ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ظہیر بھا ئی
آپ تو سراپا کمال ہیں ۔۔۔۔
لاجواب کلام پر ڈھیروں داد و تحسین
سلامت رہیے ڈھیر ساری دعائیں ۔۔۔بہت دل چاہتا ہے
کلامِ شاعر بازبانِ شاعر سننے کا مشاعرے میں آپکی کمی شدت سے محسوس ہوئی ۔۔۔۔
جیتے رہیے شاد وآباد رہیے آمین۔
بہت بہت شکریہ آپا! ذرہ نوازی ہے ، محبت ہے آپ کی ۔ کمال تو آپ صاحبانِ ذوق کا ہے کہ ان شکستہ الفاظ کو اس قدر نوازتے ہیں ۔
اللہ کریم آپ کو سلامت رکھے ، فلاحِ دارین عطا فرمائے ۔ آمین
سیما آپا ، شعر سنانے کا شوق تو مجھے بھی ہوتا ہے لیکن بس فرصت کی کمی ہے ۔ کام اور گھر کی ذمہ داریاں سب کچھ نچوڑ لیتی ہیں ۔ وقت کہاں جاتا ہے خبر ہی نہیں ہوتی ۔ سو شعر و شاعری کو ترجیحات میں سب سے نیچے ہی رکھا ہوا ہے ۔ کشاکشِ زندگی سے ذرا فراغت ملے تو اس طرف دیکھا جائے گا ۔ دعاؤں کے لئے بہت شکریہ!
 

یاسر شاہ

محفلین
ماشاء اللہ ظہیر بھائی خوبصورت اشعار ہیں۔
صرف باہر نہیں ہے سناٹا
میرے اندر بھی ہُو کا عالم ہے

لمحہ لمحہ بکھر رہا ہوں میں
عکس کیوں آئنے میں باہم ہے

ہاتھ ملتا ہوں خالی دامن ہوں
حاصلِ عمر دام و درہم ہے

ذہن میں اُگ رہے ہیں اندیشے
پھر نئے فیصلوں کا موسم ہے

جو بھی تصویر ہے وہ مدھم ہے
یادِ ماضی شکستہ البم ہے

اک ترا نقش ہے فقط جس پر
گردِ وہم و گمان کم کم ہے

یہ مرا زخم کیوں نہیں بھرتا
تم تو کہتے تھے وقت مرہم ہے

تو نہیں ہے تو کون ہے یہ شخص
جو مری ذات میں مجسّم ہے

تیری خوشبو نہیں تو کیا ہے پھر
میرے انفاس میں جو مدغم ہے

تمہیں مجھ سے گلہ نہیں ہے کوئی
تو پھر آنکھوں میں کیسی شبنم ہے

پردہ داری میں تلخیوں کی ظہیؔر
لفظ کمخواب لہجہ ریشم ہے

تیسری غزل کا تو ہر شعر ایک انتخاب ہے۔لگتا ہے یہی تازہ اشعار ہیں۔
 

صابرہ امین

لائبریرین
احبابِ کرام! ایک سہ غزلہ آپ کے ذوق کی نذر ہے ۔ ان میں کچھ اشعار پرانے ہیں اور کچھ تازہ ۔ چند روز پہلے میردرؔد کا ایک شعر دیکھ کر اپنی ایک پرانی غزل یاد آئی اور پھر کچھ تازہ اشعار اس میں اضافہ ہوئے ۔ امید کہ کچھ اشعار آپ کو ضرور پسند آئیں گے ۔ گر قبول افتد زہے عز و شرف!

