کیا غالب کی شاعری عاشقانہ شاعری ہے؟

فرخ منظور

لائبریرین
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ غالب کی شاعری عاشقانہ شاعری ہے یا اس میں‌ غالب عنصر عاشقی کا ہے - جبکہ میرا خیال اسکے بالکل برعکس ہے - میرا خیال ہے کہ غالب کے چند ایک اشعار کے علاوہ باقی تمام شاعری میں‌معاشرتی، نفسیاتی، فلسفیانہ اور صوفیانہ موضوعات کو زیرِ بحث لایا گیا ہے - میں تمام اراکین محفل سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ اپنے اپنے خیالات سے نوازیں اور ان اشعار کو ضرور پیش کریں جنہیں وہ عاشقانہ خیال کرتے ہیں - بہت شکریہ!‌‌
 

محمد وارث

لائبریرین
اچھا سلسلہ ہے فرخ صاحب، اور صائب خیال ہے آپ کا، مجھے بھی غالب کے اشعار، غالب کے اپنے الفاظ میں گنجینۂ معنی کے طلسم ہی لگتے ہیں۔

لیکن میرے خیال میں طبیعتوں کے اختلاف کو بھی ملحوظِ خاطر رکھنا چاہیئے، میرا مطلب ہے کچھ اشعار تو "بیّنات" کے ضمن میں ہیں لیکن بہت سارے ایسے بھی ہیں جو کہ "متشابہات" کے زمرے میں آتے ہیں، اور ہو سکتا ہے تصوف کا انتہائی لطیف خیال کسی کو جی جان سے عشقیہ لگتا ہو اور اسکا الٹ بھی صحیح ہے۔

امید ہے کہ یہاں اچھے اشعار جمع ہونگے۔
 

شمشاد

لائبریرین
صاحب غالب کو سمجھنا ہم جیسے لوگوں کے بس میں تو ہے ہی نہیں، یہ تو شعراء کلام ہی بہتر بتا سکتے ہیں۔

ایک یہاں غالب کی بھتیجی بھی، جیہ، وہ ہوتی تو ضرور رائے دیتی۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
میں ایک عاشقانہ شعر پیش کرتا ہوں - جو کہ عمومی طور پر عاشقانہ سمجھا جاتا ہے -
عاشقی صبر طلب اور تمنا بےتاب
دل کا کیا رنگ کروں خونِ جگر ہونے تک

صلائے عام ہے یارانِ نکتہ داں کے لئے کہ اس شعر کی تشریح اپنے اپنے نقطہ نظر سے ضرور کریں - بہت شکریہ!
 

شمشاد

لائبریرین
فرخ بھائی ادھر آپ نے غالب کی شاعری کو موضوعِ سخن بنایا ادھر جیہ محفل میں لوٹ آئی۔

آپ پہلے ہی یہ موضوع شروع کر دیتے تو ہو سکتا ہے وہ پہلے ہی آ جاتی۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
فرخ بھائی ادھر آپ نے غالب کی شاعری کو موضوعِ سخن بنایا ادھر جیہ محفل میں لوٹ آئی۔

آپ پہلے ہی یہ موضوع شروع کر دیتے تو ہو سکتا ہے وہ پہلے ہی آ جاتی۔

واہ شمشاد بھائی - ایسا ہے تو بہت خوشی کی بات ہے - لیکن لگتا ہے بہت کم لوگوں کو یہ موضوع پسند آیا ہے - :)
 

شمشاد

لائبریرین
خوشی کی بات تو ہے لیکن لگتا ہے کہ ابھی بھتیجی کو اس دھاگے کی خبر نہیں ہوئی، ذ پ میں اطلاع دینی پڑے گی۔
 

تفسیر

محفلین
سخنور معذرت کے ساتھ ۔واللہ اعلم ۔۔۔ میری اسٹیڈی اتنی وسیع نہیں کہ میں ایسا سمجھوں

کیسی گفتگو میں ایک شخص نے یہ کہا تھا کہ غالب کو کیمسٹری کا بھی علم تھا

ضعف سے گریہ مبدّل بہ دمِ سرد ہوا
باور آیا ہمیں پانی کا ہوا ہو جانا

وہ کہہ رہے ہیں عناصر اپنی شکل بدل لیتے ہیں اور پانی ہوا کی شکل میں تبدیل ہوسکتا ہے ۔ پانی مرئی ہوتا ہے اور ہوا غیرمرئی ہوتی ہے۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
جی تفسیر صاحب ایسے کئی اشعار ہیں جیسے دو اشعار جس میں آئن سٹائن کی تھیوری آف ریلیٹیوٹی کا اشارہ ملتا ہے -
کب سے ہوں‌کیا بتاؤں جہانِ خراب میں
شب ہائے ہجر کو بھی رکھوں‌ گر حساب میں

