وہ کون کون سے اہم نکات ہیں، جن کے نا ماننے سے ایک فرد "نا ماننے والا" کافر قرار پائے گا؟ ایسے امور کی لسٹ بنانے میں مدد فرمائیے۔ قرآن حکیم سے ریفرنس بھی فراہم کیجئے۔ٓ
1۔ اللہ تعالی کا اللہ ہونے اور رب العالمٓین ہونے سے انکار
2۔ رسول اکرم ، اللہ کے بندے اور رسول ہیں ، اس کا انکار
ٓ
 

الشفاء

لائبریرین
15- اللہ کےرسول اور اجماع امت کی مخالفت کرنے والے لوگ ۔

وَمَن يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاءَتْ مَصِيرًاO
اور جو شخص رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت کرے اس کے بعد کہ اس پر ہدایت کی راہ واضح ہو چکی اور مسلمانوں کی راہ سے جدا راہ کی پیروی کرے تو ہم اسے اسی (گمراہی) کی طرف پھیرے رکھیں گے جدھر وہ (خود) پھر گیا ہے اور (بالآخر) اسے دوزخ میں ڈالیں گے، اور وہ بہت ہی برا ٹھکانا ہے۔
(سورۃ النساء ، آیت نمبر 115)​

فرمایا جا رہا ہے کہ جو شخص حق واضح ہو جانے کے بعد بھی مخالفت رسول صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کر کے مسلمانوں کی صاف روش سے ہٹ جائے تو ہم بھی اسی ٹیڑھی اور بری راہ پر ہی اسے لگا دیتے ہیں۔ اور اسے وہی غلط راہ اچھی اور بھلی معلوم ہونے لگتی ہے۔ یہاں تک کہ بیچوں بیچ جہنم میں جا پہنچتا ہے۔ مؤمنوں کی راہ کے علاوہ راہ اختیار کرنا دراصل رسول سے مخالفت کرنا ہی ہے۔ لیکن کبھی تو شارع علیہ السلام کی صاف بات کا خلاف ہوتا ہے، کبھی اس چیز کا خلاف ہوتا ہے جس پر ساری امت محمدیہ متفق ہے، جس میں اللہ نے بوجہ ان کی شرافت و کرامت کے محفوظ کر رکھا ہے۔ حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے غورو فکر کے بعد اس آیت سے اتفاق امت کی دلیل ہونے پر استدلال کیا ہے۔ غرضیکہ ایسا کرنے والے کی رسی اللہ تعالیٰ بھی ڈھیلی چھوڑ دیتے ہیں۔ جیسے فرمان ہے کہ ہم ان کی بے خبری میں آہستہ آہستہ مہلت بڑھاتے رہتے ہیں، ان کے قدم بہکتے ہی ہم بھی ان کے دلوں کو ٹیڑھا کر دیتے ہیں اور انہیں ان کی سرکشی میں حیران چھوڑ دیتے ہیں۔ بالآخر ان کا ٹھکانہ جہنم بن جاتا ہے۔ (ابن کثیر)
علامہ بیضاوی نے اس جملے کا معنی لکھا ہے کہ جس کفر و گمراہی کی طرف وہ دانستہ پھر گیا ہے ہم اس میں حائل نہ ہوں گے اور اسے ادھر ہی پھرنے دیں گے۔ یہی معنی زیادہ موزوں معلوم ہوتا ہے۔ اس بدنصیب کا کیا حال ہو گا ، رحمت و توفیق الہٰی نے جس کی دستگیری چھوڑ دی ہو۔ اس آیت سے یہ ثابت ہوا کہ رسول اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مخالفت اور اجماع امت کی مخالفت سے انسان توفیق الہٰی سے محروم ہو جاتا ہے اور شیطان کے ہاتھ میں محض ایک کھلونا بن کر رہ جاتا ہے۔ (ضیاء القرآن)۔

۔۔۔​
 

الشفاء

لائبریرین
16-قیامت کے دن کفار کے چہرے سیاہ ہوں گے۔

وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ مُّسْفِرَةٌO ضَاحِكَةٌ مُّسْتَبْشِرَةٌO وَوُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ عَلَيْهَا غَبَرَةٌO تَرْهَقُهَا قَتَرَةٌO أُوْلَئِكَ هُمُ الْكَفَرَةُ الْفَجَرَةُO
اس دن بہت سے چہرے (ایسے بھی ہوں گے جو نور سے) چمک رہے ہوں گے۔(وہ) مسکراتے ہنستے (اور) خوشیاں مناتے ہوں گے۔ اور بہت سے چہرے ایسے ہوں گے جن پر اس دن گرد پڑی ہوگی۔ (مزید) ان (چہروں) پر سیاہی چھائی ہوگی۔ یہی لوگ کافر (اور) فاجر (بدکردار) ہوں گے۔
سورۃ عبس، آیت نمبر 42-38۔​

قیامت کے اس ہولناک دن بھی بعض چہرے ایسے ہوں گے جو چمک رہے ہوں گے۔ خوشی سے ہنس رہے ہوں گے اور ان کے چہروں پر مسرت و فرحت کے آثار نمایاں ہوں گے۔ انہیں کوئی اندیشہ اور فکر نہ ہو گا۔أَلا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ لا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ کا منظر ساری دنیا دیکھ رہی ہو گی۔ لیکن وہ بد نصیب جنہوں نے سرکشی اور سرتابی کرتے کرتے اپنی عمریں برباد کر دی تھیں ان کے چہروں پر خاک اڑ رہی ہو گی، ان کے چہروں پر سیاہی چھائی ہو گی۔ یہ وہ لوگ ہوں گے جو ساری عمر کفر کرتے رہے اور فسق و فجور میں مبتلا رہے۔ (ضیاء القرآن)۔

الٰلھم انت ربنا وانت الرحمٰن الرحیم اجعل وجوھنا یومئذ مسفرہ ضاحکۃ مستبشرہ بجاہ حبیبک المکرم ورسولک المعظم الذی ارسلتہ رحمۃ اللعالمین۔ آمین۔۔۔
 

الشفاء

لائبریرین
17- مقبول دین بس اسلام ہی ہے جو یہ رسول صادق صل اللہ علیہ وسلم لائے ہیں۔

وَمَن يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلاَمِ دِينًا فَلَن يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَO كَيْفَ يَهْدِي اللّهُ قَوْمًا كَفَرُواْ بَعْدَ إِيمَانِهِمْ وَشَهِدُواْ أَنَّ الرَّسُولَ حَقٌّ وَجَاءَهُمُ الْبَيِّنَاتُ وَاللّهُ لاَ يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَO أُوْلَئِكَ جَزَآؤُهُمْ أَنَّ عَلَيْهِمْ لَعْنَةَ اللّهِ وَالْمَلآئِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَO خَالِدِينَ فِيهَا لاَ يُخَفَّفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ وَلاَ هُمْ يُنظَرُونَO إِلاَّ الَّذِينَ تَابُواْ مِن بَعْدِ ذَلِكَ وَأَصْلَحُواْ فَإِنَّ الله غَفُورٌ رَّحِيمٌO إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُواْ بَعْدَ إِيمَانِهِمْ ثُمَّ ازْدَادُواْ كُفْرًا لَّن تُقْبَلَ تَوْبَتُهُمْ وَأُوْلَئِكَ هُمُ الضَّآلُّونَO
اور جو کوئی اسلام کے سوا کسی اور دین کو چاہے گا تو وہ اس سے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا، اور وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگا۔ اﷲ ان لوگوں کو کیونکر ہدایت فرمائے جو ایمان لانے کے بعد کافر ہو گئے حالانکہ وہ اس امر کی گواہی دے چکے تھے کہ یہ رسول سچا ہے اور ان کے پاس واضح نشانیاں بھی آچکی تھیں، اور اﷲ ظالم قوم کو ہدایت نہیں فرماتا۔ ایسے لوگوں کی سزا یہ ہے کہ ان پر اﷲ کی اور فرشتوں کی اور تمام انسانوں کی لعنت پڑتی رہے۔ وہ اس پھٹکار میں ہمیشہ (گرفتار) رہیں گے اور ان سے اس عذاب میں کمی نہیں کی جائے گی اور نہ انہیں مہلت دی جائے گے۔ سوائے ان لوگوں کے جنہوں نے اس کے بعد توبہ کر لی اور (اپنی) اصلاح کر لی، تو بیشک اﷲ بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔ بیشک جن لوگوں نے اپنے ایمان کے بعد کفر کیا پھر وہ کفر میں بڑھتے گئے ان کی توبہ ہرگز قبول نہیں کی جائے گے، اور وہی لوگ گمراہ ہیں۔
سورۃ آل عمران ، آیت نمبر 90-85
دین اسلام جو سب انبیاء کا دین ہے اور جس کو لے کر اب حضرت محمد رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے ہیں، اب اگر کوئی شخص اس دین کو قبول نہیں کرتا اور کسی اور دین کی پیروی کرتا ہے تو اس کا وہ دین اللہ تعالیٰ کی جناب میں مردود ہے۔ وہ گمراہ جو جہالت کی وجہ سے قبول حق سے انکار کرتے ہیں ان کے ہدایت پانے کی توقع ہو سکتی ہے کہ جب جہالت کا پردہ اٹھ جائے گا اور حقیقت کا روشن چہرہ انہیں دکھائی دے گا تو وہ اسے پہچان کر پروانہ وار اس پر قربان ہونے لگیں گے ، لیکن جو حق کو پہچانتے ہیں اور اپنی خاص محفلوں میں حضور اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت کو تسلیم بھی کرتے ہیں اور پھر دشمنی پر کمر بستہ ہیں ان کے راہ پانے کی توقع عبث ہے کہ ان بدنصیبوں نے اپنی فطرت سلیمہ کو بگاڑ دیا۔
اسلام نے رحمت الہٰی سے مایوس ہو جانے کی سخت مذمت کی ہے۔ اور سب گمراہوں کو واضح طور پر بتا دیا ہے کہ جب وہ سچے دل سے اپنے گناہوں پر نادم ہوں ، تو آئیں اور اس کے در رحمت پر دستک دیں، ان کے گناہ بخش دیے جائیں گے اور انہیں ایک اور زریں موقع مل جائے گا کہ وہ از سر نو ایک پاکیزہ زندگی کا آغاز کر سکیں۔ البتہ وہ لوگ جو کفر و طغیان کے راستہ پر گامزن رہے اور باز آنے اور نادم ہونے کی بجائے اپنے کفر میں بڑھتے چلے گئے، ان کی بخشش کی کوئی صورت نہیں۔ (ضیاء القرآن)۔

