ایک صبح کا ذکر ہے ۔ ۔ ۔ ۔

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
خواتین و حضرات! اگر آپ بھی اُن لوگوں میں سے ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ شاعری کا حقیقی اور اصل زندگی سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی شاعری کا عام آدمی کی زندگی پر کوئی اثر پڑتا ہے تو کچھ دیر کے لئے ٹھہریے اور میری کہانی سنتے جائیے۔ ہو سکتا ہے کہ آپ اپنی رائے بدلنے پر مجبور ہوجائیں۔

آج میرے دن کا آغاز عجیب طریقے سے ہوا۔ صبح تو اُسی طرح طلوع ہوئی کہ جیسے روز ہوتی ہے۔ مطلع بھی خوب روشن روشن تھا۔ طبیعت بھی خوش باش تھی۔ میں نے حسبِ عادت غسل خانے میں اپنے معمولات شروع کیے۔ گرم پانی سے غسل کے بعد آئینے کے روبرو کھڑے ہو کر تیار ہونا شروع کیا اور حسبِ عادت شاعری گنگنانا شروع کر دی۔ رات کو سونے سے پہلے انٹرنیٹ پر کچھ دیر ایک مزاحیہ مشاعرہ دیکھا تھا جس میں تقریباً ہر شاعر نے اپنے طنز و مزاح کا ہدف حسبِ معمول بیگم کی ذاتِ با برکات ہی کو بنایا تھا لیکن ایک شاعر کی نظم ٹی وی کی خرافات اور اس کی برائیوں کے خلاف بھی تھی۔ اُس نظم کا ایک مترنم مصرع "چلو آج ٹی وی کو ہم توڑ ڈالیں" شاید ابھی تک ذہن میں گونج رہا تھا اور بے فکری کے عالم میں نجانے کب اور کیسے خود بخود زبان پر آگیا۔ چنانچہ بال بناتے ہوئے مدھم سُروں میں لاشعوری طور پر اِسی مصرع کی گردان شروع ہو گئی۔ "چلو آج ٹی وی کو ہم توڑ ڈالیں یں یں یں ۔ ۔ ۔ مری جان ٹی وی کو ہم پھوڑ ڈالیں۔آ آ آ۔۔ ۔۔ اگر تم کہو تو ابھی توڑ ڈالیں ۔۔۔ آآآ ۔ ۔ ۔ صنم آج ٹی وی کا سر پھوڑ ڈالیں۔ ہمم م م آ آ آ آ۔"
میں خوشگوار موڈ میں بہت مگن ہو کر مختلف سُروں میں یہ فی البدیہہ مصرعے الٹ پلٹ کر گنگنائے جارہا تھا۔ سُروں کے اتار چڑھاؤ کے ساتھ ممکن ہے ایک آدھ ٹھمکا بھی سرزد ہوگیا ہو کہ اچانک مجھے یوں محسوس ہوا جیسے آئینے کے علاوہ کوئی اور بھی میری حرکات و سکنات کا بغور جائزہ لے رہا ہے۔ (میرے اس احساس کا ادراک شادی شدہ حضرات تو بخوبی کر سکتے ہیں لیکن چھڑے چھانٹ حضرات کو یہ بات قاضی صاحب کے دستِ مناکحت شعار پر بیعتِ ثلاثہ کے کئی سال بعد سمجھ میں آئے گی۔) میں نے فوراً بخارات آلود آئینے کو تولیہ سے رگڑ کر صاف کیا تو آئینے میں مجھے ایک کے بجائے دو صورتیں نظر آئیں۔ ایک تو وہی اِس خاکسار کی دُھلی دھلائی بشاش صورت کہ جس کے اوپر میرے دائیں ہاتھ میں ایک عدد کنگھا تِھرک رہا تھا اور اُس سے ذرا نیچے میرا منہ کچھ اِس طرح کی سہ جہتی حرکات میں مصروف تھا کہ جنہیں دیکھ کر استاد بڑے غلام علی خاں بھی عش عش کر اٹھیں۔ آئینے میں دوسری صورت بیگم کی تھی جس پر کچھ ایسے تاثرات نقش تھے کہ جنہیں بیان کرنا قلم کی استطاعت سے باہر ہے۔ عین اِسی لمحے مجھ پر دو مزید اور اہم انکشافات ہوئے۔ ایک تو یہ کہ "چلو آج ٹی وی کا سر پھاڑ دیں" والا مصرع ابھی تک زبان پر مسلسل رواں تھا اور دوسرا یہ کہ نجانے کب اور کس طرح سُروں کے اُتار چڑھاؤ کے دوران ٹی وی کا پہلا حرف دو قدم پیچھے جا کر حروفِ تہجی کے دوسرے حرف سے اپنی جگہ بدل چکا تھا۔ مصرع میں اس نازک تحریف کا احساس ہوتے ہی میرا کنگھا بدست بازو اور مصرع بلب منہ دونوں کے دونوں اُسی پوزیشن میں وہیں کے وہیں منجمد ہوگئے۔ میں ابھی اِن سنگین انکشافات کے ممکنہ نتائج کا جائزہ بھی نہ لے پایا تھا کہ بیگم نے آئینے میں مجھے گھورتے ہوئے نہایت ہی سکون آمیز مگر خشک لہجے میں سوال داغ دیا۔ " یہ صبح ہی صبح کس کی بیوی کی شان میں قصیدہ پڑھا جارہا ہے؟"
اپنی اس معصوم سی مترنم مشقِ سخن پر اس پیچیدہ سے تنقیدی حملے کے لئے میرے حواس بالکل تیار نہ تھے۔ چنانچہ یہ سوال سنتے ہی میں گڑبڑا گیا۔ دماغ میں بیک وقت کئی قسم کے جوابات نے ایک ساتھ کودنے کی کوشش کی۔ آخر یہ خیال غالب آیا کہ اپنے دفاع میں کچھ کہنے کے بجائے تعریف و تحسین سے کام لیا جائے۔ چنانچہ میں فورا ہی اُن کی طرف مڑا اور مسکرانے کی کوشش کی۔ بوکھلاہٹ کے اس عالم میں مصرع بہ لب منجمد منہ سے جو کچھ برآمد ہوا وہ کچھ اس طرح کا تھا۔ "بیگم! آپ۔۔۔ یعنی کمال کرتی ہیں آپ! یعنی ۔۔۔ یقین کیجئے آپ ہی کے بارے میں شاعری کر رہا تھا ۔۔۔" لیکن یہاں تک پہنچ کر احساس ہوا کہ یہ تو کچھ غلط ہو گیا۔ چنانچہ میں نے دورانِ جملہ ہی پینترا بدلنے کی کوشش کی اور اب کی بار جو کچھ اس دہانِ عاجز کلام سے نکلا اس پر خود مجھے بھی حیرت سی ہوئی۔ میں نے کہا " نہیں نہیں ۔۔۔ یہ میری شاعری تو نہیں ہے۔۔ یعنی ۔۔۔ یہ تو یعنی مرزا غالب کی شاعری ہے ۔۔۔ اوہو ، بھئی آپ سمجھا کریں، یہ تو شاعری کی مشق ہے۔ یعنی جیسے مرزا غالب کیا کرتے تھے ۔۔۔۔ "
بیگم نے میرا جملہ ختم ہونے سے پہلے ہی گرم استری کی طرح میرے لہجے کی لکنت اور تمام سلوٹیں دور کردیں۔ "ہاں ہاں ، میں خوب سمجھتی ہوں۔ اِس شعر و شاعری نے ہی تو آپ کا دماغ خراب کیا ہوا ہے۔ ہر وقت اسی میں ڈوبے رہتے ہیں آپ۔ میں اتنے دنوں سے دیکھ رہی ہوں۔ میرا ذرا بھی خیال نہیں آپ کو۔ ہر وقت نجانے کن خیالوں میں مگن رہتے ہیں۔"
یہ کہہ کر وہ زور سے پاؤں پٹختی ہوئی چلی گئیں۔ مجھے فورا ہی احساس ہوگیا کہ بہت گڑبڑ ہوگئی ہے۔ خجالت ، گھبراہٹ اور خوف کے ملے جلے احساسات نے جانِ ناتواں کو گھیر لیا۔ مصلحت تو کہتی تھی کہ دوڑ کر بیگم صاحبہ کو منایا جائے لیکن مصیبت یہ آن پڑی کہ دفتر کا وقت نکلا جارہا تھا۔ کچھ سمجھ میں نہ آیا کہ کیا کیا جائے۔ جلدی جلدی کپڑے بدل کر کچن کی طرف پہنچا تو دیکھا کہ بیگم صاحبہ اپنے دونوں ہاتھوں میں میرے لئے ناشتہ لئے کھڑی ہیں۔ مجھ پر شرم سےگھڑوں پانی پڑ گیا۔ دل ہی دل میں خود کو ملامت کرنا شروع کردی کہ اے نادان انسان! دیکھ اس بے غرض محبت کو۔ دیکھ! اسے کہتے ہیں ایثار اور قربانی! جا اور دوڑ کر لپٹ جا اِس وفا کی پُتلی سے!
اس سے پہلے کہ گھبرایا ہوا دماغ اس تجویز کو عملی جامہ پہنانے کے احکامات صادر کرتا اُس وفا کی پُتلی نے اپنے ایک پاؤں سے کوڑے دان کا ڈھکنا اٹھاتے ہوئے آملیٹ کی پلیٹ کو اُس میں اُلٹ دیا اور دوسرے ہاتھ میں تھاما ہوا چائے کا کپ بھی مجھے دکھا کر ایک زہریلی مسکراہٹ کے ساتھ سِنک میں انڈیل دیا۔ میں نے اس صورت حال کو خوش مزاجی کے ذریعے ڈی فیوز کرنے کی کوشش کی اور ایک شرمندہ سی مسکرا ہٹ سے کام لیتے ہوئے کہا۔"اچھا ہوا کہ آپ نے پھینک دیا۔ ویسے بھی روزانہ انڈا کھانا صحت کے لیے اچھا نہیں۔"
وہ بولیں"صحت کے لیے اچھا ہو یا برا ، میری بلا سے۔ میرا تو سر خود درد سے پھٹا جارہا ہے"۔ اور پھر ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے بولیں "بلکہ پھاڑا ۔ جا ۔رہا ۔ ہے۔" پھر بولیں۔" اور سنیے! میں کہے دیتی ہوں۔ آج گھر میں کھانا نہیں پکے گا۔ شام کو واپسی پر مرزا غالب کے ہاں سے کھاتے آئیے گا۔" یہ کہہ کر وہ اپنے کمرے میں چلی گئیں اور دھڑ سے دروازہ بند کر لیا۔
وہ تو چلی گئیں لیکن میرے گڑبڑائے ہوئے دماغ کو اِس الجھن نے گھیر لیا کہ یا الہٰی اب میرے کھانے پینے کا کیا ہوگا۔ ناشتہ تو چلو گیا لیکن کیا ڈِنر پر آج مرزا غالب کے ہاں جانا پڑے گا؟! در اصل حواس اس قدر گڑبڑا چکے تھے کہ حقیقت اور خیال میں تمیز مشکل ہورہی تھی۔ میں سوچنے لگا کہ غالب تو خود اپنے خطوط میں ہر وقت تنگ دستی کا رونا روتے رہتے ہیں۔ اورموصوف کو تو ویسے بھی کھانے سے زیادہ پینے کا شوق ہے۔ ان کے ہاں میں گیا بھی تو دعوت درکنار خود اپنے پلّے سے صابری نہاری اور اسٹوڈنٹ بریانی لے جا کر انہیں کھلانا پڑے گی۔ بلکہ اس کے بعد ان کے اشعار الگ سننا پڑیں گے۔ وہی موٹے موٹے فارسی الفاظ والےکہ گویم مشکل وگرنہ گویم مشکل۔ دماغ ابھی اِسی ادھیڑ بُن میں تھا اور میں گھر کادروازہ کھول کر دفتر کے لئے باہر نکل ہی رہا تھا کہ پیچھے سے کپڑوں کا ایک گٹھڑ ہوا میں اڑتا ہوا آیا اور دھپ سے میری کمر پر لگا۔ مڑ کر دیکھا تو میرے رات کے کپڑوں کا وہ ڈھیر تھا جو میں حسبِ عادت بیڈ روم کے فرش پر چھوڑ کر چلا آیا تھا۔ پیچھے سے بیگم کی آواز آئی۔ "اور ہاں واپسی پر اپنے یہ کپڑے بھی میر تقی میر کے ہاں سے دُھلواتے آئیے گا۔ میرا سر درد سے پھٹا جارہا ہے۔" اور پھر لفظ چبا چبا کر بولیں "بلکہ پھاڑا جارہا ہے۔"
