الوداعی تقریب شگفتہ تعزیت نامے (مزاحِ اسود)

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
محفل کی رحلت طے کر دی گئی ہے اور موصوفہ اب کسی بھی دن چپکے سے داغِ مفارقت دے جائیں گی۔ افسوس کہ محترمہ کی رخصت کے بعد محفلین کو یہ موقع بھی نہیں مل سکے گا کہ وہ اس کی جواں مرگی پر اپنے رنج و غم کا اظہار کر سکیں۔ سو لازم ہے کہ یہ رونا بھی مرحومہ کی رحلت سے پہلے ہی رو لیا جائے۔ مجھے یقین ہے کہ عنقریب کوئی مستقبل بین پھرتیلا محفلین جلد ہی اس قسم کی لڑی کا اجرا کرے گا کہ جس میں دیر آید غلط آید قسم کے محفلین اپنا اپنا واویلا مچا سکیں ۔ اُس لڑی میں شمولیت کے لیے میں اپنا تعزیت نامہ (obituary) پہلے ہی یہاں لکھ ڈالتا ہوں مبادا الوداعی تقریبات اور آخری سالگرہ کی متوقع دھوم دھام میں اس کا موقع نہ مل سکے۔
آپ حضرات بھی خوشی خوشی اپنے فکاہیہ تعزیت نامےپہلی فرصت میں سپردِ قلم فرمائیں اور اس تعزیتی کتاب میں درج کرتے جائیں تاکہ ماضی اور مستقبل کے قارئین انہیں پڑھ پڑھ کر مرحومہ کی روح کو ایصالِ خندہ و ابتسام پہنچاتے رہیں۔ :)
 
آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
افسوس! آنسہ اردو محفل بیس برس کی بھری جوانی میں اس ویبگاہِ فانی سے کوچ کر گئیں۔ تین چار سال پہلے تک مرحومہ تندرست اور اچھی بھلی نظر آتی تھیں۔ ہر وقت بنی سنوری درجنوں محفلین میں گھری اپنے فورم میں خوش باش دکھائی دیتی تھیں لیکن آہستہ آہستہ غیر محسوس انداز میں ان کی طبیعت گرتی چلی گئی۔ طبیبوں نے قلّتِ قلم کا مرض تشخیص کیا۔ انہیں وٹامن شعر اور گپ شپ کےکیپسول دیے گئے۔ وقتاً فوقتاً کاپی پیسٹ کے انجکشن بھی لگائے گئے لیکن تاگوں میں مضمون کی کمی روز بروز بڑھتی گئی جس کی وجہ سے چہرے کا رنگ پھیکا پڑتا گیا اور وہ کمزور تر ہوتی چلی گئیں۔ پھر دوسال پہلے یکایک ان پر عدم مدیری کا حملہ ہوا جس کی وجہ سے ان کے زمرے لڑکھڑا گئے اور لڑیاں آپس میں الجھتی چلی گئیں۔ آئے دن اِملے کا عارضہ اور گرامر کی شکایت بھی ہونے لگی۔ جوں جوں ان کی بیماری پیچیدہ تر ہوتی چلی گئی محفلین بھی انہیں اِدھر اُدھر کی گولیاں دے کر ایک ایک کر کے پاس سے اٹھتے چلے گئے۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ انہیں کسی ویب سائٹ کی نظر لگ گئی ہے۔ جبکہ بعض سیانوں نے فیس بک اور انسٹاگرام پر جادو ٹونے اور محفلین کو اپنے قابو میں کرنے کا الزام بھی لگایا۔ لیکن دعا اور دم درود کے متعدد دھاگے باندھنے سے بھی مرحومہ کی بیماری میں کچھ افاقہ نہ ہوا۔ پچھلے دو سالوں سے وہ گیم تھیراپی اور الف بے جیم کے بے سود حکیمی علاج پر چل رہی تھیں۔ دو ماہ پہلے ان کی روز بروز بگڑتی حالت دیکھ کر سالانہ دورے پر آنے والے جرمنی کے مشہور ڈاکٹر نے امریکی ڈاکٹروں سے مشورہ کے بعد انہیں ناقابلِ علاج قرار دے دیا اور انہیں ہاسپس (کمرۂ مرگ) میں ڈال دیا۔ جیسے ہی محترمہ کے مرضِ الموت کی خبر وائرل ہوئی بہت سارے محفلین ایک ایک کرکے ان کے ارد گرد جمع ہو گئے اور ایک دوسرے کو دلاسے دینے لگے۔ کچھ محفلین نے ڈاکٹر صاحبان سے ہاسپس پر نظرِ ثانی کی درخواست بھی کی لیکن ڈاکٹروں نے مریضہ کو مصنوعی تنفس پر زندہ رکھنے سے انکار کر دیا اور بیسویں سالگرہ سے پہلے ہی آخری رسومات کی تیاریاں شروع کر دیں۔ یوں آنسہ اردو محفل جولائی کی ایک شام اپنے پیاروں کے درمیان آخری سانس لے کر جہانِ ویب سے عالمِ آرکائیو میں انتقال فرما گئیں۔ آف لائن ہونے سے پہلے انہوں نے کئی محفلین کو گھور کر دیکھا اور زیرِ لب کلمۂ ملامت پڑھتے ہوئے جان جانِ قارئین کے سپرد کر دی۔
ان کے سوئم اور چالیسویں کی رسومات فیس بک اور انسٹاگرام پر منعقد کی جائیں گی۔ ان تقریبات میں ڈیجیٹل بریانی اور آنلائن حلیم کے شائقین کا ایک بڑا مجمع متوقع ہے۔

