40 چہل احدیث

arifkarim

معطل
سلام;

2003327409340410140_rs.jpg


2003314429531000041_rs.jpg
 

نبیل

تکنیکی معاون
میں نے اسے یہاں منتقل کر دیا ہے۔ لائبریری سیکشن میں تصویری مواد مناسب نہیں لگتا۔
نمبر 17 مجھے غلط لگ رہا ہے۔ اصل حدیث غالباً یہ ہے کہ مومن کو ایک ہی سوراخ سے دوبارہ نہیں ڈسا جا سکتا۔
 

arifkarim

معطل
میں نے اسے یہاں منتقل کر دیا ہے۔ لائبریری سیکشن میں تصویری مواد مناسب نہیں لگتا۔
نمبر 17 مجھے غلط لگ رہا ہے۔ اصل حدیث غالباً یہ ہے کہ مومن کو ایک ہی سوراخ سے دوبارہ نہیں ڈسا جا سکتا۔

یہ پوسٹ مجھے ایک دوست نے فارورڈ کی تھی کی جتنا اسکو پھیلایا جائے، اچھا ہے۔ یقینا ٹائپنگ کی غلطی کی وجہ سے دو، سو بن گیا ہے۔:rolleyes:
 

شمشاد

لائبریرین
عارف بھائی کوئی بھی فارورڈ کی ہوئی ای میل بغیر تحقیق کیئے آگےبڑھا دینا بھی تو اچھی بات نہیں ہے۔
 

بلال

محفلین
جب آپ کسی بات کو اسلام کی طرف منسوب کرتے ہیں تو یہ بہت ذمہ داری کا کام ہوتا ہے۔ میں نے کئی بار دیکھا ہے کہ کوئی بات کہیں سے سنی یا پڑھی اور پھر اسے آگے بیان کر دیا اور یوں سلسلہ چلتا چلتا اصل الفاظ سے کہیں دور نکل جاتا ہے بلکہ ہونا تو یہ چاہئے کہ جب آپ کوئی آیت یا حدیث کہیں بیان کریں تو ساتھ حوالہ ضرور دیں تاکہ کوئی تحقیق کرنا چاہے تو آسانی سے کر لے بلکہ میرے خیال میں آیت یا حدیث آگے بیان کرنے سے پہلے تحقیق ضرور کر لینی چاہئے یعنی جن کتب میں اس کا ذکر ہے کم از کم ان سے استفادہ ضرور کرنا چاہئے۔۔۔
میں عارف بھائی کی پوسٹ پر تنقید نہیں کر رہا بس ایک بات ذہن میں آئی سو لکھ دی۔۔۔
میں جلد ہی اس بارے میں ایک تحریر محفل پر پوسٹ کروں گا۔۔۔ تحریر تو تقریبا لکھ لی ہے لیکن اس کے مکمل حوالہ جات ابھی باقی ہیں۔۔۔ حوالہ جات کے مکمل ہوتے ہی یہاں پوسٹ کر دوں گا۔۔۔
اللہ تعالٰی ہم سب کو نیک اعمال کی توفیق عطا فرمائے۔۔۔آمین
 

بنتِ حوا

محفلین
اوپر جو حدیث لکھی گئی ہے اس کا ساتھ حوالہ نہیں دیا گیا کہ نبی ص نے ایسا کہاں فرمایا؟ اور کس سے یہ ھدیث روایت کی جاتی ہے ساتھ حدیث کی کتاب کا نام بھی نہیں لکھا ہوا۔۔۔صرف کسی بات کو ایسے لکھ دینا کہ'نبی ص نے فرمایا حدیث نہیں بن جاتی اس کی ہمیں مکمل جانچ پرتال کرنی چاہیے تب ہی بات آگے کہنی چاہیے جزاک اللہ
 
مشکوٰۃ المصابیع، کتاب االعلم، الفصل الثالث، الحدیث 208، ج2، ص 68

آپ کی خیال تھا کہ اتنی مشہور و معروف حدیث بغیر ریفرنس کے ہے۔
آپ حدیث کے بارے میں اتنی فکر مند ہے کہ حدیث کہاں سے لی گئ لیکن ادب کا کیا مقام ہے کہ صلی اللہ علیہ وسلم پورا لکھنا بھی گوارا نہیں کیا۔
واہ ۔۔۔
 
