سقوطِ ڈھاکہ اور "قومی ترانہ"

عثمان

محفلین
آپ ہر جگہ اس "لسانی مسئلے" کو گھسیڑ دیتے ہیں۔ یہ معاملہ اتنا آسان نہیں ہے جتنا آپ بیان کرتے ہیں۔

آخر بنگالی کس بنیاد پر بنگالی کو "قومی" زبان بنانا چاہتے تھے؟ کیا اردو پنجابیوں کی زبان تھی یا سندھیوں، پختونوں، بلوچیوں کی؟ اردو صرف چند ملین مہاجروں کی مادری زبان تھی اور یا پھر رابطے کی زبان تھی اور ہے۔ کیا بنگالی اپنی عددی برتری کی بنا پر بنگالی کو سرکاری زبان بنانا چاہتے تھے؟

آپ کو یوں سمجھ نہیں آئے گی، موجودہ دور کی مثال سے سمجھاتا ہوں۔ بنگالی، کل پاکستان میں قریب 54 فیصد تھے، جب کہ اس وقت پنجابی کل پاکستان میں قریب 60 فیصد ہیں یعنی ہر دس پاکستانیوں میں 6 پنجابی ہیں اور باقی 4 میں سندھی، پختون، بلوچی و دیگر۔ چھوٹے گروپوں کے مقابلے میں یہ ایک کثیر برتری ہے تو کیا پنجابی اس عددی برتری کی بنیاد پر یہ شور مچانا شروع کر دیں کہ پنجابی کو سرکاری اور قومی زبان کا درجہ دیا جائے؟ کیا آپ سوچ سکتے ہیں کہ اس مطالبے سے ملک میں کس حد تک طوفانِ بدتمیزی اٹھے گا، اور ملک کا کوئی بھی عقلمند لیڈر اس مطالبے کے جواب میں کیا کہے گا؟

دوسری طرف حقیقت یہ ہے کہ 1947ء میں بھی انگریزی اصل سرکاری زبان تھی اور اب بھی ہے، لیکن الزامات کے لیے تب بھی اردو نشانہ تھی اور اب بھی ہے!
پنجابیوں کے لیے تو اردو اجنبی زبان نہیں ہے۔ شائد بنگالیوں کے لیے یہ نہ کہا جا سکے۔ پھر اقلیت میں ہونا اس بات کا استدلال نہیں کہ ان کی زبان کو قومی زبان کا درجہ نہیں ملنا چاہیے۔ دنیا کے کئی دیگر ممالک بشمول ہندوستان میں کئی اقلیتی زبانیں سرکاری زبان کا درجہ رکھتی ہیں۔
آپ کے تبصرہ جات میں افواج پاکستان اوران کے سیاسی اتحادیوں کی طرف سے مشرقی پاکستان میں ہونے والی ناانصافیوں پر تبصرہ نہیں ملا۔
 

ثمین زارا

محفلین
تاریخ تو میرے لکھنے سے پہلے ہی اتنی ڈسٹورٹڈ ہے میری بھلا کیا مجال۔ میری تو صرف رائے ہے جو خود مختلف تاریخ کی کتابوں سے اخذ شدہ ہے۔ یہاں کوئی ایسی دعویٰ نہیں کیا جا رہا کہ یہی صحیح ہے یا یہی تاریخ ہے۔ بہتر یہی ہو گا کہ ذات پہ تنقید کرنے کی بجائے خیالات پہ تنقید کی جائے۔
ارے بھئی معذرت اگر آپ کو ذات پر تنقید محسوس ہوئی ۔ اصل میں ایسی باتیں کہیں پڑھیں نہ سنیں ۔ ان کتب کے نام شئر کیجئے گا ۔
 

جاسم محمد

محفلین
دوسری طرف پاکستان میں یہ شکوہ ہے وہ فوجی زندہ کیوں بچ گئے، انہوں نے سرنڈر کیوں کیا وہ مر کیوں نہیں گئے۔ نوے ہزار فوجی تھے، قید کیوں ہوئے، لڑتے ہوئے مر جاتے (یہ بھی ایک مِتھ ہے، اصل فوجی اس میں صرف چالیس پچاس ہزار کے قریب تھے، باقی سولین اور دوسرے کام کرنے والے افراد تھے)۔
درست فرمایا۔ میرے سگے نانا سقوط ڈھاکہ کے وقت ڈھاکہ میں ہی موجود تھے۔ وہ فوج میں تھے لیکن باوردی آفیسر نہیں تھے۔
 

احسن جاوید

محفلین
ارے بھئی معذرت اگر آپ کو ذات پر تنقید محسوس ہوئی ۔ اصل میں ایسی باتیں کہیں پڑھیں نہ سنیں ۔ ان کتب کے نام شئر کیجئے گا ۔
ارے بھئی کہہ کر زبردستی معذرت کی قطعی کوئی ضرورت نہیں اور نہ ہی میں نے اس کا مطالبہ کیا ہے۔ میرے پاس جو فی الوقت موجود کتب ہیں ان کی لسٹ میں اگلے ہی مراسلے میں بھیج دیتا ہوں، پڑھ ضرور لیجیے گا۔
 

