’سمت‘ شمارہ 12 کا اجراء

الف عین

لائبریرین
خرم۔ شکریہ مشورے کا۔
بھئ میں تو اس سلسلے میں کچھ نہیں کر سکتا کہ اس کا با قاعدہ پنٹ ورژن بھی نکالا جائے۔ میرا مقصد اس کا صرف یہ ہے کہ اردو تحریر کا فروغ ہو، لوگوں کو احساس ہو کہ نستعلیق فانٹس بھی کمپیوتر کے لئے دستیاب ہیں اور وہ اردو تحریر کا استعمال کرنے پر راغب ہو جائیں۔
ہاں، اگر آپ لوگ پاکستان میں اس کے شائع کرنے کا نظم کر سکیں تو بہت خوب۔۔۔
یوں کئی دن سے ایک اور آئیڈیا بھی ذہن میں کلبلا رہا ہے۔ بیسیوں رسائل ہند و پاک میں اس لئے بند ہو جاتے ہیں کہ مدیران ان کا خرچ برداشت نہیں کر سکتے۔ میرا مشورہ یہ ہے کہ بجائے کاغذ کے جریدہ سی ڈٰ کی شکل میں جاری کیا جائے۔ اس پر خرچ بھی بہت کم آءے گا، دس بیس روپئے خریندے والے پر بھی بار نہیں پڑیں گے، اور محض پندرہ بیس روپئے میں ایک جریدہ ہی کیا، دس بیس جریدوں کے شمارے آسانی سے شامل کئے جا سکتے ہیں۔ اس ضمن میں کچھ اخبارات میں لکھنے کی سوچ رہا ہوں۔ کیا خیال ہے یہاں احباب کا؟
 

خاورچودھری

محفلین
خرم۔ شکریہ مشورے کا۔
بھئ میں تو اس سلسلے میں کچھ نہیں کر سکتا کہ اس کا با قاعدہ پنٹ ورژن بھی نکالا جائے۔ میرا مقصد اس کا صرف یہ ہے کہ اردو تحریر کا فروغ ہو، لوگوں کو احساس ہو کہ نستعلیق فانٹس بھی کمپیوتر کے لئے دستیاب ہیں اور وہ اردو تحریر کا استعمال کرنے پر راغب ہو جائیں۔
ہاں، اگر آپ لوگ پاکستان میں اس کے شائع کرنے کا نظم کر سکیں تو بہت خوب۔۔۔
یوں کئی دن سے ایک اور آئیڈیا بھی ذہن میں کلبلا رہا ہے۔ بیسیوں رسائل ہند و پاک میں اس لئے بند ہو جاتے ہیں کہ مدیران ان کا خرچ برداشت نہیں کر سکتے۔ میرا مشورہ یہ ہے کہ بجائے کاغذ کے جریدہ سی ڈٰ کی شکل میں جاری کیا جائے۔ اس پر خرچ بھی بہت کم آءے گا، دس بیس روپئے خریندے والے پر بھی بار نہیں پڑیں گے، اور محض پندرہ بیس روپئے میں ایک جریدہ ہی کیا، دس بیس جریدوں کے شمارے آسانی سے شامل کئے جا سکتے ہیں۔ اس ضمن میں کچھ اخبارات میں لکھنے کی سوچ رہا ہوں۔ کیا خیال ہے یہاں احباب کا؟


خرم نے اگرچہ بہت اچھا مشورہ دیا ہے لیکن میں‌اس کا تجربہ کر چکا ہوں۔ ایک معیاری رسالے کی اشاعت پر یہاں پاکستان میں بیس سے تیس ہزار روپے خرچ آتے ہیں۔ میں‌نے سن 2000 میں ادبی رسالہ " سحرتاب " شروع کیا تھا صرف دو شمارے شائع کرکے بند کر دیا۔ اس کی وجہ یہی تھی کہ ہر کوئی مفت میں‌پڑھنا چاہتا تھا۔
کراچی سے شائع ہونے والا مقبول رسالہ " سخنور" جسے محترم نقوش نقوی صاحب چھاپتے ہیں‌بھی سات سال کی اشاعت کے بعد بند رہا اور اب کل ہی اس کا تازہ شمارہ نئے عزم کے ساتھ سامنے آیا ہے۔ اس رسالے سے میری بھی وابستگی ہے یعنی سفیرانِ‌سخن ور میں‌میرا بھی نام چھپتا ہے۔