مزید سنیے اس حدیث کے بارے میں:
حضرت سیدنا شیخ عبدالحق حدث دیلوی علیہ رحمۃ اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں : "علماء کرام فرماتے ہیں کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے اس ارشاد سے مراد و مقصوو لوگوں تک چالیس احادیث کا پہنچانا ہے۔ چاہے وہ اسے یاد نہ بھی ہوں اور ان کا معنٰی بھی اسے معلوم نہ ہو۔ (اشعۃ اللمعات، ج1، ص186)۔
مفسرِ شہیر حضرتِ مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فرماتے ہیں: "اس حدیث کے بہت پہلو ہیں؛ چالیس حدیثیں یاد کر کے مسلمان کو سنانا ، راویوں سن کر کتابی شکل میں جمع کرنا سب ہی اس میں داخل ہیں یعنی جو کسی طرح دینی مسائل کی چالیس حدیثیں میری امت تک پہنچا دے تو قیامت میں اس کا حشر علمائے دین کے زمرے میں ہوگا اور میں اس کی خصوصی شفاعت اور اس کے ایمان اور تقوے کی خصوصی گواہی دوں گا ورنہ عمومی شفاعت اور گواہی تو ہر مسلمان کو نصیب ہوگی۔ اسی حدیث کی بنا پر قربیاً تمام محدیثیں نے جہاں حدیثوں کے دفتر لکھے وہاں علیحدہ چہل حدیث جسے اربعینیہ کہتے ہیں جمع کیں۔ (مراۃ المناجیح، ج1، ص221)
 
جزاک اللہ - بہت ہی نیک دلی سے لکھ رہا ہوں۔ جہ جب بھی کوئی روایت یا حدیث پیش کی جاتی ہے تو ہم ہر طرح کا ریفرنس تو دیکھتے ہیں لیکن قرآن کا ریفرنس دیکھنے کی کوشش بہت کم کرتے ہیں ۔ اگر کوئی بات قران کی آیت و احکام سے بھی ثابت ہو تو یقیناً اس بات یا روایت کے مستند ہونے میں کوئی شک نہیں رہتا۔

کیا ہی اچھا ہو اگر کوئی بھائی یا بہن ان حدیثوں کو قرآن حکیم کی روشنی میں بھی پرکھیں اور قرآن کے حوالہ بھی فراہم کردیں تاکہ ہم سب کی معلومات میں اضافہ ہو اور مزید یہ کہ ان احادیث کے مستند ہونے میں بھی کوئی شک باقی نہ رہے گا۔ بہت ہی بہتر تو یہ ہوگا کہ ایک بھائی یا بہن صرف ایک حدیث لے لیں اور اس کو قرآن کی روشنی میں‌پرکھ کر دوسروں تک پہنچائے کہ کونسی آیت اس حدیث یا روایت کی تائید کرتی ہے؟ اس طرح بانٹ لینے سے کام بھی آسان ہو جائے گا اور ایمان بھی تازہ ہوگا۔ اور کسی کو شکایت کا موقعہ بھی نہیں ملے گا۔

والسلام
 

بنتِ حوا

محفلین
مشکوٰۃ المصابیع، کتاب االعلم، الفصل الثالث، الحدیث 208، ج2، ص 68

آپ کی خیال تھا کہ اتنی مشہور و معروف حدیث بغیر ریفرنس کے ہے۔
آپ حدیث کے بارے میں اتنی فکر مند ہے کہ حدیث کہاں سے لی گئ لیکن ادب کا کیا مقام ہے کہ صلی اللہ علیہ وسلم پورا لکھنا بھی گوارا نہیں کیا۔
واہ ۔۔۔

