سقوطِ ڈھاکہ اور "قومی ترانہ"

ویسے مشرقی اور مغربی پاکستان میں لسانی اور ثقافتی دوری اپنی جگہ ایک حقیقت تھی اور ان دو باتوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس کا بہترین حل یہی ہوتا کہ دونوں بطورِ ریاست انتظام ِ مملکت سنبھالتی اور وفاقی کے درجے پر ایک دوسرے سے جُڑی رہتیں۔ اور آپس میں باہمی اتفاق سے معاملات طے کر لیے جاتے۔

لیکن پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ اسے مخلص لوگ (بالخصوص لیڈر) بہت ہی کم ملے۔ اور جو مخلص نہ ہو اُ س سے کسی بھلائی کی توقع کیونکر کی جا سکتی ہے۔
اور ہم اسے ریاستہائے متحدہ پاکستان کہا کرتے۔ :)
 

محمد وارث

لائبریرین
ویسے مشرقی اور مغربی پاکستان میں لسانی اور ثقافتی دوری اپنی جگہ ایک حقیقت تھی اور ان دو باتوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس کا بہترین حل یہی ہوتا کہ دونوں بطورِ ریاست انتظام ِ مملکت سنبھالتی اور وفاقی کے درجے پر ایک دوسرے سے جُڑی رہتیں۔ اور آپس میں باہمی اتفاق سے معاملات طے کر لیے جاتے۔

لیکن پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ اسے مخلص لوگ (بالخصوص لیڈر) بہت ہی کم ملے۔ اور جو مخلص نہ ہو اُ س سے کسی بھلائی کی توقع کیونکر کی جا سکتی ہے۔
اصل میں یہ کچھ ایسا ہی معاملہ ہے کہ "خشتِ اول چوں نہد معمار کج۔۔۔۔۔"، تقسیم کے وقت بنگال کو تقسیم کر کے مغربی پاکستان کے ساتھ ملانا ٹیرھی بنیاد رکھنے کے مترادف تھا۔ قائد اعظم بھی اور کئی ایک بنگالی لیڈر بھی مشترکہ بنگال کی صورت میں بنگال کو ایک خود مختار علیحدہ مملکت بنانے پر راضی تھے لیکن اس پر ہندو راضی نہیں تھے، کلکتہ سونے کی چڑیا تھا اور کلکتے کے بغیر باقی ماندہ بنگال اقتصادی طور پر بالکل ہی صفر تھا۔ پھر لا تعداد مسائل تھے، زبان کا مسئلہ جناح علیہ الرحمہ کی زندگی ہی میں سامنے آ گیا اور بعد میں معاشی استحصال نے رہی سہی کسر پوری کر دی، ایسا ہونا ہی تھا لیکن جس صورت میں ہوا اس سے بہتر صورت میں بھی ہو سکتا تھا۔
 

جاسم محمد

محفلین
اس اقتدار کے کھیل میں "تین ہاتھوں" سے تالیاں بجائی جا رہی تھیں۔ جنرل یحییٰ کسی طور اقتدار چھوڑنے کو تیار نہیں تھا، حتیٰ کہ سقوطِ ڈھاکہ کے بعد بھی وہ کہتا رہا کہ مجھے کیوں نکالا جا رہا ہے، میں نے کیا کیا ہے؟
لیکن شیخ مجیب کو اکثریت حاصل تھی سو وہ حق پر ہوئے۔
جی نظریاتی طور پر آپ درست کہتے ہیں۔ لیکن شیخ جی کی چھ نکات بھی بس یوں سمجھیے کہ مشترکہ پاکستان کا خاتمہ ہی تھا، شاید کچھ بعد میں ہوجاتا۔
بنگالی ہم سے بوجوہ بددِل ہو چُکے تھے مگر وُہ ہندوستان کا حِصہ نہیں بنے جو ثابت کرتا ہے کِہ یِہ جنگ اپنے حقوق حاصل کرنے کی تھی جِس میں وُہ کامیاب ہو گئے۔
سقوط ڈھاکہ کی جڑیں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح اسی وقت لگا آئے تھے جب انہوں نے صرف اردو کو قومی زبان کا درجہ دیا تھا۔ اور اس پالیسی سے انحراف کرنے والوں کو ملک دشمن کہا تھا۔ اسی سخت پالیسی کے تسلسل کی وجہ سے اگلے صوبائی اور قومی الیکشنز میں پاکستان بنانے والی جماعت مسلم لیگ مشرقی پاکستان سے الیکشن ہارتی چلی گئی اور اس کی جگہ بنگالی قوم پرست جماعت عوامی لیگ نے لے لی:
03-D3799-D-2790-4-DCE-AE27-E4300135-BA00.jpg

