عقیدت اور عقیدہ - تبرکات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

مغزل

محفلین
دوسری بات : اتحاد اسلامی میرا ہی نہیں اپ کا بھی مسئلہ ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔میرا ہی نہین اپ کا بھی فرض ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔آواز میں نے ہی پہلے لگائی لیکن اس سے یہ نہین سمجھ لیجیئے کہ میں ہی امیر ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔واللہ میں تو کہہ کہہ کے تھک گیا ہوں کہ امیر نہ بناو کسی کو بلکہ مشترکہ لائحہ عمل اختیار کرو۔۔۔۔۔۔۔۔۔تا کہ کسی کو کسی پر انگلی اٹھانے کی جرات نہ ہو اور نہ ہی کوئی یہ خیال کرے کہ امیر ہمارے فرقے کا نہیں کسی دوسرے فرقے کا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اسی وجہ سے میں کہتا ہوں امیر نہ بنایا جائے بلکہ مجلس شوری بنائی جائے تو متفقہ طور پر فیصلے کر نہ کہ کسی فرد واحد کے احکامات کی پیروی کرنی پڑھے۔۔۔۔۔۔۔اس لیئے ان دونوں باتوں کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔یہاں میں اپنے خیالات بیان کروں گا لیکن اتحاد اسلامی میں جب ہر فیصلہ متفقہ طور پر ہو گا تو مجھ پر بھی وہی اصول و ضوابط لاگو ہوں گے جو کسی ادنی سے ادنی ممبر پر ہوں گے ۔۔۔۔۔۔امید ہے اپ سمجھ چکے ہوں گے،،،،



تو جناب اتحاد ِ اسلامی میرا معاملہ بھی نہیں۔۔ کیوں یہ کام اللہ کے رسول نے کماحقہ انجام دیا۔۔
اسی کو نگراں کرتے ہیں۔۔ آگر آپ چاہتے ہیں محض ٹولی بنالی جائے اور پوسٹ کرتے رہیں تو
کیا فائدہ ۔۔ معاملہ یہ ہے کہ فرقوں کے درمیان مصالحت کی کوشش کی جائے۔۔ بالکل ایسے
ہے جیسے ۔۔ میں نے امام شافعی اور امام ابو حنیفہ کا معاملہ بیان کیا ہے۔۔ یا سرکار علیہ الصلوۃ السلام
کے نواسوں کا وہ عمل یاد رکھیئے ۔۔ جو وضو سے متعلق ہے۔۔

وگرنہ کوئی فائدہ نہیں کہ میں بھی بحث کروں اور آپ بھی۔۔ اور ہم سب ہی۔۔

وما علینا الالبلاغ المبین
 

فاروقی

معطل
لیجیئے جناب یہ ترمذی کی حدیث ہے اور اس حضرت انس نے روایت کیا ہے.......حدیث نمبر مجھے دستیاب نہیں ہو سکا ........بہر حال اس کی بھی کوشش کرتا ہوں....



حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : یسأ ل احد کم ربہ حاجتہٗ کلّہ حتیٰ یسأ ل شسع بعلہٖ اذا انقطع (ترمذی) ’’ تم میں سے ہر شخص کو اپنی حاجت خدا سے مانگنی چاہیے، حتیٰ کہ اگر اس کی جوتی کا تسمہ بھی ٹوٹ جائے تو خدا سے دعا کرے۔‘‘
 

طالوت

محفلین
سوال نما مشورے کے لیے شکریہ مغل ۔۔۔ مجھے قادری پادری کی اصطلاح پھر استمعال کرنی پڑ رہی ہے ۔۔ کہ مجھے اس قادری پادری ٹائپ کے علم سے بالکل دلچسپی نہیں ۔۔۔ میرے لیے میری نجات قران ہے اور یہ وہی نجات ہے جو رسول اللہ کے لیے بھی تھی صحابہ کے لیے بھی اور تمام انسانوں کے لیے بھی ۔۔۔ (صلوۃ و سلام ہو تمام انبیاء پر)
وسلام
 

مہوش علی

لائبریرین
میں نے کہا بھی تھا کہ اللہ جسے چاہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہے ذلیل کرتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ نے بھی شاید اس بات کا ظاہری معنی لیا کہ آج کل عزت دولت سے مشروط ہونے لگی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس کا مطلب یہ تھا کہ دیتا سب کچھ اللہ ہی ہے لیکن وہ کچھ بندوں کو زیادہ عزت دیتا ہے یعنی انہیں اختیار دیتا ہے وہ کسی کی مدد کر سکیں یاکسی کا کام کر سکیں ۔۔۔۔۔۔۔جیسا کہ اللہ نے عیسی علیہ السلام کو طاقت دی تھی کہ مردوں کو زندہ کر دیتے تھے یا کوڑیوں کو تند رست کر دیتے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔اور بھی نبیوں اور ولیوں کو اللہ نے اختیار دیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن اس سے یہ مراد نہیں لی جا سکتی کہ وہ اپنی مرضی سے جو چاہے کر سکتے تھے یا ہیں ۔۔۔۔۔۔وہ تو اللہ کی مرضی اور حکم سے یہ سب کر تے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس لیئے حققی مالک تو اللہ تعالی ہی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
والسلام

اولیاء اللہ، شعائر اللہ، تبرکات نبوی سے شفاعت طلب کرنے کی "عمومی اجازت"
فاروقی بھائی، چلیں آپ نے اس پر تو اتفاق کیا کہ یہ اولیاء اللہ اور تبرکات نبوی اللہ کی اجازت اور حکم سے ہماری شفاعت کر کے ہماری مدد کر سکتے ہیں۔
مگر جس چیز سے آپ ابھی تک پیچھا چھڑا رہے ہیں، وہ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے قران میں، اور اسکے رسول ص نے اپنی احادیث میں "مسلمانوں" کو "عمومی" اجازت دی ہے کہ وہ ہر وقت ان تبرکات نبوی، ان شعائر اللہ کی شفاعت طلب کر سکتے ہیں اور عموم یہ ہے کہ اللہ کے حضور ہر وقت ہمارے حق میں دعا کر سکتے ہیں اور اپنی شفاعت کے ذریعے ہماری [یعنی صرف مسلمانوں کی[ مدد کر سکتے ہیں۔
اوپر میں نے کافی سے زیادہ احادیث نبوی پیش کر دی ہیں جو اس بات کی گواہ ہیں کہ "مسلمانوں" کے معاملے میں ان شعائر اللہ، اولیاء اللہ تبرکات نبوی کی شفاعت کے ذریعے مدد کرنا ایک "عموم" ہے۔
/////////////////////////////