جب آپ نے اتنی مشہور و معروف حدیث کا ریفرنس دے دیا ہے تو میرا خیال ہے آپ کے علم میں یہ بھی ہونا چاہیے کہ ان الفاظ کے ساتھ جتنی بھی احادیث ہیں ان کی سند ضعیف ہے۔۔۔
اس سے ملتی جلتی ایک حدیث ہے جو صحیح سند کے ساتھ ہے اس کا مفہوم کچھ اس طرح ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ''اللہ اس شخص کو خوش و خرم رکھے جو میری بات یاد کرتا ہے اور اسے ایسے ہی آگے پہنچاتا ہے جیسے اس نے سنی ہو۔۔''اس میں 40 احادیث کی قید کہیں بھی نہیں ہے۔۔
جہاں تک بات میری حدیث کے بارے مین فکر مندی کی ہے تو حدیث کے بارے میں فکر مند نہ ہوں تو اور کس کے بارے میں ہوں؟موضوع اور ضعیف روایات کی وجہ سے جتنی بدعات لوگ کر رہے ہیں ان کی تحقیق کرنا ہمارا فرض ہے اور دوسرے لوگوں کو بتانا۔۔جہاں تک آپ نے نبی ص کے نام کو پورا لکھنے کی بات کی ہے تو بھائی وہ میرا ذاتی عمل ہے اور اس حدیث کی بابت دریافت کرنا دین کا معاملہ ہے۔۔اور شاید آپ نے کبھی اسلامیات کی کتابوں میں نبی ص کے نام کے ساتھ ایسا لکھا ہوا دیکھا نہیں ہے اس لیے ایسا کہہ رہے ہیں میرا مقصد نبی صلہ کا نام کہتے اور لکھتے وقت زبان سے پورا ادا کرنا ہے اب اسے میں پورا یہاں ٹائپ کرتی ہوں یا نہیں اس بارے میں آپ کو فکر مند نہیں ہونا چاہیے جزاک اللہ خیرا
 
جب لوگوں کے پاس دلائل ختم ہوجاتے ہیں تو وہ "‌نظریاتی اختلافات کی سزا موت " کے فلسفہ پر عمل شروع کردیتے ہیں۔ یعنی کہ ۔۔۔۔۔ سامنے والے کی کردار کشی -۔۔۔۔ اور اصل اصول یا موضوع کے ارد گرد بھاگ دوڑ۔ بنت حوا کو اور دیگر احباب کو میر امشورہ یہ ہے کہ ایسے تمام ذاتی حملہ ایسے ڈسکاؤنٹ کردیں جیسے کہ وہ کبھی کہے ہی نہیں گئے تھے۔

اب آئیے روایت کی طرف۔ رسول اکرم کی کہی ہوئی ہر بات درست ہے یہ مسلمان کا ایمان ہے ۔ جہاں یہ درست ہے وہاں یہ بھی درست ہے کہ ان روایات میں بے تحاشہ اسرائیلیات کی ملاوٹ ہے۔ لہذا اسرائیلیات یعنی یہودیت کی شناخت کرنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ قرآن کی کسوٹی پر اس کو پرکھ لیا جائے۔ کچھ لوگ یہ پوچھتے ہیں کہ آپ احادیث کو روایات کیوں‌کہتے ہیں ؟ آپ خود دیکھ لیجئے - کسی بھی عربی حدیث کو اٹھا کر، لکھا پائیں گے "‌روی عن زید ، یا روی عن بکر "‌ یعنی زید سے روایت ہے۔ تو اس کو روایت نہیں کہیں گے تو کیا کہیں گے؟

اوپر فراہم کردہ روایات میں سے کونسی قرآن کی کسوٹی پر پوری اترتی ہیں؟‌ اگر کتب روایات قرآن کی تشریح ہے تو پھر ہر روایت قرآن کی روشنی میں پوری اترنی جاہئیے۔ کچھ لوگ ایسا نہیں چاہتے ، کیوں‌ ، مجھے اب تک کوئی تسلی بخش جواب نہیں دے سکا اس بارے میں ۔

اب دیکھئے۔
نمبر 1 قرآن سے ثابت ہوتی ہے
نمبر 2 کے اچھے اعمال میں آجئے گی لیکن اس کے کچھ حصے شاید نہ آئیں۔ لیکن تعلیم اچھی ہے

اب نمبر 7 دیکھئے:
ٹخنوں کا جو حصہ پائجامے سے نیچے رہے گا وہ جہنم میں‌جائے گا۔

کوئی صاحب اس کی بنیادی آیت فراہم کرسکتے ہیں؟ جہنم کی سزا کا فیصلہ یقیناً اللہ تعالی کے احکامات پر منحصر ہے۔ اب یہ کس آیت کی تشریح ہے احباب مدد فرمائیں۔


