میرے پسندیدہ اشعار

سارہ خان

محفلین
قرب کے نہ وفا کے ہوتے ہیں
سارے جھگڑے انا کے ہوتے ہیں

بات ہوتی ہے صرف نیت کی
وقت سارے دُعا کے ہوتے ہیں

بھول جاتے ہیں مت بُرا کہنا
لوگ پُتلے خطا کے ہوتے ہیں

وہ بظاہر جو کچھ نہیں لگتے
اُن سے رشتے بلا کے ہوتے ہیں
 

شعیب خالق

محفلین
دل مضطرب ہے اور طبیعت اُداس ہے
لگتا ہےآج دل کے کوئی آس پاس ہے

پھر تشنہ لب کھڑا ھوں سمندر کے سامنے
یہ میری پیاس ہے کہ سمندر کی پیاس ہے

کھلتا نہیں نگاہ پہ کہ کس جگہ پہ ھوں
شہر ِ طلب ہے یاکوئی دشت ِ ہراس ہے

یہ سادگی نہیں تو اُسے اور کیا کہوں
پھر آسماں سے مجھ کو بھلائی کی آس ہے

جانے ھوائے شب کی اداؤں کو کیا ھوا
شوریدہ سر ہے اور دریدہ لباس ہے
کرامت بخاری
 

سارا

محفلین
برسات'

ہم سے کہیے درد کے قصے
ہم سے کیجیے رنج کی بات
ہم پر بیتے کیا کیا موسم
تنہا دل'لاکھوں آفات
آج ہی دل کچھ ٹھہرا تھا
اور آج ہی آنکھیں کچھ خشک سی تھیں
آج ہی ظالم ٹوٹ کے برسی
موسم کی پہلی برسات

(پیرزادہ قاسم)
 

عیشل

محفلین
انسان کی پرکھ میں ہے سو بھول کا اندیشہ
اپنوں کو عجلت میں اپنا نہ کہا جائے
دیتی ہے قتیل اکثر چہروں کی چمک دھوکا
ہر کانچ کے ٹکڑے کو ہیرا نہ کہا جائے
 

Swatians

محفلین
جب دن تھے محبت کے
عجب دن تھے رفاقت کے
کبھی گر یاد آجائیں
تو پلکوں پر ستارے جھلملاتے ہیں
کسی کی یاد میں راتوں میں اکثر
جاگتے رہنا
معمول تھا اپنا
کبھی گر نیند آجاتی
تو ہم یہ سوچ لیتے تھے
ابھی تو وہ ہمارے واسطے
سویا نہیں ہوگا
ابھی ہم بھی نہیں سوتے !
صبح تک جاگتے تھے اور اس کو یاد کرتے تھے
تنہائی میں ویران دل آباد کرتے تھے
ہمارے سامنے تاروں کے جھرمٹ میں
اکیلا چاند ہوتا تھا
جو اس کے حسن کے آگے بہت ہی ماند ہوتا تھا
فلک پر رقص کرتے ان سب ہی روشن ستاروں کو
یوں ہم ترتیب دیتے تھے
کہ اس کا نام بنتا تھا
ہم اگلے روز جب ملتے
تو گذری رات کی ہر بےکلی کا ذکر کرتے
ہر ایک قصہ سناتے تھے
کہاں ، کب ، کس جگہ ، کیونکر ۔۔۔
یہ دل دھڑکا تھا ، بتاتے تھے
میں جب کہتا تھا کہ " جاناں ! رات میں ایک پل نہیں سویا "
تو وہ خاموش رہتی تھی
یہ اس کی نیند میں ڈوبی ہوئی دو جھیل سی آنکھیں
اچانک بول پڑتی تھیں
میں جب کہتا تھا
" میں نے کل شب ستاروں میں "
تمہارا نام دیکھا تھا
تو وہ کہتی ۔۔۔۔
تم جھوٹ کہتے ہو
ستارے میں نے دیکھے تھے
اور ان روشن ستاروں میں تمہارا نام لکھا تھا
عجب معصوم لڑکی تھی
وہ کہتی تھی ۔۔۔
" لگتا ہے اب اپنے ستارے ۔۔۔
مل ہی جائیں گے "
مگر اس کو کیا خبر تھی
کنارے مل نہیں سکتے
محبت کی طرح ۔۔۔۔
محبت کرنے والوں کے ۔۔۔
ستارے مل نہیں سکتے
 

ظفری

لائبریرین

یہ کس کا تصور ہے ، یہ کس کا فسانہ ہے
جو اشک ہے آنکھوں میں ، تسبیح کا دانہ ہے

جو اُن پہ گذرتی ہے ، کس نے اُسے جانا ہے
اپنی ہی مصبیت ہے ، اپنا ہی فسانہ ہے

آنکھوں میں نمی سی ہے ، چپ چپ سے وہ بیٹھے ہیں
نازک سی نگاہوں میں ، نازک سا فسانہ ہے