از فاروقی:
اسی لیئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا
“کہ اگر تمہارے جو تے کا تسمہ بھی ٹوٹ جائے تو اللہ سے مانگو“
بھائی جی، ایسی ایک ہزار اور احادیث بھی ہوں تب بھی ان دیگر ڈیڑھ دو سو احادیث کا انکار نہیں کیا جا سکتا جن سے واضح ہے کہ اولیاء اللہ، شعائر اللہ اور تبرکات نبوی کو اللہ کے حضور مسلمانوں کے لیے عمومی اجازت ہے کہ وہ اپنی شفاعت سے انکی مدد کریں۔ چنانچہ جب مسلمان ان کی تعظیم کرتے ہیں اور ان سے شفاعت کے طالب ہیں، تو یہ شرک نہیں بلکہ عین خدائی نظام پر کاربند ہونا ہے۔
چنانچہ آپ کو ہر صورت میں ان دونوں طرح کی احادیث میں تطبیق کرنے کے لیے ظاہر پرستی سے پیچھا چھڑانا ہو گا بجائے صرف ایک قسم کی احادیث کو لینے کے اور انکو استعمال کرتے ہوئے باقی احادیث نبوی کو نظر انداز کرنے یا انکا انکار کرنے کے۔
والسلام۔
 

طالوت

محفلین
فاروقی بھائی،
مسئلہ یہ ہے کہ آپ قران کو ظاہری معنوں میں لیجاتے ہیں اور اسکے مجازی معنی سمجھنے سے قاصر ہیں۔ اور قران کو ظاہری معنوں میں لے جانے کی بیماری ایسی مضر ہے کہ اس سے قران میں تضاد پیدا ہو جاتا ہے [جسے آپ حضرات چھپانے کی کوشش کرتے ہیں یا کسی بہانوں نظر انداز کرنے کی کوشش کرتے ہیں]/
برا تو آپ کو لگے گا لیکن سچ بیانی کے دعوے ہوں تو ذرا کھل کر سامنے آنا چاہیے ۔۔۔
آپ کے مجازی معنوں کی تصویر پیش کروں گا تو پوسٹ مقفل ہو گی ۔۔۔
قران میں تضاد دلوں میں بیماری سے پیدا ہوتا ہے ورنہ قران تضاد سے کتنی پاک کتاب ہے ۔۔۔
دوسری سورہ کی دوسری آیت میں رب العزت نے بیان فرما دیا ہے ۔۔۔
وسلام
 

فاروقی

معطل
سورہ آلِ عمران آیات 155، 157، 158، 160 ارشادِ حق تعالیٰ ہے:



جو لوگ تم میں سے (اُحد کے دن)جبکہ (مومنوں اور کافروں کی) دو(۲) جماعتیں ایک دوسرے سے گُتھ گئیں(جنگ سے)بھاگ گئے تو اُن کے بعض افعال کے سبب شیطان نے اُن کو پھُسلا دیا ۔ مگر خدا نے اُن کاقصور معاف کردیا۔ بے شک خدا بخشنے والا بُردبار ہے ۔ اور اگر تم خدا کے رستے میں مارے جاﺅ یا مر جاﺅ تو جو (مال و متاع) لوگ جمع کرتے ہیں اس سے خدا کی بخشش اور رحمت کہیں بہتر ہے ۔اور اگر تم مر جاﺅ یا مارے جاﺅ توخدا کے حضور ضرور اکھٹے کئے جاﺅ گے۔ اگر خدا تمہارا مدد گار ہے تو تم پر کوئی غالب نہیں آسکتااور اگر وہ تمہیں چھوڑدے تو پھر کون ہے کہ جو تمہاری مدد کرے ؟ اور مومنوں کو چاہیے کہ خدا ہی پر بھروسہ رکھیں ۔“



اَفَحَسِبَ الَّذِینَ کَفَرُو اَن یَّتَّخِذُوا عِبَادِی مِن دُونِی اَولِیَآءَ ط اِنَّا اَعتَدنَا جَھَنَّمَ لِلکٰفِرِینَ نُزُلاً۔

کیا کافرلوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ ہمارے بندوں کو ہمارے سوا اولیاء بنائیں گے توہم (خفا نہیں ہونگے؟) ہم نے (تو ایسے) کافروں کے لئے جہنم کی مہمانی تیار کر رکھی ہے۔“

(سورہ الکہف: آیت102)



سورہ البقرة آیات 80، 81، 82۔ ارشادِ حق تعالیٰ ہے کہ:

اور کہتے ہیں کہ (دوزخ کی) آگ ہمیں چند روز کے سوا چھو ہی نہیں سکے گی ۔ اُن سے پوچھو کیا تم نے خدا سے اقرار لے رکھا ہے کہ خدا اپنے اقرارکے خلاف نہیں کرے گا؟ (نہیں) بلکہ تم خدا کے بارے میں ایسی باتیں کہتے ہو جن کا تمہیں مطلق علم نہیں ۔ ہاں جو برے کام کرے اور اُس کے گناہ اُس کو گھیر لیں تو ایسے لوگ دوزخ (میں ڈالے جانے) والے ہیں (اور) وہ ہمیشہ اِس میں رہیں گے۔ اور جو ایمان لائے اور نیک کام کئے وہ جنت کے مالک ہوں گے (اور) ہمیشہ اُس میں رہیں گے۔“





سورہ آلِ عمران آیت 144



”اورمحمد تو صرف (خدا کے) پیغامبرہیں اُن سے پہلے بھی بہت سے پیغامبر ہو گزرے ہیں۔ بھلا اگریہ مر جائیں یا مارے جائیں توتم اُلٹے پاﺅں پھر جاﺅ گے؟ اور جو ا لٹے پاﺅں پھر جائے گا تو خدا کا کچھ نقصان نہیں کر سکے گا اور خدا (دین پر قائم رہنے والے) شکر گزا روں کو فائدہ اورثواب دے گا ۔“



یاد رہے کہ اِس آیت کو یاد رکھنے والے اور اِس کا مطلب بتانے والے جناب ابوبکر رضی اللہ عنہ تھے کہ جنہوں نے کہا تھا کہ ”جو کوئی پیغامبرعلیہ السلام کی عبادت کرتا تھا تو وہ یہ جان لے کہ پیغامبر صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہو چکا ہے اور جو کوئی خدا کی عبادت کرتا ہے تو خدا زندگی کا خالق موجود اور سدا قائم ہے“۔یہ حقیقت ہے کہ لوگوں کی اکثریت جناب ابوبکر کو صدیق مانتی ہے مگر آپ کی نصیحت میں غور نہیں کرتی۔










سورہ البقرة آیت 165۔ ارشادِ حق تعالیٰ ہے کہ:

”اور بعض لوگ ایسے ہیں جو غیر خدا کو شریک ( خدا ) بنا تے اور اُن سے خدا کی سی محبت کر تے ہیں ۔ لیکن جو ایمان وا لے ہیں وہ تو خدا ہی سے شدید محبت رکھتے ہیں اور کیا ہی اچھا ہوتا کہ ظالم لوگ جو بات عذاب کے وقت دیکھیں گے اب دیکھ لیتے کہ سب طرح کی طاقت خدا ہی کو (حاصل) ہے اور یہ کہ خدا سخت عذا ب کرنے والا ہے۔“