اعجاز عبید صاحب آپ کا آئیڈیا لاجواب ہے مگر اس میں‌مشکل یہ ہے کہ سی ڈی زیادہ لوگ استعمال نہیں‌کرتے ۔خصوصا بزرگ ادیب تو کمپیوٹر بھی نہیں‌جانتے۔ ایسے میں چند لوگ ہی اس سے فایدہ اٹھا سکیں‌گے۔

خرم اگر چاہتے ہیں پھر بھی رسالہ کاغذ پر شائع ہو تواس کی ایک صورت ہے۔ دل چسپی رکھنے والے تمام حضرات اخراجات آپس میں‌بانٹ لیں۔ اس طرح ممکن ہے یہ منصوبہ قابل عمل اور دیر پا ہو سکے۔
 

خاورچودھری

محفلین
خاور چوہدری، اب سعید اس معاملے میں آپ کی رہنمائی ضرور کریں گے۔ موقعے کا فائدہ اٹھا کر میں بھی ایک تجویز پیش کیے دیتا ہوں۔ :) میری دانست میں ورڈپریس کے ذریعے بھی ایک جریدے کی اچھی سائٹ بنائی جا سکتی ہے۔ اگرچہ ورڈپریس کو بلاگ پبلش کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، لیکن اس کی کچھ میگزین ٹیمپلیٹس بھی موجود ہیں جن کے ذریعے ورڈپریس کو ایک جریدہ پبلش کرنے کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔

نبیل ______ !
میں‌اس معاملے میں‌بالکل اناڑی ہوں۔ مجھے فنی حوالے سے معمولی سی بات بھی نہیں‌معلوم۔ یہاں‌ہمارے شہر میں ویب ڈویلپر/ ڈیزائنر نہیں‌ہیں‌اور نہ ہی کسی شخص سے رابطہ ہے۔
میں‌یہ چاہتا تھا سادہ سی ویب تخلیق ہو جاتی جس پر ہم اپنا اخبار چھاپ سکتے۔ جس طرح دیگر اخبارات کرتے ہیں۔
 

خاورچودھری

محفلین
خاور۔ سعود نے نئی ملازمت پرسوں سے ہی جائن کی ہے میری دہلی سے روانگی کے اگلے ہی دن۔ اور اب وہ مصروف ہو گئے ہیں کہ میں ’سمت‘ کے لئے ہی پریشان ہوں کہ اگلے شمارے کے لئے وہ کتنا وقت دے سکیں گے۔ بہر حال وہ آئیں تو آپ کو درست جواب دیں گے۔


زبردست یہ تو اچھی خبر ہے۔ اللہ انہیں ترقی دے۔
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
السلام علیکم بات تو اعجاز صاحب کی بھی ٹھیک ہے اور خاور صاحب آپ بھی ٹھیک فرما رہے ہیں سی ڈی میں اگر کرے تو خاور صاحب والی بات پر غور کرنا پڑھے گا کیوں کے بہت سارے لوگ سی ڈی استعمال نہیں کرتے ان میں میں بھی ہوں میں خود استعمال نہیں کرتا ہوں لیکن پھر بھی اس کو سی ڈی میں شائع کرنا چاہے لیکن اس سے پہلے اخبارات میں آرٹیکل شائع کروانے لازمی ہونگے تانکہ پہلے لوگوں کو پتہ چلے اس کے بعد سی ڈی میں شائع کیا جائے

