ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
احبابِ کرام ! چند ماہ پہلے یہ ارادہ لے کر عازمِ محفل ہوا تھا کہ پچھلے دو تین سالوں میں جو آٹھ دس تازہ غزلیں اور دو تین نظمیں جمع ہوگئی ہیں انہیں ایک ایک کرکے ہر ہفتے پوسٹ کروں گا لیکن درمیان میں دیگر سرگرمیاں اور دلچسپیاں آڑے آگئیں اورسخن سرائی کا سلسلہ منقطع ہوگیا ۔ اس سلسلے کو اب دوبارہ شروع کرنے کا ارادہ کیا ہے۔ ایک غزل پیشِ خدمت ہے ۔ گر قبول افتد زہے عز و شرف!

***

بزمِ یاراں نہ رہی ، شہرِ تمنا نہ رہا
زندگی تیرا برا ہو ، کوئی میرا نہ رہا

آرزو کاسۂ حسرت میں ڈھلی جاتی ہے
دستِ امید میں باقی کوئی سکہ نہ رہا

تم سے شکوہ نہیں شکوہ ہے زمانے سے مجھے
نہ رہے تم تو کوئی پوچھنے والا نہ رہا

بام و در بھی ہیں میسر مجھے دستار بھی آج
یہ الگ بات کہ سر پر کوئی سایا نہ رہا

اس طرح اپنا بنایا غمِ الفت نے مجھے
غمِ دنیا کو بھی مجھ سے کوئی شکوہ نہ رہا

اٹھ گیا بزمِ مراسم سے دلِ زار بھی اب
ایک بے نام سا ہوتا تھا جو رشتہ ، نہ رہا

بے نوا کر گیا مجھ کو بھی فریبِ دنیا
لبِ ایقان پہ جاری کوئی کلمہ نہ رہا

کیا ملا کارِ مسیحائی سےآخر مجھ کو
غم بھی غیروں کے ہوئے درد بھی اپنا نہ رہا

خوابِ منزل تھے نشاں جس کی مسافت میں ظہیرؔ
ہم سفر مل گئے آخر تو وہ رستہ نہ رہا

***

ظہؔیراحمد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔2022
 
آخری تدوین:

صابرہ امین

لائبریرین
خاصی اداسی ہوئی چند اشعار کو پڑھ کر۔ مگر اداسی بھی تو زندگی کا حصہ ہے ۔ مطلع و مقطع، دونوں بہت خوبصورت۔

آرزو کاسۂ حسرت میں ڈھلی جاتی ہے
دستِ امید میں باقی کوئی سکہ نہ رہا

کیا ملا کارِ مسیحائی سےآخر مجھ کو
غم بھی غیروں کے ہوئے درد بھی اپنا نہ رہا

کیا بات ہے ۔ ۔ بہت سی داد
 
آخری تدوین:

محمداحمد

لائبریرین
سبحان اللہ !

انتہائی خوبصورت!

ایک ایک شعر لاجواب ہے ماشاء اللہ!

بہت داد قبول کیجے ظہیر بھائی! :redheart:
 

علی وقار

محفلین
بزمِ یاراں نہ رہی ، شہرِ تمنا نہ رہا
زندگی تیرا برا ہو ، کوئی میرا نہ رہا

آرزو کاسۂ حسرت میں ڈھلی جاتی ہے
دستِ امید میں باقی کوئی سکہ نہ رہا

بام و در بھی ہیں میسر مجھے دستار بھی آج
یہ الگ بات کہ سر پر کوئی سایا نہ رہا

اٹھ گیا بزمِ مراسم سے دلِ زار بھی اب
ایک بے نام سا ہوتا تھا جو رشتہ ، نہ رہا

خوابِ منزل تھے نشاں جس کی مسافت میں ظہیرؔ
ہم سفر مل گئے آخر تو وہ رستہ نہ رہا
ظہیر بھائی، مجھے یہ اشعار بالخصوص بہت پسند آئے۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
خاصی اداسی ہوئی چند اشعار کو پڑھ کر۔ مگر اداسی بھی تو زندگی کا حصہ ہے ۔ مطلع و مقطع، دونوں بہت خوبصورت۔