٭٭٭
آگہی سو غموں کا اک غم ہے
ایک دل اور ہزار ماتم ہے

جب سے دیکھا ہے چہرۂ ہستی
ہونٹ خاموش ، آنکھ پُر نم ہے

صرف باہر نہیں ہے سناٹا
میرے اندر بھی ہُو کا عالم ہے

لمحہ لمحہ بکھر رہا ہوں میں
عکس کیوں آئنے میں باہم ہے

ہاتھ ملتا ہوں خالی دامن ہوں
حاصلِ عمر دام و درہم ہے

ذہن میں اُگ رہے ہیں اندیشے
پھر نئے فیصلوں کا موسم ہے

٭٭٭

اب کوئی ہم نشیں نہ ہمدم ہے
روز و شب کی بساط برہم ہے

لوگ ملتے ہیں راہ لگتے ہیں
زندگی راستوں کا سنگم ہے

نخلِ خواہش کی ہر کہانی میں
بنتِ حوا ہے ، ابنِ آدم ہے

کیمرا بن گیا ہے آئینہ
آئنوں کا مزاج برہم ہے

رہنما سر فراز ہیں اپنے
سرنگوں ہے تو سبز پرچم ہے

میں وہ پیاسا ہوں جس کی سیرابی
سنگِ اسود ہے آبِ زمزم ہے

٭٭٭

جو بھی تصویر ہے وہ مدھم ہے
یادِ ماضی شکستہ البم ہے

اک ترا نقش ہے فقط جس پر
گردِ وہم و گمان کم کم ہے

یہ مرا زخم کیوں نہیں بھرتا
تم تو کہتے تھے وقت مرہم ہے

تو نہیں ہے تو کون ہے یہ شخص
جو مری ذات میں مجسّم ہے

تیری خوشبو نہیں تو کیا ہے پھر
میرے انفاس میں جو مدغم ہے

تمہیں مجھ سے گلہ نہیں ہے کوئی
تو پھر آنکھوں میں کیسی شبنم ہے

پردہ داری میں تلخیوں کی ظہیؔر
لفظ کمخواب لہجہ ریشم ہے

٭٭٭

ظہیرؔ احمد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۲۰۲۱

ظہیر بھائی، ڈھیروں ڈھیر داد قبول کیجیے۔
سارے ہی اشعار خوبصورت ہیں۔ یہ تو بہت ہی پسند آئے۔

آگہی سو غموں کا اک غم ہے
ایک دل اور ہزار ماتم ہے


صرف باہر نہیں ہے سناٹا
میرے اندر بھی ہُو کا عالم ہے


ہاتھ ملتا ہوں خالی دامن ہوں
حاصلِ عمر دام و درہم ہے

میں وہ پیاسا ہوں جس کی سیرابی
سنگِ اسود ہے آبِ زمزم ہے


یہ مرا زخم کیوں نہیں بھرتا
تم تو کہتے تھے وقت مرہم ہے

کیا شاعری میں بھی کوئی ٹوٹکا وغیرہ چلتا ہے۔ اگر کچھ ہے تو بتایئے۔ اب تو شاعری میں بہتری کا ہر ہر نسخہ آزمانے کا دل کرتا ہے۔ :LOL:
 

La Alma

لائبریرین
نہایت اعلیٰ کلام اور جداگانہ طرزِ نگارش!!!
سہ غزلہ کی صورت میں بہت عمدہ پیشکش ہے۔
سبھی اشعار خوب ہیں۔
اپنی معلومات میں اضافے کے لیے آپ سے ایک معمولی وضاحت درکار ہے۔ کیا اول غزل کے مطلع میں“ہزار ماتم“ کے ساتھ “ہے” کا استعمال درست ہے، ہزار کی مناسبت سے یہاں “ ہیں” کا محل نہیں؟
یا پھر لفظ "آگہی" ہی کا تسلسل دوسرے مصرعے تک ہے۔

میں وہ پیاسا ہوں جس کی سیرابی
سنگِ اسود ہے آبِ زمزم ہے
میری ایک طالب علمانہ رائے ہے اگر گراں خاطر نہ ہو تو۔۔۔اس شعر کے مصرع اولیٰ پر ایک بار نظرِ ثانی کر لیجئے۔
" آب “ کے مقابلے میں “سنگ“ سے بھی پیاس کا بجھ جانا یا سیراب ہونا، قدرے عجیب معلوم ہو رہا ہے۔
یقیناً یہاں سیرابی کی نوعیت مختلف ہوگی اور اگر میں درست سمجھی ہوں تو اس سے مراد ہجرِ اسود کا بوسہ لینا ہے جس کی خواہش ہر مسلمان کے دل میں ہوتی ہے۔ اگر مناسب لگے تو یہی مفہوم الفاظ بدل کر ادا کیجئے۔
ذیل میں ایک تجویز ہے اگر آپ کو بہترمعلوم ہو۔

