تیرہویں سالگرہ عرفان سعید بھائی کا انٹرویو

عرفان سعید

محفلین
آپ کو ٹریڈ نیم کی بجائے کیمیکل فارمولا لکھنا ہو گا
جب سے ٹیکنکل بزنس میں آیا ہوں، کیمسٹری کے سافٹ وئیر آہستہ آہسہ میرے ہاتھ سے کھسکتے جا رہے ہیں۔ اس لیے نیٹ کا ہی سہارا لینا پڑے گا۔

images

فارمیسی اور فارماکولوجی میرا میدان نہیں ہے تو مجھے نامیاتی کیمیا کے طریقے پر ہی نام دینے میں سہولت ہے۔
این۔ایسی ٹائل-پیرا،امینو فینول
 

عرفان سعید

محفلین
3) آرٹ اور سائنس میں سے دل کس کی طرف زیادہ کھنچتا ہے؟
آرٹ یا سائنس؟ دل کی کس جانب کشش زیادہ ہے؟ یہ سوال صرف ایک انتخاب نہیں، بلکہ ایک دعوت ہے ، دو دنیاؤں میں توازن تلاش کرنے کی دعوت۔ اکثر لوگ ان دونوں کو متضاد دنیائیں سمجھتے ہیں، لیکن میرے نزدیک یہ دو دھارے ہیں جو ایک ہی دریا سے پھوٹتے ہیں ۔ ایک دل سے بہتا ہے، دوسرا دماغ سے۔

میرا دل سائنس کی طرف بھی کھنچتا ہے،کیونکہ یہ کائنات کے سربستہ رازوں کی کنجی ہے۔ اس کی بنیاد مشاہدے، تجربے، تجزیےاور منطق پر ہے۔ یہ ہمیں ایٹم کی عمیق خاموشی میں نگاہوں سے اوجھل ذرات کی تھرتھراہٹ سے لے کرمہر و ماہ و انجم کی تابانیوں اور کہکشاؤں کے دلفریب رقص کا مشاہدہ کرواتی ہے ۔ سائنس وہ سوال اٹھاتی ہے جس سے انسان کا تجسس جاگتا ہے اور پورے شعور اور بیداری کے عالم میں جاننا چاہتاہے ، کیسے؟ کب؟ کہاں؟ ایک محقق کے طور پر، جب میں کسی مسئلے کی تہہ میں جاتا ہوں، تجربہ کرتا ہوں، دلیل تراشتا ہوں، تو دل کو ایک گہرا سکون ملتا ہے، اور عقل طمانیت کے فلک بوس پہاٹوں کی چوٹی کا بوسہ لیتی ہے۔

لیکن... آرٹ بھی تو ہے۔ وہ لطیف زبان جو لفظوں سے آزاد ہے، جو احساسات کو رنگ، آہنگ، ساز، آواز، تصویر، تعبیر،حرکت اور خاموشی میں ڈھالتی ہے۔ آرٹ وہ آئینہ ہے جس میں انسان نہ صرف خود کو دیکھتا ہے بلکہ خود کو سمجھتا بھی ہے۔ یہ دل کی دھڑکنوں کو معنویت بخشتا ہے، اور جذبات کی پیچیدگی کو ایک سادہ مگر اثرانگیز انداز میں بیان کرتا ہے۔جب برش کینوس پر چلتا ہے، یا کوئی ساز کسی خیال کو آواز عطا کر کے مجسم کردیتا ہے، تو یہ محض فن نہیں — یہ روح کا مکالمہ ہوتا ہے۔ یہ وہ اظہار ہے جو دل سے نکلتا ہے اور دل تک پہنچتا ہے۔تخلیق کی بے پایاں آزادی، خوبصورتی کی انتھک تلاش، اور انسانی احساسات کا مسلسل سفر ، یہ سب کچھ آرٹ ہی تو دیتا ہے۔

سائنس اور آرٹ — ایک دوسرے کی ضد نہیں، بلکہ ایک دوسرے کی تکمیل ہیں۔
سائنس سوال اٹھاتی ہے: "یہ سب کچھ کیسے ہوا؟"
آرٹ سرگوشی کرتا ہے: "اور اس سب کا مطلب کیا ہے؟"
سائنس دماغ کو جِلا دیتی ہے، آرٹ دل کو جِلا بخشتا ہے۔
سائنس ہمیں بتاتی ہے کہ ہم کیا کچھ کر سکتے ہیں، اور آرٹ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے۔
میرے دل کا جھکاؤ کسی ایک جانب نہیں، بلکہ میں اس مقام پر کھڑا ہوں جہاں آرٹ اور سائنس ایک دوسرے سے معانقہ کرتے ہیں۔جہاں تخلیق اور تجزیہ، جذبہ اور دلیل، روح اور منطق ایک ہی چمنستان کی پرسکون اور ٹھنڈی فضاؤں میں سانس لیتے ہیں۔
کبھی میں خوردبین سے جھانکتا ہوں اور کبھی کسی نظم کے استعارے میں ڈوب جاتا ہوں۔
کبھی کائنات کی پیچیدگیوں کو سمجھنے کی سعی کرتا ہوں،اور کبھی کسی تصویر کی خامشی میں زندگی کے سوال ڈھونڈتا ہوں۔
میں نہ فقط سائنسدان ہوں، نہ فقط فنکار، میں اس دھندلکے میں اُگتا ہوا وہ چراغ ہوں، جو دلیل کی روشنی اور تخیل کی لو سے جلتا ہے۔
میں وہ پُل ہوں، جہاں ایک طرف منطق کا دریا بہتا ہے، اور دوسری جانب جذبوں کی ندی رواں ہے۔
میں وہ لمحہ ہوں جب کسی سائنسدان کے ذہن میں ایک نئی تھیوری جنم لیتی ہے،اور وہی لمحہ کسی مصور کے دل میں ایک بے نام رنگ کو زندگی عطا کرتا ہے۔
اور میں ان دونوں کے سنگم پر کھڑا ہوں۔
 