جاسم محمد

محفلین
آخر بنگالی کس بنیاد پر بنگالی کو "قومی" زبان بنانا چاہتے تھے؟
ایسا کب ہوا؟ جہاں تک میں نے پڑھا ہے، بنگالیوں نے اردو کو قومی زبان بنانے پر مزاحمت کی تھی۔ اور خصوصا اس پالیسی پرکہ بنگالی زبان اب عربی رسم الخط میں لکھی جائے گی۔ بنگالی صرف اپنی زبان کی اہمیت کو کم نہیں کرنا چاہتے تھے نہ کہ بنگالی پورے پاکستان پر تھوپنا۔
 

ثمین زارا

محفلین
ارے بھئی کہہ کر زبردستی معذرت کی قطعی کوئی ضرورت نہیں اور نہ ہی میں نے اس کا مطالبہ کیا ہے۔ میرے پاس جو فی الوقت موجود کتب ہیں ان کی لسٹ میں اگلے ہی مراسلے میں بھیج دیتا ہوں، پڑھ ضرور لیجیے گا۔
آپ پرخلوص معذرت کو زبردستی کیسے کہہ سکتے ہیں ۔ چلیں جیسے آپ خوش :)
 

سیما علی

لائبریرین
درست فرمایا۔ میرے سگے نانا سقوط ڈھاکہ کے وقت ڈھاکہ میں ہی موجود تھے۔ وہ فوج میں تھے لیکن باوردی آفیسر نہیں تھے۔
شاید بہت سی باتیں اس وجہ سے بھی سمجھ میں آتیں ہیں ہمارے بھی ماموں آئی ڈی بی پی میں تھے اور پوسٹنگ ڈھاکہ میں تھی اور فال سے ایک دن پہلے کراچی آئے تھے اور ٹکٹ بھی بنگالی دوست نے لیکر دیا تھا آخری فلائیٹ تھی وہ پی آئی اے کی۔۔۔
 

جاسم محمد

محفلین
شاید بہت سی باتیں اس وجہ سے بھی سمجھ میں آتیں ہیں ہمارے بھی ماموں آئی ڈی بی پی میں تھے اور پوسٹنگ ڈھاکہ میں تھی اور فال سے ایک دن پہلے کراچی آئے تھے اور ٹکٹ بھی بنگالی دوست نے لیکر دیا تھا آخری فلائیٹ تھی وہ پی آئی اے کی۔۔۔
لیکن میرے نانا کا کیا قصور تھا؟ وہ مغربی پاکستان میں تعینات تھے اور پھر سقوط ڈھاکہ سے کچھ ہفتے قبل ڈھاکہ ٹرانسفر کر دئے گئے۔ پھر ۹۰۰۰۰ پاکستانی قیدیوں کے ساتھ واپس آئے۔ :(
 

سیما علی

لائبریرین
لیکن میرے نانا کا کیا قصور تھا؟ وہ مغربی پاکستان میں تعینات تھے اور پھر سقوط ڈھاکہ سے کچھ ہفتے قبل ڈھاکہ ٹرانسفر کر دئے گئے۔ پھر ۹۰۰۰۰ پاکستانی قیدیوں کے ساتھ واپس آئے۔ :(
کبھی کبھی کچھ باتیں اُس وقت سمجھ نہیں آتیں بعد میں آئیں شائد ہمیں اس لئیے سمجھ آئیں کے جن چیزوں کو ہمارے اتنے قریبی رشتوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا رویوں کو محسوس کیا :crying3:
 

محمد وارث

لائبریرین
پنجابیوں کے لیے تو اردو اجنبی زبان نہیں ہے۔ شائد بنگالیوں کے لیے یہ نہ کہا جا سکے۔ پھر اقلیت میں ہونا اس بات کا استدلال نہیں کہ ان کی زبان کو قومی زبان کا درجہ نہیں ملنا چاہیے۔ دنیا کے کئی دیگر ممالک بشمول ہندوستان میں کئی اقلیتی زبانیں سرکاری زبان کا درجہ رکھتی ہیں۔
آپ کے تبصرہ جات میں افواج پاکستان اوران کے سیاسی اتحادیوں کی طرف سے مشرقی پاکستان میں ہونے والی ناانصافیوں پر تبصرہ نہیں ملا۔
لسانی مسئلے پر آپ درست کہتے ہیں، یہ اتنا سیدھا مسئلہ بہرحال نہیں ہے جتنا بعض اوقات بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔

افواجِ پاکستان اور انکے "رضا کاروں" کے ہاتھوں مشرقی پاکستان میں ہونیوالے زیادتیوں کا ذکر اس لیے نہیں کہ وہ اس لڑی کا موضوع نہیں تھا، یہاں صرف ایک چھوٹی سی بات شیئر کرنا مقصود تھی جو پڑھتے ہوئے نظر سے گزری۔ ویسے ان پر تو بہت کچھ جائز و ناجائز پچھلے پچاس برس میں لکھا جا چکا ہے، نہیں؟
 