میری تشنہ لبی مٹانے کو
سنگِ اسود ہے آبِ زمزم ہے

یا پھر اپنے ذوقِ سلیم کے مطابق کچھ اور کہہ کر دیکھیے۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ماشاء اللہ ظہیر بھائی خوبصورت اشعار ہیں۔
تیسری غزل کا تو ہر شعر ایک انتخاب ہے۔لگتا ہے یہی تازہ اشعار ہیں۔

نوازش ، آداب! بہت شکریہ یاسر بھائی ۔ اللہ آپ کو خوش رکھے ۔ اس ذرہ نوازی پر ممنون ہوں ! اہلِ سخن کی طرف سے تحسین بڑی وقعت رکھتی ہے ۔
آپ کا خیال درست ہے ۔ تیسری غزل تمامتر تازہ ہے ۔ اور کچھ تازہ اشعار پہلی اور دوسری غزل میں بھی شامل ہیں ۔
 
آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ظہیراحمدظہیر بھائی۔
بہت خوب۔
بہت عمدہ شاعری۔
سلامت رہیے۔ اللہ تعالٰی آپ پر اپنی رحمتیں نازل فرمائیں۔ آمین۔
ظہیراحمدظہیر بھائی۔
بہت خوب۔
بہت عمدہ شاعری۔
سلامت رہیے۔ اللہ تعالٰی آپ پر اپنی رحمتیں نازل فرمائیں۔ آمین۔
بہت نوازش، بہت شکریہ ساگر بھائی ! اللہ کریم آپ کو سلامت رکھے ۔ بہت ممنون ہوں ۔
 

محمد وارث

لائبریرین
کمال سہ غزلہ ہے ڈاکٹر صاحب، کیا ہی رواں اشعار ہیں، بہت پسند آئے، بالخصوص پہلی غزل کے تو اشعار ایسے ہیں کہ بس دل پر نقش ہو گئے:

آگہی سو غموں کا اک غم ہے
ایک دل اور ہزار ماتم ہے

جب سے دیکھا ہے چہرۂ ہستی
ہونٹ خاموش ، آنکھ پُر نم ہے

صرف باہر نہیں ہے سناٹا
میرے اندر بھی ہُو کا عالم ہے

لمحہ لمحہ بکھر رہا ہوں میں
عکس کیوں آئنے میں باہم ہے

ہاتھ ملتا ہوں خالی دامن ہوں
حاصلِ عمر دام و درہم ہے

ذہن میں اُگ رہے ہیں اندیشے
پھر نئے فیصلوں کا موسم ہے

واہ واہ واہ۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ظہیر بھائی، ڈھیروں ڈھیر داد قبول کیجیے۔
سارے ہی اشعار خوبصورت ہیں۔ یہ تو بہت ہی پسند آئے۔
آگہی سو غموں کا اک غم ہے
ایک دل اور ہزار ماتم ہے
صرف باہر نہیں ہے سناٹا
میرے اندر بھی ہُو کا عالم ہے
ہاتھ ملتا ہوں خالی دامن ہوں
حاصلِ عمر دام و درہم ہے
میں وہ پیاسا ہوں جس کی سیرابی
سنگِ اسود ہے آبِ زمزم ہے
یہ مرا زخم کیوں نہیں بھرتا
تم تو کہتے تھے وقت مرہم ہے