نمبر 21 دیکھئے۔ کہ
" آدمی کا چچا اس کے باپ کی مانند ہے"
کوئی صاحب یا صاحبہ مدد فرمائیں کہ یہ کس آیت کی تشریح ہے۔

مجھے یہ روایت قرآن کے مخالف لگتی ہے، کیوں؟ ‌ دیکھئے درج ذیل آیات

[ayah]33:4[/ayah] نہیں بنائے ہیں اللہ نے کسی شخص کے لیے دو دل اس کے سینے میں اور نہیں بنایا ہے اللہ نے تمہاری ان بیویوں کو جنہیں تم ماں کہہ بیٹھتے ہو، تمہاری مائیں اور نہیں قرار دیا تمہارے منہ بولے بیٹوں کو، تمہارا حقیقی بیٹا۔ یہ باتیں محض قول ہے تمہارا جو تم اپنے منہ سے نکالتے ہو جبکہ اللہ فرماتا ہے سچی بات اور وہی ہدایت دیتا ہے سیدھے راستہ کی۔

[ayah]33:5[/ayah] پکارو انہیں ان کے باپوں کی نسبت سے یہ بات زیادہ منصفانہ ہے اللہ کے نزدیک، پھر اگر نہ جانتے ہو تم ان کے باپوں کو تو وہ تمہارے بھائی ہیں دین کے لحاظ سے اور تمہارے رفیق ہیں۔ اور نہیں ہے تم پر کوئی گرفت ان باتوں میں جو کہہ دیتے ہو تم نادانستہ لیکن وہ بات جس کا تم ارادہ کرو اپنے دل سے (اس پر گرفت ہے)۔ اور ہے اللہ درگزر کرنے والا اور مہربان۔


اگر ایک چچا یا تایا اپنے بھائی کی اولاد کو بیٹا سمجھتا ہے یا پکارتا ہے یا شفقت کا شلوک کرتا ہے تو وہ اس کا حقیقی بیٹا نہیں ہوا۔ تو ایسا ہونا بہت مشکل ہے کہ وہ لامنتہا عقل و فراست و حکمت جو اللہ تعالی نے رسول اکرم صلعم کو فراہم کی اس کی موجودگی میں بہت ہی مشکل ہے کہ ان کی زبان مبارکہ سے قران کے خلاف کوئی بات نکلے لہذا اس روایت کو اگ طرح طرح کی تاویلات سے درست ثابت کردیا جائے تو پھر قرآن کا ایک اصول کمزور ہو جاتا ہے۔ اس قسم کے کنفیوژ کرنے والے معاملات نے رسول کے اقوال کے ساتھ جگہ پائی اور اس طرح‌بعد میں طرح طرح کی مصیبتوں کی جڑ ثابت ہوئے۔

آپ خود غور فرما سکتے ہیں، کوئی صاحب اگر ان میں سے دو تین مزید روایتوں کی قران سے بنیاد فراہم کردیں تو تہہ دل سے شکر گزار ہوں گا۔

والسلام
 

باذوق

محفلین
جب لوگوں کے پاس دلائل ختم ہوجاتے ہیں تو وہ "‌نظریاتی اختلافات کی سزا موت " کے فلسفہ پر عمل شروع کردیتے ہیں۔ یعنی کہ ۔۔۔۔۔ سامنے والے کی کردار کشی -۔۔۔۔ اور اصل اصول یا موضوع کے ارد گرد بھاگ دوڑ۔ بنت حوا کو اور دیگر احباب کو میر امشورہ یہ ہے کہ ایسے تمام ذاتی حملہ ایسے ڈسکاؤنٹ کردیں جیسے کہ وہ کبھی کہے ہی نہیں گئے تھے۔

اب آئیے روایت کی طرف۔ رسول اکرم کی کہی ہوئی ہر بات درست ہے یہ مسلمان کا ایمان ہے ۔ جہاں یہ درست ہے وہاں یہ بھی درست ہے کہ ان روایات میں بے تحاشہ اسرائیلیات کی ملاوٹ ہے۔ لہذا اسرائیلیات یعنی یہودیت کی شناخت کرنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ قرآن کی کسوٹی پر اس کو پرکھ لیا جائے۔ کچھ لوگ یہ پوچھتے ہیں کہ آپ احادیث کو روایات کیوں‌کہتے ہیں ؟ آپ خود دیکھ لیجئے - کسی بھی عربی حدیث کو اٹھا کر، لکھا پائیں گے "‌روی عن زید ، یا روی عن بکر "‌ یعنی زید سے روایت ہے۔ تو اس کو روایت نہیں کہیں گے تو کیا کہیں گے؟