اور دوسری بات خاور صاحب کی مجھے پسند آئی ہے اگر سب مل کر اس پر کام کرئے تو ممکن ہے کہ یہ جریدہ شائع ہو جائے اصل میں خاور صاحب کی یہ بات بھی ٹھیک ہے کہ ادبی جریدہ مفت پڑھنا چاہتے ہیں لوگ لیکن دوسرے جریدہ کے لیے پیسے دے دیتے ہیں کل کی ہی بات ہے ہمارے ہاں ایک جریدہ آداب عرض کے نام سے شائع ہوتا ہے آج 19 تاریخ ہو چکی ہے لیکن ابھی تک جولائی کی کاپی نہیں آئی میں روز پتہ کرتا ہوں لیکن اس کے برعکس دوسرے جریدے 5 تاریخ تک ختم ہو جاتے ہیں

اگر ایک جریدے میں 20 سے 30 ہزار لگتے ہیں تو 10 یا 15 لوگ مل کر اس کو شائع کرنے کا ارادہ کرئے تو میرا خیال ہے یہ کافی عرصے تک چل سکتا ہے کیا خیال ہے اگر سب مل کر اس بارے میں سوچیں چلو اس طرح کر لیتے ہیں کون کون چاہتا ہے کہ سمت کتابی شکل میں شائع ہو اور کون کون اس کے لیے کیا کیا کرنا چاہتا ہے
 
سعود
میں‌یہاں‌سے ایک ہفت روزہ اخبار ’’ تیسرا رُخ ‘‘ کے نام سے شائع کر رہا ہوں۔ اس کی ویب نہیں‌ہے بنانے کے سلسلے میں آپ راہنمائی کر سکتے ہیں یا بنانے میں مدد؟

سلام مسنون!

قابل مبارکباد ہیں آپ کہ بخوبی ایک ہفت روزہ شائع کر رہے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل ہم نے بھی ایک عدد جریدہ (پیپر اور ویب دونوں پر) شائع کرنے کا سوچا تھا۔ اسے "ماہنامہ اظہار حق" کے نام سے ریجسٹر بھی کرا لیا اور اب تک اتفاق نہیں ہو سکا کے اسے جاری کیا جا سکے۔ ایک بار تقریباً پوری تیاری کر لی اور اداریہ بھی لکھ دیا (حالانکہ ان دنوں امتحانات چل رہے تھے۔) اس کے بعد کچھ مسائل در پیش آ گئے اور وہ بات وہیں رہ گئی۔ :)

ویب کے معاملے میں نبیل بھائی کی بات بالکل صحیح ہے۔ خصوصاً ہفت روزہ جیسی چیز کے لئے اسکریچ سے کوڈنگ کا سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ یا تو ایک ویب ڈیزائنر روز آنہ اس پر کام کرے۔ ممکن ہے کہ کچھ احباب ورڈپریس کا کوئی میگزین ٹیمپلیٹ تلاش کر اسے اردو کے لئے کسٹمائز کر دیں تو آپ آگے کا کام از خود کر سکیں گے۔ بس وہ سارا مواد (جو کہ یقیناً ان پیج میں ہوگا) کسی یونیکوڈ کنورٹر سے کنورٹ کر کے ایک ویب فارم میں پیسٹ کرکے پوسٹ کرنا ہوگا بس۔ :)

والسلام!
 

نبیل

تکنیکی معاون
نبیل ______ !
میں‌اس معاملے میں‌بالکل اناڑی ہوں۔ مجھے فنی حوالے سے معمولی سی بات بھی نہیں‌معلوم۔ یہاں‌ہمارے شہر میں ویب ڈویلپر/ ڈیزائنر نہیں‌ہیں‌اور نہ ہی کسی شخص سے رابطہ ہے۔
میں‌یہ چاہتا تھا سادہ سی ویب تخلیق ہو جاتی جس پر ہم اپنا اخبار چھاپ سکتے۔ جس طرح دیگر اخبارات کرتے ہیں۔

خاور، اس کے لیے کوئی خاص تکنیکی مہارت کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ تکنیکی مرحلہ ورڈپریس کی انسٹالیشن اور ٹیمپلیٹ سیٹ اپ کرنے کا ہے جو صرف ایک مرتبہ کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ اگر آپ ایک اچھی سائٹ بنانا چاہتے ہیں تو میں آپ کو باقاعدہ ایک ڈومین نیم رجسٹر کرنے کا مشورہ دوں گا۔ فری ویب ہوسٹنگ پر بنائی گئی سائٹس بہتر نہیں لگتیں۔
 

خاورچودھری

محفلین
سلام مسنون!