Bengali language movement - Wikipedia

باقی ۱۹۷۰ کے انتخابات صدر یحیی کے ایل ایف او آرڈر کے تحت منعقد ہوئے تھے۔ جس میں انتقال اقتدار الیکشن جیتنے والے مجیب الرحمان کو ہی ہونا تھا۔ یوں وہ اپنی دو تہائی اکثریت کے ساتھ مغربی پاکستان کو خاطر میں لائے بغیر ملک کا نیا آئین بنا سکتے تھے۔ اگر ایسا ہو جاتا تو عین ممکن ہے کچھ سال بعد آزادی کی تحریک مغربی پاکستان میں چل رہی ہوتی :)
Legal Framework Order, 1970 - Wikipedia
 

جاسم محمد

محفلین
اس کا بہترین حل یہی ہوتا کہ دونوں بطورِ ریاست انتظام ِ مملکت سنبھالتی اور وفاقی کے درجے پر ایک دوسرے سے جُڑی رہتیں۔ اور آپس میں باہمی اتفاق سے معاملات طے کر لیے جاتے۔
اور ہم اسے ریاستہائے متحدہ پاکستان کہا کرتے۔ :)
سقوط ڈھاکہ کے بعد جب مجیب الرحمان کو رہا کر کے لایا گیا تو بھٹو نے یہ تجویز پیش کی تھی کہ مشرقی و مغربی پاکستان کو ایک فیڈریشن سے کانفڈریشن بنا دیتے ہیں۔ لیکن مجیب الرحمان نہیں مانے جس پر پاکستان نے بنگلہ دیش کو آزاد و خود مختار ریاست تسلیم کر لیا :(
 

بابا-جی

محفلین
سقوط ڈھاکہ کی جڑیں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح اسی وقت لگا آئے تھے جب انہوں نے صرف اردو کو قومی زبان کا درجہ دیا تھا۔ اور اس پالیسی سے انحراف کرنے والوں کو ملک دشمن کہا تھا۔ اسی سخت پالیسی کے تسلسل کی وجہ سے اگلے صوبائی اور قومی الیکشنز میں پاکستان بنانے والی جماعت مسلم لیگ مشرقی پاکستان سے الیکشن ہارتی چلی گئی اور اس کی جگہ بنگالی قوم پرست جماعت عوامی لیگ نے لے لی:
03-D3799-D-2790-4-DCE-AE27-E4300135-BA00.jpg

Bengali language movement - Wikipedia

باقی ۱۹۷۰ کے انتخابات صدر یحیی کے ایل ایف او آرڈر کے تحت منعقد ہوئے تھے۔ جس میں انتقال اقتدار الیکشن جیتنے والے مجیب الرحمان کو ہی ہونا تھا۔ یوں وہ اپنی دو تہائی اکثریت کے ساتھ مغربی پاکستان کو خاطر میں لائے بغیر ملک کا نیا آئین بنا سکتے تھے۔ اگر ایسا ہو جاتا تو عین ممکن ہے کچھ سال بعد آزادی کی تحریک مغربی پاکستان میں چل رہی ہوتی :)
Legal Framework Order, 1970 - Wikipedia
جو جِدھر مقیم ہوں، اُن کو ہی حقِ حُکمرانی مِلنا چاہیے یا اُنہیں حصہ بقدر جثہ ریاستی اُمور میں شریک رکھنا چاہیے۔
 
سقوط ڈھاکہ کے بعد جب مجیب الرحمان کو رہا کر کے لایا گیا تو بھٹو نے یہ تجویز پیش کی تھی کہ مشرقی و مغربی پاکستان کو ایک فیڈریشن سے کانفڈریشن بنا دیتے ہیں۔ لیکن مجیب الرحمان نہیں مانے جس پر پاکستان نے بنگلہ دیش کو آزاد و خود مختار ریاست تسلیم کر لیا :(
دیر ہو چکی تھی۔ خیر اب اگر مگر کوئی معنی نہیں رکھتی۔ :)
 

