آپ اسوقت کیا سوچ رہے ہیں ؟ ۔۔۔۔۔۔۔(9)

سید عاطف علی

لائبریرین
بیگم کو یہ واقعہ سنایا اس نے کہا کہ لڑکے ایسے کرتوتوں کے لئے مشہور ہیں۔ اس وقت آپ کی عمر کیا تھی؟
نوکری سے واپس آرہا تھا ۔ننانوے کی بات ہے عمر کوئی پچیس کی ہو گی ۔ میرے کرتوت تو کبھی ایسے رہے بھی نہیں جن کا یہ ثمرہ ہو، مجبوری تھی ۔
 

زیک

مسافر
ہمارے کہنے سے کیوں؟ ہم نے ادھر ادھر سے سنی بات گوش گزار کی۔ آپ تجربہ کر کے اپنے تاثرات بیان کریں نا۔
اوہ میں نے تو اس لئے مان لی تھی کہ آپ نے تجربے کی بنیاد پر کہی ہو گی۔ یہ علم نہ تھا کہ آپ ادھر ادھر کی باتیں بھی پھیلاتی ہیں
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
اوہ میں نے تو اس لئے مان لی تھی کہ آپ نے تجربے کی بنیاد پر کہی ہو گی۔ یہ علم نہ تھا کہ آپ ادھر ادھر کی باتیں بھی پھیلاتی ہیں
لو بھلا ہم کاہے کو ایسے تجربے کرنے لگے۔
جو پھیلائی جاتی ہیں وہ افواہیں ہوتی ہیں اور جو بتائی جاتی ہیں وہ باتیں ہوتی ہیں۔ ہم نے بتائی تھی بات، اور ہر بات کو پرکھ لینا چاہئیے خود۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
ایسی حرکت کے لئے یہ عمر نامناسب معلوم ہوتی ہے
واقعہ لکھ دینے کو جی چاہتا ہے اٹھانوے یا ننانوے کا ذکر ہے۔
یہ اس وقت کی بات ہے جب ہماری پہلی کمپنی کا آفس کلفٹن میں تھا ۔ اور کراچی کی فیلڈ کی نوکری تھی ، کئی کمپنیوں اور ہوٹلوں میں جانا ہوتا تھا جہاں جہاں کمپنی کے ٹیلیفون ایکسچینجز ہوتے تھے ۔ کراچی اواری ٹاورز لالہ زار کے بیچ لگژری ہوٹل ہمارے کارپوریٹ گاہکوں میں سے تھے۔ گھر سے آفس اور آفس سے گھر ہی بائیک پر پچاس کلومیٹر کی رائیڈ ہو جاتی تھی (اوپر سے یہ کراچی کی سڑکوں سے نبرد آزما ہونے کی مہمات تھیں ) ۔اس پر طرہ یہ اوپر سے سائٹوں اور دور دراز کے علاقوں میں جانا بھی ارطغرل کی گھڑ سواری سے کم نہ تھا۔ خیر اس عمر میں یہ چیزین اتنی اہم نہ تھیں ۔
ایک دن بیچ لگژری ہوٹل سے کچھ کمپلین درست کر کے گھر آئے تھے کہ تھوڑی ہی دیر میں یا شاید چند گھنٹوں میں پھر کمپلین آگئی منیجر صاحب نے حکم صادر فرمادیا اس زمانے میں کمپنی نے ایک موبائل بھی دیا ہوا تھا ننانوے میں موبائل گنے چنے لوگوں کے پاس ہوتا تھا ۔ پھر کیا تھا ارطغرل غازی نے سی ڈی سیونٹی کی لگام تھامی اور سارے دن کے تھکے ماندے پھر مہم پر روانہ ہو گئے ۔ سرکش سسٹم ایسا بدکا تھا کہ عمومی ٹوٹکوں سے کنٹرول میں نہ آتا تھا ۔ خیر چند گھنٹوں کی مسلسل تگ دو سے اسے زیر کیا بلکہ زیر تو تھا ہی اسے زبر کیا، اور یوں ہو بیچ لگژری ہوٹل کے ٹیلی کام نظام کی رگوں میں جامد شدہ خون خوشی سے مارے دوڑنے لگا ۔ ڈیسکوں پر لگے فون گھنٹیوں کی موسیقی سے تھرتھرانے لگے مہمانوں ااور میزبانوں کے چہرے کھل اٹھے اور جام ٹکرانے لگے ۔ سماں ابھی بندھا ہی چاہتا تھا کہ ہم نے میزبانوں سے اجازت چاہی ۔ میزبانوں نے بہتیرا روکا کہ رات کے اس درمیانے پہر کہاں جائیں گے میزبانی کا موقع دیں اور ایک کمرے میں امن و امان سے قیام فرمائیں ۔ ہمارے معصوم ذہن میں بار بار حالیہ بندھا سماں اپنے مہیب جلوووں سے خوف طاری کر رہا تھا سو عافیت اسی میں جانی کہ گھر کی راہ لی جائے ، حالانکہ مناسب نہ تھا کہ دن بھر کے کام کی تھکن اور نصف رات کی جدوجہد کے بعد پندہ بیس میل کا مزید قصد کیا جائے ۔ لیکن ارطغرل غازی کے عزم کے آگے یہ مصلحت کہاں ٹھہرنے والی تھی ۔ اپنے سی ڈی سیونٹی کی لگام پھر تھامی اور ایڑ لگا دی۔ ابھی ارطغرل غازی کچھ سڑکوں کو عبور کر کے گلشن اقبال یونیورسٹی روڈ پر اردو سائنس کالج (جو اب یونیورسٹیکا درجہ پا چکا ہے) کے سامنے بنے اوور ہیڈ برج کی اونچائی تک پہنچا تھا کہ ٹھنڈی ہواؤں کے خوشگوار جھونکوں نے گھوڑے کی لگام پر سے گرفت کو کمزور کر دیا ۔ یہ تو سی ڈی سیونٹی کی سمجھداری تھی کہ گرفت کی کمزوری کے ساتھ رفتار بھی مدھم پڑ گئی ۔ عین پل کے وسط پہنچا تھا کہ نیند نے آخری جھونکے نے حواس مکمل طور پر چھین لیے ۔اور دھڑام سے ارطغرل غازی سڑک کی ایک طرف زمین پر آرہے ۔ دائیں بائیں دیکھا اور کہنی سہلائی گھوڑے کا معائنہ کیا محض ایک انڈیکیٹر توٹا تھا اور کچھ خاص زخم بھی نہ تھا ۔
اس نیند کے جھونکے نے جو حواس چھینے تھے وہ قسمت نے سقوط ِارطغرل کے ہاتھوں واپس لوٹائے اور ساتھ ہی نیند کا غلبہ ٹوٹ کے چکنا چور ہو گیا اور یوں گھر کی راہ لی ۔
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
دائیں بائیں دیکھا اور کہنی سہلائی گھوڑے کا معائنہ کیا محض ایک انڈیکیٹر توٹا تھا اور کچھ خاص زخم بھی نہ تھا ۔
دائیں بائیں اس لئے دیکھا ہو گا کہ کسی نے دیکھا تو نہیں؟ یا اس لئے کہ کوئی سہارا دے کر اٹھائے؟