۔۔۔
 

الشفاء

لائبریرین
18- اسلامی تعلیمات میں کمزوریاں تلاش کرنے والے لوگ۔

اللّهِ الَّذِي لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَوَيْلٌ لِّلْكَافِرِينَ مِنْ عَذَابٍ شَدِيدٍO الَّذِينَ يَسْتَحِبُّونَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا عَلَى الْآخِرَةِ وَيَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ اللّهِ وَيَبْغُونَهَا عِوَجًا أُوْلَئِكَ فِي ضَلاَلٍ بَعِيدٍO

وہ اﷲ کہ جو کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں ہے (سب) اسی کا ہے، اور کفّار کے لئے سخت عذاب کے باعث بربادی ہے۔ (یہ) وہ لوگ ہیں جو دنیوی زندگی کو آخرت کے مقابلہ میں زیادہ پسند کرتے ہیں اور (لوگوں کو) اﷲ کی راہ سے روکتے ہیں اور اس (دینِ حق) میں کجی تلاش کرتے ہیں۔ یہ لوگ دور کی گمراہی میں (پڑ چکے) ہیں۔
(سورۃ ابراھیم، آیت نمبر 4-3)​

یعنی کوئی سلیم الطبع انسان اس پیغام کو قبول کرنے سے انکار نہیں کر سکتا۔ صرف وہی لوگ اس کا انکار کر رہے ہیں جو دنیوی زندگی پر فریفتہ ہیں۔ اسی کو زیادہ سے زیادہ آرام دہ بنانا، اسی میں زیادہ سے زیادہ ناموری حاصل کرنا ان کا مقصد حیات ہے۔ آخرت کی ابدی زندگی کو خوشگوار بنانے اور اس میں سرخرو اور آبرومند ہونے کا جنہیں کبھی خیال ہی نہیں آیا۔ خود بھی راہ حق سے گریزاں ہیں اور انہیں یہ بھی گوارا نہیں کہ کوئی دوسرا اس شاہراہ ہدایت پر گامزن ہو۔ لوگوں کو اسلام سے بدظن کرنے کے لیے اسلامی تعلیمات کو اس رنگ میں پیش کرتے ہیں کہ سننے والا اس سے دور رہنے میں ہی اپنی عافیت یقین کرنے لگتا ہے۔ (ضیاءالقرآن)

۔۔۔
 

الشفاء

لائبریرین
19- کافر آرزو کریں گے کہ کا ش وہ مسلمان ہوتے۔

رُّبَمَا يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُواْ لَوْ كَانُواْ مُسْلِمِينَO ذَرْهُمْ يَأْكُلُواْ وَيَتَمَتَّعُواْ وَيُلْهِهِمُ الْأَمَلُ فَسَوْفَ يَعْلَمُونَO

کفار (آخرت میں مومنوں پر اللہ کی رحمت کے مناظر دیکھ کر) بار بار آرزو کریں گے کہ کاش! وہ مسلمان ہوتے۔ آپ (غمگین نہ ہوں) انہیں چھوڑ دیجئے وہ کھاتے (پیتے) رہیں اور عیش کرتے رہیں اور (ان کی) جھوٹی امیدیں انہیں (آخرت سے) غافل رکھیں پھر وہ عنقریب (اپنا انجام) جان لیں گے۔
(سورۃ الحجر، آیت نمبر 3-2)​

آج تو کفار اسلام کا نام سننا بھی گوارا نہیں کرتے ، اور اگر اس کی طرف بلایا جائے تو بڑی نفرت و حقارت کا اظہار کرتے ہیں۔ وہ وقت آنے والا ہے جب یہ صدق دل سے اس بات کی آرزو کریں گے کہ کاش وہ اس دین کے پیروکار ہوتے۔ کاش انہوں نے اس دعوت کو قبول کیا ہوتا۔ علامہ ابو حیان اندلسی نے لکھا ہے کہ یہ اظہار حسرت کسی ایک وقت نہیں ہوگا بلکہ کئی مواقع جبکہ کفار کو ذلیل و رسوا کیا جائے گا اور مسلمانوں کو سربلند کیا جائے گا خواہ وہ دنیا میں اسلام کی فتح اور کفار کی شکست کا وقت ہو ، خواہ موت کا وقت ہو ، خواہ حشر میں ۔ ایسے تمام مواقع پر کفار اظہار حسرت کریں گے۔ پھر اللہ عزوجل اظہار غضب کرتے ہوئے فرماتا ہیں کہ اے میرے محبوب ان احمقوں کو اسی حالت میں رہنے دیجیے ، یہ ہدایت کے طلب گار ہی نہیں۔ ان کی صرف ایک ہی خواہش ہے کہ یہ خوب کھائیں پیئیں اور عیش و عشرت کریں۔ انہیں اسی میں مگن رہنے دیجیے۔ یہ لمبی آسیں لگائے بیٹھے ہیں۔ جب موت کا وقت آئے گا انہیں خود بخود معلوم ہو جائے گا کہ انہوں نے اپنے اوپر کتنا ظلم کیا ۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نے فرمایا، بدبختی کی چار نشانیاں ہیں، آنکھوں سے آنسوؤں کا نہ آنا، دل کا سخت ہونا، طول امل یعنی لمبی امیدیں اور حرص دنیا۔۔۔ (ضیاءالقرآن)۔
 

الشفاء

لائبریرین
20- اے کاش کہ میں فلاں شخص کو دوست نہ بناتا۔

الْمُلْكُ يَوْمَئِذٍ الْحَقُّ لِلرَّحْمَنِ وَكَانَ يَوْمًا عَلَى الْكَافِرِينَ عَسِيرًاO وَيَوْمَ يَعَضُّ الظَّالِمُ عَلَى يَدَيْهِ يَقُولُ يَا لَيْتَنِي اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُولِ سَبِيلًاOيَا وَيْلَتَى لَيْتَنِي لَمْ أَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِيلًاO لَقَدْ أَضَلَّنِي عَنِ الذِّكْرِ بَعْدَ إِذْ جَاءَنِي وَكَانَ الشَّيْطَانُ لِلْإِنسَانِ خَذُولًاO

اس دن سچی حکمرانی صرف (خدائے) رحمان کی ہوگی اور وہ دن کافروں پر سخت (مشکل) ہوگا۔اور اس دن ہر ظالم (غصہ اور حسرت سے) اپنے ہاتھوں کو کاٹ کاٹ کھائے گا (اور) کہے گا: کاش! میں نے رسولِ (اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی معیّت میں (آکر ہدایت کا) راستہ اختیار کر لیا ہوتا۔ہائے افسوس! کاش میں نے فلاں شخص کو دوست نہ بنایا ہوتا۔بیشک اس نے میرے پاس نصیحت آجانے کے بعد مجھے اس سے بہکا دیا، اور شیطان انسان کو (مصیبت کے وقت) بے یار و مددگار چھوڑ دینے والا ہے۔
سورۃ الفرقان، آیت نمبر 29-26​

