سید عاطف علی
لائبریرین
گویا بہ زبان حسرت یہ فرمارہے ہیں کہ ۔۔۔اب کہیں بیٹھنے کی ضرورت نہیں رہی۔۔۔ ناجانے کس سمے ہم نے یار کو بے پردہ دیکھ لیا۔
سودا جو ترا حال ہے اتنا تو نہیں وہ ۔۔۔۔
گویا بہ زبان حسرت یہ فرمارہے ہیں کہ ۔۔۔اب کہیں بیٹھنے کی ضرورت نہیں رہی۔۔۔ ناجانے کس سمے ہم نے یار کو بے پردہ دیکھ لیا۔
ضرور۔۔۔ پانی کے چھینٹے مار دیجئیے لیکن سر بچا کے۔ سنا ہے پانی وغیرہ خضاب کے دشمن ہوتے ہیں۔اس کی تصدیق یا تکذیب کے لیے تو انہیں زحمت دینا ہی ہو گی ۔
مریم والا نسخہ اپنائیں ۔ چھینٹے والا ؟
جس طرح آپ نے پلو کے ساتھ زپ لگوا رکھی اور اسے اکثر استعمال کرتی رہتی ہیں، مجھے تو آدھا عشرہ والے حالات بھی نہیں لگ رہے۔یعنی ہم ابھی آدھا عشرہ موج کر لیں؟
آج کل کے خضاب تو پکے ہوتے ہوں گے۔ ٹیکنالوجی کا زمانہ ہے ۔ضرور۔۔۔ پانی کے چھینٹے مار دیجئیے لیکن سر بچا کے۔ سنا ہے پانی وغیرہ خضاب کے دشمن ہوتے ہیں۔
کیا مہمانانِ گرامی آنے کے بعد اپنے حواس قائم رکھ پائیں گے جو انھیں لاٹھیوں کا ہوش رہنا ہے۔جب تک مہمانان گرامی تشریف لائیں ان کی لاٹھیاں ڈسچارج نہ ہو جائیں ۔
اپنے نام کا ٹیگ اور تین چار صفحات ۔۔۔ اور اوپر سے موضوع کی حساسیت ۔۔۔۔کیا مہمانانِ گرامی آنے کے بعد اپنے حواس قائم رکھ پائیں گے جو انھیں لاٹھیوں کا ہوش رہنا ہے۔
قصاب پڑھئیے اور چھریاں تیز کیجئیے۔خضابیوں کے بروزن مرغابیاں یاد آئیں، گل یاسمیں!
البتہ خضاب کے بروزن کئی الفاظ ہیں مگر میں قصاب ہی پڑھ جاتی ہوں۔۔۔
اور خضابیان کی بجائے مرغابیاں ہوتیں تو تکے بنانے کی ترکیب سیما علی آپا سے پوچھ لیتے۔جس کی لاٹھی اسی کے ہیں اگر یہ خضابیان تو پھر یہ لاٹھیاں ہم لاویں گے!!!