یہ آیت اُن لوگوں کو سخت عذاب سے ڈرا رہی ہے جو انسانوں سے شدید محبت کے باعث یہ کہتے ہیں کہ خدا سے محبت دراصل خدا کے بندوں سے محبت ہے لہذا جب تک بندوں سے خدا سی محبت نہ ہوگی نجات نہ ہوگی۔ انجیلِ مقدس کی کتاب لوقا میں مسیح ابن مریم علیہ السّلام کا ارشاد ہے کہ : ”نوکر مالک کے برابر نہیں ہوتااور نہ ہی بھیجا ہوا (یعنی رسول) بھیجنے والے (خدا) کے (برابر ہو سکتا ہے)“…….. یعنی تمام کے تمام پیغامبر اپنے اپنے بیان کے مطابق صرف اور صرف عبد اوررسول تھے۔ پیغامبر صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:



”جناب حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اﷲ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”یوں نہ کہو، جو اﷲ ربِّ عظیم چاہے اور محمد چاہے بلکہ یوں کہو جو اکیلا اﷲ چاہے۔“

(شرح السنة للبغوی ج12 ص 361، رقم 8891))
 

مہوش علی

لائبریرین
سورہ آلِ عمران آیات 155، 157، 158، 160 ارشادِ حق تعالیٰ ہے:



جو لوگ تم میں سے (اُحد کے دن)جبکہ (مومنوں اور کافروں کی) دو(۲) جماعتیں ایک دوسرے سے گُتھ گئیں(جنگ سے)بھاگ گئے تو اُن کے بعض افعال کے سبب شیطان نے اُن کو پھُسلا دیا ۔ مگر خدا نے اُن کاقصور معاف کردیا۔ بے شک خدا بخشنے والا بُردبار ہے ۔ اور اگر تم خدا کے رستے میں مارے جاﺅ یا مر جاﺅ تو جو (مال و متاع) لوگ جمع کرتے ہیں اس سے خدا کی بخشش اور رحمت کہیں بہتر ہے ۔اور اگر تم مر جاﺅ یا مارے جاﺅ توخدا کے حضور ضرور اکھٹے کئے جاﺅ گے۔ اگر خدا تمہارا مدد گار ہے تو تم پر کوئی غالب نہیں آسکتااور اگر وہ تمہیں چھوڑدے تو پھر کون ہے کہ جو تمہاری مدد کرے ؟ اور مومنوں کو چاہیے کہ خدا ہی پر بھروسہ رکھیں ۔“



اَفَحَسِبَ الَّذِینَ کَفَرُو اَن یَّتَّخِذُوا عِبَادِی مِن دُونِی اَولِیَآءَ ط اِنَّا اَعتَدنَا جَھَنَّمَ لِلکٰفِرِینَ نُزُلاً۔

کیا کافرلوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ ہمارے بندوں کو ہمارے سوا اولیاء بنائیں گے توہم (خفا نہیں ہونگے؟) ہم نے (تو ایسے) کافروں کے لئے جہنم کی مہمانی تیار کر رکھی ہے۔“

(سورہ الکہف: آیت102)



سورہ البقرة آیات 80، 81، 82۔ ارشادِ حق تعالیٰ ہے کہ:

اور کہتے ہیں کہ (دوزخ کی) آگ ہمیں چند روز کے سوا چھو ہی نہیں سکے گی ۔ اُن سے پوچھو کیا تم نے خدا سے اقرار لے رکھا ہے کہ خدا اپنے اقرارکے خلاف نہیں کرے گا؟ (نہیں) بلکہ تم خدا کے بارے میں ایسی باتیں کہتے ہو جن کا تمہیں مطلق علم نہیں ۔ ہاں جو برے کام کرے اور اُس کے گناہ اُس کو گھیر لیں تو ایسے لوگ دوزخ (میں ڈالے جانے) والے ہیں (اور) وہ ہمیشہ اِس میں رہیں گے۔ اور جو ایمان لائے اور نیک کام کئے وہ جنت کے مالک ہوں گے (اور) ہمیشہ اُس میں رہیں گے۔“





سورہ آلِ عمران آیت 144



”اورمحمد تو صرف (خدا کے) پیغامبرہیں اُن سے پہلے بھی بہت سے پیغامبر ہو گزرے ہیں۔ بھلا اگریہ مر جائیں یا مارے جائیں توتم اُلٹے پاﺅں پھر جاﺅ گے؟ اور جو ا لٹے پاﺅں پھر جائے گا تو خدا کا کچھ نقصان نہیں کر سکے گا اور خدا (دین پر قائم رہنے والے) شکر گزا روں کو فائدہ اورثواب دے گا ۔“



یاد رہے کہ اِس آیت کو یاد رکھنے والے اور اِس کا مطلب بتانے والے جناب ابوبکر رضی اللہ عنہ تھے کہ جنہوں نے کہا تھا کہ ”جو کوئی پیغامبرعلیہ السلام کی عبادت کرتا تھا تو وہ یہ جان لے کہ پیغامبر صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہو چکا ہے اور جو کوئی خدا کی عبادت کرتا ہے تو خدا زندگی کا خالق موجود اور سدا قائم ہے“۔یہ حقیقت ہے کہ لوگوں کی اکثریت جناب ابوبکر کو صدیق مانتی ہے مگر آپ کی نصیحت میں غور نہیں کرتی۔










سورہ البقرة آیت 165۔ ارشادِ حق تعالیٰ ہے کہ:

”اور بعض لوگ ایسے ہیں جو غیر خدا کو شریک ( خدا ) بنا تے اور اُن سے خدا کی سی محبت کر تے ہیں ۔ لیکن جو ایمان وا لے ہیں وہ تو خدا ہی سے شدید محبت رکھتے ہیں اور کیا ہی اچھا ہوتا کہ ظالم لوگ جو بات عذاب کے وقت دیکھیں گے اب دیکھ لیتے کہ سب طرح کی طاقت خدا ہی کو (حاصل) ہے اور یہ کہ خدا سخت عذا ب کرنے والا ہے۔“



یہ آیت اُن لوگوں کو سخت عذاب سے ڈرا رہی ہے جو انسانوں سے شدید محبت کے باعث یہ کہتے ہیں کہ خدا سے محبت دراصل خدا کے بندوں سے محبت ہے لہذا جب تک بندوں سے خدا سی محبت نہ ہوگی نجات نہ ہوگی۔ انجیلِ مقدس کی کتاب لوقا میں مسیح ابن مریم علیہ السّلام کا ارشاد ہے کہ : ”نوکر مالک کے برابر نہیں ہوتااور نہ ہی بھیجا ہوا (یعنی رسول) بھیجنے والے (خدا) کے (برابر ہو سکتا ہے)“…….. یعنی تمام کے تمام پیغامبر اپنے اپنے بیان کے مطابق صرف اور صرف عبد اوررسول تھے۔ پیغامبر صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:



”جناب حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اﷲ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”یوں نہ کہو، جو اﷲ ربِّ عظیم چاہے اور محمد چاہے بلکہ یوں کہو جو اکیلا اﷲ چاہے۔“

(شرح السنة للبغوی ج12 ص 361، رقم 8891))

فاروقی بھائی،
آپ بعینہ وہی کام کر رہے ہیں کہ جس کے متعلق میں مسلسل خدشات ظاہر کر رہی تھی، یعنی "ظاہر پرستی کی بیماری کی وجہ سے قران کی کچھ آیات کی مدد سے قران کی دیگر آیات کو سینکڑوں احادیث نبوی کو نظر انداز کرنا یا انکا انکار کرنا"۔
چاہے ایک ہزار اور آیات بھی آپ قران سے نقل کر دیں، مگر یقین کریں ان میں سے ایک بھی ان دیگر قرانی آیات کی تکذیب نہیں کر رہیی ہیں جو میں نے اوپر پوسٹ کی ہیں۔ مثلا اللہ تعالی نے اگر یہ فرما دیا ہے کہ اللہ اور اسکا رسول اپنے فضل سے غنی کرتا ہے، تو اب ہمیں یہ قبول کرنا ہی ہو گا۔

////////////////////

قران میں مجازی معنوں والی آیات کی کچھ اور مثالیں

اللہ قران میں اپنے لیے فرما رہا ھے کہ وہ کریم ہے۔

فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ

(القران 27:40) ۔۔۔ اور میرا رب بے نیاز اور کریم ہے

لیکن اسی قران میں اللہ اپنے رسول (ص) کے لیے بھی فرما رہا ہے:

إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيم

(القران 69:40) بیشک یہ (قران) ایک کریم رسول کا قول ہے۔

جب ہم اللہ کے لیے „کریم“ استعمال کرتے ہیں تو یہ حقیقی معنوں میں ہوتا ہے جبکہ جب ہم „نبیِ کریم“ کہتے ہیں تو یہ مجازی معنوں میں ہوتا ہے۔ اور اگر ہم اس حقیقی اور مجازی معنوں کے فرق کو ملحوظِ خاطر نہ رکہیں تو اس کا مطلب ہوگا کہ اللہ اپنی صفت میں دوسرے کو شریک کر کے (معاذ اللہ) خود شرک کر رہا ہے۔

رسول ص قوت والا ہے
اسی طرح قوی بھی اللہ کی صفت اور نام ہے۔ اللہ قران میں اپنے متعلق فرماتا ہے:

إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيز

(القران 22:74) بیشک اللہ بڑا قوی اور غالب اور زبردست ہے۔

مگر اسی قران میں اللہ تعالیٰ یہ بھی فرما رہا ہے کہ رسول (ص) بھی قوت والا ہے

ذِي قُوَّةٍ عِندَ ذِي الْعَرْشِ مَكِينٍ

(القران 81:20) وہ صاحبِ قوت ہے اور صاحبِ عرش کی بارگاہ کا مکین ہے۔

کیا اللہ یہاں یہ کہہ کر شرک کر رہا ہے کہ رسول بھی قوت والا ہے؟

رؤوف اور رحیم

یہ دونوں صفات اللہ کی ہیں۔ اللہ قران میں اپنے لیے فرما رہا ہے:

إِنَّ اللّهَ بِالنَّاسِ لَرَؤُوفٌ رَّحِيمٌ

(القران 2:143) بیشک اللہ تو لوگوں کے لیے بہت رؤوف (شفیق) اور رحیم ہے۔

مگر اسی قران میں اللہ اپنے رسول(ص) کے لیے فرما رہا ہے:

لَقَدْ جَاءكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُم بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُوفٌ رَّحِيمٌ

(القران 9:128) لوگو تمہارے پاس تم ہی میں سے ایک پیغمبر آئے ہیں جنہیں تمہاری تکلیف گراں معلوم ہوتی ہے اور تمہاری بھلائی کے خواہش مند ہیں اور مومنوں پر نہایت روؤف (شفیق) اور رحیم ہیں۔

اور در حقیقت قران میں کئی اور مقامات پر اللہ اپنے نیک بندوں کی اسطرح کی عزت افزائی کر رہا ہے کہ انہیں اپنی صفات والے ناموں کے ساتھ یاد کر رہا ہے۔ مثلاً:
عالم:
یہ اللہ کی صفت ہے مگر اسمعیل ؑ کو بھی عالم کے نام سے یاد کیا جا رہا ہے۔
حلیم:
یہ اللہ کی صفت ہے مگر ابراہیم ؑ اور اسمعیل ؑ کو بھی حلیم کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔
شکور:
یہ اللہ کی صفت ہے مگر نوح ؑ کو بھی شکور کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔
بر:
یہ اللہ کی صفت مگر عیسیٰ ؑ اور یحییٰ ؑ کو بھی بر کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔

نتیجہ:

اللہ نے اپنی صفات کو اپنے نیک بندوں کے لیے بھی استعمال کیا ہے۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ایسا کرنے سے یہ نیک بندے ان صفات میں اللہ کے شریک بن گئے ہیں۔ بیشک یہ ان صفات کے حقیقی معنوں میں مالک نہیں ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے انہیں اپنی ان صفات کا ایک حصہ عطا کیا ہے۔
اب کوئی بھی ان قرانی آیات کو محض اپنے ظن اور قیاس کی بنیاد پر رد نہیں کر سکتا۔

جب ہم اللہ کو „کریم“ کہتے ہیں تو یہ حقیقی معنوں میں ہوتا ہے۔ اور جب ہم رسول اللہ (ص) کو „کریم“ کہتے ہیں تو یہ حقیقی معنوں میں نہیں ہوتا ہے بلکہ ہمیں اس کی تاویل مجازی معنوں میں کرنی پڑتی ہے۔

اور اگر یہ حضرات اب بھی یہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ قران میں مجازی معنوں والی آیات بھی ہیں، تو یقیناً یہ حضرات تمام مسلمانوں کو مشرک بنا دیں گے، بلکہ ان کے ساتھ ساتھ اللہ اور اس کے رسول (ص) کو بھی مشرک بنا دیں گے۔

تو پھر توحید کیا ہے؟
جب بھی ظاہر پرستی کا ذکر ہوتا ہے اور یہ بتایا جاتا ہے کہ اللہ کی کچھ صفات میں رسول اللہ (ص) اور دیگر مومنین بھی مجازی معنوں میں شامل ہیں، تو پھر اکثر یہ سوال سامنے آتا ہے کہ پھر توحید کیا ہے اور اس کی کیا تعریف ہے۔ یہ سوال ابتک کی پوری بحث کا سب سے اہم سوال ہے۔