یا وہ تھے خفا تھے ہم سے ، یا ہم ہیں خفا اُن سے
کل اُن کا زمانہ تھا ، آج اپنا زمانہ ہے
 

تیشہ

محفلین
بہت آسان تھا اسکی محبت کو دعا کرنا
بہت مشکل ہے بندے کو مگر اپنا خداُ کرنا

کہاں تک کھینچا دیوار پر سادہ لکیروں کو
تمھاری یاد میں کب تک انہیں بیٹھے گنا کرنا

نجانے کس لئے سیکھا طریقہ یہ ہواؤں نے
مرے کمرے میں سناٹے زبردستی بھرا کرنا

لہو کی طرح رگ رگ میں جو پہیم درد بہتا ہے
زمین کی تہہ میں لے جائے تو کیا اسکا گلہ کرنا

محبت کرنے والوں کی کہانی بس یہی تو ہے
کبھی نیناں میں بھر جانا کبھی دل میں رچا کرنا
 

تیشہ

محفلین
گمُ اپنی محبت میں دونوں نایاب ہو تم ،نایاب ہیں ہم
کیا ہم کو کھلی آنکھیں دیکھیں اک خواب ہو تم اک خواب ہیں ہم

آنکھیں جو ہیں اپنے چہرے پر اک ساون ہے اک بھادوں ہے
اے غم کی ندی توُ فکر نہ کر اس وقت بڑے سیراب ہیں ہم

اس وقت تلاطم خیز ہیں ہم گردش میں تمھیں بھی لے لیں گے
اس وقت نہ تیر اے کشتی دل اسوقت تو خود گرداب ہیں ہم

اے چشم فلک اے چشم زمیں ہم لوگ تو پھر آنے کو نہیں
دو چار گھڑی کا سپنا ہیں دو چار گھڑی کا خواب ہیں ہم
 

تیشہ

محفلین
محبت اوس کی صورت ،
پیا سے پنکھڑی کے ہونٹ کو سیراب کرتی ہے
گلُوں کی آستینوں میں انوکھے رنگ بھرتی ہے
سحر کے جھٹ پٹے میں گنگناتی ، مسکراتی جگمگاتی ہے
محبت کے دنوں میں ۔ ۔ دشت بھی محسوس ہوتا ہے

کسی فردوس کی صورت ۔ ۔ محبت اوس کی صورت ، ۔۔
 

تیشہ

محفلین
دل عشق میں بے پایاں، سودا ہو تو ایسا ہو
دریا ہو تو ایساہو، صحرا ہو تو ایسا ہو

ہم سے نہیں رشتہ بھی ہم سے نہیں ملتا بھی
ہے پاس وہ بیٹھا بھی ،دھوکہ ہو تو ایسا ہو

اک خال سویدا میں ، پہنائی دو عالم
پھیلا ہو ایسا ہو ،سمٹا ہو تو ایسا ہو

دریا بہ حباب اندر ' طوفان بہ سحاب اندر
محشر بہ حجاب اندر' ہونا ہو تو ایسا ہو

وہ بھی رہا بیگانہ' ہم نے بھی نہ پہچانا
ہاں ' اے دل دیوانہ، اپنا ہو تو ایسا ہو

اس دور میں کیا کیا ہے ' رسوائی بھی ' لذت بھی
کانٹا ہو تو ایسا ہو ؛چُھبتا ہو تو ایسا ہو

اے قیس جنوں پیشہ انشاء کو کبھی دیکھا
وحشی ہو تو ایسا ہو ' رسوا ہو تو ایسا ہو ، ۔۔
 

تیشہ

محفلین
کبھی اس نگر تجھے دیکھنا،کبھی اس نگر تجھے ڈھونڈنا
کبھی رات بھر تجھے سوچنا، کبھی رات بھر تجھے ڈھونڈنا

مجھے جابجا تیری جستجو، تجھے ڈھونڈتا ہوں میں کوُبکو
کہاں کھل سکا تیرے رو برو ،مرا اسقدر تجھے ڈھونڈنا

میرا خواب تھا کہ خیال تھا، وہ عروج تھا کہ زوال تھا
کبھی فرش پر تجھے دیکھنا ،کبھی عرش پر تجھے ڈھونڈنا

یہاں ہر کسی سے ہی بیر ہے ،ترا شہر قریہ غیر ہے
یہاں سہل بھی تو نہں کوئی ،مرے بے خبر تجھے ڈھونڈنا

تیری یاد آئی تو رو دیا ، جو توُ مل گیا تجھے کھو دیا
میرے سلسلے بھی عجیب ہیں ، تجھے چھوڑ کر تجھے ڈھونڈنا

یہ میری نظر کا کمال ہے کہ مری نظر کا جمال ہے
تجھے شعر شعر میں سوچنا، سر بام ودر تجھے ڈھونڈنا ،۔۔ ۔
 

