تیرہویں سالگرہ عرفان سعید بھائی کا انٹرویو

زیک

منتظم
بظاہر پلان گرمیوں کا ہے تو سویڈن میں مچھروں کے متعلق چیک کر لیجیے گا۔
فن لینڈ میں جھیلوں کی کثرت کے باعث یہاں مچھروں کی بہتات ہوتی ہے۔
جی ہاں مچھروں کا سن رکھا ہے۔ سر کے لئے نیٹ لیا ہے۔ پھر کپڑوں اور جسم پر بھی مچھر کی دوا چھڑکنے کا پلان ہے۔ یہ پاکستان لیول تیاری ہے۔
 

عرفان سعید

محفلین
آپ سے اگلا سوال ہے کہ ایک سائنسدان کے طور پر کامیاب کیرئیر کے لیے کون سی چند باتیں ہیں جو آپ کو بیس سال قبل پتہ ہوتیں یا بعد میں آنے والوں کو پہلے پتہ ہوں تو زیادہ آسانی ہو؟ (آسکنگ فار آ فرینڈ نیمڈ مریم )
اچھا سوال ہے۔ ایک سائنسدان کے طور پر کامیاب کیرئیر بنانے کے لیے کئی چیزیں تجربے سے سیکھنی پڑتی ہیں۔ اگر بہت سی باتیں نوجوان سائنسدانوں کو ابتداء ہی میں پتہ ہوں تو وہ بہت سی مشکلات اور وقت کا زیاں بچا سکتے ہیں۔اپنے تجربات کی روشنی میں یہاں چند اہم نکات پیش کر رہا ہوں جو میرے خیال میں کسی بھی سائنسدان کو کیرئیر کے آغاز میں معلوم ہونے چاہییں۔

ریسرچ صرف تجربات کا نام نہیں، سوچنے کا عمل ہے۔بہت سے نئے سائنسدان سمجھتے ہیں کہ کامیابی کا انحصار صرف لیبارٹری میں کام کرنے پر ہے۔ حالانکہ سب سے اہم چیز "سوال پوچھنے کی صلاحیت" اور "تنقیدی سوچ" ہے۔ اگر آپ درست سوال نہیں پوچھتے تو آپ کا تجربہ چاہے جتنا بھی نفیس ہو، اس کا اثر کم ہوگا۔ ملٹی ڈسپلنری سوچ اپنائیں۔آج کے زمانے میں کامیاب سائنس وہ ہے جو مختلف شعبوں کو جوڑ کر نئے حل نکالے۔ اگر ایک کیمسٹ، بایولوجسٹ، یا فزسسٹ کو تھوڑی بہت کوڈنگ، ڈیٹا سائنس یا بزنس کی سمجھ ہو تو وہ کہیں آگے جا سکتا ہے۔ ایک اور اہم پہلے ہے سائنسی ڈیٹا کا مؤثر تجزیہ اور reproducibility۔اگر نتائج دوسرے سائنسدان reproduce نہ کر سکیں تو تحقیق بے فائدہ ہو جاتی ہے۔ آغاز میں ہی reproducibility، ڈیٹا کا درست ریکارڈ رکھنا، اور open science جیسے تصورات سکھائے جائیں تو سائنس زیادہ قابل اعتماد بنتی ہے۔ صنعت اور اکیڈیمیا کے فرق کو سمجھنا بھی بہت ضروری ہے۔اکثر سائنسدانوں کو صرف اکیڈیمیا کا راستہ دکھایا جاتا ہے، جبکہ صنعتی تحقیق، پالیسی، کمیونیکیشن، اور سوشل انٹرپرینیورشپ جیسے میدان بھی بہت اہم اور بامقصد ہیں۔ ان راستوں کو جلد سمجھنا فائدہ مند ہے۔

تحریری صلاحیت اور کمیونیکیشن لازمی مہارتیں ہیں۔ریسرچ کو دنیا کے سامنے لانے کے لیے صرف اچھا کام کافی نہیں، اس کو موثر انداز میں پیش کرنا بھی آنا چاہیے۔ سائنسدانوں کو لکھنے، بولنے، اور پریزنٹیشن دینے کی باقاعدہ مشق کرنی چاہیے۔ سائنس کمیونیکیشن: عام عوام سے رابطہ۔سائنسدانوں کو یہ سیکھنا چاہیے کہ عام آدمی کو اپنی تحقیق کیسے سمجھائیں۔ اگر عوام کو آپ کی تحقیق کا مقصد سمجھ نہ آئے تو اثر کم ہو جاتا ہے — چاہے وہ فنڈنگ ہو یا پالیسی۔

نیٹ ورکنگ اور تعلقات کامیابی کی کنجی ہیں۔اکیلا کام کرنے والا سائنسدان بہت جلد تھک جاتا ہے۔ اگر یہ بات شروع سے معلوم ہو کہ سائنسی نیٹ ورک، کانفرنسز، اور سینئر محققین کے ساتھ تعلقات کتنا اثر ڈالتے ہیں، تو کیرئیر کا سفر بہت ہموار ہو۔ اچھا نیٹ ورک آپ کو مواقع، فنڈنگ، اور تعاون دیتا ہےایک اچھے مینٹر کا ہونا بہت اہم ہے، جو نہ صرف سائنسی رہنمائی دے بلکہ کیرئیر اور زندگی کے فیصلوں میں بھی مدد کرے۔ ساتھ ہی، خود بھی جونئرز کی رہنمائی کرنا سیکھیں، کیونکہ اس سے آپ کی اپنی سمجھ بھی بہتر ہوتی ہے۔سائنس سرحدوں سے بالاتر ایک عالمی مشن ہے ۔بہت سے سائنسدان شروع میں صرف اپنے ملک یا ادارے کی حد تک سوچتے ہیں۔ سائنس کو اگر عالمی سطح پر سوچا جائے تو نظریہ، نقطہ نظر، اور اثر سب وسیع تر ہو جاتا ہے۔فنڈنگ کے ذرائع کو سمجھنا اور گرانٹ رائٹنگ سیکھنا۔اکثر سائنسدانوں کو دیر سے پتہ چلتا ہے کہ ریسرچ کا تسلسل فنڈنگ سے جڑا ہے۔ گرانٹ لکھنے کی مہارت ایک لازمی فن ہے جو جلد سیکھ لینا چاہیے۔ فنڈنگ ایجنسیز، ان کے مقاصد، اور درخواست کا طریقہ جاننا اہم ہے۔

