حالیہ بحران۔ ایک ممکنہ نکتہ نظر

محسن حجازی

محفلین
حالیہ بحران۔ ایک ممکنہ نکتہ نظر
محسن حجازی

پاکستان کے عاجز طبیعت اور منکسرالمزاج صدر جناب آصف علی زرداری نے قریب قریب از خود ممبئی حملوں کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔ ابھی بھارتی میڈیا پاکستان کا نام لے ہی رہا تھا کہ موصوف نے بھی تائیدی بیان داغ دیا کہ اس کاروائی میں غیر ریاستی عناصر ملوث ہو سکتے ہیں۔ باہر کے لوگ تو چلا ہی رہے تھے کہ اندر سے بھی تائیدی بیانات جاری ہونا شروع ہو گئے۔ غیر ریاستی عناصر اس کاروائي میں ملوث ہیں یا نہیں ہیں اس کی وضاحت کی ذمہ داری خود ان غیر ریاستی عناصر پر چھوڑنا چاہئے۔ لیکن جناب آصف علی زرداری کو بابائے قوم ہی نہیں بلکہ نیلسن منڈیلا بننے کا جو خبط چھایا ہوا ہے غالبا اس نے ان کے حواس معطل کر رکھے ہیں سو موقع کوئي بھی ہو، بات کہیں کی بھی ہو، موصوف اپنے دانشمندانہ افکار کا اظہار لازم سمجھتے ہیں۔

اول تو زرداری صاحب کو یہ سمجھنا چاہیے کہ بھارت نے کوئی حتمی ثبوت ہمارے حوالے نہیں کیے۔ تاہم پھر بھی اگر جناب زرداری کو اپنا آپ بھارتی اور بین الاقوامی میڈیا میں ایک دانشمند اور اعلی ظرف statesman کے طور پر پیش کرنے کا شوق ہے تو معاملہ جدا ہے۔یا پھر اگر زرداری صاحب تعلیمات مسیح پر عمل پیرا ہیں اور دائیں کے بعد بایاں گال پیش کرنے پر مصر ہیں تو بصد شوق کیجئے لیکن دائیں گال پر طمانچے کے بعد بائیں گال پر بوسے کی توقع لایعنی ہے۔

مقام افسوس ہے کہ پستہ قد قیادت کی تمام تر چالاکیاں، تدابیر، حربے اور حکمت عملی اپنے ذاتی مفادات کے تحفظ میں ہی خرچ ہوتی ہے۔ عالمی بساط پر یہی قیادت طفل مکتب سے بھی پست اور احمق معلوم ہوتی ہے۔ اندرونی طورپر ججوں کی بحالی کی تحریک کو جس طریقے سے کمزور کیا گيا، جس انداز میں معزول ججز میں پھوٹ ڈلوا کر رفتہ رفتہ حلف لے کر عدلیہ کو بحال کرنے کی بجائے بے حال کرنے کی کو جو سازش رچائی گئي وہ اپنی مثال آپ ہے۔ ساٹھ جج بحال کرنا تو موصوف کی حکومت کے لیے آئينی طورپر ممکن نہیں لیکن پندرہ سال پہلے برطرف کیے گئے ملازمین کو بمعہ تنخواہ و مراعات بحالی بہرطور جائز ٹھہرتی ہے۔ پنجاب حکومت میں جو جوڑ توڑ کا سلسلہ شروع رہا وہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں۔ گویا جہاں ذاتی مفاد کا معاملہ ہو، ان اندھوں کی امیبائي حرکت کچھ اس منظم و مرتب انداز میں جاری رہتی ہےکہ ان کی عدم بصارت و بصیرت کے معاملے پر بھی شک گزرنے لگتا ہے۔

وگرنہ معاملہ ان کی بلوغت کا دیکھنا ہو تو یہی کافی ہے کہ کیسے کوئی نوسرباز بھارتی وزیر خارجہ بن کر انہیں غنچہ دے گیا۔ اور اگر اصرار یہی ہے کہ وہ خود بھارتی وزیر خارجہ ہی تھے تو جناب آصف علی زرداری کی عالمی ادب آداب سے واقفیت کا یہی عالم ملاحظہ فرمائیے کہ خود فون پر حاضر ہوگئے جو ان کا منصب نہ تھا۔

مفادات کے تحفظ کی خاطر مختلف کھیل کھیلنے والی قیادت اگر چاہتی تو اس موقع پر عالمی سیاست کا دھارا ہی مکمل طور پر بدل سکتی تھی۔ اس وقت قدرت نے جو کارڈ ہمارے ہاتھ میں تھمائے تھے وہ شاید پچھلے آٹھ سالوں میں کبھی نہیں آئے۔ یہ وہ موقع ہے جہاں دہشتگردی کے خلاف نام نہاد جنگ سے نہ صرف بہت آرام سے باہر آیا جا سکتا تھا بلکہ باہر آنے کی بھی بھاری قیمت وصول کی جا سکتی تھی۔ تاہم اس بات کا ہمیں افسوس ہے کہ یہ قیمت زرداری صاحب کی جیب میں شاید نہ جا پاتی۔
کرنا صرف یہ تھا کہ:

  1. بھارتی واویلے کے جواب میں سفارتی سطح پر شور مچائیے کہ ہماری سالمیت کو زبردست خطرہ ہے، پاکستانی افواج کو دہشتگری کے خلاف جنگ میں ملوث دیکھ کر بھارت جارحیت کے لیے جواز بنا رہا ہے۔
  2. لازمی طور پر امریکہ کچھ یقین دہانیاں کرواتا کچھ دورے وغیرہ ہوتے۔ ان دوروں کے تھمتے ہی تیسرے روز پھر سے بیان جاری کر دیا جاتا کہ امریکی یقین دہانیاں ناکافی ہیں۔ نیز ماضی میں بھی دفاع کے معاملے میں ہم امریکہ پر انحصار کرنے کی بھیانک غلطی کر چکے ہیں سو مزید نقصان کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ قبائلی علاقوں سے فوج واپس بلا کر بھارت کی سرحدوں کے ساتھ لگا دی جاتی۔ نیز فضائی حدود کی نگرانی نہایت سخت کر دی جاتی۔ اس میں امریکی ڈرون طیاروں کو بھی نہ بخشا جاتا۔
  3. امریکہ سمیت نیٹو ممالک کے اعتراضات کے جواب میں محض اتنا جواز کافی تھا کہ ہماری قومی سالمیت کو خطرہ ہے سو ہم بیک وقت دو چار دشمنوں سے نہیں لڑ سکتے۔ روس چین اور ایران اس خطے کے اہم کھلاڑی ہیں اور امریکی مداخلت سے سخت نالاں ہیں۔ ان ممالک سے ہنگامی رابطے کیے جاتے اور کسی ممکنہ تصادم کی صورت میں مدد مانگی جاتی۔ یاد رہے کہ چین پاکستان کے کہنے سے پہلے ہی بیان جاری کر چکا ہے کہ پاک بھارت کشیدگی کی صورت میں چین پاکستان کی فوجی سیاسی اور اقتصادی مدد کرے گا۔ اصل پریس ریلیز میں 'شانہ بشانہ کھڑا ہوگا' کے الفاظ ہیں۔
  4. ریاستی سطح پر بیان دے دیا جاتا کہ ہم بھارت میں ہونے والے واقعات کے ذمہ دار نہیں تاہم اگر جارحیت ٹھونسنے کی کوشش کی گئي تو ایٹمی جنگ سے بھی گریز نہیں کریں گے۔ محض یہ دھمکی اگرچہ بھارت کو کافی اشتعال دلاتی لیکن امریکہ اور اتحادیوں کے لیے بے حد تشویش کا سبب بنتی۔ جہاں تک یہ خدشہ رہا کہ اس بیان کے بعد خود امریکہ ہی عراق کی طرز پر پاکستان پر ہی فوج کشی کر دے، تو اس کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں کہ امریکہ اگر مزید محاذ آرائي کا متحمل ہو سکتا تو ایران پر ضرور چڑھ دوڑتا۔
  5. علاقے میں جنگی جنون کی فضا پھیلنے سے سب سے زیادہ نقصان خود امریکہ کا ہوتا جس کی افواج کو دودھ ڈبل روٹی اور بسکٹ تک پاکستان کے راستے سے جا رہے ہیں۔ امریکہ پاکستان کی کم و بیش ہر بات ماننے پر مجبور ہوتا۔ امریکہ کو حق سچ سے دلچسپی نہیں، بلکہ محض اپنے مفادات سے دلچسپی ہے۔ انہیں اس سے غرض نہیں کہ آپ ممبئی بم دھماکوں میں ملوث ہیں یا نہیں، بلکہ انہیں اس معاملے میں اس لیے دلچسپی ہے کہ اس کے ذریعے آپ پر جنگ میں تعاون کے لیے دباؤ مزید بڑھایا جا سکتا ہے۔
  6. جواب میں آپ را کے بلوچستان میں ملوث ہونے کے ثبوت رکھیے، میریٹ اور ایف آئي اے کے دھماکوں کا الزام بھی ادھر ہی ڈالیے، بھارت کا سیکولر چہرہ بے نقاب کیجئے نیز موقف اختیار کیجئے کہ ہم عالمی امن کے لیے لڑ رہے ہیں (مضحکہ خیز) جب کہ بھارت اپنے مسائل ہمارے گلے ڈال کر عالمی امن کے لیے مسائل پیدا کر رہا ہے۔
  7. محض اس سفارتی جنگ کے بعد امریکہ آپ کے سامنے گھٹنے ٹیک دیتا، عالمی رائے عامہ آپ کے حق میں اور بھارت کو پچکار کر خاموش کروا دیا جاتا کہ سپر پاور کی نقالی میں بھارت جس طرح کی بھونڈی حرکتیں کر رہا ہے وہ اس کے جثے اور قدامت کے مطابق نہیں۔