موج نسیم تھی ادھر آئی ادھر گئی![]()
![]()
پیری سے خم نہیں ہے کمر میں مری قمر
میں جھک کے ڈھونڈتا ہوں جوانی کدھر گئی
آپ کے تمام طعنے تشنوں کا جواب دو اشعار کی صورت میں دے رہا ہوں اگر لمبا مراسلہ لکھنے کی کوشش کی تو سانس پھول جائے گا اور کچھ کہا بھی نہ جا سکے گا ۔السلام علیکم محفلین
یکے بعد دیگرے خضاب بارے دو غزلیں پڑھنے کو ملیں۔ محمد عبدالرؤوف کی خضاب اور شباب خورشید احمد خورشید کی ناقابل اصلاح غزل
دونوں کو پڑھتے ہوئے ایسے لگ رہا ہے جیسے کہ خضاب محض بالوں کا رنگ نہ ہو بلکہ کوئی انقلابی ہتھیار ہو جو لگانے والے کے سر پر وقت کے ہاتھوں لکھی ہوئی سفید کہانی کو سیاہ سیاہی سے مٹا دینا چاہتا ہے۔خضاب ۔۔وہ جادوئی رنگ جسے لگا کر چچا جان اچانک بھائی جان بن جائیں ، اور دادا ابو بھائی جی کہلوانے کی خواہش کرنے لگیں۔
کہتے ہیں سفید بال عمر کا سچ بول دیتے ہیں مگر کچھ لوگ اس سچ کو خضاب کی رنگین چادر میں چھپا کر زندگی کو نئی جوانی کا عنوان دے دیتے ہیں۔ آج ہم دعوت دے رہے ہیں محترم محمد عبدالرؤوف اور محترم خورشیداحمدخورشید کو ۔۔۔۔جنھوں نے اپنی غزلوں میں بہت دلیری اور بے ساختہ خود اعتمادی کے ساتھ اس "رنگین" سفر کا ذکر کیا ہے۔ نہ صرف خود خضاب لگا کر، بلکہ شاعرانہ اشاروں کنایوں میں دوسروں کو بھی اپنے سر کی "خالی زمین" کو رنگنے کی ترغیب دیتے نظر آتے ہیں۔
تو آئیں آج ان سے جانتے ہیں کہ اس فیصلے کے پیچھے کیا کہانی چھپی ہے؟ کیا خضاب صرف بالوں کو رنگتا ہے یا دل کو بھی نئی امید اور خوشی کی روشنی بخشتا ہے؟
آیئے محترم سید عاطف علی کی میزبانی میں اس دلچسپ، شوخ اور یادگار انٹرویو کا باقاعدہ آغاز کرتے ہیں۔
اللہ خیر کرے۔۔۔۔ سب نے ادھر اُدھر نکل جانا اوراپنے نام کا ٹیگ اور تین چار صفحات ۔۔۔ اور اوپر سے موضوع کی حساسیت ۔۔۔۔
خدا خیر کرے ۔۔۔ یہ کیا کروا دیا ؟؟؟
بولیں توآپ کے تمام طعنے تشنوں کا جواب دو اشعار کی صورت میں دے رہا ہوں اگر لمبا مراسلہ لکھنے کی کوشش کی تو سانس پھول جائے گا اور کچھ کہا بھی نہ جا سکے گا ۔
کتنے عبرت کے ہیں سبق اس میں
انتہا دیکھ اس کہانی کی
خود بھی دیکھوں تو میں نہ پہچانوں
اپنی تصویر اب جوانی کی
نہ کریں!آپ کے تمام طعنے تشنوں کا جواب دو اشعار کی صورت میں دے رہا ہوں اگر لمبا مراسلہ لکھنے کی کوشش کی تو سانس پھول جائے گا اور کچھ کہا بھی نہ جا سکے گا ۔
کتنے عبرت کے ہیں سبق اس میں
انتہا دیکھ اس کہانی کی
خود بھی دیکھوں تو میں نہ پہچانوں
اپنی تصویر اب جوانی کی
جذباتی کرنے کی کوشش نہ کیجئیے۔ عاطف بھیا نے پانی کا گلاس پہلے سے لا کر رکھا ہے۔لمبا مراسلہ لکھنے کی کوشش کی تو سانس پھول جائے گا
یہ خضابانیان خضب باختہاور خضابیان کی بجائے مرغابیاں ہوتیں تو تکے بنانے کی ترکیب سیما علی آپا سے پوچھ لیتے۔
نہنہ کریں!
میں نے تو طعنے تشنے سمجھ لیے اب مجھے سمجھا کر دکھاؤ۔جذباتی کرنے کی کوشش نہ کیجئیے۔ عاطف بھیا نے پانی کا گلاس پہلے سے لا کر رکھا ہے۔
اور ہاں طعنے تشنے تو ہر گز نہیں ہیں۔ سمجھئیے گا بھی مت۔
اِترانا تو بنتا ہے ۔یہ خضابانیان خضب باختہ
رنگ کے بالوں کو پھر سے اترائیں گے
آپ کو سمجھانے کے لئے آپ کو سمجھنا ہو گا پہلے ۔ تو اس کے لئے ہم کرتے ہیں پہلا سوالمیں نے تو طعنے تشنے سمجھ لیے اب مجھے سمجھا کر دکھاؤ۔