یہ سن کر تو دماغ مزید گڑبڑا گیا۔ لیجیے۔ یک نہ شد دو شد۔ اب یہ کپڑے میں میر تقی میر سے کس طرح دھلواؤں گا۔ اُنہیں تو رونے دھونے سے فرصت نہیں وہ بھلا کپڑے دھونا کیا جانیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ میری اچھی بھلی قمیضوں کا ستیاناس مار دیں۔ اُن کی شاعری سے تو نہیں لگتا کہ موصوف کپڑے دھونے کے قائل بھی ہوں گے۔ لگتا ہے بس ایک لمبا سا چوغہ پہنے ادھر ادھر آوارہ گھومتے پھرتے ہوں گے۔ جب موڈ ہوا گریبان پھاڑ لیا ، جب جی چاہا دامن تار تار کردیا۔ اب اس پھٹے چوغے کو دھوتے کیا خاک ہوں گے۔ بس سال میں ایک آدھ دفعہ بدل لیا سو بدل لیا۔ بلکہ محلے والے اُن کی عریانی سے تنگ آکر خود ہی زبردستی بدل دیتے ہوں گے۔
انہی منتشر اور بے سروپا سوچوں میں غرق میں اپنے دفتر پہنچ گیا۔ جاتے ہی پہلا کام یہ کیا کہ سیکریٹری کو کہہ کر ایک گھنٹے کے لئے اپنی تمام مصروفیات مؤخر کروائیں اور کرسی پر بیٹھتے ہی ماجد صاحب کو فون گھما دیا۔ وہ بولے ۔"خیریت تو ہے اتنی صبح صبح کیسے فون کرلیا؟" میں نے کہا۔" خیریت کہاں۔ بیگم سخت ناراض ہوگئی ہیں۔ میرا حقّہ پانی بند کرنے پر تُلی ہیں"۔
وہ بولے۔ "تو ڈر کس بات کا ہے۔ حقہ تو تم ویسے بھی نہیں پیتے۔ بس نمائش کیلئے ڈرائنگ روم میں سجا رکھا ہے۔ اور پانی کی بھی خیر ہے۔ کوک اور پیپسی پر گزارا کرلینا۔"
میں نے کہا۔" مذاق چھوڑو۔ معاملہ اس دفعہ گمبھیر ہے۔" اور پھر انہیں پورا ماجرا سنایا۔
سن کر کہا۔ "تو مجھے کاہے کو فون کیا ہے۔ تمہارا تو دماغ خراب ہوگیا ہے۔ ارشد قدوسی کو فون کرو۔ دماغی امراض کے ماہر تو وہی ہیں۔"
میں نے ذرا گھگھیا کر مدد کی درخواست کی اور بچپن کی دوستی کا واسطہ دیا تو ذرا ڈھیلے پڑ ے۔ کچھ دیر تک خوب ڈانٹتے رہے۔ پھر بولے کہ "بالکل ہی گھامڑ ہیں آپ۔ دوسری جگہ کی بات اور ہے لیکن اپنے ہی گھر کے غسل خانے میں اس طرح کے شعر کون گنگناتا ہے- " پھر کہا کہ اس وقت تو میں بھی دفتر کے لئے نکل رہا ہوں۔ لنچ بریک میں تفصیلی بات ہوگی۔ میں نے خدا حافظ کہہ کر فون بند کردیا۔ اس کے بعد چند منٹ تک صبح سے ہونے والے تمام واقعات اور اپنے دل و دماغ پر گزرنے والی تمام کیفیات کا ایک تفصیلی جائزہ لیا۔ پھر میں نے احتیاطاً ارشد قدوسی کو بھی فون ملا ہی دیا۔ ارشد قدوسی ہمارے پرانے احباب میں سے ہیں۔ ماہرِ نفسیات ہیں۔ دماغی امراض کے ہسپتال میں کام کرتے ہیں اور بقول شخصے کھسکے ہوؤں کو علاج معالجے کے بہانے اپنی باتوں سے بہلاتے پُھسلاتے ہیں۔ لیکن کچھ دنوں سے خود اُن کے بارے میں بھی طرح طرح کی باتیں حلقۂ احباب میں گردش کررہی تھیں۔ یہ بھی سننے میں آیا کہ ان کے ساتھ ہر کہ در کانِ نمک رفت ، نمک شود والا معاملہ ہو چکا ہے۔
میں نے ہیلو کہا تو وہ چہکے ۔"اخاہ! ظہیر صاحب ہیں۔ مزاج بخیر! میں تو دفتر جانے کے لئے کپڑے بدل رہا ہوں۔ آپ کیا کر رہے ہیں؟"
میں نے کہا ۔"حضور آپ سے فون پر بات کررہا ہوں۔"
یہ سن کر وہ بلند آواز میں قہقہہ مار کر ہنسے۔ قہقہے کے درمیان فون پر دھڑام سے کچھ گرنے کی آواز آئی اور پھر ایک منٹ تک خاموشی چھا گئی۔ میں نے پوچھا ۔"خیریت تو ہے یہ آواز کیسی تھی؟"
بولے ۔"کچھ نہیں۔ پاجامہ فرش پر گر پڑا تھا۔"
میں نے کہا " یا حیرت! کیا آپ زرہ بکتر پہن کر اسپتال جاتے ہیں؟ "
کہنے لگے۔" یہ بات نہیں۔ دراصل میں پاجامے سے ایک ٹانگ نکالنا بھول گیا تھا۔"
اس کے بعد پھر زور سے ایک قہقہہ لگایا اور کہا۔"پاجامے کی ایسی تیسی۔ آپ سنائیے سب خیریت ہے نا؟"
یہ صورتحال دیکھ کر مجھے ان کے بارے میں پھیلے ہوئے شبہات پر یقین کا شائبہ سا ہونے لگا۔ میں نے مناسب جانا کہ فی الحال انہیں تنگ نہ کیا جائے اور لنچ بریک تک ماجد صاحب کے مشورے کا انتظار کر لیا جائے۔ چنانچہ میں نے یہ کہہ کر فون بند کردیا کہ بہت دنوں سے آپ کا فون نہیں آیا تھا۔میں نے بس آپ کو اپنی خیریت بتانے کے لئے فون کیا تھا۔
اس کے بعد کے تین چار گھنٹے جیسے تیسے کرکے گزرے۔ کھانے کا وقفہ ہوتے ہی ماجد صاحب کا فون آگیا۔" مجھے پتہ تھا تمہارے پیٹ میں ہول اٹھ رہے ہوں گے سو میں نے ہی فون کرلیا۔"
میں نے چھوٹتے ہی کہا۔" کوئی مشورہ دیجئے۔ اب کیا کروں؟"کہنے لگے ۔"آ پ نے وہ واقعہ تو سنا ہی ہوگا کہ ایک شخص کی بھینس بیمار ہوگئی تو اپنے دوست سے پوچھا۔ پارسال تمہاری بھینس بیمار ہوئی تھی تو اُسے کیا دیا تھا؟ دوست نے جڑی بوٹیوں کا ایک نسخہ نکال کر تھما دیا۔ اگلے روز اس نےجاکر شکایت کی کہ بھینس تو دوا کھاتے ہی مر گئی۔ دوست بولا کہ یار بھینس تو میری بھی مر گئی تھی۔" پھر ایک لمبا سا سانس لے کر بولے۔ "مشورہ تو میں دے دوں مگر ذمہ داری سراسر تمہاری ہے۔"
میں نے عرض کیا ۔"کچھ تو خوفِ خدا کرو۔ بیگم اور بھینس کا آپس میں بھلا کیا تعلق؟"
کہنے لگے ۔"میں تو تمہیں ممکنہ نقصانات کا تخمینہ دینے کی کوشش کررہا ہوں۔ بخدا آج کل جتنے پیسوں میں ایک اچھی دودھ دینے والی بھینس آتی ہے اتنے میں گاؤں کے لوگ دو دفعہ عقدِ ثانی کرلیتے ہیں۔"
یہ سن کر میری ہمت کچھ ٹوٹ سی گئی۔ ڈرتے ڈرتے پوچھا کہ اس صورتحال کا حل کیا ہے؟ کہنے لگے۔" حل وَل کچھ نہیں۔ بس شام کو ایک عدد گلدستہ اور چاکلیٹ کا بڑا سا ڈبّہ گھر لیتے جانا۔ شکل صورت بس ویسی ہی مسکین سی بنائے رکھنا کہ جیسی تمہاری ہوتی ہے۔ باقی اللہ خیر کرے گا۔"
میں نے پوچھا کہ یہ نسخہ آزمودہ ہے؟ بولے۔" پچھلے سال جب تمہاری بھابی میرے راتوں کو دیر تک شطرنج کھیلنے پر ناراض ہوئی تھیں تو میں نے یہی کیا تھا۔ چاکلیٹ کا ڈبہ کھولتے ہی ان کی ساری ناراضگی ایکدم دور ہو گئی تھی۔"
میں نے کہا ۔ "لیکن تمہاری بھابی کو تو چاکلیٹ کچھ اتنے زیادہ پسند نہیں۔"
جھٹ سے بولے۔" چاکلیٹ تو میری بیگم کو بھی پسند نہیں۔ لیکن چاکلیٹ کے ڈبے سے برآمد ہونے والے سونے کے نیکلس کو فوراً خوشی خوشی پہن لیا۔ چاکلیٹ کو تو ہاتھ بھی نہیں لگایا۔"
" اچھا تو یہ بات ہے! "۔ میں نے کہا۔
" جی ہاں ، یہی بات ہے۔" پھر آواز کو ذرا بھاری بناتے ہوئے گمبھیر سے بزرگانہ لہجے میں بولے۔ "میاں! خوشگوار ازدواجی زندگی کا راز یہ ہے کہ مرد اپنی ہر غلطی پر سونے کا پانی پھیرتا جائے۔"
میں نے عرض کیا۔ "یا پیر و مرشد! جتنی غلطیاں مجھ سے ہوتی ہیں اس کے لئے تو آبِ زر کا ایک دریا چاہیے۔ وہ میں کہاں سے لاؤں گا؟" جواب میں کہنے لگے۔ "تو آپ اپنی مالی حیثیت کے مطابق غلطیاں کیوں نہیں کرتے۔ اب شعر پڑھ ہی دیا ہے تو داد بھی بھگتنا پڑے گی۔ اور تمہارا مصرع تو ایک نیکلس سے معاف ہونے والا ہے بھی نہیں۔ ساتھ میں کم از کم انگوٹھی یا بُندے وغیرہ بھی ہونے چاہئیں۔ اور ہاں گلدستے کےساتھ ایک عدد رنگ برنگی پھولوں والا کارڈ بھی شامل کرو۔ اس میں شاعری سے توبہ کرنے اور مستقبل میں بیگم کی ہر بات بے چون و چرا ماننے کا عہد واضح انداز میں صاف صاف لکھو۔ اور آخر میں آئی لَو یُو لکھنا مت بھولنا۔"
میں نے کہا۔ "یہ لکھنا وِکھنا تو کوئی بڑی بات نہیں۔ بلکہ یوں کرتا ہوں کہ ایک خوبصورت سا کارڈ لے کر اس پر ابھی ایک نظم لکھ ڈالتا ہوں۔ نظم نثر سے زیادہ مؤثر ہوتی ہے۔" دوسری طرف چند لمحوں کے لئے خاموشی سی چھا گئی۔ مجھے یوں لگا جیسے فون کے دوسری طرف سے ماجد صاحب نے مجھے گھور کر دیکھا ہو۔ پھر اُن کی آواز آئی ۔" میں تو پھر یہی کہوں گا کہ تم ایک دفعہ ارشد قدوسی کو دکھا ہی لو۔ اماں! کیا بالکل ہی گھاس چَر گئے ہو۔ یعنی شاعری سے توبہ کرنے کا عہد نامہ آپ منظوم صورت میں لکھ کر دیں گے؟!" میں ذرا خفیف سا ہوگیا اور کہا۔ "ہاں یہ تو کچھ ٹھیک نہیں لگے گا۔ خیر، جیسا آپ کہتے ہیں ویسا ہی کرتا ہوں۔" کہنے لگے۔" بس کام ختم کرتے ہی اٹھ کر شاپنگ مال کو روانہ ہوجاؤ۔ اللہ بیلی اور گڈ لک!"