قابل مبارکباد ہیں آپ کہ بخوبی ایک ہفت روزہ شائع کر رہے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل ہم نے بھی ایک عدد جریدہ (پیپر اور ویب دونوں پر) شائع کرنے کا سوچا تھا۔ اسے "ماہنامہ اظہار حق" کے نام سے ریجسٹر بھی کرا لیا اور اب تک اتفاق نہیں ہو سکا کے اسے جاری کیا جا سکے۔ ایک بار تقریباً پوری تیاری کر لی اور اداریہ بھی لکھ دیا (حالانکہ ان دنوں امتحانات چل رہے تھے۔) اس کے بعد کچھ مسائل در پیش آ گئے اور وہ بات وہیں رہ گئی۔ :)

ویب کے معاملے میں نبیل بھائی کی بات بالکل صحیح ہے۔ خصوصاً ہفت روزہ جیسی چیز کے لئے اسکریچ سے کوڈنگ کا سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ یا تو ایک ویب ڈیزائنر روز آنہ اس پر کام کرے۔ ممکن ہے کہ کچھ احباب ورڈپریس کا کوئی میگزین ٹیمپلیٹ تلاش کر اسے اردو کے لئے کسٹمائز کر دیں تو آپ آگے کا کام از خود کر سکیں گے۔ بس وہ سارا مواد (جو کہ یقیناً ان پیج میں ہوگا) کسی یونیکوڈ کنورٹر سے کنورٹ کر کے ایک ویب فارم میں پیسٹ کرکے پوسٹ کرنا ہوگا بس۔ :)

والسلام!


ابن سعید گزشتہ آٹھ سال سے یہ اخبار میں‌شائع کر رہا ہوں۔
میں ویب پر اتنا کام کر سکتا ہوں جتنا یہاں‌محفل پر۔ یعنی ان پیج سے یونی کوڈ میں‌کنورٹ کر کے پوسٹ کر سکتا ہوں۔ اگر کوئی صاحب آپ کی توجہ حاصل کر سکے تو میری مشکل حل ہو جائے گی۔
 

خاورچودھری

محفلین
سلام مسنون!

قابل مبارکباد ہیں آپ کہ بخوبی ایک ہفت روزہ شائع کر رہے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل ہم نے بھی ایک عدد جریدہ (پیپر اور ویب دونوں پر) شائع کرنے کا سوچا تھا۔ اسے "ماہنامہ اظہار حق" کے نام سے ریجسٹر بھی کرا لیا اور اب تک اتفاق نہیں ہو سکا کے اسے جاری کیا جا سکے۔ ایک بار تقریباً پوری تیاری کر لی اور اداریہ بھی لکھ دیا (حالانکہ ان دنوں امتحانات چل رہے تھے۔) اس کے بعد کچھ مسائل در پیش آ گئے اور وہ بات وہیں رہ گئی۔ :)

ویب کے معاملے میں نبیل بھائی کی بات بالکل صحیح ہے۔ خصوصاً ہفت روزہ جیسی چیز کے لئے اسکریچ سے کوڈنگ کا سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ یا تو ایک ویب ڈیزائنر روز آنہ اس پر کام کرے۔ ممکن ہے کہ کچھ احباب ورڈپریس کا کوئی میگزین ٹیمپلیٹ تلاش کر اسے اردو کے لئے کسٹمائز کر دیں تو آپ آگے کا کام از خود کر سکیں گے۔ بس وہ سارا مواد (جو کہ یقیناً ان پیج میں ہوگا) کسی یونیکوڈ کنورٹر سے کنورٹ کر کے ایک ویب فارم میں پیسٹ کرکے پوسٹ کرنا ہوگا بس۔ :)

والسلام!