خاص صفات بمقابلہ عام صفات

اور یہ جاننے کے لیے کہ توحید کیا ہے اور شرک کیا ہے، یہ بہت اہم ہے کہ ہم اللہ کی „خاص صفات“ اور „عام صفات“ کا فرق سمجھیں۔
„خاص صفات وہ ہیں جنہیں اللہ نے صرف اپنے لیے مخصوص رکہا ہے۔ مثلاً „معبود“ صرف اللہ کے لیے مخصوص ہے ( اور شعائر اللہ کے لیے صرف تعظیم ہے مگر کوئی عبادت نہیں ہے)۔
شریعت بنانا صرف اللہ کا کام ہے اور کسی دوسرے کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ کوئی اپنی طرف سے کوئی چھوٹا سا قانون بھی بنا کر حلال چیزوں کو حرام کرتا پھرے۔


پوری کی پوری سورۃ اخلاص اللہ کے انہی „خاص“ صفات سے بھری ہوئی ہے (اور انہی خصوصیات کی وجہ سے اسکو سورہ توحید بھی کہا جاتا ہے):

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ
قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ
کہہ دو اللہ ایک ہے
(یہ صرف اللہ کے لئے مخصوص ہے اور اگر اللہ چاہتا تو کئی محمد(ص) پیدا کر دیتا)
اللَّهُ الصَّمَدُ
وہ بے نیاز ہے
(مگر محمد (ص) بے نیاز نہیں ہیں بلکہ انہیں اللہ کی ضرورت ہے)
لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ
نہ وہ کسی کا باپ ہے اور کسی کا بیٹا
(مگر محمد(ص) کا باپ بھی تھا اور اولاد بھی)
وَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا أَحَدٌ
اور نہ ہی کوئی اس کا ہمسر ہے
(مگر محمد (ص) اللہ کے ہمسر نہیں ہیں)

تو محترم برادران:

· یہ توحید کی نفی اور رسول اللہ (ص) کی عبادت نہیں ہے اگر ہم یہ کہیں کہ رسول (ص) کریم ہیں۔

· اور یہ بھی توحید کی نفی اور رسول اللہ (ص) کی عبادت نہیں ہے اگر ہم یہ کہیں کہ وہ ہمیں اپنے فضل سے غنی کرتے ہیں۔

· اور یہ بھی توحید کی نفی اور رسول اللہ (ص) کی عبادت نہیں ہے اگر ہم یہ کہیں کہ وہ بھی ہمارے ولی ہیں۔

· اور یہ بھی توحید کی نفی اور رسول اللہ (ص) کی عبادت نہیں ہے اگر ہم یہ کہیں کہ رسول اللہ (ص) ہمیں اپنی شفاعت کے ذریعے ہماری مدد کرتے ہیں اور ہمیں فائدہ پہنچاتے ہیں اور ان کی شفاعت ہماری مغفرت کا باعث ہو گی۔


اگر یہ حضرات اب بھی اپنی ظاہر پرستی کے باعث ان خاص اور عام صفات کا فرق نہ سمجھ پائیں، تو یقیناً یہ تمام مسلمانوں کو مشرک بنا دیں گے اور ان کے ساتھ ساتھ اللہ اور اس کے رسول (ص) کو بھی مشرک بنا دیں گے۔

ظاہر پرست بمقابلہ جہمیہ

سعودیہ کے مشہور عالم „ابو منتصر“ اپنی کتاب „بدعت کا فتنہ“ میں لکھتے ہیں:

„جہمیہ لوگوں کی وہ جماعت ہے جو اللہ کی صفات کا انکار اپنی عقل اور دلائل کی بنیاد پر کرتے ہیں کیونکہ ان کا خیال ہے کہ اس طرح وہ اللہ کو انسان جیسا بنا دیں گے۔“

مگر جب ہم آج کے ظاہر پرست حضرات کو دیکہتے ہیں تو یہ دکھائی دیتا ہے کہ:

„ ظاہر پرست حضرات لوگوں کا وہ گروہ ہے جو رسول اللہ (ص) کی صفات کا انکار اس بنیاد پر کرتے ہیں کیونکہ ان کا خیال ہے کہ اس طرح یہ رسول (ص) کو اللہ جیسا بنا دیں گے۔“

والسلام۔
 

زیک

مسافر
میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ پچھلے کتنے صفحات کی اس طویل بحث کا آبِ زم زم اور تھریڈ کے اصل موضوع سے کیا تعلق ہے۔
 

مہوش علی

لائبریرین
میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ پچھلے کتنے صفحات کی اس طویل بحث کا آبِ زم زم اور تھریڈ کے اصل موضوع سے کیا تعلق ہے۔
معذرت کہ ہم تھریڈ کو موضوع سے ہٹا کر لے گئے۔
زیک دیگر پوسٹوں کو الگ تھریڈ بنا کر اس میں منتقل کر دیں۔ شکریہ۔
 

arifkarim

معطل
متبرک کی بحث سے یاد آیا کہ ایک واقعہ پڑھا تھا کہ ایک آتش پرست نے 40 سال تک آگ کی عبادت کی۔ اسکے نتیجہ میں اسکے قدموں کی ریت اندھوں کو بینائی دے دیتی تھی۔۔۔۔۔ کیا سچ ہے کیا جھوٹ ہے؟ کیا متبرکات صرف اسلام ہی میں ہیں؟
 

خاور بلال

محفلین
مجھ سے شاید غلطی ہوئی کہ میں نے اپنی بات بہت آسان پیرائے میں بیان کی۔ مجھے کچھ گھما پھرا کر، پہلو بدل بدل کر، ثقیل زبان میں، لفاظی کے تڑکے کے ساتھ اپنی بات کہنی چاہیے تھی تاکہ اسے لغو کہنا آسان نہ ہوتا۔ بہر حال اگر یہ دھاگہ مقفل ہونے نہیں جارہا تو میں کچھ مزید لغو سوالات پوچھ لوں؟

کچھ چیزوں کے متعلق اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمادیا کہ یہ خدا کے حضور تمہاری سفارش کرسکتی ہیں تو انکار نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے استعمال کی چیزں، ان کے کپڑے، نعلین اور بال وغیرہ سے عقیدت اور تعظیم بھی باعثِ اجر ہیں، بہت سے بزرگوں نے انہیں شفا و برکت کی نیت سے بھی استعمال کیا لیکن کیا ان چیزوں سے عقیدت کی بنا پر یہ چیزں خدا کے حضور آپ کی سفارش یعنی شفاعت کریں گی؟