جاسم محمد

محفلین
لسانی مسئلے پر آپ درست کہتے ہیں، یہ اتنا سیدھا مسئلہ بہرحال نہیں ہے جتنا بعض اوقات بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔

افواجِ پاکستان اور انکے "رضا کاروں" کے ہاتھوں مشرقی پاکستان میں ہونیوالے زیادتیوں کا ذکر اس لیے نہیں کہ وہ اس لڑی کا موضوع نہیں تھا، یہاں صرف ایک چھوٹی سی بات شیئر کرنا مقصود تھی جو پڑھتے ہوئے نظر سے گزری۔ ویسے ان پر تو بہت کچھ جائز و ناجائز پچھلے پچاس برس میں لکھا جا چکا ہے، نہیں؟
ایاز امیر کا آج کا یہ کالم ضرور پڑھیں۔ اس میں سقوط ڈھاکہ اور بھٹو کے کردار کو نمایاں کیا گیا ہے۔

اُس وقت کا پاکستان حادثے کا منتظر تھا

جلد یا بدیر حادثہ ہونا تھا لیکن وقت کا تعین حالات پر منحصر ہوتا ہے۔ اب ہمیں تسلیم کر لینا چاہیے کہ مشرقی پاکستان کے بنگالیوں کو ہم اپنے برابر کا نہ سمجھتے تھے۔ ریاستِ پاکستان کی ہیئت، اُس کی ترجیحات، اُس کے نظریاتی خدوخال مغربی پاکستان کے حکمران طبقات کے متعین کردہ تھے۔ اِس کام میں مشرقی پاکستان کا کوئی حصہ نہ تھا کہ ڈیفنس پالیسی کیا ہونی ہے، خارجہ پالیسی کے اہداف کیا ہیں اور کیا ہونے چاہئیں، یہ سارے کا سارا کام حکمران طبقات نے اپنے ذمّے لیا ہوا تھا۔
اکثریت میں وہ تھے، اُن کا پٹ سن زرمبادلہ کمانے کا اہم ذریعہ تھا؛ البتہ وہاں سے الزام یہ تھا کہ اُن کا کمایا ہوا زرِمبادلہ زیادہ تر مغربی پاکستان کی انڈسٹریلائزیشن پہ استعمال ہوا ہے۔ اور تو اور پاکستان بننے کے فوراً بعد یہاں کے حکمران طبقات نے مشرقی پاکستان پہ اردو کو بطور قومی زبان ٹھونسنا چاہا۔ بنگالی ایک بڑی پرانی زبان ہے۔ بنگالیوں کا اپنا صدیوں پرانا کلچر ہے۔ لٹریچر اُن کا بہت زرخیز ہے‘ لیکن تقسیمِ ہند کے وقت ماحول ہی ایسا تھاکہ یہاں کے حکمران طبقات نے یہی موزوں سمجھاکہ اردو کو قومی زبان کا درجہ دیا جائے۔ قدرتی طور پہ مشرقی پاکستان میں بہت مزاحمت ہوئی اور 1952ء میں تو نوبت خونریزی تک جا پہنچی۔
مسئلہ صرف جغرافیے کا نہیں تھاکہ پاکستان کے دونوں حصے ایک دوسرے سے ایک ہزار میل کے فاصلے پہ ہیں۔ یہاں اور وہاں کے کلچر میں بہت فرق تھا اور اس بات کا ادراک ہمارے حکمران طبقات کو ہونا چاہیے تھا‘ لیکن ایسا نہ ہوااور پاکستان کے مختلف اجزا کو ایک ہی سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کی گئی۔ جہاں ایسے مسائل ہوں وہاں قومی وحدت کو یقینی بنانے کیلئے ایک خاص قسم کی عقل اور دانش کی ضرورت تھی‘ لیکن پاکستان کے قومی معاملات میں ان چیزوں کا عمل دَخل اتنا نہ رہا جتنا ہونا چاہیے تھا۔