تو صاحبو یہ تھی میری آج کی کہانی! شاپنگ مال کے بعد والے واقعات کچھ ایسے گفتنی نہیں ہیں۔ بس یوں سمجھ لیجیے کہ ظہیرصاحب اپنی قمیضوں سمیت اس دفعہ بال بال بچ گئے۔ اگرچہ اِس وقت مورال کچھ ڈاؤن ہے اور خودی گویا زمین پر لیٹی ہوئی ہے لیکن یہ صورت حال خود فدوی کے باہر فرش پر لیٹنے سےکہیں بہتر ہے۔ نیز یہ کہ شام کو کھانے کے بعد بھاری بھرکم فارسی زدہ اشعار بھی نہیں سننے پڑے۔ اور امید ہے کہ صبح دھلی دھلائی استری شدہ ثابت و سالم قمیض بھی پہننے کو مل جائے گی۔
اب خاصی سوچ بچار کے بعد یہ فیصلہ کیا ہے کہ آئندہ سے مزاحیہ شاعری سننا بند کردی جائے کہ وہ اکثر و بیشتر بیگمات کے حق میں نہیں ہوتی۔ نیز یہ کہ غسل خانے میں گنگنانے کے لیے بے ضرر اشعار کی ایک فہرست پہلے ہی سے بنا کر رکھ لی جائے تاکہ صبح صبح عالمِ سرخوشی میں لاشعور کو کسی شرپسندی کا موقع نہ مل سکے۔ کل صبح کے لیے "رب کا شکر ادا کر بھائی ۔ جس نے ہماری گائے بنائی" منتخب کیا ہے۔ پرسوں صبح "گرچہ چھوٹی ہے ذات بکری کی , دل کو لگتی ہے بات بکری کی" گنگنانے کا پروگرام طے ہے۔ اگر قارئین میں سے کوئی مہربان علامہ اقبال کی "ٹہنی پہ کسی شجر کی تنہا " والی پوری نظم پوسٹ کر سکے تو بھلا ہوگا۔ میرا ایک مہینے کا سامان ہو جائے گا۔ اللہ آپ کی صبحیں بے مثال رکھے!
 
آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
احبابِ کرام! یہ ایک بہت پرانی تحریر کاغذات سے برآمد ہوئی تو اس کی کچھ نوک پلک درست کرکے آپ کی خدمت میں پیش کررہاہوں۔محفل میں کچھ مسکراہٹیں اور ہنسی بکھیرنا اور فضا کو تبدیل کرنامقصود ہے ۔ اگر آپ یہ تحریر پڑھ کے اس وقت مسکرارہے ہیں تو سمجھیے کہ میرا مقصد پورا ہوا۔ :):):)
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
سب سے پہلے تو۔۔۔ بات یہ کہ مزا آگیا۔۔۔ ایسی خوبصورت اور شگفتہ نثر۔۔۔ بیویات کے حوالے۔۔۔۔ کمال۔۔۔۔ ہنس رہا ہوں ۔۔۔ اور بےاختیار ہنس رہا ہوں۔۔۔۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ کن اکھیوں سے بیگم کو بھی دیکھ رہا ہوں کہ کہیں وہ تو نہیں دیکھ رہی۔۔۔ یعنی بقول پیر بےوزنے خان۔۔۔۔ ۔
بیوی دیکھ رہا ہے وہ ظہیر کی نثر پڑھتے ہوئے
یہ بھی دیکھ رہا ہے بیوی دیکھ نہ رہی ہو۔۔۔۔

لیکن ایک شاعر کی نظم ٹی وی کی خرافات اور اس کی برائیوں کے خلاف بھی تھی۔
یہ کون ظالم نکلا۔۔۔۔ اللہ بچائے ایسے شعرا سے۔۔۔

(میرے اس احساس کا ادراک شادی شدہ حضرات تو بخوبی کر سکتے ہیں لیکن چھڑے چھانٹ حضرات کو یہ بات قاضی صاحب کے دستِ مناکحت شعار پر بیعتِ ثلاثہ کے کئی سال بعد سمجھ میں آئے گی۔)
ہاہاہاہاہاہاہا۔۔۔۔ ہوہوہوہوہوہوہوہو۔۔۔۔۔

عین اِسی لمحے مجھ پر دو مزید اور اہم انکشافات ہوئے۔ ایک تو یہ کہ "چلو آج ٹی وی کا سر پھاڑ دیں" والا مصرع ابھی تک زبان پر مسلسل رواں تھا اور دوسرا یہ کہ نجانے کب اور کس طرح سُروں کے اُتار چڑھاؤ کے دوران ٹی وی کا پہلا حرف دو قدم پیچھے جا کر حروفِ تہجی کے دوسرے حرف سے اپنی جگہ بدل چکا تھا۔ مصرع میں اس نازک تحریف کا احساس ہوتے ہی میرا کنگھا بدست بازو اور مصرع بلب منہ دونوں کے دونوں اُسی پوزیشن میں وہیں کے وہیں منجمد ہوگئے۔
ظالم شراب ہے ارے ظالم شراب ہے۔۔۔۔

اپنی اس معصوم سی مترنم مشقِ سخن پر اس پیچیدہ سے تنقیدی حملے کے لئے میرے حواس بالکل تیار نہ تھے۔ چنانچہ یہ سوال سنتے ہی میں گڑبڑا گیا۔ دماغ میں بیک وقت کئی قسم کے جوابات نے ایک ساتھ کودنے کی کوشش کی۔ آخر یہ خیال غالب آیا کہ اپنے دفاع میں کچھ کہنے کے بجائے تعریف و تحسین سے کام لیا جائے۔ چنانچہ میں فورا ہی اُن کی طرف مڑا اور مسکرانے کی کوشش کی۔ بوکھلاہٹ کے اس عالم میں مصرع بہ لب منجمد منہ سے جو کچھ برآمد ہوا وہ کچھ اس طرح کا تھا۔ "بیگم! آپ۔۔۔ یعنی کمال کرتی ہیں آپ! یعنی ۔۔۔ یقین کیجئے آپ ہی کے بارے میں شاعری کر رہا تھا ۔۔۔" لیکن یہاں تک پہنچ کر احساس ہوا کہ یہ تو کچھ غلط ہو گیا۔ چنانچہ میں نے دورانِ جملہ ہی پینترا بدلنے کی کوشش کی اور اب کی بار جو کچھ اس دہانِ عاجز کلام سے نکلا اس پر خود مجھے بھی حیرت سی ہوئی۔ میں نے کہا " نہیں نہیں ۔۔۔ یہ میری شاعری تو نہیں ہے۔۔ یعنی ۔۔۔ یہ تو یعنی مرزا غالب کی شاعری ہے ۔۔۔ اوہو ، بھئی آپ سمجھا کریں، یہ تو شاعری کی مشق ہے۔ یعنی جیسے مرزا غالب کیا کرتے تھے ۔۔۔۔ "
ہوہوہوہوہہوووو۔۔۔ منظر کشی کی اخیر کر دی ہے۔۔۔۔ کیا بات ہے۔۔۔۔

بیگم نے میرا جملہ ختم ہونے سے پہلے ہی گرم استری کی طرح میرے لہجے کی لکنت اور تمام سلوٹیں دور کردیں۔ "ہاں ہاں ، میں خوب سمجھتی ہوں۔ اِس شعر و شاعری نے ہی تو آپ کا دماغ خراب کیا ہوا ہے۔ ہر وقت اسی میں ڈوبے رہتے ہیں آپ۔ میں اتنے دنوں سے دیکھ رہی ہوں۔ میرا ذرا بھی خیال نہیں آپ کو۔ ہر وقت نجانے کن خیالوں میں مگن رہتے ہیں۔"
بھابھی نے انتہائی غیر متشدد طبع پائی ہے۔۔۔۔ یا آپ نے دانستہ گھونسوں مکوں کا قصہ نکال پھینکا ہے۔۔۔

اُس وفا کی پُتلی نے اپنے ایک پاؤں سے کوڑے دان کا ڈھکنا اٹھاتے ہوئے آملیٹ کی پلیٹ کو اُس میں اُلٹ دیا اور دوسرے ہاتھ میں تھاما ہوا چائے کا کپ بھی مجھے دکھا کر ایک زہریلی مسکراہٹ کے ساتھ سِنک میں انڈیل دیا۔ میں نے اس صورت حال کو خوش مزاجی کے ذریعے ڈی فیوز کرنے کی کوشش کی اور ایک شرمندہ سی مسکرا ہٹ سے کام لیتے ہوئے کہا۔"اچھا ہوا کہ آپ نے پھینک دیا۔ ویسے بھی روزانہ انڈا کھانا صحت کے لیے اچھا نہیں۔"
ہوہوہوہوہوہوو۔۔۔۔ چشم تصور سے آپ کی شکل پر بدلتے تاثرات دیکھے۔۔۔۔ یہ جو پتھر ہے ڈاکٹر تھا کبھی۔۔۔ اس کو کہتے ہیں شوہر میاں۔۔۔۔ وہ کیا تھا۔۔۔ ایسا کوئی شعر تھا بھلا سا۔۔۔۔۔

اور ہاں واپسی پر اپنے یہ کپڑے بھی میر تقی میر کے ہاں سے دُھلواتے آئیے گا۔
اس جملے نے اپنے سیاق و سباق میں ایسا لطف دیا ہے کہ ساری عمر ذہن سے نہیں جانے والا۔۔۔۔۔ ظالم۔۔۔۔

اب اس پھٹے چوغے کو دھوتے کیا خاک ہوں گے۔ بس سال میں ایک آدھ دفعہ بدل لیا سو بدل لیا۔ بلکہ محلے والے اُن کی عریانی سے تنگ آکر خود ہی زبردستی بدل دیتے ہوں گے
اور آپ کی میر بیانی۔۔۔۔ اللہ اللہ ۔۔۔۔

"میاں! خوشگوار ازدواجی زندگی کا راز یہ ہے کہ مرد اپنی ہر غلطی پر سونے کا پانی پھیرتا جائے۔"
بہت مہنگا مداوا ہے۔۔۔۔۔ سچی بات ویسے یہی ہے۔۔۔۔ پیر کے جا کرچادر چڑھائی سے بھی یہ معاملات حل نہیں ہوتے۔۔۔

آپ اپنی مالی حیثیت کے مطابق غلطیاں کیوں نہیں کرتے۔
کیا ظالم رائے ہے۔۔۔۔ خوبصورت۔۔۔

کل صبح کے لیے "رب کا شکر ادا کر بھائی ۔ جس نے ہماری گائے بنائی" منتخب کیا ہے۔ پرسوں صبح "گرچہ چھوٹی ہے ذات بکری کی , دل کو لگتی ہے بات بکری کی" گنگنانے کا پروگرام طے ہے۔ اگر قارئین میں سے کوئی مہربان علامہ اقبال کی "ٹہنی پہ کسی شجر کی تنہا " والی پوری نظم پوسٹ کر سکے تو بھلا ہوگا۔ میرا ایک مہینے کا سامان ہو جائے گا۔ اللہ آپ کی صبحیں بے مثال رکھے!
ہوہوہہوہوہوو۔۔۔ مجھے ڈر ہے کہ ان تمام نظموں پر آپ باقاعدہ پٹنے والے ہیں۔۔۔ بالخصوص گائے۔۔۔۔ اور بکری پر۔۔۔۔۔ اور بلبل والی نظم پر تو بلبل تنہا ہی رہ جائے گا۔۔۔۔ رہے نام مولا کا۔۔۔

ظہیر بھائی! آپ کا جتنا شکریہ ادا کروں کم ہے۔۔۔۔ بخدا میں ایسی خوبصورت اور شگفتہ نثر کے لیے کب سے ترس رہا تھا۔۔۔۔۔
 
بلکہ سچ تو یہ ہے کہ کن اکھیوں سے بیگم کو بھی دیکھ رہا ہوں کہ کہیں وہ تو نہیں دیکھ رہی
اور یہاں ایک بیگم اس تحریرکے دوران کینہ توز نظروں سےاپنے شوہر نامدار کو دیکھ رہی ہیں اور سوچ رہی ہیں کہ بس چند سطور اور پڑھ لو ں پھر جنگ کے بگل۔۔۔۔۔یعنی جرم آدم نے کیا اور نسل آدم کو سزا وغیرہ وغیرہ! :laughing:
 

محمداحمد

لائبریرین
خوبصورت ! خوبصورت !