دیگر محفلین کا تو علم نہیں لیکن مرحومہ نے پسماندگان میں چھوٹی چھوٹی معصوم سی اٹھارہ غزلیں اور چار بالغ غیر شائع شدہ مضامین اس خاکسار کے پاس چھوڑے ہیں۔ کاش وہ ان کے شائع شدہ ہونے کا انتظار کر تیں اور اپنی زندگی ہی میں انہیں پھلتا پھولتا دیکھ لیتیں۔ اب مجھے ان پسماندگان کی دیکھ بھال کے لیے اٹھنا ہے۔

کیا تیرا بگڑتا جو نہ مرتی کوئی دن اور
 
افسوس! آنسہ اردو محفل بیس برس کی بھری جوانی میں اس ویبگاہِ فانی سے کوچ کر گئیں۔ تین چار سال پہلے تک مرحومہ تندرست اور اچھی بھلی نظر آتی تھیں۔ ہر وقت بنی سنوری درجنوں محفلین میں گھری اپنے فورم میں خوش باش دکھائی دیتی تھیں لیکن آہستہ آہستہ غیر محسوس انداز میں ان کی طبیعت گرتی چلی گئی۔ طبیبوں نے قلّتِ قلم کا مرض تشخیص کیا۔ انہیں وٹامن شعر اور گپ شپ کےکیپسول دیے گئے۔ وقتاً فوقتاً کاپی پیسٹ کے انجکشن بھی لگائے گئے لیکن تاگوں میں مضمون کی کمی روز بروز بڑھتی گئی جس کی وجہ سے چہرے کا رنگ پھیکا پڑتا گیا اور وہ کمزور تر ہوتی چلی گئیں۔ پھر دوسال پہلے یکایک ان پر عدم مدیری کا حملہ ہوا جس کی وجہ سے ان کے زمرے لڑکھڑا گئے اور لڑیاں آپس میں الجھتی چلی گئیں۔ آئے دن اِملے کا عارضہ اور گرامر کی شکایت بھی ہونے لگی۔ جوں جوں ان کی بیماری پیچیدہ تر ہوتی چلی گئی محفلین بھی انہیں اِدھر اُدھر کی گولیاں دے کر ایک ایک کر کے پاس سے اٹھتے چلے گئے۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ انہیں کسی ویب سائٹ کی نظر لگ گئی ہے۔ جبکہ بعض سیانوں نے فیس بک اور انسٹاگرام پر جادو ٹونے اور محفلین کو اپنے قابو میں کرنے کا الزام بھی لگایا۔ لیکن دعا اور دم درود کے متعدد دھاگے باندھنے سے بھی مرحومہ کی بیماری میں کچھ افاقہ نہ ہوا۔ پچھلے دو سالوں سے وہ گیم تھیراپی اور الف بے جیم کے بے سود حکیمی علاج پر چل رہی تھیں۔ دو ماہ پہلے ان کی روز بروز بگڑتی حالت دیکھ کر سالانہ دورے پر آنے والے جرمنی کے مشہور ڈاکٹر نے امریکی ڈاکٹروں سے مشورہ کے بعد انہیں ناقابلِ علاج قرار دے دیا اور انہیں ہاسپس (کمرۂ مرگ) میں ڈال دیا۔ جیسے ہی محترمہ کے مرضِ الموت کی خبر وائرل ہوئی بہت سارے محفلین ایک ایک کرکے ان کے ارد گرد جمع ہو گئے اور ایک دوسرے کو دلاسے دینے لگے۔ کچھ محفلین نے ڈاکٹر صاحبان سے ہاسپس پر نظرِ ثانی کی درخواست بھی کی لیکن ڈاکٹروں نے مریضہ کو مصنوعی تنفس پر زندہ رکھنے سے انکار کر دیا اور بیسویں سالگرہ سے پہلے ہی آخری رسومات کی تیاریاں شروع کر دیں۔ یوں آنسہ اردو محفل جولائی کی ایک شام اپنے پیاروں کے درمیان آخری سانس لے کر جہانِ ویب سے عالمِ آرکائیو میں انتقال فرما گئیں۔ آف لائن ہونے سے پہلے انہوں نے کئی محفلین کو گھور کر دیکھا اور زیرِ لب کلمۂ ملامت پڑھتے ہوئے جان جانِ قارئین کے سپرد کر دی۔
ان کے سوئم اور چالیسویں کی رسومات فیس بک اور انسٹاگرام پر منعقد کی جائیں گی۔ ان تقریبات میں ڈیجیٹل بریانی اور آنلائن حلیم کے شائقین کا ایک بڑا مجمع متوقع ہے۔

دیگر محفلین کا تو علم نہیں لیکن مرحومہ نے پسماندگان میں چھوٹی چھوٹی معصوم سی اٹھارہ غزلیں اور چار بالغ غیر شائع شدہ مضامین اس خاکسار کے پاس چھوڑے ہیں۔ کاش وہ ان کے شائع شدہ ہونے کا انتظار کر تیں اور اپنی زندگی ہی میں انہیں پھلتا پھولتا دیکھ لیتیں۔ اب مجھے ان پسماندگان کی دیکھ بھال کے لیے اٹھنا ہے۔

کیا تیرا بگڑتا جو نہ مرتی کوئی دن اور
جو رب دی رضا جی۔۔۔۔ اللہ سوہنا ساریاں نوں صبر دیوے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دعا کرو۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
سوچ رہا ہوں کہ یہاں سوداء کا محل ہے یا اسود کا