پروجیکٹ مینجمنٹ سیکھیں۔ بہت سے سائنسدان تجربات میں تو اچھے ہوتے ہیں لیکن وقت، وسائل، اور ٹیم کو مؤثر طریقے سے منظم نہیں کر پاتے۔ اگر کیرئیر کے آغاز میں پروجیکٹ مینجمنٹ کی بنیادی مہارتیں سیکھ لی جائیں تو کامیابی کی رفتار تیز ہو سکتی ہے۔ صنفی مساوات، تنوع، اور شمولیت کا شعور (DEI&B) آجکل بہت اہمیت اختیار کر گیا ہے۔یہ سیکھنا کہ مختلف پس منظر، زبان، صنف یا سوچ کے لوگ ٹیم میں شامل ہوں تو جدت آتی ہے — نہ صرف سائنسی بلکہ انسانی سطح پر بھی ترقی ہوتی ہے۔ یہ صرف ایک "اخلاقی بات" نہیں بلکہ کامیابی کی حکمت عملی ہے۔ سائنس صرف "انفرادی ذہانت" نہیں بلکہ "اجتماعی بصیرت" کا نام ہے۔ ٹیم ورک، ایک دوسرے کی قدر کرنا، اور اختلافِ رائے کو سیکھنے کا عمل کامیابی کی بنیاد ہے۔ اس لیے ٹیم ورک اور لیڈرشپ کی تربیت کا خیال رکھنا چاہیے۔ ٹائم مینجمنٹ اور فوری اور اہم میں فرق سیکھنا وقت کے ضیاع سے محفوظ رکھتا ہے۔بہت سے سائنسدان دن کا بیشتر وقت ای میلز، میٹنگز یا چھوٹے کاموں میں گزار دیتے ہیں۔ اصل تحقیق اور تخلیق کے لیے "گہرا وقت" (deep work time) رکھنا ضروری ہے۔ ترجیحات طے کرنا ایک آرٹ ہے۔کب اور کیسے نئی سمت اختیار کریں۔کئی دفعہ سائنسدان ایک بند گلی میں کام کرتے رہتے ہیں۔ یہ سیکھنا کہ کب ایک پروجیکٹ چھوڑنا ہے، کب نئی شاخ پر کام شروع کرنا ہے — یہ فیصلہ کرنا ہمت اور بصیرت مانگتا ہے۔

سائنس کے سماجی و اخلاقی پہلو سمجھنا ضروری ہے۔ریسرچ کا مقصد صرف شائع کرنا نہیں، بلکہ سماج کو فائدہ پہنچانا ہے۔ اگر یہ احساس جلدی آ جائے تو ریسرچ کا رخ بھی زیادہ ذمہ دار اور بامقصد ہو جاتا ہے۔ریسرچ انٹیگریٹی اور ایتھکس کی سمجھ بوجھ بھی لازم ہے۔ایسا لگتا ہے کہ سچ لکھنا تو سب کو آتا ہے، مگر پریکٹیکل ریسرچ میں ڈیٹا مینجمینٹ، پبلکیشن ایتھکس، آتھرشپ، اور پِلَیجَرِزم جیسے مسائل وقت کے ساتھ سمجھ آتے ہیں۔ اگر یہ باتیں آغاز میں سکھائی جائیں تو مستقبل میں بہت سے مسائل سے بچا جا سکتا ہے۔

ناکامی کا سامنا کرنا سیکھیں۔سائنس میں ناکامی عام ہے، چاہے تجربہ ناکام ہو یا پیپر ریجیکٹ ہو جائے۔ اگر یہ بات جلدی سمجھ آ جائے کہ "ناکامی ایک سبق ہے، ناکامی ختم نہیں بلکہ آغاز ہے"، تو ذہنی دباؤ کم ہو جاتا ہے۔ ذاتی زندگی اور کام میں توازن ایک صحت مند دماغ کے لیے بہت اہم ہے،سائنسدان اکثر اپنی زندگی کو ریسرچ کے لیے قربان کر دیتے ہیں، مگر یہ پائیدار حکمتِ عملی نہیں۔ اگر زندگی میں توازن نہ ہو تو ذہنی دباؤ اور بَرْن آؤٹ (burnout) کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ریسرچ تنہا اور بعض اوقات بے یقینی کا سفر ہے۔ اگر سائنسدانوں کو ذہنی صحت کے لیے معاونت، گروپ سپورٹ، یا وقتاً فوقتاً بریک لینے کی اہمیت جلد سمجھ آ جائے تو وہ پائیدار کیرئیر بنا سکتے ہیں۔
 
اچھا سوال ہے۔ ایک سائنسدان کے طور پر کامیاب کیرئیر بنانے کے لیے کئی چیزیں تجربے سے سیکھنی پڑتی ہیں۔ اگر بہت سی باتیں نوجوان سائنسدانوں کو ابتداء ہی میں پتہ ہوں تو وہ بہت سی مشکلات اور وقت کا زیاں بچا سکتے ہیں۔اپنے تجربات کی روشنی میں یہاں چند اہم نکات پیش کر رہا ہوں جو میرے خیال میں کسی بھی سائنسدان کو کیرئیر کے آغاز میں معلوم ہونے چاہییں۔

ریسرچ صرف تجربات کا نام نہیں، سوچنے کا عمل ہے۔بہت سے نئے سائنسدان سمجھتے ہیں کہ کامیابی کا انحصار صرف لیبارٹری میں کام کرنے پر ہے۔ حالانکہ سب سے اہم چیز "سوال پوچھنے کی صلاحیت" اور "تنقیدی سوچ" ہے۔ اگر آپ درست سوال نہیں پوچھتے تو آپ کا تجربہ چاہے جتنا بھی نفیس ہو، اس کا اثر کم ہوگا۔ ملٹی ڈسپلنری سوچ اپنائیں۔آج کے زمانے میں کامیاب سائنس وہ ہے جو مختلف شعبوں کو جوڑ کر نئے حل نکالے۔ اگر ایک کیمسٹ، بایولوجسٹ، یا فزسسٹ کو تھوڑی بہت کوڈنگ، ڈیٹا سائنس یا بزنس کی سمجھ ہو تو وہ کہیں آگے جا سکتا ہے۔ ایک اور اہم پہلے ہے سائنسی ڈیٹا کا مؤثر تجزیہ اور reproducibility۔اگر نتائج دوسرے سائنسدان reproduce نہ کر سکیں تو تحقیق بے فائدہ ہو جاتی ہے۔ آغاز میں ہی reproducibility، ڈیٹا کا درست ریکارڈ رکھنا، اور open science جیسے تصورات سکھائے جائیں تو سائنس زیادہ قابل اعتماد بنتی ہے۔ صنعت اور اکیڈیمیا کے فرق کو سمجھنا بھی بہت ضروری ہے۔اکثر سائنسدانوں کو صرف اکیڈیمیا کا راستہ دکھایا جاتا ہے، جبکہ صنعتی تحقیق، پالیسی، کمیونیکیشن، اور سوشل انٹرپرینیورشپ جیسے میدان بھی بہت اہم اور بامقصد ہیں۔ ان راستوں کو جلد سمجھنا فائدہ مند ہے۔

تحریری صلاحیت اور کمیونیکیشن لازمی مہارتیں ہیں۔ریسرچ کو دنیا کے سامنے لانے کے لیے صرف اچھا کام کافی نہیں، اس کو موثر انداز میں پیش کرنا بھی آنا چاہیے۔ سائنسدانوں کو لکھنے، بولنے، اور پریزنٹیشن دینے کی باقاعدہ مشق کرنی چاہیے۔ سائنس کمیونیکیشن: عام عوام سے رابطہ۔سائنسدانوں کو یہ سیکھنا چاہیے کہ عام آدمی کو اپنی تحقیق کیسے سمجھائیں۔ اگر عوام کو آپ کی تحقیق کا مقصد سمجھ نہ آئے تو اثر کم ہو جاتا ہے — چاہے وہ فنڈنگ ہو یا پالیسی۔