اور مزے دار مزےدار (بقول اپنے محمد خلیل الرحمٰن بھائی) :)

بہت لطف آیا۔ ظہیر بھائی! کافی دیر تک ہنستا رہا۔ :) :) :)

آپ کی نثر تو ویسے بھی ایسی ہوتی ہے کہ اس کے بعد کچھ اور پڑھنے کی حسرت نہیں رہتی۔ اور یہ "آپ بیتی" تو آپ نے بہت ہی دلچسپ انداز میں لکھی ہے۔

وہ شاعر کہتا ہے نا:

یہ درد کے ٹکڑے ہیں، اشعار نہیں ساغر
ہم کانچ کے دھاگوں میں زخموں کو پروتے ہیں۔

اشعار کو فکاہیہ مضامین سے بدلا جا سکتا ہے، البتہ اس کو وزن میں لانے کا کام صاحبِ تحریر کے علاوہ تو شاید ہی کوئی کرے۔ :) :) :)
 

محمداحمد

لائبریرین
اس تحریر کا عنوان ہے "ایک صبح کا ذکر ہے"۔

مجھے یہ لگتا ہے کہ افتخار عارف صاحب نے آپ ہی کو متنبہ کیا تھا۔

صبح سویرے رن پڑنا ہے اور گھمسان کا رن
راتوں رات چلا جائے وہ جس کو جانا ہے

افتخار عارف
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بلکہ سچ تو یہ ہے کہ کن اکھیوں سے بیگم کو بھی دیکھ رہا ہوں کہ کہیں وہ تو نہیں دیکھ رہی۔
آپ کو یہ گمان بھی کیسے گزرا کہ وہ دیکھ نہیں رہیں ؟! ۔۔۔۔ آپ جیسے نادان شوہروں کی وجہ سے ہی اس قسم کی غلط فہمیاں پھیلتی ہیں اور کئی سادہ لوگ مارے جاتے ہیں۔
آپ کے خیال میں cctv کی ایجاد کا خیال کہاں سے لیا گیا تھا؟

یہ کون ظالم نکلا۔۔۔۔ اللہ بچائے ایسے شعرا سے۔۔۔
ان کی مزاحیہ شاعری کا موضوع بتارہا ہے کہ یہ شاعر غیر شادی شدہ تھا۔

بھابھی نے انتہائی غیر متشدد طبع پائی ہے۔۔۔۔ یا آپ نے دانستہ گھونسوں مکوں کا قصہ نکال پھینکا ہے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔ کوئی چارہ ساز ہوتا ، کوئی غمگسار ہوتا
یہ جو پتھر ہے ڈاکٹر تھا کبھی۔۔۔ اس کو کہتے ہیں شوہر میاں
ہاہاہاہا۔۔۔۔۔
ظہیر بھائی! آپ کا جتنا شکریہ ادا کروں کم ہے۔۔۔۔ بخدا میں ایسی خوبصورت اور شگفتہ نثر کے لیے کب سے ترس رہا تھا۔۔۔۔۔
شکریہ آپ کا ۔ نہ صرف اتنی لمبی تحریر پڑھی بلکہ مفصل تبصرہ بھی لکھا۔🙏
نین بھائی ، تین چار اور مضامین ہیں زنبیل میں لیکن طوالت کی وجہ سے انہیں نکالتے ہوئے ڈر لگتا ہے ۔ میری رائے میں فیس بک اور دیگرسوشل میڈیا نے ایک اور ظلم جو کیا ہے وہ یہ کہ اکثر قارئین کو مختصر تحریروں کی عادت ڈال دی ہے۔ کہاں تو لوگ کئی کئ صفحات کے مضمون بلکہ پوری پوری کتاب ایک نشست میں پڑھ ڈالتے تھے اب توجہ کا دورانیہ چند منٹوں تک محدود ہوگیا ہے۔ اس کی ایک وجہ لوگوں کی مصروفیت بھی ہے شاید
آپ کی محبت اور توجہ کے لیے سراپا سپاس ہوں۔ اللہ کریم شاد و آباد رکھے!
 
اکثر قارئین کو مختصر تحریروں کی عادت ڈال دی ہے۔ کہاں تو لوگ کئی کئ صفحات کے مضمون بلکہ پوری پوری کتاب ایک نشست میں پڑھ ڈالتے تھے اب توجہ کا دورانیہ چند منٹوں تک محدود ہوگیا ہے۔
ایسا ذہن رکھتے ہی نہیں جو آپ کی تحریروں پہ توجہ کا دورانیہ کم کر دے!
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
زبردست 😁

سچ سچ بتائیں کہیں کل کا واقعہ تو نہیں؟ اور اگر پرانی تحریر ہے تو وجۂ برآمدگی بھی بیان کریں
بات تو بہت پرانی ہے لیکن کل کا سا واقعہ لگتی ہے۔ :D

اس مضمون کے برآمد ہونے کی وجہ اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کہ محفل بند ہونے والی ہے۔ کچھ مضامین کو پوسٹ کرنے کا ارادہ تو بہت عرصے سے تھا لیکن کاہلی کی وجہ سے نوک پلک درست کرنے کا کام ٹلتا رہا۔ اب سوچا ہے کہ محفل بند ہونے سے پہلے پہلے پوسٹ کر ہی دوں۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
اور یہاں ایک بیگم اس تحریرکے دوران کینہ توز نظروں سےاپنے شوہر نامدار کو دیکھ رہی ہیں اور سوچ رہی ہیں کہ بس چند سطور اور پڑھ لو ں پھر جنگ کے بگل۔۔۔۔۔یعنی جرم آدم نے کیا اور نسل آدم کو سزا وغیرہ وغیرہ! :laughing:
:):):)
اللہ کریم آپ کی جنت کو شاد و آباد رکھے! پھلیں پھولیں ، اللہ کی رحمتیں اور برکتیں نصیب ہوں۔ آمین
 
:):):)
اللہ کریم آپ کی جنت کو شاد و آباد رکھے! پھلیں پھولیں ، اللہ کی رحمتیں اور برکتیں نصیب ہوں۔ آمین
آمین ثم آمین! :redheart:
بہت بہت مبارک ہو ، مریم بٹیا! اللہ کریم ساتھ سلامت رکھے!
یہ کس لڑی /لڑائی کا قصہ ہے کہ جس کا چرچا زیک تک نہیں پہنچا؟ :)
خیر مبارک اور یہ محفل کی اختتامی تقریب کے لیے جاسمن بجو کی طرف سے شروع کی جانے والی وہی لڑی تھی جس میں ہمارے مراسلے کے کچھ ہی دیر بعد گھمسان کا رن پڑا تھا تاہم زیک کے آنے سے پہلے پہلے سیز فائر کروا دیا گیا۔ :) :)
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
آپ کی نثر تو ویسے بھی ایسی ہوتی ہے کہ اس کے بعد کچھ اور پڑھنے کی حسرت نہیں رہتی۔ اور یہ "آپ بیتی" تو آپ نے بہت ہی دلچسپ انداز میں لکھی ہے۔
بہت شکریہ، احمد بھائی ۔ بہت نوازش! آپ اور ذوالقرنین جیسے شگفتہ نگاروں کی جانب سے پذیرائی میرے لیے اعزاز کی بات ہے ۔ اللہ کریم خوش رکھے۔
آپ تو آپ بیتی کہہ رہے ہیں لیکن ایک دوست کو بہت پہلے پڑھوایا تھا یہ مضمون تو ٹھنڈی سانس بھر کر بولا کہ گھر گھر کی کہانی ہے۔ :D

اس تحریر کا عنوان ہے "ایک صبح کا ذکر ہے"۔

مجھے یہ لگتا ہے کہ افتخار عارف صاحب نے آپ ہی کو متنبہ کیا تھا۔

صبح سویرے رن پڑنا ہے اور گھمسان کا رن
راتوں رات چلا جائے وہ جس کو جانا ہے
ہا ہاہاہاہا ۔۔۔۔
احمد کو اندھیرے میں بہت دور کی سوجھی :D
 

یاز

محفلین
خواتین و حضرات! اگر آپ بھی اُن لوگوں میں سے ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ شاعری کا حقیقی اور اصل زندگی سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی شاعری کا عام آدمی کی زندگی پر کوئی اثر پڑتا ہے تو کچھ دیر کے لئے ٹھہریے اور میری کہانی سنتے جائیے۔ ہو سکتا ہے کہ آپ اپنی رائے بدلنے پر مجبور ہوجائیں۔