سعود میں‌اتنا ہی کام کر سکتا ہوں جتنا آپ نے آخری لائن میں‌لکھا ہے۔ یعنی ان پیج سے کنورٹ کر کے پوسٹ کرنا۔
 

خاورچودھری

محفلین
خاور، اس کے لیے کوئی خاص تکنیکی مہارت کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ تکنیکی مرحلہ ورڈپریس کی انسٹالیشن اور ٹیمپلیٹ سیٹ اپ کرنے کا ہے جو صرف ایک مرتبہ کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ اگر آپ ایک اچھی سائٹ بنانا چاہتے ہیں تو میں آپ کو باقاعدہ ایک ڈومین نیم رجسٹر کرنے کا مشورہ دوں گا۔ فری ویب ہوسٹنگ پر بنائی گئی سائٹس بہتر نہیں لگتیں۔


نبیل آپ کا مشورہ مجھے پسند آیا ہے۔ ڈومین نیم رجسٹر کرنے پر کتنا خرچ آئے گا؟
لیکن مسئلہ تو پھر بھی موجود ہوگا کہ ویب کیسے ڈویلپ ہوگی اور پھر اسے مستقل کیسے اپ لوڈ رکھا جائے گا؟

باسم کا مشورہ کیسا ہے ، کیا سیکھنے کے بعد ہی اپنی مستقل ڈومین نہ لی جائے؟
 

بلال

محفلین
نبیل آپ کا مشورہ مجھے پسند آیا ہے۔ ڈومین نیم رجسٹر کرنے پر کتنا خرچ آئے گا؟
لیکن مسئلہ تو پھر بھی موجود ہوگا کہ ویب کیسے ڈویلپ ہوگی اور پھر اسے مستقل کیسے اپ لوڈ رکھا جائے گا؟

باسم کا مشورہ کیسا ہے ، کیا سیکھنے کے بعد ہی اپنی مستقل ڈومین نہ لی جائے؟

خالی ڈومین نیم رجسٹر کروانے کے کوئی زیادہ پیسے نہیں ہیں میرے خیال میں 6 ڈالر سالانہ ہیں شائد۔۔۔ یہاں کئی دوست یہ کام کرتے ہیں۔۔۔ اور رہی ویب ہوسٹنگ کے چارجز تو وہ بھی اتنے زیادہ نہیں۔۔۔ ہو سکتا ہے کوئی دوست اپنی خریدی ہوئی ویب ہوسٹنگ پر آپ کی ویب بھی رکھ دے۔۔۔ مزید ویب ڈویلپنگ کے لئے ہم حاضر ہیں۔۔۔ ویسے بھی کچھ خاص تو کرنا نہیں پڑے گا۔۔۔ کوئی اچھا سا سی ایم ایس استعمال کرنا ہوا گا یا پھر ورڈ پریس کے کسی نیوز تھیم کو استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔۔۔ اور مزید ایڈیٹنگ بھی انشاءاللہ ہو جائے گی۔۔۔ اس بارے میں ایک پی ایم آپ کو کیا ہے۔۔۔
 