یا
صد سالہ دورِ چرخ تھا ساغر کا ایک دور
نکلے جو میکدے سے تو دنیا بدل گئی
 

جیہ

لائبریرین
شمشاد بھائی نے اس دھاگے کی خبر دی۔ اچھا سلسلہ شروع کیا ہے۔۔۔ اسے جاری رہنا چاہیے۔

غالب کے بارے میں، میرے چند افکار پریشاں:


شاعر تھا وہ ضرور نرالہ ورنہ
یوں نہ ہوتی شہر شہر غالب غالب
(کالی داس گپتا رضا)

بقول ڈاکٹر وحید قریشی تفہیمِ غالب ہر دور کا مسئلہ رہا ہے۔ غالب کی عظمت یہی ہے کہ وہ ہر دور کی فکری اور جذباتی ضرورتوں کو کو پورا کرتا ہے۔ وہ زندگی کی مرکب صورتوں کا ترجمان ہے۔ پیچیدہ تجربات اور نرم و نازک احساسات کا بیان پیچیدہ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے غالب کو مشکل پسند کہا گیا اور اسی مشکل پسندی کی وجہ سے ہر دور نے غالب کی پہچان اپنے عصری رحجانات کے حوالے سے کی ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ مشکل پسندی کے باوجود غالب آج بھی زندہ و جاوید ہے۔

حالی نے ان کے کلام کی قدیم فارسی شعرا کے حوالے سے شناخت کی۔ عبد الرحمان بجنوری نے مغربی ادب اور سائنس کے حوالے سے غالب کو جاننے کی کوشش کی ۔ بعد میں غالب کے فکری پہلؤوں کے علاوہ ان کے عمل اور حرکت پر بھی زور دیا گیا۔ ترقی پسندوں نے اپنے طور پر غالب کی تشریح کی۔ غالب کے نفسیاتی تجزیئے بھی کیے گیے۔ غالب پر بہت کام ہوا ہے ۔مگر۔۔۔ میرے لیے غالب کے اشعار غالب کی احساس محرومی کا پرتو ہیں۔ یہ احساس محرومی ہندوستان میں مسلمانوں کے زوال کا ہو جسے غالب نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا یا یہ احساس ان کی مالی تنگدستی کا ہو یا اولاد سے محرومی ہو، غالب کی شخصیت اور فن پر اس محرومی کا ایک گہرا اثر ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں وہ اس محرومی کے سامنے سرنگوں ہوا بلکہ غالب کی عظمت ہی یہی ہے کہ ان تقاضوں نے انہیں ماؤف نہیں کیا جو کسی بھی شخص کے لیے صبر آزما ہوتے ہیں بلکہ اپنے عہد سے بلند تر رہا اور ان صداقتوں کو بیان کرنے میں کامیاب رہا جو زمانے کی سرحدوں سے دور ہیں۔

اس کے باوجود عشق غالب کی شاعری کا غالب عنصر ہے ۔ یہ کہنا غلط ہوگا کہ غالب نے عشقیہ اشعار نہیں کہے۔ ان کے بہت سے اشعار عشقی مجازی کا نمونہ ہیں۔ خاص کر اس غزل کے بارے میں (جس کا مطلع ہے )

درد سے میرے ہے تجھ کو بے قراری ہائے ہائے
کیا ہوئی ظالم تری غفلت شعاری ہائے ہائے

کہا جاتا ہے یہ ایک ایسی معشوقہ کے موت کا درد ناک مرثیہ ہے جسے غالب نے ٹوٹ کر چاہا تھا۔ اسی غزل کا مقطع ملاحظہ کریں

عشق نے پکڑا نہ تھا غالب ابھی وحشت کا رنگ
رہ گیا تھا دل میں جو کچھ ذوقِ خواری ہائے ہائے

غالب کا عشق ہوسناک نہیں پھر بھی ایک انسانی محبت ہے

نیند اس کی ہے دماغ اس کا ہے راتیں اس کی ہیں
جس کے بازو پر تری زلفیں پریشاں ہوگئیں

غالب اپنے عشق کا ذکر نہایت لطیف طریقہ سے کرتے ہیں

وائے دیوانگئ شوق کہ ہر دم مجھ کو
آپ جانا ادھر اور آپ ہی حیران ہونا

بجنوری مرحوم نے درست فرمایا ہے کہ " مرزا غالب کی معشوقہ مریم نہیں جو خیال غیر سے پاک اور جنس مقابل سے پاک ہے ۔"