آج میرے دن کا آغاز عجیب طریقے سے ہوا۔ صبح تو اُسی طرح طلوع ہوئی کہ جیسے روز ہوتی ہے۔ مطلع بھی خوب روشن روشن تھا۔ طبیعت بھی خوش باش تھی۔ میں نے حسبِ عادت غسل خانے میں اپنے معمولات شروع کیے۔ گرم پانی سے غسل کے بعد آئینے کے روبرو کھڑے ہو کر تیار ہونا شروع کیا اور حسبِ عادت شاعری گنگنانا شروع کر دی۔ رات کو سونے سے پہلے انٹرنیٹ پر کچھ دیر ایک مزاحیہ مشاعرہ دیکھا تھا جس میں تقریباً ہر شاعر نے اپنے طنز و مزاح کا ہدف حسبِ معمول بیگم کی ذاتِ با برکات ہی کو بنایا تھا لیکن ایک شاعر کی نظم ٹی وی کی خرافات اور اس کی برائیوں کے خلاف بھی تھی۔ اُس نظم کا ایک مترنم مصرع "چلو آج ٹی وی کو ہم توڑ ڈالیں" شاید ابھی تک ذہن میں گونج رہا تھا اور بے فکری کے عالم میں نجانے کب اور کیسے خود بخود زبان پر آگیا۔ چنانچہ بال بناتے ہوئے مدھم سُروں میں لاشعوری طور پر اِسی مصرع کی گردان شروع ہو گئی۔ "چلو آج ٹی وی کو ہم توڑ ڈالیں یں یں یں ۔ ۔ ۔ مری جان ٹی وی کو ہم پھوڑ ڈالیں۔آ آ آ۔۔ ۔۔ اگر تم کہو تو ابھی توڑ ڈالیں ۔۔۔ آآآ ۔ ۔ ۔ صنم آج ٹی وی کا سر پھوڑ ڈالیں۔ ہمم م م آ آ آ آ۔"
میں خوشگوار موڈ میں بہت مگن ہو کر مختلف سُروں میں یہ فی البدیہہ مصرعے الٹ پلٹ کر گنگنائے جارہا تھا۔ سُروں کے اتار چڑھاؤ کے ساتھ ممکن ہے ایک آدھ ٹھمکا بھی سرزد ہوگیا ہو کہ اچانک مجھے یوں محسوس ہوا جیسے آئینے کے علاوہ کوئی اور بھی میری حرکات و سکنات کا بغور جائزہ لے رہا ہے۔ (میرے اس احساس کا ادراک شادی شدہ حضرات تو بخوبی کر سکتے ہیں لیکن چھڑے چھانٹ حضرات کو یہ بات قاضی صاحب کے دستِ مناکحت شعار پر بیعتِ ثلاثہ کے کئی سال بعد سمجھ میں آئے گی۔) میں نے فوراً بخارات آلود آئینے کو تولیہ سے رگڑ کر صاف کیا تو آئینے میں مجھے ایک کے بجائے دو صورتیں نظر آئیں۔ ایک تو وہی اِس خاکسار کی دُھلی دھلائی بشاش صورت کہ جس کے اوپر میرے دائیں ہاتھ میں ایک عدد کنگھا تِھرک رہا تھا اور اُس سے ذرا نیچے میرا منہ کچھ اِس طرح کی سہ جہتی حرکات میں مصروف تھا کہ جنہیں دیکھ کر استاد بڑے غلام علی خاں بھی عش عش کر اٹھیں۔ آئینے میں دوسری صورت بیگم کی تھی جس پر کچھ ایسے تاثرات نقش تھے کہ جنہیں بیان کرنا قلم کی استطاعت سے باہر ہے۔ عین اِسی لمحے مجھ پر دو مزید اور اہم انکشافات ہوئے۔ ایک تو یہ کہ "چلو آج ٹی وی کا سر پھاڑ دیں" والا مصرع ابھی تک زبان پر مسلسل رواں تھا اور دوسرا یہ کہ نجانے کب اور کس طرح سُروں کے اُتار چڑھاؤ کے دوران ٹی وی کا پہلا حرف دو قدم پیچھے جا کر حروفِ تہجی کے دوسرے حرف سے اپنی جگہ بدل چکا تھا۔ مصرع میں اس نازک تحریف کا احساس ہوتے ہی میرا کنگھا بدست بازو اور مصرع بلب منہ دونوں کے دونوں اُسی پوزیشن میں وہیں کے وہیں منجمد ہوگئے۔ میں ابھی اِن سنگین انکشافات کے ممکنہ نتائج کا جائزہ بھی نہ لے پایا تھا کہ بیگم نے آئینے میں مجھے گھورتے ہوئے نہایت ہی سکون آمیز مگر خشک لہجے میں سوال داغ دیا۔ " یہ صبح ہی صبح کس کی بیوی کی شان میں قصیدہ پڑھا جارہا ہے؟"
اپنی اس معصوم سی مترنم مشقِ سخن پر اس پیچیدہ سے تنقیدی حملے کے لئے میرے حواس بالکل تیار نہ تھے۔ چنانچہ یہ سوال سنتے ہی میں گڑبڑا گیا۔ دماغ میں بیک وقت کئی قسم کے جوابات نے ایک ساتھ کودنے کی کوشش کی۔ آخر یہ خیال غالب آیا کہ اپنے دفاع میں کچھ کہنے کے بجائے تعریف و تحسین سے کام لیا جائے۔ چنانچہ میں فورا ہی اُن کی طرف مڑا اور مسکرانے کی کوشش کی۔ بوکھلاہٹ کے اس عالم میں مصرع بہ لب منجمد منہ سے جو کچھ برآمد ہوا وہ کچھ اس طرح کا تھا۔ "بیگم! آپ۔۔۔ یعنی کمال کرتی ہیں آپ! یعنی ۔۔۔ یقین کیجئے آپ ہی کے بارے میں شاعری کر رہا تھا ۔۔۔" لیکن یہاں تک پہنچ کر احساس ہوا کہ یہ تو کچھ غلط ہو گیا۔ چنانچہ میں نے دورانِ جملہ ہی پینترا بدلنے کی کوشش کی اور اب کی بار جو کچھ اس دہانِ عاجز کلام سے نکلا اس پر خود مجھے بھی حیرت سی ہوئی۔ میں نے کہا " نہیں نہیں ۔۔۔ یہ میری شاعری تو نہیں ہے۔۔ یعنی ۔۔۔ یہ تو یعنی مرزا غالب کی شاعری ہے ۔۔۔ اوہو ، بھئی آپ سمجھا کریں، یہ تو شاعری کی مشق ہے۔ یعنی جیسے مرزا غالب کیا کرتے تھے ۔۔۔۔ "
بیگم نے میرا جملہ ختم ہونے سے پہلے ہی گرم استری کی طرح میرے لہجے کی لکنت اور تمام سلوٹیں دور کردیں۔ "ہاں ہاں ، میں خوب سمجھتی ہوں۔ اِس شعر و شاعری نے ہی تو آپ کا دماغ خراب کیا ہوا ہے۔ ہر وقت اسی میں ڈوبے رہتے ہیں آپ۔ میں اتنے دنوں سے دیکھ رہی ہوں۔ میرا ذرا بھی خیال نہیں آپ کو۔ ہر وقت نجانے کن خیالوں میں مگن رہتے ہیں۔"
یہ کہہ کر وہ زور سے پاؤں پٹختی ہوئی چلی گئیں۔ مجھے فورا ہی احساس ہوگیا کہ بہت گڑبڑ ہوگئی ہے۔ خجالت ، گھبراہٹ اور خوف کے ملے جلے احساسات نے جانِ ناتواں کو گھیر لیا۔ مصلحت تو کہتی تھی کہ دوڑ کر بیگم صاحبہ کو منایا جائے لیکن مصیبت یہ آن پڑی کہ دفتر کا وقت نکلا جارہا تھا۔ کچھ سمجھ میں نہ آیا کہ کیا کیا جائے۔ جلدی جلدی کپڑے بدل کر کچن کی طرف پہنچا تو دیکھا کہ بیگم صاحبہ اپنے دونوں ہاتھوں میں میرے لئے ناشتہ لئے کھڑی ہیں۔ مجھ پر شرم سےگھڑوں پانی پڑ گیا۔ دل ہی دل میں خود کو ملامت کرنا شروع کردی کہ اے نادان انسان! دیکھ اس بے غرض محبت کو۔ دیکھ! اسے کہتے ہیں ایثار اور قربانی! جا اور دوڑ کر لپٹ جا اِس وفا کی پُتلی سے!
اس سے پہلے کہ گھبرایا ہوا دماغ اس تجویز کو عملی جامہ پہنانے کے احکامات صادر کرتا اُس وفا کی پُتلی نے اپنے ایک پاؤں سے کوڑے دان کا ڈھکنا اٹھاتے ہوئے آملیٹ کی پلیٹ کو اُس میں اُلٹ دیا اور دوسرے ہاتھ میں تھاما ہوا چائے کا کپ بھی مجھے دکھا کر ایک زہریلی مسکراہٹ کے ساتھ سِنک میں انڈیل دیا۔ میں نے اس صورت حال کو خوش مزاجی کے ذریعے ڈی فیوز کرنے کی کوشش کی اور ایک شرمندہ سی مسکرا ہٹ سے کام لیتے ہوئے کہا۔"اچھا ہوا کہ آپ نے پھینک دیا۔ ویسے بھی روزانہ انڈا کھانا صحت کے لیے اچھا نہیں۔"
وہ بولیں"صحت کے لیے اچھا ہو یا برا ، میری بلا سے۔ میرا تو سر خود درد سے پھٹا جارہا ہے"۔ اور پھر ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے بولیں "بلکہ پھاڑا ۔ جا ۔رہا ۔ ہے۔" پھر بولیں۔" اور سنیے! میں کہے دیتی ہوں۔ آج گھر میں کھانا نہیں پکے گا۔ شام کو واپسی پر مرزا غالب کے ہاں سے کھاتے آئیے گا۔" یہ کہہ کر وہ اپنے کمرے میں چلی گئیں اور دھڑ سے دروازہ بند کر لیا۔
وہ تو چلی گئیں لیکن میرے گڑبڑائے ہوئے دماغ کو اِس الجھن نے گھیر لیا کہ یا الہٰی اب میرے کھانے پینے کا کیا ہوگا۔ ناشتہ تو چلو گیا لیکن کیا ڈِنر پر آج مرزا غالب کے ہاں جانا پڑے گا؟! در اصل حواس اس قدر گڑبڑا چکے تھے کہ حقیقت اور خیال میں تمیز مشکل ہورہی تھی۔ میں سوچنے لگا کہ غالب تو خود اپنے خطوط میں ہر وقت تنگ دستی کا رونا روتے رہتے ہیں۔ اورموصوف کو تو ویسے بھی کھانے سے زیادہ پینے کا شوق ہے۔ ان کے ہاں میں گیا بھی تو دعوت درکنار خود اپنے پلّے سے صابری نہاری اور اسٹوڈنٹ بریانی لے جا کر انہیں کھلانا پڑے گی۔ بلکہ اس کے بعد ان کے اشعار الگ سننا پڑیں گے۔ وہی موٹے موٹے فارسی الفاظ والےکہ گویم مشکل وگرنہ گویم مشکل۔ دماغ ابھی اِسی ادھیڑ بُن میں تھا اور میں گھر کادروازہ کھول کر دفتر کے لئے باہر نکل ہی رہا تھا کہ پیچھے سے کپڑوں کا ایک گٹھڑ ہوا میں اڑتا ہوا آیا اور دھپ سے میری کمر پر لگا۔ مڑ کر دیکھا تو میرے رات کے کپڑوں کا وہ ڈھیر تھا جو میں حسبِ عادت بیڈ روم کے فرش پر چھوڑ کر چلا آیا تھا۔ پیچھے سے بیگم کی آواز آئی۔ "اور ہاں واپسی پر اپنے یہ کپڑے بھی میر تقی میر کے ہاں سے دُھلواتے آئیے گا۔ میرا سر درد سے پھٹا جارہا ہے۔" اور پھر لفظ چبا چبا کر بولیں "بلکہ پھاڑا جارہا ہے۔"
یہ سن کر تو دماغ مزید گڑبڑا گیا۔ لیجیے۔ یک نہ شد دو شد۔ اب یہ کپڑے میں میر تقی میر سے کس طرح دھلواؤں گا۔ اُنہیں تو رونے دھونے سے فرصت نہیں وہ بھلا کپڑے دھونا کیا جانیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ میری اچھی بھلی قمیضوں کا ستیاناس مار دیں۔ اُن کی شاعری سے تو نہیں لگتا کہ موصوف کپڑے دھونے کے قائل بھی ہوں گے۔ لگتا ہے بس ایک لمبا سا چوغہ پہنے ادھر ادھر آوارہ گھومتے پھرتے ہوں گے۔ جب موڈ ہوا گریبان پھاڑ لیا ، جب جی چاہا دامن تار تار کردیا۔ اب اس پھٹے چوغے کو دھوتے کیا خاک ہوں گے۔ بس سال میں ایک آدھ دفعہ بدل لیا سو بدل لیا۔ بلکہ محلے والے اُن کی عریانی سے تنگ آکر خود ہی زبردستی بدل دیتے ہوں گے۔
انہی منتشر اور بے سروپا سوچوں میں غرق میں اپنے دفتر پہنچ گیا۔ جاتے ہی پہلا کام یہ کیا کہ سیکریٹری کو کہہ کر ایک گھنٹے کے لئے اپنی تمام مصروفیات مؤخر کروائیں اور کرسی پر بیٹھتے ہی ماجد صاحب کو فون گھما دیا۔ وہ بولے ۔"خیریت تو ہے اتنی صبح صبح کیسے فون کرلیا؟" میں نے کہا۔" خیریت کہاں۔ بیگم سخت ناراض ہوگئی ہیں۔ میرا حقّہ پانی بند کرنے پر تُلی ہیں"۔
وہ بولے۔ "تو ڈر کس بات کا ہے۔ حقہ تو تم ویسے بھی نہیں پیتے۔ بس نمائش کیلئے ڈرائنگ روم میں سجا رکھا ہے۔ اور پانی کی بھی خیر ہے۔ کوک اور پیپسی پر گزارا کرلینا۔"
میں نے کہا۔" مذاق چھوڑو۔ معاملہ اس دفعہ گمبھیر ہے۔" اور پھر انہیں پورا ماجرا سنایا۔
سن کر کہا۔ "تو مجھے کاہے کو فون کیا ہے۔ تمہارا تو دماغ خراب ہوگیا ہے۔ ارشد قدوسی کو فون کرو۔ دماغی امراض کے ماہر تو وہی ہیں۔"
میں نے ذرا گھگھیا کر مدد کی درخواست کی اور بچپن کی دوستی کا واسطہ دیا تو ذرا ڈھیلے پڑ ے۔ کچھ دیر تک خوب ڈانٹتے رہے۔ پھر بولے کہ "بالکل ہی گھامڑ ہیں آپ۔ دوسری جگہ کی بات اور ہے لیکن اپنے ہی گھر کے غسل خانے میں اس طرح کے شعر کون گنگناتا ہے- " پھر کہا کہ اس وقت تو میں بھی دفتر کے لئے نکل رہا ہوں۔ لنچ بریک میں تفصیلی بات ہوگی۔ میں نے خدا حافظ کہہ کر فون بند کردیا۔ اس کے بعد چند منٹ تک صبح سے ہونے والے تمام واقعات اور اپنے دل و دماغ پر گزرنے والی تمام کیفیات کا ایک تفصیلی جائزہ لیا۔ پھر میں نے احتیاطاً ارشد قدوسی کو بھی فون ملا ہی دیا۔ ارشد قدوسی ہمارے پرانے احباب میں سے ہیں۔ ماہرِ نفسیات ہیں۔ دماغی امراض کے ہسپتال میں کام کرتے ہیں اور بقول شخصے کھسکے ہوؤں کو علاج معالجے کے بہانے اپنی باتوں سے بہلاتے پُھسلاتے ہیں۔ لیکن کچھ دنوں سے خود اُن کے بارے میں بھی طرح طرح کی باتیں حلقۂ احباب میں گردش کررہی تھیں۔ یہ بھی سننے میں آیا کہ ان کے ساتھ ہر کہ در کانِ نمک رفت ، نمک شود والا معاملہ ہو چکا ہے۔

