عبداللہ محمد
محفلین
ایدھر مریم بال چل رہا ہے،کم از کم 5 ہزارکی لیڈ پر ڈکلئیر کرنا ہوگا۔ بولے تو بہت ٹائم باقی ہے باس۔ایسے کہہ رہے، جیسے نبیل صاحب کی لیڈ 500 سے زائد ہو چکی، اور کوئی پل آتا ہے کہ ڈکلیریشن کا اعلان کریں۔
ایدھر مریم بال چل رہا ہے،کم از کم 5 ہزارکی لیڈ پر ڈکلئیر کرنا ہوگا۔ بولے تو بہت ٹائم باقی ہے باس۔ایسے کہہ رہے، جیسے نبیل صاحب کی لیڈ 500 سے زائد ہو چکی، اور کوئی پل آتا ہے کہ ڈکلیریشن کا اعلان کریں۔
آپ نے تصاویر ڈرون سے بھی بنائیں کیا؟شنگریلا کا قیام 1983 میں سکردو، بلتستان میں پہلے ریزورٹ ہوٹل کے افتتاح کے ساتھ کیا گیا تھا ۔۔ یہ بات بھی ہمیں![]()
بابر صاحب نے بتائی
اس کی شاندار خوبصورتی، دلکش نظارے اور پرامن ماحول کی وجہ سے اسے زمین پر جنت کا نام دیا گیا تھا۔
یہ تصویر ہم نے نہیں بنائی یہ ہمیں بابر صاحب نے دی تھی ہماری کچھ تصویر یں ڈلیٹ کرنے کے بعد مل نہیں رہیں تھیں تو یہ اُنکی فارورڈ کی ہوئی تصویر ملیآپ نے تصاویر ڈرون سے بھی بنائیں کیا؟
خیال تو یہی ہے لیکن لوکیشن کے بغیر یقین سے کہنا مشکل ہےیہ شاید نانگا پربت ہے۔
زیک آپ کا کیا خیال ہے؟
اپنی حکومت ہے، اپنے کو کوئی ٹینشن نئیں!ایدھر مریم بال چل رہا ہے،کم از کم 5 ہزارکی لیڈ پر ڈکلئیر کرنا ہوگا۔ بولے تو بہت ٹائم باقی ہے باس۔
یہ سیزن کی تصویر نہیں ہےآپ نے تصاویر ڈرون سے بھی بنائیں کیا؟
🧐🧐🧐🧐🧐🧐آپ نے تصاویر ڈرون سے بھی بنائیں کیا؟
ایسے کیسے پتہ لگ جاتا ہے!!!یہ شاید نانگا پربت ہے۔
زیک آپ کا کیا خیال ہے؟
آپا جی، مخول تھا۔ جان دیو!
ریستوران، بوٹنگ، زپ لائن۔ زبردست۔ جب ۱۹۹۵ میں ہم گئے تھے تو جھیل سے کچھ دور تک ہی جیپ جاتی تھی اور پیدل۔ ساتھ ساتھ بھکاری بچے آپ کے پیچھے۔ اب حالات کافی مختلف لگتے ہیں۔پہاڑوں اور سرسبز جنگلات کے درمیان چھپی یہ جھیل نہ صرف بلتستان کی پہچان بلکہ سیاحوں کی توجہ کا مرکز بھی ہے
شوقین افراد کے لیے یہاں زپ لائن کی سہولت بھی موجود ہے، پہاڑوں کے درمیان ہوا میں معلق یہ سفر نہ صرف دل دہلا دینے والا ہوتا ہے بلکہ قدرتی مناظر کو ایک الگ زاویے سے دیکھنے کا موقع بھی فراہم کرتا ہے ۔
کچھ دیر تو آپ سب کچھ بھول اس کی خوبصورتی میں ایسا گم ہوتے ہیں کہ ایسا لگتا ہے جیسے یہاں کی خوبصورتی نے آپکو اپنے سحر میں جکڑ لیا ہے ۔۔۔
ایسے نہیں پتا لگتا پہاڑوں سے عشق کرنا پڑتا ہےایسے کیسے پتہ لگ جاتا ہے!!!
لوکیشن کے بغیر گیس کرنے کا ہی تو مزہ ہے۔خیال تو یہی ہے لیکن لوکیشن کے بغیر یقین سے کہنا مشکل ہے
پہاڑوں کے پروفائل یا سکائے لائنز بھی نشاناتِ انگشت کی مانند ہوتے ہیں۔ اس سے کچھ اندازہ لگ جاتا ہے۔ایسے کیسے پتہ لگ جاتا ہے!!!
یہ تصویر ہم نے نہیں بنائی یہ ہمیں بابر صاحب نے دی تھی ہماری کچھ تصویر یں ڈلیٹ کرنے کے بعد مل نہیں رہیں تھیں تو یہ اُنکی فارورڈ کی ہوئی تصویر ملی
یہ سیزن کی تصویر نہیں ہے
پہلے الیاسی مسجد کی تصویر بھی ایریئل شاٹ تھا، تو گمان ہوا کہ شاید ڈرون بھی استعمال کیا ہو۔
زیک اب حالات بہت بہتر ہیں لوگ بہت بہتر ہیں سب سے خوشی کی پبلک واش روم بہتر کیونکہ اسلام آباد کے بعد اتنا بائی روڈ سفر کے بعد انسان برُی طرح تھک جاتا ہمارے تصورات سے زیادہ صاف ریسٹ روم اپر کچورا پر 😊ریستوران، بوٹنگ، زپ لائن۔ زبردست۔ جب ۱۹۹۵ میں ہم گئے تھے تو جھیل سے کچھ دور تک ہی جیپ جاتی تھی اور پیدل۔ ساتھ ساتھ بھکاری بچے آپ کے پیچھے۔ اب حالات کافی مختلف لگتے ہیں۔
متفق۔ پاکستان میں ۳۰۰۰ میٹر سے زائد پرامیننس کی شاید ۴ ہی چوٹیاں ہیں اور ان میں سے صرف ننگاپربت فلائٹ کے راستے میں ہےلوکیشن کے بغیر گیس کرنے کا ہی تو مزہ ہے۔
ایک تو راستے میں ایسا کوئی اور پہاڑ نہیں آتا
دوسرا یہ کہ پروفائل بھی چیک کریں نانگا پربت ون اور ٹو اور درمیانی رِج کی۔
اور ایسی پرامیننس بھی اس راستے میں نانگا پربت کو حاصل ہے۔
کیا بات ہے جنابایسے نہیں پتا لگتا پہاڑوں سے عشق کرنا پڑتا ہے