لاوا تو پک رہا تھا لیکن فیصلہ کن موڑ 1970ء کے انتخابات میں آیا۔ مشرقی پاکستان کی بڑی جماعت عوامی لیگ تھی۔ بنگالی احساسِ محرومی کا اظہار عوامی لیگ کے قائد شیخ مجیب الرحمن کے مشہورِ زمانہ چھ نکات کے حوالے سے ہوا۔ فیلڈ مارشل ایوب خان کے زمانے میں شیخ مجیب کی گرفتاری ہوئی اور اُن پہ غداری کا مقدمہ بھی چلا‘ لیکن جب ایوب خان کو کرسیٔ صدارت چھوڑنا پڑی وہ مقدمہ بھی ختم ہو گیا۔ 1970ء کے انتخابات کا میدان سجا تو عوامی لیگ کا منشور وہ چھ نکات ہی تھے۔ سال بھرکی انتخابی مہم تھی اور جب 7 دسمبرکی شب کو انتخابی نتائج آنے لگے تویوں محسوس ہوا کہ مشرقی پاکستان میں ایک سیاسی زلزلہ آگیا ہے۔ پورے مشرقی پاکستان میں دو سیٹیں عوامی لیگ کی پہنچ سے باہر رہیں، باقی 160 پہ اُس کے امیدوار کامیاب ہوئے۔ جنرل یحییٰ خان کی حکومت کو اب سمجھ نہ آئی کہ کیا کرے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ قومی اسمبلی کا اجلاس بلایا جاتا تاکہ جنرل یحییٰ خان کے لیگل فریم ورک آرڈر کے تحت 120 روز میں نیاآئین مرتب ہوتا‘ لیکن حیلے بہانوں سے اسمبلی کا اجلاس نہ بلایا گیا اورپھر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ ذوالفقار علی بھٹو کا رول بہت ہی مشکوک رہا۔ انہوں نے عجیب نعرہ لگایا کہ مغربی پاکستان کے مفادات کا بھی آئینی تحفظ ہونا چاہیے۔ اس غرض سے جنرل یحییٰ خان پہ زور دیتے رہے کہ فوری طورپہ قومی اسمبلی کا اجلاس نہ بلایا جائے جب تک کہ شیخ مجیب الرحمن سے کوئی تصفیہ نہ ہو جائے۔ ظاہر ہے ایسے ہتھکنڈوں سے مشرقی پاکستان میں حکومت کے بارے میں شکوک بڑھتے گئے۔ بنگالیوں کی شکایت ہی یہ تھی کہ اُن کا استحصال ہوا ہے اوراُن کے ساتھ زیادتیاں کی گئی ہیں۔ اجلاس بلانے کی تاخیر کو بھی ایک اور زیادتی سمجھا گیا۔ بھٹو صاحب تواپنا کھیل کھیل رہے تھے لیکن حکومت میں بیٹھے کرداروں کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ حالات کس رُخ جا رہے ہیں۔
حماقتوں پہ حماقتیں سرزد ہوئیں۔ اسمبلی کا اجلاس یکم مارچ کیلئے بلایا گیا۔ پھر اُسے مؤخر کردیا گیااور تاریخ 25 مارچ کی رکھی گئی۔ بنگالی احساسات نے بپھرنا ہی تھا، اور کیا ہوتا۔ اِس اثنا میں شیخ مجیب الرحمن نے 7 مارچ کو ڈھاکہ میں ایک جلسۂ عام سے خطاب کیا۔ اس کی ریکارڈنگ یوٹیوب پہ موجود ہے۔ جو بھی اپنے آپ کو سیاست کا طالب علم سمجھتا ہے اُسے یہ ریکارڈنگ دیکھنی چاہیے۔ شیخ مجیب نے انتباہ کیا کہ اب ہم اسمبلی اجلاس میں تب ہی جانے کا سوچیں گے جب مارشل لاء کا خاتمہ ہو گا۔ حکمران ٹولے میں جنرل یحییٰ خان سب سے زیادہ انتہا پسند نہ تھے۔ ہارڈ لائنر جنرل پیرزادہ اور جنرل عمر تھے۔ اُن کی لائن تھی کہ عوامی لیگ کسی نرمی کی مستحق نہیں۔ ایسٹ پاکستان کے گورنر ایڈمرل احسن اور مشرقی پاکستان کے فوجی کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل یعقوب خان ایک تصفیے اور سیاسی حل کی رائے دے رہے تھے لیکن جو جنونی کیفیت حکمران ٹولے کی ہو چکی تھی اُس میں ایسی باتوں کو کون سُنتا؟ سمجھنا تو دور کی بات ہے۔ ایڈمرل احسن نے استعفیٰ دے دیا اور جنرل یعقوب خان نے بھی اپنی کمان چھوڑدی‘ لیکن فیصلہ ہو چکا تھاکہ عوامی لیگ کو کَرش کرنا ہے۔ جنرل یعقوب کی جگہ جنرل ٹکا خان کی بطور فوجی کمانڈر تعیناتی ہوئی۔ 25 مارچ وہ منحوس دن تھا جب عوامی لیگ کے خلاف ایکشن شروع کیاگیا۔ دسمبر1971ء میں ملک کے دولخت ہونے کی رسم ادا کی گئی۔ صحیح معنوں میں دیکھا جائے تو ملک ٹوٹنے کا فیصلہ 25 مارچ کو ہو چکا تھا۔
شیخ مجیب کے چھ نکات علیحدگی کا پروانہ ضرور تھے لیکن چھ نکات سے بھی زیادہ مہلک بھٹو صاحب کی 1971ء کے دوران سیاسی چالیں تھیں۔ انہوں نے ہر کوشش کی کہ مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کے خلاف آپریشن ہو‘ اور جب آپریشن ہوا اُن کے یہ تاریخی الفاظ تھے ''خدا کا شکر ہے پاکستان بچ گیا ہے‘‘۔
دسمبر میں جب باقاعدہ جنگ چھڑ گئی تو ایک اور بیوقوفانہ فیصلہ ہوا کہ سکیورٹی کونسل میں جہاں جنگ بندی پہ بحث ہورہی تھی‘ پاکستانی وفد کے سربراہ کے طورپہ بھٹو صاحب کو بھیجا گیا‘ یعنی جو شخص چاہتا ہی نہ تھا کہ کوئی سیاسی حل نکلے اور جس کی ہر کوشش یہ تھی کہ جلتی پہ تیل چھڑکا جائے، اُسی کو امن کی کوششوں کے سلسلے میں نیویارک بھیجا گیا۔ سوویت روس ہندوستان کا حمایتی تھا اور پولینڈ اُس کا دوست تھا۔ پولینڈ والوں نے سکیورٹی کونسل میں جنگ بندی کی ایک ایسی قرارداد پیش کی جو اگر قبول ہو جاتی تو پاکستان کی ڈوبتی عزت بچ سکتی تھی۔ اس قرارداد میں پاکستانی فوج کی باعزت انخلا کا بھی ذکر تھا‘ لیکن بھٹو اپنی دھن کے پکے نکلے۔ سکیورٹی کونسل میں ایک زبردست تقریر کرڈالی، بڑی طاقتوں کو بُرا بھلا کہا اور ڈرامائی انداز میں اُٹھتے ہوئے اس قرارداد‘ جس سے پاکستان کی عزت بچ سکتی تھی‘ کو پھاڑ ڈالا اور وہاں سے باہر آگئے۔ آج تک یہ بات بیشتر پاکستانیوں کو سمجھ نہیں آئی کہ انہوں نے ایسا کیوں کیا۔
تاریخی ریکارڈ کے بھولے بسرے کونے میں اس اَمر کا بھی ذکر ہے کہ قرارداد کے اس ڈرامے سے شاید ایک دن پہلے جنرل یحییٰ خان نے بھٹو صاحب سے رابطہ کرنا چاہا۔ راولپنڈی سے کال ملائی گئی، بھٹو صاحب لائن پہ آئے اور جب جنرل یحییٰ نے بولنا شروع کیا تو بھٹو نے کہا کہ آواز نہیں آرہی۔ دوبارہ کہا: مجھے آواز نہیں آرہی۔ بیچ میں کوئی امریکن خاتون آپریٹر تھی۔ اس نے کہا کہ آواز صاف آرہی ہے، بھٹو صاحب نے کہا: shut up۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے بھٹو کو اس ٹیلی فون کال میں کوئی خاص دلچسپی نہ تھی۔
بعد میں نہ بھٹو صاحب سے کوئی سوال جواب ہوا نہ اُس وقت کے حکمران افلاطونوں سے پوچھا گیا کہ وہ کس دنیا میں رہ رہے تھے۔
اُس وقت کا پاکستان حادثے کا منتظر تھا
 