میں نے ہیلو کہا تو وہ چہکے ۔"اخاہ! ظہیر صاحب ہیں۔ مزاج بخیر! میں تو دفتر جانے کے لئے کپڑے بدل رہا ہوں۔ آپ کیا کر رہے ہیں؟"
میں نے کہا ۔"حضور آپ سے فون پر بات کررہا ہوں۔"
یہ سن کر وہ بلند آواز میں قہقہہ مار کر ہنسے۔ قہقہے کے درمیان فون پر دھڑام سے کچھ گرنے کی آواز آئی اور پھر ایک منٹ تک خاموشی چھا گئی۔ میں نے پوچھا ۔"خیریت تو ہے یہ آواز کیسی تھی؟"
بولے ۔"کچھ نہیں۔ پاجامہ فرش پر گر پڑا تھا۔"
میں نے کہا " یا حیرت! کیا آپ زرہ بکتر پہن کر اسپتال جاتے ہیں؟ "
کہنے لگے۔" یہ بات نہیں۔ دراصل میں پاجامے سے ایک ٹانگ نکالنا بھول گیا تھا۔"
اس کے بعد پھر زور سے ایک قہقہہ لگایا اور کہا۔"پاجامے کی ایسی تیسی۔ آپ سنائیے سب خیریت ہے نا؟"
یہ صورتحال دیکھ کر مجھے ان کے بارے میں پھیلے ہوئے شبہات پر یقین کا شائبہ سا ہونے لگا۔ میں نے مناسب جانا کہ فی الحال انہیں تنگ نہ کیا جائے اور لنچ بریک تک ماجد صاحب کے مشورے کا انتظار کر لیا جائے۔ چنانچہ میں نے یہ کہہ کر فون بند کردیا کہ بہت دنوں سے آپ کا فون نہیں آیا تھا۔میں نے بس آپ کو اپنی خیریت بتانے کے لئے فون کیا تھا۔
اس کے بعد کے تین چار گھنٹے جیسے تیسے کرکے گزرے۔ کھانے کا وقفہ ہوتے ہی ماجد صاحب کا فون آگیا۔" مجھے پتہ تھا تمہارے پیٹ میں ہول اٹھ رہے ہوں گے سو میں نے ہی فون کرلیا۔"
میں نے چھوٹتے ہی کہا۔" کوئی مشورہ دیجئے۔ اب کیا کروں؟"کہنے لگے ۔"آ پ نے وہ واقعہ تو سنا ہی ہوگا کہ ایک شخص کی بھینس بیمار ہوگئی تو اپنے دوست سے پوچھا۔ پارسال تمہاری بھینس بیمار ہوئی تھی تو اُسے کیا دیا تھا؟ دوست نے جڑی بوٹیوں کا ایک نسخہ نکال کر تھما دیا۔ اگلے روز اس نےجاکر شکایت کی کہ بھینس تو دوا کھاتے ہی مر گئی۔ دوست بولا کہ یار بھینس تو میری بھی مر گئی تھی۔" پھر ایک لمبا سا سانس لے کر بولے۔ "مشورہ تو میں دے دوں مگر ذمہ داری سراسر تمہاری ہے۔"
میں نے عرض کیا ۔"کچھ تو خوفِ خدا کرو۔ بیگم اور بھینس کا آپس میں بھلا کیا تعلق؟"
کہنے لگے ۔"میں تو تمہیں ممکنہ نقصانات کا تخمینہ دینے کی کوشش کررہا ہوں۔ بخدا آج کل جتنے پیسوں میں ایک اچھی دودھ دینے والی بھینس آتی ہے اتنے میں گاؤں کے لوگ دو دفعہ عقدِ ثانی کرلیتے ہیں۔"
یہ سن کر میری ہمت کچھ ٹوٹ سی گئی۔ ڈرتے ڈرتے پوچھا کہ اس صورتحال کا حل کیا ہے؟ کہنے لگے۔" حل وَل کچھ نہیں۔ بس شام کو ایک عدد گلدستہ اور چاکلیٹ کا بڑا سا ڈبّہ گھر لیتے جانا۔ شکل صورت بس ویسی ہی مسکین سی بنائے رکھنا کہ جیسی تمہاری ہوتی ہے۔ باقی اللہ خیر کرے گا۔"
میں نے پوچھا کہ یہ نسخہ آزمودہ ہے؟ بولے۔" پچھلے سال جب تمہاری بھابی میرے راتوں کو دیر تک شطرنج کھیلنے پر ناراض ہوئی تھیں تو میں نے یہی کیا تھا۔ چاکلیٹ کا ڈبہ کھولتے ہی ان کی ساری ناراضگی ایکدم دور ہو گئی تھی۔"
میں نے کہا ۔ "لیکن تمہاری بھابی کو تو چاکلیٹ کچھ اتنے زیادہ پسند نہیں۔"
جھٹ سے بولے۔" چاکلیٹ تو میری بیگم کو بھی پسند نہیں۔ لیکن چاکلیٹ کے ڈبے سے برآمد ہونے والے سونے کے نیکلس کو فوراً خوشی خوشی پہن لیا۔ چاکلیٹ کو تو ہاتھ بھی نہیں لگایا۔"
" اچھا تو یہ بات ہے! "۔ میں نے کہا۔
" جی ہاں ، یہی بات ہے۔" پھر آواز کو ذرا بھاری بناتے ہوئے گمبھیر سے بزرگانہ لہجے میں بولے۔ "میاں! خوشگوار ازدواجی زندگی کا راز یہ ہے کہ مرد اپنی ہر غلطی پر سونے کا پانی پھیرتا جائے۔"
میں نے عرض کیا۔ "یا پیر و مرشد! جتنی غلطیاں مجھ سے ہوتی ہیں اس کے لئے تو آبِ زر کا ایک دریا چاہیے۔ وہ میں کہاں سے لاؤں گا؟" جواب میں کہنے لگے۔ "تو آپ اپنی مالی حیثیت کے مطابق غلطیاں کیوں نہیں کرتے۔ اب شعر پڑھ ہی دیا ہے تو داد بھی بھگتنا پڑے گی۔ اور تمہارا مصرع تو ایک نیکلس سے معاف ہونے والا ہے بھی نہیں۔ ساتھ میں کم از کم انگوٹھی یا بُندے وغیرہ بھی ہونے چاہئیں۔ اور ہاں گلدستے کےساتھ ایک عدد رنگ برنگی پھولوں والا کارڈ بھی شامل کرو۔ اس میں شاعری سے توبہ کرنے اور مستقبل میں بیگم کی ہر بات بے چون و چرا ماننے کا عہد واضح انداز میں صاف صاف لکھو۔ اور آخر میں آئی لَو یُو لکھنا مت بھولنا۔"
میں نے کہا۔ "یہ لکھنا وِکھنا تو کوئی بڑی بات نہیں۔ بلکہ یوں کرتا ہوں کہ ایک خوبصورت سا کارڈ لے کر اس پر ابھی ایک نظم لکھ ڈالتا ہوں۔ نظم نثر سے زیادہ مؤثر ہوتی ہے۔" دوسری طرف چند لمحوں کے لئے خاموشی سی چھا گئی۔ مجھے یوں لگا جیسے فون کے دوسری طرف سے ماجد صاحب نے مجھے گھور کر دیکھا ہو۔ پھر اُن کی آواز آئی ۔" میں تو پھر یہی کہوں گا کہ تم ایک دفعہ ارشد قدوسی کو دکھا ہی لو۔ اماں! کیا بالکل ہی گھاس چَر گئے ہو۔ یعنی شاعری سے توبہ کرنے کا عہد نامہ آپ منظوم صورت میں لکھ کر دیں گے؟!" میں ذرا خفیف سا ہوگیا اور کہا۔ "ہاں یہ تو کچھ ٹھیک نہیں لگے گا۔ خیر، جیسا آپ کہتے ہیں ویسا ہی کرتا ہوں۔" کہنے لگے۔" بس کام ختم کرتے ہی اٹھ کر شاپنگ مال کو روانہ ہوجاؤ۔ اللہ بیلی اور گڈ لک!"