کیا شاعری میں بھی کوئی ٹوٹکا وغیرہ چلتا ہے۔ اگر کچھ ہے تو بتایئے۔ اب تو شاعری میں بہتری کا ہر ہر نسخہ آزمانے کا دل کرتا ہے۔ :LOL:
بہت بہت شکریہ ، کرم نوازی ہے ! اللہ آپ کو خوش رکھے ، شاد و آباد رکھے !
ٹوٹکے سے مراد اگر شارٹ کٹ ہے تو شاعری میں کوئی شارٹ کٹ نہیں ۔ شاعری میں بہتری لانے کے موضوع پر تو تنقید کی کتابیں مضامین سے بھری ہوئی ہیں ۔ اس محفل میں بھی متعدد بار اس پر سیرحاصل گفتگو ہوئی ۔ وقت ملا تو ان دھاگوں کے روابط ڈھونڈ کو پوسٹ کرتا ہوں ۔ مختصراً یہ کہ شاعری کا جوہر قدرت کی طرف سے ددیعت ہوتا ہے یعنی شعری رجحان اور صلاحیت شاعر کی طبیعت میں فطری طور پر موجود ہوتے ہیں ۔ مشق ، مطالعے ، تنقیدی تجزیے اور تربیت سے اس جوہر کو چمکایا جاسکتا ہے ۔ یہ تمام مراحل آپ کتنی دیر میں طے کرتے ہیں یہ آپ کی لگن اور ریاضت پر منحصر ہے ۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
نہایت اعلیٰ کلام اور جداگانہ طرزِ نگارش!!!
سہ غزلہ کی صورت میں بہت عمدہ پیشکش ہے۔
سبھی اشعار خوب ہیں۔
نوازش ، بہت بہت شکریہ لا المٰی! اس قدر افزائی پر ممنون ہوں ۔ اللہ کریم آپ کو خوش رکھے ۔ سخنوروں کی طرف سے داد و تحسین الگ ہی حیثیت رکھتی ہے ۔ بہت ممنون ہوں ۔
اپنی معلومات میں اضافے کے لیے آپ سے ایک معمولی وضاحت درکار ہے۔ کیا اول غزل کے مطلع میں“ہزار ماتم“ کے ساتھ “ہے” کا استعمال درست ہے، ہزار کی مناسبت سے یہاں “ ہیں” کا محل نہیں؟
یا پھر لفظ "آگہی" ہی کا تسلسل دوسرے مصرعے تک ہے۔
ہزار ماتم کہنا نہ صرف درست ہے بلکہ فصیح ہے ۔ آتش کا یہ مشہور شعر آپ کی نظر سے یقیناً گزرا ہوگا:
سفر ہے شرط ، مسافر نواز بہتیرے
ہزار ہا شجرِ سایہ دار راہ میں ہے
اس موضوع پر مزید تفصیل کے لئے میرا یہ مراسلہ اور اس کے نیچے کا مراسلہ ضرور دیکھ لیجئے ۔

میں وہ پیاسا ہوں جس کی سیرابی
سنگِ اسود ہے آبِ زمزم ہے
میری ایک طالب علمانہ رائے ہے اگر گراں خاطر نہ ہو تو۔۔۔اس شعر کے مصرع اولیٰ پر ایک بار نظرِ ثانی کر لیجئے۔
" آب “ کے مقابلے میں “سنگ“ سے بھی پیاس کا بجھ جانا یا سیراب ہونا، قدرے عجیب معلوم ہو رہا ہے۔
یقیناً یہاں سیرابی کی نوعیت مختلف ہوگی اور اگر میں درست سمجھی ہوں تو اس سے مراد ہجرِ اسود کا بوسہ لینا ہے جس کی خواہش ہر مسلمان کے دل میں ہوتی ہے۔ اگر مناسب لگے تو یہی مفہوم الفاظ بدل کر ادا کیجئے۔
ذیل میں ایک تجویز ہے اگر آپ کو بہترمعلوم ہو۔