الف عین

لائبریرین
جب تک کہ میں باقاعدہ کوئی جریدہ ورڈ پریس کے کسی سانچے میں نہ دیکھ لوں، اس سلسلے میں کچھ کہہ نہیں سکتا۔۔ لیکن میں اب بھی نہیں سمجھ سکتا کہ جریدے اور نیو لیٹر میں بہت فرق ہے۔ نیوز لیٹر کو آپ اپ ڈیٹ کر سکتے ہیں کہ نئی خبریں سانے آ جائیں، پرانی خبریں پیچھے چلی جائیں۔ لیکن جریدہ۔۔ کم از کم اردو جریدہ کی ایک Periodicity ہوتی ہے، ماہانہ، یا سہ ماہی۔ اور ہر شمارہ اسی طرح ایک الگ لے آؤٹ کا ہو جس طرح پرنٹ ورژن کا جریدہ ہوتا ہے۔ اگر ایسا کوئی ٹمپلیٹ ہو، اور جسے پاک یا عماد نستعلیق میں کانفی گیور کیا جا سکتا ہو، تن ہی اردو جریدہ اردو والوں کو قابلَ قبول ہو سکتا ہے۔
یہ تو تکنیکی بات ہو گئی۔
’سمت‘ کو پرنٹ ورژن شائع کرنا ہو تو اصل کوشش مستقل اشتہارات کی فراہمی ہے۔ اگر کوئی فرمس تینوں ٹائٹل پیجیز کے لئے اشتہارات مستقل فراہم کرنے کی حامی بھر لے تو پھر نیا پار ہے!!
سی ڈی میں ایک سے زائد جریدے شامل کئے جا سکتے ہیں، اور یہ دس بیس روپئے وہ لوگ آرام سے خرچ کر سکتے ہیں جو کم از کم کمپیوٹر پر فلموں کی وی سی ڈیز بھی دیکھتے ہوں۔ بہر حال اس طرح جریدے کا تجربہ کرنے میں کیا حرج ہے؟ زیادہ خرچ تو نہیں ہونے والا۔ سی ڈی پر ٹائٹل پرنٹ ہونے کا خرچ ہی زیادہ ہو سکتا ہے۔ اس کا کسی کو آئڈیا ہے؟
 
چاچو سی ڈی کے ٹائٹل پرنٹ کا کوئی خاص خرچ نہیں ہے۔ اور اس کے اسٹیکر بھی آتے ہیں۔ :)

ویسے سیڈی والے میں قباحت یہ ہے کہ اتنا مواد لائیں گے کہاں سے۔ پھر اس کی ڈیزائننگ وغیرہ۔ در اصل ایسی کوئی کوشش کرنے سے قبل ایک فلیش کا میگزین ریڈر بنانا ہوگا۔ وہ بھی مزید بہتر تب ہو سکے گا جب اس میں فانٹ امبیڈ کئے جا سکیں۔ اور ساتھ ہی ٹیکسٹ فائل بھی فراہم کی جا سکتی ہے اگر کاپی رائٹ فری رکھنا ہے تو۔

لیکن سی ڈی میں میگزین کی ریڈر شپ عموماً کم ہوتی ہے۔ ہاں ایسے کام بچوں کی میگزین نکال کر کئے جا سکتے ہیں۔ جن میں ہر شمارے کے ساتھ کچھ اچھے گیم (اردو میں) وغیرہ شامل کئے جائیں۔ اب اگر اردو محفل پر ایک ایسا گروپ تشکیل پا جائے جو اس پروجیکٹ کو وقت دے سکے تو کیا ہی بات ہو۔ ساتھ ہی بچوں کے لئے اردو سائٹ والی بات بھی ہو جائے گی۔

ویسے ایک بات طے ہے کہ سی ڈی میں ادبی جریدے کی ریڈر شپ انتہائی مایوس کن ہوگی۔ اگر آپ جامعہ میں اپنے واقف کار ادیبوں سے مل کر بھی ایسا خیال کرتے ہیں تو مجھے تعجب ہے چاچو۔ اور جو لوگ کمپیوٹر استعمال کرتے ہیں ان کی پہونچ عموماً انٹر نیٹ پر بھی ہوتی ہے۔ لہٰذا انہیں اس کی ضرورت ہی نہیں ہوگی۔ آپ کو یاد ہوگا کہ جن کے گھر ہم لوگ گئے تھے (نام میں یہاں جان بوجھ کر نہیں لکھ رہا) وہ موصوف ای میل بھی خود چیک نہیں کرتے بلکہ کلرک صاحبان سارے ای میلس کی پرنٹیڈ کاپی لے کے آتے ہیں۔