آخری تدوین:
آرٹ یا سائنس؟ دل کی کس جانب کشش زیادہ ہے؟ یہ سوال صرف ایک انتخاب نہیں، بلکہ ایک دعوت ہے ، دو دنیاؤں میں توازن تلاش کرنے کی دعوت۔ اکثر لوگ ان دونوں کو متضاد دنیائیں سمجھتے ہیں، لیکن میرے نزدیک یہ دو دھارے ہیں جو ایک ہی دریا سے پھوٹتے ہیں ۔ ایک دل سے بہتا ہے، دوسرا دماغ سے۔

میرا دل سائنس کی طرف بھی کھنچتا ہے،کیونکہ یہ کائنات کے سربستہ رازوں کی کنجی ہے۔ اس کی بنیاد مشاہدے، تجربے، تجزیےاور منطق پر ہے۔ یہ ہمیں ایٹم کی عمیق خاموشی میں نگاہوں سے اوجھل ذرات کی تھرتھراہٹ سے لے کرمہر و ماہ و انجم کی تابانیوں اور کہکشاؤں کے دلفریب رقص کا مشاہدہ کرواتی ہے ۔ سائنس وہ سوال اٹھاتی ہے جس سے انسان کا تجسس جاگتا ہے اور پورے شعور اور بیداری کے عالم میں جاننا چاہتاہے ، کیسے؟ کب؟ کہاں؟ ایک محقق کے طور پر، جب میں کسی مسئلے کی تہہ میں جاتا ہوں، تجربہ کرتا ہوں، دلیل تراشتا ہوں، تو دل کو ایک گہرا سکون ملتا ہے، اور عقل طمانیت کے فلک بوس پہاٹوں کی چوٹی کا بوسہ لیتی ہے۔

لیکن... آرٹ بھی تو ہے۔ وہ لطیف زبان جو لفظوں سے آزاد ہے، جو احساسات کو رنگ، آہنگ، ساز، آواز، تصویر، تعبیر،حرکت اور خاموشی میں ڈھالتی ہے۔ آرٹ وہ آئینہ ہے جس میں انسان نہ صرف خود کو دیکھتا ہے بلکہ خود کو سمجھتا بھی ہے۔ یہ دل کی دھڑکنوں کو معنویت بخشتا ہے، اور جذبات کی پیچیدگی کو ایک سادہ مگر اثرانگیز انداز میں بیان کرتا ہے۔جب برش کینوس پر چلتا ہے، یا کوئی ساز کسی خیال کو آواز عطا کر کے مجسم کردیتا ہے، تو یہ محض فن نہیں — یہ روح کا مکالمہ ہوتا ہے۔ یہ وہ اظہار ہے جو دل سے نکلتا ہے اور دل تک پہنچتا ہے۔تخلیق کی بے پایاں آزادی، خوبصورتی کی انتھک تلاش، اور انسانی احساسات کا مسلسل سفر ، یہ سب کچھ آرٹ ہی تو دیتا ہے۔

سائنس اور آرٹ — ایک دوسرے کی ضد نہیں، بلکہ ایک دوسرے کی تکمیل ہیں۔
سائنس سوال اٹھاتی ہے: "یہ سب کچھ کیسے ہوا؟"
آرٹ سرگوشی کرتا ہے: "اور اس سب کا مطلب کیا ہے؟"
سائنس دماغ کو جِلا دیتی ہے، آرٹ دل کو جِلا بخشتا ہے۔
سائنس ہمیں بتاتی ہے کہ ہم کیا کچھ کر سکتے ہیں، اور آرٹ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے۔
میرے دل کا جھکاؤ کسی ایک جانب نہیں، بلکہ میں اس مقام پر کھڑا ہوں جہاں آرٹ اور سائنس ایک دوسرے سے معانقہ کرتے ہیں۔جہاں تخلیق اور تجزیہ، جذبہ اور دلیل، روح اور منطق ایک ہی چمنستان کی پرسکون اور ٹھنڈی فضاؤں میں سانس لیتے ہیں۔
کبھی میں خوردبین سے جھانکتا ہوں اور کبھی کسی نظم کے استعارے میں ڈوب جاتا ہوں۔
کبھی کائنات کی پیچیدگیوں کو سمجھنے کی سعی کرتا ہوں،اور کبھی کسی تصویر کی خامشی میں زندگی کے سوال ڈھونڈتا ہوں۔
میں نہ فقط سائنسدان ہوں، نہ فقط فنکار، میں اس دھندلکے میں اُگتا ہوا وہ چراغ ہوں، جو دلیل کی روشنی اور تخیل کی لو سے جلتا ہے۔
میں وہ پُل ہوں، جہاں ایک طرف منطق کا دریا بہتا ہے، اور دوسری جانب جذبوں کی ندی رواں ہے۔
میں وہ لمحہ ہوں جب کسی سائنسدان کے ذہن میں ایک نئی تھیوری جنم لیتی ہے،اور وہی لمحہ کسی مصور کے دل میں ایک بے نام رنگ کو زندگی عطا کرتا ہے۔
اور میں ان دونوں کی سنگم پر کھڑا ہوں۔
کس قدر خوبصورت لکھا ہے۔ بک مارک کر رہی ہوں اور کئی بار پڑھوں گی!!!
 
Top