جاسم محمد

محفلین
جو جِدھر مقیم ہوں، اُن کو ہی حقِ حُکمرانی مِلنا چاہیے یا اُنہیں حصہ بقدر جثہ ریاستی اُمور میں شریک رکھنا چاہیے۔
دیر ہو چکی تھی۔ خیر اب اگر مگر کوئی معنی نہیں رکھتی۔ :)
پاکستان کو اگر ۱۹۴۷ میں ہی کانفڈریشن بنا دیا جاتا تو بعد میں ون یونٹ سکیم اور سقوط ڈھاکہ جیسے تلخ تجربات و سانحات سے نہ گزرنا پڑتا۔ پاکستانی عوام نے ہمیشہ صوبائی خود مختاری کو قومی خود مختاری پر فوقیت دی ہے۔ فیڈریشن وہاں چل سکتی ہے جہاں کئی صدیوں بعد ایک قومی اکائی وجود میں آ چکی ہو۔ پاکستان جیسی نئی نویلی قوم کو آج بھی کانفڈریشن سسٹم ہی سوٹ کرتا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
غلطیوں سے تو اگر مگر کیے بغیر سیکھا جا سکتا ہے۔ :)
پاکستان میں غلطی کرنے والے کو این آر او دیا جاتا ہے، سبق سیکھا یا سکھایا نہیں جاتا۔ ایوب، ضیا، مشرف نے آئین توڑا، کوئی سزا نہیں دی گئی۔ مشرف کو ایمرجنسی لگانے کی سزا ملی اور جس عدالت نے سزا سنائی اس عدالت کو ہی سزائے موت دے دی گئی۔
سقوط ڈھاکہ کے ذمہ داران کو حمود الرحمان کمیشن میں بے نقاب کیا گیا تھا۔ جمہوری انقلابی بھٹو کو جب یہ رپورٹ ملی تو اس نے اسے چھاپنے کی بجائے کسی سرد خانے میں چھپا دیا۔ آج تک یہ مکمل رپورٹ کہیں دستیاب نہیں ہے۔
پاکستان کے کرتا دھرتا ہر بڑا جرم کرنے والے کو این آر او دے دیتے ہیں اور چھوٹے چھوٹے مجرموں کو سالہا سال جھوٹے کیسز میں جیل میں بند رکھتے ہیں۔ ان حالات میں کوئی اصلاح ممکن نہیں۔
 

احسن جاوید

محفلین
سقوطِ ڈھاکہ تو محض ہمارے لیے ہے جیسے پارٹیشن آف انڈیا ہندوستان میں رہنے والوں کے لیے۔ جس جواز پہ ہم نے پاکستان حاصل کیا اسی جواز پہ بنگالیوں نے بنگلہ دیش حاصل کیا۔ جو ہم اپنے لیے پسند کرتے ہیں دوسروں کے لیے بھی کرنا چاہیے۔ جلد یا بدیر یہ ہونا ہی تھا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
سقوطِ ڈھاکہ تو محض ہمارے لیے ہے جیسے پارٹیشن آف انڈیا ہندوستان میں رہنے والوں کے لیے۔ جس جواز پہ ہم نے پاکستان حاصل کیا اسی جواز پہ بنگالیوں نے بنگلہ دیش حاصل کیا۔ جو ہم اپنے لیے پسند کرتے ہیں دوسروں کے لیے بھی کرنا چاہیے۔ جلد یا بدیر یہ ہونا ہی تھا۔
جلد یا بدیر یہ ہونا ہی تھا۔

لیکن ایک بنیادی فرق آپ صرفِ نظر کر رہے ہیں۔ موجودہ پاکستانی علاقے کبھی عوام کے ووٹوں ذریعے اور اپنی مرضی سے ہندوستان کے ساتھ نہیں ملے تھے لیکن بنگلہ دیش کے لوگ ہم سے الگ ہونے سے صرف 24 سال پہلے باقاعدہ ووٹوں کے ذریعے اور اپنی مرضی سے پاکستان کے ساتھ شامل ہوئے تھے۔ جون 1947ء میں متحدہ بنگال اسمبلی کی اکثریتی رائے سے اور مشرقی بنگال سے تعلق رکھنے والوں اسمبلی ارکان کی بھاری اکثریت کی رائے سے مشرقی بنگال پاکستان کے ساتھ شامل ہوا تھاجب کہ سلہٹ میں ریفرنڈم ہوا تھا اور اس سے انہوں نے پاکستان میں شمولیت اختیار کی تھی!
 

جاسم محمد

محفلین
جلد یا بدیر یہ ہونا ہی تھا۔

لیکن ایک بنیادی فرق آپ صرفِ نظر کر رہے ہیں۔ موجودہ پاکستانی علاقے کبھی عوام کے ووٹوں اور اپنی مرضی کے ساتھ ہندوستان کے ساتھ نہیں ملے تھے لیکن بنگلہ دیش کے لوگ ہم سے الگ ہونے سے صرف 24 سال پہلے باقاعدہ ووٹوں کے ذریعے اور اپنی مرضی سے پاکستان کے ساتھ شامل ہوئے تھے۔ جون 1947ء میں متحدہ بنگال اسمبلی کی اکثریتی رائے سے اور مشرقی بنگال سے تعلق رکھنے والوں اسمبلی ارکان کی بھاری اکثریت کی رائے سے مشرقی بنگال پاکستان کے ساتھ شامل ہوا تھاجب کہ سلہٹ میں ریفرنڈم ہوا تھا اور اس سے انہوں نے پاکستان میں شمولیت اختیار کی تھی!
یہی تو المیہ ہے کہ پاکستان بنانے والے بنگالی محض ۲۴ سال بعد پاکستان سے ہی الگ ہو گئے۔ :(
 