چاچو چند اولو العزم بزرگوں کو چھوڑ کے بوڑھوں کی ایک بہت بڑی تعداد کمپیوٹر سے گھبراتی ہے۔ (کم از کم ہمارے یہاں) اسی لئے میری صلاح ایسی انرجی نئی نسل کے لئے خرچ کرنے کی ہے۔ :)
 

الف عین

لائبریرین
تمہاری بات ہے تو درست سعود۔۔ لیکن میرا مقصد یہ تھا کہ جب ہینگ اور پھٹکری کا خرچ بھی نہیں لگ رہا ہو تو کیوں نہ اس کا تجربہ کیا جائے۔ یہاں حیدر آباد میں نوجوان نسل تو بری طرح کمپیوٹر اور انٹر نیٹ سے جڑی ہے۔ کبھی کبھی تو میں نے یوں بھی سنا ہے کہ لوگوں نے کسی کا فون نمبر پوچھا ہے لیکن کہاں کاغذ پر لکھ کر دیا جائے تو یہ جواب ملا کہ ای میل سے بھیج دیں گے!!
اس نسل کو اردو زبان و ادب سے دل چسپی پیدا کرنے کے لئے سی ڈی ایک اچھی چیز ہو سکتی ہے۔
ویسے یہ بھی درست ہے کہ رتین چار سال پہلے ایک سی ڈی میں انگریزی جریدہ آتا تھا َ اس وقت نام یاد نہیں آ رہا، وہ بھی بعد میں بند ہو گیا۔ فی الحال صرف Cyber Edgeکے نام سے ایک جریدہ + سافٹ وئر۔ گیمس سی ڈی پر مبنی جریدہ نکلتا ہے۔
میرے ذہن میں یہ خیال‌آیا کہ جو جریدے محض مالی مشکلات کی وجہ سے بند کرنے ہوتے ہیں، ان کو اس طرح جلا مل سکتی ہے۔ کم از کم یہ تو کہا ہی جا سکتا ہے کہ جریدہ جاری ہے برقی شکل میں۔ اس قسم کے تین چار جریدے ایک سی ڈی میں شامل کریں۔ اور ہر سی ڈی میں اردو کے مختلف ٹولس بھی شامل ہوں کہ پڑھنے والے خود بھی اردو لکھنے کے قابل ہو جائیں۔ اس طرح اردو تحریر کو بھی فروغ ممکن ہے۔
پاکستان میں جو احباب پہلے سے ہی جریدوں سے متعلق ہیں۔وہ ذرا تجربہ کر کے دیکھیں۔ خاور چودھری، کیا خیال ہے۔ آپ کے جریدے کی سی ڈی کے ساتھ ’سمت‘ بھی شامل کر دیں!!
اور پرنٹ ورژن کا ابھی لکھ ہی چکا ہوں کہ اشتہارات کا انتظام ہو سکے تو آسانی سے ممکن ہے یہ بھی۔
مختصر یہ کہ کیوں کہ پرنٹ وررژن کی ریڈر شپ اگر دو سو بھی ہے (یوں بھی ہندوستان میں پرچے پانچ سو سے زیادہ نہیں چھپتے) تو اتنی تعداد تو سی ڈی کی بھی ممکن ہے، اور اگر سو کی بھی ریڈر شپ ہو، تو کیوں کہ خرچ تو محض پانچ فی صد ہو رہا ہے تو کیا حرج ہے اس میں بھی!!
 

خاورچودھری

محفلین
خالی ڈومین نیم رجسٹر کروانے کے کوئی زیادہ پیسے نہیں ہیں میرے خیال میں 6 ڈالر سالانہ ہیں شائد۔۔۔ یہاں کئی دوست یہ کام کرتے ہیں۔۔۔ اور رہی ویب ہوسٹنگ کے چارجز تو وہ بھی اتنے زیادہ نہیں۔۔۔ ہو سکتا ہے کوئی دوست اپنی خریدی ہوئی ویب ہوسٹنگ پر آپ کی ویب بھی رکھ دے۔۔۔ مزید ویب ڈویلپنگ کے لئے ہم حاضر ہیں۔۔۔ ویسے بھی کچھ خاص تو کرنا نہیں پڑے گا۔۔۔ کوئی اچھا سا سی ایم ایس استعمال کرنا ہوا گا یا پھر ورڈ پریس کے کسی نیوز تھیم کو استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔۔۔ اور مزید ایڈیٹنگ بھی انشاءاللہ ہو جائے گی۔۔۔ اس بارے میں ایک پی ایم آپ کو کیا ہے۔۔۔

