہی کبھی رکی نہیں آج بھی اللہ اپنے ولیوں (دوستوں) کو وہ سب کچھ بتاتا ہے جو وہ بتانا چاہتا ہے۔ اب اگر آپ ان کے اہل میں سے نہیں تو یہ خیال مت کیجئے کہ ایسا کوئی علم ہے ہی نہیں اور یہ سب تو ہنود اور یونانیوں کا فلسفہ ہے۔
 

خلیل بہٹو

محفلین
ان مشاہدات، کشف، تجلیات احوال اور اسرار کی اصل دین محمدی –جس کو شیخ اکبر اپنی کتاب ذخائر الاعلاق فی شرح ترجمان الاشواق میں ”دین محبت“ بھی کہتے ہیں اور کہتے ہیں (ادین بدین الحب) میں دین محبت کا پیروکار ہوں – پر اُس طریق پر عمل کرنا ہے جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت سے ایک انچ بھی دائیں بائیں نہ ہو۔ بھائی مجھے تو آپ کے اس سوال پر ہی حیرت ہو رہی ہے کہ آپ نے یہ سوچا کیسے ؟ جبکہ شیخ اکبر کے نزدیک تو حقیقت محمدی ہی وہ اصل ہے جس اس تمام جہان کی تخلیق ہوئی، مزید تفصیل کے لئے ”کتاب الباء“ اور ”علو الحقیقۃ المحمدیۃ“ ملاحظہ ہو۔ جہاں تک حضورﷺ کا اس سے آپ کو آگاہ کرنے کی بات ہے تو جناب جو لوگ اس کے اہل تھے ان کو حضور ﷺ نے ضرور ان سے آگاہ کیا۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ – جو شہر علم کا دروازہ ہیں – سے مروی ہے کہ آپ اپنے سینے پر ہاتھ مار کر کہا کرتے تھے کہ یہاں ایک بہت بڑا خزانہ ہے کاش میں اسے کوئی اٹھانے والا (مطلب اہل) پاتا۔ حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا میں نے حضور ﷺ سے دو تھیلیاں حاصل کئیں، ایک میں نے تم میں پھیلا دی اور اگر میں دوسری کے بارے میں بھی ایسا ہی کرتا تو میرا گلا کٹ چکا ہوتا۔ اور آپ کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ یہ آگاہی کبھی رکی نہیں آج بھی اللہ اپنے ولیوں (دوستوں) کو وہ سب کچھ بتاتا ہے جو وہ بتانا چاہتا ہے۔ اب اگر آپ ان کے اہل میں سے نہیں تو یہ خیال مت کیجئے کہ ایسا کوئی علم ہے ہی نہیں اور یہ سب تو ہنود اور یونانیوں کا فلسفہ ہے۔


شیخ اکبر (ابن عربی) کے اس قول سے ہی اس کے عقیدہ کا باطل ہونا ثابت ہوتا ہے۔ شیخ صاحب اپنی مشہور و معروف کتاب فصوص الحکم میں رقمطراز ہیں:

"جب کوئی مرد عورت سے محبت کرتا ہے ، جسمانی ملاپ کا مطالبہ کرتا ہے ۔ یعنی محبت کی آخری حد جو محبت کا آخری ہدف ہوتا ہے ۔ مرد و عورت کے جسمانی ملاپ سے بڑھ کر کوئی اور عنصری ملاپ کی صورت نہیں ہوتی ، اس لیے شہوت عورت کے پورے بدن میں پھیل جاتی ہے ۔ اسی لیے جنسی ملاپ کے بعد غسل کا حکم دیا گیا ہے ، چونکہ غسل سے طہارت بھی پورے جسم کو عام ہوجاتی ہے ۔ جس طرح حصولِ شہوت کے وقت مرد اس کے اندر مکمل طور پر فنا ہو گیا تھا ۔ لہذا حق (اللہ تعالیٰ) اپنے بندہ پر بڑا غیور ہے کہ وہ اسے چھوڑ کر کسی اور کے ساتھ لذت حاصل کرے ۔ اسی لیے غسل کا حکم دے کر اسے پاک کر دیا ۔ تاکہ اس کو یہ پتا چلے کہ اس نے اس عورت کے ساتھ جنسی ملاپ جو کیا ہے ، دراصل اس عورت کی شکل میں اللہ ہی تھا ۔ (نعوذ باللہ من ذالک) جب کوئی شخص مرد عورت کے اندر حق کا مشاہدہ کرتا ہے عورت میں ایک جذباتی اور انفعالی صورت میں رب کا مشاہدہ کرتا ہے ۔اور جب اپنے اندر رب کا مشاہدہ کرتا ہے تو فاعل کی شکل میں کرتا ہے ۔ اور انفعالی صورت میں مشاہدہ نہیں کرتا ۔ اسی لیے عورت جب جنسی ملاپ کرتی ہے تو اللہ بدرجہ اتم اس کے اندر ظاہر ہوتا ہے ، کیونکہ اس کی حالت فاعل اور منفعل دونوں کی ہوتی ہے۔ لہذا مرد اس وقت اپنے رب کو اس عورت کی شکل میں زیادہ اچھی طرح جلوہ گر پاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) نے عورتوں سے محبت کی ۔ اسی لیے عورتوں کے اندر اللہ کا مشاہدہ زیادہ اچھی طرح پاتا ہے ۔ اور حق کا مشاہدہ تو مادہ کے بغیر ہو ہی نہیں سکتا ۔ یہی وجہ ہے کہ حق (اللہ تعالیٰ) کا مشاہدہ عورتوں کے اندر زیادہ سے زیادہ اور مکمل طور پر انجام پاتا ہے ، خاص طور پر اس وقت جب وہ جنسی ملاپ کر رہی ہو۔" (بحوالہ : فصوص الحکم ، ابن عربی ۔ ج 1 ، ص 317)
 
فصوص الحکم کی نسبت شیخ اکبر کی جانب

شیخ اکبر (ابن عربی) کے اس قول سے ہی اس کے عقیدہ کا باطل ہونا ثابت ہوتا ہے۔ شیخ صاحب اپنی مشہور و معروف کتاب فصوص الحکم میں رقمطراز ہیں:

"جب کوئی مرد عورت سے محبت کرتا ہے ، جسمانی ملاپ کا مطالبہ کرتا ہے ۔ یعنی محبت کی آخری حد جو محبت کا آخری ہدف ہوتا ہے ۔ مرد و عورت کے جسمانی ملاپ سے بڑھ کر کوئی اور عنصری ملاپ کی صورت نہیں ہوتی ، اس لیے شہوت عورت کے پورے بدن میں پھیل جاتی ہے ۔ اسی لیے جنسی ملاپ کے بعد غسل کا حکم دیا گیا ہے ، چونکہ غسل سے طہارت بھی پورے جسم کو عام ہوجاتی ہے ۔ جس طرح حصولِ شہوت کے وقت مرد اس کے اندر مکمل طور پر فنا ہو گیا تھا ۔ لہذا حق (اللہ تعالیٰ) اپنے بندہ پر بڑا غیور ہے کہ وہ اسے چھوڑ کر کسی اور کے ساتھ لذت حاصل کرے ۔ اسی لیے غسل کا حکم دے کر اسے پاک کر دیا ۔ تاکہ اس کو یہ پتا چلے کہ اس نے اس عورت کے ساتھ جنسی ملاپ جو کیا ہے ، دراصل اس عورت کی شکل میں اللہ ہی تھا ۔ (نعوذ باللہ من ذالک) جب کوئی شخص مرد عورت کے اندر حق کا مشاہدہ کرتا ہے عورت میں ایک جذباتی اور انفعالی صورت میں رب کا مشاہدہ کرتا ہے ۔اور جب اپنے اندر رب کا مشاہدہ کرتا ہے تو فاعل کی شکل میں کرتا ہے ۔ اور انفعالی صورت میں مشاہدہ نہیں کرتا ۔ اسی لیے عورت جب جنسی ملاپ کرتی ہے تو اللہ بدرجہ اتم اس کے اندر ظاہر ہوتا ہے ، کیونکہ اس کی حالت فاعل اور منفعل دونوں کی ہوتی ہے۔ لہذا مرد اس وقت اپنے رب کو اس عورت کی شکل میں زیادہ اچھی طرح جلوہ گر پاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) نے عورتوں سے محبت کی ۔ اسی لیے عورتوں کے اندر اللہ کا مشاہدہ زیادہ اچھی طرح پاتا ہے ۔ اور حق کا مشاہدہ تو مادہ کے بغیر ہو ہی نہیں سکتا ۔ یہی وجہ ہے کہ حق (اللہ تعالیٰ) کا مشاہدہ عورتوں کے اندر زیادہ سے زیادہ اور مکمل طور پر انجام پاتا ہے ، خاص طور پر اس وقت جب وہ جنسی ملاپ کر رہی ہو۔" (بحوالہ : فصوص الحکم ، ابن عربی ۔ ج 1 ، ص 317)