اور کچھ خاص زخم بھی نہ تھا۔۔۔ یہ گھوڑے کے بارے بتا رہے ہیں یا گھڑ سوار کے لئے؟
 

سید عاطف علی

لائبریرین
دائیں بائیں اس لئے دیکھا ہو گا کہ کسی نے دیکھا تو نہیں؟ یا اس لئے کہ کوئی سہارا دے کر اٹھائے؟
دائین بائیں دیکھنا اس بات کی دلیل ہے کہ کچھ خاص چوٹ نہیں تھی اور یہ کہ کس کس نے یہ دلخراش منظر دیکھا،
نہ گھوڑے کو نہ سوار کو ۔ویسے بھی رات کے دو تین بجے ارطغرل صاحب ایک گیلپ کرتے گھوڑے پر فراٹے بھر رہے تھے کوئی آدم زاد تماشائی نہ تھا اس سناٹے میں ،
 

زیک

مسافر
دائیں بائیں اس لئے دیکھا ہو گا کہ کسی نے دیکھا تو نہیں؟ یا اس لئے کہ کوئی سہارا دے کر اٹھائے؟

اور کچھ خاص زخم بھی نہ تھا۔۔۔ یہ گھوڑے کے بارے بتا رہے ہیں یا گھڑ سوار کے لئے؟
کہانی اے خان کی ہوتی تو دائیں بائیں دیکھنے سے حلیمہ خاتون مل جاتی
 