بلال شکریہ
میں‌منتظر ہوں۔۔۔۔ تفصیلات کے لیے
 

خاورچودھری

محفلین
تمہاری بات ہے تو درست سعود۔۔ لیکن میرا مقصد یہ تھا کہ جب ہینگ اور پھٹکری کا خرچ بھی نہیں لگ رہا ہو تو کیوں نہ اس کا تجربہ کیا جائے۔ یہاں حیدر آباد میں نوجوان نسل تو بری طرح کمپیوٹر اور انٹر نیٹ سے جڑی ہے۔ کبھی کبھی تو میں نے یوں بھی سنا ہے کہ لوگوں نے کسی کا فون نمبر پوچھا ہے لیکن کہاں کاغذ پر لکھ کر دیا جائے تو یہ جواب ملا کہ ای میل سے بھیج دیں گے!!
اس نسل کو اردو زبان و ادب سے دل چسپی پیدا کرنے کے لئے سی ڈی ایک اچھی چیز ہو سکتی ہے۔
ویسے یہ بھی درست ہے کہ رتین چار سال پہلے ایک سی ڈی میں انگریزی جریدہ آتا تھا َ اس وقت نام یاد نہیں آ رہا، وہ بھی بعد میں بند ہو گیا۔ فی الحال صرف Cyber Edgeکے نام سے ایک جریدہ + سافٹ وئر۔ گیمس سی ڈی پر مبنی جریدہ نکلتا ہے۔
میرے ذہن میں یہ خیال‌آیا کہ جو جریدے محض مالی مشکلات کی وجہ سے بند کرنے ہوتے ہیں، ان کو اس طرح جلا مل سکتی ہے۔ کم از کم یہ تو کہا ہی جا سکتا ہے کہ جریدہ جاری ہے برقی شکل میں۔ اس قسم کے تین چار جریدے ایک سی ڈی میں شامل کریں۔ اور ہر سی ڈی میں اردو کے مختلف ٹولس بھی شامل ہوں کہ پڑھنے والے خود بھی اردو لکھنے کے قابل ہو جائیں۔ اس طرح اردو تحریر کو بھی فروغ ممکن ہے۔
پاکستان میں جو احباب پہلے سے ہی جریدوں سے متعلق ہیں۔وہ ذرا تجربہ کر کے دیکھیں۔ خاور چودھری، کیا خیال ہے۔ آپ کے جریدے کی سی ڈی کے ساتھ ’سمت‘ بھی شامل کر دیں!!
اور پرنٹ ورژن کا ابھی لکھ ہی چکا ہوں کہ اشتہارات کا انتظام ہو سکے تو آسانی سے ممکن ہے یہ بھی۔
مختصر یہ کہ کیوں کہ پرنٹ وررژن کی ریڈر شپ اگر دو سو بھی ہے (یوں بھی ہندوستان میں پرچے پانچ سو سے زیادہ نہیں چھپتے) تو اتنی تعداد تو سی ڈی کی بھی ممکن ہے، اور اگر سو کی بھی ریڈر شپ ہو، تو کیوں کہ خرچ تو محض پانچ فی صد ہو رہا ہے تو کیا حرج ہے اس میں بھی!!


قابل قدر اعجاز صاحب
مجھے سی ڈی کا تجربہ نہیں‌ہے۔کاغذ کے حوالے سے بات پہلے کر چکا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ جو بھی فیصلہ کر لیں حکم کیجیے گا تعمیل ہوگی
 
Top