غیر کو یا رب وہ کیوں کر منعئِ گستاخی کرے
گر حیا بھی اس کو آتی ہے تو شرما جائے ہے
 

فرخ منظور

لائبریرین
میں نے جویریہ کی پوسٹ کے بعد ایک بار پھر دیوانِ غالب کھنگال ڈالا - اور دیکھنے کی کوشش کی کہ ہر غزل میں کتنے اشعار ایسے ہیں جنہیں عاشقانہ کہا جا سکتا ہے - میری ناقص رائے میں تو ہر غزل میں زیادہ سے زیادہ 2 سے 3 اشعار عاشقانہ ہیں‌اور باقی سب کسی دوسرے پہلو کی طرف اشارہ کرتے ہیں‌ - میں نے یہی کہنے کی جسارت کی تھی جو کہ جویریہ کے پہلے پیرے میں ڈاکٹر وحید قریشی نے کہا کہ

"بقول ڈاکٹر وحید قریشی تفہیمِ غالب ہر دور کا مسئلہ رہا ہے۔ غالب کی عظمت یہی ہے کہ وہ ہر دور کی فکری اور جذباتی ضرورتوں کو کو پورا کرتا ہے۔ وہ زندگی کی مرکب صورتوں کا ترجمان ہے۔ پیچیدہ تجربات اور نرم و نازک احساسات کا بیان پیچیدہ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے غالب کو مشکل پسند کہا گیا اور اسی مشکل پسندی کی وجہ سے ہر دور نے غالب کی پہچان اپنے عصری رحجانات کے حوالے سے کی ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ مشکل پسندی کے باوجود غالب آج بھی زندہ و جاوید ہے۔"

میرا نقطہ نظر بھی ڈاکٹر صاحب کے نقطہ نظر سے مماثلت رکھتا ہے - اب ایک مثال دیتا ہوں کہ غالب عشق سے کیا مراد لیتا ہے - بعض شعروں میں تو عشق کا وہی مطلب ہے یعنی جنسِِ مخالف سے محبت لیکن بعض اشعار میں‌اس سے زیادہ بڑے معانی ہیں‌- مثلا"

عاشقی صبر طلب اور تمنا بے تاب
دل کا کیا رنگ کروں‌ خونِ جگر ہونے تک

اس میں عشق سے مراد وہی عشق ہے جسے دوسرے ایک شعر میں‌غالب نے شوق یا کہا ہے اور ایسا شوق جو جنون اختیار کر جائے اور یوں انسان کی تباہی و بربادی کا باعث ہو -
شوق ہر رنگ رقیبِ سرو ساماں نکلا
قیس تصویر کے پردے میں بھی عریاں نکلا

یعنی شوق جو کہ جنون کی حد پر پہنچ جائے - جیسے مجنوں کا عشق - اسی طرح جو شوق بھی عشق اور جنون کی حد کو پہنچے گا وہ انسان کی بربادی کا شاخسانہ ہوگا -
یوں پہلے والے شعر کا مطلب ہوگا کہ غالب یہ کہنا چاہتا ہے کہ عاشقی یا ایسا کام جسکی طلب انسان میں بہت زیادہ ہو تو وہ چاہتا ہے کہ ایسا کام فورا بن جائے - لیکن کسی بھی کام کے لئے ایک وقت درکار ہے - مگریہاں یہ حالت ہے کہ تمنا بہت بے تاب ہے - اب دل کو کیسے سمجھاوں اور بہلاؤں تآنکہ وہ تمنا بر آئے -

جویرہ نے خود ہی کہہ دیا کہ غالب کا عشق ہوسناک نہیں بلکہ انسانی محبت ہے - اور میں بھی یہی کہنا چاہ رہا ہوں کہ غالب کا عشق عام عشق نہیں‌وہ انسانی واردات ہے - جو کسی بھی انسان پر کسی بھی وقت وارد ہو سکتی ہے - وہ چاہے دوست کی محبت ہو، ماں کی ہو، بہن کی ہو یا کسی محبوبہ کی - وہ محبت کا شاعر ہے - جو کہ ایک کائناتی جذبہ ہے - جو کہ حیوانوں میں بھی بدرجہ اتم پایا جاتا ہے کجاکہ انسانوں میں اسکا موجود ہونا تو مزید ایک خالص اور روحانی شکل رکھتی ہے -
 
غالب ایک ایسی عبارت ہے جس کا ہر لفظ ہر لمحہ ایک مفہوم میں سامنے آتا ہے ۔۔۔۔ میں اس عبارت کے لئے ایک شعر کہوں گا

یہ عبارت جو بے زیر و زبر لکھی گئی
وہی سمجھیں گے کہ جو زیر و زبر جانتے ہیں
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
نقش فریادی ہےکس کی شوخئ تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا

کاوکاوِ سخت جانی ہائے تنہائی نہ پوچھ
صبح کرنا شام کا، لانا ہے جوئے شیر کا

جذبۂ بے اختیارِ شوق دیکھا چاہیے
سینۂ شمشیر سے باہر ہے دم شمشیر کا

آگہی دامِ شنیدن جس قدر چاہے بچھائے
مدعا عنقا ہے اپنے عالمِ تقریر کا

بس کہ ہوں غالب، اسیری میں بھی آتش زیِر پا
موئے آتش دیدہ ہے حلقہ مری زنجیر کا

فرح صاحب مہربانی فرما کر بتا دے اس غزل میں کون سے شعر عاشقانہ
 

فرخ منظور

لائبریرین
نقش فریادی ہےکس کی شوخئ تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا

کاوکاوِ سخت جانی ہائے تنہائی نہ پوچھ
صبح کرنا شام کا، لانا ہے جوئے شیر کا

جذبۂ بے اختیارِ شوق دیکھا چاہیے
سینۂ شمشیر سے باہر ہے دم شمشیر کا

آگہی دامِ شنیدن جس قدر چاہے بچھائے
مدعا عنقا ہے اپنے عالمِ تقریر کا

بس کہ ہوں غالب، اسیری میں بھی آتش زیِر پا
موئے آتش دیدہ ہے حلقہ مری زنجیر کا

فرح صاحب مہربانی فرما کر بتا دے اس غزل میں کون سے شعر عاشقانہ

خرم صاحب ان میں سے ایک شعر بھی عاشقانہ نہیں - اور مزے کی بات یہ ہے کہ میں اس غزل کا بھی حوالہ دیتا ہوں‌کہ غالب کی پہلی غزل میں تو ایک شعر بھی عاشقانہ نہیں - جویریہ صاحبہ سے گزارش ہے کہ دیوانِ غالب کا اس نظر سے بھی مطالعہ کریں‌ کہ کتنے شعر عاشقانہ ہیں‌- تعداد ہی غالب کے دیوان کے موضوع کے جھکاؤ کا تعین کردے گی -
 

شمشاد

لائبریرین
شمشاد بھائی نے اس دھاگے کی خبر دی۔ اچھا سلسلہ شروع کیا ہے۔۔۔ اسے جاری رہنا چاہیے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔غالب کا عشق ہوسناک نہیں پھر بھی ایک انسانی محبت ہے

نیند اس کی ہے دماغ اس کا ہے راتیں اس کی ہیں
جس کے بازو پر تری زلفیں پریشاں ہوگئیں

۔۔۔۔۔۔

غالب کی بھتیجی، نسخہ حمیدیہ میں دوسرا مصرعہ کچھ یوں ہے :

تیری زلفیں جس کے بازو پر پریشاں ہو گئیں

اگر غالب کو پتہ چل گیا ناں تو کان کھینچ کر ایک ایک فٹ کے کر دے گا۔
 

جیہ

لائبریرین
خرم صاحب ان میں سے ایک شعر بھی عاشقانہ نہیں - اور مزے کی بات یہ ہے کہ میں اس غزل کا بھی حوالہ دیتا ہوں‌کہ غالب کی پہلی غزل میں تو ایک شعر بھی عاشقانہ نہیں - جویریہ صاحبہ سے گزارش ہے کہ دیوانِ غالب کا اس نظر سے بھی مطالعہ کریں‌ کہ کتنے شعر عاشقانہ ہیں‌- تعداد ہی غالب کے دیوان کے موضوع کے جھکاؤ کا تعین کردے گی -

فرخ بھائی کیوں مجھے کانٹوں گھسیٹ رہے ہیں۔ ویسے میں نے دیوان غالب پر مزید کام ہے ، فائل بابا جانی کے پاس ہے، جیسے ہی ان کی طرف سے گرین سگنل ملتا ہے، آپ سب سے شریک کر لوں گی۔ اس کے علاوہ ۔ میرا ارادہ ہے کہ فرہنگ غالب پر کام شروع کروں۔ نوائے سروش ، شرح از آسی اور دوسرے کتب اور ڈکشنری کے مدد سے۔ انشا ء اللہ جلد کام شروع کر رہی ہوں
 

جیہ

لائبریرین
غالب کی بھتیجی، نسخہ حمیدیہ میں دوسرا مصرعہ کچھ یوں ہے :

تیری زلفیں جس کے بازو پر پریشاں ہو گئیں

اگر غالب کو پتہ چل گیا ناں تو کان کھینچ کر ایک ایک فٹ کے کر دے گا۔

شمشاد بھائی آپ کی بات درست مگر غلط میں بھی نہیں ۔ دیکھیں دیوان میں میرا حاشیہ نمبر 108
 
Top