مذکر مونث کا معاملہ ہے غالبا۔
عربی کے اصول الگ ہیں اور ان کا اردو سے کوئی تعلق نہیں۔ اردو میں سوداء مستعمل ہی نہیں ہے ۔ مذکر ہو یا مؤنث دونوں کے لیے اسود استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے حجرِ اسود اور بحیرۂ اسود۔
اردو میں فارسی کا لفظ سودا مستعمل ہے جس کے معنی ہیں جنون یا پاگل پن۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
افسوس! آنسہ اردو محفل بیس برس کی بھری جوانی میں اس ویبگاہِ فانی سے کوچ کر گئیں۔ تین چار سال پہلے تک مرحومہ تندرست اور اچھی بھلی نظر آتی تھیں۔ ہر وقت بنی سنوری درجنوں محفلین میں گھری اپنے فورم میں خوش باش دکھائی دیتی تھیں لیکن آہستہ آہستہ غیر محسوس انداز میں ان کی طبیعت گرتی چلی گئی۔ طبیبوں نے قلّتِ قلم کا مرض تشخیص کیا۔ انہیں وٹامن شعر اور گپ شپ کےکیپسول دیے گئے۔ وقتاً فوقتاً کاپی پیسٹ کے انجکشن بھی لگائے گئے لیکن تاگوں میں مضمون کی کمی روز بروز بڑھتی گئی جس کی وجہ سے چہرے کا رنگ پھیکا پڑتا گیا اور وہ کمزور تر ہوتی چلی گئیں۔ پھر دوسال پہلے یکایک ان پر عدم مدیری کا حملہ ہوا جس کی وجہ سے ان کے زمرے لڑکھڑا گئے اور لڑیاں آپس میں الجھتی چلی گئیں۔ آئے دن اِملے کا عارضہ اور گرامر کی شکایت بھی ہونے لگی۔ جوں جوں ان کی بیماری پیچیدہ تر ہوتی چلی گئی محفلین بھی انہیں اِدھر اُدھر کی گولیاں دے کر ایک ایک کر کے پاس سے اٹھتے چلے گئے۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ انہیں کسی ویب سائٹ کی نظر لگ گئی ہے۔ جبکہ بعض سیانوں نے فیس بک اور انسٹاگرام پر جادو ٹونے اور محفلین کو اپنے قابو میں کرنے کا الزام بھی لگایا۔ لیکن دعا اور دم درود کے متعدد دھاگے باندھنے سے بھی مرحومہ کی بیماری میں کچھ افاقہ نہ ہوا۔ پچھلے دو سالوں سے وہ گیم تھیراپی اور الف بے جیم کے بے سود حکیمی علاج پر چل رہی تھیں۔ دو ماہ پہلے ان کی روز بروز بگڑتی حالت دیکھ کر سالانہ دورے پر آنے والے جرمنی کے مشہور ڈاکٹر نے امریکی ڈاکٹروں سے مشورہ کے بعد انہیں ناقابلِ علاج قرار دے دیا اور انہیں ہاسپس (کمرۂ مرگ) میں ڈال دیا۔ جیسے ہی محترمہ کے مرضِ الموت کی خبر وائرل ہوئی بہت سارے محفلین ایک ایک کرکے ان کے ارد گرد جمع ہو گئے اور ایک دوسرے کو دلاسے دینے لگے۔ کچھ محفلین نے ڈاکٹر صاحبان سے ہاسپس پر نظرِ ثانی کی درخواست بھی کی لیکن ڈاکٹروں نے مریضہ کو مصنوعی تنفس پر زندہ رکھنے سے انکار کر دیا اور بیسویں سالگرہ سے پہلے ہی آخری رسومات کی تیاریاں شروع کر دیں۔ یوں آنسہ اردو محفل جولائی کی ایک شام اپنے پیاروں کے درمیان آخری سانس لے کر جہانِ ویب سے عالمِ آرکائیو میں انتقال فرما گئیں۔ آف لائن ہونے سے پہلے انہوں نے کئی محفلین کو گھور کر دیکھا اور زیرِ لب کلمۂ ملامت پڑھتے ہوئے جان جانِ قارئین کے سپرد کر دی۔
ان کے سوئم اور چالیسویں کی رسومات فیس بک اور انسٹاگرام پر منعقد کی جائیں گی۔ ان تقریبات میں ڈیجیٹل بریانی اور آنلائن حلیم کے شائقین کا ایک بڑا مجمع متوقع ہے۔

دیگر محفلین کا تو علم نہیں لیکن مرحومہ نے پسماندگان میں چھوٹی چھوٹی معصوم سی اٹھارہ غزلیں اور چار بالغ غیر شائع شدہ مضامین اس خاکسار کے پاس چھوڑے ہیں۔ کاش وہ ان کے شائع شدہ ہونے کا انتظار کر تیں اور اپنی زندگی ہی میں انہیں پھلتا پھولتا دیکھ لیتیں۔ اب مجھے ان پسماندگان کی دیکھ بھال کے لیے اٹھنا ہے۔