نیٹ ورکنگ اور تعلقات کامیابی کی کنجی ہیں۔اکیلا کام کرنے والا سائنسدان بہت جلد تھک جاتا ہے۔ اگر یہ بات شروع سے معلوم ہو کہ سائنسی نیٹ ورک، کانفرنسز، اور سینئر محققین کے ساتھ تعلقات کتنا اثر ڈالتے ہیں، تو کیرئیر کا سفر بہت ہموار ہو۔ اچھا نیٹ ورک آپ کو مواقع، فنڈنگ، اور تعاون دیتا ہےایک اچھے مینٹر کا ہونا بہت اہم ہے، جو نہ صرف سائنسی رہنمائی دے بلکہ کیرئیر اور زندگی کے فیصلوں میں بھی مدد کرے۔ ساتھ ہی، خود بھی جونئرز کی رہنمائی کرنا سیکھیں، کیونکہ اس سے آپ کی اپنی سمجھ بھی بہتر ہوتی ہے۔سائنس سرحدوں سے بالاتر ایک عالمی مشن ہے ۔بہت سے سائنسدان شروع میں صرف اپنے ملک یا ادارے کی حد تک سوچتے ہیں۔ سائنس کو اگر عالمی سطح پر سوچا جائے تو نظریہ، نقطہ نظر، اور اثر سب وسیع تر ہو جاتا ہے۔فنڈنگ کے ذرائع کو سمجھنا اور گرانٹ رائٹنگ سیکھنا۔اکثر سائنسدانوں کو دیر سے پتہ چلتا ہے کہ ریسرچ کا تسلسل فنڈنگ سے جڑا ہے۔ گرانٹ لکھنے کی مہارت ایک لازمی فن ہے جو جلد سیکھ لینا چاہیے۔ فنڈنگ ایجنسیز، ان کے مقاصد، اور درخواست کا طریقہ جاننا اہم ہے۔

پروجیکٹ مینجمنٹ سیکھیں۔ بہت سے سائنسدان تجربات میں تو اچھے ہوتے ہیں لیکن وقت، وسائل، اور ٹیم کو مؤثر طریقے سے منظم نہیں کر پاتے۔ اگر کیرئیر کے آغاز میں پروجیکٹ مینجمنٹ کی بنیادی مہارتیں سیکھ لی جائیں تو کامیابی کی رفتار تیز ہو سکتی ہے۔ صنفی مساوات، تنوع، اور شمولیت کا شعور (DEI&B) آجکل بہت اہمیت اختیار کر گیا ہے۔یہ سیکھنا کہ مختلف پس منظر، زبان، صنف یا سوچ کے لوگ ٹیم میں شامل ہوں تو جدت آتی ہے — نہ صرف سائنسی بلکہ انسانی سطح پر بھی ترقی ہوتی ہے۔ یہ صرف ایک "اخلاقی بات" نہیں بلکہ کامیابی کی حکمت عملی ہے۔ سائنس صرف "انفرادی ذہانت" نہیں بلکہ "اجتماعی بصیرت" کا نام ہے۔ ٹیم ورک، ایک دوسرے کی قدر کرنا، اور اختلافِ رائے کو سیکھنے کا عمل کامیابی کی بنیاد ہے۔ اس لیے ٹیم ورک اور لیڈرشپ کی تربیت کا خیال رکھنا چاہیے۔ ٹائم مینجمنٹ اور فوری اور اہم میں فرق سیکھنا وقت کے ضیاع سے محفوظ رکھتا ہے۔بہت سے سائنسدان دن کا بیشتر وقت ای میلز، میٹنگز یا چھوٹے کاموں میں گزار دیتے ہیں۔ اصل تحقیق اور تخلیق کے لیے "گہرا وقت" (deep work time) رکھنا ضروری ہے۔ ترجیحات طے کرنا ایک آرٹ ہے۔کب اور کیسے نئی سمت اختیار کریں۔کئی دفعہ سائنسدان ایک بند گلی میں کام کرتے رہتے ہیں۔ یہ سیکھنا کہ کب ایک پروجیکٹ چھوڑنا ہے، کب نئی شاخ پر کام شروع کرنا ہے — یہ فیصلہ کرنا ہمت اور بصیرت مانگتا ہے۔

سائنس کے سماجی و اخلاقی پہلو سمجھنا ضروری ہے۔ریسرچ کا مقصد صرف شائع کرنا نہیں، بلکہ سماج کو فائدہ پہنچانا ہے۔ اگر یہ احساس جلدی آ جائے تو ریسرچ کا رخ بھی زیادہ ذمہ دار اور بامقصد ہو جاتا ہے۔ریسرچ انٹیگریٹی اور ایتھکس کی سمجھ بوجھ بھی لازم ہے۔ایسا لگتا ہے کہ سچ لکھنا تو سب کو آتا ہے، مگر پریکٹیکل ریسرچ میں ڈیٹا مینجمینٹ، پبلکیشن ایتھکس، آتھرشپ، اور پِلَیجَرِزم جیسے مسائل وقت کے ساتھ سمجھ آتے ہیں۔ اگر یہ باتیں آغاز میں سکھائی جائیں تو مستقبل میں بہت سے مسائل سے بچا جا سکتا ہے۔

ناکامی کا سامنا کرنا سیکھیں۔سائنس میں ناکامی عام ہے، چاہے تجربہ ناکام ہو یا پیپر ریجیکٹ ہو جائے۔ اگر یہ بات جلدی سمجھ آ جائے کہ "ناکامی ایک سبق ہے، ناکامی ختم نہیں بلکہ آغاز ہے"، تو ذہنی دباؤ کم ہو جاتا ہے۔ ذاتی زندگی اور کام میں توازن ایک صحت مند دماغ کے لیے بہت اہم ہے،سائنسدان اکثر اپنی زندگی کو ریسرچ کے لیے قربان کر دیتے ہیں، مگر یہ پائیدار حکمتِ عملی نہیں۔ اگر زندگی میں توازن نہ ہو تو ذہنی دباؤ اور بَرْن آؤٹ (burnout) کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ریسرچ تنہا اور بعض اوقات بے یقینی کا سفر ہے۔ اگر سائنسدانوں کو ذہنی صحت کے لیے معاونت، گروپ سپورٹ، یا وقتاً فوقتاً بریک لینے کی اہمیت جلد سمجھ آ جائے تو وہ پائیدار کیرئیر بنا سکتے ہیں۔
کس قدر جامع اور خوبصورت انداز میں آپ نے دریا کو کوزے میں بند کیا ہے۔ آپ کی ہر بات کی تائید بھی کرتی ہوں اور شکر گزار بھی ہوں کہ آپ نے سکھانے کی نیت سے اتنی وضاحت سے بیان کیا۔ :applause:
 

زیک

منتظم
اچھا سوال ہے۔ ایک سائنسدان کے طور پر کامیاب کیرئیر بنانے کے لیے کئی چیزیں تجربے سے سیکھنی پڑتی ہیں۔ اگر بہت سی باتیں نوجوان سائنسدانوں کو ابتداء ہی میں پتہ ہوں تو وہ بہت سی مشکلات اور وقت کا زیاں بچا سکتے ہیں۔اپنے تجربات کی روشنی میں یہاں چند اہم نکات پیش کر رہا ہوں جو میرے خیال میں کسی بھی سائنسدان کو کیرئیر کے آغاز میں معلوم ہونے چاہییں۔