بابا-جی

محفلین
ایاز امیر کا آج کا یہ کالم ضرور پڑھیں۔ اس میں سقوط ڈھاکہ اور بھٹو کے کردار کو نمایاں کیا گیا ہے۔

اُس وقت کا پاکستان حادثے کا منتظر تھا

جلد یا بدیر حادثہ ہونا تھا لیکن وقت کا تعین حالات پر منحصر ہوتا ہے۔ اب ہمیں تسلیم کر لینا چاہیے کہ مشرقی پاکستان کے بنگالیوں کو ہم اپنے برابر کا نہ سمجھتے تھے۔ ریاستِ پاکستان کی ہیئت، اُس کی ترجیحات، اُس کے نظریاتی خدوخال مغربی پاکستان کے حکمران طبقات کے متعین کردہ تھے۔ اِس کام میں مشرقی پاکستان کا کوئی حصہ نہ تھا کہ ڈیفنس پالیسی کیا ہونی ہے، خارجہ پالیسی کے اہداف کیا ہیں اور کیا ہونے چاہئیں، یہ سارے کا سارا کام حکمران طبقات نے اپنے ذمّے لیا ہوا تھا۔
اکثریت میں وہ تھے، اُن کا پٹ سن زرمبادلہ کمانے کا اہم ذریعہ تھا؛ البتہ وہاں سے الزام یہ تھا کہ اُن کا کمایا ہوا زرِمبادلہ زیادہ تر مغربی پاکستان کی انڈسٹریلائزیشن پہ استعمال ہوا ہے۔ اور تو اور پاکستان بننے کے فوراً بعد یہاں کے حکمران طبقات نے مشرقی پاکستان پہ اردو کو بطور قومی زبان ٹھونسنا چاہا۔ بنگالی ایک بڑی پرانی زبان ہے۔ بنگالیوں کا اپنا صدیوں پرانا کلچر ہے۔ لٹریچر اُن کا بہت زرخیز ہے‘ لیکن تقسیمِ ہند کے وقت ماحول ہی ایسا تھاکہ یہاں کے حکمران طبقات نے یہی موزوں سمجھاکہ اردو کو قومی زبان کا درجہ دیا جائے۔ قدرتی طور پہ مشرقی پاکستان میں بہت مزاحمت ہوئی اور 1952ء میں تو نوبت خونریزی تک جا پہنچی۔
مسئلہ صرف جغرافیے کا نہیں تھاکہ پاکستان کے دونوں حصے ایک دوسرے سے ایک ہزار میل کے فاصلے پہ ہیں۔ یہاں اور وہاں کے کلچر میں بہت فرق تھا اور اس بات کا ادراک ہمارے حکمران طبقات کو ہونا چاہیے تھا‘ لیکن ایسا نہ ہوااور پاکستان کے مختلف اجزا کو ایک ہی سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کی گئی۔ جہاں ایسے مسائل ہوں وہاں قومی وحدت کو یقینی بنانے کیلئے ایک خاص قسم کی عقل اور دانش کی ضرورت تھی‘ لیکن پاکستان کے قومی معاملات میں ان چیزوں کا عمل دَخل اتنا نہ رہا جتنا ہونا چاہیے تھا۔
لاوا تو پک رہا تھا لیکن فیصلہ کن موڑ 1970ء کے انتخابات میں آیا۔ مشرقی پاکستان کی بڑی جماعت عوامی لیگ تھی۔ بنگالی احساسِ محرومی کا اظہار عوامی لیگ کے قائد شیخ مجیب الرحمن کے مشہورِ زمانہ چھ نکات کے حوالے سے ہوا۔ فیلڈ مارشل ایوب خان کے زمانے میں شیخ مجیب کی گرفتاری ہوئی اور اُن پہ غداری کا مقدمہ بھی چلا‘ لیکن جب ایوب خان کو کرسیٔ صدارت چھوڑنا پڑی وہ مقدمہ بھی ختم ہو گیا۔ 1970ء کے انتخابات کا میدان سجا تو عوامی لیگ کا منشور وہ چھ نکات ہی تھے۔ سال بھرکی انتخابی مہم تھی اور جب 7 دسمبرکی شب کو انتخابی نتائج آنے لگے تویوں محسوس ہوا کہ مشرقی پاکستان میں ایک سیاسی زلزلہ آگیا ہے۔ پورے مشرقی پاکستان میں دو سیٹیں عوامی لیگ کی پہنچ سے باہر رہیں، باقی 160 پہ اُس کے امیدوار کامیاب ہوئے۔ جنرل یحییٰ خان کی حکومت کو اب سمجھ نہ آئی کہ کیا کرے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ قومی اسمبلی کا اجلاس بلایا جاتا تاکہ جنرل یحییٰ خان کے لیگل فریم ورک آرڈر کے تحت 120 روز میں نیاآئین مرتب ہوتا‘ لیکن حیلے بہانوں سے اسمبلی کا اجلاس نہ بلایا گیا اورپھر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ ذوالفقار علی بھٹو کا رول بہت ہی مشکوک رہا۔ انہوں نے عجیب نعرہ لگایا کہ مغربی پاکستان کے مفادات کا بھی آئینی تحفظ ہونا چاہیے۔ اس غرض سے جنرل یحییٰ خان پہ زور دیتے رہے کہ فوری طورپہ قومی اسمبلی کا اجلاس نہ بلایا جائے جب تک کہ شیخ مجیب الرحمن سے کوئی تصفیہ نہ ہو جائے۔ ظاہر ہے ایسے ہتھکنڈوں سے مشرقی پاکستان میں حکومت کے بارے میں شکوک بڑھتے گئے۔ بنگالیوں کی شکایت ہی یہ تھی کہ اُن کا استحصال ہوا ہے اوراُن کے ساتھ زیادتیاں کی گئی ہیں۔ اجلاس بلانے کی تاخیر کو بھی ایک اور زیادتی سمجھا گیا۔ بھٹو صاحب تواپنا کھیل کھیل رہے تھے لیکن حکومت میں بیٹھے کرداروں کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ حالات کس رُخ جا رہے ہیں۔