آرزو کاسۂ حسرت میں ڈھلی جاتی ہے
دستِ امید میں باقی کوئی سکہ نہ رہا

کیا ملا کارِ مسیحائی سےآخر مجھ کو
غم بھی غیروں کے ہوئے درد بھی اپنا نہ رہا

کیا بات ہے ۔ ۔ بہت سی داد
بہت شکریہ ، نوازش! بہت ممنون ہوں ۔ اللّٰہ آپ کو خوش رکھے۔
بے شک خوشی اور اداسی سارے ہی رنگ زندگی کے ہیں ۔ شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک!
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بام و در بھی ہیں میسر مجھے دستار بھی آج
یہ الگ بات کہ سر پر کوئی سایا نہ رہا

خوبصورت
داد قبول کیجیے ظہیر صاحب
بہت شکریہ، جناب شعیبی صاحب ! بہت ممنون ہوں ۔
بزمِ سخن میں خوش آمدید! امید ہے کہ آپ رونق افروز ہوتے رہیں گے۔ بہت شکریہ!
 
مدیر کی آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
سبحان اللہ !

انتہائی خوبصورت!

ایک ایک شعر لاجواب ہے ماشاء اللہ!

بہت داد قبول کیجے ظہیر بھائی! :redheart:
آداب ، آداب! بہت بہت شکریہ ، احمد بھائی! اللّٰہ کریم آپ کو خوش رکھے ۔ دل بڑھادیتے ہیں آپ ۔
اگر یہ غزل میں نوجوانی میں پڑھتا تو شاید ہفتہ بھر اداس رہتا ۔
دو تین دن تو اب بھی اداس رہ سکتے ہیں ۔ ایسی بھی کیا بات ہے ، احمد بھائی ۔ شادی شہدا ہونے کے بعد اداس ہونے کے حقوق غصب تھوڑی ہوجاتے ہیں۔:)
آپ نے ایسا کوئی عہدنامہ لکھ دیا ہو تو الگ بات ہے۔ :D
 

جاسمن

لائبریرین
اللہ اللہ! اتنے پیارے اشعار اور اس قدر دلکش غزل۔
سبحان اللہ!
بہت بہت بہت ۔۔۔ خوب!
لیکن بہت اداس کرنے والی بھی ہے۔ میں ہفتے بھر کے لیے اداس ہونے جا رہی ہوں۔ :D
 
احبابِ کرام ! چند ماہ پہلے یہ ارادہ لے کر عازمِ محفل ہوا تھا کہ پچھلے دو تین سالوں میں جو آٹھ دس تازہ غزلیں اور دو تین نظمیں جمع ہوگئی ہیں انہیں ایک ایک کرکے ہر ہفتے پوسٹ کروں گا لیکن درمیان میں دیگر سرگرمیاں اور دلچسپیاں آڑے آگئیں اورسخن سرائی کا سلسلہ منقطع ہوگیا ۔ اس سلسلے کو اب دوبارہ شروع کرنے کا ارادہ کیا ہے۔ ایک غزل پیشِ خدمت ہے ۔ گر قبول افتد زہے عز و شرف!

***

بزمِ یاراں نہ رہی ، شہرِ تمنا نہ رہا
زندگی تیرا برا ہو ، کوئی میرا نہ رہا

آرزو کاسۂ حسرت میں ڈھلی جاتی ہے
دستِ امید میں باقی کوئی سکہ نہ رہا

تم سے شکوہ نہیں شکوہ ہے زمانے سے مجھے
نہ رہے تم تو کوئی پوچھنے والا نہ رہا

بام و در بھی ہیں میسر مجھے دستار بھی آج
یہ الگ بات کہ سر پر کوئی سایا نہ رہا

اس طرح اپنا بنایا غمِ الفت نے مجھے
غمِ دنیا کو بھی مجھ سے کوئی شکوہ نہ رہا

اٹھ گیا بزمِ مراسم سے دلِ زار بھی اب
ایک بے نام سا ہوتا تھا جو رشتہ ، نہ رہا

بے نوا کر گیا مجھ کو بھی فریبِ دنیا
لبِ ایقان پہ جاری کوئی کلمہ نہ رہا

کیا ملا کارِ مسیحائی سےآخر مجھ کو
غم بھی غیروں کے ہوئے درد بھی اپنا نہ رہا

خوابِ منزل تھے نشاں جس کی مسافت میں ظہیرؔ
ہم سفر مل گئے آخر تو وہ رستہ نہ رہا

***

ظہؔیراحمد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔2022
ظہیر بھائی ، حسب معمول نہایت عمدہ كلام ہے . داد پیش ہے .
 
Top