کیا تیرا بگڑتا جو نہ مرتی کوئی دن اور
کمال کر دیا۔۔۔۔۔ زاروقطار ہنسایا آپ نے۔۔۔۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
اس طرز کا تعزیت نامہ تو نہیں لکھنا۔۔۔

محلے میں ایک صاحب کے والد کا انتقال ہوگیا ہے۔ اس پر تعزیت کے لیے احباب کا مجمع لگا ہے۔ فاتحہ پڑھنے کے بعدکسی نے پوچھا۔

جی کیا ہوا؟ کیسے فوت ہوئے؟

بتانے والا۔ بس جی کیا بتائیں۔ اچھے بھلے دکان پر بیٹھے تھے۔ مجھے کہنے لگے کہ یار طبیعت بگڑ رہی ہے۔ میں نے فوراً ملازم کو "پندرہ روپے " دیے اور کہا کہ بھاگ کر جوس لاؤ۔ لیکن اس کے واپس آنے سے پہلے چل بسے۔

کچھ اور لوگ آتے ہیں۔ فاتحہ کے بعد ایک پوچھتا ہے۔

جی کیا ہوا تھا؟ کیسے ایکا ایکی چل بسے؟

بتانے والا۔ بس جی کیا بتائیں۔ اچھے بھلے دکان پر بیٹھے تھے۔ مجھے کہنے لگے کہ یار طبیعت بگڑ رہی ہے۔ میں نے فوراً ملازم کو" تیس روپے" دیے اور کہا کہ بھاگ کر جوس لاؤ۔ لیکن اس کے واپس آنے سے پہلے چل بسے۔

پھر کچھ لوگوں کی آمد اور وہی واقعہ۔ وہی روپے میں اضافہ۔ باقی ساری بات وہی۔ جب دوپہر کے قریب کچھ لوگ تعزیت کے لیے آئے۔ فاتحہ کے بعد ان میں سے پھر ایک بولا۔

اپنی تو سمجھ سے باہر ہے۔ ابھی کل صبح تو میری ملاقات ہوئی تھی۔ کہہ رہے تھے۔ حاجی اب ملاقات نہ ہوگی۔ میں سمجھا مذاق کر رہے ہیں۔ لیکن اللہ کے بندوں کو تو پتا ہی ہوتا ہے۔ معاملہ کیا ہوا؟

بتانے والا۔ بس جی کیا بتاؤں! دکان پر بیٹھے تھے۔ طبیعت پر گرانی تھی مگر اتنی بھی نہیں۔ یکا یک کہنے لگے کہ یار طبیعت زیادہ خراب ہو رہی ہے۔ میں نے فوراً ملازم کو "تین سو روپے" دیے اور کہا بھاگ کر سامنے سے تازہ اناروں کو گلاس نکلوا کر لا۔ لیکن اس کے واپس آنے سے پہلے ہی بس۔۔۔۔ تمام لوگوں پر سوگ طاری۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
اس طرز کا تعزیت نامہ تو نہیں لکھنا۔۔۔
ہاہاہاہا ۔۔۔ جی ہاں اسی قسم کی عزاداری کی ضرورت ہے اس وقت۔
شکر ہے کہ مزید اور لوگ پُرسے کے لیے نہیں آئے ورنہ یہ فرزندِ ارجمند مرحوم کے لیےروح افزا کا پورا کریٹ بھی منگوا سکتا تھا۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
ہاہاہاہا ۔۔۔ جی ہاں اسی قسم کی عزاداری کی ضرورت ہے اس وقت۔
شکر ہے کہ مزید اور لوگ پُرسے کے لیے نہیں آئے ورنہ یہ فرزندِ ارجمند مرحوم کے لیےروح افزا کا پورا کریٹ بھی منگوا سکتا تھا۔
ہوہوہوہوہووووو۔۔۔۔۔۔ سچ کہتے ہیں۔۔۔۔ ورنہ شام تک لوکل سے ریڈ بل تک تو چلے ہی جاتے مرحوم۔۔۔۔
 