حجرِ اسود سے متعلق بھی میں اپنی لغو بات دوبارہ دہرا دوں کہ اگر پچاسیوں مرتبہ بھی حجرِ اسود کو عقیدت سے چوم لیا جائے لیکن اپنے اعمال میں اصلاح کی کوشش نہ کی جائے تو پھر حجرِ اسود کسی کام نہیں آنے والا۔ جو حدیثیں اس بات کا اشارہ کرتی ہیں کہ حجرِ اسود سے احسن سلوک کرو یہ نیک اعمال لوگوں کی گواہی دے گا تو اس میں بھی اہمیت نیک اعمال کی ہے نہ کہ خالی حجرِ اسود کو چومنے کی۔ جس نبی نے حجرِ اسود نصب کیا جس نے اسے چوم کر تعظیم بخشی اور اسے ہمارے لیے بھی باعثِ تعظیم ٹھہرایا اس نبی کی اصل تعلیمات کو ایک طرف رکھ کر صرف حجرِ اسود کو چوم لینا کیا احسن سلوک کہلاسکتا ہے؟ اور پھر مجرد حجرِ اسود کی ویلیو ہے ہی کیا؟ یہی نا کہ اسے خدا اور اس کے رسول نے قابلِ احترام ٹھہرایا۔ اسی خدا نے ہمیں قرآن بھی تو بخشا ہے، قرآن کی تعظیم بھی تو واجب ہے۔ لیکن اگر قرآن کو دستورِ حیات بنانے کی بجائے محض عقیدت کی کھونٹی پر ٹانگ دیا جائے تو کیا اس بات کی امید کی جاسکتی ہے کہ یہ قرآن ہماری شفاعت کرے گا۔ مجھے یقین ہے کہ قرآن بھی شفاعت کرے گا لیکن ان لوگوں کی جنہوں نے اس سے رہنمائ حاصل کرنا چاہی۔ بھلے اسے اپنی زندگیوں میں نافذ نہ کرسکے ہوں لیکن کوشش ضرور کی ہو۔ ایک شخص نے شراب کے مٹکے پی رکھے ہوں لیکن وہ اپنے دل میں خدا سے شرمندہ ہوتو امید کی جاسکتی ہے کہ خدا اس سے درگزر کردے لیکن ایک بد کردار شخص لاکھوں بار بھی حجرِ اسود کو چوم لے اس پر اپنی عقیدت کے ٹوکرے نچھاور کردے لیکن اپنے عمل کی اصلاح کی کوشش نہ کرے تو کیا یہ عقیدتِ محض اس بات کے لیے کافی ہے کہ حجرِ اسود خدا کے حضور اس کی سفارش کرے؟ کوئ مانے مگر، میں نہیں مانتا۔
 
خاور بلال بنیادی بات آپ نے بڑی اچھی طرح بیان کی ہے اور یہ وہ بات ہے جس کو سمجھنے کے لیے قرآن کے کسی باطنی معنی کی ضرورت نہیں (اگر قرآن کے کوئی باطنی معنی ہیں )۔بلکہ عقل سلیم کی ضرورت ہے۔
 

مہوش علی

لائبریرین
کچھ چیزوں کے متعلق اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمادیا کہ یہ خدا کے حضور تمہاری سفارش کرسکتی ہیں تو انکار نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے استعمال کی چیزں، ان کے کپڑے، نعلین اور بال وغیرہ سے عقیدت اور تعظیم بھی باعثِ اجر ہیں، بہت سے بزرگوں نے انہیں شفا و برکت کی نیت سے بھی استعمال کیا لیکن کیا ان چیزوں سے عقیدت کی بنا پر یہ چیزں خدا کے حضور آپ کی سفارش یعنی شفاعت کریں گی؟۔
یہ سوال آپکے ذہن میں موجود ان شکوک و وساوس کی وجہ سے ہے جو آپ ابھی تک ان شعائر اللہ اور تبرکات نبوی کی شفاعت کا انکار کر رہے ہیں۔
یعنی یہ تو مانتے ہیں کہ یہ چیزں بیماری سے شفا دیتی ہیں، مگر پھر بھی انکی شفاعت کا انکار ہے٫
جبکہ بات یہ طے ہے کہ ان تبرکات نبوی میں بذات خود مطلقا شفا دینے کی خصوصیت نہیں، بلکہ یہ اللہ کے حضور ہمارے لیے دعا کرتی ہیں جس سے ہمیں شفا ملتی ہے۔ اسی دعا کا نام شفاعت ہے، مگر ایک طبقے کو اس توحید کے نام پر اس شفاعت کے لفظ سے دشمنی ہے۔
/////////////////////////////////
از خاور بلال:
حجرِ اسود سے متعلق بھی میں اپنی لغو بات دوبارہ دہرا دوں کہ اگر پچاسیوں مرتبہ بھی حجرِ اسود کو عقیدت سے چوم لیا جائے لیکن اپنے اعمال میں اصلاح کی کوشش نہ کی جائے تو پھر حجرِ اسود کسی کام نہیں آنے والا۔

یہ صرف آپ کے دل کی بیماری ہے جو آپ کو مجبور کر رہی ہے کہ "دیگر اعمال کی اصلاح" کی اس شرط کو صرف حجر اسود سے منسلک کر دیں۔ حالانکہ اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے اور اللہ چاہتا ہے کہ ہر ہر میدان میں ہم [مسلمان] اپنے تمام تر دیگر اعمال کی اصلاح کریں اور کوئی ایسا عمل نہ کریں جو گناہ کا باعث ہو۔
چنانچہ دیگر اعمال کی اصلاح کی یہ شرط الف تا ے تمام اعمال کے ساتھ ہی لگی ہوئی ہے، مثلا ایک شخص خیرات تو خوب کرتا ہو مگر کمائی حرام کی کماتا ہو تو اسکی یہ خیرات قبول نہ ہو گی۔
ایک شخص کو مدرسے میں اسلام و قران تو خوب پڑھایا جاتا ہے اور خوب نمازی و پرہیزگار بنایا جاتا ہے، مگر وہ انتہا پسندوں کی صفوں میں شامل ہو کر جا کر خود کش حملوں میں معصوم لوگوں کو خون میں نہلا دیتا ہے تو ایسے شخص کے اعمال قبول نہیں اور اللہ نے قران میں ایسے لوگوں پر لعنت کی ہے اور اسکے فرشتوں کی بھی اس پر لعنت ہے، اور لعنت کرنے والوں کی بھی اس پر لعنت ہے اور اس پر ابدی عذاب ہے۔ [القران]