ہر اس بد نصیب کہ یہی حال ہو گا جو اس قسم کی روش اختیار کرے گا کہ اللہ کے رسول صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنگت کو چھوڑ کر غیروں کی دوستی کا دم بھرے گا۔ بارگاہ رسالت میں گستاخی کر کے اپنے شیطانوں کو راضی کرنا چاہے گا۔ قیامت کے دن یہ سب ندامت سے اپنے ہونٹ چبائیں گے اور اپنی نالائقی اور کج فہمی پر پھٹکار بھیجیں گے۔۔۔ (ضیاءالقرآن)۔

۔۔۔​
 

الشفاء

لائبریرین
21- صرف نام کے مسلمان (منافق)۔

أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ يَزْعُمُونَ أَنَّهُمْ آمَنُواْ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلِكَ يُرِيدُونَ أَن يَتَحَاكَمُواْ إِلَى الطَّاغُوتِ وَقَدْ أُمِرُواْ أَن يَكْفُرُواْ بِهِ وَيُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَن يُضِلَّهُمْ ضَلاَلاً بَعِيدًاO
کیا آپ نے اِن (منافقوں) کو نہیں دیکھا جو (زبان سے) دعوٰی کرتے ہیں کہ وہ اس (کتاب یعنی قرآن) پر ایمان لائے جوآپ کی طرف اتارا گیا اور ان (آسمانی کتابوں) پر بھی جو آپ سے پہلے اتاری گئیں (مگر) چاہتے یہ ہیں کہ اپنے مقدمات (فیصلے کے لئے) شیطان (یعنی احکامِ الٰہی سے سرکشی پر مبنی قانون) کی طرف لے جائیں حالانکہ انہیں حکم دیا جا چکا ہے کہ اس کا (کھلا) انکار کر دیں، اور شیطان تویہی چاہتا ہے کہ انہیں دور دراز گمراہی میں بھٹکاتا رہے۔
سورۃ النساء، آیت نمبر 60۔​

ان آیات کے شان نزول کے متعلق علماء تفسیر و حدیث نے یہ واقعہ ذکر کیا ہے کہ ایک یہودی اور ایک منافق کے درمیان جو اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کیا کرتا تھا ، تنازعہ ہو گیا۔ یہودی حق پر تھا۔ اس نے اس بظاہر مسلمان کو رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس فیصلہ کرانے کے لیے کہا۔ اس منافق کے دل میں چور تھا۔ اسے معلوم تھا کہ وہاں تو نہ سفارش چلے گی اور نہ رشوت سے کام بنے گا اس لیے اس نے کہا کہ تمہارے عالم کعب بن اشرف کے پاس چلتے ہیں۔ یہودی اس بات پر رضامند نہ ہوا۔ چنانچہ چاروناچار حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ یہودی حق پر تھا فیصلہ بھی اسی کے حق میں ہوا۔ منافق کو پسند نہ آیا تو وہ یہودی کو لے کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس گیا۔ وہاں سے بھی وہی حکم ملا لیکن اس کو بھی تسلیم کرنے آمادہ نہ ہوا۔ آخر دل میں سوچا کہ میں بظاہر تو مسلمان ہوں اور یہ یہودی ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس چلیں وہ یقیناً میرے اسلام کا پاس کرتے ہوئے میرے حق میں فیصلہ دیں گے۔ چنانچہ اس نے یہودی کو بھی اس پر رضامند کر لیا۔ جب وہاں پہنچے تو یہودی نے عرض کی کہ پہلے حضور علیہ الصلاۃ والسلام اور حضرت ابوبکر اس مقدمہ کا فیصلہ میرے حق میں کر چکے ہیں اب یہ مجھے آپ کے پاس لایا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا ، میرے واپس آنے تک یہیں ٹھہرو۔ چنانچہ آپ گھر تشریف لے گئے ، تلوار بے نیام کیے واپس آئے اور اس منافق کا سر قلم کر دیا اور فرمایا ، ھکذا اقضی علی من لم یرض بقضاءاللہ وقضاء رسولہ۔ یعنی جو اللہ اور اس کے رسول کے فیصلہ کو تسلیم نہیں کرتا میں اس کا یوں فیصلہ کیا کرتا ہوں۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے اس دن حضرت عمر کو "الفاروق" (حق و باطل میں فرق کرنے والا) کے لقب سے سرفراز فرمایا۔
یہاں طاغوت سے مراد وہ حاکم اور عدالت ہے جو احکام الہٰی کے خلاف مقدمات کا فیصلہ کیا کرے۔۔۔ آج بھی بعض لوگ ایسے امور میں تو شریعت کے مطابق فیصلہ کرانے پر بڑے مصر ہوتے ہیں جہاں انہیں فائدہ کی توقع ہو اور جہاں یہ خیال ہو کہ شریعت کا قانون ان کے خلاف ہے تو اس وقت دوسرے قوانین اور رسم و رواج وغیرہ کی آڑ لیتے ہیں اور شریعت کے قریب بھی نہیں پھٹکتے۔ ان کے درمیان اور عہد رسالت کے منافقین کے درمیان پھر کیا فرق ہوا۔۔۔ (ضیاءالقرآن)۔

۔۔۔​
 

سیما علی

لائبریرین
ماشاء اللّہ ماشاء اللّہ
جزاک اللّہ خیرا کثیرا۔
سلامت رہیے بہت ڈھیر ساری دعائیں۔
 
آخری تدوین:

الشفاء

لائبریرین
22- یہود کا اسلام سے انکار اور اس کی وجہ۔

وَقَالُواْ قُلُوبُنَا غُلْفٌ بَلْ لَّعَنَهُمُ اللَّهُ بِكُفْرِهِمْ فَقَلِيْلاً مَّا يُؤْمِنُونَO وَلَمَّا جَاءَهُمْ كِتَابٌ مِّنْ عِندِ اللّهِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَهُمْ وَكَانُواْ مِن قَبْلُ يَسْتَفْتِحُونَ عَلَى الَّذِينَ كَفَرُواْ فَلَمَّا جَاءَهُمْ مَّا عَرَفُواْ كَفَرُواْ بِهِ فَلَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الْكَافِرِينَO بِئْسَمَا اشْتَرَوْاْ بِهِ أَنْفُسَهُمْ أَنْ يَّكْفُرُواْ بِمَا أَنْزَلَ اللّهُ بَغْياً أَنْ يُّنَزِّلُ اللّهُ مِنْ فَضْلِهِ عَلَى مَنْ يَّشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ فَبَآؤُواْ بِغَضَبٍ عَلَى غَضَبٍ وَلِلْكَافِرِينَ عَذَابٌ مُّهِينٌO

اور یہودیوں نے کہا: ہمارے دلوں پر غلاف ہیں، (ایسا نہیں) بلکہ ان کے کفر کے باعث اللہ نے ان پر لعنت کر دی ہے سو وہ بہت ہی کم ایمان رکھتے ہیں۔ اور جب ان کے پاس اللہ کی طرف سے وہ کتاب (قرآن) آئی جو اس کتاب (تورات) کی (اصلاً) تصدیق کرنے والی ہے جو ان کے پاس موجود تھی، حالانکہ اس سے پہلے وہ خود (نبی آخر الزمان حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان پر اترنے والی کتاب قرآن کے وسیلے سے) کافروں پر فتح یابی (کی دعا) مانگتے تھے، سو جب ان کے پاس وہی نبی (حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے اوپر نازل ہونے والی کتاب قرآن کے ساتھ) تشریف لے آیا جسے وہ (پہلے ہی سے) پہچانتے تھے تو اسی کے منکر ہو گئے، پس (ایسے دانستہ) انکار کرنے والوں پر اللہ کی لعنت ہے۔ انہوں نے اپنی جانوں کا کیا برا سودا کیا کہ اللہ کی نازل کردہ کتاب کا انکار کر رہے ہیں، محض اس حسد میں کہ اللہ اپنے فضل سے اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے (وحی) نازل فرماتا ہے، پس وہ غضب در غضب کے سزاوار ہوئے، اور کافروں کے لئے ذلّت انگیز عذاب ہے۔
سورۃ البقرۃ، آیت نمبر 90-88​