میری تشنہ لبی مٹانے کو
سنگِ اسود ہے آبِ زمزم ہے

یا پھر اپنے ذوقِ سلیم کے مطابق کچھ اور کہہ کر دیکھیے۔

یہ شعر تو بہت سوچ سمجھ کر لکھا تھا میں نے ۔ آپ اس شعر تک پہنچ بھی گئیں اور نہیں بھی پہنچیں ۔
آپ اس شعر تک اس لحاظ سے تو پہنچ گئیں کہ یہاں مراد سنگِ اسود کا بوسہ لینا ہے اور یقیناً اس شعر میں ایک مختلف قسم کی سیرابی کی بات ہورہی ہے ۔ لیکن آپ پیاس اور سیرابی کے مفاہیم کو درست سمت میں نہیں دیکھ رہیں ۔
تشنہ لبی اور پیاس ہم معنی نہیں ہیں ۔ تشنہ لبی کے معنی تو محدود ہیں یعنی پانی کی پیاس (پیاس سےہونٹوں کا خشک ہونا)۔ اس کے برعکس پیاس اور پیاسا کے معنی بہت وسیع ہیں ۔ ان الفاظ کا اطلاق بہت ساری ضرورتوں پر کیا جاسکتا ہے۔ مثلاً کوئی شخص یوں تو کہہ سکتا ہے کہ میں محبت کا پیاسا ہوں یا مجھے علم کی پیاس ہے لیکن ان مفاہیم کو تشنہ لبی کے الفاظ کی مدد سے بیان نہیں کہا جاسکتا ۔ اسی طرح سیرابی کا لفظ بھی وسیع ہے اور کسی بھی قسم کی تسکین کے لئے عام مستعمل ہے ۔ جیسے فلاں منظر دیکھ کر آنکھیں سیراب ہوگئیں یا فلاں کلام سن کر روح سیراب ہوگئی ۔ وغیرہ وغیرہ ۔
چونکہ اس شعر میں پیاس سے مراد عقیدت اور عبودیت کی تڑپ کا اظہار ہے اسی لئے صرف پیاسا نہیں کہا گیا بلکہ " میں وہ پیاسا ہوں ۔۔۔" کے الفاظ استعمال کئے گئے ۔ یعنی میں اس قسم کا پیاسا ہوں کہ جس کی پیاس سنگِ اسود کو چومنے اور آبِ زمزم نوش کرنے سے سیراب ہوگی ۔ ۔ ظاہر کہ یہ دونوں عمل بذاتِ خود کوئی حیثیت نہیں رکھتے اور استعارے کے طور پر استعمال ہوئے ہیں ۔ مقصد تو ربِّ کعبہ کے آستانے پر حاضری اور سجدہ ریزی ہے کہ یہی عبودیت کی معراج ہے ۔
پیاس ، سیرابی ، سنگِ اسود اور زمزم کے مربوط تلازمات تو شعر کی خوبی میں شمار کئے جائیں گے ۔ مراعات النظیر کی صنعت کہلائیں گے ۔
اس شعر میں پیاس کی جگہ تشنہ لبی لانے سے شعر سطحی ہوجائے گا اور لسانی لحاظ سے غلط بھی ہوجائے گا کہ تشنہ لبی پتھر چومنے سےختم نہیں ہوتی ۔ امید کہ اب اس شعر کی پرتیں کچھ کھل گئی ہونگی ۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
کمال سہ غزلہ ہے ڈاکٹر صاحب، کیا ہی رواں اشعار ہیں، بہت پسند آئے، بالخصوص پہلی غزل کے تو اشعار ایسے ہیں کہ بس دل پر نقش ہو گئے:

آگہی سو غموں کا اک غم ہے
ایک دل اور ہزار ماتم ہے

جب سے دیکھا ہے چہرۂ ہستی
ہونٹ خاموش ، آنکھ پُر نم ہے

صرف باہر نہیں ہے سناٹا
میرے اندر بھی ہُو کا عالم ہے

لمحہ لمحہ بکھر رہا ہوں میں
عکس کیوں آئنے میں باہم ہے

ہاتھ ملتا ہوں خالی دامن ہوں
حاصلِ عمر دام و درہم ہے

ذہن میں اُگ رہے ہیں اندیشے
پھر نئے فیصلوں کا موسم ہے

واہ واہ واہ۔
آداب ، آداب ! بہت شکریہ وارث صاحب! اس پذیرائی اور قدر افزائی کے لئے بہت ممنون ہوں ۔ آپ نے سیروں خون بڑھادیا ۔ سخنوروں کی طرف سےحرفِ تحسین شاعر کا سرمایہ ہوتا ہے ۔ اللہ کریم آپ کو سلامت رکھے! بہت نوازش!
 