احسن جاوید

محفلین
جلد یا بدیر یہ ہونا ہی تھا۔

لیکن ایک بنیادی فرق آپ صرفِ نظر کر رہے ہیں۔ موجودہ پاکستانی علاقے کبھی عوام کے ووٹوں ذریعے اور اپنی مرضی سے ہندوستان کے ساتھ نہیں ملے تھے لیکن بنگلہ دیش کے لوگ ہم سے الگ ہونے سے صرف 24 سال پہلے باقاعدہ ووٹوں کے ذریعے اور اپنی مرضی سے پاکستان کے ساتھ شامل ہوئے تھے۔ جون 1947ء میں متحدہ بنگال اسمبلی کی اکثریتی رائے سے اور مشرقی بنگال سے تعلق رکھنے والوں اسمبلی ارکان کی بھاری اکثریت کی رائے سے مشرقی بنگال پاکستان کے ساتھ شامل ہوا تھاجب کہ سلہٹ میں ریفرنڈم ہوا تھا اور اس سے انہوں نے پاکستان میں شمولیت اختیار کی تھی!
تو سر اپنی مرضی ہی تو اصل میں کسی بھی نیشن کا وہ حق ہے کہ جس کی بنیاد پہ وہ چاہے تو کسی سٹیٹ سے الحاق کر لے اور چاہے تو اس سے الگ ہو جائے۔ اپنی مرضی سے پاکستان کا حصہ بننے میں کوئی ایسا جواز نہیں ہے جس کی بنیاد پہ کوئی یہ دعویٰ کر سکے کہ اب آپ الگ ہونے کی مرضی (حق) استعمال نہیں کر سکتے۔ آنے والے حالات سے شاید بنگالی بے خبر تھے کہ ہمارے ساتھ یہ سلسلہ ہونا ہے یا شاید اس خام خیالی میں تھے کہ ہم نے ہی رول کرنا ہے لیکن ہوا اس کا الٹ۔
 

زوجہ اظہر

محفلین
یقینا سقوط ڈھاکہ ایک دلخراش واقعہ

ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی مداراتوں کے بعد
پھر بنیں گے آشنا کتنی ملاقاتوں کے بعد

کب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہار
خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد

عمدہ
اسی پس منظر میں لکھی ہوئی نصیر ترابی کی مشہور زمانہ غزل
وہ ہمسفر تھا مگر اس سے ہمنوائی نہ تھی
 

ثمین زارا

محفلین
بنگالی ہم سے بوجوہ بددِل ہو چُکے تھے مگر وُہ ہندوستان کا حِصہ نہیں بنے جو ثابت کرتا ہے کِہ یِہ جنگ اپنے حقوق حاصل کرنے کی تھی جِس میں وُہ کامیاب ہو گئے۔
ہندوستان کا حصہ اس لیئے نہ بنے کہ اس وقت وہ اپنے اور ہندوستان کے مابین روابط اور سازشوں کو کھلے عام بتانے کے لیے تیار نہ تھے ۔ ہندوستان بھی یہ بات برملا تسلیم نہ کرتا تھا ۔ یہ تو اب مودی اور خالدہ ضیا نے تسلیم کیا ہے۔ ااس زمانے کے اندرا گاندھی کے انٹرویوز دیکھئے کہ وہ کس طرح غیرملکی میڈیا کے سامنے انجان بنتی تھیں ۔ کتنی بےدردی سے بہاریوں کو ذبح کیا گیا ۔ لاکھوں آج بھی کیمپوں میں جانوروں سے بد تر زندگی گذار رہے ہیں ۔ آپ اس کو حقوق کی جدوجہد سمجھتے ہیں ۔ کوئی مسلمان ایسا کر سکتا ہے؟ یہ سب دشمن کی زہریلی سازش کا شکار ہوئے ۔ اور اس دشمن کے ہاتھ بھی کچھ نہ آیا کہ وہ ملک کو توڑنے میں تو کامیاب رہے مگر وہ مسلمان ملک کو اپنا حصہ نہ بنا سکے ۔
 
آخری تدوین:
Top