واقعہ لکھ دینے کو جی چاہتا ہے اٹھانوے یا ننانوے کا ذکر ہے۔
یہ اس وقت کی بات ہے جب ہماری پہلی کمپنی کا آفس کلفٹن میں تھا ۔ اور کراچی کی فیلڈ کی نوکری تھی ، کئی کمپنیوں اور ہوٹلوں میں جانا ہوتا تھا جہاں جہاں کمپنی کے ٹیلیفون ایکسچینجز ہوتے تھے ۔ کراچی اواری ٹاورز لالہ زار کے بیچ لگژری ہوٹل ہمارے کارپوریٹ گاہکوں میں سے تھے۔ گھر سے آفس اور آفس سے گھر ہی بائیک پر پچاس کلومیٹر کی رائیڈ ہو جاتی تھی (اوپر سے یہ کراچی کی سڑکوں سے نبرد آزما ہونے کی مہمات تھیں ) ۔اس پر طرہ یہ اوپر سے سائٹوں اور دور دراز کے علاقوں میں جانا بھی ارطغرل کی گھڑ سواری سے کم نہ تھا۔ خیر اس عمر میں یہ چیزین اتنی اہم نہ تھیں ۔
ایک دن بیچ لگژری ہوٹل سے کچھ کمپلین درست کر کے گھر آئے تھے کہ تھوڑی ہی دیر میں یا شاید چند گھنٹوں میں پھر کمپلین آگئی منیجر صاحب نے حکم صادر فرمادیا اس زمانے میں کمپنی نے ایک موبائل بھی دیا ہوا تھا ننانوے میں موبائل گنے چنے لوگوں کے پاس ہوتا تھا ۔ پھر کیا تھا ارطغرل غازی نے سی ڈی سیونٹی کی لگام تھامی اور سارے دن کے تھکے ماندے پھر مہم پر روانہ ہو گئے ۔ سرکش سسٹم ایسا بدکا تھا کہ عمومی ٹوٹکوں سے کنٹرول میں نہ آتا تھا ۔ خیر چند گھنٹوں کی مسلسل تگ دو سے اسے زیر کیا بلکہ زیر تو تھا ہی اسے زبر کیا، اور یوں ہو بیچ لگژری ہوٹل کے ٹیلی کام نظام کی رگوں میں جامد شدہ خون خوشی سے مارے دوڑنے لگا ۔ ڈیسکوں پر لگے فون گھنٹیوں کی موسیقی سے تھرتھرانے لگے مہمانوں ااور میزبانوں کے چہرے کھل اٹھے اور جام ٹکرانے لگے ۔ سماں ابھی بندھا ہی چاہتا تھا کہ ہم نے میزبانوں سے اجازت چاہی ۔ میزبانوں نے بہتیرا روکا کہ رات کے اس درمیانے پہر کہاں جائیں گے میزبانی کا موقع دیں اور ایک کمرے میں امن و امان سے قیام فرمائیں ۔ ہمارے معصوم ذہن میں بار بار حالیہ بندھا سماں اپنے مہیب جلوووں سے خوف طاری کر رہا تھا سو عافیت اسی میں جانی کہ گھر کی راہ لی جائے ، حالانکہ مناسب نہ تھا کہ دن بھر کے کام کی تھکن اور نصف رات کی جدوجہد کے بعد پندہ بیس میل کا مزید قصد کیا جائے ۔ لیکن ارطغرل غازی کے عزم کے آگے یہ مصلحت کہاں ٹھہرنے والی تھی ۔ اپنے سی ڈی سیونٹی کی لگام پھر تھامی اور ایڑ لگا دی۔ ابھی ارطغرل غازی کچھ سڑکوں کو عبور کر کے گلشن اقبال یونیورسٹی روڈ پر اردو سائنس کالج (جو اب یونیورسٹیکا درجہ پا چکا ہے) کے سامنے بنے اوور ہیڈ برج کی اونچائی تک پہنچا تھا کہ ٹھنڈی ہواؤں کے خوشگوار جھونکوں نے گھوڑے کی لگام پر سے گرفت کو کمزور کر دیا ۔ یہ تو سی ڈی سیونٹی کی سمجھداری تھی کہ گرفت کی کمزوری کے ساتھ رفتار بھی مدھم پڑ گئی ۔ عین پل کے وسط پہنچا تھا کہ نیند نے آخری جھونکے نے حواس مکمل طور پر چھین لیے ۔اور دھڑام سے ارطغرل غازی سڑک کی ایک طرف زمین پر آرہے ۔ دائیں بائیں دیکھا اور کہنی سہلائی گھوڑے کا معائنہ کیا محض ایک انڈیکیٹر توٹا تھا اور کچھ خاص زخم بھی نہ تھا ۔
اس نیند کے جھونکے نے جو حواس چھینے تھے وہ قسمت نے سقوط ِارطغرل کے ہاتھوں واپس لوٹائے اور ساتھ ہی نیند کا غلبہ ٹوٹ کے چکنا چور ہو گیا اور یوں گھر کی راہ لی ۔
بھئی ہمت تو آپکی تیس کم سو کی بھی ہوئی نا ،جس نے چوٹ کھا کر بھی اپکو گھر پہنچا دیا۔گھر آکر تو خوب نیند آئی ہو گی۔
 
سوچ رہی ہوں کہ ٹیکنالوجی عروج پر پہنچ چکی ہے کچھ ملکوں کے پاس روپیہ بھی بھی وافر مقدار میں ہے تو کوئی چاند پر کیوں نہیں جارہا؟
 

سید عاطف علی

لائبریرین
سوچ رہی ہوں کہ ٹیکنالوجی عروج پر پہنچ چکی ہے کچھ ملکوں کے پاس روپیہ بھی بھی وافر مقدار میں ہے تو کوئی چاند پر کیوں نہیں جارہا؟
اگلے چار پانچ سالوں میں چاند پر جانے والے کئی منصوبے طے شدہ ہیں جس میں انسانی اور مشینی دونوں طرح کے منصوبے شامل ہیں ۔
 
Top