تو صاحبو یہ تھی میری آج کی کہانی! شاپنگ مال کے بعد والے واقعات کچھ ایسے گفتنی نہیں ہیں۔ بس یوں سمجھ لیجیے کہ ظہیرصاحب اپنی قمیضوں سمیت اس دفعہ بال بال بچ گئے۔ اگرچہ اِس وقت مورال کچھ ڈاؤن ہے اور خودی گویا زمین پر لیٹی ہوئی ہے لیکن یہ صورت حال خود فدوی کے باہر فرش پر لیٹنے سےکہیں بہتر ہے۔ نیز یہ کہ شام کو کھانے کے بعد بھاری بھرکم فارسی زدہ اشعار بھی نہیں سننے پڑے۔ اور امید ہے کہ صبح دھلی دھلائی استری شدہ ثابت و سالم قمیض بھی پہننے کو مل جائے گی۔
اب خاصی سوچ بچار کے بعد یہ فیصلہ کیا ہے کہ آئندہ سے مزاحیہ شاعری سننا بند کردی جائے کہ وہ اکثر و بیشتر بیگمات کے حق میں نہیں ہوتی۔ نیز یہ کہ غسل خانے میں گنگنانے کے لیے بے ضرر اشعار کی ایک فہرست پہلے ہی سے بنا کر رکھ لی جائے تاکہ صبح صبح عالمِ سرخوشی میں لاشعور کو کسی شرپسندی کا موقع نہ مل سکے۔ کل صبح کے لیے "رب کا شکر ادا کر بھائی ۔ جس نے ہماری گائے بنائی" منتخب کیا ہے۔ پرسوں صبح "گرچہ چھوٹی ہے ذات بکری کی , دل کو لگتی ہے بات بکری کی" گنگنانے کا پروگرام طے ہے۔ اگر قارئین میں سے کوئی مہربان علامہ اقبال کی "ٹہنی پہ کسی شجر کی تنہا " والی پوری نظم پوسٹ کر سکے تو بھلا ہوگا۔ میرا ایک مہینے کا سامان ہو جائے گا۔ اللہ آپ کی صبحیں بے مثال رکھے!
واہ واہ جناب۔
بہت عرصے بعد ایسی شگفتہ تحریر پڑھی کہ مزہ آ گیا۔ ایسی تحریر کا اصل کمال یہ ہے کہ پڑھتے ہوئے ہر قاری خود کو بھی جیسے داستان کا ’’مفعول‘‘ سمجھ رہا ہو۔
اللہ کرے کہ زورِ قلم اور زیادہ۔
نیز یہ کہ انجمنِ شوہران کی جانب سے مشترکہ کمنٹ یہ بھی کہ
جو تیرا حال ہے، وہ میرا حال ہے
اس حال سے حال ملاوؑ
 
Top