ریسرچ صرف تجربات کا نام نہیں، سوچنے کا عمل ہے۔بہت سے نئے سائنسدان سمجھتے ہیں کہ کامیابی کا انحصار صرف لیبارٹری میں کام کرنے پر ہے۔ حالانکہ سب سے اہم چیز "سوال پوچھنے کی صلاحیت" اور "تنقیدی سوچ" ہے۔ اگر آپ درست سوال نہیں پوچھتے تو آپ کا تجربہ چاہے جتنا بھی نفیس ہو، اس کا اثر کم ہوگا۔ ملٹی ڈسپلنری سوچ اپنائیں۔آج کے زمانے میں کامیاب سائنس وہ ہے جو مختلف شعبوں کو جوڑ کر نئے حل نکالے۔ اگر ایک کیمسٹ، بایولوجسٹ، یا فزسسٹ کو تھوڑی بہت کوڈنگ، ڈیٹا سائنس یا بزنس کی سمجھ ہو تو وہ کہیں آگے جا سکتا ہے۔ ایک اور اہم پہلے ہے سائنسی ڈیٹا کا مؤثر تجزیہ اور reproducibility۔اگر نتائج دوسرے سائنسدان reproduce نہ کر سکیں تو تحقیق بے فائدہ ہو جاتی ہے۔ آغاز میں ہی reproducibility، ڈیٹا کا درست ریکارڈ رکھنا، اور open science جیسے تصورات سکھائے جائیں تو سائنس زیادہ قابل اعتماد بنتی ہے۔ صنعت اور اکیڈیمیا کے فرق کو سمجھنا بھی بہت ضروری ہے۔اکثر سائنسدانوں کو صرف اکیڈیمیا کا راستہ دکھایا جاتا ہے، جبکہ صنعتی تحقیق، پالیسی، کمیونیکیشن، اور سوشل انٹرپرینیورشپ جیسے میدان بھی بہت اہم اور بامقصد ہیں۔ ان راستوں کو جلد سمجھنا فائدہ مند ہے۔

تحریری صلاحیت اور کمیونیکیشن لازمی مہارتیں ہیں۔ریسرچ کو دنیا کے سامنے لانے کے لیے صرف اچھا کام کافی نہیں، اس کو موثر انداز میں پیش کرنا بھی آنا چاہیے۔ سائنسدانوں کو لکھنے، بولنے، اور پریزنٹیشن دینے کی باقاعدہ مشق کرنی چاہیے۔ سائنس کمیونیکیشن: عام عوام سے رابطہ۔سائنسدانوں کو یہ سیکھنا چاہیے کہ عام آدمی کو اپنی تحقیق کیسے سمجھائیں۔ اگر عوام کو آپ کی تحقیق کا مقصد سمجھ نہ آئے تو اثر کم ہو جاتا ہے — چاہے وہ فنڈنگ ہو یا پالیسی۔

نیٹ ورکنگ اور تعلقات کامیابی کی کنجی ہیں۔اکیلا کام کرنے والا سائنسدان بہت جلد تھک جاتا ہے۔ اگر یہ بات شروع سے معلوم ہو کہ سائنسی نیٹ ورک، کانفرنسز، اور سینئر محققین کے ساتھ تعلقات کتنا اثر ڈالتے ہیں، تو کیرئیر کا سفر بہت ہموار ہو۔ اچھا نیٹ ورک آپ کو مواقع، فنڈنگ، اور تعاون دیتا ہےایک اچھے مینٹر کا ہونا بہت اہم ہے، جو نہ صرف سائنسی رہنمائی دے بلکہ کیرئیر اور زندگی کے فیصلوں میں بھی مدد کرے۔ ساتھ ہی، خود بھی جونئرز کی رہنمائی کرنا سیکھیں، کیونکہ اس سے آپ کی اپنی سمجھ بھی بہتر ہوتی ہے۔سائنس سرحدوں سے بالاتر ایک عالمی مشن ہے ۔بہت سے سائنسدان شروع میں صرف اپنے ملک یا ادارے کی حد تک سوچتے ہیں۔ سائنس کو اگر عالمی سطح پر سوچا جائے تو نظریہ، نقطہ نظر، اور اثر سب وسیع تر ہو جاتا ہے۔فنڈنگ کے ذرائع کو سمجھنا اور گرانٹ رائٹنگ سیکھنا۔اکثر سائنسدانوں کو دیر سے پتہ چلتا ہے کہ ریسرچ کا تسلسل فنڈنگ سے جڑا ہے۔ گرانٹ لکھنے کی مہارت ایک لازمی فن ہے جو جلد سیکھ لینا چاہیے۔ فنڈنگ ایجنسیز، ان کے مقاصد، اور درخواست کا طریقہ جاننا اہم ہے۔

پروجیکٹ مینجمنٹ سیکھیں۔ بہت سے سائنسدان تجربات میں تو اچھے ہوتے ہیں لیکن وقت، وسائل، اور ٹیم کو مؤثر طریقے سے منظم نہیں کر پاتے۔ اگر کیرئیر کے آغاز میں پروجیکٹ مینجمنٹ کی بنیادی مہارتیں سیکھ لی جائیں تو کامیابی کی رفتار تیز ہو سکتی ہے۔ صنفی مساوات، تنوع، اور شمولیت کا شعور (DEI&B) آجکل بہت اہمیت اختیار کر گیا ہے۔یہ سیکھنا کہ مختلف پس منظر، زبان، صنف یا سوچ کے لوگ ٹیم میں شامل ہوں تو جدت آتی ہے — نہ صرف سائنسی بلکہ انسانی سطح پر بھی ترقی ہوتی ہے۔ یہ صرف ایک "اخلاقی بات" نہیں بلکہ کامیابی کی حکمت عملی ہے۔ سائنس صرف "انفرادی ذہانت" نہیں بلکہ "اجتماعی بصیرت" کا نام ہے۔ ٹیم ورک، ایک دوسرے کی قدر کرنا، اور اختلافِ رائے کو سیکھنے کا عمل کامیابی کی بنیاد ہے۔ اس لیے ٹیم ورک اور لیڈرشپ کی تربیت کا خیال رکھنا چاہیے۔ ٹائم مینجمنٹ اور فوری اور اہم میں فرق سیکھنا وقت کے ضیاع سے محفوظ رکھتا ہے۔بہت سے سائنسدان دن کا بیشتر وقت ای میلز، میٹنگز یا چھوٹے کاموں میں گزار دیتے ہیں۔ اصل تحقیق اور تخلیق کے لیے "گہرا وقت" (deep work time) رکھنا ضروری ہے۔ ترجیحات طے کرنا ایک آرٹ ہے۔کب اور کیسے نئی سمت اختیار کریں۔کئی دفعہ سائنسدان ایک بند گلی میں کام کرتے رہتے ہیں۔ یہ سیکھنا کہ کب ایک پروجیکٹ چھوڑنا ہے، کب نئی شاخ پر کام شروع کرنا ہے — یہ فیصلہ کرنا ہمت اور بصیرت مانگتا ہے۔

سائنس کے سماجی و اخلاقی پہلو سمجھنا ضروری ہے۔ریسرچ کا مقصد صرف شائع کرنا نہیں، بلکہ سماج کو فائدہ پہنچانا ہے۔ اگر یہ احساس جلدی آ جائے تو ریسرچ کا رخ بھی زیادہ ذمہ دار اور بامقصد ہو جاتا ہے۔ریسرچ انٹیگریٹی اور ایتھکس کی سمجھ بوجھ بھی لازم ہے۔ایسا لگتا ہے کہ سچ لکھنا تو سب کو آتا ہے، مگر پریکٹیکل ریسرچ میں ڈیٹا مینجمینٹ، پبلکیشن ایتھکس، آتھرشپ، اور پِلَیجَرِزم جیسے مسائل وقت کے ساتھ سمجھ آتے ہیں۔ اگر یہ باتیں آغاز میں سکھائی جائیں تو مستقبل میں بہت سے مسائل سے بچا جا سکتا ہے۔