اوپر فراہم کردہ روایات میں سے کونسی قرآن کی کسوٹی پر پوری اترتی ہیں؟‌ اگر کتب روایات قرآن کی تشریح ہے تو پھر ہر روایت قرآن کی روشنی میں پوری اترنی جاہئیے۔ کچھ لوگ ایسا نہیں چاہتے ، کیوں‌ ، مجھے اب تک کوئی تسلی بخش جواب نہیں دے سکا اس بارے میں ۔

والسلام
محبی محترم فاروق صاحب
دوسروں کو نصیحت کرتے ہوئے براہ مہربانی کبھی آپ بھی اس بات پر غور کر لیا کیجئے کہ آپ کب تک اس طرح "میں نہ مانوں" کی رٹ لگاتے رہیں گے؟؟
آپ کے سارے سوالات کے جوابات یہیں محفل پر بیشمار جگہوں پر موجود ہیں۔ پھر بھی آپ بات کو گھما پھرا کر بھاگ دوڑ کرتے رہتے ہیں اور دوسروں کے ذہنوں میں شکوک پیدا کرنے کی روش پر قائم رہتے ہیں۔
سب سے بڑا جھوٹ (جس کو جھوٹ ثابت کیا گیا ہے یہاں پر) تو شیخ بن باز پر بہتان تھا۔ جس کا کوئی جواب نہ شبیر احمد صاحب دے سکے اور نہ ہی آپ کی طرف سے اس پر کوئی ردّ عمل سامنے آیا۔

یہ کیسی دیدہ دلیری ہے کہ آپ محفل کے احباب کو تو اچھے اچھے مشورے دیں مگر خود ایک نامور عالم دین پر لگائے گئے رکیک اور جھوٹے الزام کو کاپی پیسٹ کرتے رہیں؟؟ کیا یہ علماء کی کردار کشی نہیں ہے؟؟

قرآن کی کسوٹی پر پرکھنے کی تمام باتیں ساری کی ساری ہوائی ہیں جس کا کوئی ثبوت آپ آج تک پیش نہیں کر سکے۔ آپ سے بار بار پوچھا گیا ہے کہ نماز کے طریقہ کو قرآن سے پرکھ کر ثابت کر دکھائیے ، زکوٰة کی مقدار اور اوقات کو قرآن سے پرکھ کر بتائیے ، مردوں کے سونا نہ پہننے والی بات کو قرآن سے ثابت کر دکھائیے ۔۔۔۔
اس کا کوئی جواب اتنے سارے عرصہ میں آپ کی طرف سے نہیں آیا ۔۔۔ بس رٹ یہی لگی ہوئی ہے کہ بھائیو ۔۔۔ ہر حدیث کو قرآن سے پرکھ کر دیکھو !!

حالانکہ آپ کو وہ آیت ایسے مواقع پر کبھی یاد نہیں آتی جس میں کہا گیا ہے کہ جو رسول دیں وہ لے لو اور جس سے منع فرما دیں ، اس سے رُک جاؤ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم تک قرآن مجید پہنچایا ہے تو بعینہ اسی طریقے سے حدیث بھی پہنچائی ہے ۔۔۔ مگر یہ بات آپ کی سمجھ میں نہیں آ سکتی اور ہم میں سے کوئی بھی آپ پر زبردستی نہیں کر سکتا ۔۔۔ کیونکہ ظاہر سی بات ہے کہ ہدایت صرف اللہ کے ذمہ ہے !
ہم آپ کے لئے صرف ہدایت کی دعا ہی کر سکتے ہیں اور بس !!
 