یہ اعتراض وارد ہو سکتا ہے کہ عالمی معاملات میں تحمل سے کام لینا ہوتا ہے آپ اپنی حیثیت دیکھئے اور پھر بات کیجئے وغیرہ وغیرہ۔ سو اس کے جواب میں ہم اتنے پر ہی کفایت کرتے ہیں کہ دوسرا اتنا ہی بہادر ہوتا ہے جتنے کہ آپ بزدل۔ پورے قد و قامت سے کھڑے ہونا نہ تو حماقت ہے اور نہ ہی دانشمندی اور عقلیت سے متصادم ہے۔ تاہم اب بہت دیر ہو چکی ہے۔ بھارتی قیادت نے اپنے کارڈ روایتی انداز میں ہی کھیلے لیکن سرحد کے اس پار بودی بے شرم اور احمق قیادت نے مسلسل جھک کر، سر تسلیم خم کر کے عامیانہ انداز سے کھیلے جانے والے بھارتی کارڈز کو وہ اہمیت بخش دی ہے کہ ان کے غیر متوقع کثیر المقاصد و طویل المدت فوائد سے خود بھارتی بھی انگشت بدنداں رہ جائیں گے۔

آخر میں ہم اپنے قارئین سے معذرت خواہ ہیں کہ اس سات نکاتی حکمت عملی کو تحریر کرتے ہوئے ہمیں بھی بارہا یہ خیال آیا کہ کہاں جناب زرداری صاحب جیسی انسان دوست اور منکسرالمزاج دانشور شخصیت اور کہاں ایسے سخت گیر اقدامات۔ جناب آصف علی زرداری کے لیے امریکی اور بھارتی دوستوں کا دل توڑنا بہت گراں ہوگا۔
 

شمشاد

لائبریرین
پنجابی کی ایک مثال ہے جس کا اردو ترجمہ یہی ہو سکتا ہے " رکھوالی والا کُتا چوروں کے ساتھ مل گیا ہے"
 

گرو جی

محفلین
ہمارے بابا سائیں سائیں سائیں کرتے کرتے ملک کو سائیں بنا دیں گے اور ایک وقت ایسا آئے گا کہ ملک سائیں سائیں کرے گا
 

mfdarvesh

محفلین
جی گرو جی ایک وقت آئے گا کہ پاکستا ن صرف بے نظیر ستان ہوگا کچھ شروعات تو آپ نے ملاحظہ فرمائیں ہوں گی
 

mfdarvesh

محفلین
خاکم بدہن اللہ ایسا کبھی نہ کرے مگر ارشاد احمد حقانی کے بقو ل حالات اکہتر سے بھی خراب ہیں اور حکمران اتنے ہی نا اہل ہیں
 

arifkarim

معطل
خاکم بدہن اللہ ایسا کبھی نہ کرے مگر ارشاد احمد حقانی کے بقو ل حالات اکہتر سے بھی خراب ہیں اور حکمران اتنے ہی نا اہل ہیں

ہمارے حکمران ہمیشہ سے نا اہل ہی رہیں ہیں، سوائے ''قائد اعظم'' کے، کیونکہ آپ کبھی بھی پاکستان کے حاکم نہیں رہے، بلکہ بابائے قوم رہتے ہوئے آخری دم تک زندگی بسر کی!
 
نجابی کی ایک مثال ہے جس کا اردو ترجمہ یہی ہو سکتا ہے " رکھوالی والا کُتا چوروں کے ساتھ مل گیا ہے"

شمشاد بھائی یہ والا کتا کبھی رکھوالی کا کتا تھا ہی نہیں۔ یہ تو وہ کتا ہے جو پطرس بخاری کے الفاظ میں" بہت ہی کتا "ہے۔ پہلے بیوی کی آڑ میں اپنا کتا پن چھپاتا رہا اب صدارت کی آڑ میں یہ کام کر رہا ہے۔
(ان الفاظ کے استعمال پر معذرت مگر صدر محترم کے لیے کچھ ایسے جذبات بہت سارے لوگوں کے اور بھی ہیں۔
 

محمد نعمان

محفلین
شمشاد بھائی یہ والا کتا کبھی رکھوالی کا کتا تھا ہی نہیں۔ یہ تو وہ کتا ہے جو پطرس بخاری کے الفاظ میں" بہت ہی کتا "ہے۔ پہلے بیوی کی آڑ میں اپنا کتا پن چھپاتا رہا اب صدارت کی آڑ میں یہ کام کر رہا ہے۔
(ان الفاظ کے استعمال پر معذرت مگر صدر محترم کے لیے کچھ ایسے جذبات بہت سارے لوگوں کے اور بھی ہیں۔
بہت سے لوگوں کے نہیں تقریباًَ تمام قوم کے ہیں ۔
میں تو جہاں بھی گیا لوگوں کو یہی کہتے سنا کہ آج سب سے بڑا لٹیرا قوم کا صدر بن گیا ہے۔۔
معذرت کے ساتھ
 
Top