حماقتوں پہ حماقتیں سرزد ہوئیں۔ اسمبلی کا اجلاس یکم مارچ کیلئے بلایا گیا۔ پھر اُسے مؤخر کردیا گیااور تاریخ 25 مارچ کی رکھی گئی۔ بنگالی احساسات نے بپھرنا ہی تھا، اور کیا ہوتا۔ اِس اثنا میں شیخ مجیب الرحمن نے 7 مارچ کو ڈھاکہ میں ایک جلسۂ عام سے خطاب کیا۔ اس کی ریکارڈنگ یوٹیوب پہ موجود ہے۔ جو بھی اپنے آپ کو سیاست کا طالب علم سمجھتا ہے اُسے یہ ریکارڈنگ دیکھنی چاہیے۔ شیخ مجیب نے انتباہ کیا کہ اب ہم اسمبلی اجلاس میں تب ہی جانے کا سوچیں گے جب مارشل لاء کا خاتمہ ہو گا۔ حکمران ٹولے میں جنرل یحییٰ خان سب سے زیادہ انتہا پسند نہ تھے۔ ہارڈ لائنر جنرل پیرزادہ اور جنرل عمر تھے۔ اُن کی لائن تھی کہ عوامی لیگ کسی نرمی کی مستحق نہیں۔ ایسٹ پاکستان کے گورنر ایڈمرل احسن اور مشرقی پاکستان کے فوجی کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل یعقوب خان ایک تصفیے اور سیاسی حل کی رائے دے رہے تھے لیکن جو جنونی کیفیت حکمران ٹولے کی ہو چکی تھی اُس میں ایسی باتوں کو کون سُنتا؟ سمجھنا تو دور کی بات ہے۔ ایڈمرل احسن نے استعفیٰ دے دیا اور جنرل یعقوب خان نے بھی اپنی کمان چھوڑدی‘ لیکن فیصلہ ہو چکا تھاکہ عوامی لیگ کو کَرش کرنا ہے۔ جنرل یعقوب کی جگہ جنرل ٹکا خان کی بطور فوجی کمانڈر تعیناتی ہوئی۔ 25 مارچ وہ منحوس دن تھا جب عوامی لیگ کے خلاف ایکشن شروع کیاگیا۔ دسمبر1971ء میں ملک کے دولخت ہونے کی رسم ادا کی گئی۔ صحیح معنوں میں دیکھا جائے تو ملک ٹوٹنے کا فیصلہ 25 مارچ کو ہو چکا تھا۔
شیخ مجیب کے چھ نکات علیحدگی کا پروانہ ضرور تھے لیکن چھ نکات سے بھی زیادہ مہلک بھٹو صاحب کی 1971ء کے دوران سیاسی چالیں تھیں۔ انہوں نے ہر کوشش کی کہ مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کے خلاف آپریشن ہو‘ اور جب آپریشن ہوا اُن کے یہ تاریخی الفاظ تھے ''خدا کا شکر ہے پاکستان بچ گیا ہے‘‘۔
دسمبر میں جب باقاعدہ جنگ چھڑ گئی تو ایک اور بیوقوفانہ فیصلہ ہوا کہ سکیورٹی کونسل میں جہاں جنگ بندی پہ بحث ہورہی تھی‘ پاکستانی وفد کے سربراہ کے طورپہ بھٹو صاحب کو بھیجا گیا‘ یعنی جو شخص چاہتا ہی نہ تھا کہ کوئی سیاسی حل نکلے اور جس کی ہر کوشش یہ تھی کہ جلتی پہ تیل چھڑکا جائے، اُسی کو امن کی کوششوں کے سلسلے میں نیویارک بھیجا گیا۔ سوویت روس ہندوستان کا حمایتی تھا اور پولینڈ اُس کا دوست تھا۔ پولینڈ والوں نے سکیورٹی کونسل میں جنگ بندی کی ایک ایسی قرارداد پیش کی جو اگر قبول ہو جاتی تو پاکستان کی ڈوبتی عزت بچ سکتی تھی۔ اس قرارداد میں پاکستانی فوج کی باعزت انخلا کا بھی ذکر تھا‘ لیکن بھٹو اپنی دھن کے پکے نکلے۔ سکیورٹی کونسل میں ایک زبردست تقریر کرڈالی، بڑی طاقتوں کو بُرا بھلا کہا اور ڈرامائی انداز میں اُٹھتے ہوئے اس قرارداد‘ جس سے پاکستان کی عزت بچ سکتی تھی‘ کو پھاڑ ڈالا اور وہاں سے باہر آگئے۔ آج تک یہ بات بیشتر پاکستانیوں کو سمجھ نہیں آئی کہ انہوں نے ایسا کیوں کیا۔
تاریخی ریکارڈ کے بھولے بسرے کونے میں اس اَمر کا بھی ذکر ہے کہ قرارداد کے اس ڈرامے سے شاید ایک دن پہلے جنرل یحییٰ خان نے بھٹو صاحب سے رابطہ کرنا چاہا۔ راولپنڈی سے کال ملائی گئی، بھٹو صاحب لائن پہ آئے اور جب جنرل یحییٰ نے بولنا شروع کیا تو بھٹو نے کہا کہ آواز نہیں آرہی۔ دوبارہ کہا: مجھے آواز نہیں آرہی۔ بیچ میں کوئی امریکن خاتون آپریٹر تھی۔ اس نے کہا کہ آواز صاف آرہی ہے، بھٹو صاحب نے کہا: shut up۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے بھٹو کو اس ٹیلی فون کال میں کوئی خاص دلچسپی نہ تھی۔
بعد میں نہ بھٹو صاحب سے کوئی سوال جواب ہوا نہ اُس وقت کے حکمران افلاطونوں سے پوچھا گیا کہ وہ کس دنیا میں رہ رہے تھے۔
اُس وقت کا پاکستان حادثے کا منتظر تھا
کیا مُجیب کے چھ نکات میں بنگالی زبان کو سرکاری زبان بنانے کا مُطالبہ پیش کیا گیا تھا؟
 