فاروق صاحب ! یقین جانیئے ایک آپ اور ایک وہ دونوں سردرد بنے ہوئے ہیں آپ قرآن دانی میں سکہ جمانے پر کمر بستہ ہیں اور وہ قرآن خوانی فرض کروانے پر کمر بستہ ہیں لیکن قرآن خود کہتا ہے کہ "فاسئلو اہل الذکر ان کنتم لاتعلمون" اب ہم کس کے پاس جائیں؟ اب جیسا کے آپ دعوٰی کرتے ہیں جو مجھے تو کبھی کبھی کھوکھلا ہی نظر آتا ہے آپ کے مسلمانی پر ۔۔۔۔ بہرحال ، ذرا یہ تو بتائیں کے مسلمانوں میں لڑکوں کی "ختنہ" کرانا معروف بات ہے۔ میری طرح ظاہر ہے آپ نے کرائی ہی ہوگی یا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ تو اللہ ہی بہتر جاننے والا ہے۔

اب لگے ہاتھوں یہ بھی بتادیں بڑی نوازش ہوگی کیا اس ختنہ کا ثبوت قرآن میں موجود ہے جس کو مسلمانی کہا جاتا ہے اگر ہے تو برائے مہربانی یہاں پر پیش کردیں تاکہ قل ھاتو برھانکم ان کنتم صادقوں والی آیت سے حق ثابت ہو ہی جائے۔ شکریہ
 
باذوق صاحب ، آپ سے میں‌نے کبھی سوال نہیں‌کیا، آپ صرف ان آیات پر ناراض ہوتے رہتے ہیں جو یہاں‌ پیش کی جاتی ہیں۔ آپ کے بن باز کے خط پر اعتراض‌ کا جواب آپ کو جلد مل جائے گا، مزید نیچے آپ کو قران کی وہ آیات دے رہا ہوں جو قرآن کو پچھلی کتابوں کی کسوٹی قرار دیتی ہیں۔ رسول کو دیں لے لو، لیکن آپ کے پاس کوئی ثبوت، کوئی کتاب نہیں کہ رسول نے یہ دیا بھی تھا کہ نہیں؟ جن پر امور پر قرآن خاموش ہے وہ تو ذاتی پسند و ناپسند کے زمرہ میں آتے ہیں۔ لیکن رسول اکرم کس طور قران کے خلاف فرما سکتے ہیں؟

اب آپ سےیہ سوال ہیں۔
1۔ بقول آپ کے قرآن روایات کی کسوٹی نہیں ہے اور روایات کو قرآن سے پرکھنا ضروری نہیں‌اور یہ کہ روایات قرآن کے مخالف بھی ہوسکتی ہیں؟
آپ ایسا کیوں‌ سمجھتے ہیں ؟ وضاحت فرمائیے۔

2۔ نماز پڑھنے کے طریقہ کی حدیث کا ریفرنس فراہم کردیجئے۔

3- قرآن ایک ایسی کتاب ہے جس کی تعریف اللہ تعالی نے یہ فرمائی ہے
[ayah]2:2[/ayah] [arabic]ذَلِكَ الْكِتَابُ لاَ رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ [/arabic]
(یہ) وہ عظیم کتاب ہے جس میں کسی شک کی گنجائش نہیں، (یہ) پرہیزگاروں کے لئے ہدایت ہے

آپ ان تمام کتب کا نام بتا دیجئے جو آج کی تاریخ‌ سے پہلے چھپی ہوں اور جن میں‌یہ دعوی شامل ہو اور قرآن ان کتب کو ماننے کے لئے کہتا بھی ہو۔ جب آپ کے پاس ایسی کسی کتاب کا نام ہو تو پھر ہم اس کتاب کے بارے میں‌ مزید بات کریں گے۔

اس وقت تک کہ جب تک آپ ایسی کوئی کتاب نہیں‌لاتے ، آپ سے استتدعا ہے کہ قرآن کی آیات پر اس وقت تک کسی بے معنی اعتراض‌ سے گریز فرمائیے کہ آپ توہین قرآن کے مرتکب ہو رہے ہیں۔
 