یہود بڑے فخر سے کہتے کہ ہمارے دلوں پر غلاف چڑھے ہوئے ہیں، اس لیے ہمارے عقائد محفوظ ہیں، کسی کا سحر بیان، کسی کی قوت استدلال، کسی کے معجزات ہمیں اپنے عقائد سے متزلزل نہیں کر سکتے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یوں نہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ تمہاری مسلسل نافرمانیوں کے باعث تمہیں رحمت الہٰی سے محروم کر دیا گیا ہے۔ اب تم اس قابل ہی نہیں رہے کہ نور ایمان سے تمہارے دلوں کے ظلمت کدے روشن ہوں۔
حضور کریم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تشریف آوری سے پیشتر یہود کا شعار تھا کہ جب کبھی کفار و مشرکین سے ان کی جنگ ہوتی اور ان کی فتح کے ظاہری امکانات ختم ہو چکتے تو اس وقت تورات کو سامنے رکھتے اور وہ مقام کھول کر جہاں حضور نبی کریم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صفات و کمالات کا ذکر ہوتا وہاں ہاتھ رکھتے اور ان الفاظ سے دعا کرتے: اللٰھم انا نسئلک بحق نبیک الذی وعدتنا ان تبعثہ فی آخر الزمان ان تنصرنا الیوم علیٰ عدونا فینصرون۔ اے اللہ ہم تجھے تیرے اس نبی کا واسطہ دے کر عرض کرتے ہیں جس کی بعثت کا تو نے ہم سے وعدہ کیا ہے آج ہمیں اپنے دشمنوں پر فتح دے تو حضور پُر نور کے صدقے اللہ تعالیٰ انہیں فتح دیتا۔ قرآن کریم فرماتا ہے کہ آج تک تم جس کا نام لے کر جیتتے رہے اور جس کی برکت سے فتح یاب ہوتے رہے جب میرا وہ رسول اور محبوب اور تمہارا نجات دہندہ تشریف فرما ہوا تو اس پر ایمان لانے سے انکار کر دیا۔ تُف ہے ایسے تعصب پر، حیف ہے ایسی حب جاہ و مال پر۔۔۔ ان کی سرکشی اور انکار کسی دلیل پر مبنی نہیں تھا، صرف یہ حسد انہیں جلا رہا تھا کہ یہ نبی حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی اولاد سے کیوں بھیجا گیا ، بنی اسرائیل سے کیوں نہیں چنا گیا۔ لیکن یہ تو اللہ کی اپنی مرضی ہے جس پر چاہے اپنا فضل و کرم فرما دے۔۔۔ (ضیاءالقرآن)۔

۔۔۔
 

الشفاء

لائبریرین
23- اسلام ہی دین ابراہیمی ہے۔

وَقَالُواْ كُونُواْ هُودًا أَوْ نَصَارَى تَهْتَدُواْ قُلْ بَلْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَO قُولُواْ آمَنَّا بِاللّهِ وَمَآ أُنزِلَ إِلَيْنَا وَمَا أُنزِلَ إِلَى إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَقَ وَيَعْقُوبَ وَالأَسْبَاطِ وَمَا أُوتِيَ مُوسَى وَعِيسَى وَمَا أُوتِيَ النَّبِيُّونَ مِن رَّبِّهِمْ لاَ نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِّنْهُمْ وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَOفَإِنْ آمَنُواْ بِمِثْلِ مَا آمَنتُم بِهِ فَقَدِ اهْتَدَواْ وَّإِن تَوَلَّوْاْ فَإِنَّمَا هُمْ فِي شِقَاقٍ فَسَيَكْفِيكَهُمُ اللّهُ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُO

اور (اہلِ کتاب) کہتے ہیں: یہودی یا نصرانی ہو جاؤ ہدایت پا جاؤ گے، آپ فرما دیں کہ (نہیں) بلکہ ہم تو (اس) ابراہیم (علیہ السلام) کا دین اختیار کیے ہوئے ہیں جو ہر باطل سے جدا صرف اللہ کی طرف متوجہ تھے، اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھے۔ (اے مسلمانو!) تم کہہ دو: ہم اللہ پر ایمان لائے اور اس (کتاب) پر جو ہماری طرف اتاری گئی اور اس پر (بھی) جو ابراہیم اور اسماعیل اور اسحٰق اور یعقوب (علیھم السلام) اور ان کی اولاد کی طرف اتاری گئی اور ان (کتابوں) پر بھی جو موسیٰ اور عیسیٰ (علیھما السلام) کو عطا کی گئیں اور (اسی طرح) جو دوسرے انبیاء (علیھم السلام) کو ان کے رب کی طرف سے عطا کی گئیں، ہم ان میں سے کسی ایک (پر بھی ایمان) میں فرق نہیں کرتے، اور ہم اسی (معبودِ واحد) کے فرماں بردار ہیں۔ پھر اگر وہ (بھی) اسی طرح ایمان لائیں جیسے تم اس پر ایمان لائے ہو تو وہ (واقعی) ہدایت پا جائیں گے، اور اگر وہ منہ پھیر لیں تو (سمجھ لیں کہ) وہ محض مخالفت میں ہیں، پس اب اللہ آپ کو ان کے شر سے بچانے کے لئے کافی ہوگا، اور وہ خوب سننے والا جاننے والا ہے۔
سورۃ البقرۃ، آیت نمبر 137-135
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یہ آیت مدینہ کے یہودی سرداروں اور نجران کے عیسائیوں کے جواب میں نازل ہوئی۔ یہودیوں نے مسلمانوں سے کہا تھا کہ حضرت موسٰی علیہ السلام تمام انبیاء علیہم السلام سے افضل ہیں اور توریت تمام کتابوں سے افضل ہے اور یہودی دین تمام ادیان سے اعلیٰ ہے، اس کے ساتھ انہوں نے حضرت سید کائنات محمد مصطفےٰ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم ، انجیل شریف اور قرآن شریف کے ساتھ کفر کر کے مسلمانوں سے کہا تھا کہ یہودی بن جاؤ۔ اسی طرح نصرانیوں نے بھی اپنے ہی دین کو حق بتا کر مسلمانوں سے نصرانی ہونے کو کہا تھا ، اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ ارشاد فرمایا کہ اے حبیب صل اللہ علیہ وآلہ وسلم ، آپ یہودیوں اور عیسائیوں کو جواب دے دیں کہ جب کسی کی پیروی ضروری ہے تو ہم حضرت ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام کے دین کی پیروی کرتے ہیں جو کہ تمام فضائل کا جامع ہے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام ہر باطل سے جدا تھے اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھے۔ اس میں اشارتاً یہودیوں ، عیسائیوں اور ان تمام لوگوں کا رد کر دیا گیا جو مشرک ہونے کے باوجود ملت ابراہیمی کی پیروی کا دعویٰ کرتے تھے کہ یہ لوگ اپنے آپ کو ابراہیمی بھی کہتے ہیں اور شرک بھی کرتے ہیں حالانکہ ابراہیمی وہ ہے جوحضرت ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام کے دین پر ہو اور حضرت ابراہیم علیہ السلام مشرک نہ تھے جبکہ تم مشرک ہو تو ابراہیمی کیسے ہو گئے۔
پھر یہ بھی معلوم ہوا کہ
تمام انبیاء علیہم السلام اور تمام کتابوں پر ایمان لانا ضروری ہے، جو کسی ایک نبی یا ایک کتاب کا بھی انکار کرے وہ کافر ہے، البتہ انبیاء کرام کی تعداد مقرر نہ کی جائے کیونکہ انبیاء کرام کی تعداد کسی قطعی دلیل سے ثابت نہیں۔
انبیاء کرام علیہم السلام کے درجوں میں فرق ہے جیسا کہ تیسرے پارے کے شروع میں ہے (تلک الرسل فضلنا بعضھم علیٰ بعض) مگر ان کی نبوت میں فرق نہیں۔
انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام میں فرق کرنے سے منع کیا گیا ہے وہ اس طرح ہے کہ بعض نبیوں کو مانیں اور بعض کا انکار کریں۔
یہ بھی معلوم ہوا کہ سارے نبی نبوت میں یکساں ہیں، کوئی عارضی، ظلی یا بروزی نبی نہیں جیسے قادیانی کہتے ہیں بلکہ سب نبی اصلی نبی ہیں۔
پھر یہودیوں کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرح ایمان لانے کا فرمایا، اس سے معلوم ہوا کہ صحابہ کرام کا ایمان بارگاہ الہٰی میں معتبر اور دوسروں کے لیے مثال ہے۔
(صراط الجنان)
 

سیما علی

لائبریرین
انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام میں فرق کرنے سے منع کیا گیا ہے وہ اس طرح ہے کہ بعض نبیوں کو مانیں اور بعض کا انکار کریں۔

جزاک اللّہ خیرا کثیرا بھیا
ڈھیروں دعائیں !!!!
حضرت ابو سعید کی روایت میں یوں ہے کہ آپ ﷺ نے (دونوں فریق کے بیانات سن کر ) فرمایا تم انبیاء میں سے کسی کو کسی پر ترجیح نہ دو" ( بخاری ومسلم)

اور حضرت ابوہریرہ کی روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ " تم اللہ کے نبیوں میں سے کسی کو کسی پر فضیلت نہ دو"۔