ناکامی کا سامنا کرنا سیکھیں۔سائنس میں ناکامی عام ہے، چاہے تجربہ ناکام ہو یا پیپر ریجیکٹ ہو جائے۔ اگر یہ بات جلدی سمجھ آ جائے کہ "ناکامی ایک سبق ہے، ناکامی ختم نہیں بلکہ آغاز ہے"، تو ذہنی دباؤ کم ہو جاتا ہے۔ ذاتی زندگی اور کام میں توازن ایک صحت مند دماغ کے لیے بہت اہم ہے،سائنسدان اکثر اپنی زندگی کو ریسرچ کے لیے قربان کر دیتے ہیں، مگر یہ پائیدار حکمتِ عملی نہیں۔ اگر زندگی میں توازن نہ ہو تو ذہنی دباؤ اور بَرْن آؤٹ (burnout) کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ریسرچ تنہا اور بعض اوقات بے یقینی کا سفر ہے۔ اگر سائنسدانوں کو ذہنی صحت کے لیے معاونت، گروپ سپورٹ، یا وقتاً فوقتاً بریک لینے کی اہمیت جلد سمجھ آ جائے تو وہ پائیدار کیرئیر بنا سکتے ہیں۔
بہت زبردست لکھا ہے۔ صرف ایک چھوٹی سی بات کا اضافہ کروں گا کہ ریسرچ وغیرہ کا کافی وقت ڈیٹا کی مرمت میں لگتا ہے۔ کیا ڈیٹا صحیح ہے؟ کیا اسے ٹھیک اینکوڈ کیا گیا ہے؟ کہیں کوئی بگ، ٹائپو وغیرہ تو نہیں شامل ہو گیا؟ وغیرہ۔ اس سب کو سمجھنا اور اسے مناسب وقت دینا بھی اتنا ہی اہم ہے جتنا لیب ورک یا آئیڈیاز وغیرہ
 

عرفان سعید

محفلین
اس سے اگلا سوال یہ ہے کہ ایک ایسے کیرئیر میں جو ہمہ وقت دماغ کی دہی وغیرہ بنائے رکھتا ہو، اپنی ذہنی و جسمانی ان دا لانگ رن برقرار رکھنے کے لیے کیا خصوصی اقدامات کرنے چاہئیں؟ بچپن میں سنا تھا کہ دماغ کے زیادہ استعمال سےانسان جلدی فزیکلی ویک ہوتا ہے، کیا یہ سچ ہے یا کہانیاں بنی ہیں؟
جسمانی طور پر کمزور تب ہی ہو گا اگر جسم کے تقاضوں کا خیال نہیں رکھا جائے گا۔ جیسا کہ کہاوت ہے صحت مند دماغ ایک صحت مند جسم میں ہوتا ہے۔ اس کے لیے جسم کے فطری تقاضوں کا جہاں تک ہو سکے خیال رکھتا ہوں۔ وقت پر کھانا، دن میں بار بار پانی کا استعمال، بہت زیادہ مصالحے دار اور چکنائی سے بھرپور کھانوں میں احتیاط، واک، جِم (آجکل روٹین کچھ خراب ہے) ،گھر سے متعلقہ کام جیسے گرمیوں میں بیک یارڈ میں گارڈنگ، سردیوں میں برف کی صفائی، گھر کی اشیاء کی ترتیب، گھر کی صفائی: بلکہ جب کچھ ٹینشن، سٹریس وغیرہ ہو تو خوب گھر کی صفائی کرتا ہوں ، جس سے کافی افاقہ ہوتا ہے۔ جب ضرورت ہو تو گھر سے متعلق کوئی نیا پروجیکٹ لے کر اس کی انجام دہی اپنے ہاتھوں سے کرتا ہوں۔ کچھ سال پہلے گھر تبدیل کیا تو سارے گھر کا پینٹ تنِ تنہا کیا، سیڑھیوں کی چھت پینٹ کرنے لے کیے ایک پلیٹ فارم خود ڈیزائن کیا اور بنایا، کچھ الماریوں کر دروازے نئے لگائے، باتھ رومز کے سِنک خود تبدیل کیے وغیرہ وغیرہ
اس کے علاوہ کھانا پکانے میں بھی خاص دلچسپی ہے۔ آجکل بچوں کی غیر ںصابی سرگرمیوں کے باعث زیادہ وقت نہیں مل پاتا ، وگرنہ کووِڈ میں تو روٹین بن گئی تھی اور بہت سی نت نئی ریسپیز بھی ٹرائی کیں۔
دماغی صحت کے لیے بھی چند باتوں کا خیال رکھتا ہوںِ ۔ اپنی فیلڈ میں کام کے علاوہ کوشش ہوتی ہے کہ اپنے لیے کوئی نہ کوئی دماغی چیلنج موجود رہے۔ جب خالصتا تحقیقاتی کام سے متعلق تھا تو جیسے پروجیکٹ ٹیم کو لیڈ کرنا، اپنے متعلقہ شعبہ جات میں کوالٹی ٹیم کی لیڈرشپ، ٹیم ورک کی بہتری کے لیے کچھ اقدامات وغیرہ۔ پچھلے تین سال سے ٹیکنکل بزنس میں کام کر رہا ہوں تو بزنس سے متعلق بہت سی نئی باتیں سیکھنے کا موقع مل رہا ہے۔ اس کے ساتھ فن لینڈ کی پوری سائٹ لوکیشن کے لیے ڈائورسٹی، ایکویٹی، انکلوژن کی ایک ٹیم بھی لیڈ کر رہا ہوں، جو کہ سوچنے اور کام کے مختلف انداز کا تقاضا کرتا ہے۔
کام کرتے وقت شگفتہ مزاجی برقرار رہتی ہے، پچھلے ہفتے ہی بلجیم کے ایک کولیگ کا ساتھ کام سے متعلق پرینک کیا اور اس نے ایک سنجیدہ میٹنگ بھی بلا لی۔ جب حقیقت آشکار ہوئی تو ہم دونوں خوب قہقہے لگاتے رہے۔ کچھ قریبی فنش کولیگ ایسے بھی رہے ہیں کہ ایک دوسرے پر پیشہ وارانہ حدود میں رہتے ہوئے فقرے کستے رہتے ہیں۔ میری ایک بری عادت ہمیشہ سے یہ رہی ہے کہ اگر سٹریس اور ٹینشن ہو تو خود تک رکھنا۔ پچھلے دس بارہ سالوں میں کام پر اس عادت کو مکمل تبدیل کر دیا ہے۔ تھوڑا بہت بھی سٹریس ہوا، فورا کسی کولیگ کے دفتر گھس کر سارا دھواں اڑا دیا اور اپنے باس کو بھی فوری مطلع کر دیا۔ اس سے دماغ پر کوئی الجھن سوار نہیں رہتی۔ ایک اور کوشش ہوتی ہے کہ کسی معاملے میں کسی کولیگ کی مدد ہو سکتی ہو تو حتی الامکان تعاون کیا جائے، اس سے بہت زیادہ طمانیت کا احساس رہتا ہے۔
نجی زندگی میں بھی اپنے لیے کوئی نہ کوئی ذہنی چیلنج تلاش کرتا رہتا ہوں۔ کچھ دلچسپی کے موضوعات بھی ہیں، ان کے چند لاینحل مسائل پر مہینوں بلکہ سالوں کچھ تحقیق اور غور و فکر جاری رہتا ہے۔ محفل پر آنے کی وجہ ہی یہ تھی کہ مجھے کبھی شعر پڑھنا، سمجھنا ، یاد رکھنا، اور خاص طور پر وزن کبھی سمجھ نہیں آیا تھا۔ اور میرا خیال تھا کہ میرے لیے یہ کبھی ممکن بھی نہیں ہے۔ لیکن پھر خود ہی عروض کی کتابیں پڑھ کر سمجھا بھی، کچھ ٹوٹی پھوٹی شاعری بھی کر ڈالی، اور شعر پڑھ بھی دیے۔ پچھلے سال بیٹئے کے رُبِکس کیوب کا چیلنج لے کر اسے مکمل حل کرنا سیکھا اور اب تو دفتر میں کافی بریک میں ایک آدھ بار رُبِکس کیوب حل کرتا رہتا ہوں۔
 