جاسم محمد

محفلین
کیا مُجیب کے چھ نکات میں بنگالی زبان کو سرکاری زبان بنانے کا مُطالبہ پیش کیا گیا تھا؟
مجیب کے 6 نکات:
  1. 1940ء کی قرار داد لاہور …… کی روشنی میں …… ایک وفاق پاکستان …… میں ایک ایسے …… پارلیمارنی نظام ………… کی ضمانت دی جائے کہ جس میں …… بالغ رائے دہی کی بنیاد پر براہ راست منتخب شدہ قانون ساز اسمبلی کو بالا دستی …… حاصل ہو۔
  2. مرکزی حکومت کے پاس صرف دو محکمے ہوں …… دفاع اور خارجی امور …… ہوں۔
  3. دونوں صوبوں کے لئے …… الگ الگ لیکن قابل تبادلہ کرنسی کا نظام …… ہو لیکن اگر یہ ممکن نہ ہو تو آئین میں ضمانت دی جائے کہ …… مشرقی پاکستان سے مغربی پاکستان میں سرمایہ کافرار …… روکا جا سکے۔ نیزمشرقی پاکستان کے لئے …… الگ الگ مالیاتی اور اقتصادی نظام …… وضع کئے جائیں۔ان کے علاوہ …… مشرقی پاکستان کا اپنا بینکنگ ریزرو سسٹم (یا محفوظ سرمایہ کا نظام) …… بھی ہو۔
  4. ٹیکس لگانے اور تمام تر مالیاتی وصولیوں کا اختیارمرکز کی بجائے صرف صوبوں کے پاس ہوں جو ایک …… مساوی اورمخصوص شرح …… سے مرکز کے اخراجات ادا کریں۔
  5. ہر صوبہ …… بیرونی تجارتی معاہدے کرنے میں آزاد …… ہو اور اپنے …… حساب و کتاب کا واحد حقدار …… ہو جبکہ دونوں حصوں کے درمیان ملکی مصنوعات کی نقل و حمل پر کسی قسم کا ٹیکس نہیں ہو۔
  6. مشرقی پاکستان کو الگ …… فوج یا نیم فوجی دستے …… رکھنے کا حق ہو تاکہ ملکی سلامتی اور …… آئین کا تحفظ …… یقینی بنایا جا سکے۔
Mujibs's 6 Points (1966) شیخ مجیب الرحمان کے 6 نکات on Pak Magazine
Six point movement - Wikipedia
 

بابا-جی

محفلین
مجیب کے 6 نکات:
  1. 1940ء کی قرار داد لاہور …… کی روشنی میں …… ایک وفاق پاکستان …… میں ایک ایسے …… پارلیمارنی نظام ………… کی ضمانت دی جائے کہ جس میں …… بالغ رائے دہی کی بنیاد پر براہ راست منتخب شدہ قانون ساز اسمبلی کو بالا دستی …… حاصل ہو۔
  2. مرکزی حکومت کے پاس صرف دو محکمے ہوں …… دفاع اور خارجی امور …… ہوں۔
  3. دونوں صوبوں کے لئے …… الگ الگ لیکن قابل تبادلہ کرنسی کا نظام …… ہو لیکن اگر یہ ممکن نہ ہو تو آئین میں ضمانت دی جائے کہ …… مشرقی پاکستان سے مغربی پاکستان میں سرمایہ کافرار …… روکا جا سکے۔ نیزمشرقی پاکستان کے لئے …… الگ الگ مالیاتی اور اقتصادی نظام …… وضع کئے جائیں۔ان کے علاوہ …… مشرقی پاکستان کا اپنا بینکنگ ریزرو سسٹم (یا محفوظ سرمایہ کا نظام) …… بھی ہو۔
  4. ٹیکس لگانے اور تمام تر مالیاتی وصولیوں کا اختیارمرکز کی بجائے صرف صوبوں کے پاس ہوں جو ایک …… مساوی اورمخصوص شرح …… سے مرکز کے اخراجات ادا کریں۔
  5. ہر صوبہ …… بیرونی تجارتی معاہدے کرنے میں آزاد …… ہو اور اپنے …… حساب و کتاب کا واحد حقدار …… ہو جبکہ دونوں حصوں کے درمیان ملکی مصنوعات کی نقل و حمل پر کسی قسم کا ٹیکس نہیں ہو۔
  6. مشرقی پاکستان کو الگ …… فوج یا نیم فوجی دستے …… رکھنے کا حق ہو تاکہ ملکی سلامتی اور …… آئین کا تحفظ …… یقینی بنایا جا سکے۔
Mujibs's 6 Points (1966) شیخ مجیب الرحمان کے 6 نکات on Pak Magazine
Six point movement - Wikipedia
یِہ کون پڑھے، اِس میں زُبان کا مُطالبہ کہاں گم ہے؟ کِس نمبر پر ہے؟
 

جاسم محمد

محفلین
ھاھاھا۔ چھ نکات میں سے بھی زبان برآمد نہ ہو سکی۔ آخر زبان کا مسئلہ کہاں رہ گیا؟
جیسے نواز شریف کے حالیہ جمہوری انقلاب میں عوام بھول چکی ہے کہ وہ ایک سال قبل جیل میں بس چند دنوں کے مہمان تھے۔ ویسے ہی شیخ مجیب نے بھی اپنی ان ۶ نکات میں بنگالی زبان کا ذکر تک نہیں کیا جہاں سے اصل تحریک شروع ہوئی تھی :)
 
Top