اس حدیث مبارک میں آپ ﷺ نے موسیٰ علیہ السلام کی فضیلت بیان کی ہے؛ اس لیے کہ آپ ﷺ کے فرمان کے مطابق اگر یہ ہوگا کہ تمام لوگوں کی طرح حضرت موسی علیہ السلام بھی بے ہوش ہوجائیں گے ، تو میرا ہوش میں آنے کے بعد ان کو اس طرح دیکھنا کہ وہ عرش کا پایہ پکڑے کھڑے ہیں ، یہ ثابت کرے گا کہ وہ مجھ سے بھی پہلے ہوش میں آگئے تھے، اس صورت میں مجھ پر ان کی فضیلت بالکل ظاہری بات ہے اور اگر یہ ہوگا کہ حضرت موسی علیہ السلام کو بے ہوش ہوجانے والوں میں شامل نہیں کیا جائے گا اور وہ سرے سے بے ہوش ہی نہیں ہوں گے، حال آں کہ مجھ پر بے ہوشی طاری ہوجائے گی ، تو یہ صورت بھی ان کی فضیلت کو ظاہر کرنے والی ہے اور جب یہ ثابت ہوگیا کہ اس معاملہ میں حضرت موسی علیہ السلام کو مجھ پر فضیلت حاصل ہے تو پھر مجھ کو ان پر فضیلت دینے کے کیا معنی ہیں۔اسی طرح آپ ﷺ کا ارشاد ہے : " تم اللہ کے نبیوں میں سے کسی کو کسی پر فضیلت نہ دو"۔

مشكاة المصابيح (3/ 1591)
لیکن دوسری طرف خود قرآن پاک میں ارشاد ہے : ﴿تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ ﴾ [البقرة: 253]

یعنی اللہ تعالیٰ نے انبیاء اور رسولوں میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے، نیز خود نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے :"عن أبي سعيد، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «أنا سيد ولد آدم يوم القيامة ولا فخر". (سنن الترمذي ۔5/ 30 یعنی میں تمام اولاد آدم کا سردار ہوں ،لیکن مجھے اس پر فخر نہیں ہے۔

تو ان دونوں قسموں کی نصوص میں علماء کرام نے مندرجہ ذیل طریقوں سے تطبیق دی ہے:

1۔۔ آپ ﷺ نے یہ ممانعت اس وقت ارشاد فرمائی تھی جب کہ آں حضرت ﷺ کی افضلیت کو ظاہر کرنے والی وحی نازل نہیں ہوئی تھی ،اور آپ کو اپنے تمام انبیاء سے افضل ہونے کا علم نہیں تھا، اس وحی کے نزول کے بعد یہ ممانعت ختم ہوگئی اور یہ بات ثابت قرار پائی کہ آں حضرت ﷺ تمام انبیاء سے افضل ہیں اور آپ ﷺ کو کسی بھی نبی کے مقابلہ پر افضل واشرف کہنا درست ہے، لیکن یہ توجیہ زیادہ قوی نہیں ہے۔

2۔۔آپ کو یہ معلوم تھا کہ آپ تمام انبیاءِ کرام سے افضل ہیں اور ان کے سردار ہیں، لیکن آپ ﷺ نے تواضع ، عاجزی اور انکساری کے طور پر اس طرح ارشاد فرمایا تھا۔

3۔۔ نفسِ نبوت کے اعتبار سے کسی نبی کو کسی نبی کے مقابلہ پر فضیلت نہ دو، کیوں کہ اصل مرتبہ نبوت کے اعتبار سے تمام انبیاء برابر ہیں ، خصائص وصفات کے لحاظ سے افضل اور مفضول ہونے سے انکار نہیں ہے، جیسا کہ خود سورۂ بقرہ میں مؤمن کی یہ شان بیان کی گئی ہے کہ﴿لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْ رُسُلِه﴾ [البقرة: 285] یعنی ہم کسی نبی اور رسول کے درمیان فرق نہیں کرتے اور یہ نہیں کرتے کہ خدا کے سچے نبیوں میں ایک کو مانیں اور دوسرے کا انکار کریں۔

4۔۔ یایہ مراد ہے کہ نبی کو کسی نبی کے مقابلہ میں اس طرح بڑھا چڑھا کر پیش نہ کرو اور کسی نبی کی افضلیت کو اس انداز میں بیان نہ کرو کہ دوسرے نبیوں کی تحقیر وتوہین لازم آئے ، یہ جواب سب سے قوی ہے، اس کی مزید تفصیل یہ ہے کہ بلا شبہ انبیاء اور رسولوں کے درمیان فرقِ مراتب ہے ، انبیاء میں سے بعض کو بعض پر فضیلت حاصل ہے، اور اسی طرح تمام انبیاء کے درمیان فضیلت دینے کی ممانعت بھی مذکور ہے، لیکن اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی نبی کو اس طرح دوسرے نبی پر فضیلت دینا ممنوع ہے کہ جس سے دوسرے نبی کی تنقیص لازم آتی ہو، اسی طرح ایسے موقع پر فضیلت دینے کی ممانعت کی گئی جب کہ مسئلہ مجادلہ اور مناظرہ کی شکل اختیار کرلے ، کیوں کہ ایسی صورت میں احتیاط کے باوجود انسان بے قابو ہوکر دوسرے پیغمبر کے متعلق ایسی باتیں کہہ جائے گا جو ان کی توہین کا سبب بنے گی، اور پیغمبر کی توہین کفر ہے۔

(2) اور خاص کر یونس علیہ السلام کا ذکر فرما یا جیسا کہ حدیث مبارک میں ہے حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا: یہ ہرگز مناسب نہیں ہے کہ کوئی شخص یہ کہے کہ میں یونس علیہ السلام ابن متی سے بہتر ہوں ۔" ( بخاری ومسلم) اور بخاری کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا جو شخص یہ کہے کہ میں یونس ابن متی سے بہتر ہوں تو یقیناً وہ جھوٹا ہے ۔

اس جملہ کے دو مطلب ہیں:

(1) کوئی عام شخص اپنے بارے میں کہے وہ یونس علیہ سے بہتر ہے، اس صورت میں یہ جائز نہ ہونا بالکل ظاہر ہے کی کسی بھی امتی کے لیے ایسا کہنا قطعاً جائز نہیں۔

(2) دوسری صورت یہ ہے کہ کوئی آپ ﷺ کو ان پر فضیلت دے، اس صورت میں اس کی وہی توجیہات ہیں جو گزشتہ سطور میں ذکر ہوئیں ہیں ،اور ان روایات میں خصوصیت کے ساتھ حضرت یونس علیہ السلام کا جو ذکر ہے، یہ صرف اس لیے ہے کہ جو شخص بھی یونس علیہ السلام کے حالات اور واقعات کا مطالعہ کرے اس کے دل میں آپ کی ذاتِ اقدس کی تنقیص کا پہلو نہ آئے کہ جب ان کی قوم نے ان کی بات نہ مانی اور ان کو ایذا پہنچائی تو یونس علیہ السلام ان کو عذاب سے ڈرا کر غصہ میں قوم کو چھوڑ کر نکل گئے اور کشتی میں جابیٹھے تھے، لہٰذا ان کا یہ طرزِ عمل لوگوں کو اس گمان میں مبتلا کرسکتا تھا کہ ان کے مقابلہ پر کسی نبی کو فضیلت دینا درست ہے، لیکن آں حضرت ﷺ نے ارشاد کے ذریعہ اپنی امت کے لوگوں کو اس گمان سے بھی باز رکھا اور واضح کیا کہ یہ حضرت یونس علیہ السلام کی ذات پر طعن اور ان کی تحقیر کے مرادف ہے ۔ لہذا ان کی عظمت کے اس پہلو کو نمایاں کرکے تنقیص کے اس خدشہ کا سدباب کیا۔

فتح الباري لابن حجر (6/ 452)
انبیاء میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دینا | جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن
 

الشفاء

لائبریرین
24- کافروں کے اچھے اعمال کی مثال۔

مَّثَلُ الَّذِينَ كَفَرُواْ بِرَبِّهِمْ أَعْمَالُهُمْ كَرَمَادٍ اشْتَدَّتْ بِهِ الرِّيحُ فِي يَوْمٍ عَاصِفٍ لاَّ يَقْدِرُونَ مِمَّا كَسَبُواْ عَلَى شَيْءٍ ذَلِكَ هُوَ الضَّلاَلُ الْبَعِيدُO

جن لوگوں نے اپنے رب سے کفر کیا ہے، ان کی مثال یہ ہے کہ ان کے اعمال (اس) راکھ کی مانند ہیں جس پر تیز آندھی کے دن سخت ہوا کا جھونکا آگیا، وہ ان (اَعمال) میں سے جو انہوں نے کمائے تھے کسی چیز پر قابو نہیں پاسکیں گے۔ یہی بہت دور کی گمراہی ہے۔
سورۃ ابرہیم، آیت نمبر 18​

