خالص سائنسی بنیادوں پر اس کا جواب یہ ہے کہ کبھی بھی نہیں۔جب تک شاپنگ بیگ پولی ایتھیلین (مختصرا: پالیتھین) اور اس قببیل کے پولیمر سے بن رہے ہیں، اس کا امکان تقریبا صفر ہے الا یہ کہ بائیو ٹیکنالوجی میں کوئی ایسا محیر العقول کارنامہ رونما ہو کہ ان پلاسٹک کو کھانے والے مائکرو آرگنزم وجود میں آ جائیں۔ پلاسٹک کے جس عالمی عفریت کے تناظر میں آپ نے سوال اٹھایا ہے، اس سے نمٹنے کے دو طریقے ہیں۔
۱۔ پالیتھین اور اس قبیل کے پلاسٹک کو ایک بار استعمال کے بعد کوڑا کرکٹ بنانے کی بجائے دوبارہ کارآمد و قابلِ استعمال بنایا جائے۔اس سمت بہت تیزی سے کام جاری ہے۔ نہ صرف یہ کہ تحقیقاتی ادارے اور بڑی کمپنیاں اس جانب تیزی سے پیش قدمی جاری رکھے ہوئے ہیں بلکہ حکومتیں ایسی قانون سازی کر رہی ہیں کہ ری سائیکلنگ کے امر کو یقینی بنایا جائے۔
۲۔ پالیتھین پلاسٹک کی بجائے ایسے پولیمر استعمال کیے جائیں جو قدرتی طور پر اجزا میں منتشر ہو جائیں۔ مجھے دو وجوہات کی بنا پر اس مذہب کے مبلغوں سے شدید اختلاف ہے۔ پہلے یہ کہ ایسے پلاسٹک کی قیمت ہوشربا ہو گی اور ایک عام آدمی کی دسترس سے دور ہو گا۔ دوسرے یہ کہ ایسے پلاسٹک ہمارے حیاتیاتی ماحول کے فطری سلسلے میں دخل انداز ہو کر پالیتھین سے بڑا دیو ہمارے سامنے کھڑا کر دیں گے۔