سلام
جناب آپ نے دعوی کیا ہے کہ اس بات کا رد خود شیخ اکبر کی کتاب سے ہے۔ اب ذرا مہربانی کر کے اس کتاب کو (جیسی یہ موجودہ حالت میں موجود ہے کو) شیخ اکبر کی کتاب ثابت کر دیں (یعنی دوسرے لفظوں میں فصوص الحکم کی نسبت شیخ اکبر کے لئے ثابت کریں) ۔ اور خاص طور پر جناب محمود محمود الغراب کی اس تحقیق کے بعد جو انہوں نے شرح فصوص الحکم میں درج کی ہے۔ صوفیا میں فصوص الحکم کے بارے میں خود بہت اعتراضات ہیں۔ ان میں مشہور محقق شیخ عبد الوہاب الشعرانی نے فصوص الحکم میں مدسوس کلام کا الزام لگایا ہے۔ اور پیر مہر علی شاہ بھی اسی مسلک کے پیروکار ہیں۔ لہذا فصوص الحکم میں جو کچھ ہے وہ شیخ اکبر کی جانب صد فیصد درست نسبت نہیں رکھتا اس لئے آپ کا یہ قول قابل قبول نہیں۔ شیخ اکبر نے فصوص الحکم کے علاوہ بھی ۳۰۰ کتابیں اور رسائل لکھیں ہیں۔ ان کا بھی مطالعہ کریں جن کی نسبت شیخ اکبر کی طرف ۱۰۰ فیصد درست ہے جیسے کہ فتوحات مکیہ وغیرہ۔
آپ کے جواب کا انتظار رہے گا۔
 

خرم

محفلین
ان پڑھ لوگ پی ایچ ڈی کے مقالے پر بحث کر رہے ہیں۔ انجام کے متعلق اور کیا کہوں۔ بھائیو یہ باتیں رہنے دو۔ جن میں اہلیت ہوتی ہے وہ یہ باتیں سرعام کرتے نہیں اور نااہلوں کا ان باتوں سے بھلا ہونے کا نہیں۔ جو بات اپنی سمجھ کے مطابق ہو وہی کرنا چاہئے۔ ایک مثال دیتا ہوں
کسی جگہ چند سہیلیاں تھیں۔ انہوں نے آپس میں وعدہ کیا کہ ہمیشہ ایکدوسری کو اپنا رازدار رکھیں گی۔ وقت گزرتا گیا، ان میں سے ایک کی شادی ہو گئی۔ شادی کے چند دن بعد سہیلیوں سے ملی تو تمام وقت کچھ کھوئی کھوئی سی رہی۔ سہیلیاں اس سے بار بار پوچھیں کہ وہ کہاں کھوئی ہے۔ وہ ہر بار یہی کہے کہ "بات بتاکر سمجھانے کی نہیں۔ جب تمہاری شادی ہو گی تو سمجھ جاؤگی"۔ سو یہی بات ہے۔ بات بتانے کی نہیں، جب وقت ہوگا اور اہلیت ہوگی تو خود ہی سمجھ میں آ جائے گی۔ ویسے بھی وحدت الوجود صرف ایک پڑاؤ تھا، صرف ایک اظہاریہ۔ اصل حقیقت تو کچھ اور ہے۔
 