اس آیت میں یہ ارشاد فرمایا ہے کہ کافروں کے تمام اعمال ضائع ہو گئے اور وہ آخرت میں کوئی نفع حاصل نہ کر سکیں گے اور اس وقت ان کا نقصان مکمل طور پر ظاہر ہو جائے گا کیونکہ دنیا میں انہوں نے اپنے گمان میں جو بھی نیک اعمال کیے ہوں گے جیسے محتاجوں کی امداد کرنا، صلہ رحمی کرنا، والدین کے ساتھ نیک سلوک کرنا، بھوکوں کو کھانا کھلانا، مسافروں کی معاونت کرنا اور بیماروں کی خبر گیری کرنا وغیرہ، وہ ایمان نہ ہونے کی وجہ سے آخرت میں باطل ہو جائیں گے اور یہ مکمل نقصان ہے۔ اس آیت میں کفار کے اعمال کی جو مثال بیان کی گئی اس کا خلاصہ یہ ہے کہ جس طرح تیز آندھی راکھ کو اڑا کر لے جاتی ہے اور اس راکھ کے اجزاء اس طرح منتشر ہو جاتے ہیں کہ اس کا کوئی اثر ، نشان، اور خبر باقی نہیں رہتی اسی طرح کافروں کے تمام اعمال کو ان کے کفر نے باطل کر دیا اور ان اعمال کو اس طرح ضائع کر دیا کہ ان کی کوئی خبر اور نشان باقی نہ رہا۔
اس آیت سے معلوم ہوا کہ آخرت میں وہی نیک اعمال فائدہ دیں گے جو ایمان لانے کےبعد کیے گئے ہوں گے اور جو نیک اعمال حالت کفر میں کیے گئے ہوں گے اور نیک اعمال کرنے والا حالت کفر میں ہی مرا ہو گا تو اسے ان نیک اعمال کا آخرت میں کوئی فائدہ نہ ہوگا جیسا کہ ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :
وَقَدِمْنَا إِلَى مَا عَمِلُوا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنَاهُ هَبَاءً مَّنثُورًاO
اور (پھر) ہم ان اعمال کی طرف متوجہ ہوں گے جو (بزعمِ خویش) انہوں نے (زندگی میں) کئے تھے تو ہم انہیں بکھرے ہوئے غبار کے ذروں کی طرح (بے وقعت) بنا دیں گے (جو روشندان کی دھوپ میں نظر آتے ہیں)۔
سورۃ الفرقان، آیت نمبر 23۔
(صراط الجنان)
 

الشفاء

لائبریرین
25- قیامت کے دن شیطان اور اس کی پیروی کرنے والوں کے درمیان مکالمہ۔

وَقَالَ الشَّيْطَانُ لَمَّا قُضِيَ الْأَمْرُ إِنَّ اللّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِّ وَوَعَدتُّكُمْ فَأَخْلَفْتُكُمْ وَمَا كَانَ لِيَ عَلَيْكُم مِّن سُلْطَانٍ إِلاَّ أَن دَعَوْتُكُمْ فَاسْتَجَبْتُمْ لِي فَلاَ تَلُومُونِي وَلُومُواْ أَنفُسَكُم مَّا أَنَاْ بِمُصْرِخِكُمْ وَمَا أَنتُمْ بِمُصْرِخِيَّ إِنِّي كَفَرْتُ بِمَآ أَشْرَكْتُمُونِ مِن قَبْلُ إِنَّ الظَّالِمِينَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌO

اور شیطان کہے گا جبکہ فیصلہ ہو چکے گا کہ بیشک اللہ نے تم سے سچا وعدہ کیا تھا اور میں نے (بھی) تم سے وعدہ کیا تھا، سو میں نے تم سے وعدہ خلافی کی ہے، اور مجھے (دنیا میں) تم پر کسی قسم کا زور نہیں تھا سوائے اس کے کہ میں نے تمہیں (باطل کی طرف) بلایا سو تم نے (اپنے مفاد کی خاطر) میری دعوت قبول کی، اب تم مجھے ملامت نہ کرو بلکہ (خود) اپنے آپ کو ملامت کرو۔ نہ میں (آج) تمہاری فریاد رسی کرسکتا ہوں اور نہ تم میری فریاد رسی کر سکتے ہو۔ اس سے پہلے جو تم مجھے (اللہ کا) شریک ٹھہراتے رہے ہو بیشک میں (آج) اس سے انکار کرتا ہوں۔ یقیناً ظالموں کے لئے دردناک عذاب ہے۔
سورۃ ابراہیم ، آیت نمبر 22​

حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول کریم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ اولین و آخرین کو میدان حشر میں جمع کرے گا اور ان کےدرمیان فیصلہ فرما دے گا تو اہل ایمان کہیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے بارے میں فیصلہ صادر فرما دیا۔ اب اللہ تعالیٰ کی جناب میں کون ہماری شفاعت کرے گا۔ پہلے آدم علیہ السلام کے پاس جائیں گے، وہ معذرت کریں گے ، چلتے چلتے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی خدمت میں پہنچیں گے ، عیسیٰ علیہ السلام فرمائیں گے ، نبی اُمی صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس جاؤ۔ سب لوگ میرے پاس آئیں گے۔ اللہ تعالیٰ مجھے اذن فرمائے گا اور میں کھڑا ہوں گا اور میری مجلس سے ایسی خوشبو پھیلے گی جسے آج تک کسی نے نہ سونگھا ہو تو میں اپنے رب کے حضور میں آ کر اپنی امت کی شفاعت کروں گا اور اللہ تعالیٰ میری شفاعت قبول فرمائے گا اور گیسوئے معنبرین سے لے کر میرے قدموں کے ناخنوں تک نور ہی نور ہو گا۔ یہ منظر دیکھ کر کافر کہیں گے کہ مؤمنوں کو تو شفیع المذنبین مل گیا، اب ہماری شفاعت کون کرے گا۔ پھر کہیں گے کہ شیطان کے پاس چلو، اسی نے ہم کو گمراہ کیا تھا وہی ہماری شفاعت کرے گا۔ سب اس کے پاس آئیں گے اور کہیں گے کہ اہل ایمان کو تو ان کا شفیع مل گیا، اب تو ہماری شفاعت کر کیونکہ تو نے ہی ہمیں گمراہ کیا تھا۔ اس کی مجلس سے ناقابل برداشت بدبو اٹھے گی، وہ رونے چلانے لگیں گے تو شیطان انہیں جواب دے گا کہ تم سے اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا تھا کہ قیامت آئے گی ، تمہیں قبروں سے اٹھایا جائے گا، تم سے تمہارے اعمال کی باز پُرس ہو گی۔ نیکوں کو جنت میں اور بدکاروں کو دوزخ میں بھیجا جائے گا۔ اور میں نے بھی تم سے وعدہ کیا تھا کہ قیامت نہیں آئے گی، قبروں سے پھر جی اٹھنے کی بات محض غلط ہے۔ کوئی حساب کتاب نہیں ہو گا۔ میں تمہارا ساتھی اور مددگار ہوں، بے شک پیغمبروں کی بے ادبیاں کرتے رہو، ان کی دعوت کو ٹھکراتے رہو ، حلال حرام کا فرق بالکل من گھڑت ہے، جس طرح دولت کما سکتے ہو کماؤ اور داد عیش دو۔ سو إِنَّ اللّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِّ وَوَعَدتُّكُمْ فَأَخْلَفْتُكُم، اللہ تعالیٰ نے جو سچے وعدے تم سے کیے تھے وہ سب اس نے پورے فرما دیے اور میں نے تم سے سب جھوٹے وعدے کیے تھے اور میں نے سب کی خلاف ورزی کی۔
یہ بات سن کر شیطان کے پرستار آگ بگولہ ہو جائیں گے اور کہیں گے کہ تیرا ستیاناس ہو، تو نے اس وقت ہمیں شفیع المذنبین رحمۃ للعالمین کے دامن میں پناہ لینے سے روکا اور آج ہمیں یوں صاف جواب دے رہا ہے۔ شیطان کہے گا کہ مجھ پر ناحق ناراض ہو رہے ہو۔ میں نے تمہیں کب مجبور کیا تھا کہ میرے پیچھے ضرور چلو اور میرا کہنا ضرور مانو۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے محبوب رسول سے رشتہ توڑ کر مجھ سے تعلق جوڑو۔ میں نے صرف تمہیں گمراہی کی طرف بلایا اور تم اتنے بے وقوف اور احمق نکلے کہ مکھیوں کی طرح بھنبھناتے چلے آئے۔ اپنے رحمٰن و رحیم خدا کو چھوڑا ، اپنے رؤف و رحیم رسول کو چھوڑا اور میں جو تمہارا ازلی دشمن اور بدخواہ تھا، اس کی دعوت کو قبول کیا۔ اب مجھے کیوں کوستے ہو، اپنی بدبختی اور حماقت کا ماتم کرو اور خوب ماتم کرو۔ سب تمہارا اپنا قصور ہے، میں تمہارا قطعاً ذمہ دار نہیں ہوں۔ نہ میں تمہاری کچھ مدد کر سکتا ہوں اور نہ تم میری مدد کر سکتے ہو۔ تمہیں اپنے گناہوں کی سزا بھگتنی ہو گی اور مجھے اپنی سرکشیوں کا عذاب جھیلنا ہو گا۔ تم مجھے دنیا میں خدا کا شریک سمجھتے تھے ، میں اس کا انکار کرتا ہوں اور تمہیں صاف صاف بتائے دیتا ہوں کہ میں خدا کا شریک نہیں ہوں، تم محض اپنی حماقت کی وجہ سے ایسا سمجھتے رہے ہو۔ یہ وہ مکالمہ ہے جو قیامت کے روز ہو گا۔ شیطان کے پیروکار اس دن جس ندامت اور شرمندگی سے دوچار ہوں گے وہ کتنی روح فرسا ہو گی۔ ہر ہوش مند کو چاہیے کہ اس شرمساری اور رسوائی سے بچنے کے لیے آج ہی آمادہ اصلاح ہو۔۔۔
(ضیاء القرآن)
 