جناب خلیفہ صاحب، سلام
بھائی۔ میں سب کی طرح‌اپنے خیالات کا اظہار کرتا ہوں جس کی کوئی نہ کوئی مظبوط وجہ کسی آیت کی صورت میں موجود ہوتی ہے۔ ایک مستقل معمولی طالب علم کی حیثیت سے قرآن کی آیات صرف بطور ریفرنس اسلامی تعلیمات کے ضمن میں شئیر کرتا ہوں، کسی قسم کا کوئی بھی دعوی نہیں‌ کرتا۔ آپ کو پسند نہ آئے یا یہ درد سر ہو تو آپ نہ پڑھئے۔ اگر یہودی قوانین کو اسلامی بنانا مقصد ہے تو ایک شعبہ یہودی بنیاد کی اسلامی تعلیمات کا کھولا جاسکتا ہے ، جہاں توراۃ‌ سے قوانین کو حدیث بنا کر نقل کئے جاسکتا ہے۔

قرآن ایک مکمل کتاب اور ایک کسوٹی ہے تمام احکامات کے لئے۔
[AYAH]5:48[/AYAH] پھر نازل کی ہم نے تم پر (اے نبی) یہ کتاب حق کے ساتھ جو تصدیق کرنے والی ہے اس کی جو موجود ہے اس سے پہلے الکتاب میں سے اور نگہبان ہے اس کی سو فیصلے کرو تم اُن کے درمیان اس کے مطابق جو نازل کیا اللہ نے اور مت پیروی کرو اُن کی خواہشات کی، (منہ موڑ کر) اس سے جوآگیا ہے تمہارے پاس حق۔ ہر ایک کے لیے تم میں سے مقّرر کی ہے ہم نے شریعت اور راستہ اور اگر چاہتا اللہ تو بنادیتا تم کو ایک ہی اُمّت لیکن (یہ اس لیے کیا) کہ آزمائے تم کو ان احکام کے بارے میں جو اس نے تم کو دیے ہیں سو تم سبقت لے جاؤ نیکیوں میں۔ اور اللہ ہی کی طرف لوٹنا ہے تم سب کو پھرآگاہ کرے گا وہ تم کو اِن اُمور سے جن میں تم اختلاف کرتے تھے۔

باذوق صاحب چاہتے ہیں‌کہ ہر روایت پر ایمان رکھا جائے چاہے وہ خلاف قرآن ہی کیوں‌ نہ ہو۔ جبکہ میں‌ اپنا نکتہ نظر بیان کرچکا ہوں جوکہ درج ذیل آیات کے مطابق ہے۔

[AYAH]6:114[/AYAH] اور [AYAH]6:19[/AYAH] اور [AYAH]7:52[/AYAH] اور [AYAH]16:89[/AYAH] اور [AYAH]5:48[/AYAH] اور [AYAH]4:105[/AYAH]

7:52 اور بے شک پہنچادی ہے ہم نے اُن کو ایک کتاب جس میں تفصیل بیان کردی ہے ہم نے ہر بات کی، علم کی بُنیاد پر جو ہدایت اور رحمت ہے اُن لوگوں کے لیے جو ایمان والے ہیں۔

اگر آپ کو آیات کا ریفرنس دیا جانا پسند نہیں‌ہے تو آپ نہ پڑھئے ، صاحب صورت کوئی بھی ہو، یہ حقیقت نہیں‌بدلے گی کہ اسلام اللہ کا مذہب ہے اور اس کی واحد کتاب قران حکیم ہے۔

اب آئیے آپ کے ختنے کے سوال کی طرف:
تو جناب سچ بات یہ ہے کہ ختنہ کرنے کے خلاف کوئی آیت نہیں‌اور نہ ہی ختنہ کروانے کے بارے میں‌کوئی آیت ہے۔ قرآن آپ کے ایمان کے لئے اس ضمن میں کوئی شرط نہیں لگاتا۔ اگر ایسا نہیں ہے تو میری معلومات میں اضافہ فرمائیے۔

البتہ آپ کو یہ حکم بائبل میں‌ مل جائے گا۔ دیکھئے
http://www.biblegateway.com/passage/?search=Genesis 17:14;&version=9;

اگر آپ کا ایمان بائیبل پر ہے تو بہت خوب۔ لیکن اگر قرآن آپ کو پسند ہے تو بھائی ہماری خواہش سے قرآن نہیں بدل سکتا، ہم کو بدلنا ہوگا۔ اس آیت کی تصدیق یا تردید قران نہیں کرتا۔ اگر ایمان پر اس سے فرق پڑتا ہوتا یا اللہ تعالی کے نزدیک یہ بات اہم ہوتی تو ضرور اس کا تذکرہ قرآن میں فرماتے یا تردید ضروری ہوتی تو فرماتے اور اگر تائید ضروری ہوتی تو فرماتے۔
صفائی کی غرض سے کوئی کرنا چاہے تو بہت خوب اور نہ کرنا چاہے تو قرآن کی کوئی آیت اسے نہیں روکتی۔