آخری تدوین:

عرفان سعید

محفلین
اس سے اگلا سوال ہے کہ مزاج کی شگفتگی ایک سوشل ڈیلنگ ٹیکٹک ہے یا یہ گھر میں بھی تقریبا ہمہ وقت برقرار رہتی ہے؟ ( کیونکہ کسی رومینٹک ہیرو سے کسی نے سوال کیا تھا کہ گھر پہ بھی رومینٹک ہو تو اس نے کہا تھا کہ سرکس والے کیا اپنے گھر جا کے الٹا لٹکتے ہیں؟ :D )
کوشش تو یہی ہوتی ہے کہ اس شگفتہ مزاجی کو گھر میں بھی قائم رکھا جائے۔ لیکن گھر میں بیوی اور بچوں سے تعلقات کی بہت سی جہتیں ہوتی ہیں، جو کسی معاشرتی اور پیشہ وارانہ زندگی کے تعلقات میں موجود نہیں ہوتیں۔ ان میں سے اکثر جہات کے تقاضے آپ کی شخصیت کے سنجیدہ ، فکری اور عملی پہلوؤں کے اظہار کا تقاضا کرتے ہیں۔ ایسے موقعوں پر موقعے کی مناسبت سے۔
 
مزید چند سوالات:
1) کیا آپ کی نظر سے کوئی ایسے کورسز یا ریکمنڈڈ ریڈنگز گزری ہیں جو ریسرچرز کو سوفٹ سکلز اور پروجئکٹ مینیجمنٹ وغیرہ سکھانے میں مدد گار ثابت ہوں؟
2) زندگی آپ کی نظر میں کیا ہے اور اس میں خوشی اور غم کا آپس میں کیا کنکشن ہے؟
3) آرٹ اور سائنس میں سے دل کس کی طرف زیادہ کھنچتا ہے؟
4) اپنی دس پسندیدہ کتب کی فہرست بتائیے۔
5) کچھ پسندیدہ سیزنز یا موویز کے نام بھی بتائیے۔
6) پاکستان کتنے عرصے بعد آتے ہیں اور یہاں سے جڑی کچھ اچھی یادیں بھی ہیں؟
7) کچھ اپنے بچپن کے بارے میں بتائیے کہ کیا دور تھا اور کیا دلچسپ واقعات رونما ہوئے تھے؟ کن بچوں سے دوستی تھی؟
 

عرفان سعید

محفلین
1) کیا آپ کی نظر سے کوئی ایسے کورسز یا ریکمنڈڈ ریڈنگز گزری ہیں جو ریسرچرز کو سوفٹ سکلز اور پروجئکٹ مینیجمنٹ وغیرہ سکھانے میں مدد گار ثابت ہوں؟
یہ ایک بہت اہم سوال ہے، خاص طور پر اُن محققین کے لیے جو صرف سائنسی یا تکنیکی مہارتوں تک محدود نہیں رہنا چاہتے بلکہ اپنی صلاحیتوں کو قیادت، تعاون، اور مؤثر ابلاغ جیسے میدانوں میں بھی بڑھانا چاہتے ہیں۔ آج کل کے دور میں تو بے شمار بہت سے آن لائن کورسز، کتابیں اور ریسورسز موجود ہیں جو سافٹ اسکلز، ٹیم ورک، اور پروجیکٹ مینجمنٹ سکھانے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔اپنی پیشہ وارانہ زندگی میں میری اپروچ یہ رہی ہے کہ جب تک کسی مہارت کے استعمال کا موقع پیدا نہیں ہوتا اس کا محض مطالعہ اتنی افادیت کا حامل نہیں ۔ آپ تیراکی کی بے شمار کتابوں کا مطالعہ کرلیں اور آن لائن کورسز دیکھ لیں، تیراکی تب ہی آئے گی جب پانی میں کود کر ہاتھ پاؤں چلائیں گے۔

میری کوئی مخصوص سفارش نہیں ہے، کیونکہ سیکھنے کا اصل فائدہ تب ہوتا ہے جب آپ اسے عملی طور پر اپنائیں۔ تھیوری یا صرف مطالعہ اُس وقت تک ادھورا رہتا ہے جب تک اُس کا اطلاق نہ کیا جائے۔کچھ بھی سیکھیں، لیکن فوراً کسی نہ کسی طریقے سے اسے اپنی زندگی یا کام میں استعمال کریں ۔تبھی وہ سیکھا ہوا آپ کا سرمایہ بنے گا، صرف معلومات نہیں۔ اصل تربیت تب ہوتی ہے جب آپ سیکھے ہوئے کو روزمرہ کے کام، تعلقات اور مسائل کے حل میں استعمال کرتے ہیں۔ ایک پی ایچ ڈی ریسرچر کے لیے مختلف مہارتوں کی اہمیت تحقیق کے مرحلے، کیریئر کے منصوبے، اور کام کے ماحول پر منحصر ہوتی ہے۔ تاہم، عام طور پر درج ذیل سافٹ اسکلز اور پروجیکٹ مینجمنٹ سے متعلق مہارتیں اس وقت سب سے زیادہ فائدہ مند ہو سکتی ہیں ، خاص طور پر جب ریسرچ جاری ہو یا پبلشنگ، کولیبوریشن، یا انڈسٹری سے لنک بنانا مطلوب ہو۔


انتظام الاوقات اور تعینِ ترجیحات:
پی ایچ ڈی کے دوران آپ کو ڈیڈلائنز، تجربات، پیپر سبمیشن، کانفرنسز اور ذاتی زندگی کے درمیان توازن قائم رکھنا ہوتا ہے۔ ہر ہفتے کے آغاز میں ایک واضح پلان بنائیں اور حتی الامکان اس پر عمل کی کوشش کریں۔