لاریب مرزا

محفلین
افسوس! آنسہ اردو محفل بیس برس کی بھری جوانی میں اس ویبگاہِ فانی سے کوچ کر گئیں۔ تین چار سال پہلے تک مرحومہ تندرست اور اچھی بھلی نظر آتی تھیں۔ ہر وقت بنی سنوری درجنوں محفلین میں گھری اپنے فورم میں خوش باش دکھائی دیتی تھیں لیکن آہستہ آہستہ غیر محسوس انداز میں ان کی طبیعت گرتی چلی گئی۔ طبیبوں نے قلّتِ قلم کا مرض تشخیص کیا۔ انہیں وٹامن شعر اور گپ شپ کےکیپسول دیے گئے۔ وقتاً فوقتاً کاپی پیسٹ کے انجکشن بھی لگائے گئے لیکن تاگوں میں مضمون کی کمی روز بروز بڑھتی گئی جس کی وجہ سے چہرے کا رنگ پھیکا پڑتا گیا اور وہ کمزور تر ہوتی چلی گئیں۔ پھر دوسال پہلے یکایک ان پر عدم مدیری کا حملہ ہوا جس کی وجہ سے ان کے زمرے لڑکھڑا گئے اور لڑیاں آپس میں الجھتی چلی گئیں۔ آئے دن اِملے کا عارضہ اور گرامر کی شکایت بھی ہونے لگی۔ جوں جوں ان کی بیماری پیچیدہ تر ہوتی چلی گئی محفلین بھی انہیں اِدھر اُدھر کی گولیاں دے کر ایک ایک کر کے پاس سے اٹھتے چلے گئے۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ انہیں کسی ویب سائٹ کی نظر لگ گئی ہے۔ جبکہ بعض سیانوں نے فیس بک اور انسٹاگرام پر جادو ٹونے اور محفلین کو اپنے قابو میں کرنے کا الزام بھی لگایا۔ لیکن دعا اور دم درود کے متعدد دھاگے باندھنے سے بھی مرحومہ کی بیماری میں کچھ افاقہ نہ ہوا۔ پچھلے دو سالوں سے وہ گیم تھیراپی اور الف بے جیم کے بے سود حکیمی علاج پر چل رہی تھیں۔ دو ماہ پہلے ان کی روز بروز بگڑتی حالت دیکھ کر سالانہ دورے پر آنے والے جرمنی کے مشہور ڈاکٹر نے امریکی ڈاکٹروں سے مشورہ کے بعد انہیں ناقابلِ علاج قرار دے دیا اور انہیں ہاسپس (کمرۂ مرگ) میں ڈال دیا۔ جیسے ہی محترمہ کے مرضِ الموت کی خبر وائرل ہوئی بہت سارے محفلین ایک ایک کرکے ان کے ارد گرد جمع ہو گئے اور ایک دوسرے کو دلاسے دینے لگے۔ کچھ محفلین نے ڈاکٹر صاحبان سے ہاسپس پر نظرِ ثانی کی درخواست بھی کی لیکن ڈاکٹروں نے مریضہ کو مصنوعی تنفس پر زندہ رکھنے سے انکار کر دیا اور بیسویں سالگرہ سے پہلے ہی آخری رسومات کی تیاریاں شروع کر دیں۔ یوں آنسہ اردو محفل جولائی کی ایک شام اپنے پیاروں کے درمیان آخری سانس لے کر جہانِ ویب سے عالمِ آرکائیو میں انتقال فرما گئیں۔ آف لائن ہونے سے پہلے انہوں نے کئی محفلین کو گھور کر دیکھا اور زیرِ لب کلمۂ ملامت پڑھتے ہوئے جان جانِ قارئین کے سپرد کر دی۔
ان کے سوئم اور چالیسویں کی رسومات فیس بک اور انسٹاگرام پر منعقد کی جائیں گی۔ ان تقریبات میں ڈیجیٹل بریانی اور آنلائن حلیم کے شائقین کا ایک بڑا مجمع متوقع ہے۔