صابرہ امین

لائبریرین
بہت بہت شکریہ ، کرم نوازی ہے ! اللہ آپ کو خوش رکھے ، شاد و آباد رکھے !
ٹوٹکے سے مراد اگر شارٹ کٹ ہے تو شاعری میں کوئی شارٹ کٹ نہیں ۔ شاعری میں بہتری لانے کے موضوع پر تو تنقید کی کتابیں مضامین سے بھری ہوئی ہیں ۔ اس محفل میں بھی متعدد بار اس پر سیرحاصل گفتگو ہوئی ۔ وقت ملا تو ان دھاگوں کے روابط ڈھونڈ کو پوسٹ کرتا ہوں ۔ مختصراً یہ کہ شاعری کا جوہر قدرت کی طرف سے ددیعت ہوتا ہے یعنی شعری رجحان اور صلاحیت شاعر کی طبیعت میں فطری طور پر موجود ہوتے ہیں ۔ مشق ، مطالعے ، تنقیدی تجزیے اور تربیت سے اس جوہر کو چمکایا جاسکتا ہے ۔ یہ تمام مراحل آپ کتنی دیر میں طے کرتے ہیں یہ آپ کی لگن اور ریاضت پر منحصر ہے ۔
نہیں نہیں شارٹ کٹ نہیں بلکہ ہر ہر طریقہ مطلب تھا ۔ ( زبیدہ آپا کے ٹوٹکوں کی طرح)اور آپ کو سراہنا بھی مقصود تھا۔ مگر کچھ ٹوٹکوں سے بڑھ کر ہی مل گیا۔ یعنی دھاگوں کے روابط کا عندیہ ۔ ۔ پیشگی شکریہ۔ اللہ آپ کو مزید ترقیوں اور کامیابیوں سے نوازے۔ آمین
 

La Alma

لائبریرین
یہ شعر تو بہت سوچ سمجھ کر لکھا تھا میں نے ۔ آپ اس شعر تک پہنچ بھی گئیں اور نہیں بھی پہنچیں ۔
آپ اس شعر تک اس لحاظ سے تو پہنچ گئیں کہ یہاں مراد سنگِ اسود کا بوسہ لینا ہے اور یقیناً اس شعر میں ایک مختلف قسم کی سیرابی کی بات ہورہی ہے ۔ لیکن آپ پیاس اور سیرابی کے مفاہیم کو درست سمت میں نہیں دیکھ رہیں ۔
تشنہ لبی اور پیاس ہم معنی نہیں ہیں ۔ تشنہ لبی کے معنی تو محدود ہیں یعنی پانی کی پیاس (پیاس سےہونٹوں کا خشک ہونا)۔ اس کے برعکس پیاس اور پیاسا کے معنی بہت وسیع ہیں ۔ ان الفاظ کا اطلاق بہت ساری ضرورتوں پر کیا جاسکتا ہے۔ مثلاً کوئی شخص یوں تو کہہ سکتا ہے کہ میں محبت کا پیاسا ہوں یا مجھے علم کی پیاس ہے لیکن ان مفاہیم کو تشنہ لبی کے الفاظ کی مدد سے بیان نہیں کہا جاسکتا ۔ اسی طرح سیرابی کا لفظ بھی وسیع ہے اور کسی بھی قسم کی تسکین کے لئے عام مستعمل ہے ۔ جیسے فلاں منظر دیکھ کر آنکھیں سیراب ہوگئیں یا فلاں کلام سن کر روح سیراب ہوگئی ۔ وغیرہ وغیرہ ۔
چونکہ اس شعر میں پیاس سے مراد عقیدت اور عبودیت کی تڑپ کا اظہار ہے اسی لئے صرف پیاسا نہیں کہا گیا بلکہ " میں وہ پیاسا ہوں ۔۔۔" کے الفاظ استعمال کئے گئے ۔ یعنی میں اس قسم کا پیاسا ہوں کہ جس کی پیاس سنگِ اسود کو چومنے اور آبِ زمزم نوش کرنے سے سیراب ہوگی ۔ ۔ ظاہر کہ یہ دونوں عمل بذاتِ خود کوئی حیثیت نہیں رکھتے اور استعارے کے طور پر استعمال ہوئے ہیں ۔ مقصد تو ربِّ کعبہ کے آستانے پر حاضری اور سجدہ ریزی ہے کہ یہی عبودیت کی معراج ہے ۔
پیاس ، سیرابی ، سنگِ اسود اور زمزم کے مربوط تلازمات تو شعر کی خوبی میں شمار کئے جائیں گے ۔ مراعات النظیر کی صنعت کہلائیں گے ۔
اس شعر میں پیاس کی جگہ تشنہ لبی لانے سے شعر سطحی ہوجائے گا اور لسانی لحاظ سے غلط بھی ہوجائے گا کہ تشنہ لبی پتھر چومنے سےختم نہیں ہوتی ۔ امید کہ اب اس شعر کی پرتیں کچھ کھل گئی ہونگی ۔