سائنسی ابلاغ اور خامہ فرسائی:
آپ کو اپنا کام نہ صرف شائع کرنا ہوتا ہے بلکہ واضح اور پُراثر انداز میں پیش بھی کرنا ہوتا ہے ،چاہے وہ سپروائزر سے بات ہو، کانفرنس کی پریزنٹیشن ہو یا کوئی سائنس کمیونیکیشن۔ اپنا ریسرچ خلاصہ عام فہم زبان میں کسی غیر ماہر کو سمجھانے کی مشق کریں۔جاپان میں ہمارے گروپ میں ہر سوموار کو ریسرچ سیمنار ہوتا تھا اور ہر سہ ماہی اپنی تحقیق کو سب کے سامنے پیش کرنا ہوتا تھا۔ ہمارے گروپ میں پوسٹ ڈاک، پی۔ایچ۔ڈی ، ماسٹرز اور گریجویٹ کے طلبا ہوتے تھے۔ میرے پروفیسر کہا کرتے تھے کہ اگر آپ کی پریزنٹیشن پر گروپ کا سب سے جونیئر رکن سوال کرتا ہے تو سمجھ لیں کہ آپ نے اپنی بات کا ابلاغ انتہائی مؤثر طریقے سے کیا ہے۔ اپنی سلائیڈز کو زیادہ گرافکس اور کم متن کے ساتھ پیش کرنے کا تجربہ حاصل کریں۔


باہمی تعاون اور پیشہ وارانہ مراسم:
اکیلا محقق اب کامیاب نہیں ہو سکتا۔ آپ کو دوسرے گروپس، انڈسٹری یا انٹرنیشنل نیٹ ورکنگ کے ذریعے مواقع بڑھانے ہوں گے۔کانفرنسز میں محض سننے کے بجائے سوالات پوچھیں، رابطے بڑھائیں۔ LinkedIn پر اپنی فیلڈ کے محققین سے نرمی اور سلیقے سے جڑیں۔

تنقیدی سوچ اور فیصلہ سازی:
ہر دن آپ کو اعداد و شمار، مواد، منہاج اور نتائج کے حوالے سے چھوٹے بڑے فیصلے کرنے پڑتے ہیں۔ اس میں نہ جذبات غالب آئیں، نہ عجلت۔ اپنے فیصلوں کے پیچھے منطقی وجوہات لکھیں اور سوچیں کہ کیا کوئی اور بہتر متبادل تھا؟دوسرے محققین کے ملاحظات اور جائزوں کو پڑھیں اور ان کی تنقید اور بنائے استدلال کو سمجھیں۔

منصوبہ سازی:
پی ایچ ڈی بذاتِ خود ایک "ریسرچ پراجیکٹ" ہے, جس میں سنگ ہائے میل، وقت کی حدود، رپورٹنگ وغیرہ شامل ہیں۔ Gantt Charts بنانے کی مشق کریں۔ ہر مہینے ایک پراگرس رپورٹ خود کے لیے بنائیں۔

بین الثقافتی آگاہی اور ٹیم کی حرکیات:
بین الاقوامی لیبز، کانفرنسز، اور ڈیجیٹل تعاون میں مختلف پس منظر کے لوگ ہوتے ہیں۔ اُن کے ساتھ مؤثر اور احترام کے ساتھ کام کرنا آنا چاہیے۔یہ بھی بہت ضروری ہے کہ مختلف تہذیبوں کے متعلق اپنے مفروضات اور غیر شعوری تعصبات پر نظر ثانی کی جائے۔دوسروں کی بات توجہ، دھیان اور بغیر کسی تعصب کے سننے اور ہم گدازی کی مشق کریں۔

پی ایچ ڈی صرف تحقیق کا نام نہیں، بلکہ خود کو پروفیشنل بنانے کا سفر بھی ہے۔آپ کو سیکھنا ہے کہ مؤثر طریقے سے کیسے تحقیق کاانتظام و انصرام، نظم و نسق ، باہمی تعاون، ابلاغ اور قیادت کی جائے۔ ان مہارتوں کی بنیاد شروع میں ہی رکھی جائے تو پوسٹ پی ایچ ڈی کامیاب کیریئر کے دروازے خود بخود کھلیں گے ، چاہے وہ اکیڈیمیا ہو، انڈسٹری، یا انوویشن۔ کامیاب محقق وہی ہوتا ہے جو صرف تجربات میں نہیں، انسانوں کے ساتھ بھی کامیابی سے کام کر سکے۔
 
آخری تدوین:

عرفان سعید

محفلین
2) زندگی آپ کی نظر میں کیا ہے اور اس میں خوشی اور غم کا آپس میں کیا کنکشن ہے؟
زندگی ایک سفر اور جہدِ مسلسل ہے، جو تجربات، جذبات، تعلقات اور مقاصد سے عبارت ہے۔ یہ سفر نہ صرف جسمانی بلکہ ذہنی، روحانی اور جذباتی طور پر بھی انسان کو تشکیل دیتا ہے۔ زندگی ایک نعمت بھی ہے اور آزمائش بھی، اور اس کا حسن اسی تضاد میں پوشیدہ ہے۔زندگی کو اگر ہم ایک دریا سے تشبیہ دیں تو یہ کبھی پر سکون بہتا ہے، کبھی طوفانی، کبھی گہرا اور کبھی سطحی۔ زندگی کا حسن اس کے ہمہ وقت تغیر میں ہے۔ انسان ہر دن، ہر لحظہ سیکھتا ہے، بدلتا ہے، اور آگے بڑھتا ہے۔ زندگی کا اصل مطلب صرف سانسوں کی مالا پرونا نہیں بلکہ ان سانسوں کو بامقصد بنانا ہے۔

خوشی اور غم زندگی کے دو پہلو ہیں، جیسے دن اور رات، روشنی اور اندھیرا۔ ان دونوں کے بغیر زندگی کا توازن قائم نہیں رہ سکتا۔ یہ دونوں جذبات نہ صرف فطری ہیں بلکہ ضروری بھی۔اگر انسان نے کبھی غم نہ دیکھا ہو تو وہ خوشی کی حقیقی قدر نہیں سمجھ سکتا۔ جیسے ایک پیاسا ہی پانی کی قیمت جانتا ہے، ویسے ہی جو دکھ جھیل چکا ہو، وہی راحت کی اصل معنویت کو سمجھتا ہے۔غم انسان کو آزماتا ہے، صبر سکھاتا ہے، اور اندرونی طاقت کو بیدار کرتا ہے۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب انسان خود کو بہتر سمجھنے لگتا ہے اور اکثر اپنی شخصیت میں گہرائی پیدا کرتا ہے۔خوشی انسان کو جینے کا حوصلہ دیتی ہے، جذبہ، امید اور مثبت سوچ پیدا کرتی ہے۔ یہ تعلقات کو مضبوط بناتی ہے اور انسان کی کارکردگی کو بہتر بناتی ہے۔اگر صرف خوشی ہی خوشی ہو تو وہ معمول بن جائے گی اور اس میں وہ چمک نہیں رہے گی۔ اسی طرح اگر صرف غم ہی ہو تو انسان تھک جائے گا۔

زندگی ایک مسلسل بدلتا ہوا تجربہ ہے، جس میں خوشی اور غم دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ یہ دونوں انسان کی شخصیت، اور سوچ کو سنوارتے ہیں۔ اصل کامیابی یہی ہے کہ انسان دونوں کیفیات میں توازن برقرار رکھے۔ خوشی میں شکر اور غم میں صبر کے ساتھ۔ یہی شعور زندگی کو با مقصد، باوقار اوربامعنی بناتا ہے۔ زندگی کا سمندر کبھی پرسکون ہوتا ہے اور کبھی طوفانی۔ پرسکون لمحات ہمیں خوشی کی گہرائی میں لے جاتے ہیں، جبکہ طوفانی لہریں ہمیں غم اور دکھ کے ساحل تک پہنچاتی ہیں۔ ان دونوں کے درمیان تیرنا ہی زندگی ہے۔
 