یہی ایک حکم ایسا نہیں بلکہ کچھ مزید مثالیں بھی عرض ہیں۔

مردوں کے لمبے بالوں‌سے ممانعت اور عورتوں‌ کے سر ڈھکنے کا حکم انجیل مقدس سے لیا گیا ہے ۔ اللہ تعالی نے قرآن میں اسکی توثیق نہیں فرمائی
http://www.biblegateway.com/passage/?search=1 Corinthians 11:5-13;&version=31;

قانون رجم ( زنا کی سزا سنگسار کرنا)‌ یہودی توراۃ سے لیا گیا ہے اللہ تعالی نے قرآن میں اسکی توثیق نہیں فرمائی
http://www.biblegateway.com/passage/?search=Deuteronomy 22:20-21;&version=31;

مزید دیکھئے
http://www.biblegateway.com/passage/?search=Leviticus 20:10;&version=31;

جبکہ قرآن اس جرم کی سزا مختلف بتاتا ہے دیکھئے [AYAH]24:2[/AYAH]

مرتد کی سزا موت بھی یہودی قانون ہے۔ دیکھئے کہ اگر کوئی اللہ یا رسول کی شان میں گستاخی کرتا ہے یا مرتد ہوجاتا ہے تو توراۃ‌ کیا کہتی ہے؟

http://www.biblegateway.com/passage/?search=Leviticus 24:16;&version=31;

اور اگر کوئی پیغمبری کا دعوی کرے یا مذہب چھوڑ دے تو اسرائیلیات میں اس کی سزا بھی موت ہے۔
http://www.biblegateway.com/passage/?search=Deuteronomy 13:5-10;&version=31;

جبکہ قرآن - دین میں جبر نہیں کرتا - دیکھئے۔
[AYAH]2:256[/AYAH]

داڑھی لازما رکھنا ، توراۃ کا حکم ہے قرآن اس سلسلے میں‌خاموش ہے۔
http://www.biblegateway.com/passage/?search=Leviticus 19:27 ;&version=31;

مزید دیکھئے توراۃ کا یہ حکم داڑھی رکھنے اور سر منڈانے کے بارے میں
http://www.biblegateway.com/passage/?search=Leviticus 21:5;&version=31;

اگر کچھ لوگ انجیل یا توراۃ‌ پر عمل کرنا چاہتے ہیں تو اسکو سنت مبارکہ نام دیں یا نہ دیں اسلام ان پر کوئی پابندی نہیں لگاتا۔ اگر ایسا ہی کرنا ہے تو پھر اسرائیلیوں‌سے جھگڑا کس بات پر ہے؟
جن معاملات پر قرآن خاموش ہے ان معاملات پر اللہ تعالی نےسوالات کے لئے منع فرمایا ا ہے۔ آپ کو اگر اس آیت کا ریفرنس چاہئیے تو فراہم سکتا ہوں

گویا ہم نے یہ سیکھا کہ اگر قرآن کسی بات پر خاموش ہے تو یہ ہماری آسانی کے لئے ہے کہ اس ضمن میں ہم اپنی مرضی سے چل سکتے ہیں ۔ لیکن اگر کسی بات کا منع کیا گیا ہے تو پھر یہ ہمارا اپنا ایمان ہے کہ اس پر عمل کریں یا نہ کریں۔ لیکن توراۃ‌ و انجیل کے ان اصولوں کو جن کی توثیق قرآن نے نہیں کی ہے حدیث بنا کر پیش کرنا مسلمانوں کے ساتھ ایک ظلم ہے۔ اس پر درد دل سے غور فرمائیے۔ کہ اسرائیلیات کے لئے کونسا دروازہ کھولا گیا ہے۔

امید ہے کہ ئی ریفرنس آپ کے لئے مددگار ثابت ہوں گے اور سوچ کا نیا دروازہ کھلے گا۔
 
Top