تیشہ

محفلین
تجھُ سے بچھڑا تو اُجڑتا ہی چلا جاؤں گا
پر تیرا حکم ہے سو حکم بجا لاؤں گا

جب کبھی ٹوٹ کے بکھرو تو بتانا مجھکو ۔ ۔ ۔،
میں تمھیں ریت کے ذروں سے اُٹھا لاؤں گا

تیرا ہر نقش اُتاروں گا چمن زاروں میں
مست خوشبو کو ہوائیں میں بسا لاؤں گا

ایک بادل سا اٹھاؤں گا تیرے کاجل سے
آسمانوں پہ تیرے رنگ سجا لاؤں گا


تونے چاہا تو ٹھہر جاؤں گا پل بھر کے لئے
اور پھر دورُ بہت دوُر چلا جاؤں گا ، ۔۔
 

تیشہ

محفلین
بھنور کی گود میں جیسے کنارہ ساتھ رہتا ہے
کچھ ایسے ہی تمھارا اور ہمارا ساتھ رہتا ہے

محبت ہو کہ نفرت ہو اُسی سے مشورہ ہوگا
میری ہر کفیت میں استخارہ ساتھ رہتا ہے

سفر میں عین ممکن ہے میں خود کو چھوڑ دوں لیکن
دُعائیں کرنے والوں کا سہارا ساتھ رہتا ہے

میرے مولا نے مجھکو چاہتوں کی سلطنت دے دی
مگر پہلی محبت کا خسارہ ساتھ رہتا ہے

اگر سید میرے لب پر محبت ہی محبت ہے
تو پھر یہ کس لیے نفرت کا دھارا میرے ساتھ رہتا ہے ۔ ،، ۔
 

تیشہ

محفلین
دیپک راگ ہے چاہت اپنی کاہے سنائیں تمھیں
ہم تو سُلگتے ہی رہتے ہیں کاہے سُلگائیں تمھیں

ترک ِ محبت تمنا کرچکنے کے بعد
ہم پہ یہ مشکل آن پڑی ہے کیسے بھلائیں تمھیں

دل کے زخم کا رنگ تو شاید آنکھوں میں بھر آئے
روح کے زخموں کی گہرائی کیسے دکھائیں تمھیں

درد ہماری محرومی کا تم تب جانو گے
جب کھانے آئے گی چُپ کی سائیں سائیں تمھیں
 

تیشہ

محفلین
آج بخت رسا نے حد کردی
یعنی تیری عطا نے حد کردی

تیری خوُشبو اُڑا کے لے آئی
آج باد ِصبا نے حد کردی

دشت میں آ گیا سمندر آج
ایک پیاسی صدا نے یہ حد کردی

سب ستارے بھی ہوگئے مدھم
آج اُس کی ضیا نے حد کردی

ہم نے اک بات کی جدائی کی
اور اس بے وفا نے حد کردی

تیری تصویر ، آنکھ میں پانی
درد ' چاہت ' وفا نے حد کردی

دُکھ سبھی کا تھا اُس کے شعروں مین
شاعر بے نوا نے حد کردی ، ۔۔ ،
 

حجاب

محفلین
بے سبب مسکرا رہا ہے چاند


کوئی سازش چھپا رہا ہے چاند


جانے کس کی گلی سے نکلا ہے


جھینپا جھینپا سا آرہا ہے چاند


کتنا غازہ لگایا ہے منہ پر


دُھول ہی دُھول اُڑا رہا ہے چاند


سُوکھی جامن کے پیڑ کے رستے


چھت ہی چھت پر سے جارہا ہے چاند


کیسا بیٹھا ہے چُھپ کے پتوں میں


باغباں کو ستارہا ہے چاند


سیدھا سادا اُفق سے نکلا تھا


سر پہ اب چڑھتا جا رہا ہے چاند


چھوکے دیکھا تو گرم تھا ماتھا


دُھوپ میں کھیلتا رہا ہے چاند

ِِِِِِِِِِِِِِِ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

حجاب

محفلین
کھو چکے ہیں جس کو وہ جاگیر لے کر کیا کریں


اک پرائے شخص کی تصویر لے کر کیا کریں


ہم زمیں زادے ستاروں سے ہمیں کیا واسطہ؟


دل میں ناحق خواہش تسخیر لے کر کیا کریں


عالموں سے زائچے بنوائیں کس اُمید پر


خواب ہی اچھے نہ تھے تعبیر لے کر کیا کریں


اعتبارِ حرف کافی ہے تسلی کیلے


پکے کاغذ پر کوئی تحریر لے کر کیا کریں


اپنا اک اسلوب ہے ‘اچھا برا جیسا بھی ہے


لہجہ غالب‘ زبان میر لے کر کیا کریں


شمع اپنی ہی بھلی لگتی ہے اپنے طاق پر


مانگے تانگے کی کوئی تنویر لے کر کیا کریں
؏؏؏؏؏؏؏؏؏؏؏؏؏؏؏؏؏؏؏؏؏؏؏؏؏؏؏؏؏
 
Top