دیگر محفلین کا تو علم نہیں لیکن مرحومہ نے پسماندگان میں چھوٹی چھوٹی معصوم سی اٹھارہ غزلیں اور چار بالغ غیر شائع شدہ مضامین اس خاکسار کے پاس چھوڑے ہیں۔ کاش وہ ان کے شائع شدہ ہونے کا انتظار کر تیں اور اپنی زندگی ہی میں انہیں پھلتا پھولتا دیکھ لیتیں۔ اب مجھے ان پسماندگان کی دیکھ بھال کے لیے اٹھنا ہے۔

کیا تیرا بگڑتا جو نہ مرتی کوئی دن اور
بے حد شگفتہ تحریر!!ایسی معالجانہ تحریر کوئی ایمرجنسی والا ڈاکٹر ہی لکھ سکتا ہے. :) خوب انصاف کیا آپ نے اپنے تجربے سے...
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بے حد شگفتہ تحریر!!ایسی معالجانہ تحریر کوئی ایمرجنسی والا ڈاکٹر ہی لکھ سکتا ہے. :) خوب انصاف کیا آپ نے اپنے تجربے سے...
بہت شکریہ ، اللہ کریم آپ کو خوش رکھے! آباد رہیں!
محفل میں باز خوش آمدید!، لاریب مرزا !
شگفتہ تحریریں اور گفتگو اس وقت محفل کی ضرورت ہیں کہ الوداع قریب ہے۔ جتنی اچھی یادیں سمیٹ لی جائیں بہتر ہے کہ زادِ راہ بن جائیں گی۔
اگر ایک اور شگفتہ تحریر پڑھنے کا وقت ہو تو آپ یہ مضمون بھی پڑھیے۔ :) تحریر طویل ہے لیکن شاید آپ کو پسند آئے۔
 
شفیق جونپوری صاحب کے چند اشعار:

کوئی ٹوٹی ہوئی کشتی کا تختہ بھی اگر ہے لا
ابھی ساحل پہ ہے تو اور
پیش از مرگ واویلا

اندھیری رات سے ڈرتا ہے میر کارواں ہو کے
اندھیرا ہے تو اپنے داغ دل کی روشنی پھیلا

نہ گھبرا تیرگی سے تو قسم ہے سنگ
اسود کی
کہ تاریکی ہی میں سوئی ہے شام گیسوئے لیلا

شراب عصر نو میں بے خودی ہے نے خودی ساقی
جو تو نے آج سے پہلے پلائی تھی وہی مے لا

 

جاسمن

لائبریرین
تعزیت نامہ بھی ہنسا سکتا ہے, یہ آج معلوم ہوا۔ شگفتہ ترین تحریر۔
کیا کمال کا منظر نامہ پیش کیا ہے!
آپ کی ڈاکٹری، نثرنگاری ، شاعری اور مزاح سب نے مل جل کے خُوب رنگ بکھیرے ہیں۔
زبردست پر ڈھیروں زبریں!
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
تعزیت نامہ بھی ہنسا سکتا ہے, یہ آج معلوم ہوا۔ شگفتہ ترین تحریر۔
کیا کمال کا منظر نامہ پیش کیا ہے!
آپ کی ڈاکٹری، نثرنگاری ، شاعری اور مزاح سب نے مل جل کے خُوب رنگ بکھیرے ہیں۔
زبردست پر ڈھیروں زبریں!
بہت شکریہ،خواہرم جاسمن !
کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ اس قسم کی کوئی تحریر کبھی لکھنی پڑے گی لیکن وہی بات کہ ثبات اک تغیر کو ہے زمانے میں۔
انگریزی کہاوت کے بقول اگر قسمت سے آپ کو کھٹے لیموں ملیں تو ان کی سکنجبین بنانے کی کوشش کریں ۔ سو میں نے مرحومہ محفل کی رحلت پر روایتی غمگین پلاؤ کے بجائے کھلکھلاتےکسٹرڈ ،حلوہےاور کیک پیسٹری وغیرہ کا اہتمام کرنے کی کوشش کی ہے ۔ :D
 
Top