مضطر و بے کس و لاچار رہا کرتے ہیں

عاطف ملک

محفلین
ایک اور کاوش محترم اساتذہ کرام اور محفلین کی خدمت میں پیش ہے۔اپنی رائے سے ضرور آگاہ کیجیے گا۔

مضطر و بے کس و لاچار رہا کرتے ہیں
تیری چوکھٹ سے جو بے زار رہا کرتے ہیں

اک نظر لطف کی، اے میرے مسیحا اس سمت
اس طرف آپ کے بیمار رہا کرتے ہیں

وہ تو معصوم ہی رہتے ہیں ستم کر کے بھی
ہم گلہ کر کے گنہ گار رہا کرتے ہیں

اس بھرے شہر میں اک تُو ہی مرا اپنا ہے
اور تو سب یہاں اغیار رہا کرتے ہیں

کر نہ بیٹھے کوئی کم ظرف وفا کا دعویٰ
مرحلے عشق کے دشوار رہا کرتے ہیں

دل کے لٹنے کا ہو یا گردشِ دوراں کا غم
رُخ پہ دونوں کے ہی آثار رہا کرتے ہیں

میں انہیں نیند کنارے پہ ملا کرتا ہوں
وہ مرے خواب کے اُس پار رہا کرتے ہیں

جس گھڑی چاہے بلا لے ہمیں اپنے در پر
ہم تو ہر لحظہ ہی تیار رہا کرتے ہیں

اس لیے کہتے ہیں سب لوگ انہیں خوش گفتار
ان کے لب پر مرے اشعار رہا کرتے ہیں

جن پہ ہوتی ہے نظر اس کے کرم کی عاطفؔ
وہی اشجار ثمر بار رہا کرتے ہیں

عاطفؔ ملک
ستمبر ۲۰۲۰
 

احمد محمد

محفلین
واہ۔ واہ۔ سبحان اللّٰہ۔

کیا ہی خوبصورت خیالات فرماتے ہیں آپ۔ اللّٰہ تعالٰی آپ کے علم و مرتبہ میں برکت عطا فرمائیں۔
 
Top