آپ کی قادر الکلامی اور غزل گوئی کے اسلوب کی تو میں بہت معترف رہی ہوں۔ ویسے بھی آپ کی مصرع سازی، اور شعر کی بنت نہایت عمدہ ہوتی ہے۔ یقیناً یہ ایک خداداد صلاحیت ہے جو ہر کسی کو ودیعت نہیں ہوتی۔
آپ کے مذکورہ شعر میں ابلاغ کا تو کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ ایک قاری کے زاویہء نگاہ سے یہ فقط میری ذاتی رائے تھی جو بلا کسی تردد آپ کے گوش گزار کر دی۔:)
ہزار ماتم کہنا نہ صرف درست ہے بلکہ فصیح ہے ۔ آتش کا یہ مشہور شعر آپ کی نظر سے یقیناً گزرا ہوگا:
سفر ہے شرط ، مسافر نواز بہتیرے
ہزار ہا شجرِ سایہ دار راہ میں ہے
اس موضوع پر مزید تفصیل کے لئے میرا یہ مراسلہ اور اس کے نیچے کا مراسلہ ضرور دیکھ لیجئے ۔
یہ مراسلہ پہلے میری نظر سے نہیں گزر سکا۔اس موضوع پر تو حال ہی میں گفتگو ہو چکی ہے۔
جہاں تک آتش کے اس شعر کا تعلق ہے، میں نے اسے ہمیشہ شاعر کی شعری ضرورت اور ردیف کی مجبوری ہی خیال کیا تھا۔ ایسا کوئی اصول بھی ہے اس سے پیشتر میرے علم میں نہیں تھا۔
آپ کے تفصیلی جواب کے لیے بہت شکریہ۔
جزاک اللہ!!
 

جاسمن

لائبریرین
اللہ اکبر!!!
اتنی پیاری غزلیں!!!
اس قدر خوبصورت اشعار
ایک سے بڑھ کے ایک۔ ہر شعر پہ نظر ٹکتی ہے۔ اگلا شعر پہلے سے بڑھ کے معلوم ہوتا ہے۔ پھر سے پڑھیں تو لگتا ہے کہ نہیں پچھلا شعر زیادہ پیارا تھا۔ بس یہی کہوں گی کہ ہر شعر ایک الگ سیارہ ہے۔ اپنی اپنی خوبصورتی، اپنے اپنے گہرے معانی لیے۔
ماشاءاللہ اللہ پاک نے آپ کو بہت نوازا ہے۔ بہت دیا ہے۔ اللہ نظر بد سے پناہ دے۔ کامل ایمان، کامل صحت، بھرپور خوشیوں اور آسانیوں والی لمبی عمر عطا فرمائے۔ آمین!
ثم آمین!
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
آپ کے مذکورہ شعر میں ابلاغ کا تو کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ ایک قاری کے زاویہء نگاہ سے یہ فقط میری ذاتی رائے تھی جو بلا کسی تردد آپ کے گوش گزار کر دی۔:)
مجھے بہت خوشی ہوئی کہ آپ نے اشعار کو توجہ سے دیکھا ۔ آپ کی اور ہر قاری کی رائے کا احترام واجب ہے ۔ محفل میں کلام پوسٹ کرنے کامقصد ہی یہی ہوتا ہے کہ آپ صاحبانِ علم و ہنر اس پر گفتگو کریں اور نقد و نظر سے نوازیں ۔ اس کے لئے آپ کا شکریہ واجب ہے۔
 
Top