آبی ٹوکول

محفلین
وحدة الوجود صوفیہ کی اصطلاح ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا وجود کامل ہے اور اس کے بالمقابل تمام ممکنات کا وجود اتنا ناقص ہے کہ کالعدم ہے، عام محاورہ میں کامل کے مقابلہ میں ناقص کو معدوم سے تعبیر کیا جاتا ہے جیسے کسی بڑے علامہ کے مقابلہ میں تعلیم یافتہ کو یا کسی مشہور پہلوان کے مقابلہ میں معمولی شخص کو کہا جاتا ہے کہ یہ تو اس کے سامنے کچھ بھی نہیں، حالانکہ اس کی ذات اور صفات موجود ہیں، مگر کامل کے مقابلہ میں انھیں معدوم قرار دیا جاتا ہے، اسی طرح اللہ تعالیٰ کے وجودِ کامل کے مقابلہ میں تمام مخلوق کے وجود کو حضراتِ صوفیہ معدوم قرار دیتے ہیں، تقریر بالا سے معلوم ہوا کہ وحدة الوجود کے یہ معنی نہیں کہ سب ممکنات کا وجود اللہ تعالیٰ کے وجود سے متحد ہے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وجود کامل صرف واحد ہے بقیہ موجودات کالعدم ہیں جیسے کہ کوئی بادشاہ کے دربار میں درخواست پیش کرے بادشاہ اسے چھوٹے حکام کی طرف رجوع کا مشورہ دے اور یہ جواب میں کہے کہ حضور آپ ہی سب کچھ ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ سب حکام آپ سے متحد ہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ آپ کے سامنے سب حکام کالعدم ہیں۔
بشکریہ :- آنلائن فتاوٰی دارالعلوم دیو بند
http://darulifta-deoband.org/urdu/viewfatwa_u.jsp?ID=6778
 

خرم

محفلین
امید ہے اب بات ختم ہوجائے گی۔ یا شائد اب بھی نہ ہو۔ آگے کونسا کام سائنس کے مطابق ہوتا ہے۔
 
سلام
خلیل بھٹو صاحب کے تحقیق شدہ جواب کا انتظار ہے۔ انشاء اللہ شیخ اکبر محی الدین ابن عربی  کے بارے میں لوگوں کا جو غلط تأثر ہے اس کو درست تحقیق اور ان کے علوم کے سہل تراجم کروا کر زائل کیا جائے گا۔ اس سلسلے میں ابن عربی سوسائٹی انگلینڈ کی کاوشیں تحسین کے لائق ہیں، ساتھ ساتھ اسی صدی میں عرب ممالک میں شیخ اکبر کے کلام کو سمجھنے والے اور اس کو مکمل تحقیق سے شائع کرنے والے عرب سکالرز حضرات کی کاوشوں سے بھی منہ نہیں موڑا جا سکتا۔ چند ناموں میں شیخ محمود الغراب، ڈاکٹر عثمان یحیی، ڈاکٹر سعاد الحکیم، محقق سعید الفتاح، اور نوجوان سکالر الحاج یوسف اہم ہیں۔ بس تمام ساتھیوں سے صرف یہی گزارش ہے کہ محض سنی سنائی بات پر کان نہ دھریں جبکہ آج کل کے دور میں یہ معارف نہایت وضاحت سے کھل کر سامنے آ رہے ہیں۔
اللہ ہمیں ان کو سمجھنے والا بنائے آمین۔
 
Top