افسوس! آنسہ اردو محفل بیس برس کی بھری جوانی میں اس ویبگاہِ فانی سے کوچ کر گئیں۔ تین چار سال پہلے تک مرحومہ تندرست اور اچھی بھلی نظر آتی تھیں۔ ہر وقت بنی سنوری درجنوں محفلین میں گھری اپنے فورم میں خوش باش دکھائی دیتی تھیں لیکن آہستہ آہستہ غیر محسوس انداز میں ان کی طبیعت گرتی چلی گئی۔ طبیبوں نے قلّتِ قلم کا مرض تشخیص کیا۔ انہیں وٹامن شعر اور گپ شپ کےکیپسول دیے گئے۔ وقتاً فوقتاً کاپی پیسٹ کے انجکشن بھی لگائے گئے لیکن تاگوں میں مضمون کی کمی روز بروز بڑھتی گئی جس کی وجہ سے چہرے کا رنگ پھیکا پڑتا گیا اور وہ کمزور تر ہوتی چلی گئیں۔ پھر دوسال پہلے یکایک ان پر عدم مدیری کا حملہ ہوا جس کی وجہ سے ان کے زمرے لڑکھڑا گئے اور لڑیاں آپس میں الجھتی چلی گئیں۔ آئے دن اِملے کا عارضہ اور گرامر کی شکایت بھی ہونے لگی۔ جوں جوں ان کی بیماری پیچیدہ تر ہوتی چلی گئی محفلین بھی انہیں اِدھر اُدھر کی گولیاں دے کر ایک ایک کر کے پاس سے اٹھتے چلے گئے۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ انہیں کسی ویب سائٹ کی نظر لگ گئی ہے۔ جبکہ بعض سیانوں نے فیس بک اور انسٹاگرام پر جادو ٹونے اور محفلین کو اپنے قابو میں کرنے کا الزام بھی لگایا۔ لیکن دعا اور دم درود کے متعدد دھاگے باندھنے سے بھی مرحومہ کی بیماری میں کچھ افاقہ نہ ہوا۔ پچھلے دو سالوں سے وہ گیم تھیراپی اور الف بے جیم کے بے سود حکیمی علاج پر چل رہی تھیں۔ دو ماہ پہلے ان کی روز بروز بگڑتی حالت دیکھ کر سالانہ دورے پر آنے والے جرمنی کے مشہور ڈاکٹر نے امریکی ڈاکٹروں سے مشورہ کے بعد انہیں ناقابلِ علاج قرار دے دیا اور انہیں ہاسپس (کمرۂ مرگ) میں ڈال دیا۔ جیسے ہی محترمہ کے مرضِ الموت کی خبر وائرل ہوئی بہت سارے محفلین ایک ایک کرکے ان کے ارد گرد جمع ہو گئے اور ایک دوسرے کو دلاسے دینے لگے۔ کچھ محفلین نے ڈاکٹر صاحبان سے ہاسپس پر نظرِ ثانی کی درخواست بھی کی لیکن ڈاکٹروں نے مریضہ کو مصنوعی تنفس پر زندہ رکھنے سے انکار کر دیا اور بیسویں سالگرہ سے پہلے ہی آخری رسومات کی تیاریاں شروع کر دیں۔ یوں آنسہ اردو محفل جولائی کی ایک شام اپنے پیاروں کے درمیان آخری سانس لے کر جہانِ ویب سے عالمِ آرکائیو میں انتقال فرما گئیں۔ آف لائن ہونے سے پہلے انہوں نے کئی محفلین کو گھور کر دیکھا اور زیرِ لب کلمۂ ملامت پڑھتے ہوئے جان جانِ قارئین کے سپرد کر دی۔
ان کے سوئم اور چالیسویں کی رسومات فیس بک اور انسٹاگرام پر منعقد کی جائیں گی۔ ان تقریبات میں ڈیجیٹل بریانی اور آنلائن حلیم کے شائقین کا ایک بڑا مجمع متوقع ہے۔
دیگر محفلین کا تو علم نہیں لیکن مرحومہ نے پسماندگان میں چھوٹی چھوٹی معصوم سی اٹھارہ غزلیں اور چار بالغ غیر شائع شدہ مضامین اس خاکسار کے پاس چھوڑے ہیں۔ کاش وہ ان کے شائع شدہ ہونے کا انتظار کر تیں اور اپنی زندگی ہی میں انہیں پھلتا پھولتا دیکھ لیتیں۔ اب مجھے ان پسماندگان کی دیکھ بھال کے لیے اٹھنا ہے۔
کیا تیرا بگڑتا جو نہ مرتی کوئی دن اور