الشفاء

لائبریرین
26- کافروں کے لیے دنیا کی زندگی کو مزیّن کر دیا گیا ہے۔

زُيِّنَ لِلَّذِينَ كَفَرُواْ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا وَيَسْخَرُونَ مِنَ الَّذِينَ آمَنُواْ وَالَّذِينَ اتَّقَواْ فَوْقَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَاللّهُ يَرْزُقُ مَن يَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابٍO

کافروں کے لئے دنیا کی زندگی خوب آراستہ کر دی گئی ہے اور وہ ایمان والوں سے تمسخر کرتے ہیں، اور جنہوں نے تقویٰ اختیار کیا وہ قیامت کے دن ان پر سربلند ہوں گے، اور اﷲ جسے چاہتا ہے بے حساب نوازتا ہے۔
سورۃ البقرۃ، آیت نمبر 212​

یہاں کافر سے مراد صرف اللہ و رسول کا منکر ہی نہیں بلکہ نعمت کا انکار اور احسان فراموشی کرنے والا بھی مراد ہے۔ یعنی جب انہوں نے ہدایت کے انعام کی قدر نہ کی تو ان کی نظریں حقیقت سے پھر کر دنیا کی زیب و زینت میں گم ہو کر رہ گئیں اور وہ الٹا ان لوگوں کا مذاق اڑانے لگے جو حق کی خاطر زندگی کی ساری عشرتوں سے دستبردار ہو کر افلاس اور تنگی پر قانع ہو گئے تھے۔ قیامت کے دن جب حقیقت سے پردہ اٹھے گا تو پتا چلے گا کہ یہ مسکین لوگ جنہیں تم حقیر سمجھتے تھے مالک حقیقی کے نزدیک کتنی عزت و کرامت کے مستحق ہیں۔ وہ لوگ اپنی وافر دولت ، سازو سامان ، جاہ و جلال کو دیکھ کر دل میں یہ سوچنے لگتے ہیں کہ ہم پر ہی اللہ کی نظر عنایت ہے ، ہم ہی وہ لوگ ہیں جن کو اس نے اپنے فضل و کرم کے لیے چن لیا ہے۔ انہیں بتایا جا رہا ہے کہ دولت کی کثرت ، مقبولیت اور قرب خداوندی کی دلیل نہیں۔ رزق کی کمی بیشی گمراہی و ہدایت کا معیار نہیں۔ اپنے دل کی گہرائیوں میں نظر ڈالو، اپنے اعمال کا جائزہ لو، تمہیں حقیقت روز روشن کی طرح دکھائی دینے لگے گی۔(ضیاء القرآن)۔

۔۔۔​
 

سیما علی

لائبریرین
یہاں کافر سے مراد صرف اللہ و رسول کا منکر ہی نہیں بلکہ نعمت کا انکار اور احسان فراموشی کرنے والا بھی مراد ہے۔ یعنی جب انہوں نے ہدایت کے انعام کی قدر نہ کی تو ان کی نظریں حقیقت سے پھر کر دنیا کی زیب و زینت میں گم ہو کر رہ گئیں اور وہ الٹا ان لوگوں کا مذاق اڑانے لگے جو حق کی خاطر زندگی کی ساری عشرتوں سے دستبردار ہو کر افلاس اور تنگی پر قانع ہو گئے تھے۔ قیامت کے دن جب حقیقت سے پردہ اٹھے گا تو پتا چلے گا کہ یہ مسکین لوگ جنہیں تم حقیر سمجھتے تھے مالک حقیقی کے نزدیک کتنی عزت و کرامت کے مستحق ہیں۔

جزاک اللّہ خیرا کثیرا
بھیا جیتے رہیے بہت ساری دعائیں۔۔۔
انسان کے پاس ہر چیز ﷲ تعالیٰ ہی کی عطا کی ہوئی ہے۔ ہر چیز کا ایک حق ہے اور اس حق کی ادائی کا مطالبہ قیامت کے دن ﷲ تعالی کے حضور ضرور ہونا ہے۔ قیامت کے دن میدانِ حشر میں جہاں نیکیاں اور برائیاں تولی جائیں گی تو وہاں اس چیز کا بھی مطالبہ اور محاسبہ کیا جائے گا کہ ﷲ تعالیٰ نے جو اپنی نعمتیں عطا فرمائی تھیں، اُن کا کیا حق اور شکر ادا کیا۔۔۔ ؟


قرآنِ مجید میں سورۂ تکاثر اور سورۂ بنی اسرائیل میں بھی اس کا ذکر موجود ہے کہ قیامت کے دن ﷲ تعالیٰ بندے سے اپنی نعمتوں کا بھی سوال فرمائیں گے۔ حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ بدن کی صحت، کانوں کی صحت اور آنکھوں کی صحت کے بارے میں سوال ہوگا کہ ﷲ تعالیٰ نے یہ نعمتیں اپنے لطف سے عطا فرمائیں، ان کو ﷲ تعالیٰ کے کس کام میں صرف کیا۔۔۔ ؟

حضور اقدسؐ کا ارشاد ہے جس کا مفہوم یہ ہے : ’’ کل قیامت کے دن آدمی سے جن نعمتوں کے بارے سوال کیا جائے گا، ان میں سے ایک چیز ’’ بے فکری ‘‘ ہے اور دوسری چیز ’’بدن کی صحت و سلامتی‘‘ بھی ہے اور یہ دونوں چیزیں ﷲ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمتیں ہیں۔

حضرت علیؓ فرماتے ہیں : ’’ اس میں عافیت بھی داخل ہے۔‘‘

ایک شخص نے حضرت علیؓ سے پوچھا : ’’ قرآن مجید میں ، ترجمہ : پھر اس دن نعمتوں کے بارے میں تم سے سوال کیا جائے گا۔۔۔ ؟‘‘ کا مطلب کیا ہے۔ حضرت علیؓ نے فرمایا : ’’ گیہوں کی روٹی اور ٹھنڈا پانی مراد ہے، ان کے بارے میں بھی سوال ہوگا اور رہنے کے لیے مکان کے بارے میں بھی سوال ہوگا۔‘‘

ایک حدیث میں آتا ہے : ’’ جب یہ مذکورہ بالا آیت نازل ہوئی تو بعض صحابہؓ نے عرض کیا کہ یارسول ﷲ ﷺ ! کن نعمتوں کے بارے میں سوال ہوگا ؟ آدھی بھوک روٹی ملتی ہے اور وہ بھی ’’جو‘‘ کی ( اور پیٹ بھر کر روٹی بھی نصیب نہیں ہوتی۔)‘‘ تو ارشاد ہوا، کیا پاؤں میں جوتا نہیں پہنتے ؟ کیا ٹھنڈا پانی نہیں پیتے؟ یہ بھی تو ﷲ تعالیٰ کی نعمتیں ہیں۔

ایک دوسری حدیث میں آتا ہے کہ بعض صحابہؓ نے اس آیت شریفہ کے نازل ہونے پر عرض کیا: ’’ یارسول ﷲ ﷺ ! کن نعمتوں کے بارے میں سوال ہوگا، کھجور اور پانی، صرف یہ دو چیزیں کھانے اور پینے کو ملتی ہیں اور ہماری تلواریں (جہاد کے لیے) ہر وقت ہمارے کندھوں پر رہتی ہیں اور دشمن ہر وقت سامنے ہوتا ہے، جس کی وجہ سے یہ دو چیزیں بھی سکون اور اطمینان سے نصیب نہیں ہوتیں۔‘‘ حضور ؐ نے ارشاد فرمایا : ’’عن قریب نعمتیں میسر ہونے والی ہیں۔‘‘