//////////////////////////////////////
از خاور:
جو حدیثیں اس بات کا اشارہ کرتی ہیں کہ حجرِ اسود سے احسن سلوک کرو یہ نیک اعمال لوگوں کی گواہی دے گا تو اس میں بھی اہمیت نیک اعمال کی ہے نہ کہ خالی حجرِ اسود کو چومنے کی۔
اوپر دسیوں احادیث بالکل واضح اور روشن ہیں کہ شعائر اللہ و تبرکات نبوی اپنی شفاعت کے ذریعے نفع پہنچاتے ہیں، اور یہ شفاعت بیماری میں شفا پہنچا سکتی ہے، انسان استغفار کرے تو اسکے گناہوں کی معافی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں، صحابہ کرام اسی شفاعت و نفع کی نیت سے تبرکات نبوی کو دفن ہوتے وقت اپنے ساتھ دفنانے کی وصیت کرتے ہیں۔
علی ابن ابی طالب کہتے ہیں کہ حجر اسود روز شفاعت کرے گا، مگر علی ابن ابی طالب کی بھلا آپکے قیاسات کے مقابلے میں کیا حیثیت۔
تو جب آپ کے دل میں ابھی تک تبرکات نبوی کی تعظیم کی حیثیت شرک جیسی ہے تو پھر میرے لیے ممکن نہیں کہ اتنی واضح و روشن احادیث کے ہوتے ہوئے اور کچھ ایسی دلیل پیش کر سکوں کہ جس سے آپ مان جائیں، بلکہ ہر دفعہ آپ ایسے ہی عذر لیکر آ جائیں گے کہ جو کہ انصاف سے دور دور ہوں گے۔
////////////////////////////////////
جس نبی نے حجرِ اسود نصب کیا جس نے اسے چوم کر تعظیم بخشی اور اسے ہمارے لیے بھی باعثِ تعظیم ٹھہرایا اس نبی کی اصل تعلیمات کو ایک طرف رکھ کر صرف حجرِ اسود کو چوم لینا کیا احسن سلوک کہلاسکتا ہے؟
یہ ایک اور الزام و اعتراض لیکر آ گئے ہیں۔
کس کافر نے کہا ہے کہ صرف حجر اسود کو چومے جاو اور نبی پاک کی باقی تمام تر تعلیمات کو ایک طرف رکھ دو؟
جب بھی کوئی شخص صرف ایک عمل کو لے لے گا [چاہے یہ نمازیں پڑھنا ہو، لمبی داڑھی رکھ کر مسجد کا امام بن جانا ہو، ۔۔۔۔۔۔] مگر بقیہ تمام تر تعلیمات نبوی کو نظر انداز کر کے انکی مخالفت کرتا ہو تو یہ بربادی و تباہی ہے۔ مگر آپ کا تواتر کے ساتھ ایسی شرائط و الزامات و اعتراضات کو صرف اور صرف تبرکات نبوی سے منسلک کر کے انکا مطلق یا جزوی انکار اور انکی اہمیت کو کم کرنا کوئی قابل فخر فعل نہیں اور انصاف سے بہت دور ہے۔
 

سعود الحسن

محفلین
فاروقی اور طالوت بھیا م
احترام اسلام سے عبارت ہے :
چار مسالک برحق ہیں ان کی اقتدا پر نجات کی راہ ہے۔۔
شافعی ، مالکی، حنبلی اور حنفی
شافعی مسلک کے پیروکار اپنے سالک کی عطاعت میں رفع یدین کرتے ہیں
اور حنفی مسلک کے معتقدین اپنے سالک کی اقتدا میں ایسا نہیں کرتے :اب سنئے !
ایک بار امام ابو حنیفہ کا سفر امام شافعی کی طرف ہوا (آپ کے معتقدین بھی ہمراہ تھے) آپ (نعمان بن ثابت) نے اپنے
ہمراہیوں سے فرمایا کہ شافعی مسلک میں رفع یدین اب تک روا ہے ۔۔ ہم وہاں‌نماز پڑھیں گے اور رفع یدین نہ کریں گے تو
نماز میں تفریق ( جس سے لفظ فاروق ، اس کا حاصل مصد ر فاروقی اور فرق ہے) ہوگی ۔۔ لہذا ہم رفع یدین کریں گے۔
ادھر امام شافعی نے اپنے پیروکاروں سے کہا کہ حفی مسلک میں رفع یدین نہ رہی ، وہ ہمارے ہاں‌مہمان آرہے ہیں اگر ہم نے
رفع یدین کیا تو نماز میں‌تفریق ہوگی ۔ لہذا ان کے مسلک کے احترام میں ہم رفع یدین نہ کریں‌گے۔
تاریخَ عالم اسلام گواہ ہے کہ نماز میں عجیب منظر تھا ۔۔ رفع یدین کرنے والے رفع یدین نہ کر رہے تھے اور رفع یدین کرنے
والے رفع یدین کر رہے تھے ۔۔ یہ ہے احترام اور یہ اسلام ۔۔
میں نے یہاں چیک کیا تو حضرت امام ابو حنیفہ کا سال وفات اور حضرت امام شافعی کا سال ولادت ایک ہی پایا ، خیر کیا فرق پڑتاہے۔
ویسے میری سمجھ نہیں آیا کہ یہ بحث کیوں کی جارہی ہے، یہ بہت ہی بنیادی اختلافات ہیں جو پچھلے چودہ سو سالوں بہت پختہ ہو چکے ہیں، اور ان پر بحث انتہائی فضول اور شر کا باعث ہے، لہئذا میری گزارش ہے کہ اس تھریڈ کو فورا مقفل کردیا جاے۔
مغل صاحب ، اتحاد اسلامی ایک خواب ہے ، اور اس میں ناکامی کی وجہ جلد بازی ہے، ایک بہت بڑے مسلئہ کے حل کا کوئی فوری حل نہیں ہوتا ۔
انڈیا یا شاید کسی اور ملک کے حوالہ سے پڑھا تھا " یونیٹی ان ورائیٹی " ، یہ جب ہی ممکن ہے کہ پہلے اس حقیقت کو تسلیم کر لیں کہ ہر ایک کو اس کے عقیدہ پر عمل کا حق ہو، اور آپس کے اختلافی معاملات پر بحث نہ کی جاے اور انہیں نظر انداز کیا جاے، اور اس کے بجائے ایسے معاملات کو ابھارا جاے جن پر اتفاق ہو۔ جب ہی صرف ابتدائی منزل مل سکتی ہے ، اصل منزل پھر بھی دور ہی ہوگی ، آپ نے سنا ہی ہوگا " سلو اینڈ سٹڈی ون دا ریس"۔
میں پھر درخواست کروں گا کہ دھاگہ مقفل کردیا جائے۔
 

مہوش علی

لائبریرین
خاور بلال بنیادی بات آپ نے بڑی اچھی طرح بیان کی ہے اور یہ وہ بات ہے جس کو سمجھنے کے لیے قرآن کے کسی باطنی معنی کی ضرورت نہیں (اگر قرآن کے کوئی باطنی معنی ہیں )۔بلکہ عقل سلیم کی ضرورت ہے۔

اللہ تعالی فرماتا ہے کہ دلیل لاو اگر تم سچے ہو۔
اور میں ایسے مراسلوں کا کیا جواب دوں جو دلائل سے بالکل عاری ہوں۔
///////////////////////////
اور کیا ان دو چیزوں میں فرق نظر آتا ہے:

1۔ ظاہر بالمقابل مجاز
2۔ ظاہر بالمقابل باطن

اگرچہ کہ ظاہر دونوں جگہ بطور مدمقابل ہے، مگر "مجاز" اور "باطن" میں فرق ہے۔

مجاز کے متعلق میں نے قران سے بے تحاشہ دلائل اوپر نقل کر دیے ہیں کہ نبی کو روف و رحیم اگر ماننے انکار کر دو کہ اللہ روف و رحیم ہے، تو یہ ظاہر پرستی ہے جبکہ مجازی معنوں میں رسول کو بھی روف و رحیم ماننا واجب۔
اسی طرح جب اللہ خود فرما دے کہ اللہ کے ساتھ اسکا رسول بھی اپنے فضل سے غنی کرتا ہے تو ظاہر پرست لاکھ سر پٹخ لیں، اور کرتے رہیں مجاز کو ماننے کا انکار، یہ انکی قسمت مگر میں تو قران و قول رسول سے کسی کے کہنے سے منحرف نہیں ہو سکتی۔
///////////////////////////////
ظاہر بالمقابل باطن پر کبھی میں نے کوئی گفتگو شروع نہیں کی۔ اور اگر آپ کو قران کے باطن کا انکار ہے تو پھر یہ آپکی قسمت۔
مجھے تو یہ علم ہے کہ اللہ قران میں فرما رہا ہے کہ سلیمان علیہ الصلوۃ و السلام کے صحابی آصف بن برخیا کو "کتاب" کا تھوڑا سا علم دیا گیا تھا [قرانی الفاظ میں "من الکتاب"۔ اور اس کی بنیاد پر آصف بن برخیا اس قابل تھے کہ پلک جھپکتے میں ملکہ بلقیس کا تخت ہزاروں میل دوری سے پلک جھپکتے میں سامنے لا کر حاضر کر سکیں۔
بہرحال، قران کا باطن یہاں ہمارا موضوع نہیں، بلکہ مجاز موضوع ہے۔ اور اگر آپ کو اسکا انکار ہے تو آپ دلائل سے اپنی بات کر سکتے ہیں۔
 

طالوت

محفلین
ماشاء اللہ نئی دریافتیں ہو رہی ہیں ۔۔۔ کرتوں اور دوسری چیزوں سے شفاء حاصل ہو رہی اور ان سے دعائیں لی جا رہی ہیں ۔۔۔
"مسلم" سائنس ہمیشہ اپنے عروج پر رہے گی ۔۔۔ لگے رہو !!!!!!
وسلام
 

فاروقی

معطل
میرے خیال سے کافی مراسلات ہو گئے ہیں ...........آپ کا کیا خیال ہے خاتون مہوش علی......؟

اس طرح بحث کبھی ختم نہیں ہو گی............دو تیر میں چلاوں گا چار آپ ماریں گی ......ایک دو کوئی اور کھینچ دے گا........لیکن فائدے کی بجائے نقصان ہی ہو گا...............میرے خیال سے اب اسے یہیں چھوڑ دینا چاہیئے .......نہیں تو منتظمین آتے ہی ہوں گے......

کسی کو میری باتوں سے تکلیف پہنچی ہو تو میں معذرت خواہ ہوں...........والسلام علیکم
 

مہوش علی

لائبریرین
میں نے یہاں چیک کیا تو حضرت امام ابو حنیفہ کا سال وفات اور حضرت امام شافعی کا سال ولادت ایک ہی پایا ، خیر کیا فرق پڑتاہے۔
ویسے میری سمجھ نہیں آیا کہ یہ بحث کیوں کی جارہی ہے، یہ بہت ہی بنیادی اختلافات ہیں جو پچھلے چودہ سو سالوں بہت پختہ ہو چکے ہیں، اور ان پر بحث انتہائی فضول اور شر کا باعث ہے، لہئذا میری گزارش ہے کہ اس تھریڈ کو فورا مقفل کردیا جاے۔
مغل صاحب ، اتحاد اسلامی ایک خواب ہے ، اور اس میں ناکامی کی وجہ جلد بازی ہے، ایک بہت بڑے مسلئہ کے حل کا کوئی فوری حل نہیں ہوتا ۔
انڈیا یا شاید کسی اور ملک کے حوالہ سے پڑھا تھا " یونیٹی ان ورائیٹی " ، یہ جب ہی ممکن ہے کہ پہلے اس حقیقت کو تسلیم کر لیں کہ ہر ایک کو اس کے عقیدہ پر عمل کا حق ہو، اور آپس کے اختلافی معاملات پر بحث نہ کی جاے اور انہیں نظر انداز کیا جاے، اور اس کے بجائے ایسے معاملات کو ابھارا جاے جن پر اتفاق ہو۔ جب ہی صرف ابتدائی منزل مل سکتی ہے ، اصل منزل پھر بھی دور ہی ہوگی ، آپ نے سنا ہی ہوگا " سلو اینڈ سٹڈی ون دا ریس"۔
میں پھر درخواست کروں گا کہ دھاگہ مقفل کردیا جائے۔

اور میری درخواست ہے کہ دھاگے کو مقفل نہ کیا جائے۔ بلکہ اسکو ایک اور لڑی میں منتقل کر دیا جائے اور لڑی کو صرف آب زمزم کے لیے مخصوص رہنے دیا جائے۔

اور جب تک تمیز کے دائرے میں رہ کر ایک دوسرے تک اپنے دل کا حال پہنچایا جا سکے اُس وقت تک ہر گفتگو مفید ہے، ورنہ دل میں رکھے رکھے یہ درد کبھی ناسور بن جائے گا اور اور زیادہ تباہی کا باعث ہو گا۔
اچھی طریقے سے کی گئی گفتگو سے ہمیشہ یہ فائدہ ہوتا ہے کہ انسان دوسروں کے خیالات، انکی آراء سے آگاہی حاصل کر پاتا ہے، ورنہ اختلافات اور غلط فہمیاں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے برقرار رہیں گی اور بڑھتی رہیں گی۔ یہ انسانی فطرت ہے کہ جس سے فرار ممکن نہیں اور اللہ تعالی خود ہماری قرآن میں حوصلہ افزائی کر رہا ہے کہ ہم اہل کتاب سے بحث کریں اچھے طریقے سے۔
ہر مشکل سے فرار ممکن نہیں۔ بلکہ ہر مشکل کا خدا کے بتائے ہوئے طریقے سے مقابلہ کرنا ہی فلاح کا ذریعہ ہے۔

اگر میں نے اس دھاگے میں کوئی معیار سے نیچے بات لکھ کر ذاتی طور پر کسی کا دل دکھایا ہے تو پہلے تو معذرت، پھر آپ مجھے وہ جگہیں دکھا دیں تو میں اسے ڈیلیٹ کر دیتی ہوں۔مگر اس بحث کی افادیت سے انکار نہ کریں کہ جہاں ہمیں ایک دوسرے کی آراء کو بنیاد سے سمجھنے کا موقع مل رہا ہے اور دلائل و ثبوتوں کے ساتھ گفتگو ہو رہی ہے۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top