آپ کا انداز تحریر نہایت پرفکر اور جامع ہے۔ جیسے سائنس اور آرٹ کا ایک خوب صورت امتزاج ہو جو اس لڑی میں آنے والوں کے لیے علم کا کوئی ایسا دروازہ کھول دے جس کی موجودگی اس تازہ ہوا کے جھونکے سے پہلے معلوم نہ ہو۔ بہت شکریہ انٹرویو کے لیے وقت نکالنے کا اور جوابات دینے کے ساتھ ساتھ یہ بھی بتائیں کہ ریفریشمنٹ میں کیا لیں گے ہمارے گراں قدر مہمان سائنسدان؟ :)
 

عرفان سعید

محفلین
آپ کا انداز تحریر نہایت پرفکر اور جامع ہے۔ جیسے سائنس اور آرٹ کا ایک خوب صورت امتزاج ہو جو اس لڑی میں آنے والوں کے لیے علم کا کوئی ایسا دروازہ کھول دے جس کی موجودگی اس تازہ ہوا کے جھونکے سے پہلے معلوم نہ ہو۔
تحسین اور پذیرائی کا بہت شکریہ
 

عرفان سعید

محفلین
3) آرٹ اور سائنس میں سے دل کس کی طرف زیادہ کھنچتا ہے؟
اس پر الگ سے بھی کلام کروں گا۔ سرِ دست ایک اندرونی کشمکش کو اپنے تعارف میں بھی بیان کیا تھا۔ اسے یہاں نقل کیے دیتا ہوں۔
اُردو زبان کی لازمی اور رواجی تعلیم ایف ایس سی تک کالج میں حاصل کی۔ایک ایسا ماحول جہاں ہر شخص ڈاکٹر یا انجئنیر بننے کا خواہاں ہو،شعور و آگہی سے زیادہ نمبروں کی اندھا دھند میراتھن کا غلغلہ ہو،سائنسی مضامین کی اہمیت پر بے پناہ زور ہو، وہاں زبان و ادب کی خوبصورتی گہنا جاتی ہے۔امتحانات کے جاں گسل مرحلے سے جب کچھ فراغت میسر آئی تو اردو نثر کی کتب بینی کا موقعہ مل گیا، جسے نعمت غیر مترقبہ جانتے ہوئے مقدور بھر کسب فیض کی کاوش کی۔ گاہے بگاہے اپنے احساسات کو بھی پیرایہء نثر میں قلم بند کرنے کی کوشش کی۔شاید یہ سلسلہ جاری رہتا لیکن میری تعلیم کا دھارا اب ایسا موڑ مڑنے جا رہا تھا کہ زبان و ادب سے تمام علاقے منقظع ہونے جا رہے تھے۔ بی ایس سی میں اردو زبان کی تدریس لازم نہ تھی اور دوبارہ کالج میں داخلے کے بعد تعلیم کا بار، خود کفالتی کی ذمہ داریاں،بحرِ کیمیا میں تلاشِ گوہرِعلم کے لیے آب بازی اور کچھ کسالت مزاجی کے باعث اردو کی جن حسین و جمیل وادیوں میں کبھی محوِ خراماں تھا، وہ سفرِ حیات میں دُور کہیں بہت دُور رہ گئیں تھیں۔میں اب نئی منازل کی تلاش میں بالکل مختلف راستوں پر گامزن تھااور یہ بھی معلوم نہ تھا کہ زندگی کی گاڑی کبھی اس چمنستان کے قرب و جوار سے بھی گُزرپائے گی یا نہیں۔ اِسی خود فراموشی میں تقریبًا دو دہائیاں گردشِ ایّام کی نذر ہو گئیں۔دستِ کیمیا گر جو اَب کیمیا بازی میں عناصر و مرکبات کی ترکیبوں کو تجربات کی بھٹی میں افشا کرنے کے خُوگر ہو چُکے تھے، وہ اب تراکیب زبان سے ناشناش تھے۔
کیمیائی مرکبات کی تیز و تند بُو -جو کبھی کبھی اپنی شدید تاثیر کے باعث دماغ کو ماؤف کر دیتی تھی-نےگلستانِ اُردو کے گُل ہائے معطر کی دل آویز مہک کو ذہن سے محو کر دیا تھا۔فکر و نظر جو اب اُس انتہائی چھوٹی سی دُنیا –جو ایٹم اور سالمات کے قلب میں مستور ہے –میں موجود انسان کی حسِ باصرہ اور خوردبینی نگاہ سے اوجھل ذرات کے رقص کو محسوس کر لیتی تھی، لیکن دل کی اتھاہ گہرائیوں سے بلند ہونے والے نغمات اس کی حسِ سماعت کو منفعل نہ کرتے تھے۔علم و حرفت کے شاہکار آلاتِ جدید جو ذرّات کی دُنیا میں وُقوع پذیر ہونے والے معمولی سے معمولی حوادث و واقعات کا سُراغ لگانے میں میرے ممد و معاون تھے، جذبات و احساسات میں برپا ہونے والے تلاطم کی کوئی خبر دینے سے قاصر تھے۔میری زندگی کا سفینہ جو کبھی جُوئے اردو میں تیر رہا تھا، اب جمود و تعطل کا شکار تھااور مدت ہائے دراز سے رُک چکا تھا اورمیرے لیے اس رواں دواں ندی کا پانی آب بستہ ہو چُکا تھا۔ایک طرف وسیع تر تجربات کی آزمائش کے بعد ثابت شدہ سائنسی قوانین و عقائد تھے، جن کا اطلاق ذرات کے سینہ کو پھاڑ کر قوت و توانائی کا ہمالہ بہم پہنچا رہا تھا، لیکن دُوسری طرف یہ انسان کی انانیت اور خود سری کے سخت پتھروں میں چھید کرنے سے قاصر تھے۔اس محیر العقول اور عظیم الشان عملِ انشقاق کی بدولت ایک طرف انسان مادے کو توانائی میں تبدیل کر رہا تھااور اس عمل کی چکاچوند روشنیاں انسان کی نگاہوں کو خیرہ کرتے ہوئےعالم صُغریٰ کو بُقعہ نُور بنا رہی تھیں۔لیکن اس کے برعکس، عقل و شعور اورعلم و آگہی کے خورشید کی وہ تابانی جو ذرّے کو آفتاب بناتی ہیں، انسان کے فکر و نظر کے گھر میں اُجالے کا پیغام لاتی ہیں اس کے قلب و رُوح ابھی اُس کی شعاع ریزی سے محروم تھے۔انسان کی تخلیقی صلاحیتوں کی آئینہ دار عظیم ایجادات اور دریافتیں ،سورج کی شُعاعوں کو قید کر کے اس کا معیارِ زندگی بلند سے بلند تر کرنے میں مگن تھیں۔لیکن صُبحِ صادق کی وہ کرن جو انسانیت کی شبِ تاریک کو سحر کرتی اور جس کی روشنی میں مہرِ تاب کے نور کا صیاد اپنے افکار کی دنیا کا مسافر بنتا، نہ جانے کہاں تھی؟
 
Top