حضور اقدسؐ کا ارشاد ہے : ’’ قیامت کے دن جن نعمتوں کے بارے میں پوچھا جائے گا، ان میں سب سے اوّل یہ سوال ہوگا کہ ہم نے تجھے تن درستی عطا فرمائی (تونے اس کا کیا حق ادا کیا) ہم نے ٹھنڈے پانی سے تجھ کو سیراب کیا ( اس میں تونے ہم کو کس طرح راضی کیا)‘‘
ﷲ جل شانہ کی جس قدر نعمتیں ہر آن اور ہر دم آدمی پر ہوتی ہیں، ان کا شکر ادا کرنا اور ان کا حق بجا لانا بھی آدمی کے ذمے ہے۔ اس لیے جتنی مقدار بھی نیکیوں کی ہوسکے ان کو حاصل کرنے میں کمی نہیں کرنی چاہیے اور کسی مقدار کو بھی زیادہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ وہاں پہنچ کر معلوم ہوگا کہ کتنے گناہ ہم نے اپنی آنکھ، ناک، کان اور دوسرے بدن کے اعضاء سے کیے ہیں، جن کو ہم گناہ بھی نہ سمجھے۔

حضور اقدسؐ کا ارشاد ہے : ’’ تم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہے کہ جس کی قیامت والے دن ﷲ تعالیٰ کے یہاں پیشی نہ ہو، کہ اس وقت نہ کوئی پردہ درمیان میں حائل ہوگا اور نہ کوئی ترجمان اور وکیل۔ دائیں طرف دیکھے گا تو اپنے اعمال کا انبار لگا ہوگا۔ بائیں طرف دیکھے گا تب بھی یہی منظر ہوگا۔ جس قسم کے بھی اچھے یا برے اعمال کیے ہیں، وہ سب ساتھ ہوں گے۔ جہنم کی آگ سامنے ہوگی۔ اس لیے جہاں تک ممکن ہو صدقہ دے کر جہنم کی آگ سے اپنے آپ کو بچاؤ! خواہ کھجور کا ٹکڑا صدقہ کرکے ہی جہنم کی آگ سے کیوں نہ بچا جائے۔‘‘
 
آخری تدوین:

الشفاء

لائبریرین
27- صرف دنیا اور اس کی رنگینیوں کے طلبگار۔

مَن كَانَ يُرِيدُ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا نُوَفِّ إِلَيْهِمْ أَعْمَالَهُمْ فِيهَا وَهُمْ فِيهَا لاَ يُبْخَسُونَO أُوْلَئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلاَّ النَّارُ وَحَبِطَ مَا صَنَعُواْ فِيهَا وَبَاطِلٌ مَّا كَانُواْ يَعْمَلُونَO

جو لوگ (فقط) دنیوی زندگی اور اس کی زینت (و آرائش) کے طالب ہیں ہم ان کے اعمال کا پورا پورا بدلہ اسی دنیا میں دے دیتے ہیں اور انہیں اس (دنیا کے صلہ) میں کوئی کمی نہیں دی جاتی۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے لئے آخرت میں کچھ (حصہ) نہیں سوائے آتشِ (دوزخ) کے، اور وہ سب (اَعمال اپنے اُخروی اَجر کے حساب سے) اکارت ہوگئے جو انہوں نے دنیا میں انجام دیئے تھے اور وہ (سب کچھ) باطل و بے کار ہوگیا جو وہ کرتے رہے تھے (کیونکہ ان کا حساب پورے اجر کے ساتھ دنیا میں ہی چکا دیا گیا ہے اور آخرت کے لئے کچھ نہیں بچا)۔
سورۃ ھود، آیت نمبر 16-15​

جو شخص کوئی بھلائی کا کام کرتا ہے، کسی یتیم کی پرورش، کسی خستہ حال بیوہ کی سرپرستی ، غرباء کی امداد، رفاہ عامہ کے کام، ہسپتال، سرائیں، سکول وغیرہ اور ان اعمال سے اس کے پیش نظر اللہ تعالیٰ کی رضا نہیں ہوتی بلکہ وہ دنیا میں ناموری ، کاروبار میں ترقی اور بقاء و دوام کی خواہش وغیرہ مقاصد کے لیے یہ کام کرتا ہے، تو بھی اس کے اچھے اور مفید اعمال رنگ لائیں گے، لوگ اس کی سخاوت اور رحمدلی کے گیت گائیں گے، رفاہ عامہ کے کاموں کو دیکھ کر لوگ اس کی راہ میں آنکھیں بچھائیں گے۔ اس کے کاروبار کو بھی بڑی ترقی ہو گی اور مؤرخین اس کے قومی کارناموں کو تاریخ کے صفحات پر ثبت بھی کر دیں گے لیکن کیونکہ اس نے یہ سارے کام اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی اور خوشنودی کے لیے نہیں کیے تھے، اس لیے اللہ عزوجل کی ابدی نعمتوں میں سے اسے کوئی حصہ نہیں ملے گا کیونکہ وہ نعمتیں تو صرف ان خوش نصیبوں کو مرحمت کی جاتی ہیں جو شاہراہ حیات پر قدم اٹھانے سے پہلے اپنے مولا کی رضا کو پیش نظر رکھتے ہیں۔
بعض علماء کے نزدیک یہ آیت کفار کے حق میں نازل ہوئی ہے۔یعنی کافر جو اچھے کام کریں گے انہیں ان کا بدلہ صحت، ثروت، عزت اور ناموری کی شکل میں پورا پورا دے دیا جائے گا اور بعض علماء کا خیال ہے کہ یہ ریاکاروں کے حق میں نازل ہوئی۔ مگر جو لوگ دنیا کے حصول کو اپنا مطمح نظر نہیں بناتے بلکہ طالب مولیٰ ہوتے ہیں، انہیں دنیا بھی ملے گی اور آخرت کی نعمتوں سے بھی انہیں سرفراز کیا جائے گا۔۔۔ اللہ ہمیں سمجھ عطا فرمائے اور فانی کی طلب میں ہی ہلکان نہ ہوتے رہیں بلکہ باقی کے طالب بنیں۔ اور جب باقی مل گیا تو پیچھے پھر رہ ہی کیا گیا۔۔۔ (ضیاء القرآن)۔

رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ۔
۔۔۔

 

الشفاء

لائبریرین
28- کفار کو دی جانے والی ڈھیل۔۔۔

وَلاَ يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ كَفَرُواْ أَنَّمَا نُمْلِي لَهُمْ خَيْرٌ لِّأَنفُسِهِمْ إِنَّمَا نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدَادُواْ إِثْمًا وَلَهْمُ عَذَابٌ مُّهِينٌO

اور کافر یہ گمان ہرگز نہ کریں کہ ہم جو انہیں مہلت دے رہے ہیں (یہ) ان کی جانوں کے لئے بہتر ہے، ہم تو (یہ) مہلت انہیں صرف اس لئے دے رہے ہیں کہ وہ گناہ میں اور بڑھ جائیں، اور ان کے لئے (بالآخر) ذلّت انگیز عذاب ہے۔
سورۃ آل عمران، آیت نمبر 178۔​

اللہ تعالیٰ عموماً فوری طور پر کسی گناہ پر گرفت نہیں فرماتا بلکہ مہلت دیتا ہے اور دنیاوی آسائشوں کا سلسلہ اسی طرح چلتا رہتا ہے۔ اس سے بہت سے لوگ اس دھوکے میں پڑے رہتے ہیں کہ ان کا کفر اور ان کی حرکتیں کچھ نقصان دہ نہیں ہیں۔ ان کے بارے میں فرمایا گیا کہ کافروں کو لمبی عمر ملنا، انہیں فوری عذاب نہ ہونا اور انہیں مہلت دیا جانا ایسی چیز نہیں کہ جسے وہ اپنے حق میں بہتر سمجھیں بلکہ توبہ نہ کرنے کی صورت میں یہی مہلت ان کے گناہوں میں اضافے اور ان کی تباہی و بربادی کا سبب بننے والی ہوتی ہے۔ لہٰذا اس مہلت کو اپنے حق میں ہر گز بہتر نہ سمجھیں۔
لمبی عمر پانا اچھا بھی ہو سکتا ہے اور برا بھی۔ جیسا کہ حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے حضور پر نور صل اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت کیا کہ کون شخص اچھا ہے؟ ارشاد فرمایا، جس کی عمر دراز ہو اور عمل اچھے ہوں۔ عرض کیا گیا : اور بدتر کون ہے؟ ارشاد فرمایا، جس کی عمر دراز ہو اور عمل خراب ہوں۔۔۔ (صراط الجنان)۔
 
Top